شہزادی فاطمہ زهراؐ بحیثیت مُحَدَّثَہ مَصحَف فَاطِمَہؐ زهرا


 شہزادی فاطمہ زهراؐ بحیثیت مُحَدَّثَہ مَصحَف فَاطِمَہؐ زهرا



حضرت فاطمہ زہراؐ اپنے والد گرامی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ کی طرح خدا کی عبادت سے بے حد دلچسپی رکھتی تھیں۔ اسی بنا پر آپ اپنی زندگی کا ایک اہم حصہ نماز اور خدا کے ساتھ راز و نیاز میں بسر کرتی تھیں۔

کتاب عدۃ الداعی میں جناب فاطمہ زہرا ؐ کے قول سے اگر ہم نصیحت حاصل کر یں تو اپنی زندگی کو کامیاب و کامران بنا سکتے ہیں جو انہوں نے عبادات کے طریقہ کار کو اقوام عالم کے لیے بحیثیت نجات فرمایا ہے۔ شہزادی فاطمہ زہراؐ نے فرمایا: ''جو اپنی خالص عبادت کو اللہ کی طرف بھیجے تو اللہ تعالی اپنی بہترین مصلحت اس کی طرف نازل کرے گا۔ آپ کے قریبی افراد نے آپ کو متعدد بار قرآن کی تلاوت میں مشغول پایا۔

روایات میں اس بات کو واضح طور پر ذکر ہے کہ بعض اوقات جب حضرت فاطمہؐ قرآن کی تلاوت میں مشغول ہوتی تھیں تو اس دوران آپ غیبی امداد سے بہرہ مند ہوتی تھیں مثلاً کتب معتبرہ میں وارد ہے کہ ایک دن سلمان فارسی نے دیکھا کہ حضرت زہراؐ ہاتھ کی چکی کے پاس قرآن کی تلاوت میں مصروف تھی اور چکی خود بخود چل رہی تھی، سلمان فارسی نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے اس واقعہ کو پیغمبر اکرمؐ کی خدمت میں بیان کیا تو آپ نے فرمایا خداوند عالم نے حضرت زہرا ؐکیلئے چکی چلانے کے واسطہ جبرئیل امین کو بھیجا تھا۔ نمازوں کا طولانی ہونا اور رات بھر بیدار رہ کر عبادت میں گزارنا، دنوں کو روزہ رکھنا، شہدا کے قبور کی زیارت کرنا حضرت فاطمہؐ کی زندگی کے نمایاں معمولات میں سے تھا جس کے بارے میں اہلبیتؑ، بعض صحابہ کرام نے اس بات کی تصدیق کی ہے۔ اسی لئے ہم دیکھتے ہیں کہ دعا و مناجات کی کتابوں میں بعض نمازوں، دعاوں اور تسبیحات وغیرہ کی نسبت حضرت فاطمہؐ کی طرف دی گئی ہے۔

شہزادی حضرت فاطمہ زہراؐ میں سخاوت کا پہلو ان کی سیرت اور کردار کا ایک نمایاں پہلو ہے۔ جس وقت آپ نے حضرت علی علیہ السلام کے ساتھ مشترک ازدواجی زندگی کا آغاز کیا تو اس وقت آپ لوگوں کی معاشرتی اور مالی حالت انتہائی ناگفتہ بہ تھی لیکن اس وقت بھی آپ نے سادہ زندگی گزاری اور اس حالت میں بھی آپ نے خدا کی راہ میں انفاق کے ذریعہ سخاوت کے اعلی نمونے قائم کئے۔ اپنی شادی کے کپڑوں کو اسی رات کسی محتاج کو دیدینا، کسی فقیر کو اپنے ملبوسات عطا کرنا اور تین دن تک اپنا اور اپنے اہل و عیال کا کھانا مسکین، یتیم اور اسیر کو دیدینا آپ کی زندگی میں سخاوت کے اعلی نمونوں میں سے ہیں۔ تفسیری مصادر میں موجود مطالب کی روشنی میں جب فاطمہؐ، علیؑ اور حسنینؑ نے تین دن پے در پے روزہ رکھا اور افطاری کے وقت پورا کھانا نیازمندوں کو دیدیا تو خدا کی طرف سے سورہ انسان کی 5 سے 9 تک کی آیات نازل ہوئیں جو آیات اطعام کے نام سے مشہور ہیں۔

خدا کے مقرب فرشتوں کا حضرت فاطمہؑ کے ساتھ ہمکلام ہونا آپ کی خصوصیات میں سے ایک ہے۔ یہی خصوصیت آپ کو ''مُحَدَّثَه'' کہنے کی وجہ بنی۔

