خمس كے اثرات و بركات آیات و روایات کی روشنی میں

Image by Capri23auto from Pixabay 


مومن کی زندگی میں خمس كي ادئیگی کے برکات و اثرات 


تحریر : محمد سالاری
مترجم: ابو دانیال اعظمی بُرَیر

خمس كے اثرات و بركات

اگر آیات و روایات کی تعبیرات جو كتابوں مذکور ہیں ان کو غور و فکر  کے ساتھ ديكهیں گے تو ہمیں خمس ادا کرنے کے منافع نيز بركات و اثرات بہت ہی زیادہ دکھائی دیں گے بعض جملے اور کلمے جو خمس کے فلسفہ کیلئے ذکر ہوئے ہیں ہم انہیں ترتیب وار ذیل میں مع حوالے کے تحریر کر رہے ہیں. 

الف: خصوصی فضل و کرم اور عنایات: 

جو کوئی بھی اہل خمس یعنی اپنی ہر آمدنی میں خدا و رسول نیز اہلبیت اور دیگر بندگان خدا  کے حصوں کو مد نظر رکھتے ہیں تو لازمی طور پر خدا و اولیاء بھی ان پر خصوصی فضل و کرم اور عنایات بھی فرماتے رہتے ہیں.

۱- مگر قرآن مجید میں اس آیت کی تلاوت نہیں کی: "فَأذکُرُونِی أَذکُرکُم وَأشکُرُوا لِی وَ لَا تَکفُرُون"
★ پس تم میرا ذکر کرو، تو میں تمہارا ذکر کروں گا اور میرا شکر ادا کرو اور کفران نعمت نہ کرو. (سورہ بقرہ: 152)
مال حرام کھانا یعنی انگارے کھانا ہے: "إِنَّ الَّذِينَ يَكتُمُونَ مَا أَنزَلَ اللهُ مِنَ الكِتَابِ وَ يَشتَرُونَ بِهِ ثَمَناً قَلِيلاً أُولٰئِكَ مَا يَأكُلُونَ فِي بُطُونِهِم إِلَّا النَّارَ وَ لَا يُكَلِّمُهُمُ اللهُ يَومَ القِيَامَةِ وَ لَا يُزَكِّيهِم وَ لَهُم عَذَاب أَلِيم"
★ بيشک جو خدا نے نازل کی ہیں انہیں چھپاتے ہیں اور اس کے بدلے تھوڑی سی قیمت لیتے ہیں یہی لوگ بس انگاروں سے اپنے پیٹ بھرتے ہیں اور قیامت کے دن خدا ان سے بات تک نہیں کرے گا اور نہ انہیں گناہوں سے پاک کرے گا اور انہی کیلئے دردناک عذاب ہے. (سوره بقره: 174)
مگر قرآن نے محسنين (نیکی کرنے والوں) سے محبت رکھنے كا حكم نہیں دی ہے: "وَ أَحسَنُوا إِنَّ اللهَ يُحِبُّ المُحسِنِين"
★ اور تم لوگ نیکی کرو اور بيشک اللہ احسان کرنے والوں سے محبت کرتا ہے. (سوره بقره: 195)
اجر و ثواب میں ایک نیکی کے بدلے میں سو گنا ملتا ہے: "مَثَلُ الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَموَالَهُم فِي سَبِيلِ اللهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنبَتَت سَبعَ سَنَابِلَ فِي كُلِّ سُنبُلَةٍ مِائَةُ حَبَّةٍ وَ اللهُ يُضَاعِفُ لِمَن يَشَآءُ وَاللهُ وَاسِع عَلِيم"
★ جو لوگ اپنے مال کو اللہ کہ راہ میں خرچ کرتے ہیں ان کے انفاق کی مثال اس دانہ کی سی ہے جیسے کہ سات بالیاں نکلیں اور ہر بالی میں سو دانے ہوں اور خدا جس کیلئے چاہتا ہے دونا کر دیتا ہے اور اللہ ہی بڑی گنجائش والا واقف کار ہے. (سوره بقرہ: 261)
۲- مگر قرآن میں یہ آیت نہیں پڑھی: "إِن أَحسَنتُم أَحسَنتُم لِأَنفُسِکُم وَ إِن أَسَأتُم فَلَهَا ..."
★ اگر تم نیکی کرو گے تو اپنی ذات کے ساتھ ہی نیکی کرو گے اوع اگر تم برے  عمل کرو گے تو بھی اپنے لئے ہی کرو گے. (سوره اسرا: 7)
