خاندان کا خزانه
مؤلف : سید محسن حجازی زادہ
مترجم : منہال رضا خیرآبادی
مختصر فهرست مطالب كتاب
فصل اول: انفرادي و اجتماعي آداب
★ فصل دوم : انفرادی و اجتماعي حقوق
فصل سوم: فضائل و مناقب
فصل چهارم: اوصاف و خصوصيات
فصل پنجم: حيوانوں كے نصيحت آميز صفات
حرف تقدیم
بارگاہ خاتم الاوصیاء، قائم بامر الله، صاحب دعوۃ نبوی، صولت حیدری، عصمت فاطمی، حلم حسنی، شجاعت حسینی، عبادت سجادی، مآثر باقری، آثار جعفری، علوم کاظمی، حجج رضوی، جود تقوی، نقاوت نقوی، هیبت عسکری، غیبت الٰہی، بقیة الله فی الارضین حجة الله علی العالمین، طاؤس اهل جنت، مہدی امت، حجة بن الحسن المہدی العسکری میں هدیه ناچیز۔
برگ سبز است تحفه درویش
حرف انتساب
یہ ترجمہ اپنے دادا مرحوم، دادی مرحومہ اور والدہ مرحومہ کے نام سے معنون کرتا ہوں جن کی دینی آغوش نے شاہراہ اسلام پر گامزن بنایا۔
خاندان کا خزانہ
(آداب، حقوق، فضائل، اوصاف و نصائح)
مؤلف : سید محسن حجازی زادہ
ترجمہ : منهال رضا خیرآبادی
مقدمہ
عرصہ دراز سے تربیت اور آداب انسانی سے مزین ہونا بیدار مغز افراد کی توجہ کا مرکز رہا ہےطول تاریخ کا کوئی زمانہ اس اہم حقیقت کی اہمیت سے غافل نہیں رہا ہے۔
دقت نظر اور باریک بینی کے حامل افراد معتقد ہیں کہ زیور تربیت سے آراستہ ہوئے بغیر انسان ایک درندہ ہے جس سے ضرر و نقصان کی توقع کی جاتی ہے تمام آسمانی کتب میں یہ بات بیان ہوئی ہے کہ انسان کیلئے تربیت کی مثال روح جیسی ہے جس طرح جسم انسانی بغیر روح بے سود ہے اسی طرح انسان بغیر تربیت۔
حقائق سے باخبر افراد تربیتی مسائل، آداب و سنن سے خالی شاہراہ حیات کو تاریک جادہ اور ظلمات سے گھرے ہوئے صحرا سے تعبیر کرتے ہیں، جس پر چلنے والا ذلت و شقاوت سے دوچار ہوتا ہے کیونکہ ذلت و رسوائی سے بھر پور ہوتا ہے۔
مصلح افراد کہتے ہیں انسان کا سب سے قیمتی سرمایہ ادب ہے جس کے بغیر انسان کی کوئی اہمیت نہیں ہے، تربیت کے بغیر انسانی حیات وحشی جانوروں جیسی ہوتی ہے اور صفحہ حیات پر ظلم و ستم، جبر و استبداد جیسے آثار نمایاں ہوتے ہیں، تربیت اساس حیات، بنیاد فضائل و کمال، چراغ راہ ہے اور زندگی کے تمام شعبہ جات میں سعادت کا راہنما ہے۔
بیدار دل دانشور سب زیادہ تربیت کے سلسلہ میں فکرمند نظر آتے ہیں، حق و انصاف یہ ہے کہ بشری حیات میں تربیت سے زیادہ کوئی چیز اہمیت کی حامل نہیں ہے اگر یہ کہا جائے کہ تربیت حیات بشر کا ضروری ترین اور بنیادی مسئلہ ہے توبے جا نہ ہوگا۔
یہ بات سب کو پتہ ہے کہ عرصہ حیات میں ہر انسان کے کچھ حقوق ہیں مثلاً حق حیات، حق عقل، حق تعلیم و تعلم، حق آزادی، بقدر ضرورت طبیعت کے دسترخوان سے استفادہ کرنا اور حق کار و کسب یا اس جیسے دوسرے حقوق جو طول تاریخ میں بشر کیلئے بیان ہوتے رہے ہیں۔
یہ امر طے شدہ ہے کہ ہر انسان کے حقوق کی رعایت بھی ضروری ہے اگر کوئی کسی کے حق پر ڈاکہ ڈالتا ہے تو یہ ظلم و جرم شمار ہو گا لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا نور تربیت سے اپنے وجود خاکی کو منور کئے بغیر ایک دوسرے کے حقوق کی رعایت ممکن ہے؟
تاریخ گواہ ہے کہ ہر دور اور ہر زمانہ میں، ہر صنف و طبقہ کے افراد نے، ایک دوسرے کے حقوق کی رعایت سے انحراف کرتے ہوئے ظلم و جور پیشہ بن کر زندگی گذارتے رہے ہیں۔
