۶- قصبہ مبارکپور ضلع اعظم گڑھ ایک مایہ ناز مثالی، علمی، دینی، فنی اور صنعتی مرکز


۶- قصبہ مبارکپور ضلع اعظم گڈھ ایک مایہ ناز مثالی، علمی، دینی، فنی اور صنعتی مرکز


(علمائے شیعہ مبارکپور)

راقم : مولانا منهال رضا خیرآبادی
مدیر جامعه حیدریه مدينة العلوم خيرآباد مئو

مقدمین علمائے شیعہ مبارکپور پر جتنا بھی فخر کیا جائے اور جتنی تعریف و توصیف کی جائے وہ ان کے خدمات اور مراتب کے لحاظ سے بہت کم ہوگی دور جہالت اور غلبہ کم علمی میں مخصوص افراد کا دین اور دینداری کی آواز بلند کرنا اور اپنے کردار و عمل سے دینی راہ پر گامزن کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف مانا جا سکتا ہے۔ کوہ کنی جہالت شکنی، رسم کشی سنگ کو توڑ کر صالح زمین میں بدلنا اس میں تخم ریزی کر کے فساد آمیز زہریلی ہواؤں سے نکلے ہوئے نو خیز پودوں کی حفاظت کرنا ان کی آبیاری کر کے شجر سایہ داری کی منزلت تک پہونچانا اور ثمردار بنا کر قوم و ملت کیلئے لذت فکر و نظر اور ذائقہ علم و عمل سے آشنا کرنا یہ ان پر جگر اور قومی قلب اور توانا فکر و عمل علما کا کام تھا جنہوں نے بخوبی اس کام کو انجام دیا۔

اس میں خاندان واحدی کو اس لحاظ سے سبقت حاصل  کہ اس خاندان کے مورث اعلیٰ میاں صاحب حکیم عبد الواحد صاحب فارسی اور عربی کے زبردست عالم دین ہونے کے ساتھ عالم ابدان انسان بھی تھے۔ یہ سلسلہ بعد کی کئی پشتوں تک چلتا رہا اس طرح یہ خاندان روحانی اور جسمانی دونوں طرح کا معالج و طبیب رہا ہے۔ علم دین کی تبلیغ اور عملی سیرت کے ذریعہ مومنین کے اندر روحانی جلا پیدا کرتے تو حکمت کے ذریعہ جسم انسانی کو بھی بیماریوں سے نجات عطا کرتے تھے میاں صاحب حکیم عبد الواحد کے بعد میاں صاحب حکیم یار علی ان کے بعد میاں صاحب حکیم علی سجاد پھر مولانا حکیم علی حماد، مولانا علی ارشاد نجفي، مولانا سلمان احمد دونوں علوم کے حامل تھے۔ ان میں مولانا علی ارشاد نجفی صاحب نے کبھی حکمت نہیں کی اور جن علما کا اوپر ذکر کیا گیا ہے وہ سب حکمت بھی کرتے تھے ان میں اول الذکر دو افراد کو ان کی خدمات کی بنا پر حکومت وقت کی جانب سے اعزازات اور امتیازات بھی حاصل تھے، واضح رہے کہ میاں صاحب کا لقب بقول قاضی اطہر مبارکپوری ان لوگوں کیلئے ہوتا تھا جو فارسی دانی میں شہرت رکھتے تھے اور اپنے طور پر فارسی کی اونچی تعلیم دیتے تھے۔
میاں صاحب جان محمد، میاں صاحب عبد اللہ، میاں صاحب عبد الواحد اور میاں صاحب یار علی وغیرہ اپنے زمانہ کے مشہور معلم و مدرس تھے۔ (تذکرہ علمائے مبارکپور صفحہ 41)
میاں صاحب جان محمد بھی خاندان واحدی کے بزرگ تھے جو میاں صاحب حکیم عبد الواحد سے بھی پہلے گزرے ہیں۔


مولوی میاں صاحب جان محمد
آپ کے بارے میں قاضی صاحب نے اپنی کتاب کے صفحہ 121 پر لکھا ہے: مولوی جان محمد شاہ محمد پور کے رہنے والے تھے یہ علمائے شیعہ میں سے تھے صاحب مطلع الانوار علامہ مرتضی حسین نے صفحہ 145 پر انہیں قصبہ مبارکپور کا مشہور مدرس تحریر کیا ہے. کتاب "واقعات و حادثات قصبہ مبارکپور" کے صفحہ 25 حسن علی فاروقی نے ان کے تعلق سے یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ ان دور حیات میں مرزا ولی بیگ ایک تھانیدار تھے انہوں نے قصبہ میں 7 برس تک کرّ و فرّ کے ساتھ تھانیداری اور تاریخ 26 صفر 1256 ھ شب جمعہ میں انتقال کیا ان کی تاریخ مولوی جان محمد صاحب ساکن محلہ شاہ محمد پور من محلات قصبہ مبارکپور نے یہ کہی:

در کشور انصاف ولی بیگ در آمد
در خلق خدا منبع فضل و ہنر آمد
از دار فنا سوئے منزل فردوس
تاریخ وفاتش بغم و درد بر آمد
(1256 ھ)

لفظ "غم و درد" سے تاریخ وفات 1256 ہجری نکلتی ہے. اس تھانیدار نے اپنی مذہبی بیداری اور دینی امور سے دلچسپی دکھائی انہوں قصبہ مبارکپور میں مجالس کیں اور اچھے چھے مرثیہ خوان بلائے یہ وہ زمانہ تھا جب مجالس میں سوز و سلام ابتدا میں منبر پر تحت اللفظ میں مراثی پڑھے جاتے تھے بیان کا طریقہ بعد میں رائج اور مقبول ہوا ہے ابھی بھی بعض مقامات پر مرثیے پرھے جاتے ہیں. مولوی جان محمد صاحب کا انتقال تیرہویں کے نصف آخر صدی میں ہوا ہے. صاحب "شجرہ طیبہ" نے صفحہ 21 پر تاریخ وفات حدود 1260 ھ و 1844 ء تحریر کیا ہے اس سنہ کی تعین کا ماخذ نہیں ملتا ہے لیکن اوپر مذکور تاریخ وفات ولی بیگ سے پتہ چلتا ہے کہ اس وقت تک مولوی جان محمد صاحب بہر حال زندہ تھے.

حجت الاسلام آقائے باقر الحکیم، مولانا علی ارشاد نجفی، مولانا فیروز عباس واعظ و دیگر افراد کی ایک یادگار تصویر بمقام ایران (1986) 


مولوی جان محمد مبارکپوری
مذکورہ صدر حکیم جان محمد کے علاوہ اس نام کے دوسرے مولوی جان محمد تھے ان دونوں افراد کو تقریبا معاصر کہا جا سکتا ہے البتہ ان مولوی جان محمد کا انتقال بقول شجرہ طیبہ 1311 ھ و 1893 ء میں ہوا ہے جس کا پتہ آپ کے قبر پر نصب کتبہ تاریخ سے بھی ملتا ہے اس کے سلسلہ میں صاحب شجرہ مبارکہ قاضی اطہر مبارکپوری نے صفحہ 134 پر لکھا ہے: مبارکپور کے مشہور علما میں سے تھے ان کی قبر قصبہ کے پچھم کے پنجہ کے روضہ کے جنوبی دیوار کے مغربی گوشہ میں ہے. (اب یہ اس سے جنوب میں بالکل ملی ہوئی ہے) ان کی وفات 21 جمادی الاولی 1311 ھ کو ہوئی قبر کے سرہانے بہت بڑا پتھر نصب ہے جس پر یہ تاریخی اشعار درج ہیں:


اشعار کتبہ

تاریخ از تصنیف جناب مولوی 
سید محمد صاحب دام ظلہ

مولوی جان محمد کہ نظیرش بجہاں
چشم گردوں ہمہ دید و ہمہ دانست محال
عالم و معدن اخلاق و عزیز دلہا
زاہد و عابد و دین پرور و بوزر بہ شعال
یک جہاں شاہد فضلش ہمہ خاص و ہمہ عام
در کمالش بہ کی ہیچ نہ قیل است نہ قال
بود بست و یکم از ماه جمادی الاولیٰ
کرد آہنگ سفر جانب رب متعال
یا الہی بجناں مسکن طیب باشد
ایں دعا از من و آمین ز بسمک تا بہ ہلال
آثم این مصرعہ تاریخ بہ قبرش بنوشت
شد بفردوس جناں راہ نما پیرو آل
سنہ 1311 ھ کتبہ حسن بخش