۳- مگر قرآن میں نہیں پڑھتے: "إِذَا حُيِّيتُم بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِأَحسَنَ مِنهَا أَو رُدُّوهَا إِنَّ اللهَ كَانَ عَليٰ كُلِّ شَيءٍ حَسِيباً"
★ اگر کسی شخص نے تمہارے ساتھ کریمانہ سلوک کیا تو تم بهي اس سے بہتر طريقہ پر بلند مرتبہ اخلاق کے ساتھ سلوک کرو اسی کے مثل رد عمل ظاہر کرو کہ بیشک اللہ تعالی ہر چیز کا حساب کرنے والا ہے. (سورہ نساء: 86)
۴- مگر قرآن نے وعدہ نہیں کیا ہے: "يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن تَنصُرُ اللهَ يَنصُركُم و ثبت أقدامكم"
اے ایماندارو! اگر تم خدا کی مدد کرو گے تو خدا تمہاری مدد کرے گا اور تمہیں ثابت قدم رکھے گا. (سوره محمد: 7)
راہ خدا میں خرچ نہ کرنا ہی کنجوسی ہے اور اللہ تو غنی ہے: "هٰأَنتُم هٰؤُلَاءِ تُدَعَونَ لِتُنفِقُوا فِي سَبِيلِ اللهِ فَمِنكُم مَن يَبخَلُ وَ مَن يَبخَل فَإِنَّكُمَا يَبخَلُ عَن نَفسِهِ وَ اللهُ الغَنِيُّ وَ أَنتُمُ الفُقَرَاءُ وَ إِن تَتَوَلَّوا یَستَبدِل قَوماً غَيرَكُم ثُمَّ لَا يَكُونُوا أَمثَالَكُم"
★ دیکھو تم لوگ وہی تو ہو کہ جنہیں خدا کی راہ میں خرچ کرنے کیلئے بلائے جاتے ہو تو تم میں سے بعض ایسے بھی ہیں کہ جو بخیلی کرتے ہیں اور جو کنجوسی کرتا ہے تو وہ خود اپنے ہی سے بخل کرتا ہے اور خدس تو بے نیاز ہے اور تم اس کے محتاج ہو اور تم اس کے حکم سے منہہ پھیرو گے تو وہ تمہارے سوا دوسروں کو بدل دے گا اور وہ لوگ تمہاری طرح بخیل نہ ہوں گے. (سوره محمد: 38)
۵- اپنی پسندیدہ چیز کو اللہ کی راہ میں خرچ کرو: "لَن تَنَالُوا البِرَّ حَتّٰی تُنفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ وَ مَا تُنفِقُوا مِن شَيءٍ فَإِنَّ اللهَ بِهِ عَلِيم"
★ لوگو جب تک تم اپنی پسندیدی چیزوں میں سے کچھ راہ خدا میں خرچ نہ کرو گے ہرگز نیکی کے درجہ پر فائز نہیں ہو سکتے اور تم کوئی سی چیز خرچ کرو خسا تو اس کو ضرور جانتا ہے. (سوره آل عمران: 92)
خوشحالی اور فقیری میں بھی انفاق کرتے رہو: "اَلَّذِينَ يُنفِقُونَ فِي السَّرَّآءِ وَ الضَّرَّآءِ وَ الكَاظِمِينَ الغَيظَ وَ العَافِينَ عَنِ النَّاسِ وَ اللهُ يُحِبُّ المُحسِنِين"
★ جو خوشحالی اور کٹھن حالات کے وقت میں بھی اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اور غصہ کو روکتے ہیں اور لوگوں کی خطا سے در گذر کرتے ہیں اور نیکی کرنے والوں سے خدا محبت رکھتا ہے. (سوره آل عمران: 134)
اگر فقیر رہو گے تو اللہ اپنے فضل ق جرم سے انہیں غنی کر دے گا: "... إِن يَكُونُوا فُقَرَاء يُغنِهُمُ اللهُ مِن فَضلِهِ وَ اللهُ وَاسِع عَلِيم"
★ اگر وہ فقرا میں سے ہوں گے تو خدا اپنے فضل و کرم سے انہیں غنی کر دے گا. (سوره نور: 33)
نیکی کا اجر دس گنا دیا جائے گا: "مَنْ جاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ أَمْثالِها وَ مَنْ جاءَ بِالسَّيِّئَةِ فَلا يُجْزى‌ إِلَّا مِثْلَها وَ هُمْ لا يُظْلَمُونَ"
