قرآن کریم اور اسلام میں میکائیل فرشتہ کون ہے







قرآن کریم اور اسلام ميں میكائيلؑ فرشتہ كون ہے


تحریر : محمود مطہّري نيا


٭ ترجمہ : ابو دانیال اعظمی بریر


  • ★ مقام و منزلت ميکائيلؑ فرشتہ

 

ميکائيلؑ فرشتہ بھی مثل جبرئیل دیگر فرشتہ پر بلند و عظیم مرتبہ و منزلت کے حامل ہیں اور خدا کے چار برگزیدہ فرشتہ میں سے ایک شمار کئے جاتے ہیں۔ (بحار الانوار؛ 54/22؛ 56/50؛  94/47؛ 144/6)

یہاں تک کہ انکے وجود کا اقرار کرنا بھی ضروریات اسلام کا جزو شمار کیا جاتا ہے کہ ان کے انکار کرنے سے اسلام سے خارج اور مرتد ہو جاتا ہے. (تقریرات الحدود و التعزیرات؛ تقریر بحث الگلپایگانی، 2/ 132)

بلکہ کبھی کبھی روایات میں انہیں عبارتوں میں «اکرم الخلق علی الله» (بحار الانوار؛ 56/260)

خداوند عالم کے نزدیک کریمترین مخلوق فرشتہ جیسے الفاظ سے بیان کیا جاتا ہے اور کبھی کبھی «خيرة الله» (بحار الانوار؛  96/ 383)

اللہ کا برگزیدہ فرشتہ یا پھر کبھی «صفوة الله من الملائكة» (بحار الانوار؛ 56/ 252)

فرشتہ کے درمیان سے اللہ کا منتخب کردہ کے القاب سے یاد کیا گیا ہے نیز قرآن کریم کی آیت میں بھی انہیں میکال کے نام سے ذکر كيا گیا ہے۔ (قرآن کریم سورہ بقرۃ (2) آيت: 98)



  • ★ عالم خلقت میں میکائیلؑ فرشتہ کا کردار


اس قرآن کریم کی آيت کے ذیل میں روایات میں ذکر ملتا ہے: «فَالْمُدَبِّرَاتِ أَمْرًا» (قرآن کریم سورۃ نازعات؛ (75) آيت: 5) 

    پس وہ لوگ (بندوں) کے کام کی تدبیر کرتے ہیں، اس تدبیر کے مصداق کے معنی یہ ہے کہ فرشتہ کو مؤکل کیا جانا ہے، فرشتہ جبرئیل کو ہوا اور جنود پر اور فرشتہ میکائیل کو پیڑ پودوں نیز نزولات آسمانی پر مؤکل کیا ہے.

فرشتہ عزرائیل کو قبض ارواح اور فرشتہ اسرافیل کو دیگر مخلوق فرشتہ کے نظم و نسق کیلئے متعین کرنے کا بیان مذکور ہے۔ (تفسير قرآن کریم مجمع البيان؛ 10/ 326؛ بحار الانوار؛  56/ 258)

 اس درمیان زمین پر جتنے بھی بارش کے قطرات نازل ہوتے ہیں مزید تاکید کے کہہ سکتے ہیں کہ میکائیل فرشتہ اس پر بهي مامور ہیں یا پھر انکے ساتھ شامل ہیں۔ (بحار الانوار؛  56/ 260)

    ماثورہ و مروی دعاؤں کے درمیان بھی اللہ کے اس مقرب فرشتہ کو ملاک رحمت کے نام سے جو اللہ کی مہربانی کے اظہار کیلئے پیدا کیا گیا ہے، ناصر و مددگار، خداوند عالم کی اطاعت کرنے والوں کیلئے استغفار کرنے کے لقب سے بھی ذکر کیا جاتا ہے۔ 

    «أَللّٰهُمَّ صَلِّ عَليٰ مِيكَائِيلَ مَلَكُ رَحمَتِكَ وَ المَخلُوقُ لِرَأفَتِكَ وَ المُستَغفِرُ المُعِينُ لِأَهلِ طَاعَتِكَ» (مصباح المتہجد؛ 808؛ اقبال الاعمال؛ 3/ 243)

