Image by Firas Alkaheel from Pixabay
کــاتــبــان وحــی
تحریر: مولانا ناظم علی واعظ خیرآبادی
عمید جامعه حیدریه مدینة العلوم خیرآباد مئو
صدر اسلام میں مختصر سے لوگ تھے جو پڑھنا جانتے تھے اور اس سے بھی کم وہ لوگ تھے جنہیں لکھنا آتا تھا چونکہ قرآن کی تدوین اور وحی کا تحریر کرنا ضروری تھا تا کہ ضائع ہونے اور اختلاف سے محفوظ رہ جائے اسلئے کسی بھی ایسے شخص سے مدد لینے میں کوئی قباحت نہ تھی جو لکھنا اور پڑھنا جانتا ہو. ہاں یہ ضروری تھا کہ اس شخص کے بارے میں یہ یقین ہونا چاہئے کہ وہ صحیح لکھتا ہے اور جو وحی نازل ہوتی ہے وہی لکھتا ہے.
وحی کے لکھنے والوں کے بارے میں تعداد و تشخیص کے اعتبار سے مختلف رائیں پائی جاتی ہیں بعض لوگوں نے ان لوگوں کو بھی کاتبان وحی میں شمار کیا ہے جنہوں نے اس کام کو انجام نہیں دیا اور اسی کے برخلاف واقعی لکھنے والوں کو بعض لوگوں نے نطر انداز کیا ہے اور انہیں کاتب وحی نہیں سمجھا ہے ایک تیسرا گروہ وہ بھی تھے جس نے تفصیل کی چھان بین میں لا پروائی سے کام لیا ہے اور انہوں نے ہر اس شخص کو جو کاتب پیغمبر (ص) رہا ہو اسے کاتب وحی سمجھا ہے چاہے وہ وحی کی کتابت کرتا رہا یو یا نہ کر تا رہا ہو.
یہ اختلاف اس بنیاد پر پیدا ہوا ہے کہ بعض ایسے اصحاب پیغمبر اسلام (ص) تھے جو وحی کی کتابت کرتے تھے اور بہت سے ایسے لوگ بھی تھے جو خطوط و عہد ناموں کو لکھا کرتے تھے اور مورخین نے بعد میں نقد و تبصرہ اور چھان پھٹک کے بغیر عام لکھنے والوں کو یا تو جاتبان وحی میں داخل کر دیا یا کاتبان وحی کو بھی مذہبی اور مسلکی تعصب کی بنا پر اس عظیم خدمت سے محروم قرار دیا.
زبان و لغت کے اعتبار سے کاتب ہر اس شخص کو کہتے ہیں جو لکھے چاہے وہ صرف وحی لکھتا ہو یا غیر وحی لکھتا ہو یا دونوں لکھتا ہو اس لحاظ سے بقول سیرت حلبیہ رسول اکرم (ص) کے چھبیس کاتب تھے اور سیرت عراقی کے بیان کے مطابق بیالیس کاتبین تھے.
ابن عبد البرّ نے استیعاب میں ابی بن کرب کے حالات کے سلسلہ میں لکھا ہے کہ "وہ پیغمبر اسلام (ص) کے خطوط لکھنے کیلئے معین تھے اور عبد اللہ بن ارقم زہری بھی اسی کیلئے تھے، معاہدوں اور صلحنامہ کی کتابت کیلئے علی بن ابیطالب (ع) تھے اوع جن لوگوں نے رسولخدا (ص) کی جانب سے کتابت کی تھی ان میں ابو بکر صدیق تھے اور اس کے علاوہ مندرجہ ذیل نام بھی آتے ہیں.
