Ballandalus Cor prudens possidebit scientiam
اصول دین یعنی دین کی جڑیں
مقابل فروع دین یعنی دین کی شاخیں ہے
اصول دین کے مندرجات کی فهرست
۱- وجہ تسمیہ یعنی نام رکھنے کی علت
۲- اصول کی اصطلاح کا وضع کرنے والا
۳- احادیث میں اصول دین
۴- دین کی تقسیم اصول و فروع میں
۵- ابتدا کی تاریخ
۶- اصول دین پر عقیدہ کی نوعیت
۶.۱- خدا کی معرفت کا واجب ہونا
۶.۱.۱- معتزله اور امامیه کے متکلمین کا نظریہ
۶.۱.۲- معتزله اور امامیه کی دلیل
۶.۱.۳- مشهور اشاعره
۶.۱.۴- مشهور اشاعره کی دلیل
۷- معتزله کا نظریہ
۸- اشاعره کا نظریہ
۹- امامیه کا نظریہ
۹.۱- مشهور عقیدہ
۹.۲- شیخ طوسی کا عقیدہ
۹.۳- بعض کلامی کتابیں
۹.۴- علامه مجلسی کا عقیدہ
۹.۵- جمهور متکلمین کا نظریہ
۹.۵.۱- توحید
۹.۵.۲- عدل
۹.۵.۳- نبوت
۹.۵.۴- امامت
۹.۵.۵- معاد
۱۰- اصول دین کا انکار کرنا
۱۱- اصول دین میں تقیه کرنا
۱۲- فهرست کتب مصادر
۱۳- منبع
اصول دین کیا ہے.؟
اُصولِ دین یعنی دین کی جڑیں (فروع دین یعنی دین کہ شاخوں کے مقابلہ میں)، ایک علم کلام کی اصطلاح ہے کہ اکثر دینی مسلمان دانشمندوں کی نظر میں عقیدہ کے مجموعہ کا نام رکھا جاتا ہے کہ جو دین اسلام کی بنیاد کو تشکیل دیتا ہے اور ایک مسلمان اس راستہ کو طے کئے بغیر مسلمان ہو ہی نہیں سکتا اور ان میں سے کسی ایک کا بھی انکار کرنا کفر کا سبب ہو گا اور عذاب و عقاب کا مستحق قرار پائے گا.
اصول دین نام رکھنے کی وجہ کیا ہے؟
اس اصطلاح کے وضع کرنے والوں نے اس لئے ان اعتقادات کو اصول دین کا نام رکھا ہے کہ ان لوگوں کی نظر میں علوم دین جیسے حدیث، فقہ اور تفسیر پر ہی مبتنی ہے. دوسرے الفاظ میں علوم دین متوقف ہیں صداقت رسولخدا (ص) اور آنحضرت (ص) کی صداقت انہی اصول کی معرفت پر متوقف ہے. [علامه حلی، حسن، شرح باب حادی عشر، ۱/ ۴، تهران، ۱۳۷۰ش.] [علامه حلی، حسن، شرح باب حادی عشر، ۱/ ۶، تهران، ۱۳۷۰ ش.]
بہر حال انہوں نے دین کو ایک درخت کے مثل سمجھا ہے کہ جس کی جڑیں بھی ہوتی ہیں یعنی اصول دین کے درخت کی حیات و زندگی ان ہی جزوں کے وجود کی بنا پر منحصر ہے. اور اس کی شاخیں اور پتے بھی ہوتے ہیں یعنی فروع دین کہ جس کے نہ ہونے یا کم و زیاد ہونے سے اس درخت کی حیات کو کوئی بھی نقصان نہیں پہونچتا ہے. [میرزای قمی، ابو القاسم، اصول دین، ۱/ ۵، به کوشش رضا استادی، تهران، مسجد جامع.]
اس اصطلاح کا وضع کرنے والا کون ہے.؟
کتاب و سنت میں اصول دین کا ذکر نہ ہونا:
اس کے باوجود کہ اس اصطلاح نے بہت شہرت حاصل کر رکھی ہے اور اسلام میں دینی افکار کی تاریخ کا ایک برجستہ نقش کا کردار ادا کیا ہے لیکن قرآن کریم میں نیز شیعہ اور اہلسنت احادیث میں اسی عنوان سے معارف دینی میں کوئی بھی تقسیم بندی اصول دین اور فروع دین کے نام سے موجود نہیں ہے (بلکہ اس طرح کی مخصوص اصطلاح کا ہی وجود نہیں پایا جاتا.) اور یہی امر اس بات کی نشان دہی کرتا ہے نیز ہمیں پتہ دیتا ہے کہ ان دو اصطلاح کو بعض متکلمین نے ہی وضع کیا ہے.
احادیث میں اصول دین کیا ہیں.؟
یہ بات بھی قابل ذکر نہ رہے کہ احادیث میں کہیں کہیں اسلام کے بنیاد پر دلالت کرنے والی چند روایات بھی نظر آتی ہیں. مثلا
★ پیغمبر اکرم (ص) نے ایک حدیث میں بیان فرمایا ہے: اسلام ۵ ستونوں پر قائم ہے:
۱- توحید اور نبوت رسولخدا کی گواہی دینا
۲- نماز قائم کرنا
۳- زکات ادا کرنا
۴- حج بجا لانا
۵- ماہ رمضان کے روزے رکھنا [بخاری، محمد، صحیح، ۱/ ۸، استانبول، ۱۹۸۱ م.]
