امام حسنؑ مجتبیٰ کی ازواج و اولاد اور داماد


 



امام حسنؑ مجتبیٰ کی ازواج و اولاد اور داماد


مترجم : ابو دانیال اعظمی بریر


آنحضرتؑ کی ازواج، اولاد اور داماد کے سلسلہ میں مختلف معتبر کتابوں (شیعہ و سنیمیں ذیل کی صورت میں ہمیں تذکرہ ملتا ہے:

          ۱۔ خولہ بنت منظور بن زیاد فزاری:

          ان سے 2 ہی فرزند متولد ہوئے جن میں سے ایک کا نام» محمد الاکبر «ہو تا ہے جس کی بنا پر ہی آپ کی کنیت انہی کی نسبت کی بنا پر» ابو محمد« قرار پاتی ہے اور دوسرے فرزند »حسن مثنیٰ« کے نام سے موسوم ہوتے ہیں۔


          ۲۔ ام کلثوم بنت فضل بن عباس بن عبد المطلب:

            جن کے بطن سے 4 اولاد جس میں 3 بیٹے اور ایک بیٹی متولد ہوئیں جنہیں» محمد الاصغر، جعفر، حمزہ« اور »فاطمہ« کے ناموں سے پکارتے ہیں۔


          ۳۔ ام بشیر بنت ابو مسعود عقبہ بن عمر انصا ری خز رجی:

          ان سے 3 فرزند یعنی 1 بیٹا اور 2 بیٹی متولد ہوئے جنہیں »زید « اور »ام الحسن و ام الخیر« کے نام سے پکارا جاتا ہے۔


          ۴۔ جعدہ بنت اشعث بن قیس کندی :

           ابو بکر کی بہن کی بیٹی یعنی بھانجی نیز اشعث بن قیس کندی رشتہ میں ابو بکر کے بہنوئی لگتے ہیں ان سے متولد ہونے والی اولاد 2 ہوتی ہیں جن کا نام »اسماعیل اور یعقوب«  تھا۔


          ۵۔ زینب بنت سُبیَع بن عبد الله (جُرَیر بن عبد الله بجلی کے بھائی)۔

          ان کے بطن سے 1 بیٹا ہی متولد ہوتا ہے جن کا نام »عبد الله الاصغر« تھا۔


          ۶۔ ام اسحاق بنت طلحہ بن عبید الله تیمی:

          ان سے بھی 1 بیٹا ہی متولد ہوا ہے جن کا نام »طلحہ« رکھا گیا تھا۔


          ۷۔ کنیز (یعنی ام ولد) بنام قیلہ:

          اس کنیز سے 3 بیٹے »قاسم، عبد اللہ اور ابو بکر «(ابو بکر کنیت ہے) نامی متولد ہوتے ہیں نیز یہ تینوں ہی کربلا کے میدان میں امام حسینؑ کی تحریک عاشورا میں درجہ شہادت پر فائز ہوئے۔


          ۸۔ کنیز یعنی ام ولد ظمیاء:

           ان کے بطن سے بھی 3 اولاد یعنی 2 بیٹے اور 1 بیٹی متولد ہوتے ہیں جنہیں »حسین الاثرم، عبد الرحمن« اور »ام سلمہ« کے ناموں سے پکارا جاتا تھا۔


          ۹۔ ایک کنیز یعنی ام ولد:

           ان کے بطن سے بھی 1 بیٹا ہی جن کا نام» عمرو« ہوتا ہے متولد ہوئے۔


          ۱۰۔ ایک کنیز یعنی ام ولد بنام صافیہ:

           ان کے بطن سے بھی 1 بیٹی متولد ہوئی ہے جنہیں »ام عبد الرحمن یا ام عبد اللہ»  کہا جاتا ہےاور یہی معظمہ ام عبد الرحمن امام محمد باقرؑ کی مادر گرامی ہوتی ہیں۔

          مذکورہ بالا دلائل کی روشنی میں ہمیں اولاد میں بیٹوں کی تعداد 16 قرار پاتی ہے اور بیٹویوں کی تعداد 5 ہی افراد پر مشتمل اور 6 ازواج اور 4 کنیزیں یعنی ام ولد پر خاندان تشکیل پاتا ہے۔

          بعض مورخین نے تو آنحضرتؑ کی ازواج میں »«ہند اور عائشہ خثعمیہ» کے نام درج کئے ہیں ممکن ہے کہ آنحضرتؑ کی مزید ازواج کی تعداد بھی ہو سکتی ہیں مگر تاریخ کی کتابوں میں بہت زیادہ تلاش و جستجو کے باوجود ہمیں 18 ازواج سے زائد نام نہیں مل سکے۔

           بعض ازواج کے نام تو کتابوں میں درج نہیں ہیں مگر صرف»« فلاں قبیلہ» کی ایک خاتون کے عنوان سے تذکرہ ملتا ہے۔

          ہم انہیں مختصرا ذیل میں تحریر کر رہے ہیں:


          ۱۔ ہند بنت عبد الرحمٰن بن ابی بکر۔ (قرشی، باقر شریف، حیاۃ الامام الحسنؑ ، ۲/ ۴۶۰.؛

           یا حَفصہ (علامہ مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ۴۴/ ۱۷۳.)


