قبور مرحومین کی زیارت کے آداب
ہمیشہ ہمارا یہی عقیدہ ہے کہ مردوں کی برزخ والی زندگی روز حشر تک ایسے ہی بسر کرتے رہتے ہیں اور ان مرحومین کی خاطر ہم اعمال خیر اور امور خیرات کو انجام دے کر انہیں ایصال ثواب کرتے رہتے ہیں تو اس سے بھی ہم آگاہ ہیں اسی لئے جب ہم قبور کی زیارت کیلئے جاتے ہین تو ان مرحومین کی ارواح کی خوشی و سرور کا باعث ہوتا ہے، لیکن یہ زیارت کرنا بھی کچھ اخلاق و آداب کے ساتھ انجام دینا چاہئے جسے ہم ذیل میں تحریر کر رہے ہیں. جس کا مطالعہ کرنا ہمارے لئے مفید ہوگا.
ائمہ طاہرین (ع) اور امامزادوں کی زیارت کرنا اس سے قبل کہ نسل جدید اور دور حاضر کیلئے اہمیت و فضیلت کی حامل تھی، ہم سے پہلے بھی بزرگان ملت، علما، ہمارے آباء و اجداد، گذشتہ لوگوں کی زیارت کرنے کو بھی ایک مقام و اہمیت شمار کرتے رہتے ہیں. حرمین شریفین، متبرکہ بقعات کی زیارات کے درمیان اہل قبوع کی زیارت کرنا بھی ایک مستحب عمل ہے کہ مرحومین کے پسماندگان اپنے اموار کے ابدی گھر کی زیارت کی خاطر جاتے رہتے ہیں اور ان کیلئے ان طلب مغفرت کے علاوہ ان کی پاکیزہ روح پر درود و سلام بھی بھیجتے رہتے ہیں یہاں تک کہ چند ساعت ان سے راز و نیاز کی باتیں بھی کرتے رہتے ہیں.
مذہب شیعہ اور احادیث معصومین (ع) میں یہ سب موجود ہے اور اس بات کا یقین بھی ہے کہ مردے روز محشر تک عالم برزخ میں اپنی حیات بسر کر رہے ہیں پس جو بھی اعمال اور خیرات ہم انہیں بھیجتے رہتے ہیں ان سے یہ برزخ کے لوگ آگاہ بھی ہیں اسی لئے زیارت قبور کرنا روح کی خوشی کا باعث ہوتا ہے. لیکن یہ زیارت بھی اپنے لئے کچھ آداب و اخلاق کے ساتھ انجام دینا پڑتا ہے جو کہ ہم ذیل میں تحریر کر رہے ہیں.
آداب زیارت اهل قبور
زیارت قبور کے کچھ آداب بھی ہیً کہ زائر شخص کو ان کی رعایت کرنا چاہئے جو مندرجہ ذیل ہیں.
۱- زائر کو با طہارت (وضو یا غسل یا تیمم کے ساتھ) ہونا چاہئے.
۲- زائر کو میت کے پاؤں کی طرف سے وارد ہونا چاہئے، نہ کہ سرہانے کہ طرف سے حاضر ہو.
۳- زیارت پڑھتے وقت صاحب قبر کی طرف ہی رخ کرے گا.
۴- جتنا ممکن ہو قرآن کی تلاوت کرنا چاہئے اور مستحب ہے کہ سورہ یاسین اور توحید پڑھے.
۵- میت کے پاس رو بقبلہ ہو کر دعا کرنا یا پڑھنا چاہئے.
۶- قرآن کی تلاوت کرتے وقت رو بقبلہ بیٹھنا چاہئے.
۷- قبر کے اوپر آب پاشی کرنا چاہئے.
۹- اپنے مرحومین کیلئے صدقه دیتے رہنا چاہئے.
۱۰- زائر کے پیروں مہں جوتا یا چپل یا نعلین نہیں ہونا چاہئے اور قبروں کو پیروں تلے نہ پامال نہ کرے.
مرحومین کی زیارت کیلئے بہترین اوقات
زیارت کے بہترین اوقات پنجشنبہ کو ظہر کے بعد سے غروب آفتاب تک ہے.
پھر جمعہ اور شنبہ کے روز اذان فجر سے طلوع آفتاب تک اہل قبور کی زیارت کیلئے فضیلت رکھتا ہے.
