۵- قصبہ مبارکپور ضلع اعظم گڈھ ایک مایہ ناز مثالی، علمی، دینی، فنی اور صنعتی مرکز
(قصبہ مبارکپور کی عزاداری)
راقم : مولانا منهال رضا خیرآبادی
مدیر جامعه حیدریه مدينة العلوم خيرآباد
ضلع اعظم گڑھ کے یو پی کے قصبہ مبارکپور میں دینی بیداری اور مذہبی اعمال کے تحت جس انداز سے عزاداری امام مظلوم کا اہتمام کیا جاتا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔
مجالس عزا، جلوس، نوحہ خوانی، سینہ زنی، شب بیداری اور جگہ جگہ سبیلوں کی کثرت قصبہ کے تقریباً ہر محلہ میں غم و الم کا ماحول رہتا ہے۔ محرم کا چاند نظر آنے سے پہلے ہی استقبال عزا کی مجالس اور ۸ ربیع الاول کو عماری کا جلوس اپنی انفرادی نوعیت کا حامل ہے۔ قصبہ کی تمام انجمنہائے ماتمی مجالس کے ساتھ ساتھ شب بیداریاں بھی منعقد کرتی ہیں جن میں مقامی اور دور دراز کی انجمنوں کو مدعو کیا جاتا ہے اور طرحی نوحہ خوانی کا سلسلہ رات بھر جاری رہتا ہے یہاں نوحہ خوانی کی خصوصیت یہ ہے کہ واقعی نوحے پڑھے جاتے ہیں اور سننے والے زار و قطار گریہ کرتے ہیں ان میں کامیابترین نوحہ خوان انجمن کو جائزہ اور انعام سے نوازا جاتا ہے۔ ان شب بیداریوں میں مقامی مومنین کے علاوہ قرب و جوار کے مومنین بھی ہزاروں کی تعداد میں غم و الم کی تصویر بنے ہوئے شرکت کرتے ہیں، مقامی انجمنیں مختلف مناسبتوں سے جلوس عزا کا بھی اہتمام کرتی ہیں۔
یہ جلوس مخصوص معینہ راستوں پر گشت کرتا ہے، محرم کے عشرہ اول کے جلوس ساتویں و نویں اور دسویں محرم روز عاشور اور شب میں نہایت جوش و خروش سے نکالے جاتے ہیں ان میں علم اور تعزیہ کے جلوس ہوتے ہیں چہلم کا جلوس اپنی منفرد نوعیت کا حامل ہے صدر بازار میں قدم رسول کے رو برو جملہ مقامی انجمنیں نوحہ خوانی اور سینہ زنی کرتی ہیں وہاں سے یہ جلوس شاہ کے پنجہ لے کر جاتے ہیں۔ ۲۸ صفر کو وفات مرسل اعظم (ص) اور شہادت نواسہ رسول امام حسن (ع) کے سلسلے میں جلوس حجرہ کے امام باڑہ سے نکلتا ہے جس کا اختتام مدرسہ باب العلم پر ہوتا ہے۔
(امام باڑہ قصر حسینی)
آخری جلوس عماری جناب امان اللہ پہلوان مرحوم کے مکان سے نکلتا ہے، جناب امان اللہ پہلوان صاحب اس جلوس کے بانی تھے ان کے انتقال کے بعد ان کے فرزند محمد ذکی صاحب اس کا اہتمام کرتے تھے، ان کے دنیا سے چلے جانے کے بعد ان کے فرزندان اس جلوس کا اہتمام کرتے ہیں اس جلوس میں تمام قصبہ کے مومنین کا تعاون شامل رہتا ہے دامے درمے قدمے سخنے لوگ مدد کرتے ہیں اس جلوس کا آغاز امام باڑہ کے صحن میں تعارفی تقریر سے ہوتا ہے، تقریر سے پہلے قصبہ کے معروف ومشہور سوز خوان جناب خیرات الحسن صاحب، جناب سکندر علی صاحب اور ان کے بازو نہایت مبکی انداز میں مرثیہ پڑھتے ہیں اس جلوس میں عماریاں، علم مبارک، ذو الجناح اور شبیہ تابوت امام حسن عسکری (ع) ہوتا ہے۔ جلوس کی تعارفی تقریر اور اختتامی اکثر زیادہ عرصہ سے حجت الاسلام مولانا ناظم علی واعظ خیرآبادی کرتے ہیں۔
(امام باڑہ دربار حسینی)