          ۲۔ بنی ثقیف کے خاندان کی ایک خاتون۔ (حیاۃ الامام الحسنؑ ۲/ ۴۶۰؛ بحار الانوار ۴۴/ ۱۷۳)


          ۳۔ قبیلہ بنی کلاب کی ایک خاتون 


          ۴۔ ہند بنت سہیل بن عمرو۔ ( بحار الانوار ۴۴/ ۱۷۳)


          ۵۔ علقمہ بن زرارہ کے خاندان کی ایک خاتون۔ (حیاۃ الامام الحسنؑ ۲/ ۴۶۰؛بحار الانوار ۴۴/ ۱۷۳)


          ۶۔ قبیلہ عمرو بن ابراہیم یا اہیم منقری کی ایک خاتون۔ (حیاۃ الامام الحسنؑ ۲/ ۴۶۰؛ بحار الانوار ۴۴/ ۱۷۳)


          ۷۔ قبیلہ بنی شیبان کے خاندان کے ہمام بن مرہ کی ایک خاتون۔ (خارجی افکار کی بنا پر طلاق دیا)۔ (شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید معتزلی شافعی۱۶/ ۲۱؛ زندگانی دوازدہ امام ۱/ ۶۰۲؛ حیاۃ الامام الحسنؑ ۲/ ۴۶۰)


          ۸۔ خولہ بنت منظور بن زیاد فزاری۔ (حسن مثنیٰ کی ماں ہیں)۔ (حیاۃ الامام الحسنؑ ۲/ ۴۵۵؛  بحار الانوار ۴۴/ ۱۷۳؛ الارشاد فی معرفۃ حجج اللہ علی العباد ۲/ ۲۰)


          ۹۔ ام اسحاق بنت طلحہ بن عبیدالله تیمی۔ (قرشی، باقر شریف، حیاۃ الامام الحسنؑ، ۲/ ۴۶۰.؛ شیخ مفید، محمد بن محمد، الارشاد فی معرفۃ حجج الله علی العباد، ۲/ ۲۰.؛ علامہ مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ۴۴/ ۱۷۳.)


          ۱۰۔ ام بشیر بنت ابو مسعود عقبہ بن عمر انصاری خزرجی۔ (قرشی، باقر شریف، حیاۃ الامام الحسنؑ، ۲/ ۴۶۰.؛ شیخ مفید، محمد بن محمد، الارشاد فی معرفۃ حجج الله علی العباد، ۲/۲۰.؛ علامہ مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ۴۴/ ۱۷۳. )


          ۱۱۔ جعدہ بنت اشعث بن قیس کندی۔ (اسی نے ہی امامؑ کو زہر دیا تھا)۔ (قرشی، باقر شریف، حیاۃ الامام الحسنؑ، ۲/۴۵۷.؛ شیخ مفید، محمد بن محمد، الارشاد فی معرفۃ حجج الله علی العباد، ۲/ ۱۵.؛ علامہ مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ۴۴/۱۷۳.)


          ۱۲۔ ام کلثوم بنت فضل بن عباس بن عبد المطلب۔ (قرشی، باقر شریف، حیاۃ الامام الحسنؑ، ۲/۴۶۰.)


          ۱۳۔ نفیلہ (ام ولد) یا رملہ (یہ جناب قاسم بن حسنؑ کی ماں ہیں۔)۔ (قرشی، باقر شریف، حیاۃ الامام الحسنؑ ، ۲/ ۴۶۰. )


          ۱۴۔ زینب بنت سُبیَع بن عبد الله (جُرَیر بن عبد الله بجلی کے بھائی)۔ (قرشی، باقر شریف، حیاۃ الامام الحسنؑ، ۲/ ۴۶۰.)


          ۱۵۔ عایشہ خثعمیہ۔ (امیر المومنینؑ کی شہادت کے بعد بر بنائے شماتت آنحضرت کو خلافت کی تہنیت دینے پر طلاق دیا.) (ابو الحسن اربلی، علی بن عیسی، کشف الغمۃ عن معرفۃ الائمۃ، ۲/ ۱۷۴.؛ ابن عساکر، علی بن حسن، تاریخ مدینۃ الدمشق، ۱۳/ ۲۵۱.؛ شوشتری، قاضی نور الله، احقاق الحق، ۱۱/ ۱۵۶.؛ معروف الحسینی، ہاشم، زندگانی دوازدہ امامؑ، ۱/ ۶۰۴.؛قرشی، باقر شریف، حیاۃ الامام الحسنؑ ، ۲/ ۴۵۹.)


          ۱۶۔ ام رباب بنت امرء القیس بن عدی


          ۱۷۔ صافیہ (ام ولد)


          ۱۸۔ شہر بانو


دامادوں کی تعداد

          

امام حسنؑ کی ازواج کی تعداد تاریخ اور روایات کی کتابوں میں درج ذیل ہیں:

      ۱۔ 70 بیویاں تھیں۔ (علامہ مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ۴۴/ ۱۷۳.؛ ابو حامد عبد الحمید، ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغۃ، ۱۶/ ۲۱.) 