ماضی میں ہونے والے مظالم اور موجودہ دور میں صاحبان طاقت (سپر پاور) کے ذریعہ مظلوم اقوام و ملل پر ہر روز نت نئے مظالم تربیت سے عاری ہونے کا نتیجہ نہیں ہیں؟
سچ ہے اگر کاروان بشریت کی ہر فرد نور تربیت سے منور ہوتی تو عالم امکان میں ظلم وجور کی جگہ عدل و انصاف، خود غرضی و خود پسندی کی جگہ کرامت و ایثار، عفو و در گذر، باہمی الفت و محبت کا دور دورہ ہوتا۔
ہم نےاب تک دوسروں پہ کتنے مظالم ڈھائے ہیں یا ہم پر دوسروں نے کتنے مظالم ڈھائے ہیں آپ کی نظر میں اگر ہمارے دل و جان نور ربانی سے منور ہوتے تو ہم کبھی ظلم و ستم کرتے؟
دوسرے کے حقوق پر ڈاکہ ڈالتے؟
ہم پر ظلم و اسبتداد ہوتے؟
مسئلہ تربیت کی اہمیت و عظمت کے پیش نظر یہ خیال خام ہےکہ سماج میں زندگی گذارنے والا کوئی شخص اس سے بے خبر ہو اور اسکی افادیت سے نابلد ہو۔
حیات انسانی کےابتدائی ادوار سے دلسوز افراد تربیت سے آراستہ کرنے انسانی حقائق و فضائل اخلاقی سے آراستہ بنانے کی فکر کرتے رہے ہیں اور زندگی کے مختلف موڑ پر عملی اقدام بھی کرتے رہے ہیں لیکن انسانی راہبروں کے درمیان انبیاءؑ و ائمہ معصومینؑ نیز آسمانی کتابوں کا اپنا علاحدہ مقام و مرتبہ رہا ہے، حکماء و عرفاء کے مثبت اقوال و فرمودات سے قطع نظر نہیں کیا جا سکتا ہے لیکن چونکہ انکی عقل و دانش محدود ہے لہٰذا اس پر مکمل بھروسہ و اعتماد نہیں کیا جاسکتا ہے، ہاں جو اقوال و نصائح قرآن و سنت کے مطابق ہوں انہیں تسلیم کرتے ہوئے بقیہ سے صرف نظر کر لینا چاہئے، انبیاء و ائمہ معصومین کی تہذیب و ثقافت کا منبع چونکہ قرآن ہے لہٰذا ہر ہر لمحہ حیات انکا ہمارے لئے نمونہ ہے، تربیتی، اجتماعی، سیاسی، اقتصادی و خانوادگی قوانین کا مجموعہ وحی اپنی جامعیت و کمال کے باعث دیگر قانونی مجموعہ جات سے قابل مقائسہ نہیں ہے کیونکہ وحی اس خالق کی جانب سے ہوتی جو انسانی وجود کے مادی و معنوی ضروریات کو بدرجہ اتم جانتا اور پہچانتا ہے اسلئے جو کچھ بیان کرتا ہے وہ عقل و فطرت انسانیت خیر دنیا و آخرت کاملاً ہمآہنگ ہوتا ہے، یہی راز ہے کہ دنیا کے کسی بھی مکتبۂ فکر میں انبیاء و ائمہ جیسے کاملترین نمونہ عمل نہیں پائے جاتے ہیں ۔
مکتب انبیاء و ائمہ میں چونکہ انسان خدا اور روز قیامت کا معتقد ہوتا ہے لہٰذا اسکے اعلیٰ ترین اصول تربیت سے اپنے وجود کو منور کرنے کی حتٰی المقدور سعی کرتا ہے اسکی ذات سے کسی جاندار کو ضرر و نقصان نہیں پہونچتا ہے، اسکی حیات تمام انسانوں کیلئے منبع خیر و سعادت مایۂ برکت و مکرمت قرار پاتی ہے۔
پیغمبرانہ مکتب تربیت کے زیر سایہ پروان چڑھنے والا انسان عالم بصیر و دانشمند بینا بنتا ہے، اسکا وجود نفع بخش ،موجود خیر، بے نظیر مشکلکشا، سچا انسان، باوفا، جوانمرد، صفا پیشہ، با مروت، عادل، حکیم وارستہ، آگاہ پیراستہ، زندہ کامل، خلیفہ واقعی ربانی ہو جاتا ہے۔
تربیت کے مستحکم اصول و قوانین نور قلب حلال مشکلات فروغ جان صفائے روان، منبع برکت ظرف حقیقت اور ریشہ شرافت ہے، تربیت انسانی وقار بشریت کا سرمایہ، مایہ حیات، باعث آسائش زندگی، سبب پایندگی، راہ بندگی، دارین کی سعادت ہے۔
تربیت انسان و حیوان کی بلند ترین فصل ممیز ہے، کامیابیوں کی علت، کامرانی کی دلیل، شعار حریت، پرچم افتخار، عزت معاشرہ اور قرب خدا کا بہترین راستہ ہے۔
پیغمبر اکرمؐ نے فرمایا: دنیا و آخرت میں بشر کی سعادت قرآن پر عمل اور اہلبیتؑ عصمت و طہارت کی اطاعت میں مضمر ہے۔