 ٭ پروردگارا! رحمت نازل فرما میکائیل فرشتہ پر جو تیری رحمت کا فرشتہ ہے اور تیری مہربان فرشتہ مخلوق ہے اور جو فرشتہ معین کیا گیا ہے يا مومنين كا معين فرشتہ يعني مدد كرنے والا ہے جو اطاعت کرنے والوں کیلئے استغفار کرنے والا فرشتہ ہے۔ 

    دلچسپ بات تو یہ بھی ہے کہ ہم یہ جان لیں کی روایت میں یہ بھی ملتا ہے کہ جب اللہ نے (جہنم) کی آگ کو خلق کیا تو یہ ہنسے نہیں تھے۔ (بحار الانوار؛ 56/ 260؛ مسند احمد بن حنبل؛ 3/ 224)

    امام سجادؑ اپنی ایک دعا میں خداوند عالم کو میکائیل فرشتہ کی اطاعت و فرمان برداری کی قسم دیتے ہیں، اسی دعا میں امام سجادؑ خداوند متعال کو جبرئیل فرشتہ کے حق اور انکی امانتداری نیز (نبی آخر الزمان کے عہد میں) وحی پہونچانے کی قسم بھی دیتے ہیں۔ لہٰذا اسی عبارت کی بنیاد پر اہمترین مرتبہ کو جبرئیل فرشتہ کا وحی پہونچانے میں امانتداری سے کام لینا اور میکائیل فرشتہ کی خصوصیت کو اللہ کے نزدیک بے چوں و چرا اطاعت کرنے کو امتیازی طور پر صفت قرار دیتے ہیں۔ (صحیفه سجّادیه؛  399)


  • ★ انبياء (ع) و ميكائيلؑ فرشتہ 


جناب ميکائيلؑ فرشتہ کے سلسلہ میں عمومي طور پر اس سے قبل جبرئیل فرشتہ کا انبیاء کی زندگی میں انکے پاس حاضر ہونے کے بارے ميں تحریر کیا ہے تو دونوں ہی برادرانہ حیثیت سے ہمراہ اور ساتھ میں کام کرنے والے ہیں۔ یہاں پر ہم بعض موقع و محل میں ان دونوں کے ساتھ حکم خدا کے انجام دینے پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔


  • ★ حضرات لوطؑ / ابراهيمؑ و میکائیل فرشتہ


قرآن کریم میں قوم لوط پر عذاب کے واقعہ کو چند فرشتہ جناب ابراہیمؑ نبی کے پاس آتے ہیں کہ قرآن کریم نے اس مہمانی کے تذکرہ کو بیان بھی کیا ہے، ان میں کئی فرشتہ حضرات میں سب سے اوپر میکائیل فرشتہ و جبرائیل فرشتہ کا نام دکھائی دیتا ہے۔ (فتح الباري،  ابن حجر؛ 6/ 293)

اس قرآن کریم کے واقعہ میں بھی یہ بات شاذ و نادر ہی لگتی ہے کہ غضب کے فرشتہ کی حیثیت سے میکائیل فرشتہ ظاہر ہوتا ہے۔


  • ★ اصحاب رس و میکائیل فرشتہ


اسلام کے کچھ مصادر و منابع میں ذکر ملتا ہے اس میں اصحاب رس کے واقعہ کو بھی قرآن کریم نے بیان کیا گیا ہے۔ (قرآن کریم سورۃ فرقان 25) آيت: 38؛ سورۃ ق (50) آيت: 12)

آتش پرستوں کی ایک جماعت تھی جو «آذربايجان اور ارمنستان» کے درمیان ایک منطقہ میں زندگی بسر کرتی تھی نیز «رَس» نامی ندی یا دریا کے ساحل پر آباد ہوا کرتی تھی۔