★ پھر ایک اور حدیث میں امام صادق (ع) سے سوال ہوا: اسلام کی بنیاد کن چیزوں پر ہے؟ اور وہ کونسے امور ہی کہ جن کی معرفت ہر مسلمان کو رکھنی چاہئے اور کسی مسلمان کو بھی اس میں قصور نہیں کرنا چاہئے اور جو شخص بھی اس کی معرفت حاصل کرنے میں کوتاہی کرے گا تو اس کا دین فاسد ہو جائے گا اور خداوند عالم بھی اس کے عمل کو قبول نہیں کرے گا. جبکہ اس کے بر عکس اگر کوئی شخص ان کی معرفت رکھتا ہے اور ان ہی پر عمل بھی کرتا ہے تو اس کا دین سلامت ہے اور اس کے اعمال قبول ہو جائیں گے؟
امام (ع) نے جواب میں ان امور کو شمار کروایا:
۱- توحید اور نبوت رسولخدا کی گواہی دینا
۲- جو کچھ اللہ کی طرف سے آیا ہے اس کا اقرار کرنا
۳- زکات ادا کرنا
۴- ال محمد (ع) کی ولایت اسی ایک کو ان (تینوں) کے درمیان خاص مقام حاصل ہے. [کلینی، محمد، الاصول من الکافی، ۲/ ۱۹-۲۰، به کوشش علی اکبر غفاری، تهران، ۱۳۸۸ ق.]
★ امام باقر (ع) سے ایک حدیث میں نقل ہوا ہے: اسلام کے ۵ ستون ہیں:
۱- نماز قائم کرنا
۲- (ماہ رمضان کے) روزے رکھنا
۳- زکات ادا کرنا
۴- حج بجا لانا
۵- ولایت کہ اسی ولایت کو تمام امور میں اہمترین قرار دیا ہے [کلینی، محمد، الاصول من الکافی، ۲/ ۱۸، به کوشش علی اکبر غفاری، تهران، ۱۳۸۸ق.]
ان احادیث کو ائمہ شیعہ سے نقل کیا گیا ہے - صدور کے صحیح ہونے کی صورت میں - ہمیں یہی پتہ دیتا ہے کہ کم از کم دوسری صدی ہجری / آٹھوین صدی عیسوی سے مربوط ہے کہ جس میں یہ سوچ و خیال موجود رکھتے رہے ہیں کہ دین اسلام کے معارف کا بعض حصے اس طرح کے ہیں کہ جن پر عقیدہ نہ رکھنا دین کے انکار كا لازمہ ہے لیکن بعض دیگر معارف کے حصوں پر اس شکل میں عقیدہ نہیں رہا ہے.
دین کی تقسیم اصول و فروع میں کیوں ہے.؟
دین کے اصول اور فروع میں تقسیم بندی کی مخالفت
بعض مسلم دانشمندوں نے جیسے ابن تیمیہ (د ۷۲۸ ق/۱۳۲۸ م) کہ جو بنیادی طور پر علم کلام، علوم عقلی اور فلسفی کو دین اور دینداری کا مخالف تصور کرتا ہے اور اسی سلسلہ میں یہ سخت شدت پسندی کا نطریہ رکھتا ہے اس لئے کہ اصول دین کی تعبیر کا قرآن و حدیث سے کوئی بھی تعلق نہیں ہے. اس طرح کی اصطلاح وضع یا استعمال یا بنانا پیغمبر (ص) کی تعلیمات کی مخالفت شمار کرتا ہے.
ابن تیمیہ اپنی کتاب "موافقة صحیح المنقول لصریح المعقول" میں مذکورہ اصطلاح کی مخالفت میں اپنی دلیلوں کو اس طرح رقم کرتا ہے:
الف:- بنیادی طور پر اصول دین کے بارے میں جو مشہور و نعروف مسائل میں فکر و خیال کرتے ہیں وہ شرعی نظریہ کے مطابق مناسب نہیں ہے کیونکہ پیغمبر (ص) سے کوئی بھی ایک بھی حدیث منقول نہیں ہے دوسرے لفظوں میں یہ کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ جو مسائل دین میں موجود ہی نہ رکھتے ہوں تو حقیقت میں اس کا نام اصول دین رکھنا اس حال میں کہ پیغمبر (ص) سے کوئی ایک بھی روایت اس کے واسطہ ہمارے ہاتھوں میں نہیں ہے؟
لہذا اصول دین کے التزام سے تناقص درپیش آتا ہے اور وہ یہی ہے کہ اگر معین مطالب کو اصول دین کے زمرہ میں قرار دیتے ہیں تو چاہئے کہ وہ بھی دین ہی کا اہمترین حصہ ہو اور دین بھی انہی کا محتاج ہو اس حالت میں کہ پیغمبر (ص) نے اس کے بارے میں کوئی بھی کلام نہیں فرمایا ہے.
حالانکہ پیغمبر نے ان چیزوں کے بارے میں کلام ہی نہیں.کیا ہے. پس یہ امر مستلزم ہوتا ہے کہ انسان ان دو فرضوں میں سے کسی ایک کو قبول کرتا ہے:
۱- یا تو پیغمبر (ص) نے دین کے اہمترین مسائل کو بیان نہیں کیا ہے.
۲- یا پھر یہ کہ آنحضرت (ص) نے بیان کئے ہیں، لیکن لوگوں نے نقل نہی کیا ہے.
پس ایسی صورت میں یہ دونوں ہی فرض قطعی طور پر باطل ہے. [کلینی، محمد، الاصول من الکافی، ۱/ ۴۲-۴۳، به کوشش علی اکبر غفاری، تهران، ۱۳۸۸ق.]
ب:- تمام معارف و اعتقادات کہ جو عوام کے امور دینی میں جن کہ ضورت انہین ہے کتاب اور سنت میں بیان ہوئی ہے اور تمام مسائل کو روشن اور تفصیل کے ساتھ بحث کے محل پر قرار دیا ہے. [کلینی، محمد، الاصول من الکافی، ۱/ ۴۳-۴۴، به کوشش علی اکبر غفاری، تهران، ۱۳۸۸ ق.]
لہذا اسی بنا پر اس طرح کی اصطلاحات ضرورت ہی نہیں ہے.
یہ وہی نظریہ ہے کہ جسے ابن تیمیہ سے صدیوں پہلے اصحاب حدیث نے بھی بیان کیا تھا اور ابو الحسن اشعری (د ۳۲۴ ق/۹۳۶ م) نے اپنے "رسالة فی استحسان الخوض فی علم الکلام" میں ابن تیمیہ سے صدیوں پہلے علم کلام کے مخالفین کو وہی دلائل دیئے ہیں کہ مدوّن ہونے کے ساتھ اصول عقائد ہونے کو بیان کیا ہے اور پھر ایک ایک کا جواب بھی دیا ہے. [آمدی، علی، الاحکام فی اصول الاحکام، ۴/ ۴۴۸-۴۴۹، به کوشش ابراهیم عجوز، بیروت، ۱۴۰۵ ق/۱۹۸۵ م.]
