یحیی بن عبد الله محض کون ہیں اور سید حسنی کیسے شهید ہوئے؟


امام حسن (ع) کے پر پوتے یحیی بن عبد الله محض حسني کو هارون الرشید کے دستور سے هی شهید کیا تھا.

سوال : یحیی بن عبد الله محض کون ہیں اور کیسے شهید ہوئے؟


مترجم : ابو دانیال اعظمی بُرَیر


تفصیلی جواب:


«یحییٰ بن عبد الله مَحض بن حسن مُثَنّیٰ بن حسن سبط اکبر بن علی بن أبیطالب (ع) هاشمی قرشی» امام حسن (ع) کے پر پوتے اور خاندان بنی ہاشم کی ایک بزرگ ہستی نیز ممتاز اور اعلی مقام کے حامل فرد شمار ہوتے تھے اور چھٹے امام جعفر صادق (ع) کے خاص اصحاب میں گنے جاتے تھے اور آنحضرت (ع) کی توجہ کا مرکز بھی تھے. (ابو الفرج‏ الاصفهانى، مقاتل الطالبين، نجف، منشورات ‏المكتبه الحيدريه، 1385 هـ.ق، ص 308؛ مرحوم كلينى در كتاب كافى 1/ 366)

یحیی بن عبد اللہ محض کی طرف سے ایک خط جو امام موسی بن جعفر کاظم (ع) کو خطاب کرتے ہوئے لکھا گیا اسے ہی نقل کرتے ہیں کہ جس میں یحیی حسنی نے آنحضرت (ع) کو اور آپ کے پدر بزرگوار امام صادق (ع) کو تنقید کا نشانہ قرار دیا اور امام (ع) نے بھی سخت جواب مرحمت فرمایا ہے. جسے خود مرحوم علامه مامقانى نے اپنی کتاب میں نقل فرمایا ہے. (تنقيح المقال، تهران، انتشارات جهان، جلد 3، ماده يحيى)

اسی خط کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں: اس روایت کی سند نا قابل انکار ہے لیکن اس روایت کا مضمون کچھ چیز کی مخالفت بھی ہے کہ جہاں تک ہم یحیی کے بارے میں اطلاع رکھتے ہیں. (یعنی شائد راویوں سے غلطی ہوئی ہے) لیکن «حياۃ الامام موسى بن جعفر (ع)» کتاب کے مولف بعض دلائل سے ثابت کرتے ہیں کہ یہ روایت قابل اعتماد ہرگز نہیں ہے کیونکہ سب سے پہلے بات تو یہ ہے کہ یہ روایت مرسل ہے اور دوسری بات یہ کہ سند میں ایسے افراد ہیں جو غیر معروف ہیں اور ان لوگوں کا نام ہی کتب رجاک میں کہیں پر بھی نہیں ملتا. (حياة الامام موسى بن جعفر (ع) ط2، نجف، مطبعه الآداب، 1390ھ، 2/ 99)