خداوند عالم نے قرآن کریم میں اس کفران نعمت کرنے والی قوم کے پاس بہت سے انبیاء بھیجے اس طریقہ سے کہ اس منطقہ کے ایک ہی شہر میں 30 نبیوں کو مبعوث کیا اور انہوں نے بھی ان 30 نبیوں کو قتل کر ڈالا، پس انہیں ہدایت کی مہلت کے اتمام (اتمام حجت) کے بعد خداوند متعال نے میکائیل کو اس منطقہ کی زراعت و کاشت کی طرف روانہ کیا، یہ ملک عذاب کا لباس اور قہر الٰہی کا مظہر بن کر ان لوگوں کو قحط و خشک سالی یعنی قحط سے دچار کیا۔ سوائے چند افراد جو اللہ کے اہل عبادت یا اہل توبہ تھے، خداوند عالم نے سب ہی کو تشنہ و گرسنہ (بھوک و پیاس) کے سبب ہلاک کر دیا اور عزرائیل نے ان لوگوں کی روح قبض کی۔ اس سرکش و دولتمند قوم کی دولت و خزانے کو زمین نے نگل لیا اور امام عصر (عج) کے ظہور کے بعد من جملہ خزانوں میں سے ایک یہ بھی خزانہ ہوگا جو زمین خود آنحضرت اور انکے اصحاب کو پیش کرے گی۔ (بحار الانوار؛  14/ 154)


  • ★ ميكائيلؑ فرشتہ اور تاريخ اسلام

 

اس طرح کی جو کچھ باتیں تاریخ انبیاء میں فرشتہ کے حاضر ہونے کے سلسلہ میں ہم نے کہا تو ہماری تشخیص کے مطابق اسلام کی تاریخ میں بھی مصداق نظر آتا ہے، دوسرے الفاط میں یہ کہ تمام مقامات پر یہ دو فرشتے (جبرئيل و ميکائيل فرشتہ) برادرانہ طور پر ایک دوسرے کے پہلو میں کھڑے ہوئے ہم دیکھ سکتے ہیں مگر اس فرق کے ساتھ کہ وحی کی ذمہ داری ایک مختلف شکل ملک میں پایا جاتا ہے، روایات میں وارد ہوا ہے کہ ایک لوح اسرافیل کے سامنے قرار دی گئی ہے کہ خداوند عالم اس لوح پر نقش ابھارتا ہے پھر اسرافیل فرشتہ اسے میکائیل تک پہونچاتا ہے اور یہ جبرئیل کو القاء کرتے ہیں اور پھر یہ بھی انبیاء و پیغمبر اکرم تک امانتداری کے ساتھ پہونچا دیتے ہیں۔ (شيخ صدوق، الاعتقادات فی دين الاماميّه؛  81؛ معانی الاخبار؛ 23)

    انسانوں کے درمیان میکائیل فرشتہ کے حاضر ہونے کے بارے میں یہودیوں نے ہی دعوا کیا ہے، خداوند متعال سحر و جادو کو میکائیل و جبرئیل کی زبانی جناب سلیمانؑ نبی کو تعلیم دیا ہے۔ کہ جو دینی تعلیمات کی بنیاد سے مطابقت ہی نہیں رکھتی۔ (بحار الانوار؛  56/ 271)


  • ★ ميكائيلؑ فرشتہ اور رسولخداﷺ

   

وحی کی ذمہ داری کے علاوہ  حضرت زہراؑ کی ولادت کے موقع پر بھی خداوند عالم کی طرف سے میکائیل کو تحفہ الٰہی کا حامل ہو کر رسولخداؐ کی خدمت میں آنا ہوا تھے۔ (بحار الانوار؛  16/ 79)

    اسی طرح سے شب معراج میں بھی رسولخداؐ کے ساتھ آسمان کی طرف گئےجس میں خدا کے تین مقرّب  فرشتوں کو ساتھ میں دیکھا جا سکتا ہے۔

  1. جبرئیل فرشتہ: جو رسولخدا کیلئے براق کی رکاب کو تھامے ہوئے تھے۔ 

  2. میکائیل فرشتہ: جو براق کی لجام کو ہاتھ میں لئے ہوئے تھے۔

    3۔ اسرافیل فرشتہ: آنحضرت کے لباس کی نگہبانی کر رہے تھے۔ (نوادر المعجزات، ابن جرير الطبري (الشيعي) 68؛ فتح الباري؛ 7/ 158؛ تفسير الميزان  13/ 27)

    حضرت امیر المومنینؑ اور حضرت فاطمہؑ زہرا کی شادی میں بھی جبرئیل فرشتہ اور میکائیل فرشتہ دونوں کو ہی 70 ہزار فرشتہ کے ساتھ ساتھ اس تقریب میں آئے اور تکبیر و تہنیت کہنے والوں میں شامل تھے۔ (تذکرۃ الفقہاء علّامہ حلّی 2/ 575)