۱- عمر بن خطاب ۲- عثمان بن عفان ۳- زبیر بن عوام ۴- خالد بن سعید ۵- ابان بن سعید بن عاص ۶- حنظلہ اسیدی ۷- علاء بن حضرمی ۸- خالد بن اسید ۹- عبد اللہ بن رواحہ ۱۰- محمد بن مسلمہ ۱۱- عبد اللہ بن سعد بن ابی سرح ۱۲- عبد اللہ بن عبد اللہ بن ابی بن سلول ۱۳- مغیرہ بن شعبہ ۱۴- عمرو بن العاص ۱۵- معاویہ بن ابو سفیان ۱۶- جہیم بن صلت ۱۷- معیضیب بن ابی فاطمہ ۱۸- شرحبیل بن حسنہ
كاتبين وحي بقول اهلسنت:
ابو بکر بن قحافه، عُمر بن خطاب، عثمان بن عفّان, زيـد بـن عـوام، سعيد بن العاص کے دو بیٹے: خالد و ابان, حنظله اسيدى، علاء بن حضرمى، خالد بن وليد، عـبـد اللّه بـن رواحـه، مـحـمـد بـن مـسـلـمـه، عـبـد اللّه بـن ابـى سـلـول، مُـغـيـرة بـن شـُعـبـه، عَـمـرو بـن الـعـاص، مُـعـاويـة بـن ابـى سـفـيـان، جهنم یا جُهَيم بن صلت، مُعَيقب بن ابى فاطمه، شرحبيل بن حسنه.
استیعاب کے اس بیان کی روشنی میں یہ کہا جا سکتا ہء کہ انہوں نے ان میں سے کسی کیلئے بھی وحی خدا کی کتابت کا تذکرہ نہیں کیا ہے صرف اس بیان کے آغاز میں ابی بن کعب اور زید بن ثابت کیلئے وحی کی کتابت کا تذکرہ کیا ہے انہوں نے کیا کہ ابی بن کعب وہ تھے جنہوں نے رسول اللہ (ص) کیلئے وحی کی کتابت کی زید بن ثابت سے پہلے اور ان کے ساتھ بھی.
اسی طرح اسد الغابہ میں بھی ابی بن کعب کے کاتب وحی ہونے اور زید بن ثابت کے کاتب وحی ہونے کا ذکر ملتا ہے.
تاریخ یعقوبی میں بھی کاتبوں کا تذکرہ ملتا ہے لیکن انہوں نے کاتب وحی کو واضح طور پر نہیں لکھا ہے.
وہ لکھتے ہیں: وہ لکھنے والے جو وحی، خطوط اور عہد نامے لکھتے تھے وہ علی بن ابیطالب (ع)، عثمان بن عفان، عمرو بن العاص، معاویہ بن ابی سفیان، شرحبیل بن حسنہ، عبد اللہ بن سعد، مغیرہ بن شعبہ، معاذ بن جبل، زید بن ثابت، حنظلہ بن ربیع، ابی بن کعب، جہیم بن صلت اور حصین بن نمیری تھے.
لیکن علامہ نعمت اللہ جزائری منبع الحیاۃ میں تحریر فرمایا ہے کہ پیغمبر اسلام (ص) کے ۱۴ صحابی کے جن رئیس حضرت علی (ع) تھے جو اکثر احکام سے متعلق کتابت کرتے تھے اور جو رسول کی طرف محفل و مجمع میں وحی نازل ہوتی تھی اسے لکھتے تھے اور جو وحی خلوت اور گھر میں نازل ہوتی تھی اس کو سوائے امیر المومنین (ع) کے کوئی دوسرا نہ لکھتا تھا اسلئے وہ رسول کے ساتھ ساتھ رہتے تھے. اسلئے ان کا مصحف سب سے جامع ہے.
استاد ابو عبد اللہ زنجانی نے اپنی کتاب "تاریخ القرآن" میں لکھا ہے کہ پیغمبر اسلام (ص) کے کچھ کاتب تھے جو وحی کو مقررہ تحریر یعنی خط نسخ میں لکھا کرتے تھے ان کی تعداد 43 تھی ان میں سب سے مشہور چار خلفا تھے لیکن زنجانی نے اس سلسلہ میں زیادتی سے کام لیا ہے فی الحال ان تمام افراد کے بارے میں بحث کا موقع نہیں ہے اس مضمون میں صرف ان افراد کا تذکرہ کیا جارہا ہے جن کے کاتب ہونے کے بارے میں تذکرہ ملتا ہے اور کوئی دلیل موجود ہے.