صاحب شجرہ طیبہ مولانا اظہری مبارکپوری نے آپ کے بارے میں تحریر کیا ہے جو مولانا مرتضی حسین صاھب کی تالیف مطلع الانوار سے اخذ کیا گیا ہے.
چودہویں صدی کے آغاز میں قصبہ مبارکپور ضلع اعظم گڑھ میں جن اساتذہ نے تعلیمی ترقی میں سب سے زیادہ جام کیا وہ ہیں مولوی جان محمد صاحب ان کے قاءم کردہ مدرسہ میں شیعہ سنی طلبہ سب پڑھتے تھے اور مولوی صاحب یر ایک سے وہ سلوک کرتے تھے کہ طلبہ ان سے بدل و جان محبت کرتے تھے اور زندگی ان کے احترام و تلمّذ پر فخر کرتے تھے ان کی روحانیت اور تقوی کے سب معترف تھے انہوں قصبہ میں قرآن مجید کی تعلیم کو عام کیا اور اپنے بچوں کو علوم دین کا ایسا درس دیا کہ اب تک ان کی اولاد میں علما موجود ہیں. ان کے پوتے مولانا شیخ جواد حسین صاحب صدر الفاضل مبلغ مدرسۃ الواعظین لکھنؤ ایک مدت دراز سے پنجاب و سرحد میں تبلیغ کے فرائض انجام دے رہے ہیں انہی اور پوتے مولانا شیخ علی حسین صاحب صدر الافاضل واعظ گجرات اور افریقہ (موريشش) میں تبلیغ دین کے خدمات انجام دیتے رہے ہیں.
ایک ہی نام کے ان دونوں علمائے دین کے بارے میں مولانا اظہری نے چھوٹے میاں صاحب اور بڑے میاں صاحب کی لفظیں تعیین کرنے اور شناخت کیلئے لکھی ہیں.


مولانا شیخ چراغ علی
آپ شیعہ اثنا عشری معلم و مبلغ کی حیثیت سے دور دراز کا سفر کر کے نوابین اودھ کے زمانہ حکومت میں مبارکپور آئے اور یہاں تبلیغ و تعلیم میں مشغول رہے اور اسی قصبہ کے ہو کر رہ گئے انہوں نے دینی تعلیم کا ایک مکتب قائم کیا تھا جس میں بچے قرآن و دینیات کی تعلیم حاصل کرتے تھے ان کے تعلق سے کسی دینی مدرسہ کی عمارت کا پتہ تو نہیں ملتا ہے لیکن قصبہ کے پچھم میں روضہ اور امام باڑہ کی تعمیر ضرور کی جو شاہ پنجہ کے نام سے مشہور ہے. اس میں دو روضے ہیں ایک میں ایک پتھر نصب ہے جس پر پنجہ بنا ہوا ہے یہ دونوں روضے بلندی پر بنے ہیں اس کے اتر جانب مسجد ہے اور اس کا ایک بڑا خوشنما احاطہ ہے جس میں قبرستان بھی ہے جو شیعہ اور سنی دونوں افراد کی میتوں کیلئے عام ہے چونکہ دور قدیم میں عموماً روضوں کے مجاور اہلسنت ہوا کرتے تھے اور شیعہ و سنی عصبیت بھی نہ تھی بلکہ رشتہ داریاں بھی ہوتی تھیں اور اہلسنت حضرات بھی اہلبیت (ع) سے عقیدت رکھتے تھے عزاداری کرتے تعزیہ نکالتے ماتم کرتے تھے لہذا روضوں پر بھی جاتے تھے تو انہیں مجاور بنا دیا جاتا تھا بعد میں جب مسلکی تعصب کو ہوا دی گئی تب بھی اہلسنت ہی مجاور رہے لیکن متعصبین نے ان مجاوروں کے توسط سے بہت سے مقامات پر روضوں اور امام باڑوں بلکہ مسجدوں تک پر قبضہ کر لیا شاہ پنجہ کہ مسجد کا حال بھی کچھ ایسا ہی ہوا ہے جو آج وہ اہلسنت کی عید گاہ قرار دی جاتی ہے محرم الحرام کے مرکزی جلوس تعزیہ و علم اسی روضہ شاہ پنجہ بڑھائے جاتے ہیں یوں تو صبح شام شیعہ حضرات زیارت و عبادت کیلئے یہاں آتے ہیں شب جمعہ میں مجالس کا سلسلہ برابر رہتا ہے اس کے وسیع و عریض احاطہ میں بلا اختلاف شیعہ سنی میتیں دفن کی جاتی ہیں اسی کے احاطہ میں مولوی جان محمد صاحب کی قبر اور مولانا فیاض حسین صاحب مبارکپوری مرحوم کی قبر نیز دوسرے معزز مومنین بھی دفن ہیں.


Post a Comment

To be published, comments must be reviewed by the administrator *

جدید تر اس سے پرانی