    کہا جاتا ہے کہ تین سائل جو مشہور واقعہ سورہ دہر یا «سورہ هل اتی» میں امیر المومنینؑ کے در خانہ پر آئے تھے وہ یہی خدا کے تین مقرّب ملائیکہ جبرائیل، میکائیل اور اسرافیل تھے۔ (الغدير علامه امینی؛ 3/ 110 نقل از تفسیر طبری)

    جنگ خندق میں بھی میکائیل فرشتہ اور جبرئیل فرشتہ امیر المومنینؑ کی مدد کیلئے آئے تھے رسولخدا بنفس نفيس اس واقعہ کا مشاہدہ کر رہے تھے۔

    آنحضرت نے فرمایا: میرے والد اس پر قربان ہو جائیں جو زمین کو کھود رہا ہے اور فرشتہ جبرئیل اسکے سامنے سے خاک کو جمع کر رہے ہیں اور میکائیل فرشتہ بھی انکی مدد کر رہے ہیں اس حالت میں کہ اس سے پہلے مخلوقات میں سے کسی نے بھی اس طرح مدد نہیں کی تھی۔ (سيّد هاشم بحراني، مدينة المعاجز؛ 1/ 467)

    دلچسپ بات تو یہ یاد رکھنے كے لائق ہے کہ حضرت امیر المومنینؑ خطبہ قاصعہ میں غیر اسلام کی پناہ لینے کے مضرات میں سے ایک یہ بھی بيان كرتے ہيں کہ میکائیل فرشتہ اور جبرئیل کی امداد رسی سے انسان كو محروم رہنا بھی قرار دیا ہے۔  (نہج البلاغة؛  2/ 155) 

    اس قول سے یہ نتیجہ ہم نکال سکتے ہیں کہ اسلام کی پناہ میں آنے کے ساتھ ہی ہم انکی مدد و نصرت سے بہرہ مند بهي ہو سکتے ہیں۔

    جب رسولخداؐ کا خداوند متعال کی ملاقات کي خاطر جانے کے بعد انکی مراسم تدفین میں بھی جبرئیل، اسرافیل، میکائیل نيز ملک الملک اور دیگر بہت سے ملائکہ بھی یکے بعد دیگرے حاضر ہوئے اور اہلبیتؑ کے ہمراہ آنحضرت کی قبر میں داخل ہوئے تهے۔ (بحار الانوار 22/ 531؛ مجمع الزوائد 9/ 30)


  • ★ حضرت عليؑ اور میکائیلؑ فرشتہ

   

ایک دلچسپ روایت رسولخداؐ سے نقل ہوئی ہے جس میں زمین پر خاکی میکائیل فرشتہ کے بارے میں بیان کرتے ہوئے، آنحضرت نے فرمایا:

    «جو شخص بھی ہيبت اسرافيلؑ، منزلت ميکائيلؑ، جلالت جبرائيلؑ، علم آدمؑ، خشيّت نوحؑ، خلت ابراہيمؑ، حزن يعقوبؑ، جمال يوسفؑ، مناجات موسيؑ، صبر ايّوبؑ، زہد يحيیٰ، عبادت عيسيؑ، ورع يونسؑ، حسب و خلق (خلقت) محمّدؐ کو دیکھنا چاہتا ہے، پس وہ علیؑ بن ابیطالب کی طرف نظر کرے کہ یہی تنہا ذات ہے جس میں اللہ تعالی نے ۹۰ انبیاء کی خصلتوں کو مجتمع کر دیا ہے۔» (الامام علی بن ابیطالبؑ، احمد رحمانی همدانی؛ 300؛ منقول از ینابیع المودۃ قندوزی؛ 2/ 80)

    اسکے علاوہ بھی حضرت علیؑ نے پیغمبر اسلامؐ کے دور میں مختلف جنگوں مثلاً بدر، احد، خیبر وغیرہ میں مدد کرنے کے بارے میں روایات میں تذکرہ ملتا ہے، آسمانی مخلوقات میں سب سے پہلے حضرت علیؑ کو اپنا بھائی قرار دینے والے اسرافیل انکے بعد میکائیل اور بعد میں جبرئیل ہی تھے اور جن لوگوں نے حضرت علیؑ سے محبت کا اظہار کیا وہ حاملان عرش، دربان جنت رضوان اور ملک الموت تھے۔ اسی طرح ملک الموت بھی محبان علیؑ بن ابیطالب پر انبیاء ہی کے طریقہ سے مہربانی کرتے تھے۔ (مائة منقبة، محمّد بن أحمد قمي؛ 132؛ ارشاد القلوب إلی الصواب 2/ 236)

