شمر کون تھا اور اسکا انجام کیا ہوا.؟

 

شمر بن  ذی الجوشن کون تھا! اور اس کا انجام کیا  ہوا؟


مترجم : ابو دانیال اعظمی بریر


    شمر کو ن تھا!

    شَمِر بن ذی الجَوْشَن، اسکی کنیت ابو سابغہ تھی، قبیلہ ہوازن کافرد اور سردار تھا اور واقعہ کربلا میں لشکر یزید میں چار ہزار سپاہیوں کا سردار تھا، اسکا تعلق  عامر بن صَعْصَعہ کی اولاد سے تھا جو ضباب بن کلاب کے خاندان سے ایک فرد تھا، اسی وجہ سے مذکورہ اجداد کی طرف نسبت دیتے ہوئے اسے عامری، ضبابی اور کلابی جیسے ناموں سے بھی پکارا جاتا تھا۔

لغت کی کتابوں میں اسکے نام کو شَمِر کی صورت مین درج کیا گیا ہے، لیکن عام طور سے لوگوں کے درمیان شِمْر کی شکل میں معروف ہے۔ ظاہراً شمر کا لفظ عبرانی ہے اور اسکی اصل شامر بمعنی سامر (افسانہ سرا، شب نشینی میں باہم گفتگو کرنے والا) ہے۔

    شمر کی تاریخ پیدائش کے سلسلہ میں صحیح اطلاع حاصل نہیں ہو سکی، شمر کے باپ کا نام شُرَحبیل بن اَعْوَر بن عمرو کے نام سے مشہور تھا، اسکا لقب ذو الجوشن پڑنے کی علت یہ بیان کی جاتی ہے کہ عرب میں یہی سب سے پہلا شخص تھا جس نے زرہ اپنے تن پر پہنا اور یہی زرہ اسے بادشاہ ایران نے دی تھی یا دوسرے قول کے مطابق اسے اسلئے ذو الجوشن کہلاتا تھا کہ اسکا سینہ کچھ ابھرا ہوا تھا اور ایک قول یہ بھی ہے کہ اسکا نام جوشن بن ربیعہ تھا، ذو الجوشن نے پیغمبرؐ اسلام کی خواہش کے مطابق اسلام لانے کو اہمیت نہیں دی تھی لیکن فتح مکہ کے بعد جب مسلمان مشرکین پر کامیاب ہوگئے تو اسلام لایا۔ 

    شمر کی ماں کو برائی سے یاد کیا جاتا ہے یہاں تک کہاجاتا ہے کہ بھیڑوں کو اِدھر اُدھر لاتے لے جاتے چراتےہوئے گناہ سے آلودہ ہوگئی اور شمر اسی غیر مشروع طریقہ سے ہی اس دنیا میں آیا۔

    امام حسینؑ نے بھی واقعہ کربلا میں شمر کو بکری چرانے والی کے بیٹے کے نام سے خطاب کیا ہے، شمر بن ذی الجَوْشَن ابتدا میں تو امیر المومنینؑ کا طرفدار تھا، اس نے جنگ صفین میں آنحضرت کی مدد کی تھی اور ادہم بن مُحرِز باہِلی (شامی  سپاہی) کے ساتھ لڑائی میں اسکا چہرہ شدت سے مجروح ہوا، لیکن بعد میں حضرت علیؑ کی طرف سے منہ پھیر لیا اور علیؑ اور آپ کے خاندان کا کینہ اپنے دل میں پروان چڑھا کر دشمن بن گیا۔ شمر نے حجر بن عدی (جو پیغمبرؐ کے صحابی اور امیر المومنینؑ کے خاص انصار تھے) انکی گرفتاری کے وقت جو سنہ ۵۱ ہجری میں عمل آئی تو یہی شمر ان لوگوں میں سے تھا جس نے زیاد بن ابیہ یا سمیہ کے پاس جھوٹی گواہی دی تھی کہ حجر مرتد ہوگئے ہیں اور شہر کو آشوب کی طرف لے جا رہے ہیں۔

    حادثہ کربلا میں بھی یہی شہادت امام حسینؑ کا سبب اور قاتل بنا تھا چونکہ مسلم بن عقیل سنہ ۶۰ ہجری میں کوفہ میں قیام کیا، تو یہی ان لوگوں میں سے ایک اہم فرد تھا کہ جسے حاکم کوفہ عبید اللہ بن زیادکی طرف سے مامور کیا  گیاکہ لوگوں کو جناب مسلم کے اطراف سے دور کرے ۔ 