درمیان جلوس میں تین چار جگہہ علمائے کرام کی تقریریں بھی ہوتی ہیں جن میں مقصد جہاد کربلا اور مصائب شھدائے کربلا بیان کئے جاتے ہیں۔ شیعہ جامع مسجد کے صحن میں کثیر مجمع ہوتا ہے اور ایک تقریر ہوتی ہے جسے کوئی نہ کوئی مشہور و عظیم باہری خطیب اپنے بیان سے مومنین کے قلوب کو منور کرتا ہے اختتامی تقریر مدرسہ باب العلم کے پاس صحن میں ہوتی ہے سب سے بڑا مجمع اسی جگہ ہوتا ہے اور جلوس عزا کی نشانیاں اسی مقام پر بڑھائی جاتی ہیں۔ اس سے بڑا اور عظیم الشان جلوس عماری دور دور تک دیکھنے میں نہیں آتا۔
۸ ربیع الاول کی شب میں رات بھر مجالس اور جلوس کا سلسلہ رہتا ہے، مقامی تمام انجمنیں اپنے اپنے دفاتر میں مجالس کا انعقاد کرتی ہیں ان مجالس کو ملک کے مایہ ناز علما خطاب کرتے ہیں اور انجمنیں نوحہ خوانی اور سینہ زنی کرتی ہیں۔ جلوس عماری میں دو مقام پر مقامی تین بڑی انجمنیں یعنی انجمن انصار حسینی رجسٹرڈ، انجمن انصار حسینی قدیم اور انجمن معصومیہ نوحہ خوانی کرتی ہیں ان دونوں جگہوں پر مجمع کی کثرت کی بنا پر زمین پر تل رکھنے کی جگہ نہیں ملتی۔ جلوس کے آغاز میں سب سے پہلے انجمن سجادیہ نوحہ خوانی کرتی ہے اس جلوس میں ہر انجمن کو دو دو نوحے پڑھنے کا موقع دیا جاتا ہے اور جلوس کو اختتامی منزل تک بھی انجمن نوحہ خوانی کرتی ہوئی پہونچاتی ہے، اس جلوس میں قرب و جوار کی انجمنیں بھی نوحہ و ماتم کرتی ہیں، مجالس و جلوس میں اس موقع پر جن مایہ ناز علما و ذاکرین نے اپنی دینی اور علمی بیانات سے مومنین کے قلوب کو منور کیا ہے.
(اسی جامع مسجد کے وسیع صحن میں مرحوم رئیس الواعظین زندگی کی آخری سانس تک خطاب فرماتے رہے)
ان میں حجت الاسلام مولانا علی ارشاد نجفی، رئیس الواعظین مولانا سید کرار حسین میر پوری، مولانا رضوان الحسنین واعظ، مولانا حیدر مہدی ہلوری، مولانا فیروز حیدر نوگانوی، مولانا قنبر علی، مولانا کاظم مہدی عروج جونپوری، مولانا ناظم علی واعظ خیرآبادی، مولانا مہدی حسن واعظ جلالپوری، مولانا فیروز عباس واعظ، مولانا عرفان عباس، مولانا انصار حسین ترابی، مولانا مظفر سلطان ترابی، مولانا احمد مجلسی قمی زنگی پوری وغیرہم کا نام قابلِ ذکر ہیں، ان کے علاوہ دیگر علمائے اکرام کے بیانات بھی ہوتے رہے ہیں۔
(شیعہ جامع مسجد کا صحن)
قصبہ مبارکپور کی عزاداری میں مجالس اور جلوس میں اس کا خصوصیت سے خیال رکھا جاتا ہے کہ اوقات نماز میں جلوس کو اتنی دیر کے لئے روک دیا جاتا ہے جب تک نماز ختم نہ ہو جائے کیونکہ بیشتر شیعہ مساجد میں نماز جماعت ہوتی ہے اور اختتام جلوس میں بھی اس کا با قاعدہ لحاظ رکھا جاتا ہے کہ عماری کا جلوس سورج غروب ہونے سے پہلے ہی اختتام پزیر ہو جائے، جلوس میں شریک ہونے والے غم و الم کی تصویر بنے ہوئے نظر آتے ہیں۔ زیادہ تر لوگ سیاہ لباس میں ملبوس حزن و اندوہ کے ساتھ شبیہوں کی زیارت کرتے ہیں، مستورات کیلئے خصوصی انتظام کیا جاتا ہے، نیز باہر سے آئے ہوئے مہمانوں کیلئے قیام و طعام کا بھی معقول انتظام ہوتا ہے۔
(مدرسہ باب العلم کا صحن)
ایک تبصرہ شائع کریں