کوفه کے بارے میں مولا عليؑ نے کیا فرمایا نیز امام حسینؑ نے کربلا میں عاشورا کو تاریخ کے رخ کو کیسے موڑا اور شیعہ ان کی اتباع کیوں کرتے ہیں؟
بہت ہی اہم سوال کیا گیا ہے کہ اسکے با وجود کوفه کے لوگ ابتدا میں بہت لائق و اچھی طرح سے اپنے اسلامی و الٰہی وظیفہ پر عمل کرتے رہتے تھے؛ کیونکہ مسلمانوں کے ارد گرد سے پراکندہ ہوئے اور زمانہ گذرنے کے ساتھ ہی انکی تعداد بھی کم ہوگئی یہاں تک کہ زمانہ ایسا آگیا کہ جناب مسلم نے جیسے ہی نماز مغرب تمام کی تو آپ کے اردگرد صرف 10 افراد ہی باقی رہ گئے اور جب محلہ کندہ سے آپ نکلے تو آپ کے ساتھ کوئی ایک بھی نہیں تھا کہ ان كا کوئی ساتھ دے سكے! تو انکے مخلص انصار کہاں گئے؟
اس سوال کے صحیح جواب کیلئے لازم ہے کہ ہم کوفه اور وہاں کے كوفيوں کو بہتر طریقہ سے پہچانیں، بغیر كسي تردید كے لوگوں کی تبدیلی یا انکی خاموشی اور لاپرواہی کوئی ایک اتفاقی و اچانک رونما ہونے والا واقعہ نہیں تھا بلکہ یہ بھی ایک شرائط کا سلسلہ اور قبائلی، قومی، مذہبی اور سیاسی حادثات کا نتیجہ ہی تھا اور اسی کے ماتحت اثر پذیر بھی ہوئے۔
شہر کوفہ؛ عراق کا سب سے بڑا مشہور و معروف شہر جو مسلمانوں کا «قبة الاسلام و دار الهجرة» ہے۔ سعد بن وقاص نے اسکی بنیاد رکھی اور شیعوں کے نزدیک اس شهر كو ایک بلندترین مقام حاصل ہوا کیونکہ حضرت علیؑ نے اسے اپنی خلافت کا مرکز قرار دیا اور اسی مقام پر شهيد بهي ہوئے، لکھنے کیی خاطر خط کوفی بھی اسی شہر و مقام سے منسوب ہے اور اموی اور عباسی خلافت کے زمانہ میں مدارس، مکاتب فکر میں علوم فقہ و لغت میں بھی بصرہ کے مکتب فکر کا ایک رقیب شمار کیا جاتا تھا۔ (لغت نامه دهخدا؛ کوفه: فرماندهى)
سلمان سے ابو نصر تمّار نے روایت کرتے ہوئے بیان کہا ہے: «کوفہ اسلام کا گنبد یعنی «قبة الإسلام» ہے ایک زمانہ آئے گا کہ ایک مومن بھی دنیا میں نہیں رہے گا مگر یہ کہ کوفہ میں ہی مومن ہوگا یا پھر اسکے دل میں کوفہ کی تمنا ہوگی.»
خلیفہ دوم عمر بھی کہتے ہیں: «کوفه کے لوگ افضل ترین ہیں.»