    اسی نے جناب مسلم کی باتوں کو فتنہ گری کا نام دیا اور کوفیوں کو شام کے سپاہیوں سے ڈرایاجب امام حسینؑ کربلا پہونچے تو سعد کے بیٹے عمر جو کوفہ کے لشکر کا کمانڈر تھا جو جنگ و خون سے بچنے کا ارادہ رکھتا تھا اور مسالمت آمیز حل کی راہ پر چل ہی رہے تھے لیکن شمر کو ایسا لگا کہ ابن زیاد بھی ابن سعد کے ارادہ کے موافق ہے لہذا اس نے امام کے ساتھ جنگ کیلئے ابھارا، شمر قبیلہ کی روایت اور جاہلیت کی رشتہ داری کی حفاظت کی خاطر یہاں تک کہ ام البنین کے فرزندوں ابو الفضل عباس  نیز ان کے تین دیگر بھائیوں کی مادر گرامی کے قبیلہ سے تعلق رکھتا تھا ،اسی بنا پر شمر نے ابن زیاد سے جناب عباس اور انکے دیگر بھائیوں کیلئے امان نامہ حاصل کیا لیکن اولاد ام البنین نے ہرگز اسے قبول نہیں کیا تھا بلکہ اس پر اس کے امان نامہ پر لعنت بھیجا تھا اور امام کے پہلو میں ہی مدد و نصرت کرتے ہوئے اپنی جان قربان کردی۔

    عاشورا کی صبح کے دن شمر ابن سعد کے لشکر میں بائیں بازو کی فوج کی سرداری کا عہد ہ اپنے ذمہ لئے ہوئے تھا، جب عبد اللہ بن عُمَیر کلبی شہادت کو پہونچے تو اسی شمرنے اپنے غلام «رستم» کو حکم دیا کہ وہ ایک نیزہ سے زوجہ عبد اللہ جو انکے سرہانے تشریف فرما تھیں انہیں قتل کر دے نتیجہ میں پہلی خاتوں کربلا میں درجہ شہادت کو پہونچی، عصر عاشورامیں اور شہادت امام حسینؑ سے قبل شمر نے ارادہ کیا کہ جس خیام کے اندر امام کاسازو سامان اور آنحضرت کے اہل حرم تھے انہی خیمہ پر حملہ ہو کر انہیں تاراج کر دے، لیکن امام نے اسے اس کام سے سختی سے روکا اور شمر واپس پلٹ گیا تھا۔

    شمر نے تیر اندازوں کو حکم دیا کہ وہ لوگ امامؑ کے بدن مبارک کو نشانہ بنائیں پھر اسی کے فرمان کے مطابق تمام سپاہیوں نے امامؑ کی طرف حملہ کیااور ان لوگوں میں سے سِنان بن اَنَس  اور زُرْعَہ بن شُرَیک نے امامؑ پر آخری ضربات وارد کی تھیں۔

بعض روایات میں نقل ہوا ہے کہ شمر امامؑ کے سینہ مبارک پر بیٹھا تھا اور آنحضرت کا سر مبارک پس گردن سے جدا کیا تھا۔

قبیلہ ہوازن کے سردار شمر کی رہبری میں کربلا کے بیس سرہائے شہدائے  لے کر کوفہ کی طرف گیا تھا اور ابن طاؤس کے نقل کے مطابق بارہ سر مبارک شہدائے کربلا کے لے کر ابن زیاد کے پاس گیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ عمربن سعد کے آگے آگے شہدائے کربلا کے سروں کو لے جاتا تھا۔

    سنہ ۶۶ میں مختار ثقفی کے قیام کے وقت شمر نے انکے خلاف جنگ میں شرکت کی لیکن مختار نے بھی اسےاور دیگر اموی امراء کو (کوفہ کا ایک محلہ) «جَبَّانَةُ السَُبَِیع» کی جنگ میں شکست دی اور شمر کو کوفہ میں حامیان بنی امیہ کے علاقے کی طرف بھاگنے  پر مجبور ہونا پڑا، مختار نے پھر سے ایک گروہ کو اپنے غلام «زربی» کے ساتھ اسکے پیچھے بھیجا تو شمر نے بھی مختار کے غلام کو قتل کر دیا اور «ساتیدما» نامی قریہ کی طرف بھاگا اور پھر وہاں سے (شوش اور صمیرہ نامی گاؤں کے درمیان) «کلتانیہ» نامی قریہ کی طرف بھاگا اور ایک خط مصعب زبیر کیلئے بھیجا کہ جو مختار کے ساتھ جنگ کیلئے آمادہ تھا لیکن مختار کے بعض سپاہیوں نے شمر کا محاصرہ کیا اور ایسے حالات میں بھی  اسکے ساتھی فرار ہو گئے تھے نیز اسے واصل جہنم کیا اور اسکا سر نحس مختار کے پاس بھیج دیا اور اسکے منحوس بدن کو کتوں کے سامنے ڈال دیا گیا تھا، ادھر مختار نے بھی شمر کے سر کو محمد بن حنفیہ کی خدمت میں روانہ کر دیا۔