۱- اَمِیرُ المُومِنِین حضرت عَلِی (ع)
علامہ جزائری کے بیان کے بعد کچھ اور تاریخی بیانات کا تذکرہ کیا جا رہا ہے. ابن عبد ربہ نے عقد الفرید جلد ۳ فصل صناعۃ الکتابت میں لکھا ہے: کتابت کے جاننے والوں میں حضرت علی (ع) تھے اور وہ اپنے شرف و عزت رسول اکرم (ص) سے قرابت کی بنا پر وحی کی کتابت کرتے تھے.
علامہ مجلسی نے تحریر فرمایا: جبریل امین رسول اکرم (ص) کے سامنے پڑھ کر سناتے تھے اور رسول اکرم (ص) حضرت علی (ع) کو لکھوا دیتے تھے.
ابن شہر آشوب نے مناقب میں لکھا ہے: حضرت علی (ع) اکثر وحی اور غیر وحی دونوں کی کتابت کرتے تھے دعسرے مقام پر تحریر کیا ہے کہ کیا حضرت علی (ع) سب سے زیادہ علم والے نہ تھے جبکہ وہ رسول اکرم (ص) کے ہمراہ گھر اور مسجد میں رہا کرتے تھے وہ وحی لکھتے تھے مسائل لکھتے تھے.
فتویی لکھتے تھے اور رسول اکرم (ص) سے سوال جر کے لکھ لیتے تھے، روایت میں وارد ہوا ہے کہ جب پیغمبر اکرم (ص) پر رات میں وحی نازل یوتی تھی تو وہ صبح یوتے ہی حضرت علی (ع) کو خبر دیتے تھے اور جب دن میں نازل ہوتی تھی تو شام ہونے تک انہیں بتا دیتے تھے.
نیز حضرت علی (ص) نے مہاجرین و انصار کے درمیان حجت قائم کرتے ہوئے فرمایا: اے طلحہ! جتنی آیتیں رسالتمآب (ص) پر خداوند عالم نے نازل کی ہیں وہ سب میرے پاس ہیں رسول اللہ (ص) کے لکھوانے کے ذریعہ اور میری تحریر میں اور ہر نازل شدہ آیت کی تاویل، ہر حلال و حرام، حد اور حکم، یا جس کی امت کو ضرورت ہوگی قیامت تک وہ میرے پاس رسول اللہ (ص) کے لکھوانے کے ذریعہ اور میری تحریر میں لکھی ہوئی ہے.
کتاب سُلَیم بن قَیس ہِلالی میں موجود ہے:
سُلَیم بن قَیس ہِلالی بیان کرتے ہیں کہ میں کوفہ کی مسجد میں حضرت علی (ص) کے پاس بیٹھا ہوا تھا اور لوگ آپ کے گرد جمع تھے تو آپ نے فرمایا: مجھ سے پوچھو قبل اس کے کہ میں تمہارے درمیان نہ رہوں. مجھ سے کتاب خدا کے بارے میں پوچھو، بخدا کتاب خدا کی کوئی آیت نہیں نازل ہوئی مگر یہ کہ اسے رسولخدا (ص) نے میرے سامنے پڑھا اور مجھے اس کی تاویل سے با خبر کیا تو ابن کوا کھڑا ہوا اور کہا کہ جب آپ غائب رہے ہوں گے تو اس کا علم آپ کو کیسے ہوا ہوگا؟ تو آنحضرت (ص) نے فرمایا: مجھے رسولخدا (ص) نے بتایا جب میں موجود نہ تھا جب میں ان کے پاس آتا تھا تو وہ فرماتے تھے کہ اے علی! خداوند عالم نے اس اس طرح تمہاری عدم موجودگی میں نازل کیا ہے وہ اسے پرھتے تھے اور اس کی تاویل سے مجھے واقف کرتے تھے.