اصول دین کی اصطلاح کی ابتدا ہونے کی تاریخ
تاریخ میں اصول دین کی اصطلاح کی ایجاد:
یہ مشخص و معین نہیں ہے کہ اصول دین کی اصطلاح کس زمانہ میں استعمال کرنا شروع ہوا اور کس نے اس صطلاح کو وضع کیا ہے.
شائد اصل خمسہ کی تعبیر بھی ظاہرا پہلی بار ہی "ابو الہُذَیل علّاف" (د ح ۲۳۰ ق / ۸۴۵ م) معتزلی متکلم نے استعمال کیا ہے.
اسی معتزلی متکلم نے اصول دین کی تعبیر کی ایجاد کا مقدمہ فراہم کیا ہے چاہے اصول خمسه فرقۂ معتزلہ کی نظر میں انہی کے اصول دین ہے. [مانکدیم، (تعلیق) شرح الاصول الخمسه، ص ۱۲۲-۱۲۳، به کوشش عبد الکریم عثمان، نجف، ۱۳۸۳ ق/۱۹۶۳ م.]
ابن ندیم نے بھی اپنی کتاب میں ایک رسالہ کا تذکرہ کیا ہے جو بنام "اصول الدین" ہے کو جسے ابو موسی مردار کی طرف منسوب کیا ہے. [ابن ندیم، الفهرست، ۱/ ۲۰۷.]
اور یہ امر ہمیں پتہ دیتا ہے کہ یہ اصطلاح تیری صدی ہجری / نویں صدی عیسوی میں تعبیر کے طور پر لوگ آشنا ہوئے اور یہی اصطلاح بھی دین میں اپنا مقام بنا بیٹھی ہے.
اصول دین پر اعتقاد رکھنے کی کیفیت
یہ مطلب کہ کیا مکلف شخص کا شرعی وظیفہ یہی ہے کہ اصول دین میں تحقیق کرے یا تقلید کرنا ہی کافی ہے؟
تو یہاں پر ہم اس مسئلہ کا ۳ تجزیہ کر رہے ہیں:
۱- کیا خدا کی معرفت کی خاطر اصول دین کی بھی معرفت واجب ہے یا نہیں؟
۲- اگر یہ معرفت واجب ہے تو اس حکم کا واجب ہونا عقل کے وسیلہ سے حاصل ہوتا ہے یا شریعت سے؟
۳- جب بھی اس معرفت کا وجوب عقل یا شریعت کے توسط سے ثابت ہوگی تو کیا اس معرفت میں تقلید کافی ہے یا یہ کہ مکلف شخص کو اس سلسلہ میں غور و فکر اور اجتہاد کو اپنانا چاہئے؟
دوسرے الفاط میں یہ ہے کہ کیا اس معرفت میں ظن و گمان تک پہونچنا ہی کفایت کرتا ہے یا یہ کہ ضروری طور پر قطعی و یقینی منزل پر پہونچنا چاہئے.؟ [میرزای قمی، ابو القاسم، ۲/ ۱۷۳، اصول دین، به کوشش رضا استادی، تهران، مسجد جامع.]
معرفت خدا کا واجب ہونا
جرجانی اپنی کتاب «شرح المواقف» میں تحریر کرتے ہیں: "تمام ہی مسلمانوں کا اس امر پر اجماع ہے کہ معرفت خدا واجب ہے اور کوئی ایک بھی مسلمان اس واجب امر سے انکار نہیں کرتا لیکن اختلاف صرف اس میں ہے کہ اس واجب کو کس طریقہ سے ثابت کیا جائے."
متکلمین معتزله و امامیه
مذاہب معتزلہ و امامیہ کے متکلمین نے اسے واجب عقلی قرار دیا ہے.
معتزله و امامیه کے دلائل
معتزلہ اور امامیہ فرقوں کا مشہورترین استدلال یہی ہے کہ معرفت خدا کی دلیل کی بنا پر (اور اسی کی اتباع میں اصول دین کی معرفت حاصل کرنا) عقلاً واجب ہے کہ لوگ وجود خداوند عالم کے اثبات یا اس کے صفات کے بارے میں یا یہ کہ خدا نے لوگوں کو اپنی معرفت حاصل کرنے کی بنسبت مکلف قرار دیا ہے یا نہیں، اس سلسلہ میں اختلاف نظر پایا جاتا ہے اور شخص عاقل جس وقت بھی ان اختلاف سے مطلع ہوتا ہے تو عقلاً اس معنی تک پہونچتا ہے کہ ممکن ہے جس خدا نے اسے خلق کیا ہے اسے مکلف قرار دیا ہے کہ اس کی معرفت حاصل کرے گا. اور اگر اس نے خدا کو نہیں پہچانا ہوگا اور اس راہ میں کوشش بھی نہیں کیا ہوگا تو شائد خدا اس کی مذمت اور عقاب بھی کرے گا. اس کے علاوہ جس وقت وہی شخص خدا کی ظاہری اور باطنی نعمتوں کا مشاہدہ کرے گا تو وہی یہ احتمال بھی جانتا ہوگا کہ شائد خدائے منعم نے اس سے یہ مطالبہ کیا ہوگا کہ ان نعمتوں کا شکر بجا لاؤں گا.
لہذا یہ خود اس کیلئے پیش آتا ہے کہ اگر خداوند عالم کی معرفت نہ رکھیں اور اس کی شکر گزاری نہ کریں تو شائد مالک حقیقی اپنی نعمتوں کو واپس چھین لے. یہ ڈر عاقل شخص کو معرض ضرر میں قرار دیتا ہے اور عقل اس لازمی امر کو اس کی خاطر ایجاد کرتی ہے کہ وہ اس خوف کے انجام کے ضرر کو ختم کرے اور اگر ایسا نہیں کرے گا تو تمام عقلا اس کی مذمت کریں گے پس معرفت خداوند متعال اور جو کچھ خدا چاہتا ہے اس سے آگاہ رہنا ہوگا تو یہ عقلا واجب ہے اور جب معرفت سوائے غور و فکر کے ممکن ہی نہیں ہے. پس ان امور میں غور و فکر کرنا ہی واجب ہے.