يحيي حسني بهي واقعۂ فخ کی تحریک میں «شهيدِ فَخ حسین بن علی بن حسن مُثَلَّث بن حسن مُثَنّیٰ بن حسن سبط اکبر (ع)» کے ساتھ ظالم عباسی حکومت کے خلاف شریک تھے اور شہید فخ کی فوج کے بڑے سرداروں میں شمار کئے جاتے تھے جبکہ تحریک ناکام ہو گئی تھی اور شہید فخ حسین بن علی حسنی کی شہادت کے بعد ایک گروہ کے توسط سے «ديلم» کے علاقہ کی طرف چلے گئے اور وہیں پر اپنی فعالیت جو بھی جاری رکھا. وہاں کے لوگوں کے ساتھ مل کر ایک قابل قدر منظم قوت بن گئے. ہارون عباسی نے «فضل بن يحيى برمكى» کو ایک سپاہیوں کی فوج کے ساتھ «ديلم» بھیجا فضل بھی دیلم وارد ہوتے ہی ہارون کے دستور کے مطابق مراسلہ کا ایک سلسلہ شروع کیا جس میں کچھ لبھانے والے وعدے دیا اور ان کے سامنے امان کی بھی تجویز رکھی گئی. ادھر  یحیی بھی ہارون و فضل کے وعدوں کے جھانسے کے اثر کی بنا پر اپنے حامیں کو تتر بتر اور متفرق و پراگندہ دیکھ رہے تھے کہ مجبوراً امان کو قبول کرنے پر راضی ہوئے. پھر خود ہارون نے اپنے ہاتھوں سے ہی ایک امان نامہ لکھا اور سرداروں کی جماعت کو اس امان نامہ پر گواہ بھی قرار دیا تب یحیی بغداد میں وارد ہوئے. ہارون نے تو ابتدا میں تو مہربانی اور نرمی سے سلوک کیا اور انہیں بہت سا مال و زر سپرد کیا لیکن خفیہ طور پر ان کے قتل کی سازش کرتا رہا اور انہیں متہم کیا کہ مخفی طور پر لوگوں کو اپنے اطراف جمع کیا اور عباسی سلطنت کے خلاف قیام کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں. چونکہ انہیں امان نامہ تاکیدی اور صریحی دیا گیا تھا لہذا انہیں آسانی سے قتل کرنا بھی مقدور نہ تھا اسی وجہ سے اس نے مصمم ارادہ کیا کہ امان نامہ کو توڑنے کیلئے فقہا سے فتوا حاصل کیا جائے اسی لئے اپنے اقدام کو شرعی طور پر جائز کرنے کی خاطر اس سازش کو اپنایا گیا. لہذا فقہا و قضات پر مشتمل ایک مجلس شورا مرتب کی گئی جس میں مذکورہ افراد شامل ہوئے:  «محمد بن حسن شيبانى»، «حسن بن زياد لؤلؤى»، و «ابو البَخْتَرى» (اس کا نام «وهب بن وهب ابو البخترى قرشى مدنى» ہے جو بغداد میں سکونت رکھتا تھا اور مہدی عباسی کی خلافت کے دور میں کچھ مدت کیلئے فوجی عدالت میں قاضی کے عہدہ پر فائز تھا اور پھر مدینہ میں بھی قاضی کے عہدہ پر مامور رہا. ابو البخترى ایسا فرد تھا جس میں انحراف، منافقت اور کذب و جھوٹ کے صفات بھی پائے جاتے تھے اور اس زمانہ کے بزرگ صاحبان علم حدیث کی نطر میں اس کی احادیث کی کوئی بھی قدر و قیمت اور اعتبار نہیں ہوا کرتا ہے.

(شمس‏ الدين ‏الذهبى، محمد، ميزان الاعتدال فى نقد الرجال، ط 1، قاهره، مطبعه السعاده، 1325 هـ.ق، 3/ 278

ایسے ہی افراد پر مشتمل تفتیشی کمیٹی بنائی گئی تا کہ اس امان نامہ کے صحیح اور باطل ہونے کے بارے میں اظہار نظر رائے دے سکے.

(يحيى بن عبد الله محض پہلے سے ہی اس امان نامہ کو «مالک بن انس» اور دیگر فقہائے عظام کی خدمت میں پیش کر چکے تھے اور انہی لوگوں سے امان نامہ کے معتبر ہونے اور صحیح ہونے کے بارے میں تائید و تصدیق کرا چکے تھے.)

جیسے ہی قضاوت کیلئے شورا تشکیل ہوئی تو سب سے پہلے «محمد بن حسن» نامی دانشمند کسی حد تک کرامت نفسی کی صفت کا حامل تھا اور اپنے استاد «ابو يوسف» کی طرح عباسی حکمران ہارون کے ہاتھوں فروخت نہیں کر رکھا تھا. (امين، احمد، ضحى الاسلام، ط 7، قاهره، مكتبه النهضه المصريه، 2/ 203.)

ابو یوسف کے شاگرد نے جب اس امان نامہ کا مطالعہ کیا اور کہا: یہ امان نامہ صحیح اور تاکیدی ہے لہذا اسے نقض کرنے یعنی توڑنے اور رد کرنے کی کوئی بھی سبیل ہرگز موجود نہیں ہے. (امين، احمد، ضحى الاسلام، ط 7، قاهره، مكتبه النهضه المصريه، 2/ 204.)