آخر کلام میں چند ضروری نکات کا تذکرہ ضروری ہے:
۱۔ کتاب کے تمام مطالب قرآن و احادیث اہلبیتؑ اور بعض بزرگوں کے کلمات سے ماخوذ ہیں۔
۲۔ تمام امور یا مستحب ہیں یا مکروہ، جہاں کہیں واجب یا حرام کا تذکرہ ہوا ہے اسکی نشاندہی کر دی گئی ہے۔
۳۔ اختصار اور مطالب کو آسان و عام فہم بنانے کی غرض سے عربی متون کو حذف کر دیا گیا ہے اور ترجمہ پر اکتفا کی گئی ہے۔
۴۔ مستحبی امور میں کچھ خاصیتیں اور فضیلتیں ہیں اور اسی طرح سے ہر مکروہ کے کچھ نقصان ہیں لہٰذا حتی الامکان انسان کو مستحب پر عمل اور مکروہات سے اجتناب کرتے رہنا چاہئے۔
۵۔ قارئین کرام سے گذارش ہے تعمیری تنقید نیز کمی و کاستی سے دریغ نہ کرتے ہوئے اصلاحات کی نشاندہی فرمائیں اور ہماری نیک توفیقات کیلئے بارگاہ رب الارباب میں دعا کرتے رہیں، اللہ ہم سب کو آداب اسلامی سے مزین ہونے کی توفیق کرامت فرمائے ۔
والسلام
سید محسن حجازی زادہ
فصل دوم:
انفرادی و اجتماعی حقوق
خدا کے حقوق
۱۔ اسکی عبادت کریں۔ ۲۔ اس کا شریک قرار نہ دیں۔ ۳۔ عالم کل اور قادر مطلق تسلیم کریں۔ ۴۔ صرف اسکی خشنودی کے لئے عمل انجام دیں۔ ۵۔ صرف اسی کی ذات پر بھروسہ کریں۔ ۶۔ خلوص قلب سے اسکی طرف متوجہ ہوں۔ ۷۔ صرف اس سے مدد طلب کریں۔
حقوق اہلبیت (ع)
۱۔ محبت و مودت اور اسکا اظہار کرنا۔ ۲۔ انکے فرامین کی پیروی کرنا۔ ۳۔ انکی سنتوں پر عمل پیرا ہونا۔ ۴۔ انکی خوشی میں خوش اور انکے غم میں غمگین ہونا۔ ۵۔ انکی اولاد سے محبت اور تعظیم و احترام نیز نصرت۔ ۶۔ جب کسی ایک کا نام سنے تو صلوات و درود پڑھے۔ ۷۔ اپنی اولاد کا نام انکے اسماء پر رکھے۔ ۸۔ ان کے دوستوں سے دوستی اور انکے دشمنوں سے دشمنی رکھے۔ ۹۔ انکی زیارت کو جائے۔ ۱۰۔ انکی نیابت میں حج و عمرہ انجام دے۔ ۱۱۔ ایمان محبت و بغض کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ ۱۲۔ جب ان بزرگوں کا نام سنے تو احترام و تعظیم کریں اور درود و سلام بھیجیں۔
امام زمانہ (عج) کے حقوق
۱۔ صحت و سلامتی کی دعا کرتے رہنا چاہئے۔ ۲۔ تعجیل فرج کی دعا کرتے رہنا چاہئے۔ ۳۔ انکی طرف سے حج بجالائے۔ ۴۔جب انکے مشہور لقب "القائم" کو سنے تو احترام و تعظیم کیلئے کھڑا ہوجائے۔ ۵۔ تضرع اور ادعیہ ماثورہ پڑھنا۔ ۶۔ غیبت امامؑ کے سبب رنجیدہ رہنا۔ ۷۔ احکام و فرامین حضرتؑ کی پیروی کرنا۔ ۸۔ حقیقی انتظار کرنے والے بننے کی کوشش کریں۔ ۹۔ حضرت کی سلامتی کیلئے صدقہ دینا۔
٭سادات کے حقوق
۱۔اولاد پیغمبرؐ و ذریت رسالت سمجھتے ہوئے انکی توہین سے پرہیز کریں اور ظلم نہ کریں۔ ۲۔ انکو ایذاء پہونچانا گویا پیغمبرؐ کو اذیت پہونچانا ہے۔ ۳۔ انکے آگے نہ چلیں اور نہ بیٹھنے میں ان پر سبقت کریں۔ ۴۔ انکے احترام کا خیال رکھیں اور ان کیلئے کھڑے ہو جائیں کہ پیغمبرؐ نے فرمایا ہے: جو میری اولاد کیلئے کھڑا نہ ہو اور احترام نہ کرے، اس نے مجھ پر ظلم کیا۔ ۵۔ انکے دیدار کیلئے جانا گویا پیغمبرؐ اکرم کی زیارت ہے۔ ۶۔ نماز اور دیگر امور میں انہیں مقدم رکھیں، خواہ دوسرا عالم دین موجود بھی ہو۔ ۷۔ سہم سادات انہیں دیں اور اپنے لئے حلال نہ سمجھیں کہ لعنت خدا، ملائکہ اور تمام خلائق کے مستحق ہوں گے۔ ۸۔ میرے فرزندوں سے محبت کرو، جو نیک ہیں انہیں اللہ کی خاطر اور جو برے ہیں انہیں میری خاطر۔ ۹۔ سادات کا اکرام کریں۔ ۱۰۔ انہیں برا بھلا نہ کہیں۔ ۱۱۔ سادات کی محبت و دوستی گناہوں کو دھو دیتی ہے۔ ۱۲۔ اگر زوجہ سیدہ ہو تو شوہر پر احترام ضروری ہے۔ ۱۳۔ پیغمبر اسلامؐ نے فرمایاؒ جو میری اولاد کو حقیر سمجھے گا روز قیامت خدا اسکی آنکھ و کان کو اس سے لے گا۔ ۱۴۔ سادات سے محبت شفاعت رسولخداؐ کا حقدار بناتی ہے۔۱۵۔سادات کو ہدیہ دینا در حقیقت پیغمبر خداؐ کو ہدیہ دینا ہے۔ ۱۶۔ سادات کے امور صرف انکے جدسے مربوط ہیں۔ ۱۷۔ سیدہ زوجہ کی اگر شوہر توہین کرتا ہے تو مستحق عذاب ہوگا۔ ۱۸۔ سادات کا احترام سب پر لازم ہے۔
مومن کے حقوق
۱۔ اسکی خطاؤں اور لغزشوں کو درگذر کر دے۔ ۲۔ تنگدستی میں اسکی دلجوئی اور اسکے ساتھ مہربانی کرے- ۳۔ عیوب کو چھپائے۔ ۴۔ اگر کوئی گناہ سرزد ہو جس سے کسی دوسرے مومن کو اذیت ہو تو درگذر کر دے۔ ۵۔ اگر معذرت کرے تو اسکے عذر کو قبول کرے۔ ۶۔ اگر کسی برادر مومن کی غیبت ہو رہی ہے تو فوراً منع کر دے۔ ۷۔ اسکی بھلائی کی طرف راہنمائی کرے اور پند و نصیحت سے پرہیز نہ کرے۔ ۸۔ دوستی کی حفاظت کرے اور دوستی لوازمات کو پورا کرے۔ ۹۔ حقوق کی رعایت کرے۔ ۱۰۔ مریض ہو جائے تو عیادت کرے۔ ۱۱۔ جنازہ میں شرکت کرے۔ ۱۲۔ جب بلائے تو لبیک کہے (جواب دے)۔ ۱۳۔ اسکا دیا ہوا ہدیہ قبول کرے۔ ۱۴۔ نیکی کا بدلہ دے۔ ۱۵۔ اگر کوئی نعمت ملے تو شکر کرے۔ ۱۶۔ مومن کی نصرت کرے۔ ۱۷۔ اسکی ضروریات کو پورا کرے۔ ۱۸۔ عزت و ناموس کی اسکے اہل کے سامنے حفاظت کرے۔ ۱۹۔ جب سوال کرے، کچھ طلب کرے تو رد نہ کرے۔ ۲۰۔ چھینک آئے تو «یَرْحَمُکُمُ اللہ» کہے اور چھنکنے والا «یَغْفِرُ اللہُ لَکُمْ» کہے۔ ۲۱۔ اسکی گمشدہ شئے تک راہنمائی کرے. ۲۲۔ سلام کا جواب دے۔ ۲۳۔ اس سے اچھی گفتگو کرے۔ ۲۴۔ اسکی نعمتوں کو نیک جانے۔ ۲۵۔ اسکی قسم کی تصدیق کرے۔ ۲۶۔ اسکی دشمنی سے بچتا رہے اور دوستی کو مستحکم تر بنانے کی کوشش کرتا رہے۔ ۲۷۔ ظالم یا مظلوم ہونے کی صورت میں اسکی مدد کرے، ظالم ہونے کی صورت میں اسکی مدد یہ ہے کہ ایسے امور انجام دے کہ وہ ظلم سے باز آجائے مثلاً نصیحت کرے، ظلم کے انجام و عواقب کو بیان کرے۔ ۲۸۔ دشمن کے رو برو اسکو ذلیل و رسوا نہ کرے۔ ۲۹۔ جو کچھ اپنے لئے پسند کرتا ہے وہی اس کیلئے بھی پسند کرے۔ ۳۰۔ جو کچھ اپنے لئے ناپسند کرتا ہے اس کیلئے بھی ناپسند کرے۔
والدین کے حقوق
۱۔ حتی المقدور انکی اطاعت کرے۔ ۲۔ بغیر القاب کے صرف نام نہ لے۔ ۳۔ انکے آگے آگے نہ چلے۔۴۔ان سے پہلے نہ بیٹھے۔ ۵۔ انکا قرض ادا کرے۔ ۶۔ ترشروئی سے نگاہ نہ کرے۔ ۷۔ نفقہ کی ضرورت ہو تو دریغ نہ کرے۔ ۸۔ شفقت و مہربانی سے بھر پور نگاہ کرے۔ ۹۔ کثرت سے ان کیلئے دعا کرے۔ ۱۰۔ موت کے بعد انہیں بھول نہ جائے بلکہ ان کیلئے صدقات و خیرات کرتے رہیں۔ ۱۱۔ انکی بے احترامی سے پرہیز کریں کہ خدا نے قرآن مجید میں توحید کے بعد والدَین کے احترام کی تلقین فرمایا ہے۔ ۱۲۔ وصیت پر عمل کریں۔ ۱۳۔ حسن سلوک کروخواہ وہ کافر ہوں۔ ۱۴۔ کریمانہ انداز میں ان سے گفتگو کریں۔ ۱۵۔ اگر وہ مجبور ہو جائیں تو اپنے ساتھ رکھے۔ ۱۶۔ انکے حکم کی اطاعت اس وقت تک واجب ہے جب تک یہ اطاعت گناہ کے طرف نہ لے جائے۔ ۱۷۔ انفاق میں انہیں مقدم رکھیں۔ ۱۸۔ انہیں راضی رکھیں کہ انکی رضا و خوشنودی، اللہ کی رضا ہے اور انکا خشم و غصہ، اللہ کا خشم و غضب ہے۔ ۱۹۔ انکے ساتھ نیکی کرو کہ برترین عبادت ہے۔ ۲۰۔ انکا شکریہ ادا کرتے رہیں۔ ۲۱۔ مہربان نظروں سے والدین کو دیکھنا حج مقبول کا ثواب رکھتا ہے۔ ۲۲۔ انکے اخراجات پورا کریں۔ ۲۳۔ انکی قضا نماز و روزہ ادا کریں۔ ۲۴۔ ہر شب جمعہ انکی زیارت کو جائیں اور ان کیلئے خیرات کریں۔