اسی سے ملتی جلتی بات تفسیر مرأۃ الأنوار کے مقدمہ کی پانچویں فصل میں ابو خالد واسطی کی زید بن علی کے حوالہ سے روایت ہے کہ امیر المومنین حضرت علی (ع) نے فرمایا: جب مجھے نیند آگئی یا میں رسول اکرم (ص) کے پاس نہ ہوا تو میں نے اسے سیکھ لیا رسول اکرم (ص) اسے جس کو جبریل سے لے کر آئے اس روز حلال و حرام، سنت و امر اور نہی وغیرہ میں سے اور یہ بھی معلوم کر لیا کہ کس کے بارے میں نازل ہوئی اور کیا نازل ہوا.
راوی بیان کرتا ہے کہ ہم لوگ حضرت علی (ع) کء پاد سے نکلے اور معتزلہ سے ملاقات کی اور ان سے اس بات کو بیان کیا تو ان لوگوں نے کہا کہ یہ عظیم امر ہے ایسا کیوں کر ہو سکتا ہے جبکہ دونوں میں سے سیک اپنے ساتھی سے دور بھی رہتے تھے تو ہم لوگ واپس راوی کے پاس آئے ان کو معتزلہ کے انکار کرنے کے بارے میں خبر دی تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ (ص) جو یاد ہوتا تھس کہ کتنے دن غائب رہے اور جب دونوں ملاقات کرتے تھے تو رسول اللہ (ص) فرماتے تھے: اے علی! میرے اوپر فلاں فلاں اور فلاں فلاں آیت نازل ہوئی یہاں تک کہ اد دن تک کے بارے میں بیان کر دیتے تھے جس دن ملاقات ہوئی تھی یہ سن کر ہم نے معتزلہ کو جا کر خبر دی.
نیز یعقوبی نے جو روایت درج کہ ہے اور حضرت علی (ع) کو ان لوگوں میں شمار کیا ہے جو وحی کو لکھا کرتے تھے اور خطوط اور عہد نامے لکھتے تھے اس سے بھی مندرجہ بالا کی وضاحت ہوتی ہے. اور اس بیان سے واضح ہو جاتا ہے کہ جن مورخین نے حضرت علی (ع) کو بعض اوقات میں کاتب وحی اور بعض اوقات میں کاتب خطوط و عہود قرار دیا ہے انہوں نے یا تو جان بوجھ کر تعصب سے کام لیا ہے یا انہوں نے حقیقت تک پہونچنے کی کوشش ہی نہیں کی ہے.
۲- اُبَی بِن کَعب انصاری
علامہ طباطبائی نے اپنی رجال میں تحریر کیا ہے: ابو المنذر اُبی بن کعب سید القرّاء اور کاتب وحی تھے وہ بدر میں شریک تھے فقیہ تھے قاری تھے اور وہ پہلے شخص ہیں انصار میں سے جنہوں نے نبی (ص) کیلئے کتابت کا کام کیا وہ بہترین اور ممتاز اصحاب رسول (ص) میں سے تھے.
علامہ حلی نے خلاصہ میں فرمایا: ابی بن کعب ان ستر افراد میں سے تھے جو عقبہ میں حاضر تھے وہ وحی کو لکھا کرتے تھے. رسالتمآب (ص) نے ان کے اور سعید بن عمرو کے درمیان عقد مواخات قرار دی تھی وہ بدر میں شریک رہے عقبہ ثانیہ میں بھی تھے اور رسول (ص) کے ہاتھ پر بیعت کی.
ابن شہر آشوب نے مناقب کے پہلے حصہ میں لکھا ہے: ابی بن کعب اور زید بن ثابت دونوں وحی کی کتابت کرتے تھے.
زرکلی نے کتاب الاعیان میں لکھا ہے: ابی بن کعب قبل اسلام یہود کے علما میں سے تھے انہیں قدیم کتابوں کا علم تھس جبکہ اس زمانہ میں لکھنے پرھنے والے کم پائے جاتے تھے تب بھی وہ لکھنا پڑھنا جانتے تھے اور جب اسلام قبول کیا تو وہ وحی کے کاتبوں میں سے ہوگئے.
استیعاب اور اسد الغابہ میں بھی انہیں کاتب وحی لکھا گیا ہے.