[میرزای قمی، ابو القاسم، اصول دین، ۱/ ۲۵۱، به کوشش رضا استادی، تهران، مسجد جامع.] [میرزای قمی، ابو القاسم، اصول دین، ۱/ ۲۶۹،۲۷۰، به کوشش رضا استادی، تهران، مسجد جامع.] [مانکدیم، (تعلیق) شرح الاصول الخمسه، ۱/ ۱۲۳-۱۲۴، به کوشش عبد الکریم عثمان، نجف، ۱۳۸۳ق/۱۹۶۳م.] [سید مرتضی، علی، الذخیرة، ص۱۶۷، بهکوشش احمد حسینی، قم، ۱۴۱۱ق.] [ابن میثم بحرانی، میثم، قواعد المرام فی علم الکلام، ۱/ ۲۸، به کوشش احمد حسینی و محمود مرعشی، تهران، ۱۴۰۶ق.]
البتہ فرقۂ اشاعرہ نے ان استدلال کو اور دیگر عقلی استدلال کو معرفت کیلئے واجب شمار کیا ہے تو ایسی صورت میں اسے قبول نہیں کرتے اور اس کی رد میں مختلف دلیلیں بیان کرتے ہیں. [جرجانی، علی، شرح المواقف، ۱/ ۲۷۰-۲۷۱، قاهره، ۱۳۲۵ق/۱۹۰۷م.]
اشاعره کی شہرت
لیکن فرقۂ اشاعرہ کا عقیدہ ہے کہ شرع نے اس امر کو واجب قرار دیا ہے. دونوں ہی خیالات کی جماعت نے اپنے عقیدہ کو ثابت کرنے کیلئے بہت سی دلیلیں بيان كر ركهي ہیں.
اشاعره کی مشہور دلیل
مذہب اشاعرہ کی مشہور دلیل پر جس میں اصول دین کی معرفت کو واجب قرار دینے میں قرآن کریم کی چند آیات میں حکم دیا ہے کہ لوگ خداون عالم اور اس کے صفات پر دلیلیں قایم کرتے ہوئے غور و فکر کریں اور صیغۂ امر بھی وجوب پر دلالت کرتا ہے جب ہم اس میں اس آیت کا اضافہ کرتے ہیں تو درج ذیل کا نتیجہ حاصل ہوتا ہے. لہذا یہ آیت کریمہ ملاحظہ کیجئے:
«إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَإِخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَآيَاتٍ لِأُولِي الْأَلْبَابِ»
"بیشک آسمانوں و زمین کی خلقت میں اور رات و دن کے اختلاف میں صاحبان عقل کیلئے نشانیاں پائی جاتی ہیں." [آل عمران / سوره۳، آیه۱۹۰.]
جب مذکورہ بالا آیت نازل ہوئی تو پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: «وائے ہو اس شخص پر کہ جو اس آیت کو اپنی زبان پر لائے لیکن اس کے بارے میں غور و فکر نہ کرے»،
آنحضرت (ص) نے اس حدیث میں اس شخص کے بارے میں جو معرفت کے دلائل پر غور و فکر نہیں کرتا اسے خبردار کیا ہے ہے. جہاں تک غیر واجب فعل یا عمل وعید (انذار و تخویف) کا مستوجب نہیں ہے. تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ غور و فکر کرنا بھی واجب ہے. [آمدی، علی، الاحکام فی اصول الاحکام، ۴/ ۴۴۶-۴۴۷، به کوشش ابراهیم عجوز، بیروت، ۱۴۰۵ق/۱۹۸۵م.] [سراج الدین ارموی، محمود، التحصیل من المحصول، ۱/ ۳۰۸، به کوشش عبد الحمید ابو زنید، قاهره، ۱۳۹۳ق/۱۹۷۳م.] [قرافی، احمد، شرح تنقیح الفصول، ص ۴۴۳-۴۴۴، به کوشش طه عبد الرؤف سعد، بیروت، ۱۳۹۳ق/۱۹۷۳م.] [جرجانی، علی، شرح المواقف، ۱/ ۲۵۱، قاهره، ۱۳۲۵ق/۱۹۰۷م.]
البتہ اس استدلال پر بہت زیادہ اشکالات و اعتراضات وارد کئے ہیں کہ فرقۂ اشاعرہ نے بھی اپنے طور پر ان لوگوں کے اعتراض کا جواب دیا ہے. [جرجانی، علی، شرح المواقف، ۱/ ۲۵۲، قاهره، ۱۳۲۵ق/۱۹۰۷م.]
اب اس مسئلہ کا رخ کچھ یوں نمایاں ہوتا ہے کہ اگر اصول دین کی معرفت رکھنا واجب امر ہے. تو کیا مکلّف شخص کو چاہئے کہ اس کے سلسلہ میں غور و فکر اور اجتہاد کے عمل میں پڑے اور اس کی ذاتی فکر اصول دین کی معرفت کی طرف رہبری کرے یا یہ کہ کسی دینی عالم کے نظریہ کو ہی اسی کے بارے میں جستجو و تلاش کر سکیں اور اسی پر اعتماد کرتے ہوئے اصطلاح میں اس کی تقلید کریں؟
فرقۂ حشویہ کے عبد الله بن حسن عنبری و فرقۂ تعلیمیہ کا ایک گروہ اصول دین میں تقلید کو جائز شمار سمجھتے ہیں. [ابو اسحاق شیرازی، ابراهیم، التبصرة فی اصول الفقه، ۱/ ۴۰۱، به کوشش محمد حسن هیتو، دمشق، ۱۴۰۳ق/ ۱۹۸۳م.] [میرزای قمی، ابو القاسم، اصول دین، ۲/ ۱۷۳، به کوشش رضا استادی، تهران، مسجد جامع.]