ابو البختری نے اسے لیا اور ایک نظر دیکھا اور کہا: یہ امان نامی سراسر باطل اور نا قابل اعتبار ہے! يحيى نے خلیفہ کے خلاف قیام کیا اور کچھ لوگوں کا کون بھی بہایا ہے لہذا اسے قتل کر دو اس کی ذمہ داری میری گردن پر ہے! ہارون اس نا قابل یقین صورت حال میں بیان کردہ فتوا پر بہت خوش ہوا! اور اس نے کہا: اگر امان نامہ باطل ہے تو اسے اپنے ہی ہاتھوں پھاڑ ڈالو. تب ابو البخترى نے اس تحریر پر تھوکا اور اسے پھاڑ دیا! ہارون نے 16 لاکھ (درهم)  اسے بطور انعام دیا پھر اسے ہی اس خدمت کے بدلہ میں اپنے ادارہ عدلیہ میں قاضی القضات کے عہدہ سے بھی نوازا.! (شريف القرشى، باقر، حیاۃ الامام موسى بن جعفر (ع)، ط 2، نجف، مطبعه الآداب، 2/ .100 نیز مزید معلومات کیلئے مذکورہ کتاب کی طرف رجوع كیجئے: دكتر الوردى، نقش وعاظ در اسلام، ترجمه محمد على خليلى، تهران، انتشارات مجله ماه نو، ص 52.)

ادھر «محمد بن حسن» کو اپنے صحیح اظہار خیال کے جرم میں مدتوں فتوا دینے کی ممانعت برقرار رہی. (اس کے علاوه ان کو قاضی کے عہدہ سے بھی سبکدوش کر دیا گیا. (مصری، امين، احمد، ضُحىٰ الاسلام، ط 7، قاهرة، مكتبة النهضة المصرية، 1/ 204.))

اور اسی شورائے قضا کے خود ساختہ فیصلہ کے مطابق یحیی حسنی کو بھی قتل کر دیا گیا. (يحيى کے قتل کے سلسلہ میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے. (شريف القرشى، باقر، حیاۃ الامام موسى بن جعفر، ط 2، نجف، مطبعة الآداب، 2/ 100). 

«يعقوبى» اپنی کتاب میں تحریر کرتا ہے: يحیی نے بھوک کی شدت کی بن  پر قید خانہ میں اپنی جان خالق حقیقی کے سپرد کر دی. جو لوگ یحیی حسنی کے ساتھ زندان میں قیدی تھے ان ہی میں سے ایک شخص کا یہی کہنا ہے: ہم اور یحیی ایک ہی زندان میں قید تھے اور ہم دونوں ہی آس پاس ہی قید خانہ بند تھے اور کبھی کبھار میرے اور یحیی ایک چھوٹی سی دیوار کی پشت حد فاصل رہا کرتی تھی اور مجھ سے گفتگو بھی ہو جایا کرتی تھی. انہوں نے ایک روز کہا: آج ۹ دن گزر گئے ہیں کہ مجھے کھانا پینا میں کچھ بھی نہیں دیا ہے! لہذا دسویں روز خاص مامور یحیی کے قید خانہ میں وارد ہوتا ہے اور ان کے زندان کی باریک بینی سے تلاشی لہ جاتی ہے پھر سید حسنی کے جسم سے لباس تک اتار لیا گیا اور بدن کی بھی باریکی سے تلاشی لی جاتی ہے تو زیر جامہ سے ایک نیزار کی لکڑی ملتی ہے کہ جس کے اندر روغن بھرا ہوا تھا.

(گويا کہ يحيى کبھی کبھی جب بھوک کی شدت میں اضافہ ہوتا تھا تو اسی سے کچھ مقدار میں روغن پی لیا کرتے تھے اور اسی کے توسط سے بھوک و پیاس کا سد باب کیا کرتے رہے ہیں.).

مأمور شخص نے وہ نیزار کی لکڑی ان سے ضبط کر لیا اور پیچھے یحیی کا بے حس جسم زمیں پر گر پڑا اور انہوں نے اپنی جان کو جان آفرین کے حوالہ کر دیا! (تاريخ يعقوبى، نجف، منشورات‏ المكتبه الحيدريه، 1384 هـ.ق، 3/ 145).)

(منقول از کتاب:

"سیره پیشوایان"

مهدی پیشوایی، موسسه امام صادق (ع) قم،

1390هـ.ش، ص 443.

تاریخ نشر: «1392/03/21»


مزید مربوط مطالب

  1. ۱- حسین بن علی مشهور بشهید فخّ

  2. ۲- هادی عباسی کا تعارف

  3. ۳- مهدی عباسی کی عیاشی اور ظلم و ستم کی داستان

  4. ۴- احوال ابن سکيّت

  5. ۵- خلیفه عباسی معتمد

  6. ۶- خلیفه عباسی مهتدي

Post a Comment

To be published, comments must be reviewed by the administrator *

جدید تر اس سے پرانی