حلبی نے اپنی سیرت میں تحریر کیا ہے کہ وہ زیافہ اوقات میں وحی لکھا کرتے تھے.
عقد الفرید میں ہے کہ جب علی (ع) اور عثمان موجود نہ ہوتے تو اُبَی بن کعب اور زید بن ثابت وحی لکھا کرتے تھے اور اگر ان دونوں میں سے کوئی نہ ہوتا تو ان کے علاوہ لوگ لکھا کرتے تھے.
نیز علامہ کُلَینِی نے کافی میں حدیث نقل کی ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ امام (ع) کی نگاہ ممدوح تھے امام ابو عبد اللہ (امام حسین) (ع) نے فرمایا کہ اگر ابن مسعود ہماری قرائت کے مطابق نہیں پڑھے ہیں تو وہ گمراہ ہیں لوگوں نے پوچھا کہ ربیعہ گمراہ ہیں تو فرمایا کہ ہاں پھر ارشاد فرمایا کہ ہم قرائت اُبَی بن کعب کے مطابق قرائت کرتے ہیں.
۳- زَید بِن ثَابِت
ابن شہر آشوب نے مناقب میں لکھا ہے: زید اُبَی بن کعب کے ساتھ کاتب وحی تھے اور عبد اللہ بن ارقم کے ہمراہ بادشاہوں کو خطوط لکھا کرتے تھے.
یعقوبی نے اپنی تاریخ میں لوگوں کی فہرست میں جناب زید کا نام لکھا ہے جو وحی، خطوط اور عہد نامے وغیرہ لکھا کرتے تھے لیکن اس کی وضاحت نہیں کی ہے کہ وہ کاتب وحی تھے یا نہیں.
حلبی نے سیرت میں لکھا ہے: کہ زید اور معاویہ ساتھ ساتھ تھے رسول اللہ (ص) پاس وحی کی کتابت کرتے تھے اور وحی کے علاوہ بھی لکھتے تھے اور اس کے علاوہ کوئی دوسرا کام نہیں تھا.
ابن اثیر نء اسد الغابہ میں لکھا ہے: زید وحی اور غیر وحی کی کتابت کرتے تھے. رسول اکرم (ص) کی خدمت میں سریانی زبان میں خطوط آتے تھے تو آنحضرت (ص) نے زید کو اسی زبان کے سیکھنے کا حکم دیا. جناب رسول اکرم (ص) کے مدینہ میں آنے کے وقت زید کی عمر 11 سال تھی.
تذکرۃ الحفاظ میں ہے: زید نبی کی جانب سے کاتب وحی کے عہدہ پر فائز تھے.
جب پیغمبر اسلام (ص) مدینہ میں تشریف لائے تو زید کی عمر 11 سال تھی. وہ اسلام لائے تو آنحضرت (ص) انہیں حکم دیا کہ وہ یہودیوں کی تحریر سیکھیں انہوں نے کتابت سیکھی اور کاتب وحی ہوئے.
(زید عثمانی تھے وہ حضرت کے ہمراہ کسی جنگ میں نہیں رہے.)
نیز امام محمد باقر (ع) نے فرمایا: وہ جاہلیت کے دور و زمانہ کی طرح حکم کرتے تھے.
۴- عبد اللہ بن سَعد بن اَبِی سَرح
علامہ مجلسی بحار الانوار میں تفسیر علی بن ابراہیم سے نقل کرتے ہوئے آیت "ممن أظلم ممن افتری علی الله کذباً…" الخ کو عبد اللہ بن سعد بن ابی سرح کیلئے نازل ہونا بتایا ہے.