اس گروه نے اپنے عقیدہ کے ثبوت میں چند دلیلیں بیان کی ہیں: ان میں سے کچھ یہ ہے کہ عقائد کلامی اور مسائل دینی کے بارے میں غور و فکر کرنا بدعت ہے. کیونکہ سب سے پہلا امر یہ ہے کہ پیغمبر اسلام (ص) سے کوئی ایک بھی روایت منقول نہیں ہے کہ اس سلسلہ میں غور و فکر کریں. دوسرے یہ کہ خود آنحضرت (ص) سے منقول ہے: «دینداری کے معاملات میں بوڑھی عورتوں کے رویے پر ہی کار بند رہیں» اور اس میں کوئی تردید بھی نہیں ہے کہ ان لوگوں کا دین تقلیدی ہے کیونکہ ان لوگوں میں بحث کرنے اور دلیل قائم کرنے کی طاقت و قوت نہیں رکھتے. [جرجانی، علی، شرح المواقف، ۱/ ۲۶۲-۲۶۹، قاهره، ۱۳۲۵ق/۱۹۰۷م.]
البته جرجانی نے ان استدلال کو قبول نہیں کیا اور ہر ایک دلائل پر تنقید کی ہے. [جرجانی، علی، شرح المواقف، ۱/ ۲۶۲-۲۶۹، قاهره، ۱۳۲۵ق/۱۹۰۷م.]
علمائے امامیہ کے خواجه نصیر الدین طوسی بھی اصول دین میں تقلید کو جائز تسلیم کرتے ہیں. [میرزای قمی، ابو القاسم، اصول دین، ۲/ ۱۷۳، به کوشش رضا استادی، تهران، مسجد جامع.]
اس گروہ کے مقابل میں علما کی ایک اقلیت نے اصول دین میں تقلید کرنے کو تجویز بھی رکھی ہے.
شیعہ، معتزلہ اور اشاعرہ مذاہب کے اکثر متکلمین نے مختلف دلیلوں سے اس فکر کو باطل قرار دینے کیلئے دلیلیں قائم کہ ہیں کہ پہلے دو فرقے یعنی شیعہ و معتزلہ نے اکثر عقلی استدلال پر اعتماد کیا ہے اور تیسرے فرقہ یعنی اشاعرہ نے بھی نقلی دلیلوں پر زیادہ اعتماد کیا ہے. [ابو الحسین بصری، المعتمد فی اصول الفقه، ۲/ ۹۴۱، به کوشش محمد حمید الله و دیگران، دمشق، ۱۳۸۵ق/۱۹۶۵م.] [فخر الدین رازی، «اصول دین»، ۱/ ۵۵، چهارده رساله، به کوشش محمد باقر سبزواری، تهران، ۱۳۴۰ش.] [آمدی، علی، الاحکام فی اصول الاحکام، ۴/ ۴۴۶-۴۴۷، به کوشش ابراهیم عجوز، بیروت، ۱۴۰۵ق/۱۹۸۵م.] [قرافی، احمد، شرح تنقیح الفصول، ۱/ ۴۴۳-۴۴۴، به کوشش طه عبد الرؤف سعد، بیروت، ۱۳۹۳ق/۱۹۷۳م.]
ان استدلالوں میں س سے ایک یہ ہے کہ خود مقلَّد ہے یا تو خود مقلَّد اپنے بر حق ہونے کا علم رکھتا ہے یا با خبر نہیں ہے. تو ایسی صورت میں اس کے خطا پر ہونے کا احتمال پایا جاتا ہے اور اس بنا پر اس کا تقلید کرنا قبیح ہے کیونکہ وہ بھی جہل و خطا سے محفوظ نہیں ہے لیکن اگر وہ جانتا ہے کہ حق پر ہے تو ایسی صورت میں دو حال سے خالی نہیں ہے: ی تو اسے بداہت کی بنا پر حاصل ہوا ہے یا پھر دلیل سے ثابت ہوا ہے تو پہلی شق باطل ہے اور دوسری شق کی اپنی بنیاد پر یا تو یہ دلیل غیر تقلیدی ہے یا پھر بذریعہ تقلید حاصل کیا ہے تب اخیر کی صورت میں اس کا شمار ان اشخاص میں ہوگا کہ جن کی تقلید لازمی ہے تو کوئی بھی انتہا نہیں ہوگی. پس صرف معقول فرض یہ ہے کہ وہ شخص دلیل کے ساتھ بر حق ہونے پر یقین حاصل کیا ہے اور اس کام میں تقلید واقع نہیں ہوگی پس اس امر میں تقلید کرنا باطل ہے. [سید مرتضی، علی، الذخیرة، به کوشش احمد حسینی، قم، ۱۴۱۱ق.] [مانکدیم، (تعلیق) شرح الاصول الخمسه، ص ۶۰-۶۳، به کوشش عبد الکریم عثمان، نجف، ۱۳۸۳ق/۱۹۶۳م.]
علامه حلی نے اپنی کتاب «شرح باب حادی عشر» میں بیان کرتے ہیں کہ تمام دانشمندان اس امر پر اجماع رکھتے ہیں کہ اصول دین کی یقینی معرفت کو دلیل و عقل کے ذریعہ حاصل کرنا واجب ہے اور اس سلسلہ میں کسی کی تقلید کرنا جائز نہیں ہے. [علامه حلی، حسن، شرح باب حادی عشر، ۱/ ۶، تهران، ۱۳۷۰ش.]
لیکن میرزای قمی نے اپنی کتاب «قوانین الاصول» میں اس دعوی پر مختلف بیانات کے ساتھ تردید وارد کیا ہے. [میرزای قمی، ابو القاسم، اصول دین، ۲/ ۱۶۶- ۱۶۸، به کوشش رضا استادی، تهران، مسجد جامع.] [میرزای قمی، ابو القاسم، اصول دین، ۲/ ۱۸۰، به کوشش رضا استادی، تهران، مسجد جامع.]