           ۲۔ 250 یا 300 ازواج تھیں۔ (علامہ مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ۴۴/ ۱۷۳.؛ علامہ مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ۴۴/ ۱۶۹.)


          ۳۔ 90 زوجات تھیں. (بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف،  ۳/ ۲۵.)


           ۴۔ 50 بیویاں تھیں۔ (قمی، شیخ عباس، منتہی الآمال، ص۲۲۲.)


          اتنی بڑی تعداد میں ازواج کا تذکرہ کرنے کے باوجود کم از کم یہی مقام و محل ہے کہ ان کی بیٹیوں کی تعداد بھی 50 عدد تو ہونا ہی چاہئے اور اسی کے اعتبار سے دامادوں کے ناموں کا بھی تذکرہ ہونا ہی چاہئے تھا لیکن ہمیں کتابوں میں تلاش بسیار کے بعد صرف 3 دامادوں کا ہی تذکرہ نام بنام ملتا ہے جنہیں ہم ذیل میں رقم کر رہے ہیں:


          ۱۔ جناب فاطمہ بنت حسنؑ (یعنی امّ عبد الله) کے شوہر نامدار حضرت امام زین العابدینؑ ہیں۔


          ۲۔ جناب امّ الحسن بنت حسن ؑکے شوہر عبد الله بن زبیر ہیں۔


          ۳۔ جناب امّ سلمہ بنت حسن ؑکے شوہر عمرو بن منذر ہیں۔


          اب یہاں پر یہی سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا 400 زوجات کی تعداد میں صرف 3 بیٹیاں ہی متولد ہوئی تھیں یا پھر زیادہ سے زیادہ 7 بیٹیاں ہوتی ہیں اور ان میں سے فقط 3 بیٹیاں ہی شادی کرتی ہیں اور بقیہ بیٹیوں کا نام و نشان تک کتابوں میں کیوں نہیں ملتا۔؟!

          اسی سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مطلاق یعنی بہت طلاق دینے والے یا بہت سی شادی کرنے والے کی نسبت امام حسنؑ کی طرف دینا صحیح نہیں ہے لہذا آنحضرتؑ کے بہت سے فرزندوں اور دامادوں کے نام تاریخ کے صفحات پر ثبت بھی ہونا چاہئے تھا لیکن ایسا ہرگز نہیں ہے جیسا کہ ہم نے درج بالا میں اشارہ کیا ہے کہ 3 دامادوں کا ہی تذکرہ کتابوں میں ملتا ہے۔ 

          امام حسنؑ ازواج کے دفعات اور زوجات کی تعداد کے بارے میں مختصراً یہاں پر تحریر کر رہے ہیں نیز ذیل کی تعداد شمار کی ہے۔


          ۱۔ بعض نے آنحضرتؑ کی زوجات 300 خواتین کی تعداد کا تذکر کیا ہے۔ [ابن شہر آشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابیطالبؑ، ۳/ ۱۹۲.؛ علامہ مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ۴۴/ ۱۶۹.]


          ۲۔ بعض نے 200 خواتین کی تعداد تحریر کیا ہے۔ [مقدسی، مطہر بن طاہر، البدء و التاریخ، ۵/ ۷۴.]

          ۳۔ بعض نے ان کی 90 ؍خواتین کی تعداد رقم کیا ہے۔ [علامہ مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ۴۴/ ۱۷۳.؛ بلاذری، احمد بن یحییٰ، انساب الاشراف، ۳/ ۲۵.]

          ۴۔ بعض نے ان کی 70 ؍خواتین کی تعداد لکھی ہے۔ [ابن کثیر دمشقی، اسماعیل بن عمر، البدایہ و النہایہ، ۸/ ۴۲.؛ ابن عبد البر، یوسف بن عبد الله، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، ۱/ ۱۴۶.] 


فرمان صادق آل محمد (ع):

«ﻣَﻦْ ﺍﺭﺍﺩ ﺍﻟﺤﺪﻳﺚ ﻟﻤﻨﻔﻌﺔ ﺍﻟﺪﻧﻴﺎ ﻟﻢ ﻳﻜﻦ ﻟﻪ ﻓﻰ ﺍﻻﺧﺮﺓ ﻧﺼﻴﺐ ﻭ ﻣَﻦْ ﺍﺭﺍﺩ ﺑﻪ ﺍﻻﺧﺮﺓ ﺍﻋﻄﺎﻩ ﺍﻟﻠﻪ ﺧﻴﺮ ﺍﻟﺪﻧﻴﺎ ﻭ ﺍﻵﺧﺮﺓ»

"جس شخص کا ارادہ حدیث کے ذریعہ دنیا کی منفعت ہے تو اسے آخرت میں کچھ بھی نصیب ہونے والا نہیں ہے اور جس کا ارادہ اس کے وسیلی سے آخرت کی خیر کا حصول ہو تو اللہ اسے دنیا و آخرت دونوں ہی جگہ خیر عطا کرے گا."


Post a Comment

To be published, comments must be reviewed by the administrator *

جدید تر اس سے پرانی