روایت میں وارد ہوا ہے کہ جناب فاطمہ زہرا (س) اپنے پدر بزرگوار کی وفات کے بعد ہفتہ میں دو ہی روز (یعنی دوشنبہ اور پنجشنبہ کے روز) شہدا کی زیارت کیلئے تشریف لے جایا کرتی تھیں.
لیکن اہل قبور کی زیارت رات میں کرنا مکروہ ہے کیونکہ حدیث میں مروی ہے کہ راتوں میں ارواح وادی السلام میں جمع ہوتی ہیں اور ان کی قبروں کی طرف خصوصی توجہ کرنا ان کیلئے خوش آئند بات نہیں ہے. (منقول ہے کہ مومنین کی ارواح راتوں میں "وادی السلام" میں اور گنہگاروں نیز کفار کی ارواح "وادی برہوت" میں لے جائی جاتی ہیں.) پس اگر کوئی انسان رات مین (مجبوراً یا ضرورتاً) قبرستان سے گزرتا ہے تو بہتر ہے کہ سب سے پہلے فاتحہ اور عمومی زیارت پڑھے اور پھر قبرستان میں وارد ہو.
غیر پیغمبر و نبی اور امام کی قبور کے پاس ٹھہرنا خصوصاً رات میں مکروہ ہے مگر کسی صحیح غرض کی خاطر جیسے قرآن مجید کی تلاوت کرنا.
کامل الزیارات میں امام صادق (ع) روایت ہے: مرحومیں کی طلوع آفتاب سے پہلے زیارت کرو کیونکہ وہ لوگ سنتے بھی ہیں نیز تمہارا جواب دیتے ہیں اور اگر طلوع افتاب کے بعد زیارت کرو گے تو وہ صرف سنتے ہیں لیکن جواب نہیں دیتے.
مؤمنین کے قبروں کی زیارت کی فضیلت
۱ـ «کامل الزیارات» امام موسى بن جعفر (ع) سے روایت منقول ہے: جو شخص بھی ہماری زیارت پر قدرت نہیں رکھتا تو وہ ہمارے نیک و صالح شیعوں یا دوستوں یا موالیان کی زیارت کرے تا کہ ہماری ہی زیارت کا ثواب اس کے نامہ اعمال میں لکھا جائے اور کوئی شخص ہمارے ساتھ صلہ اور نیکی کرنے پر قدرت نہیں رکھتا ہے تو وی ہمارے صالحین، موالیان و محبین کے ساتھ نیکی کرے تا کہ ہمارے ساتھ نیکی کرنے کا ثواب اس کے نامہ اعمال میں لکھا جائے.
۲- امام رضا (ع) کے ایک صحابی (محمّد بن احمد بن یحیى اشعرى) روایت نقل ہوئی ہے: جو شخص بھی اپنے برادر مومن کی قبر پر جائے گا اور اپنا ہاتھ اس کی قبر پر رکھے اور 7 مرتبہ سورہ قدر کی تلاوت کرے گا تو «فزع اکبر» کے روز (یعنی روز قیامت کہ جو عظیم وحشت و خوف کا روز ہے) محفوظ رہے گا. نیز بعض روایات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہی ثواب صاحب قبر کیلئے بھی مقرر ہوگا.
۳- ایک روایت میں جو «مؤمنین کی قبروں کی کیفیت زیارت» کی بحث میں آئے گی سے نتیجہ حاصل ہوتا ہے کہ بعض اذکار کے پڑھنے سے زائر اور اس کے والدَین کے گناہ بخشے جاتے ہیں اور یہ بھی ملتا ہے کہ قیامت کے روز انسان سے عذاب بھی دور کیا جاتا ہے.
۴- بعض روایات سے ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ والدیں کی قبروں کی زیارت کیلئے جانے سے بعض ان کے حقوق کی عدم ادئیگی یا کمی و بیشی کو جو ان کی زندگی میں سرزد ہوئی ہے انہیں امور کو ایک طرح سے ادا یعنی بھرپائی (جبران) کر سکتا ہے اور حتی کہ اپنی حوائج تک بھی پہونچ سکتا ہے مگر اس صورت میں کہ سب سے پہلے اپنے والدین کی خاطر استغفار کرے اور پھر اپنی حاجت کو خداوند متعال سے طلب کرے.
۱- زائر کو رو بقبلہ ہونا چاہئے اور اپنا ہاتھ قبر کے اوپر رکھے جیسا کہ «عبد الرحمن بن ابى عبد الله» اور «محمّد بن احمد بن یحیى» کی روایات سے ہمیں معلوم ہوتا ہے.