★ جس نے بھی ایک حسنہ و نیکی اللہ کی بارگاہ لایا پس اس کیلئے دس گنا حسنات و نیکیان ہیں اور جو ایک برائی بھی لائے گا تو اسی کے مثل اکہرہ بدلہ دیا جائے گا اور ظلم و زیادتی نہیں کی جائے گی. (سوره أنعام: 160)
جو اللہ کی بارگاہ میں نیکی لائے گا تو نیک اجر اور برائی لے کر جائے گا اسے ویسا ہی بدلہ دیا جائے گا: "مَنْ جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ خَيْرٌ مِنْهَا ۖ وَمَنْ جَاءَ بِالسَّيِّئَةِ فَلَا يُجْزَى الَّذِينَ عَمِلُوا السَّيِّئَاتِ إِلَّا مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ"
★ جو نیک عمل لایا اسے کئی گناہ نیک اجر ملے گا اور اگر برائی لایا تو اسی کے مثل بدلہ ملے گا جو کچھ عمل لائیں گے ویسا ہی کیفر پاؤ گے. (سوره قصص: 84)
نیک افعال انجام دیجئے شائد کہ فلاح مل جائے: "... وَافْعَلُوا الْخَيْرَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ"
★ اور افعال خیر انجام دیجئے شائد تمہیں نجات مل جائے. (سوره حج: 77)
اللہ و رسول پر ایمان لائیں، انفاق کریں گذشتہ امت کے وارث بنیں تو اجر عظیم کے حقدار ہو: "آمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَأَنْفِقُوا مِمَّا جَعَلَكُمْ مُسْتَخْلَفِينَ فِيهِ ۖ فَالَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَأَنْفَقُوا لَهُمْ أَجْرٌ كَبِيرٌ"
★ خدا و اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور جس کا تمہیں جانشین بنیا ہے اس میں انفاق کرو پس جو لوگ ایمان لائے اور انفاق کیا تو انہی کیلئے اجر عظیم ہے. (سوره حديد: 7)
مال کا صدقہ طہارت و تزکیہ کیلئے لیا جاتا ہے:  "خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ ۖ إِنَّ صَلَاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ ۗ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ"
★ (اے رسول) مومنین کے مال میں سے صدقات وصول کیجئے کہ اسی کے وسیلہ سے ان کے نفوس کو پاک و پاکیزی کیا جاتا ہے اور ترقی و برکت عطا کرتا ہے اور انہیں دعائے خیر میں یاد کرو کہ اپ کی دعا ان کے حق میں انہی کی تسلی و تشفی کا باعث ہوگی اوع خدا تو سننے والا آگاہ ہے. (سوره توبه: 103)
ایمان کے ساتھ اعمال صالحات کرنے والے کی خاطر ہی مغفرت و اجر عظیم ہے: "وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ ۙ لَهُمْ مَغْفِرَةٌ وَأَجْرٌ عَظِيمٌ"
★ اللہ نے ان سے وعدہ کیا ہے ان لوگوں سے جو ایمان لائے اور اعمال صالحات انجام دیتے رہتے ہیں انہی کیلئے مغفرت ہے اور اجر عظیم بھی ہے. (سوره مائده: 8)
مذكوره بالا آيات كے علاوه بهي بہت سی آیتیں ہیں جن سے ہم تلاش و جستجو کرنے پر آگاہ ہو سکتے ہیں.
الله كي راه ميں انفاق اور بندوں پر اللہ کی خوشنودی کیلئے خرچ کرنے پر خداوند عالم نے انفاق کا دس گنا یا پھر اس مال کے خلا کو پُر کرنے کا وعدہ فرمایا ہے اور کیا اجر و ثواب ہے وہ آپ حضرات ذیل کی آیات میں ملاحظہ کر سکتے ہیں:

ب: روایات معصومین (ع) میں اثرات و برکات

۱- نسل کے طیب و طاہر ہونے کا سبب ہے:

امام مهدی (عج) کی توقیع مبارک اسحاق بن یعقوب کے نام تحریر فرماتے ہیں:  "لتطیب ولادتهم ولا تخبث"
خمس اسی لئے قرار دیا ہے تا کہ ان کی ولادت طیب و طاہر ہو اور خباثت سے پرہیز کریں. (وسائل الشيعه 6/ 383/ أبواب أنفال، باب 7، حديث 16 و اصول الکافی 1/ 547)
خمس ادا کرنا پیدائش کے پاک و پاکیزہ اور نسل کی طیب و طاہر ہونے کا مقدمہ ہے. 

۲- دین کی تقویت کا باعث ہے:

امام رضا (ع) نے فرمایا: "الخمس عوننا علی دیننا" خمس ہم اہلبیت کے دین پر تمہاری اعانت و مدد ہے. (وسائل الشیعہ 9/ 538)

۳- وفاداری کی علامت ہے:

دوسرے لفظوں میں امام (ع) نے فرمايا: "المسلم من یفی اللہ بما عید إليه و ليس المسلم من أجاب باللسان و خالف بالقلب"
واقعی مسلمان وہ ہے کہ جو اپنے عہد و پيمان سے وفاداری کرتا ہے اور جو کوئی بھی زبان سے تو مثبت جواب دیتا ہے مگر دل میں ہی منفی جواب ہوتا ہے تو ایسا شخص حقیقی مسلمان نہیں ہے. (وسائل الشیعہ 9/ 538)

۴- امام کے عیال و موالی کی مالی تعاون ہے:

امام رضا فرماتے ہیں: "إن الخمس عوننا علي عيالتنا" و "عوننا علي موالينا"
خمس ہمارے عیال كي مالي اعانت ہے اور ہمارے دوستوں کیلئے مالی تعاون و امداد ہے. (وسائل الشیعہ 9/ 538 و الوافی 10/ 334)

۵- مال کے تزكيہ کا سبب ہے:

امام صادق فرماتے ہیں: "إني لآخذ من أحدكم الدرهم و إني لمن أكثر أهل المدينة مالا ما أرید بذلك إلا أن تطهروا"
میرا تم سے درہم لینے کا مقصد تمہارے مال کی پاکیزگی كے علاوه كچھ بھی نہیں ہے. جبکہ آج کے دور میں ہماری مالی حالت دوسروں سے بہت زیادہ بہتر ہے. (وسائل الشيعه 6/ 337، أبواب ما يجب فيه الخمس، باب 1، حديث 3 و وسائل الشیعہ 9/ 538)

۶- آمدني طیب و طاہر ہوتي ہے:

جو کوئی بھی ہمارا خمس ادا کرتا ہے تو بقیہ آمدنی اس کيلئے طیب و طاہر ہوتي ہے.
ایک اور حدیث میں امام صادق (ع) فرماتے ہیں: صحیحه حلبی «وَ بِإِسْنَادِهِ عَنْ سَعْدٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ إِسْمَاعِيلَ عَنْ صَفْوَانَ بْنِ يَحْيَى عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مُسْكَانَ عَنِ الْحَلَبِيِّ عَنْ أَبِي‌ عَبْدِ اللهِ (ع) فِي الرَّجُلِ مِنْ أَصْحَابِنَا يَكُونُ فِي أَوَانِهِمْ [كذا في الاصل و المخطوط، و في هامشه عن نسخة- (لوائهم).]
فَيَكُونُ مَعَهُمْ فَيُصِيبُ غَنِيمَةً قَالَ يُؤَدِّي خُمُسَنَا [في المصدر- خمسها.]
وَ يَطِيبُ لَهُ.» [وسائل الشیعة، 9/ 488، کتاب الخمس، باب 2، ح 8، طبع آل‌ البیت.]
رایت سے یہی ظاہر ہو رہا ہے کہ خلفائے عباسی کے زمانہ میں کوئی جنگ ہوئی کہ آنحضرت کا ایک صحابی نے بھی اسی جنگ میں شرکت کی تھی اور یہ جنگ امام کی اجازت کے بغیر ہوئی ہے اور کچھ مال غنیمت اس کے حصہ میں بھی ملا تو امام نے فرمایا: مال غنیمت میں سے خمس ادا کر دو تب بقیہ مال تمہارے لئے حلال ہے. پس امام نے اس عمل کے بجا لانے کا حکم تجویز فرمایا لیکن خمس تو دینا ہی چاہئے گا.

