الٰہی اور عوامی خلافت میں تفریق

 

الٰہی اور عوامی خلافت میں تفریق




"اے رسولﷺ جو کچھ آپ کے پروردگار کی طرف سے آپ پر جو پیغام نازل ہوا ہے اسے لوگوں تک پہنچا دیجیے اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو (پھر یہ سمجھا جائے گا کہ) آپ نےاس کا (کار رسالت کا) کوئی پیغام پہنچایا ہی نہیں۔ اور اللہ آپ کو لوگوں کے شر سے حفاظت کرے گا بیشک خدا کافروں کی ہدایت نہیں کرتا۔"  (سورہ مائدہ آیت 67)  

یہ آیت مولا علیؑ کی ولایت و خلافت کے بارے میں جس میں آپ کو خدا نے حکم دیا کہ لوگوں کو وہ پیغام پہنچا دیں جو آپ کو آپنے رب کی طرف سے جبرئیل کے توسط سے موصول ہوا ہے۔

جس میں اس بات کی طرف بھی توجہ دی گئی ہے کہ خدا آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا۔ یہاں "شر" سے مراد جان کا خطرہ نہیں بلکہ فتنہ و مخالفین و سماج دشمن عناصر کا ڈر تھا جس سے محفوظ رکھنے کا خدا نے پیغمبر اسلامﷺ سے وعدہ کیا تھا۔

اس حکم کی تعمیل میں حضورﷺ نے تمام حاجیوں کو مقام غدیر خم پر روکا اور جو آگے بڑھ گئے تھے انہیں واپس بلایا اور جو  پیچھے رہ گئے تھے ان کی آمد کا انتظار کیا تا کہ اعلان ولایت سب ایک جگہ جمع ہو کر سماعت فرمائیں اور پھر تمام حاضرین کے سامنے حضرت علیؑ کی ولایت کا اعلان کیا۔


مولا کے اصل معنی حاکم ہے


ثبوت کے طور پر کچھ مندرجہ ذیل لغات ملاحظہ ہوں۔

  1. مولا کے معنی: مالک، سردار (مہذب اللغات جلد 12 صفحہ نمبر 495)

  2. مولا کے معنی: مالک، سردار (فرہنگ عامرہ صفحہ نمبر629 )

  3. مولا کے معنی: مالک، سردار، آقا، امیر (فرہنگ عاصفیہ صفحہ نمبر 481)

  4. مولا کے معنی: بزرگ قوم، سردار، مالک (لغات کشوری صفحہ نمبر 513)

یعنی رسولخداﷺ کے بعد مسلمانوں کے مولا و حاکم صرف امام علیؑ ہیں۔

اس اعلان ولایت کے بعد پیغمبر اسلامﷺ نے سب حاضرین کو حکم دیا کہ مولا علی علیہ السلام کو مبارکباد دیں اور سب نے مبارکباد بھی پیش کی۔ جن میں تینوں خلفا بھی شامل تھے اور امام علیؑ کو مولا کہہ کر مخاطب کیا۔ ساتھ ہی ساتھ مبارکباد دی۔ اب یہاں بس ایک سوال بس یہ پیدا ہوتا ہیکہ کیسے ممکن ہے کہ بعد رحلت رسولخداﷺ فرمان الٰہی کو نظر انداز کر کے مسلمانوں نے اپنی مرضی سے خلیفة المسلمین کا تقرر کر لیا؟

امامت خدا کی جانب سے دیا گیا ایک الٰہی منصب ہے۔ امامت کا اصل مشن لوگوں کی رہبری اور رہنمائی کرنا ہے اور یہ ضروری ہے کہ الٰہی حکومت قائم کرنے والا الٰہی قوانین و احکام سے بھی بخوبی واقف ہو یعنی قرآن کا مکمل علم اس کے پاس ہو۔ تا کہ لوگوں کے مسائل اور اختلافات کا کتاب خدا سے تصفیہ اور تدارک کر سکے۔ اس لحاظ سے ایسا شخص ہی حاکم و خلیفہ ہونے کا حقدار ہوگا۔

ایک بات پر اگر غور و خوض کر لیا جائے تو مطلب اور صاف اور واضح ہو جائے گا: جب پیغمبر اسلامﷺ نے غدیر میں مولا علی علیہ السلام کا تعارف کرایا، اپنی زبان مبارک سے کہا: "میں جس جس کا مولا ہوں، علیؑ بھی اس اس کے مولا ہیں۔"

دونوں ہاتھوں پر بلند کر کے بتایا اور دکھایا اور (فھذا علی مولا) "ف" عربی میں کسی کام کے بعد فوراً بلا انتظار کے لیے آتا ہے۔ یعنی میرے جانے کے بعد فوراً یہ خلیفہ اور جانشین ہوں گے یعنی اشارہ کر کے بھی بتایا۔ زبان اقدس سے بھی کہا تا کہ جو حجاج دیکھ نہیں سکتے وہ اپنے کانوں سے سن لیں۔ ہاتھوں پہ اٹھایا تا کہ جو سن نہیں سکتے وہ دیکھ لیں یہی وہ علی علیہ السلام ہیں۔ دونوں ہاتھوں کو اتنا بلند کر دیا کہ پیغمبر اسلامﷺ دکھائی نہیں دے رہے تھے۔ اس کا صاف مطلب یہی ہے کہ جب میں نہ رہوں تو یہی مولا، سردار و آقا ہوں گے۔ جب لوگوں نے اپنا جانشین و خلیفہ منتخب کر لیا اور مبارکباد بھی پیش کر دی تو پھر نبی اکرمﷺ کے اس دنیا سے چلے گئے تو کیوں خلیفہ بنایا؟ کیوں اپنا رہبر دوسرے کو چنا؟ اس کا صاف مطلب ہے کہ مسلمانوں نے نبی خداﷺ کو مردہ سمجھ لیا۔ جیسے کہ ایک قول بہت مشہور ہے: "مات المفتی مات الفتویٰ" (مفتی مر گیا تو فتوا بھی مر گیا.)