اولاد کے حقوق
۱۔ ولادت سے قبل اسکا اچھا نام منتخب کرے۔ ۲۔ ساتویں روز ولادت کے بعد عقیقہ کرے۔ ۳۔ ولادت کے بعد ساتویں دن ختنہ کرائے۔ ۴۔ ساتویں روز سر کے بال مونڈوا کر بالوں کے وزن کے برابر سونا یا چاندی صدقہ کرے۔ ۵۔ اس سے محبت کرے اور بوسہ دے۔ ۶۔ اسکو خوشحال کرے۔ ۷۔ بچوں سے کئے ہوئے وعدہ کو پورا کرے۔ ۸۔ 7 سال تک اسکو چھوڑ دے کہ وہ کھیل کود کر سکے۔ ۹۔ نماز، آداب اسلامی و احکام سکھائے۔ ۱۰۔ جب 10 سال کے ہو جائیں تو انکا بستر علاحدہ کر دیں۔ ۱۱۔ تیراکی، تیر اندازی اور گھڑ سواری سکھائے۔ ۱۲۔ سخت کام نہ کرائے۔ ۱۳۔ دو بچوں کے درمیان تفریق نہ کرے۔ ۱۴۔ طہارت و پاکیزگی کے ساتھ بڑا کریں۔ ۱۵۔ اگر بچوں کیلئے کچھ لاؤ تو پہلے بیٹیوں کو دو۔ ۱۶۔ انکی شادی کیلئے کوشاں رہے۔ ۱۷۔ لڑکی کیلئے نیک لڑکا اور لڑکے کیلئے نیک زوجہ تلاش کرے۔ ۱۸۔ اگر اولاد سے اذیت پہونچے تو صبر کرے۔ ۱۹۔ اگر عبادت انجام دیں تو انعام سے نوازے۔ ۲۰۔ اسکے دل اور آنکھ کو طعام سے سیر کرے۔ ۲۱۔ ادب سے انکے ساتھ برتاؤ کرے۔ ۲۲۔ بچون کیلئے دونوں ہاتھوں کی مانند بن کر زندگی گذارے۔ ۲۳۔ انکو سمجھنے کی کوشش کریں۔ ۲۴۔ جب نصیحت کرو تو انکی سرزنش و مذمت نہ کرو۔ ۲۵۔ 7 سال کی عمر میں نماز کا حکم دو۔ ۲۶۔ انہیں مارو نہیں۔ ۲۷۔ عمل سے انکی تربیت کرو۔ ۲۸۔ ان سے مشورہ کرو۔ ۲۹۔ انکی شخصیت کو اہمیت دو۔ ۳۰۔ انکے نظریات کا احترام کرو۔ ۳۱۔ اپنے چھوٹے بچوں کے ساتھ کھیلو۔ ۳۲۔ انکی تربیت کیلئے وقت نکالو۔ ۳۳۔ حلال رزق اور پاک شیر (دودھ) سے پروان چڑھاؤ۔ ۳۴۔ انہیں سلام کرو۔ ۳۵۔ عبادت کا شوق دلاؤ۔ ۳۶۔ مناسب شغل کا انتخاب کرو۔ ۳۷۔ حد سے زیادہ محبت نہ کرو۔ ۳۸۔ تعلیم کا بند و بست اور اولاد کے درمیان بے جا تبعیض نہ کرو۔ ۳۹۔ بری صحبت سے بچاؤ۔ ۴۰۔ اچھے نام کا انتخاب کرو۔ ۴۱۔ حتی المقدور انکے مخارج کا انتظام کریں۔ ۴۲۔ شادی کے وسائل فراہم کریں اور رکاوٹیں دور کریں۔ ۴۳۔ مناسب زوجہ کے انتخاب میں راہنمائی کریں۔ ۴۴۔ ملامت و سرزنش میں افراط نہ کریں کہ اس کے سبب لجاجت شعلہ ور ہوجاتی ہے۔ ۴۵۔ عزت نفس کے ساتھ تربیت دو تاکہ کسی وقت بھی ذلت و رذالت کو قبول کرنے پر آمادہ نہ ہوں۔ ۴۶۔ نگاہ عادلانہ رکھو کہ اگر تبعیض ہوئی تو والدین کی طرف سے بد بینی پیدا ہوجائے گی۔ ۴۷۔ امور تعلیم پر نگاہ رکھیں اور ہمیشہ مدرسہ یا اسکول سے رابطہ میں رہیں نیز انہیں حصول تعلیم میں مدد کریں۔ ۴۸۔ طبعی حس کو رفتہ رفتہ بیدار کریں، کسی قسم کے دباؤ سے پرہیز کریں۔ ۴۹۔ اسلامی تعلیمات سے آراستہ کریں۔ ۵۰۔ والدین اس بات کا خیال رکھیں کہ جب اولاد بلوغ کے مرحلہ میں قدم رکھتی ہے تو کچھ چیزیں ان میں پیدا ہوتی ہیں، جس کا سعہ صدر کے ذریعہ مقابلہ کرنا چاہئے کیونکہ رفتہ رفتہ وہ چیزیں ختم ہو جائیں گی۔
★ سن بلوغ کے ساتھ مندرجہ ذیل چیزیں ظہور پذیر ہوتی ہیں:
۱۔ عیب جوئی۔ ۲۔ خود ستائی و خود بینی۔ ۳۔ کج خلقی۔ ۴۔ بے ترتیبی۔ ۵۔ اطاعت سے گریز۔ ۶۔ زیادہ بات کرنا۔ ۷۔ بے مقصد دوستی۔ ۸۔ اونچی سوچ اور اونچے خیالات۔ ۹۔ قہرمان پرستی۔ ۱۰۔ ماڈل پرستی کا جنون۔ ۱۱۔ کھانے کے وقت عام طور پر اشتہاء کا نہ ہونا۔ ۱۲۔ وقت گذرانی۔ ۱۳۔ وسوسہ و حالت تردد۔ ۱۴۔ بے حوصلہ اور بے قرار ہونا۔ ۱۵۔ سرکشی۔ ۱۶۔ بے مقصد مشغلہ۔ ۱۷۔ فکری تھکن و سستی۔ ۱۸۔ تحصیل میں افراط۔ ۱۹۔ گوشہ نشینی کو پسند کرنا۔ ۲۰۔ شور و غل کو پسند کرنا اور ہیجان انگیز حرکات انجام دینا۔
زن و شوہر کے حقوق متقابل
۱۔ ایک دوسرے سے محبت و الفت رکھنا یا اظہار کرنا۔ ۲۔ رفاقت اور ایک دوسرے سے ہمکلام ہونا۔ ۳۔ آرائش اور نظافت رکھیں۔ ۴۔ عطر اور خوشبو لگانا ۔ ۵۔ ایک دوسرے کا احترام کرنا۔ ۶۔ بے جا توقع نہ رکھنا۔ ۷۔ گھریلو کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرنا۔ ۸۔ محبت بھری نگاہ سے دیکھنا۔ ۹۔ دوسروں کے سامنے ایک دوسرے کی تعریف کرنا۔ ۱۰۔ ایک دوسرے کا شکریہ ادا کرنا۔ ۱۱۔ خطاؤں کو درگذر کرنا اور ان سے چشم پوشی کرنا۔ ۱۲۔ ایک دوسرے کی رشد میں مؤثر ہونا۔ ۱۳۔ ایک دوسرے کیلئے دعا کرنا۔ ۱۴۔ ایک دوسرے کے حقوق کی رعایت کرنا۔
شوہر کے حقوق
۱۔ تمکین۔ (یعنی جب شوہر زوجہ کو بلائے تو مثبت جواب دینا)۔ ۲۔ شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے باہر نہ جائے۔ ۳۔ شوہر کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آئے۔ ۴۔ مستحبی نماز، روزہ و دیگر امور کو اسکی اجازت کے بغیر انجام نہ دے۔ ۵۔ نماز کے بعد شوہر کیلئے دعا کرے۔ ۶۔ شوہر گھر سے نکلے تو مشایعت کرے اور واپس آنے پر استقبال کرے۔ ۷۔ سلام کرے۔ ۸۔ شوہر کی خدمت میں کوتاہی نہ کرے۔ ۹۔ اگر شوہر کو پانی پلائے تو عبادت کا ثواب ہے۔ ۱۰۔ اگر اس کیلئے غذا آمادہ کرے تو ایک حج کا ثواب ہے۔ ۱۱۔ اگر اسکے لباس کو دھلے تو سو حج کا ثواب ہے۔ ۱۲۔ شوہر سے مجنب ہونے کی صورت میں غسل جنابت کرے تو عورت کو ایک ہزار دینار صدقہ کا ثواب ہے۔ ۱۳۔ اگر حاملہ ہو جاتی ہے تو ستر شہید کا ثواب ملتا ہے۔ ۱۴۔ شوہر سے مسکراہٹ کے ساتھ ملاقات کرے۔ ۱۵۔ اسکے گھر اور مال کا تحفظ کرے۔ ۱۶۔ اپنے شوہر کیلئے زینت کرے۔ ۱۷۔ شوہر کی شکایت نہ کرے۔ ۱۸۔ شوہر سے خیانت نہ کرے۔ ۱۹۔ شوہر کے علاوہ کسی اور کیلئے زینت نہ کرے۔ ۲۰۔ اگر شوہر کیلئے لباس کو اتارے تو شرم و حیا کو دور کر دے اور جب لباس زیب تن کرے تو حیا و شرم بھی پہن لے۔ ۲۱۔ اپنے شوہر سے محبت کرے اور اسکا اظہار اس طرح کرے کہ "مجھے آپ پر فخر ہے"۔ ۲۲۔ اپنی ناموس اور دامن عصمت کا تحفظ کرے اور بچوں کی عصمت کی حفاظت کرے۔ ۲۳۔ اقتصادی و جنسی اسرار کی محافظ رہے۔ ۲۴۔ شوہر کو خانوادہ (خاندان) کا سرپرست تصور کرے۔ ۲۵۔ زندگی میں قناعت پسند رہے۔ ۲۶۔ اگر شوہر سے کوئی شکایت ہو تو مناسب موقع و محل پر مدلل گفتگو کرے لیکن گھر سے باہر یہ گفتگو نہ ہو۔ ۲۷۔ جب شوہر سے ہمکلام ہو تو نزاکت و ادب کی رعایت کرے تا کہ وہ بھی رعایت کرے۔ ۲۸۔ دوسری عورتوں سے مقابلہ کی وجہ سے اسراف نہ کرے۔ ۲۹۔ جیسے اپنے شوہر کی خوشی کیلئے لباس، چہرہ وغیرہ کا خیال رکھتی ہے اسی طرح گفتگو میں نرم لہجہ، شیرینی سخن کا بھی لحاظ کریں۔ ۳۰۔ جو امور شوہر انجام دیتا ہے اسکی قدر کریں تا کہ وہ بھی تمہاری قدر کرے۔ ۳۱۔ عورت کا اطاعت کرنا، نظافت (صاف صفائی)، امانتداری، رازدای، قناعت، وداع کرنا و استقبال کرنا، زندگی کے امور میں مدد کرنا۔ ۳۲۔ خوشروئی، زینت رکھنا۔ ۳۳۔ اظہار عشق و محبت کرنا۔ ۳۴۔ شوہر کے احسان پر شکر کرنا۔