راہ استدلال کے بغیر اور عقلی برہان کے ذریعہ یقین حاصل کرنا بھی کافی ہوتا ہے. ہر چند تحصیل علم کا واجب ہونا اور استدلال کا یقین پیدا ہونا بعض کی نسبت دی گئی ہے. [مستمسک العروة ۱/ ۱۰۳-۱۰۴.] [التنقیح (الاجتهاد و التقلید) ص ۴۱۱.] [سجادی، سید جعفر. فرهنگ معارف اسلامی.]
معتزله کا نِظریہ
مذہب معتزله کے نظریہ کے مطابق اصول دین کو فقط (اصول خمسه) یعنی ۵ اصول میں منحصر قرار دیا ہے. اگر کوئی بھی ایک شخص ان اصول کی بنیادی طور پر مخالفت کرے گس تو معتزلہ کی نظر میں وہ کافر ہوتا ہے چونکہ وہ «ضروریات دین» کا منکر ہے. [مانکدیم، (تعلیق) شرح الاصول الخمسه، ۱/ ۱۲۵-۱۲۶، به کوشش عبد الکریم عثمان، نجف، ۱۳۸۳ق / ۱۹۶۳م.]
اصول خمسه یعنی ۵ دین کے اصول یہ ہیں:
۱. توحید، ۲. عدل، ۳. وعد و وعید،
۴. منزلة بین المنزلتین، ۵. امر بالمعروف و نهی عن المنکر .
اشاعره کا نظریہ
مذہب اشاعره و اهلسنت کی نظر میں اصول دین:
عبد القاهر بغدادی (د ۴۲۹ق/۱۰۳۸م) مذہب اشعری کے متکلم کہتے ہیں کہ اہلسنت و الجماعت کے جمہور علما دین کے ۱۵ ارکان پر متفقہ نظریہ رکھتے ہیں اور ہر بالغ و عاقل شخص پر واجب ہے کہ ان کی حقیقت کی معرفت حاصل کرے. البتہ مذکورہ ۱۵ میں سے ہر ایک رکن خود ہی اصلی و فرعی مسائل رکھتے ہیں اور انہی میں سے ہر ایک رکن کے اصلی مسائل میں اجماع پایا جاتا ہے. بہر حال ان لوگوں کے نطریہ کے مطابق مذکورہ اصلی مسائل میں ہر ایک رکن کی مخالفت کرنے والے کو گمراہ جانتے ہیں. پھر انہوں نے ان ۱۵ ارکان کے بارے میں تفصیل کے ساتھ بحث کی ہے. [بغدادی، عبد القاهر، الفرق بین الفرق، ۱/ ۱۹۴، به کوشش محمد زاهد کوثری، قاهره، ۱۳۶۷ق / ۱۹۴۸م.]
فخر الدین رازی نے بھی اپنے «اصول دین» نامی رسالہ میں اسی مطالب کو مذہب اہلسنت کے عنوان سے ۸ اجزا کو بیان کیا ہے. [فخر الدین رازی، «اصول دین»، ۱۴ رساله، ص ۵۴ - ۷۸، به کوشش محمد باقر سبزواری، تهران، ۱۳۴۰ش.]
"عقاید الطحاویه" نامی کتاب میں بھی تحریر ہے کہ اہلسنت کے نزدیک اصول دین مندرجہ ذیل ہیں:
۱- توحید
۲- نبوت
۳- کتب آسمانی
۴- ملائکه
۵- قیامت
۶- قدر. [کتاب شرح العقیدة الطحاویه.]
امامیه کا نظریہ
مذہب امامیه کے متکلمین نے اس سلسلہ میں کہ اصول دین کتنے ہیں اور اس میں کون کون سے موضوعات شامل ہیں تو علما کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے.
مشهور عقیده
مشهور عقیدہ یہی ہے کہ اصول دین میں موضوع شامل ہیں:
۱- توحید ٢- نبوت ۳- معاد.
لیکن عدل و امامت کو اصول مذہب کے عنوان سے قرار دیا ہے لہذا ان ۲ کو مذکورہ بالا ۳ میں اضافہ کیا گیا ہے. دیگر الفاظ میں یہ ہے کہ اسی کی بنا پر یہ عقیدہ رکھنا کہ اگر کوئی ایک شخص ۳ اصول دین میں سے کسی ایک کا بھی منکر ہے تو وہ کافر ہے لیکن اگر کوئی شخص مذکورہ بالا ۳ اصول دین کے عقیدہ کا اقرار کرتا ہے اور عدل و امامت کا انکار کرتا ہے تو وہ کافر نہیں ہے پھر تو وہ شیعہ بھی نہیں ہے. [میرزای قمی، ابو القاسم، اصول دین، ۱/ ۵، به کوشش رضا استادی، تهران، مسجد جامع.]
شیخ طوسی کا عقیده
شیخ طوسی اپنی کتاب "الاقتصاد" میں اصول دین کو دو شمار کیا ہے:
اول توحید اور دوسرے عدل.
البتہ ان کا یہ عقیدہ بھی ہے توحید کی معرفت رکھنا ذیل کے ۵ چیزوں کے بغیر مکمل و کامل نہیں ہوگا:
۱. انسان کا ان امور کی شناخت رکھنا جو اسے معرفت پروردگار تک پہونچاتا ہو یہی ضروری ہے.
۲. خداوند عالم کی معرفت اس کے تمام ہی صفات کے ساتھ رکھنا
۳. اس میں ان صفات کی بنسبت کیفیت استحقاق کی معرفت رکھنا
۴. جو کچھ اس پر جائز ہے اور جو کچھ اس پر جائز نہیں ہے کی معرفت رکھنا
۲. نبوت اور اس کے شرائط کے بیان کرنے کی معرفت رکھنا
۳. وعد و وعید اور ان سے متعلقات کی معرفت رکھنا؛
۴. امامت اور اس کے شرایط کی معرفت رکھنا
۵. امر بالمعروف و نهی عن المنکر کی معرفت رکھنا. [طوسی، محمد، الاقتصاد، ۱/ ۵ -۶، قم، ۱۴۰۰ق.]