امام جعفر صادق (ع) فرماتے ہیں کہ عبد اللہ بن سعد بن ابی سراح عثمان کا رضاعی بھائی تھا، اسلام قبول کیا مدینہ آیا اس کی تحریر اچھی تھی تو جب وحی نازل ہوتی تھی رسول اکرم (ص) اسے بلاتے تھے اور وہ رسالتمآب (ص) جس کو لکھواتے تھے لکھ لیتا تھا تو جب رسول اکرم (ص) "سمیع بصیر" لکھواتے تھے تو وہ اس کے بجائے "سمیع علیم" لکھ دیتا تھا. اسی طرح اگر آنحضرت (ص)کہتے تھے کہ "والله بما تعملون خبیر" لکھو تو وہ "بصیر" لکھ دیتا تھا. رسول اکرم (ص) نے اس کے بارے میں فرمایا ہے: "اس نے وحدانیت کا اقرا کیا پھر وہ کافر ہو گیا." اور مکہ واپس چلا گیا اور قریش کے لوگوں سے غلط باتیں کہتا تھا. اسی کے بارے میں "ممن أظلم ممن افتری علی الله کذباً…" الخ نازل ہوئی.
امام جعفر صادق (ع) فرماتے ہیں کہ عبد اللہ بن سعد بن ابی سراح عثمان کا رضاعی بھائی تھا، اسلام قبول کیا مدینہ آیا اس کی تحریر اچھی تھی تو جب وحی نازل ہوتی تھی رسول اکرم (ص) اسے بلاتے تھے اور وہ رسالتمآب (ص) جس کو لکھواتے تھے لکھ لیتا تھا تو جب رسول اکرم (ص) "سمیع بصیر" لکھواتے تھے تو وہ اس کے بجائے "سمیع علیم" لکھ دیتا تھا. اسی طرح اگر آنحضرت (ص)کہتے تھے کہ "والله بما تعملون خبیر" لکھو تو وہ "بصیر" لکھ دیتا تھا. رسول اکرم (ص) نے اس کے بارے میں فرمایا ہے: "اس نے وحدانیت کا اقرا کیا پھر وہ کافر ہو گیا." اور مکہ واپس چلا گیا اور قریش کے لوگوں سے غلط باتیں کہتا تھا. اسی کے بارے میں "ممن أظلم ممن افتری علی الله کذباً…" الخ نازل ہوئی.
رسول اکرم (ص) نے جب مکہ فتح کیا تو اس کے قتل کا حکم دیدیا، عثمان اسے لے کر مسجد میں آئے اور رسولخدا (ص) سے معافی طلب کی رسول اکرم (ص) خاموش ہو گئے اس نے دوبارہ کہا، پھر آنحضرت (ص) خاموش رہے پھر تیسری بار کہا تو آنحضرت (ص) نے فرمایا کہ وہ تمہارے کئے ہے. جب وہ چلا گیا تو رسول اکرم (ص) نے اپنے اصحاب سے فرمایا: میں نے تم سے نہیں کہا کہ جو اس کو دیکھے قتل کر دے تو ایک شخص نے کہا: بسر و چشم! آپ اشارہ کریں قتل کا تو میں قتل کروں. رسول اکرم (ص) نے فرمایا: انبیاء اشارہ کے ذریعہ قتل نہیں کرتے ہیں. (وہ طلقاء میں سے تھا.)
شیخ صدوق نے بیان کیا ہے: رسول اکرم (ص) کے معاویہ اور عبد اللہ بن سعد سے وحی کی کتابت کرانے میں ایک حکمت تھی اگر چہ وہ دونوں دشمن تھے اور وہ حکمت یہ تھی کہ مشرکین یہ کہتے تھے کہ محمد اس قرآن کو اپنے پاس سے ببا کر کہتے ہیں اور واقعہ کیلئے آیت بنا دیتے ہیں. تو آنحضرت (ص) نے چاہا کہ ہر نازل ہونے والی آیت کو دین کے ایسے دشمن سے لکھوا دیں جو دشمنوں کے نزدیک عادل ہیں تا کہ کفار اور مشرکین سمجھ لیں کہ ان کا کلام اول و آخر میں ناقابل تبدیل ہے. (ایک نبی کا کلام ہے.) … اور اگر سلمان و ابوذر جیسے دوستوں کے ذریعہ لکھواتے تع دشمنوں کی نگاہ میں بے قیمت ہوتا.