آپ کا پیغمبر اکرمؐ کی حیات طیبہ میں فرشتوں کے ساتھ ہمکلام ہونا اور حضور صلعم کی رحلت کے بعد فرشتوں کا آپ کو تسلیت و تشفی دینا اور نسل پیغمبر اکرمؐ کا تسلسل آپ سے جاری رہنے کی خبر دینا اس بات کی واضح نشانیوں میں سے ہیں۔ آئندہ رونما ہونے والے واقعات جو فرشتہ الٰہی حضرت فاطمہؐ کیلئے بیان کرتے، امام علیؐ انہیں کتابی صورت میں تحریر فرماتے تھے جو بعد میں مصحف فاطمہؐ کے نام سے معروف ہوا۔

شیعہ اور سنی دونوں فریق کے علما اس بات کے معتقد ہیں کہ حضرت زہراؐ کے ساتھ محبت کو خداوند عالم نے مسلمانوں پر فرض قرار دیا ہے۔ علما آیہ مودت کے نام سے مشہور سورہ شوریٰ کی آیت نمبر 23 سے استناد کرتے ہوئے حضرت فاطمہ زہراؐ کی محبت کو فرض اور ضروری سمجھتے ہیں۔

آیہ مودت میں پیغمبر اکرمؐ کی رسالت اور نبوت کے اجرت کو آپ کے اہلبیتؑ سے مودت اور محبت کرنے کو قرار دیا ہے۔

احادیث کی روشنی میں اس آیہ میں اہلبیت سے مراد حضرت فاطمہؐ، حضرت علیؑ اور حضرت امام حسن و حضرت امام حسین علیہما السلام ہیں۔

آیہ مودت کے علاوہ پیغمبر اکرمؐ سے متعدد احادیث نقل ہوئی ہیں جن کے مطابق خداوند عالم فاطمہؐ کی ناراضگی سے ناراض اور آپ کی خشنودی سے خشنود ہوتا ہے۔

بعض روایات میں حضرت فاطمہؐ کی خلقت کو وجہ تخلیق آسمان قرار دیا گیا ہے، مثلا احادیث قدسی میں حدیث "لولاک" کے نام سے ایک مشہور و معروف حدیث ہے۔

پیغمبر اکرمؐ سے منقول ہے کہ افلاک کی خلقت پیغمبر اکرمؐ کی خلقت پر موقوف ہے آپ کی خلقت حضرت علیؑ کی خلقت پر موقوف ہے اور آپ دونوں کی خلقت حضرت فاطمہؐ کی خلقت پر موقوف ہے۔

پیغمبر اکرمؐ سب سے زیادہ حضرت فاطمہؐ سے محبت رکھتے اور آپ کا احترام کرتے تھے۔

حدیث "بضعة" نامی مشہور حدیث میں پیغمبر اکرمؐ نے فاطمہؐ کو اپنے جگر کا ٹکڑا قرار دیتے ہوئے فرمایا: جس نے بھی فاطمہ زہراؐ کو ستایا گویا اس نے مجھے ستایا ہے۔ اس حدیث کو پہلی صدی کے محدثین جیسے شیعہ علما میں سے شیخ مفید اور اہلسنت علما میں سے احمد بن حنبل نے مختلف طریقوں سے نقل کیا ہے۔

شیعہ سنی دونوں طریقوں سے منقول متعدد احادیث میں آیا ہے کہ حضرت فاطمہؐ سیدۃ نساء العالمین اور بہشت کی تمام عورتوں کی سردار ہیں۔ شہزادی فاطمہ زہرا ؐ کی حیات مبارکہ کو مباہلہ میں شریک واحد خاتون کے نظریہ سے دیکھا جائے تو اس کا بات بخوبی علم ہوتا ہے کہ صدر اسلام کی مسلمان خواتین میں سے حضرت فاطمہؐ وہ اکیلی خاتون ہیں جنہیں پیغمبر اکرمؐ نے نجران کے عیسائیوں کے ساتھ مباہلہ کیلئے انتخاب فرمایا تھا۔

یہ واقعہ قرآن مجید کی آیہ مباہلہ میں ذکر ہوا ہے۔ تفسیری، روائی اور تاریخی مصادر کی روشنی میں آیت مباہلہ اہلبیت پیغمبرؐ کی فضیلت میں نازل ہوئی ہے۔ پیغمبر اکرمؐ کی نسل کا تسلسل اور ائمہ معصومین کا تعین حضرت زہراؐ کی نسل سے ہونا آپ کی فضیلت میں شمار کیا گیا ہے۔

بعض مفسرین حضرت زہراؐ کے ذریعہ پیغمبر اکرمؐ کی نسل کے تسلسل کو سورہ کوثر میں مذکور خیر کثیر کا مصداق قرار دیتے ہیں۔


مولانا محمد رضا ایلیا

پورہ رانی، مبارکپور، اعظم گڑھ


★ ★ ★ ★ ★ ★ ★

Post a Comment

To be published, comments must be reviewed by the administrator *

جدید تر اس سے پرانی