بعض علم کلام کی کتابیں
بعض امامیہ کے متکلمین کی کتابوں سے اصول دین کا ۳ ہونا ثابت ہوتا ہے:
۱. ذات خدا کی وحدانیت اور اس کے افعال میں عادل ہونے کی تصدیق کرنا.
۲. نبوت انبیا اور رسالت مرسلین کی تصدیق کرنا.
۳. امامت ائمہ [معصومین (ع)] کی تصدیق کرنا.
[علامه حلی، حسن،، «کشف الفوائد»، المجموعة الرسائل، ص ۹۳، قم، ۱۴۰۴ق.] [شهید ثانی، زین الدین، حقائق الایمان، ص ۵۵، به کوشش مهدی رجایی، قم، کتابخانه آیت الله مرعشی.] [معتقد الامامیه، به کوشش محمد تقی دانش پژوه، تهران، ۱۳۳۹ش.] [علامه حلی، حسن، شرح باب حادی عشر، تهران، ۱۳۷۰ش.] [علامه حلی، حسن، شرح باب حادی عشر، ص ۴، تهران، ۱۳۷۰ش.] [طالقانی، نظرعلی، کاشف الاسرار، ۱/ ۳۲، به کوشش مهدی طیب، تهران، ۱۳۷۳ش.]
اصول دین میں شهید ثانی نے عدل کے اصول کو اضافہ کرنے کے ساتھ ہی اصول دین کو ۵ قرار دیدیا ہے. [شهید ثانی، زین الدین، حقائق الایمان، ص۵۵، چ سنگی، مجموعه الرسائل، قم، ۱۳۰۴ق.] [شهید ثانی، زین الدین، حقائق الایمان، ص ۶۴، چاپ سنگی، مجموعه الرسائل، قم، ۱۳۰۴ق.]
علامه مجلسی کا عقیده
محمد باقر مجلسی اس سلسلہ میں اضافہ کرنے کے ساتھ اصول کے اقرار کرنے کے بارے میں بیان کیا ہے جو کچھ پیغمبر اسلام لائے ہیں تو ۵ اصول دین کے ساتھ مذکورہ ایک اصول کے ساتھ اب چھ اصول شمار کئے جائیں گے. [طالقانی، نظر علی، کاشف الاسرار، ۱/ ۳۲، به کوشش مهدی طیب، تهران، ۱۳۷۳ش.]
یہ بات یاد رہے کہ مذہب امامیہ ۳ اصول دین یعنی توحید، نبوت اور عدل کے اصول میں فرقہ معتزلہ سے بہت زیادہ قریب ہیں اور ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ یہ دونوں مذاہب ان ۳ اصول دین میں ایک دوسرے سے بہت زیادہ مشابہت رکھتے ہیں.
جمهور متکلمین کا نظریہ
بہر حال ان ۵ اصول دین کا خلاصہ یہی ہے جو امامیہ کے جمہور متکلمین کے نظریہ کے مطابق ذیل میں ہم مختصراً وضاحت و تشریح کے ساتھ ذکر کر رہے ہیں:
★★★★★ توحید ★★★★★
معرفت و تصدیق یہی ہے کہ ازل و ابد تک خداوند متعال ہی موجود "واجب الوجود لذاته" ہے. اس کی صفات ثبوتیہ جیسے قدرت، علم و حیات کی تصدیق کرنا اور اس کی ذات کو صفات سلبیہ جیسے جہل، کمزوری سے پاک و منزہ ہونے کی تصدیق کرنا اور یہ عقیدہ رکھنا کہ خدا کی صفات ہی عین ذات ہے اور کوئی بھی ایک بھی صفت اس میں زائد بر ذات نہیں ہے.
★★★★★ عدل ★★★★★
اس بات کی معرفت رکھنا کہ خداوند عالم عادل و حکیم ہے یعنی برے کام انجام نہیں دیتا اور ہرگز نیک کاموں کو ترک نہیں کرتا. خداوند عالم انسانوں سے سرزد ہونے والے برے اعمال سے خوش نہیں ہوتا اور حقیقت میں خداوند نے ان انسانوں کو قدرت و اختیار کی صلاحیت و قوت بخشی ہے لہذا وہ انہیں ان ہی نیک کاموں کو انجام دینا چاہئے اور اسی بنا پر اپنے ہر ایک نیک و برے اعمال کے خود ہی ذمہ دار ہیں.
★★★★★ نبوت ★★★★★
حضرت محمد (ص) کی نبوت و رسالت کی تصدیق کرنا اس حیچیت سے کہ آنحضرت وحی لائے ہیں البتہ اس تصدیق میں اجمالی طور پر اس عنوان سے کہ پیغمبر وحی لائیں ہے تو کافی ہے یا تفصیلی تصدیق ہونا چاہئے. لهذا اس سلسلہ میں مختلف نظریے پائے جاتے ہیں. قابل ذکر بات یہ ہے کہ بعض علمائے امامیہ پیغمبر اکرم (ص) کی عصمت کی تصدیق اور اس امر میں بھی آنحضرت (ص) کو آخری پیغمبر تسلیم کرنا لازمی و ضروری شمار کرتے ہیں.
★★★★★ امامت ★★★★★
اثنا عشری اماموں کی امامت کی تصدیق کرنا. تمام متکلمین امامیہ کا اس بات پر اجماع پایا جاتا ہے جبکہ اس اصول دین کو ضروریات مذہب قرار دیا ہے. تمام ہی ۱۲ ائمہ (ع) اسی طرح سے معصوم ہیں جیسے انبیاء معصوم ہوتے ہیں اور شریعت کے محافظ ہیں اور حقیقت میں انسانوں کی ہدایت کرتے ہیں نیز لازم ہے کہ تمام ہی مسلمان ان کی اتباع و اطاعت کرے. اور البتہ بارہویں امام [حضرت مهدی] (عج) بحکم خداوند عالم زنده و غائب ہیں اور ایک روز اذن خدا سے ظہور فرمائیں گے.
★★★★★ معاد ★★★★★
معاد کے جسمانی ہونے پر جمهور مسلمانوں کا متفقہ طور پر عقیدہ رکھتے ہیں. لیکن فلسفیوں نے جسمانی معاد کا انکار کیا ہے اور صرف روحانی معاد کے قائل ہوئے ہیں.