اور یہ بھی بیان کیا ہے: «یہ لوگ خدا کا نیزہ، ایمان کا خزانہ اور عرب کا دماغ ہیں، اعراب کی سرحدوں کا دفاع کرتے ہیں اور شہروں کے لوگوں کی مدد کرتے رہتے ہیں۔» (فتوح البلادان، بلاذرى؛ ص: 409، ذکر تمصیر کوفه)
کوفہ کی عوام مختلف قبیلوں اور قومیتوں پر مشتمل ہوا کرتی تھی کہ اہمترین قبائل مندرجہ ذیل ہوتے ہیں:
۱- قبیلہ کنانه۔
۲- قضاعه و غسّان و کندہ: قبیلہ کندہ کی سرداری اشعث بن قیس کے ہاتھوں میں تھی۔
۳- مذحج، حمیر اور همدان۔
۴- تمیم، قریش اور اسد۔
۵- ازد، بکر اور تغلب وغیرہم
ان میں سے ہر ایک قبائل کے رؤساء اور سردار ہوا کرتے تھے اور شائد اسی وجہ سے ہی کوفہ ہمیشہ اختلاف اور اضطراب میں مبتلا رہتا ہے، ایک مدت تک مغیرہ بن شعبہ بھی کوفہ کا حکمراں ہوا تھا اور لوگوں کی شکایت کے سبب عثمان نے اسے معزول کیا اور سعد بن ابو وقاص کو اسکا جانشین مقرر کیا پھر کچھ مدت کے بعد سعد کو بھی معزول کر دیا اور ولید بن عقبہ کو وہاں کا گورنر بنا دیا گیا۔
کوفہ کے قبائل میں سے ہر ایک قبیلہ خاص نظریہ کا طرفدار ہوا کرتا تھا؛ خوارج، طرفداران مروان، حامیان عثمان اور ان میں سے بہت سے یزید کے معاونین بھی تھے اور یہی لوگ کوفہ کی رپورٹ (خفیہ طریقہ سے) یزید کو بھیجا کرتے تھے؛ عبد اللہ بن مسلم حضرمی کے جو بنی امیہ کا حامی اور انکا چاہنے والا تھا یزید کو ایک خط تحریر کر کے کوفہ کے حالات کو اس طرح بیان کرتے ہوئے تحریر کرتا ہے:
«لعبد اللّه یزید بن معاویه، أمیر المؤمنین من شیعته من أهل الکوفه. أما بعد؛ فإن مسلم بن عقیل قد قدم الکوفه....»
اس خط میں اس نے اپنے آپ کو یزید کا شیعہ یعنی خاص چاہنت والا ہونے کے طور پر تعارف پیش کرتا ہے۔
اسی سے ملتا جلتا خط عمر بن سعد کا بھی لکھتا ہے۔
اسی طرح کی خبروں کے پہونچنے کے ساتھ ہی عبید اللہ بن زیاد کو تحریر کرتا ہے:
«أما بعد فإن شیعتى من أهل الکوفه کتبوا الى....»
(الفتوح، ابن اعثم کوفی 5 و 6/ 36)
ان خطوط سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ یزید کے ماننے والے کی اچھی خاصی تعداد ہوا کرتی ہے اور روز روشن کی طرح واضح ہو جاتا ہے، جیسا کہ عام طور پر لوگوں کے درمیان مشہور ہے، کوفہ کے سب لوگ ہی مولا علیؑ کے شیعہ نہیں تھے، بلکہ کوفہ کے لوگوں کے درمیان فقط ایک ہی گروہ مولا علیؑ کے مخلص شیعه حضرات کا تھا؛ یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے مولا علیؑ کے ساتھ قاسطین یعنی ستمگران (جنگ صفین)، ناکثین یعنی پیمان شکنی کرنے والے (جنگ جمل) اور مارقین یعنی خروج کرنے والے (جنگ نہروان) کی جنگوں میں شرکت فرمائی اور فتح و کامرانی کے ساتھ لڑائی کی۔
اسکے علاوہ اگر کہا جائے کہ اہل کوفه شیعہ ہی ہوتے ہیں تو اس وجہ سے ہے کہ کوفہ کے لوگ حضرت مولا علیؑ کو معاویہ اور عثمان سے افضل مانتے تھے اور کوفه میں شیعہ کا لفظ اصطلاحی معنی میں کمتر استعمال ہوتا رہا ہے؛ جبکہ شیعہ کا لفظ کبھی اہلبیتؑ کے دوستوں اور تعلق رکھنے والے ہر مذہبی گروہ پر اطلاق ہوا کرتا تھا اور اسی لئے مورخین نے کوفہ کے لوگوں کے سماجی، مذہبی اور سیاسی پہلوؤں اور فتنوں کے سر چشمہ کی طرف بہت کم ہی توجہ کرتے ہیں اور بہت سے لوگ تو شیعہ پر طعن و طنز کی خاطر کوفیوں کو صاحبان نفاق و خیانت کے طور پر پہچنوایا کرتے ہیں۔ جبکہ یہ معیار اس صورت میں ان لوگوں پر صادق آئے گا کہ جن لوگوں نے امام علیؑ کے ساتھ واقعاً خیانت کی تھی؛ جیسے خوارج، حامیان بنی امیہ و عثمانی شیعہ جیسے لوگ تھے، لیکن آنحضرت کے مخلص لوگ ہمیشہ امامؑ کے ساتھ میدان جنگ میں ہی ہمرکاب ہوا کرتے تھے، شمشیر زنی کیا کرتے تھے اور سب ہی لوگ جانتے ہیں اس زمانہ میں مولا علیؑ کی طاقتور فوج کامیابی کے دہانہ پر ہی پہونچنے ہی والی تھی کہ عمرو عاص کی چالبازی سے قرآن کو نیزوں پر بلند کیا گیا اور مولا علیؑ کے لشکر میں اختلافات کا سبب بنا اور ایک گروہ نے امام کی اطاعت سے انکار کیا اور وہ گروہ خوارج کہلایا جانے لگا۔
واقعہ کربلا میں بھی عراق کے حالات تبدیل ہونے کے بعد اور مخلص شیعہ کیلئے راستے بند ہونے کی بنا پر امام حسینؑ کی مدد کیلئے شیعہ نہیں پہونچ سکے اور جناب مسلمؑ بھی اسی لئے تنہا رہ گئے تھے۔
البتہ یہاں پر ایک اہمترین ابہام و شبہہ پایا جاتا ہے کہ ایسا نظر آتا ہے کہ مورخین نے ہرگز نہیں چاہا اور نہ ہی تحریر کیا کہ حقائق واضح و روشن کریں۔
مورخین تحریر نےکیا ہے: «مسلمؑ بن عقیل کے ساتھی شیعہ حضرات کے بکھر جانے کے بعد وہ کوفه کی گلیوں اور کوچوں میں تنہا رہ گئے اور یہاں تک کہ ایک شخص بھی آپکی حمایت کرنے والا نہیں تھا کہ انکی مدد و نصرت کر سکے۔» (تاریخ طبرى 4/ 277 و ارشاد مفید ص: 192)
اس صورت میں ہم جانتے ہیں کہ ایسے افراد بھی آپ کے ساتھ پچھلے معرکہ میں موجود تھے جو جناب مسلم کیلئے اپنی جان کی بازی بھی لگانے والے شیعہ بھی آپ کے سامنے ہی موجود تھے کہ کسی بھی بنا پر شیعہ جناب مسلم کو تنہا ہرگز نہیں چھوڑنے والے ہیں، مسلمؑ بن عوسجہ، حبیب بن مظاہر، ابو ثمامؑہ صائدی وغیرہم جیسے شیعہ افراد بھی بلند ترین ایمان کے حامل تھے، پھر ہم کیسے یہ باور کر سکتے ہیں کہ مسلمؑ بن عوسجہ نیز بقیہ مخلصین شیعہ اور جانثاروں نے کوفه میں انہیں کیسے تنہا چھوڑ دیا اور اپنے گھر بھی نہیں لے جا سکے؟!
کونسے ایسے مخصوص اور غیر معمولی حالات در پیش آئے تھے کہ عبید اللہ بن زیاد کے سپاہیوں نے جناب مسلمؑ کے با ایمان و جانثار شیعہ اصحاب و انصار کے رابطہ کو منقطع کر دیا اور امام کے مسلح چاہنے والے شیعہ جناب مسلمؑ کے ساتھ رات کی تاریکی میں کوفہ سے باہر تک نہیں نکلے تا کہ امام حسینؑ کے ساتھ شیوہ ملحق ہوجائیں حتی کہ امام کو کوفه کے تازہ حالات سے با خبر کر سکیں؟
ہم یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ مورخین نے اس واقعہ کے جزئیات کو درج نہیں کر سکے اور اسی وجہ سے نتائج و فیصلہ کرنے میں پہلے سے فرض کرنے میں بغیر اثر و رسوخ کے نہیں تھا۔
بہر حال اس مبہم اور غیر واضح صورت حالت کی وجہ سے ہی کوفہ کے شیعہ حضرات کو سرزنش کا نشانہ بنایا گیا؛ یہی امامؑ حسین کے مخلص شیعہ ہی تو تھے جنہوں نے تمامتر سختیوں کے باوجود کوفه سے نکل کر اپنے آپ کو امام حسینؑ تک پہونچایا۔
ایسے حالات میں بھی تاریخ میں یہی ملتا ہے کہ ہر قوم و ملت کی روح ایک جیسی اور غیر قابل تغییر نہیں ہے بلکہ انسانوں کی طبیعت انعطاف پذیر ہے اور بعض شرائط کی بنا پر تبدیل ہوتی رہتی ہے چنانچہ پیغمبرؐ اسلام کی جنگوں میں خاص طور پر جنگ احد و خندق میں یہ تبدیلی و تغیر رونما ہوئی ہے، کوفه میں بھی ایسے ہی حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے جو ابن زیاد نے افواہوں کے ذریعہ اہلبیتؑ کے بہت سے چاہنے والے شیعہ کیلئے وجود میں لایا تھا۔