زوجہ کے حقوق
۱۔ اسکا نفقہ ادا کیا جائے۔ ۲۔ نفقہ میں وسعت کا خیال رکھے۔ ۳۔ عطر و خوشبو کا انتظام کرنا۔ ۴۔ چار جوڑے کپڑے ایک سال میں جس میں دو گرم اور دو ٹھنڈک کے اعتبار سے ہوں۔ ۵۔ رات کو اسی کے ہمراہ سوئے۔ ۶۔ کوتاہیوں اور لغزشوں کو درگذر کرنا۔ ۷۔ حتی المقدور اسکے ساتھ نیکی کرے۔ ۸۔ الفت و محبت کرے نیز اظہار کرے۔ ۹۔ خوشروئی سے پیش آئے۔ ۱۰۔ غصہ بھری نگاہوں سے نہ دیکھے۔ ۱۱۔ کھانا اسکے ساتھ کھائے۔ ۱۲۔ حمام کے اخراجات پورا کرے۔ ۱۳۔ کچھ پیسہ اسکو دے۔ ۱۴۔ فتنوں کے مقامات پر جانے سے منع کرے۔ ۱۵۔ گھریلو کام میں مدد کرے۔ ۱۶۔ دینی احکام و آداب سکھائے۔ ۱۷۔ عید کے اسباب مہیا کرے۔ ۱۸۔ گھر سے باہر باریک کپڑے پہننے سے منع کرے۔ ۱۹۔ تعلیم کے مواقع فراہم کرے۔ ۲۰۔ اگر خادم کی ضرورت ہو تو انتظام کرے۔۲۱۔ آرائش کے سامان فراہم کرے۔ ۲۲۔ مختلف میوہ جات و پھل خرید کر لائے۔ ۲۳۔ اپنی زوجہ کیلئے خضاب لگائے اور خود کو معطر کرے۔ ۲۴۔ یہ خیال رہے کہ عورت مایۂ اطمینان و سکون ہے۔ ۲۵۔ عورت نعمت الٰہی ہے۔ ۲۶۔ بے احترامی، بد اخلاقی نہ کرے۔ ۲۷۔ بے جا سختی نہ کرے بلکہ ترحم سے پیش آئے۔ ۲۸۔ چار ماہ سے زیادہ اس سے دوری نہ رکھے۔ ۲۹۔ اگر زوجہ متعدد ہوں تو عدالت کا خیال کرے۔ ۳۰۔ نیکی و حسن سلوک کے ساتھ جدا ہو۔ ۳۱۔ مہر کی رقم حلال کرنے کیلئے زبردستی نہ کرے۔ ۳۲۔ جب اس سے جدائی ہو تو مہر کی رقم حلال نہ سمجھے۔ ۳۳۔ اگر زوجہ سیدانی ہے تو اسکا احترام کرو۔ ۳۴۔ اسکے حقوق کا احترام کرو۔ ۳۵۔ ترشروئی سے پیش نہ آئے۔ ۳۶۔ عورت شیشہ کے مثل ہے، اسکو مت توڑو۔ ۳۷۔ اسکو زدوکوب نہ کرو۔ ۳۸۔ اسکے دل کو محبتوں سے لبریز کردو۔ ۳۹۔ زندگی کے مراحل میں مددگار بنے رہو۔ ۴۰۔ اس سے محبت کرنا سنت پیغمبرؐ ہے۔ ۴۱۔ آسائش اور آرائش کے سامان خریدنا۔ ۴۲۔ اکرام و احترام کرے۔ ۴۳۔ اخراجات میں فراخدلی کا مظاہرہ کرے، سخت دل نہ بنے۔ ۴۴۔ سب سے پہلے بھلائی تمہارے ذریعہ تمہارے بچوں اور زوجہ کو پہونچے۔ ۴۵۔ وعدوں کو وفا کرے۔ ۴۶۔ تند لب و لہجہ میں گفتگو نہ کرے۔
رعایا کے حقوق حکومت پر
۱۔ رعایا کے حقوق ادا کئے جائیں۔ ۲۔ اپنی رعایا پر مہربانی کرے۔ ۳۔ جنگی اسرار کے علاوہ کسی قسم کا راز رعایا سے پوشیدہ نہ رکھا جائے۔ ۴۔ مشورہ کرنا رعایا سے۔ ۵۔ مساوات لوگوں کے درمیان قائم رکھے۔ ۶۔ لوگوں سے قوانین کے مطابق رفتار کرے، روابط کے مطابق نہیں۔ ۷۔ بے سبب مالیات و خراج نہ لئے جائیں۔ ۸۔ حکومت و ریاست کو تکبر و غرور کا ذریعہ نہ بنائیں۔ ۹۔ رعایا سے روابط مستحکم و مضبوط ہوں۔ ۱۰۔ احکام الٰہی کا نفاذ ہو۔ ۱۱۔ معاشرہ اور معاشرہ کے حکام کی اصلاح کرے۔ ۱۲۔ معاشرہ کے حکام اگر کسی خلاف ورزی کے مرتکب ہوں تو سزا دی جائے۔ ۱۳۔قانون کے مطابق عمل کریں، اپنی پسند کے مطابق نہیں۔ ۱۴۔ تعلیم و تعلم کے ہمہ جہت اقدامات کئے جائیں۔
حکومت کا رعایا پر حق
۱۔ ہر معاشرہ کے لوگ حکومت اور حکام کے حقوق کا احترام کریں۔ ۲۔ حکومتی قوانین سے سرکشی نہ کریں۔ ۳۔ امور کے انجام دینے میں سستی اور کاہلی نہ کریں۔ ۴۔ مالیات و ٹیکس وقت پر ادا کریں۔ ۵۔ مشکلات میں حقائق تک پہونچنے کی کوشش کریں۔ ۶۔ حکام کی اطاعت کریں۔ ۷۔ اپنے رہبروں کی فرمانبرداری کرتے ہوئے انکے وفادار بنے رہیں۔
