اسلام میں مزدور کے حقوق - 8


ملازمت اور ملازم کے حقوق

Image by skeeze from Pixabay  

مؤلف : علی اکبر مظاهری

محرر : علی سعیدی

مترجم : اعظمي بُرَیر أبو دانیال

★★★★★★★★★★★★



أجرت مثل لینا «أخذ أجرة المثل»

عقد اجارہ کے بطلان کے وقت اجاره کے صحیح ہونے کی ایک شرط یہی ہے کہ اجرت معین و معلوم ہے اور اس معنی میں فقہا کے درمیان کوئی بھی اختلاف نہیں پایا جاتا.
(بحرانی، الحدائق الناظرة فی أحکام العترة الطاهرة، 2/ 547 قم، مؤسسه نشر اسلامی، 1409 ھ)
جس وقت بھی عقد اجاره باطل ہو اور منفعت بھی استیفا (پوری) ہوئی ہو تو اجرت مثل لے گا اگرچہ «أجرة المسّمی» کم از کم اجرت سے زیادہ ہو اور اجیر کا حق نیز کاریگر کا حق دو دلیلوں سے ضائع نہیں ہو سكے گا.

قاعدہ فقہ اول: «کُلُّ مَا یضمنُ بِصَحِیحِه یضمنُ بِفَاسِدِه»
ہر عقد و قرار داد کہ جس کا صحیح ہونا ضمانت آور ہوتا ہے تو اس کا فاسد و باطل ہونا بھی ضمانت آور ہی ہوتا ہے.

قاعدہ فقہ دوم: «عَمَلُ المُسلِمِ مُحتَرِمُُ»
ایک مسلمان کا عمل محترم ہوتا ہے.
اجیر شخص نے چونکہ کام بغیر مزدوری و بلا اجرت انجام نہیں دیا ہے بلکہ اس نے اجرت کے مد مقابل انجام دیا ہے. تب ہی تو وہ مزدور اجرت مثل کا مستحق قرار پائے گا کیونکہ اس کا عمل محترم ہے.
(نجفی، جواهر الکلام 27/ 246 بیروت، دار احیاء التراث، بی تاريخ و بجنوردی، القواعد الفقهية، تحقيق مهدي مهريزي و محمد حسن درايتي، 7/ 113، قم، نشر دليل ما، 1424 ھ)


★ اسلام میں سرپرست یا مالک کی اخلاقی ذمه داری
دین اسلام کی نظر میں جو کسی شخص کو کوئی کام انجام دینے کیلئے استخدام (کسی کو خدمت کیلئے حاصل) کرنا پڑتا ہے تو اس پر چند وظائف معین کئے گئے ہیں.
جن میں سے ہم بعض کو ذیل میں تحریر کر رہے ہیں:
۱- پہلے ہی سے مزدوری معین کرنا:
اس بارے میں دینی رہنماؤں نے بہت زیادہ تاکید کیا ہے جن میں سے چند احادیث ملاحظہ کیجئے:
١- «نَھیٰ النَّبِیُّ (ص) أن یستعمل أجیر حَتّیٰ یعلم ما أُجرته»
پیغمبر اسلام (ص) نے کسی بھی کاریگر کی مزدوری معلوم کرنے سے پہلے کام دینے سے منع فرمایا ہے.
(من لا یحضره الفقیه، 4/ 10)


٢- قال الصادق (ع): «من كان یؤمن بالله و الیوم الآخر فلا یستعملّن اجیراً حتی یعلّمه ما اجره»
امام صادق (ع ) نے فرمایا ہے: جو شخص بھی خدا اور قیامت پر ایمان رکھتا ہے تو کاریگر کو کام نہیں دینا چاہئے مگر یہ کہ پہلے اس کی مزدوری کا اعلان کر دے. (الكافي،  5/ 289)


سلیمان بن جعفر جعفری سے مروی ہے: امام رضا (ع) نے کسی کو اجرت پر رکھو تو اس کی اجرت معلوم نہیں ہونے کے بارے میں فرمایا ہے:
«واعلم انّه ما من احد یعمل لک شیئاً بغیر مقاطعة ثم زدته لذلک الشیع ثلاثة أضعاف على أجرته إلّا ظنّ انّک قد نقصته أجرته و إذا قاطعته ثم أعطيته أجرته حمدک على الوفاء فإن زدته حبّه عرف ذلک  و رأی إنّک قد زدته»

اور تم جان لو کہ جس نے بھی اس کے کام کی اجرت معین کئے بغیر کام لیا پھر اسے تین گنا مزدوری دیدیں گے تب بھی وہ مزدور گمان کرے گا کہ اسے مزدوری کم دی گئی ہے. لیکن اگر اس کی مزدوری معین کرو اور پھر اسے تم ادا کرو گے تو وہ تمہاری وفا داري کی تعریف کرے گا اور اگر ایک حبہ بھی اس معین اجرت میں اضافہ کرو گے تو وہ یہی جانے گا کہ یہ اضافہ آپ کی طرف سے ہے اور یہ بھی سمجھے گا کہ تم نے عہد و پیمان کے مطابق معین اجرت سے بھی بہت زیادہ اجرت ادا کیا ہے. (پس وہ آپ کا احسان تسلیم کرے گا.) (الکافی، 5/ 288)

Post a Comment

To be published, comments must be reviewed by the administrator *

جدید تر اس سے پرانی