مرحوم شیخ مفیدؒ کوفه کے لوگوں کے بارے میں تحریر کرتے ہیں:
«جب امام حسنؑ نے معاویہ کے ساتھ جنگ و جہاد کرنے کا حکم صادر فرمانے کے بعد بھی سختی نہیں کیا اور مہلت دینے کا آغاز کیا کیونکہ امام کے لشکر کے درمیان مختلف قسم کے گروہ موجود تھے۔ جیسے:
۱- مولا علیؑ اور آنحضرت کے شیعہ حضرات کا گروہ۔
۲- کوفه کے خوارج کہ جن کا فقط معاویہ کے ساتھ جنگ ہی کرنا مقصد تھا البتہ ایسی جنگ جس طرح سے بھی کرنا ممکن ہو۔
۳- کوفه کے ایسے لوگ جو فتنہ پرور اور لالچی افراد پر مشتمل جن کا مقصد فقط جنگ کا مال غنیمت تھا۔
۴- کقفه بعض افراد دو دل تھے کہ جو آنحضرت کی امامت پر مستحکم عقیدہ نہیں رکھتے تھے۔
۵- کوفه کا ایک گروہ جو غیرت، قومی عصبیت اور اپنے قبائل کے سردار کی پیروی کرتے تھے نیز دین و ایمان بھی نہیں رکھتے تھے. (الارشاد 2/ 6 باب: 1)
واقعہ کربلا میں بھی ایک گروہ امام حسینؑ سے ملحق ہوا اور شہادت کے درجہ پر فائز بهي ہوا اور ایک گروہ شہادت امام حسینؑ کے بعد بھی اسی راستہ پر چلتے ہوئے آنحضرت کے خون کا انتقام لیتے ہیں۔
اس بات کیلئے امام حسینؑ کی سیرت و کردار بہترین گواہ ہے کیونکہ اگر کوفہ کے تمام لوگ ہی منافق و دغا باز ہوتے تو آنحضرت دوسرے ہی راستہ کا انتخاب کرتے اور انکے خطوط کے جواب نہ دیتے۔
جنہوں اپنے خیال خام میں امام حسینؑ کو نصیحت کی تھی کہ کوفہ و عراق تشریف نہ لے جائیں تو امام حسینؑ نے بھی ان تمام لوگوں کی باتوں کو اہمیت نہیں دیا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ یہ معاویہ، یزید اور انکے حامیوں کی زبانی ایک افواہ ہے جسے شیعہ حضرات کی طرف نسبت دی جا رہی ہے۔
چنانچہ ان لوگوں کا شیوہ و طريقہ کار ہی ایسا تھا کہ مولا علیؑ کے شیعہ کو ناپسندیدہ القاب سے یاد کرتے تھے، عراق کی طرف امام حسینؑ کی روانگی کے بعد ہی یزید مختلف راستوں سے امام حسینؑ سے مقابلہ کیلئے کھڑا ہو جاتا ہے تا کہ امام حسینؑ کو عراق کی طرف جانے سے روک سکے، لہٰذا وہ جناب ابن عباس کو خط لکھتا ہے کہ آپ ہی اہلبیت میں بزرگ ہستی ہیں اور آپ نے تجربہ بھی کیا ہے کہ کوفہ کے لوگ اہلبیت کے طرفدار نہیں ہیں وغیرہ ...اسی کے بعد ابن عباس امام حسینؑ سے اس طرح کہتے ہیں: «مجھے خبر پہونچی ہے کہ آپ عراق کے کوفه کی طرف جانے کا مصمم ارادہ رکھتے ہیں، وہ لوگ حیلہ باز اور مکر کرنے والے افراد ہیں نیز آپ کو جنگ کیلئے بلا رہے ہیں وغیرہ...» (مروج الذهب مسعودى 3/ 64، ذکر مقتل الحسین بن علیؑ بن ابیطالب)
عبد اللہ بن عمر کہتے ہیں: «میں آپ کو صبر اور جو کچھ لوگوں نے قبول کیا ہے اسی کی طرف بلاتا ہوں یعنی یزید کی حکومت کو تسلیم کر لیں.» تو امام حسینؑ عبد اللہ بن عمر کے جواب میں فرماتے ہیں: «تمہارا وظیفہ ہے کہ تم میری مدد کرو» اور جان لو: «اس ذات کی قسم جس نے میرے جد محمدﷺ کو مبعوث کیا اگر تمہارے والد عمر بن خطاب بھی میرا زمانہ پاتے تو میری مدد ویسے ہی کرتے جیسے میرے جد کی مدد کی تھی اور انکے ساتھ بیعت کرنے میں جلد بازی مت کرو جب تک کہ امور کا انجام روشن و واضح ہو جائے.»