۷- مخالفین کے مقابل میں آبرو کی محافظ ہے:

امام رضا (ع) فرماتے ہیں: "و ما ننذله و نشتری من أعراضنا ممن نخاف سطوته"
خمس کے ذریعہ سے ہم اپنی اور اپنے حامیوں کی بھی عزت و آبرو کو مخالفین کے مقابلہ میں محفوظ رکھتے ہیں. (وسائل الشیعہ 9/ 538)

۸- خاندان رسالت کی غربت کو دور کرنے کا باعث ہے:

امام کاظم (ع) فرماتے ہیں: "جعل للفقراء قرابة الرسول نصف الخمس فأغناهم به عن صدقات الناس"
خداوند عالم نے خمس میں سے نصف حصہ رسول اكرم (ص) کے قرابت داروں کی غربت و فقیری کو دور کرنے کیلئے قرار دیا ہے کیونکہ انہیں زکات و صدقات سے محروم كر رکھا ہے. (وسائل الشیعہ 9/ 514)

۹- گناہوں کا کفارہ اور محشر کا ذخیرہ ہے:

امام رضا (ع) فرماتے ہیں: "فإن إخراجه … تمحيص ذنوبكم و مت تمهدون لأنفسكم ليوم فاقتكم"
مال کا خمس ادا کرنا، گناہوں کی مغفرت اور قیامت کیلئے ذخیرہ اندوزی ہے کہ جس روز تم محتاج ہو گے. (وسائل الشیعہ 9/ 538)

۱۰- بہشت کی ضمانت ہے:

ایک شخص امام پنجم (ع) کی خدمت میں آیا اور اپنے مال کا خمس ادا کیا تو امام (ع) نے فرمایا: "ضمنت لك عليّ و علی أبی الجنة"
مجھ پر اور میرے والد پر لازم ہیکہ تیرے لئے بہشت کی ضمانت لوں. (وسائل الشیعہ 9/ 528)

۱۱- امام کی دعا شامل حال رہتی ہے:

جیسا کہ روایت میں منقول ہے: "لا تحرموا أنفسکم دعائنا ا قدرتم علیه"
امام رضا (ع) فرماتے ہیں: خمس ہماری مدد دین کی محافظت کیلئے ہے. پھر فرمایا جہاں تک ہو سکے تم خود اپنے آپ کو ہماری دعاوں سے محروم نہ رکھو. (وسائل الشیعہ 9/ 538)

۱۲- رزق کی کنجی ہے:

جیسا کہ روایت میں منقول ہے: "فان إخراجه مفتاح رزقكم"
امام رضا (ع) فرماتے ہیں: خمس ادا کرنا تمہارے رزق کی کنجی ہے. (وسائل الشیعہ 9/ 538)

۱۳- منظم و سرمایہ میں حساب:

جو کوئی سال کا حساب کرتا ہے اور خمس ادا کرتا ہے تو حقیقت میں وہ شخص منظم طور پر دقیق حساب کرنے والا ہے اور اس کی آمدنی کا راز و معین و مقرر ہے. 
امام باقر (ع) فرماتے ہیں: «الکَمالُ کُلُّ الکَمالِ اَلتَفَقَّهُ في الدّين وَالصَّبرُ عَلی النائِبَة وَالتَقديرِ المَعيشَة»
سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ دین کی پہچان میں غور و فکر کرنا، ناپسند امور پر صبر کرنا اور زندگی کو منظم و مرتب کرنا ہے.
(اصول كافي: 1/ 32، طبعة دار الكتب الإسلامية، سنة: 1365 هجرية / شمسية، طهران / إيران، و تحف العقول، باب ما روي عن الإمام محمد بن علي الباقر (ع) و بحار الانوار، 78/ 172)
جی ہاں: جو شخص بھی خمس ادا کرنے کے ساتھ خدا و رسول (ص) اور امام (ع) کا حق ادا کرتا ہے تو حقیقت میں وہ مذکورہ بالا تمام آیات میں شامل ہوتا ہے. کیونکہ اس نے خدا کو بھی یاد کیا، نیکی بھی کی، اولیائے خدا اور محرومیں کا بھی اکرام کیا اور دین کی بھی حمایت و مدد کی ہے اور یہ سب پاتا ہے صرف % 20 اپنی سالانہ بحت کے مقابلہ میں بہت ہی بڑی كاميابي و کامرانی ہے اور % 80 پروردگار عالم کی طرف سے انسان کو پاک و پاکیزہ مال عنایت کیا جاتا ہے جو کسی ملاوت و گندگی سے دور بھی ہے نیز اللہ ہی کی رضا سب سے بڑی کامیابی ہے.

آخر میں امام رضا (ع) کا وہ مکمل خط جو آنحضرت نے فارس کے تاجروں کے سوال کے جواب میں تحریر کیا تھا نقل کر رہے ہیں تا کہ مومنین کرام کے سامنے ایک دستور العمل بن کر ذہنوں میں قائم و دائم رہے:

[12665] 2- وعن محمد بن الحسن (في الكافي: محمد بن الحسين...) وعن علي بن محمد جميعا عن سهل، عن أحمد بن المثنى، عن محمد بن زيد الطبري (في التهذيبين: محمد بن يزيد الطبري.) قال: كتب رجل من تجار فارس من بعض موالي أبي الحسن الرضا عليه السلام يسأله الأذن في الخمس، فكتب إليه:
بسم الله الرحمن الرحيم إن الله واسع كريم، ضمن على العمل الثواب، وعلى الضيق (في التهذيب والمقنعة: وعلى الخلاف العقاب (هامش المخطوط).) الهم، لا يحل مال إلا من وجه أحله الله (قوله "لا يحل مال الا من وجه أحله الله": فيه اشعار بأصالته التحريم حتى تثبت الإباحة أو بالتوقف وعدم الجزم بالإباحة كما يأتي في القضاء. (منه قده).)، إن الخمس عوننا على ديننا وعلى عيالاتنا وعلى موالنا (في المصادر: موالينا.) وما نبذله ونشتري من أعراضنا ممن نخاف سطوته فلا تزووه عنا، ولا تحرموا أنفسكم دعاءنا ما قدرتم عليه فان إخراجه مفتاح رزقكم، وتمحيص ذنوبكم وما تمهدون لأنفسكم ليوم فاقتكم، والمسلم من يفي لله بما عهد إليه، وليس المسلم من أجاب باللسان وخالف بالقلب. والسلام. (وسائل الشيعة (آل البيت) 9/ 538)

(مذكوره بالا خط كا ترجمه بهي حاضر خدمت ہے.)
ذیل میں مزید درج بالا روایات کو تفصیل کے ساتھ نقل کیا جا رہا ہے:

[١٢٦٠٧] ٨ - وعنه، عن أبيه، عن حماد بن عيسى، عن بعض أصحابنا، عن العبد الصالح عليه السلام قال: الخمس من خمسة أشياء: من الغنائم والغوص ومن الكنوز ومن المعادن والملاحة، يؤخذ من كل هذه الصنوف الخمس فيجعل لمن جعله الله له وتقسم الأربعة الأخماس بين من قاتل عليه وولي ذلك، ويقسم بينهم الخمس على ستة أسهم: سهم لله، وسهم لرسول الله صلى الله عليه وآله وسلم، وسهم لذي القربى، وسهم لليتامى، وسهم للمساكين، وسهم لأبناء السبيل، فسهم الله وسهم رسول الله لأولى الأمر من بعد رسول الله وراثة، وله ثلاثة أسهم: سهمان وراثة، وسهم مقسوم له من الله، وله نصف الخمس كملا، ونصف الخمس الباقي بين أهل بيته، فسهم ليتاماهم، وسهم لمساكينهم وسهم لأبناء سبيلهم، يقسم بينهم على الكتاب والسنة (في التهذيب: الكفاف والسعة (هامش المخطوط). - إلى أن قال: - وإنما جعل الله هذا الخمس لهم دون مساكين الناس وأبناء سبيلهم عوضا لهم من صدقات الناس تنزيها من الله لهم لقرابتهم برسول الله (ص)، وكرامة من الله لهم عن أوساخ الناس، فجعل لهم خاصة من عنده ما يغنيهم به عن أن يصيرهم في موضع الذل والمسكنة، ولا بأس بصدقات بعضهم على بعض وهؤلاء الذين جعل الله لهم الخمس هم قرابة النبي (ص) الذين ذكرهم الله فقال: ﴿وأنذر عشيرتك الأقربين﴾ (الشعراء ٢٦: 214.) وهم بنو عبد المطلب أنفسهم الذكر منهم والأنثى، ليس فيهم ...وسائل الشيعة (آل البيت) 9/ 513
من أهل بيوتات قريش ولا من العرب أحد، ولا فيهم ولا منهم في هذا الخمس من مواليهم وقد تحل صدقات الناس لمواليهم وهم والناس سواء ومن كانت أمه من بني هاشم وأبوه من سائر قريش فإن الصدقات تحل له وليس له من الخمس شئ، لأن الله يقول: ﴿ادعوهم لآبائهم﴾ (الأحزاب ٣٣: ٥.) - إلى أن قال: - وليس في مال الخمس زكاة لأن فقراء الناس جعل أرزاقهم في أموال الناس على ثمانية أسهم، فلم يبق منهم أحد، وجعل للفقراء قرابة الرسول صلى الله عليه وآله نصف الخمس فأغناهم به عن صدقات الناس وصدقات النبي صلى الله عليه وآله وسلم وولي الأمر فلم يبق فقير من فقراء الناس ولم يبق فقير من فقراء قرابة رسول الله صلى الله عليه وآله إلا وقد استغنى فلا فقير، ولذلك لم يكن على مال النبي والولي زكاة لأنه لم يبق فقير محتاج، ولكن عليهم أشياء تنوبهم من وجوه (في التهذيب زيادة: كثيرة (هامش المخطوط).)، ولهم من تلك الوجوه كما عليهم.
محمد بن الحسن باسناده عن علي بن الحسن بن فضال، عن علي بن يعقوب، عن أبي الحسن البغدادي (في نسخة: علي بن يعقوب أبو الحسن البغدادي (هامش المخطوط).) عن الحسن بن إسماعيل بن صالح الصيمري، عن الحسن بن راشد، عن حماد بن عيسى نحوه (التهذيب ٤/ ١٢٨/ ٣٦٦ و الاستبصار ٢/ ٥٦/ ١٨٥.) وسائل الشيعة (آل البيت) ٩/ ٥١٤

[١٢٦٣٧] ١٣ - وبإسناده عن الحسين بن سعيد، عن محمد بن أبي عمير، عن الحكم بن علبا الأسدي - في حديث - قال: دخلت على أبي جعفر عليه السلام فقلت له: إني وليت البحرين فأصبت بها مالا كثيرا، واشتريت متاعا، واشتريت رقيقا، واشتريت أمهات أولاد وولد لي وأنفقت، وهذا خمس ذلك المال، وهؤلاء أمهات أولادي ونسائي قد أتيتك به؟ فقال:
أما إنه كله لنا وقد قبلت ما جئت به، وقد حللتك من أمهات أولادك ونسائك، وما أنفقت وضمنت لك - علي وعلى أبي - الجنة.
ورواه المفيد في (المقنعة) عن محمد بن أبي عمير مثله (المقنعة: ٤٥.). وسائل الشيعة (آل البيت) 9/ 528)

Post a Comment

To be published, comments must be reviewed by the administrator *

جدید تر اس سے پرانی