    يہ نصرت و مدد سالوں تک طولانی طور پر جاری و ساری چلتی رہی ہے یہا ں تک کہ امام حسنؑ کا زمانہ آتا ہے تو امامؑ مسجد کوفہ میں خطبہ دیتے ہوئے تصریح فرماتے ہیں میکائیل فرشتہ انکے ساتھ آنحضرت کے جنازہ کی تشییع میں داہنی طرف چل رہے تھے۔ (اصول الکافی  1/ 457) 

لیکن وہ اس طریقہ سے کہ امامؑ کو اجازت نہیں دی گئی تھی کہ امیر المومنینؑ کا تابوت جبرئیل و میکائیل کے علاوہ کسی اور کے سپرد کریں۔

 

  • ★ قيامت میں ميكائيلؑ اور سيّد الشهداؑ کے زائرین


    قیامت کے دن بہت سے لوگ وحشت و خوف میں مبتلا ہوں گے، جبکہ میکائیل سید الشہداء کے زائرین کی مدد کیلئے آگے بڑھیں گے۔ (کامل الزّيارات 265؛ بحار الانوار 45/ 183)

    رسولخداؐ کی ایک روایت کی بنا پر نقل ہوئی ہے کہ ان دو ملائکہ کی اصلی ذمہ داری اور وظیفہ کو بیان کر سکتے ہیں جو آنحضرت کی وفات کے بعد روایت شمار کر رہی ہے:

    «إِنَّ اللهَ خُصَّ جِبرَئِيل و مِيكَائِيل و إِسرَافِيل بِطَاعَةِ عَلِيٍّ وَ البَرَاءَةِ مِن أَعدَائِهِ وَ الإِستِغفَارِ لِشِيعَتِهِ.»

    خداوند عالم جبرئيل، ميکائيل اور اسرافيل کو علیؑ بن ابیطالب کی اطاعت و فرمان برداری کرنے والے مومنین نیز انکے دشمنوں سے برائت کا اظہار کرنے والے اور آنحضرت کے شیعوں کی طلب مغفرت کیلئے ہی مخصوص قرار دیا ہے۔ (بحار الانوار؛  40/ 96)


  • ★ ميكائيل فرشتہ ظهور امام عصر (عج) کے زمانہ میں


    مختلف مراحل میں ظہور کے بعد جبرئیل و میکائیل ملموسی یعنی قابل لمس (مادی صورت میں یا ٹھوس شکل کے) طور پر حاضر ہوں گے کہ من جملہ اسکے ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ حضرت مہدی (عجل) کے ہاتھ پر ظہور کے فوراً بعد ہی «مسجد الحرام» میں بیعت ہوگی نیز سفیانی سے جنگ کیلئے لشکر کشی بھی ہوگی۔ (الملاحم و الفتن، سيّد ابن طاؤس  145)

نیز اسکی شکست و قتل کا مشاہدہ کریں گے۔ (الملاحم والفتن 296)

    اسکے بعد امام عصر (عجل)کے توسط سے «مکہّ» کی حکومت اپنے ہاتھوں میں لیں گے اور مکمل طور پر اس منطقہ پر تسلط کریں گے جبکہ سفیانی کے ظلم و ستم کی طرف توجہ کرتے ہوئے یہی ہوگا۔ (کتاب ششماہ پایانی کی فصل سوم کی طرف رجوع کیجئے.)

شام سے عراق تک  اور شبہ جزیرہ سے اہمترين اور ضروري ترين عملی اقدام اسے یعنی لشکر سفیانی کو عقب نشینی کرانا اور دفاع کرنا ہی ہے۔

اسی وجہ سے امام اپنی رہبری کے ما تحت سپاہیوں اور امام کی سرداری پر مشتمل 313 افراد كا لشکر ہوگا نیز پہلے مرحلہ میں 10 ہزار افراد كا تشکیل شدہ سفیانی کے سپاہیوں کا تعاقب کریں گے۔