«فو الذى بعث جدى محمد ﷺ لو أن اباک عمر بن الخطاب أدرک زمانى لنصرنى کنصرته جدى … »
(مقتل خوارزمى 1/ 193 و الفتوح ابن اعثم 5/ 43)
یزید اپنی تمامتر تلاش و جستجو میں لگا ہوا تھا کبھی صحابہ کی نصیحتوں کے وسیلہ کو اختیار کرتا ہے تا کہ امام حسینؑ کو روانگی سے باز رکھ سکے، ایسی صورت میں امام اپنی امامت کی خاص بصیرت کے ذریعہ انکے غلط استدلال کو ان ہی کے گوش گزار فرمایا اور اپنے آئندہ کے لائحہ عمل کو بھی بیان فرمایا دیا نیز مصلحت اندیش لوگوں کی کوئی بھی پرواہ نہیں فرمائی، یہ سب ہی اس بات کی علامت ہے کہ امام کوفہ کے شیعوں اور عوام سے امید لگائے ہوئے تھے اور اگر امام علیؑ اور آنحضرت کی بیٹی زینب علیا مقامؑ نیز شہدائے کربلا کے بازماندگان کے بعض خطبوں میں کوفہ کے لوگوں کو مقام سرزنش و ملامت قرار دیا ہے جیسے: اے غداری کرنے والو!
«أهل الغدر و...»
بغیر تردید کے ان لوگوں کا مقصود و منظور تمام کوفہ کی عوام ہرگز نہیں تھے چونکہ یہ بخوبی جانتے تھے کہ کوفیوں میں ہی انکے خاص اصحاب اور بزگزیدہ شیعہ افراد بھی وجود رکھتے تھے اور خود ائمہؑ بھی انکی اطاعت و اخلاص پر یقین رکھتے تھے چنانچہ میدان عمل میں بھی یہ ثابت کر دیا، خود آنحضرت بھی جانتے تھے کہ اگر فقط اسی گروہ کو حکم جہاد دیا جائے گا تو یہ کبھی بھی مخالفت نہیں کریں گے، پس امامؑ کے فرمان سے مراد عہد شکنی کرنے والے اور سادہ لوح افراد ہی تھے جنہوں نے خوارج اور دنیا طلب کی دسیسہ کاری سے فریب کھایا تھا جیسا کہ امام حسنؑ اور معاویہ کی جنگ میں خوارج پوشیدہ طور پر امام کے لشکر میں نفوذ کئے ہوئے تھے اور وہی چال چلی جو امامؑ کے پدر بزرگوار کے ساتھ انجام دیا تھا، اسی بنا پر یہ خوارج کا گروہ ظاہری طور پر کو امام کی اطاعت کا اظہار کرتے تھے اور باطن میں نافرمان تھے اور اسی طرح سے حامیان عثمان بھی کہ جو عثمانی شیعہ ہونے کو ظاہر نہیں کرتے تھے یہی لوگ کوفہ اور بصرہ کی عوام کے درمیان افواہ اور جھوٹی خبریں پھیلانے میں مشغول تھے۔ اگر امام حسینؑ مدینہ سے مکہ کی طرف بھی روانگی کی ابتدا کرتے تب بھی یہی گروہ امام کے خلاف افواہ اور غلط خبریں ہی پھیلاتے رہتے تھے جیسا کہ انہوں نے کوفہ میں انجام دیا۔