    امام حسینؑ نے روز عاشورا شمر سے کہا: «رسولخدا ﷺ نے سچ فرمایا کہ گویا مجھے سفید و سیاہ کتا نظرآرہا ہےکہ میری اہلبیتؑ کا خون پی رہا ہے، زیارت عاشورا میں شمر کو لعنت و نفرین کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے۔» 

    شمر ابتدا میں تو امام علیؑ کے انصار میں سے تھا لیکن بعد میں امامؑ اور اہلبیتؑ کے کینہ پروری کر کے دشمنوں کے زمرہ میں شامل ہو گیا۔

    شمر خبیث کا کردار سنہ ۶۱ہجری قمری کے واقعہ کربلا میںجب علیؑ کے فرزند حسینؑ عراق کی طرف روانہ ہوئے تھے تو شمر آنحضرت کے اسکی روداد کو دقت نظر کے ساتھ تحقیقی و جستجو میں لگا ہوا تھا اس تاریخی واقعہ فاجعہ میں ذو الجوشن کے بیٹے شمر کا بنیادی کردار و نقش چند مقامات پر نظر آتا ہے۔ 


شمر ملعون کا آخری انجام


    واقعہ کربلا کے بعد شمر لعین کے ساتھ کیسے حالات پیش آئے تھے؟

    شمر من جملہ ان افراد میں سے تھا کہ جسے حاکم کوفہ عبید اللہ بن زیاد کوفہ کے لوگوں کو حسینؑ بن علیؑ کے سفیر مسلم بن عقیل کے اطراف سے دور کرنے کیلئے دار الامارہ کے اوپر بھیجا  تھا، جس وقت کوفہ کے لشکر کا کمانڈر عمر بن سعد نے حاکم کوفہ کو ایک خط لکھا کہ حسینؑ بن علیؑ آمادہ ہو گئے ہیں یا تو واپس چلے جائیں یا اسکی بیعت کرلیں حاکم کوفہ عبید اللہ بن زیاد نے مشورہ دیا کہ اسے قبول کر لینا چاہئے لیکن جس وقت شمر اس خط کے مضمون سے مطلع ہوا تو فوراً اسے منع کر دیا اور مزید کہا کہ اگر حسینؑ بن علیؑ تمہاری اطاعت نہیں کرتے اور پلٹ جاتے ہیں تو بعد میں اور مزید طاقتور ہو جائیں گے، پس بہتر ہے کہ انہیں چھوڑا نہ جائے کہ وہ پلٹ کر واپس چلے جائیں اور موقع کی تلاش میں رہیں۔

    عبید الله نے بھی شمر کے مشورہ کو قبول کر لیا اور اسے چار ہزار سپاہیوں کا سردار بنا کر نیز ایک خط اسی کے ہمراہ کربلا میں کوفہ کی فوج کے کمانڈر عمر بن سعد کی طرف روانہ کیاتا کہ امام حسینؑ سے مطالبہ کرے کہ یا تو بیعت کر کے سر تسلیم خم کر دیں یا پھر جنگ کیلئے تیار ہو جائیں اور اسی خط میں آخری سطر پر بطور ضمیمہ اسی شمر کی بات کو لکھا گیا تھا: اے عمر سعد! اگر یہ کام تم انجام نہیں دے سکتے تو ہمارے لشکر سے کنارہ کشی اختیار کر و اور لشکر کی کمان شمر بن ذی الجوشن کے سپرد کر دو ۔

    محرم کی دسویں تاریخ کے دن کی آخری گھڑیاں جس میں حسینؑ  بن علیؑ کے سر اقدس اور جسم مبارک پر بہت زیادہ زخم لگے ہوئے تھے، شمر نے اپنے کند و برہنہ خنجر کے ساتھ امام حسینؑ  کے سینہ مبارک پر بیٹھا اور آنحضرت کے سر اطہر کو تن نازنین سے جدا کیا تھا۔


کربلا کےفاجعہ ہائلہ کے بعد  شمر کا واصل جہنم ہونا

   

