۷- قصبہ مبارکپور ضلع اعظم گڑھ ایک مایہ ناز مثالی، علمی، دینی، فنی اور صنعتی مرکز


۷- قصبہ مبارکپور ضلع اعظم گڈھ ایک مایہ ناز مثالی، علمی، دینی، فنی اور صنعتی مرکز



(قصبہ مبارکپور کی شیعہ تاریخ)

راقم : مولانا منهال رضا خیرآبادی
مدیر جامعه حیدریه مدينة العلوم خيرآباد

دور قدیم سے لے کر دور حاضر تک قصبہ مبارکپور شیعہ علمائے کرام کا ایک عظیم مرکز رہا ہے، علمائے سابقین میں کچھ وہ بھی گزرے ہیں جو عالم ادیان ہونے کے ساتھ ساتھ عالم ابدان بھی تھے انہوں نے روحانی اور جسمانی دونوں طرح کے فیوض و برکات سے قصبہ کے لوگوں کو فیض پہونچایا ہے ان علمائے دین نے مراکز و مدارس بھی قائم کئے ہیں جن کا اجمالی تذکرہ گذشتہ قسطوں میں کیا جا چکا ہے ان کے خدمات کا لہلہاتا ہوا چمن قوم کے معزز و مخیر حضرات کی توجہات جزیلہ کی بنا پر آج بھی خوشبو پھیلا رہا ہے.
قاضی اطہر مبارکپوری کی تحریر سے پتہ چلتا ہے کہ غلام خاندان کے بادشاہ شمس الدین التمش کے زمانہ میں گردیز سے دو بھائی شیاب الدین اور شمس الدین دہلی آئے، شہاب الدین کے بیٹے عزیز الدین اور ان کے بیٹے سید مبارک تھے جنہوں نے سنہ 925 ھ سے قبل قصبہ کی تاسیس کی اس کا پہلا نام قاسم آباد تھا بعد میں انہیں کے نام پر مبارکپور ہوا اسے اگر تاریخی روشنی میں دیکھا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ مغلیہ سلطنت کے دور میں مبارکپور اور گرد و نواح میں شیعہ حضرات آباد تھے اگرچہ صحیح طور پر تاریخ کا اندازہ نہیں ہو پاتا ہے ممکن ہے کہ راجہ سید مبارکپور بھی شیعہ رہے ہوں لیکن حالات زمانہ کے پیش نظر اس کے اظہار سے گریز کیا ہو کیونکہ مغلیہ سلطنت میں جو دور بھی آیا ہے جو شیعیت کیلئے انتہائی تکلیف دہ تھا اور بہت سے لوگ تقیہ کی زندگی بسر کر رہے تھے راجہ سید مبارک کا ایک خط جسے قاضی صاحب نے اپنی کتاب "شجرہ مبارکہ" میں نقل کیا ہے وہ اس بات کا غماز ہے.
انہوں نے ایک خط حاجی محمد محمدآبادی کو لکھا اور اس میں ائمۂ اثنا عشری کے بارے میں ان کا نظریہ معلوم کیا تو حاجی صاحب نے جواب میں یہ عبارت تحریر کی. 
بسم اللہ الرحمن الرحیم
بخدمت حاجی مبارک علی صاحب سلمہ اللہ تعالی از طرف فقیر محمد علی عفی عنہ
بعد سلام سنت الاسلام آنکہ سوال از اشاعت امامت و وصایت کہ فرمودہ بودند معلوم نمایند کہ وصایت و امامت دوازدہ امام علی نبینا و علیہم الصلوٰۃ و السلام نزد اہل سنت و جماعت ثابت و متحقق است نہ باین معنی کہ شیعہ می گویند بلکہ بمعنی دیگر است چرا کہ شیعہ لفظ امامت می گویند و از آن مراد نبوت می داند و دوازدہ امام را احکام نبوت ثابت می کنند از نزول وحی و تحریم و تحلیل وغیرہ کہ در کتب این فرقہ مسطور است. (صفحہ 76)