کوفه کی عوام کے درمیان ہانی بن عروہ، عابس بن شبیب، حبیب بن مظاہر، عبد اللّہ بن عفیف ازدی و قیس بن مسہر صیداوی وغیرہم جیسے افراد بھی موجود تھے بلکہ ایسے ہی دوسرے دسیوں افراد بھی حاضر تھے کہ جو پرچم امامت کے ما تحت کلمہ توحید کی سر بلندی میں اپنی جان کو کئی بار قربان کر دیں۔
کیونکر تاریخ کی تحقیق کرنے والوں نے کربلا کے مسئلہ میں اس نکتہ کی طرف کمترین توجہ کئے رہتے ہیں؟ مگر یہی قیس نہیں تھے کہ جنہیں عبید اللہ بن زیاد کے جاسوسوں نے گرفتار کیا حالانکہ انکے پاس کوفہ کے لوگوں کے نام امام حسینؑ کا تحریر کردہ خط موجود تھا جسے انہوں نے نگل لیا تا کہ دشمنوں کے ہاتھ نہ لگ سکے۔
قیس کی گرفتاری کے بعد عبید اللہ نے ان سے کہا:
«من أنت قال؟ أنا رجل من شیعة أمیر المؤمنین على بن أبی طالب قال: فلما مزقت الکتاب؟ قال لئلا تعلم ما فیه قال و ممن الکتاب و إلى من؟ قال من الحسین إلى جماعة من أهل الکوفة لا أعرف أسماء هم فغضب إبن زیاد و قال لا تفارقنى حتى تخبرنى بأسماء هٰؤلاء القوم و تصعد المنبر فتسب الحسین بن على و أباه و أخاه وإلا قطعتك أرباً و أرباً ثم صعد المنبر بقلب أقوى من الصخر ثم حمد اللّه و أثنى علیه و قال: أیها الناس ان الحسین بن على من خلق اللّه و إبن فاطمة بنت رسول اللّه و أنا رسوله إلیکم و قد خلفته بالحاجز فأجیبوه و أنصروه و ان الکذّاب بن الکذّاب هو عبید اللّه بن زیاد فالعنوه و العنوا أباه ...»
(الارشاد؛ ص: 207)
★ ابن زیادنے پوچھا: تم کون ہو؟ قیس نے کہا: میں مولا علی بن ابیطالبؑ کے شیعوں میں سے ایک فرد ہوں۔ ابن زیاد نے پھر پوچھا: کیوں خط کو ضائع کر دیا؟ قیس جواب دیا: اسلئے کہ تم اسکے مضمون سے با خبر نہ ہو سکو۔ ابن زیاد نے سوال کیا: خط کس کی طرف سے تھا اور کن لوگوں کیلئے تھا؟ قیس نے بیان کیا: امام حسینؑ کی طرف سے کوفہ کے لوگوں کے نام جنہیں میں نہیں جانتا۔ ابن زیاد نے ناراضگی کی حالت میں کہا: تم مجھ سے جدا نہیں ہو سکو گے تا کہ تم انکے نام مجھے بتاؤ اور منبر پر جا کر امام حسین بن مولا علیؑ، انکے والد اور بھائی پر سب و شتم کرو، و گر نہ میں تمہارے ٹکڑے ٹکڑے کر دوں گا۔ اس وقت قیس قوی و محکم دل کے ساتھ منبر پر تشریف فرما ہوئے: خداوند متعال کی حمد و ثناء کے بعد امام حسینؑ کی فضیلت بیان کرتے ہیں اور کہا: کذاب بن کذاب عبید اللہ بن زیاد ہے اس پر اور اسکے باپ پر لعنت کریں!