۲- سات مرتبہ «سورہ قدر» کی تلاوت کرے جیسا کہ «اشعرى» کی روایت مین گزرا ہے. بعض روایات میں تو سورہ «حمد یا فاتحہ» کا تذکرہ ملتا ہے. اور مناسب ہے کہ اگر صورت حال اقتضا کرے یا توفیق رفیع حاصل ہو تو قرآن کریم کے دیگر سورتیں بھی مرحومین کی ارواح کے ایصال ثواب کی خاطر جیسے «سورہ یس»، «سورہ مُلک» اور «سورہ واقعه» کی بھی تلاوت کرتا رہے.
۳ـ اس دعائے ماثورہ کو قبرستان میں داخل ہوتے وقت پڑھے:
«اَلسَّلامُ عَلىٰ أَهْلِ الدِّیارِ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ وَ الْمُسْلِمِینَ، أَنْتُمْ لَنَا فَرَطٌ، وَ نَحْنُ إِن شَآءَ اللهُ بِکُمْ لَاحِقُونَ»
سلام ہو اے اہل دیار (صاحبان قبور) مؤمنین اور مسلمانان میں سے تم پر کہ تم لوگ ہم سے پہلے جانے والے (اس راه میں) تھے اور ہم بھی ان شاء الله تم لوگوں سے ملحق ہونے والے ہیں.
جیسا کہ امام صادق (ع) سے یہ دعا نقل ہوئی ہے.
۴ـ قبرستان میں جائے تو یہ مروی دعا کو پڑھنا چاہئے:
«أَللّٰهُمَّ رَبَّ هٰذِهِ الأَرْوَاحِ الْفَانِیَةِ، وَ الأَجْسَادِ الْبَالِیَةِ، وَ الْعِظامِ النَّخِرَةِ الَّتِى خَرَجَتْ مِنَ الدُّنْیا وَ هِىَ بِكَ مُؤْمِنَةٌ، أَدْخِلْ عَلَیْهِمْ رَوْحاً مِنْكَ، وَ سَلاماً مِنِّى.»
اے خداوند متعال، ان ارواح کے پالنے والے جو اس دنیا سے گئے اور ان کے اجسام بوسیدہ ہو گئے اور ہڈیاں بکھر گئیں کہ دنیا سے کوچ کر گئے ہیں ایمان کی حالت میں تجھ تک پہونچے ان لوگوں پر رحمت (و مغفرت) اپنی طرف سے اور میری طرف سے سلام نازل فرما.
امام حسین (ع) نقل سے منقول ہے کہ قبرستان میں جب بھی کوئی شخص داخل ہو تو وہ یہ دعا پڑھے گا تو خداوند متعال اپنی مخلوقات کی تعداد کے مطابق جو خلقت جناب آدم (ع) ست قیامت تک ہوں گی پرھنے والے کے نامہ اعمال میں اتنے ہی حسنات لکھے جائیں گے.
۵ـ امیر مؤمنان (ع) سے منقول ہے کہ جو شخص بھی قبرستان میں داخل ہو تو اس ماثورہ دعا کو پڑھے:
«بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ، اَلسَّلَامُ عَلىٰ أَهْلِ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ، مِنْ أَهْلِ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ، یا أَهْلَ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ، بِحَقِّ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ، کَیْفَ وَجَدْتُمْ قَوْلَ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ، مِنْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ، یا لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ، بِحَقِّ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ، اِغْفِرْ لِمَنْ قالَ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ، وَاحْشُرْنا فى زُمْرَةِ مَنْ قالَ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ، مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ، عَلِىٌّ وَّلِىُّ اللهِ.»
مہربان بخشنے والے خدا کے نام سے، سلام ہو ان پر جو «لا اله الاّ الله» کہنے والے ہیں ان کی طرف سے جو «لا اله الاّ الله» کہنے والے ہیں اے «لا اله الاّ الله» کے اہل افراد کو، حقیقت میں یہ کلمہ مقدسہ «لا اله الاّ الله» ہے. تم نے کیسی جزا پائی «لا اله الاّ الله» کو زبان پر جاری کرنے کی، «لا اله الاّ الله» از خود ہی ایک مقدس کلمہ ہے. اے وہ کہ تیرے سوا کوئی بھی معبود نہیں ہے «لا اله الاّ الله» اس کلمہ مقدسہ کے حق کا واسطہ ہر اس شخص کی مغفرت فرما جنہوں نے «لا اله الاّ الله» کہا اور ہمیں محشور فرما ان لوگون زمرہ میں جنہوں نے «لا اله الاّ الله» محمّد رسول الله، على ولى الله کہا ہے.