جو غدیر خم کا حکم بھول گئے در حقیقت نبی کو مردہ سمجھ رہے تھے۔ نہ قرآن پر ان کا بھروسہ ہے، نہ قرآن کی آیت پر یقین ہے جس میں مولا علیؑ کی ولایت کا ذکر ہوا ہے۔ ایسے لوگ بس یہ جانتے ہیں کہ رسول اللہﷺ تو مر گیے، ان کے احکام بھی مر گیے تو اب کیا ضرورت ہے دین محمدﷺ پر عمل کرنے کی۔ یا ان کے بتائے یا لائے ہوئے دین پر عمل کرنے کی؟ رسولخداﷺ تو مر گئے، حکم پیغمبر خداﷺ بھی مرگیا۔ دین بھی مر گیا اب کون مسلمان ہے؟ سب کے سب کافر ہو گئے۔

جیسا کہ پیغمبر خداﷺ کی طرف سے مسلمانوں پر حاکم تھے اسی طرح امام و خلیفہ بھی خدا کی طرف سے مسلمانوں پر حاکم ہو تا ہے اور منصوص من اللہ ہوتا ہے۔ اور انبیا (ع) کی طرح معصوم بھی ہوتا ہے۔ قرآن مجید کی آیات بھی اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ امام خدا ہی کی طرف سے خدا کا نمائندہ ہوتا ہے۔ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام امتحان میں کامیاب ہو گیے تو اللہ نے کہا: میں تم کو لوگوں کا امام بناتا ہوں تب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا: خداوندا میری نسل میں بھی امامت کو قرار دے۔ اللہ نے کہا: یہ عہدہ و منصب ظالموں کو نہیں پہنچے گا۔ آیت قرآنی یہی ہے کہ

آیت کا ترجمہ: اور (اس وقت کو یاد کرو) جبکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اس کے رب نے امتحان لیا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان کو پورا کر دیا۔ خدا نے فرمایا کہ میں تم کو تمام بشر کا امام مقرر کرنے والا ہوں۔ (سورہ بقرہ آیت ۱۲۴)

(حضرت ابراہیم علیہ السلام نے) عرض کیا میری اور میری اولاد میں سے (کیا عہدہ ملے گا) خدا نے کہا: جو ظالم ہوں گے میرے عہد سے فائدہ نہیں اٹھائیں گے۔

اس آیت سے دو باتوں کا خلاصہ ہو جاتا ہے کہ منصب امامت کا عہدی خدا کی طرف سے ملتا ہے اس لئے ظالموں کو نہیں مل سکتا۔

اب یہاں دلیل عقلی بھی ملاحظہ کریں:

عقل بھی اس بارے میں یہی فیصلہ کرتی ہے کہ پیغمبر اسلامﷺ کا جانشین و خلیفہ بھی آپ کی طرح معصوم ہو، کتاب خدا کا مکمل علم رکھتا ہو، زہد و تقویٰ میں آپ جیسا ہو اور حکومت اسلامی کو سنبھالنے کی صلاحیت رکھتا ہو اور اس کی بقا اور بعد شہادت یا وفات رسولﷺ محافظ شریعت ہو۔ یعنی شریعت محمدی میں کسی قسم کا تغیر و تبدیلی نہ ہونے دے اور نہ خود لائے۔ ایسا شخص جب لوگوں کا حاکم ہو گا جو ان کو فتنہ و فساد اور ایک دوسرے پر ظلم و ستم کرنے اور گناہوں کے عمل میں لانے سے روکے اور اطاعت الٰہی اور عبادتوں اور انصاف و مروت پر ان کو قائم رکھے تو بلاشبہ لو گوں کے معاملات اصول کے مطابق اور منظم اور بہتری سے زیادہ قریب اور شر و فساد سے دور ہوں گے۔

مثال کے طور پر ہم دیکھیں کہ ایک با صلاحیت شخص نے ایک بڑی کمپنی کھولی ہے اور اس کا مشن یہی ہوتا ہے کہ وہ کمپنی اچھے سے چلائے اور خوب ترقی ہو تو وہ اپنی کمپنی میں کام کرنے کے لیے ایسے ہی افراد کا انتخاب کرے گا جو اسی کی طرح قابل اور با صلاحیت ہوں حتی کہ یہی چاہے گا کہ اس کے مرنے کے بعد بھی وہ کمپنی ایسے ہی نظام سے چلے جیسے کہ اس کی زندگی میں چل رہی ہے۔

ایسے ہی دین اسلام کا تحفظ اور الٰہی نظام کو قائم کرنے کے لیے مولا علیؑ جیسے حاکم و رہنما کی ضرورت ہے جو جا نشین رسولخداﷺ اور خلیفہ بلا فضل ہیں۔

لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ امام بر حق کو حق خلافت سے محروم کر کے وہ افراد تخت خلافت کے ارد گرد جمع ہو گئے جنہوں نے حکومت کی لالچ میں حکم خدا اور رسول اکرمﷺ کو نظر انداز کر کے تخت خلافت پر براجمان ہو گئے اور پیغمبر اسلامﷺ کے فرمان غدیر خم کو بھول گئے۔


مولانا محمد رضا ایلیا ؔ

مبارکپور ، اعظم گڑھ


★★★★★★★★

Post a Comment

To be published, comments must be reviewed by the administrator *

جدید تر اس سے پرانی