اس تحریر کے سلسلہ میں قاضی صاحب نے لکھا ہے کہ راقم الحروف کو فارسی زبان میں 18 صفحات كا ايک قلمی رسالہ ملا ہے (کہاں سے ملا ہے اس کا ذکر نہیں ہے) جس سے راجہ سید مبارک کے بارے میں چند باتیں معلوم ہوتی ہیں اس کے سر نامہ پر یہ عبارت درج ہے "جواب سید مبارک محمد آبادی کہ جناب حاجی محمد علی صاحب نوشتہ بودند آدم اللہ" اس کے بعد رسالہ کی ابتدا میں ذکر شدہ الفاظ سے ہوتی ہے.
قاضی صاحب مزید لکھتے ہیں کہ رسالہ سے معلوم ہوتا ہے کہ راجہ سید مبارک کو علم و تحقیق سے دلچسپی تھی اور انہوں نے مولانا حاجی محمد علی سے شیعوں کے عقائد کے بارے میں سوالات کئے تھے ممکن ہے یہ سوالات راجہ صاحب نے مولانا حاجی محمد علی سے اسلئے کئے ہوں کہ حاجی صاحب کی مرکزیت اہلسنت حضرات کے نزدیک مسلم تھی تو ان کی زبان سے دوازدہ اماموں کی حقانیت کا اعلان کرا دیں تا کہ راجہ صاحب کے بارے میں کوئی غلط رائے نہ قائم کر سکیں کیونکہ راجہ صاحب کا شیعہ ہونا معلوم ہو چکا تھا اسلئے عبارت میں لفظ اہلسنت و الجماعت اور شیعہ کو استعمال کیا ہے.
قاضی صاحب مزید لکھتے ہیں کہ اس میں ایک جگہ ان کا نام "سید مبارک محمدآبادی" اور دوسری جگہ "راجی مبارک علی" ہے دونوں ملا کر پورا نام "راجی سید مبارک علی محمدآبادی" بنتا ہے.

لفظ "علی" ان کے نام کا جز نہیں ہے. (یہ قاضی صاحب نے کیوں کر طے کر دیا کہ "علی" ان کے نام کا جز نہیں ہے ہو سکتا ہے کہ یہ جز رہا ہو اور عبارت میں ایک مقام پر تخفیف کے خیال سے ترک کر دیا گیا ہو.) یہ اضافہ اور "محمدآبادی" کی نسبت اسلئے ہے کہ راجہ صاحب پرگنہ محمد آباد میں زیادہ دنوں تک مقیم تھے اور مبارکپور کی نئی آبادی جسے انہوں نے آباد کیا تھا کوئی خاص شہرت نہیں رکھتی تھی قاعدہ ہے کہ کسی بڑی بستی یا شہر کے قرب و جوار کے باشندے اسی کی نسبت سے مشہور ہوتے ہیں. (صفحہ 76)
راجہ سید مبارک علی کا شجرہ نسب جو قاضی اطہر صاحب مبارکپوری نے تحریر کیا ہے وہ راجہ صاحب کے شیعہ ہونے کی جانب اشارہ کرتا ہے جسے امام جعفر صادق (ع) تک نقل کیا ہے.
آپ کے والد کا انتقال آپ کی ولادت سے پہلے ہی ہو گیا تھا اور عنفوان شباب تک آپ کے دادا نے پرورش کر کے تعلیم و تربیت کی اور بچپن ہی میں آپ نے اپنے جد بزرگوار سے بیعت کر کے اسی زمانہ میں خلافت حاصل کر لی. راجہ سید مبارک کے والد راجہ سید احمد کے ایک بھائی سید محمد تھے اور دونوں اپنے والد سید نور کو بہت پیارے تھے یہ دونوں لڑکے مکتب میں پڑھتے تھے ایک استاد نے کسی بات پر دونوں بھائیوں کو طمانچہ مارا جب ان کے واکد سید نور کو اس کی خبر لگی تو بہت رنجیدہ ہوئے اور کہنے لگے کہ حیدر کرار کی اولاد کو طمانچہ مارنا اچھا نہیں ہے یہ سب کے سب اپنی اپنی جگہ پر حیدر کرار ہیں یہ دونوں بچے بہادری دکھاتے ہوئے شہادت پائیں گے. 
راجہ سید مبارک کی پہلی شادی شیخ حسام الدین مانک پوری کے خاندان میں ہوئی مگر ان سے کوئی اولاد نہیں ہوئی ان کی بیوی نے خود کہا کہ آپ دوسری شادی کر لیں تا کہ بقائے نسل کا سبب ہو. بیوی کے مسلسل اصرار پر أپ نے جونپور کے میاں شیخ الہ آبادی کی لڑکی سے شادی کی جس سے 6 لڑکے پیدا ہوئے ان 6 لڑکوں کے علاوہ آپ کے 2 لڑکوں راجہ سید مصطفیٰ اور سید مجتبیٰ کے نام بھی ملتے ہیں.
راجہ مبارک علی کی اولاد سے دیار پورب کو بہت زیادہ روحانی  اور علمی فیض پہونچا چنانچہ راجہ سید مبارک علی کے پوتے سید ابراہیم بن راجہ سید یاسین بن راجہ سید مبارک نے ابراہیم پور کو آباد کیا.
راجہ سید غلام نظام الدین عرف راجہ خیر اللہ شاہ محمد آبادی نے خیرآباد کو آباد کیا جو ابراہیم پور اور خیر آباد کو درمیان شیر شاہ سوری شاہراہ سے دکھن جانب ایک بستی موجود ہے. (ماخوذ از شجر مبارکہ)



Post a Comment

To be published, comments must be reviewed by the administrator *

جدید تر اس سے پرانی