۵- مُعَاوِیَّه بِن اَبِی سُفیَان
شیخ صدوق نے فرمایا ہے: لوگوں پر معاویہ کا امر مشتبہہ ہو گیا اور ان لوگوں نے کہنا شروع کر دیا کہ معاویہ کاتب وحی تھا، حالانکہ یہ کوئی اس کیلئے فضیلت کی چیز نہ تھی اور پھر مذکورہ بالا بات بیان کی ہے جو عبد اللہ بن سعد کے ذیل میں لکھی گئی ہے.
حلبی نے اپنی سیرت میں لکھا ہے کہ زید اور معاویہ دونوں ساتھ ساتھ وحی اور غیر وحی لکھتے تھے اور ان دونوں کا اس کے علاوہ کوئی کام نہ تھا لیکن اگر غور و فکر سے کام لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ روایت معاویہ کے کاتب وحی ہونے پر دلالت نہیں کرتی ہے زیادہ سے زیادہ کاتب ہونے پر دلالت کرتی ہے اور اگر کاتب ہوبا بفرض محال نان بھی لیا جائے تو اس کی کتابت کا زمانہ بہت مختصر ہوتا ہے کیونکہ اس نے رسول اللہ (ص) کے وصال سے بہت کم زمانہ پہلے اسلام قبول کیا تگا.
نیز بہت سے اجل علما نے اس کے کاتب ہونے سے انکار بھی کیا ہے جیسے علامہ حلی نے "کشف الحق اور نهج الصدق" میں لکھا ہے اور استاد محمود عقاد نے لکھا ہے: معاویہ نے لکھنا پڑھنا اور حساب سیکھا تھا جس کے کاتب نبی (ص) ہونے پر اتفاق ہے لیکن اس کے کاتب وحی ہونے پر اتفاق نہیں ہے اور نہ ہی اس کے آیات قرآنی کے یاد ہونے پر اتفاق ہے.
زیادہ رجحان اسے حاصل ہے کہ وہ کتابت وحی کیلئے مشہور نہیں تھے اور اگر ایسا ہوتا تو عثمان جنع قرآن کے وقت اس کی طرف رجوع کرتے.
۶- عُثمَان بِن عَفَّان
عبد ربہ نے عقد الفرید میں لکھا ہے کہ علی بن ابیطالب (ع) اور عثمان بن عفان دونوں وحی لکھا کرتے تھے. بہت سے مورخین نے عثمان کو کاتبین رسول (ص) میں شمار کیا ہے لیکن اس کی صراحت نہیں کی ہے کہ وہ کاتب وحی تھے. مثلاً اصابہ، استیعاب، سیرہ حلبیہ، تاریخ طبری وغیرہ.
تاریخ یعقوبی میں اگر چہ ان کا نام ملتا ہے لیکن اس روایت کی دلالت کتابت وحی پر نہیں ہے.
خلاصہ یہ کہ سوائے عقد الفرید کے کسی اور نے عثمان کے کاتب وحی ہونے پر نص نہیں کی ہے جس طرح سے کہ سوائے سیرہ حلبیہ کے کسی اور نے معاویہ کے کاتب وحی ہونے پر نص نہیں کیا ہے.
★ تمام بیانات کا خلاصہ یہ نکلتا ہے کہ 4 افراد کاتب وحی قرار پاتے ہیں:
۱- حضرت علی (ع)
۲- اُبَی بن کعب
۳- زید بن ثابت
۴- عبد اللہ بن سعد
★ ان میں سے دو بہر حال قابل تسلیم و معتبر نہیں ہیں:
۱- عبد اللہ بن سعد
۲- زید بن ثابت
جن کا حال بیان ہوا.
★ باقی دو افراد بچتے ہیں:
۱- حضرت علی (ع)
۲- اُبَی بن کعب
★ اب جہاں تک کاتب رسول (ص) کا سوال ہے تو بہت سے نام کتابوں میں ملتے ہیں، ان کے نام استیعاب، تاریخ یعقوبی وغیرہ میں موجود ہیں لیکن چونکہ موضوع کا تعلق کاتب وحی سے ہے لہذا ان کے ناموں کی تفصیل سے کوئی واسطہ نہیں ہے.
(1990 / 1410)
تمت بالخير به نستعين و هو خير المعين
ایک تبصرہ شائع کریں