اربعین اور ہمارے معاشرہ کی حقیقت

 بسمہ تعالیٰ


اربعین اور ہمارے معاشرہ کی حقیقت




تحریر: محترمہ حشمت تنویر صاحبہ مبارکپوری. 


زیر نگرانی: جناب مولانا غلام پنجتن صاحب


ہر قوم و ملت کا استحکام اس کے اتحاد اور آپسی بھائی چارہ پر منحصر ہوتا ہے اور یہ اتحاد اعتقادی، اخلاقی اور فکری اشتراکات کی بنا پر وجود میں آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سب سے بڑا نقصان جو ایک قوم یا ملت کو پہونچتا ہے وہ خود اس کے اندرونی اختلافات کی بنا پر ہوتا ہے اور تاریخ میں بھی ہمیشہ یہی نظر آیا ہے کہ جب بھی دشمن کسی قوم یا مذہب کو کمزور کرنا چاہتا ہے تو اس کے درمیان داخلی اختلافات کا زمینہ فراہم کرتا ہے۔  جو اس کے درمیان مشترکات ہیں ان کو زیر سوال لاتا ہے۔ فکروں کو مختلف جہت دیتا ہے۔ اور چونکہ ہر شخص اپنے نظریہ کو معتبر مانتا ہے، اس لیے دوریاں وجود میں آتی ہیں جو ایک متحد قوم کو تقسیم کر دیتی ہیں اور یہ تقسیم ہر اعتبار سے نقصان پہونچاتی ہے کیونکہ انسان اپنے مشترک اور واقعی دشمن کو فراموش کر کے آپس میں ایک دوسرے کآ دشمن ہوجاتا ہے اور ساری قوت ایک دوسرے کو شکشت دینے میں خرچ کرنے لگتا ہے۔

دور حاضر میں بھی دشمن اسلام، اسلام کو ختم کرنے کیلئے ساری تدبیریں آزمانے کے بعد کسی اسلحہ، ہتھیار اور جانی مالی نقصان سے اپنے مقصد تک نہیں پہونچ سکا لیکن آج اسلامی معاشرہ کی کمزوری کو سمجھ چکا ہے۔ وہ سمجھ چکا ہے کہ اسلام کا مقابلہ تیر و تبر، خنجر و شمشیر سے نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے پاس شریعت میں جہاد موجود ہے جو میدان جنگ میں مسلمانوں کے ایمان کو پختہ کر دیتا ہے۔ آج اگر ان پر غلبہ پانا ہے یا ان کے ایمان کو کمزور کرنا ہے یا ختم کرنا ہے تو ان کے اتحاد کو ختم کرنا ہوگا۔ صرف ایک راستہ ہے کہ ان کو حقیقت سے دور کرکے اصل مسائل سے غافل کر کے جزئیات میں الجھا دیا جائے اور یہ جزئی اختلاف ان کی آپسی دشمنی کا باعث بنیں گے اور یہی کیا بھی ہے۔

آج مسلمان ایک دوسرے کے خلاف "تکفیر" "مشرک" اور "واجب القتل" کا فتویٰ لگا رہے ہیں، وہابیت کیلئے ہر مسلمان چاہے وہ سنی ہو یا شیعہ، جو بھی قبروں کی زیارت کو جاتا ہے اور شفاعت کا عقیدہ رکھتا ہے، اس کے نزدیک مشرک ہے۔ شیعہ اور سنی کے درمیان صرف وہ مسائل در پیش ہیں جہاں پر دونوں کے نظریوں میں اختلاف ہیں۔ صرف ایک دوسرے کے مقدسات کی توہین کرتے ہیں، صرف اتنا ہی نہیں اور آگے آئیے تو بہت افسوس ہوتا ہے یہ کہتے ہوئے کہ خود شیعوں کے درمیان قمہ زنی، حضرت قاسم کی شادی، کربلا میں جناب صغریٰ کا وجود وغیرہ نہایت سنجیدہ مانے جاتے ہیں جبکہ اصلی مسائل کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔

کبھی ہم نے سوچا کہ ایسا کیوں ہے؟ آخر کیا وجہ ہے کہ اخباری اور نام نہاد شیعہ وجود میں آ رہے ہیں جو خود شیعہ مذہب کے نام پر کلنک  بنے ہوئے ہیں۔ حق کون ہے اور باطل کون...؟ اس کا فیصلہ کرنا سخت ہو گیا ہے۔ آج اگر شیعہ پہ ایک ریسرچ کریں تو صرف خون و خنجر و زنجیر دیکھنے میں آتا ہے؟ کیا حقیقت میں تشیُّع اسی کا نام ہے؟ خون خرابہ خود کو کاٹنا....؟

یہ سب صرف حقیقت سے دور رکھنے کی کوشش ہے مگر ان سب کے باوجود کچھ ایسی جگہیں ہیں جہاں دشمن کی ساری سازشوں پر خط بطلان کھینچ دیا جاتا ہے۔ وہ گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو جاتا ہے اور حقیقت سب کے سامنے آ جاتی ہے۔