(«لَا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰه» سوائے اللہ تعالی کے کوئی بھی معبود نہیں ہے. «مُحَمَّدُُ رَسُولُ اللّٰهِ» محمد اللہ کے رسول ہیں. «عَلِىُُّ وَلِىُّ اللّٰهِ» علی اللہ کے ولی ہیں.»)
تو خداوند عالم اس دعا کے پڑھنے والے اور اس کے والدین کیلئے بہت زیادہ ثواب و اجر نامہ اعمال میں تحریر کرے گا.
روایات میں قبرستان کی زیارت کی خاطر چند آداب کا تذکرہ ائمہ معصومین (ع) نے بیان فرمایا ہے.
ان میں سے بہت سے آداب مرحومین کیلئے احترام کی بنا پر قرار دینا اور کبھی کبھار ان کی ارواح پاک سے رابطہ کرنے کیلئے ذکر کئے ہیں.
اس طور و طریقہ سے کہ بعض روایات میں نقل ہوا ہے کہ جب بھی قبرستان کی طرف جاؤ تو ایک قبر کو معین کرو اور اسی کی زیارت کو جاؤ:
«ایک شخص نے امام موسی کاظم (ع) سے عرض کیا: ایک مومن کی وفات واقع ہوئی کیا کوئی شخص اس کی قبر کی زیارت کرتا ہے تو وہ اس سے آگاہ ہیں؟ امام (ع) نے فرمایا: جی، ہاں! جس وقت تک تم اس کی قبر کے سرہانے موجود ہوتے ہو تو میت بھی اس سے مانوس ہوتی ہے اور اسے سکون ملتا ہے اور جب زائر وہاں سے اٹھ کھڑا ہوتا ہے اور قبر کے پاس سے بھی چلنے لگتا ہے تو قبر میں میت کو وحشت ہونے لگتی ہے.»
اب چند دیگر عوامل بھی ہیں جو سبب بنتے ہیں کہ قبر کے سرہانے زائر کے موجود رہنے سے قبر میں رہنے والی میت سے رابطہ برقرار ہوتا ہے تو اس کیلئے مرحوم کی قبر پر ہاتھ رکھنا ہے:
امام صادق (ع) سے راوی سے منقول ہے: آنحضرت سے مین نے قبر پر ہاتھ رکھنے کے سلسلہ میں عرض کیا کہ کیا کہ اس عمل کا مطلب کیا ہے؟ امام نے فرمایا: پیغمبر اکرم (ص) نے اسی عمل کو اپنے بیٹے کیلئے دفن کے بعد انجام دیا. پھر میں نے امام سے عرض کیا کہ کیسے قبر پر ہاتھ کو قرار دیں گے؟ (یعنی کس طریقہ سے ہاتھ رکھیں گے؟) امام نے جعاب میں فرمایا: اپنی انگلیوں کو زمین کی سمت رکھ کر اسے زمین پر رکھیں اور پھر بلند کریں.»
ایک روایت میں امام صادق (ع) سے اہل قبور کی زیارت سے متعلق ذکر ہوا ہے: «جب تم قبروں کے درمیان رہتے ہو تو 11 مرتبہ «سورہ توحید» کی تلاوت کرو اور اس کا ثواب مرحومین کی روح کو ہدیہ کرو کیونکہ جو شخص بھی اس عمل کو بجا لائے گا تو خداوند متعال سب مرحومیں کی تعداد کے مطابق اسے اجر و ثواب عنائت فرمائے گا.»
مزید معلومات کیلئے مطالعہ کیجئے نیز انتظار کیجئے:
اہل قبور کی زیارت کے آداب
کیا مرحومین کی روحیں بھی دل برداشتہ یا دلی مایوسی کا شکار ہوتی ہیں؟
کس طریقہ سے ہم اپنے مرحومین کی ارواح سے رابطہ برقرار کر سکتے ہیں.؟
مرحومیں کی ارواح کی خاطر بہترین خیرات کونسے امور ہیں؟
کیا مرحومیں کی روحیں جمعه کی شبوں میں اپنے اپنے گھروں پر واپس پلٹتی ہیں؟
ایک تبصرہ شائع کریں