اس مقام پر یہ سمجھنا کہ کوفه کے لوگوں کی اکثریت کا دل متزلزل اور منقلب ہوتا رہتا تھا تو یہ صحیح نہیں ہے کیونکہ مولا علیؑ نے انہی کوفه کے لوگوں کی مدد سے جنگ جمل میں کامیابی حاصل کی تھی اور یہی کوفه كے لوگ تھے جن کی مدد سے خوارج کو جنگ نہروان میں تہہ و بالا کر دیا تھا اور انہی لوگوں کی وجہ سے جنگ صفین میں یقینی کاميابی کی طرف بڑھے تھے۔ مولا علیؑ كے ساتھ جنگ جمل سے پہلے جب کوفہ کے لوگ آنحضرت کی مدد کی خاطر مقام ذی قار پر ملحق ہوئے تو آپ نے ایک خطبہ میں ان لوگوں کی تعریف و توصیف کرتے ہوئے فرمایا:
«اے اہل کوفه! تم کریم ترین اور میانہ رو ترین مسلمان ہو اور تم لوگوں کا طریقہ عادلانہ ترین اور تم لوگوں کا حصہ اسلام میں بہترین ہے اور عرب میں سب سے زیادہ بخشش کرنے والے تم ہی لوگ ہو، تم پیغمبرؐ اور اسکی اہلبیتؑ سے دوستی کرنے میں سارے عرب میں مستحکم تر ہو اور میں نے خدا کے بعد تم پر ہی اطمینان اور اعتماد کیا ہے اسی لئے تو میں تمہاری طرف آیا ہوں۔»
«يا أهل الكوفة إنكم من أكرم المسلمين وأقصدهم وأعدلهم سنة وأفضلهم سهمًا في الإسلام وأجودهم في العرب مركباً ونصاباً أنتم أشد العرب وداً للنبي (ص) وأهل بيته، وإنما جئتكم ثقة بعد الله بكم للذي بذلتم من أنفسكم ...» (الارشاد 2/ 118)
حضرت مولا علیؑ نے جنگ جمل کے بعد خوشی کے ساتھ ان ہی کوفه کے لوگوں کو جنہوں نے دشمنوں کو مغلوب کیا تھا، انکی خدمات کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
«جزاکم اللّه عن أهل بیت نبیکم أحسن مایجزى العاملین بطاعته و الشاکرین لنعمته فقد سمعتم و أطعتم و دعیتم فأجبتم»
(نهج البلاغه؛ مکتوب: 2)
خداوند متعال خاندان پیغمبر ؐ کی جانب سے بہترین بدلہ تم کوفه کے لوگوں کو عنایت کرے کہ میری دعوت کا تم لوگوں نے جواب دیا اور میری فرمان برداری کو قبول کیا۔
اسی طرح امام حسینؑ نے بھی ان ہی لوگوں کیلئے دعائے خیر کرتے ہوئے فرمایا:
«فسألت اللّه أن یحسن لنا الصنیع و أن یثیبکم على ذلک أعظم الأجر»
(الارشاد 2/ 71)
میں خداوند عالم سے سوال کرتا ہوں کہ ہمارے لئے خیر و کامیابی قرار دے اور تمہیں اجر عظیم عنایت فرمائے کہ تم لوگوں نے زحمت اٹھائی ہے تا کہ اسلامی خلافت کو اسکے اصلی مقام تک واپس لایا جا سکے۔
اس مقام پر ہمارے لئے بخوبی روشن ہو جاتا ہے کہ اس طرح کے اتہام و افترا کوفه کے لوگوں کی طرف نسبت دینا یا تو مورخین کے ذریعہ بھی ایسا ہی کرنا حقیقت میں کوفه کے لوگوں کی معرفت نہیں رکھتے ہیں یا پھر بعض افراد خاص مقصد اور مغرض لوگوں کے توسط سے ہی انہوں نے فیصلہ کر لیا ہے۔
چنانچہ جناب مسلم بن عقیلؑ کی تنہائی و شہادت کو بھی کوفه کے شیعہ حضرات کی بے وفائی کی ایک دلیل قرار نہیں دیتے بلکہ مختلف عوامل اس میں اپنا کردار ادا کر رہے تھے کہ جن کی طرف ہم آئندہ پھر کسی مضمون میں اشارہ کریں گے۔
----------------------------------------------------
@};- }i{ -;{@ $}{@J@r -;{@ }i{ @};-
DEDICATED TO SHAHE KHORASSAN IMAM ALI IBNE MUSA REZA (AS)
ایک تبصرہ شائع کریں