ان سب میں سب سے اہم محرم، عاشورا اور اربعین ہے۔ 

 پیغمبر اکرم ﷺ نے فرمایا:


إِنَّ الحُسَینَ مِصبَاحُ الھُدیٰ وَ سَفِینَةُ النَجَاۃِ


 امام حسینؑ وہ چراغ ہے جو انسان کو حقیقت سے آشنا کراتا ہے۔ اسلام اور مذہب شیعہ، محرم و صفر، عاشورا اور اربعین کی بدولت ہے۔

ایک طرف دشمن ہے جو اسلام کے نام پر تقسیم کر رہا ہے۔ دشمن کا نعرہ ہی یہی ہے کہ تشیُّع یعنی خونریزی، قاتل، اختلاف مگر دوسری طرف عاشورا و اربعین ہے جو یہ بتا رہے ہیں کہ اسلام یعنی اتحاد، ہمدردی اور آپسی محبت۔ تشیع یعنی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر، انکساری، بخشش اور ایک دوسروں پر مہربانی۔ آج جب دنیا کی نگاہ اربعین پر پڑی تو وہ سوچنے پر مجبور ہوگئی کہ اتنا بڑا مجمع ایک ہی مقصد کے تحت رواں دواں ہے۔ سب کی منزل ایک۔ سب کا نعرہ ایک۔ آخر یہ حسینؑ کون ہیں....؟ 

صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ ہر قوم و ملت اور ہر فکر و نظر  کے لوگ اس عظیم سفر میں شرکت کرتے ہیں۔ صرف اس لیے کہ سب نے اس بات کو قبول کیا ہے کہ امام حسینؑ کی ذات گرامی کسی خاص مذہب اور عقیدت سے مخصوص نہیں ہے بلکہ امام حسینؑ نے انسانیت کی آواز اور فطرت کی آواز پر لبیک کہا ہے۔ جو بھی کربلا کی حقیقت کو پڑھتا ہے، سر تعظیم خم کر دیتا ہے اور اس نتیجہ پر پہونچتا ہے کہ امام حسینؑ نے جس اسلام کی آواز پر لبیک کہا وہ ایک فطری دین ہے۔ اسلام کی آواز ہی فطرت کی آواز ہے۔   

آج ہمارے لئے اربعین بہت ہی اہمیت رکھتا ہے۔ کیوں؟ اس لیے کہ اربعین حقیقی اسلام اور اسلام ناب محمدی کو دنیا والوں کے سامنے پیش کر رہی ہے۔ اربعین خطبہ امام سجادؑ اور حضرت زینبؑ کبریٰ کی تاثیر رکھتی ہے۔ جس طرح عاشور کے بعد کوفہ و شام کے درباروں اور بازاروں میں صرف وہ افراد تھے جنہوں نے اسلام کو معاویہ شاہی کے نام پر پہچانتے تھے۔ بعنوان مسلمان یزید کو دیکھا تھا جو کھلم کھلا شراب پیا کرتا تھا مگر حضرت زینبؑ اور امام سجادؑ نے اسیری کی حالت میں جگہ جگہ خطبہ ارشاد فرما کر لوگوں کو حقیقت سے آشنا کیا۔ آج تقریبا چودہ سو سال گزرنے کے بعد دوبارہ جب اسلام کے واقعی چہرہ کو بگاڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے تو سفر اربعین خطبہ زینبیہ کی صورت میں منظر عام پر آیا۔ لوگوں کو غور و فکر کرنے پر مجبور کر دیا۔ یہ انسانیت کا ہجوم  ہے جس کا ہر قدم لبیک یا حسینؑ کے سایہ میں جانب منزل رواں ہے۔ سب کا ایک ہی نعرہ ہے۔


"حُبُّ الحُسَینِ یَجمَعُنَا"

"حسین کی محبت ہمیں متحد کرتی ہے"

آج امام حسینؑ کا مشن جو حقیقی اسلام کی ترویج ہے اس سفر کے ذریعہ دنیا کے گوشہ گوشہ میں پہونچ  رہا ہے۔

ان شاء الله، یہ سفر، زمینہ ساز ہوگا امام زمانہؑ کے ظہور کا۔ خدا ہمیں توفیق عنایت فرمائے کہ ہم ہر سال اس عظیم عبادت میں شریک ہو کر اس شعائر الہی کی حفاظت کریں اور اسلام کو دنیا کے گوشہ گوشہ تک پہونچا سکیں اور دشمن کی  تدبیروں کو نیست و نابود کر سکیں۔


رَبَّنَا لا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ


پیشکش:

والقلم ایجوکیشنل ویلفیئر ٹرسٹ، مبارکپور، اعظمگڑھ، یوپی، هند۔

Post a Comment

To be published, comments must be reviewed by the administrator *

جدید تر اس سے پرانی