یہ تعاقب اور سفیانی کا عقب نشینی کرنا «درياچه طبريّه» تک جاری رہے گا، سفیانی اپنے اقدامات کی ابتداء منطقہ «وادي یابس» سے کر رہا ہوگا، یہ منطقہ «درياچه طبريّه» کے اطراف میں واقع ہے، سفیانی کے جنایات و جرائم کا نامہ اعمال اسی منطقہ میں ہی بند کیا جائے گا جہاں سے یہ شروع ہوا ہوگا۔

ميکائیل اور جبرئیل اس لشکر کے اہمترین فرد ہوں گے کہ اس جنگ اور لشکر کشی میں امام (عجل) کی ہمراہی کریں گے۔ ظاہراً جبرئیل ملائکہ کے لشکر کے داہنے بازو کی کمان سنبھالیں گے اور میکائیل ملائک کے لشکر کے بائیں بازو کی کمان کی ذمہ داری اٹھائیں گے۔ (معجم أحاديث الامام المہدي (عج) شيخ علی کورانی 3/ 96)

امام مہدي (عج) کے ظہور اور سفیانی کی شکست کے بعد مجبوراً مغرب کے لوگوں کے ساتھ وارد عمل ہوں گے اور یہاں تک کہ جنگ بھی ہوگی۔

(اس کی تفصیلی معلومات کیلئے «عصر ظہور» راقم: جناب علی کورانی کی کتاب کا مطالعہ کر سکتے ہیں.)

جیسے ہی جنگ کا آغاز ہوئے کچھ وقت گزرے گا تو حضرت عیسٰیؑ مسيح کے توسط سے عیسائیوں اور مغربیوں سے چند سالوں کیلئے صلح منعقد ہو جائے گی، یہ لوگ بھی کچھ عرصہ کیلئے ہی اس قرار داد کے پابند رہیں گے اور ایک مدت کے بعد وہ لوگ سے اس صلح نامہ کو توڑ دیں گے۔

یہی امر امام عصر (عج) کی دوسری جنگ کا سبب قرار پائے گا، جنگ کے درمیان میں ہی اچانک صلیبیوں کے درمیان سے ایک آواز بلند ہوگی کہ صلیب نے غلبہ پا لیا ہے، اسکے مقابل میں بھی مسلمانوں میں سے کوئی ایک چلائے گا: «نہیں»  خدا کے یاروں اور یاوروں نے غلبہ پا لیا ہے، پھر اس لفظی جنگ کے بعد خداوند عالم جبرئیل سے فرمائے گا: 

    «میرے مخلص بندوں کی مدد کی خاطر پہونچو.» تو ایک لاکھ فرشتوں کے لشکر کے ساتھ لشکر حق کی مدد کو پہونچیں گے۔

کچھ ایسے ہی حالات میکائیل اور اسرافیل کے سلسلہ میں بھی رونما ہوں گے اور یہ دونوں فرشتے بترتیب 2 لاکھ اور 3 لاکھ ملائکہ کے لشکر عظيم کے ساتھ معرکہ حق میں مدد کیلئے پہونچیں گے۔یہ تازہ دم سپاہی امام زمان کے لشکر کیلئے امر کی سہولت کیلئے اور امام کے لشکر کی کامیابی و کامرانی کو آسان بنائیں گے۔ (معجم احادیث الامام مہدی (عج) 1/ 366)

دجّال اپنے لشکر کو جمع کرنے کے بعد ایک عظیم الشان لشکر کے ساتھ «مکه و مدینه» کی طرف متوجہ ہو گا تو میکائیل کا مکہ میں اس لشکر سے سخت مقابلہ کا سامنا ہوگا اور «مدینہ» میں جبرئیل دجال کے لشکر کا سامنا کریں گے۔ (معجم احادیث الامام مہدی (عج) 2/ 92)

روایات میں ميکائیلؑ کی وفات جبرئیل سے قبل ہونے کا تذکرہ ملتا ہے اور یہ قیامت سے پہلے کے حوادث کے ضمن میں تذکرہ کیا گیا ہے ہم اسکی تکرار سے پرہیز کر رہے ہیں۔ (بحار الانوار؛ 54/ 105)



via pinterest


DEDICATED TO SHAHE KHORASSAN IMAM ALI IBNE MUSA REZA (AS)

TheSpiritualGuidesUrdu

Post a Comment

To be published, comments must be reviewed by the administrator *

جدید تر اس سے پرانی