کربلا کے واقعہ ہائلہ کے بعد شمر مختار کے چنگل سے نکل بھاگا لیکن مختار نے بھی حکم دیا کہ وہ جہاں کہیں بھی گیا ہے اسے تلاش کریں اور اسکے اعمال کی سزا تک پہونچائیں، کوفہ کی شورش کے ماجریٰ میں شمر نے مختار کے خلاف بغاوت میں اصلی کردار ادا کرنے والوں میں سے ایک تھا، نتیجہ میں مختار کا ایک غلام اسکے تعاقب میں گیا لیکن شمر کے غلام سے اسے قتل کر دیا اور بعد میں دوسرے قریہ کی طرف فرار کر گیا اور پھر وہاں سے بھی «کلتانیہ» نامی قریہ کی طرف چلا گیا یہاں تک کہ مختار کے سپاہیوں نے اسکا محاصرہ کر لیا۔

    مسلم ضبابی جو شمر کے ہی قبیلہ سے تعلق رکھتا تھا وہ کہتا ہے: «ہم فرار کر گئے تھےاور خود اپنے آپ  کو بصرہ و کوفہ کے راستے میں ایک مقام «ساتیدما» نامی قریہ تک پہونچایا اور اسی کے قریب «کلتانیہ» نامی ایک چھوٹی سی بستی جو فرات کے ساحل کے اطراف میں قرار رکھتی، ہم اسی کے پاس ایک ٹیلہ کے کنارہ چھپ گئے کہ ایک دیہاتی نے ہماری مخفی جگہ کی مخبری کر دی، رات کی تاریکی تھی کہ مختار کے ماموران نے ہمارا محاصرہ کر لیا، شمر کو میں نے دیکھا کہ ایک بہترین لباس پہنا اور اسکے بدن پر برص (سفید داغ) کا مرض تھا، ہمیں تو یہاں تک کہ اپنے گھوڑوں پر سوار ہونے کی بھی فرصت نہیں ملی، آپس میں سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا چند ساعت کے بعد اللہ اکبر کا نعرہ ہم نے سنا اور کسی نے چلا کر کہا: خداوند عالم نے ایک خبیث کو مارا۔»

    «شمر کو گرفتار کیا گیا اور مختار کے پاس لائے، مختار نے حکم دیا کہ اسکی گردن اڑادیں اور اس کے جسد کو ایک کھولتے ہوئے تیل کی دیگ میں ڈالیں اور مختار کے ساتھیوں میں سے ایک نے اپنے پیر سے شمر کے سر کو کچلا تھا۔»

    عبد الرحمن بن عبد  کہتا ہے: «میں نے ہی شمر کو ہلاک کیا تھا، مختار کی نگاہ جیسے ہی شمر کے سر بریدہ پر پڑی، سجدہ شکر بجالائے اور حکم دیا کہ سر کو نیزہ پر بلند کیا جائے اور شہر کی جامع مسجد کے سامنے لوگوں کے درس عبرت کیلئے قرار دیا جائے۔»  

    «شمر کے تمام ساتھی فرار ہوگئے تھے، خود اسے ہی اتنی فرصت نہیں مل سکی کہ جنگی لباس پہن سکے، خود کو ایک کپڑے میں لپیٹا اور ایک نیزہ کے ساتھ مختار کے سپاہیوں کے سامنے کھڑا ہوا تھا یہاں تک کہ اسے شکست ہوئی۔

ایک اور قول بھی اس سے ملتا جلتا تاریخ میں درج ہے۔

    ابو عمرہ نے شمر کو گرفتار کیا اور مختار کے پاس لایا، مختار ثقفی نے اسکے سر کو بدن سے جدا کیا اور اسکے بدن کو کھولتے ہوئے روغن کی ایک دیغ میں ڈالا، مختار کے ساتھیوں نےاسکے سر کو پیروں سے کچلا اور پھر اسکا سر محمد بن حنفیہ کے پاس بھیجا تا کہ انکی تسکین کا سبب بن جائے۔»  

    شیخ طوسی بھی اپنی کتاب امالی میں شمر کی سزائے موت کے سلسلہ میں تحریر کیا ہے: «...ابو عمرہ ایک گروہ کے ساتھ شمر کے تعاقب میں گیا اور ایک مسلحانہ جھڑپ میں اسے زخمی کیاپھر قیدی بنا لیا، مختار کے پاس اسے لایا گیا مختار نے حکم دیا کہ اسکی گردن اڑادی جائے اور اس کے جسد کو ایک تیل کے کھولتے ہوئے دیگ میں ڈالا گیا تھا اور مختار کے ساتھیوں میں سے ایک نے شمر کے سر کو اپنے پاؤں تلے کچل ڈالا بھی تھا۔»

کار من تمام شد

دشمن در دام شد

Post a Comment

To be published, comments must be reviewed by the administrator *

جدید تر اس سے پرانی