معاد کے جسمانی ہونے سے مراد یہ ہے کہ انسان کا بدن فنا ہونے کے بعد دوبارہ خلق کیا جائے گا یعنی اپنی پہلی والی حالت میں ہی پلٹایا جائے گا. [شهید ثانی، زین الدین، حقائق الایمان، ص۶۴، چ سنگی، مجموعه الرسائل، قم، ۱۳۰۴ق.] [شهید ثانی، زین الدین، حقائق الایمان، ص ۵۵، چ سنگی، مجموعه الرسائل، قم، ۱۳۰۴ق.]
اصول دین کا انکار کرنا
اصول دین میں سے کسی ایک کا بھی انکار کرنا کفر کا سبب ہوتا ہے؛ چاہے یہ انکار از روی عناد و عداوت ہو یا تعصب ہو یا کسی شبہہ کی بنا پر جو اس کیلئے ظاہر ہوا ہے. [کتاب الطهارة (شیخ انصاری) (ق)، ۲/ ۳۵۵.] [آموزش دین، ص۱۸.]
اصول دین میں تقیہ کرنا
جان کی حفاظت کی خاطر اصول دین میں تقیہ کرنا مشروع ہے یعنی شرعی حیثیت حاصل ہے. [حاشیه مجمع الفائده، ص۷۳۰.]
فهرست کتب مصادر
(۱) آمدی، علی، الاحکام فی اصول الاحکام، به کوشش ابراهیم عجوز، بیروت، ۱۴۰۵ق/۱۹۸۵م.
(۲) ابن تیمیه، احمد، موافقة صحیح المنقول لصریح المعقول، بیروت، ۱۴۰۵ق/۱۹۸۵م.
(۳) ابن میثم بحرانی، میثم، قواعد المرام فی علم الکلام، به کوشش احمد حسینی و محمود مرعشی، تهران، ۱۴۰۶ق.
(۴) ابن ندیم، الفهرست.
(۵) ابو اسحاق شیرازی، ابراهیم، التبصرة فی اصول الفقه، به کوشش محمد حسن هیتو، دمشق، ۱۴۰۳ق/ ۱۹۸۳م.
(۶) ابو الحسین بصری، المعتمد فی اصول الفقه، به کوشش محمد حمید الله و دیگران، دمشق، ۱۳۸۵ق/۱۹۶۵م.
(۷) اشعری، علی، رسالة فی استحسان الخوض فی علم الکلام، حیدرآباد دکن، ۱۴۰۰ق/۱۹۷۹م.
(۸) بخاری، محمد، صحیح، استانبول، ۱۹۸۱م.
(۹) بغدادی، عبد القاهر، اصول الدین، بیروت، ۱۴۰۱ق/ ۱۹۸۱م.
(۱۰) بغدادی، عبد القاهر، الفرق بین الفرق، به کوشش محمد زاهد کوثری، قاهره، ۱۳۶۷ق/۱۹۴۸م.
(۱۱) جرجانی، علی، شرح المواقف، قاهره، ۱۳۲۵ق/۱۹۰۷م.
(۱۲) سراج الدین ارموی، محمود، التحصیل من المحصول، به کوشش عبد الحمید ابو زنید، قاهره، ۱۳۹۳ق/۱۹۷۳م.
(۱۳) سید مرتضی، علی، الذخیرة، به کوشش احمد حسینی، قم، ۱۴۱۱ق.
(۱۴) شهید ثانی، زین الدین، حقائق الایمان، به کوشش مهدی رجایی، قم، کتابخانه آیت الله مرعشی.
(۱۵) شهید ثانی، زین الدین، حقائق الایمان، چ سنگی، مجموعة الرسائل، قم، ۱۳۰۴ق.
(۱۶) طالقانی، نظر علی، کاشف الاسرار، به کوشش مهدی طیب، تهران، ۱۳۷۳ش.
(۱۷) طوسی، محمد، الاقتصاد، قم، ۱۴۰۰ق.
(۱۸) علامه حلی، حسن، شرح باب حادی عشر، تهران، ۱۳۷۰ش.
(۱۹) علامه حلی، حسن،، «کشف الفوائد»، المجموعة الرسائل، قم، ۱۴۰۴ق.
(۲۰) فخر الدین رازی، «اصول دین»، چهاردہ رساله، به کوشش محمد باقر سبزواری، تهران، ۱۳۴۰ش.
(۲۱) فخر الدین رازی، کتاب الاربعین فی اصول الدین، حیدرآباد دکن، ۱۳۵۳ق.
(۲۲) قرآن کریم.
(۲۳) قرافی، احمد، شرح تنقیح الفصول، به کوشش طه عبد الرؤف سعد، بیروت، ۱۳۹۳ق/۱۹۷۳م.
(۲۴) کلینی، محمد، الاصول من الکافی، به کوشش علی اکبر غفاری، تهران، ۱۳۸۸ق.
(۲۵) مانکدیم، (تعلیق) شرح الاصول الخمسه، به کوشش عبد الکریم عثمان، نجف، ۱۳۸۳ق/۱۹۶۳م.
(۲۶) معتقد الامامیة، به کوشش محمد تقی دانش پژوه، تهران، ۱۳۳۹ش.
(۲۷) میرزای قمی، ابو القاسم، اصول دین، به کوشش رضا استادی، تهران، مسجد جامع.
(۲۸) میرزای قمی، ابو القاسم، قوانین الاصول، تهران، ۱۳۰۳ق.
مزید تفصیل کیلئے ذیل کی کتابوں کا مطالعہ کیجئے
★ دانشنامه بزرگ اسلامی، مرکز دائرة المعارف بزرگ اسلامی، برگرفته از مقاله «اصول دین»، ۹/ ۳۶۳۵.
★★ فرهنگ فقه مطابق مذهب اهل بیت (ع)، ۱/ ۵۶۷-۵۶۸.
تمت بالخير به نستعين و هو خير المعين
$}{@J@r
ایک تبصرہ شائع کریں