مہمان کے حقوق
۱۔ مہمان خدا کا دوست ہوتا ہے جو اپنا رزق کے کر آتا ہے اور اہل خانہ کا گناہ لے کر جاتا ہے۔ ۲۔ مہمان اگر کافر ہو تب بھی اسکا احترام کرو۔ ۳۔ مہمان سے کام نہ لو۔ ۴۔ اسکو گھر کے باہری دروازہ تک رخصت کرنے جائے۔ ۵۔ اسکی غذا جلدی لے آئے۔ ۶۔ اسکے رو برو کشادہ روئی کا مظاہرہ کرے۔ ۷۔ ضیافت میں اسکی پسند کا خیال کرے۔ ۸۔ مہمان سے پہلے کھانے سے دستبردار نہ ہو۔ ۹۔ اسکے پہلو میں بیٹھے اور اس سے الفت و انسیت کا اظہار کرے۔ ۱۰۔ مہمان کے سامنے زندگی کے مشکلات، فقر و تنگدستی کا اظہار نہ کرے۔ ۱۱۔ کھانے کے بعد اسکے ہاتھ دھونے کیلئے پانی کا انتظام کرے۔ ۱۲۔ یہ خیال رہے کہ مہمان محترم ہے۔ ۱۳۔ بازار سے کچھ نہ خریدیں لیکن جو کچھ گھر میں موجود ہے اس سے دریغ نہ کریں، ہاں اہل و عیال کو زحمت میں نہ ڈالے۔ ۱۴۔ کھانا کھاتے ہوئے حیرت بھری نظر سے نہ دیکھے۔ ۱۵۔ میزبان پہلے شروع کرے اور سب سے بعد تک غذا کھانے میں مصروف رہے۔ ۱۶۔ اچھا بستر اس کیلئے بچھائے۔ ۱۷۔ مہمان کیلئے خلال کا انتظام کرے اور دسترخوان اسکے قریب بچھائے۔ ۱۸۔ مہمان کو کھانے، سونے اور آرام کرنے میں مزاحمت نہ کرے۔ ۱۹۔ نماز، عبادت کی وجہ سے مہمان کو زحمت میں نہ ڈالے۔
یتیموں کے حقوق
۱۔ یتیموں کے ساتھ نیکی کرنا۔ ۲۔ پناہ دینا۔ ۳۔ تربیت کرنا۔ ۴۔ مالی امداد کرنا۔ ۵۔ ہمہ جہت انفاق یتیموں کیلئے کرے۔ ۶۔ کھانا کھلانا۔ ۷۔ اچھی گفتگو کرنا۔ ۸۔ یتیموں کے اچھے مال کو برے مال سے تبدیل نہ کرے۔ ۹۔ انکے مصالح کو پیش نظر رکھے۔ ۱۰۔ اپنے پاس رکھنا۔ ۱۱۔ جب وہ بڑے ہو جائیں تو انکے اموال انکے سپرد کرنا۔۱۲۔ عدل و انصاف کی بنیاد پر انکے ساتھ حسن معاشرت کرنا۔ ۱۳۔ زبردستی انکے اموال میں تصرف نہ کرے کہ اگر ایسا کیا تو آخرت میں بدترین سزا کا مستحق ہوگا۔
مزدور کے حقوق
۱۔ یہ خیال رکھو کہ وہ بھی اللہ کی مخلوق ہے اور تمہاری ہی طرح جسم و گوشت رکھتا ہے۔ ۲۔ اچھا برتاؤ کرو اور محبت آمیز رویہ اختیار کرو۔ ۳۔ اگر تمہاری پسند کے مطابق نہ ہو تو تبدیل کر دو۔ ۴۔ مشکل اور سخت امور اسکے حوالہ نہ کرو۔ ۵۔ جو تم کھاؤ وہی اسکو بھی دو۔ ۶۔ اسکی مدد سے گریز نہ کرو۔ ۷۔ اسکا پسینہ سوکھنے سے پہلے اسکو مزدوری دیدو۔ ۸۔ اسکے ہاتھوں کو بوسہ دو کہ یہ ہاتھ جہنم کی آگ سے محفوظ ہیں۔ ۹۔ بغیر مزدوری و اجرت معین کئے ہوئے کام پر نہ لگاؤ۔ ۱۰۔ طاقت سے زیادہ اس سے کام نہ لے۔
استاد کے حقوق
۱۔ استاد کا احترام کرے۔ ۲۔ درس میں باوقار بیٹھے۔ ۳۔ اسکی باتوں کو غور سے سنے۔ ۴۔ اس سے زیادہ سوالات نہ کرے۔ ۵۔ اگر کچھ لوگوں کے ساتھ کسی مقام پر ہوں تو سب کو سلام کرے لیکن استاد کیلئے خصوصیت کا مظاہرہ کرے۔ ۶۔ اسکے سامنے بیٹھے۔ ۷۔ آنکھوں یا ہاتھ سے اشارہ نہ کرے۔ ۸۔ دوسروں کی وہ بات جو اسکے نظریہ کے خلاف ہو بیان نہ کرے۔ ۹۔ اگر دیر تک بیٹھنا پڑ جائے تو خستگی کا اظہار نہ کرے۔ ۱۰۔ توہین نہ کرے کہ عمر کو کم کر دیتی ہے۔ ۱۱۔ اسکے استقبال میں کھڑے ہوجاؤ کہ وہ روحانی باپ ہے۔ ۱۲۔ اگر کوئی بات سمجھ میں نہ آئے تو طنز و تشنیع نہ کرے۔ ۱۳۔ اس سے پہلے کلاس روم میں حاضر ہو۔ ۱۴۔ اسکے رو برو تواضع و فروتنی کا اظہار کرے۔ ۱۵۔ اسکے سامنے بلند آواز میں گفتگو نہ کرے۔ ۱۶۔ اسکے کلام کو قطع کرنے سے پرہیز کرے۔
شاگرد کے حقوق
۱۔ معلم شاگردوں پر مہربان و مشفق رہے۔ ۲۔ بے وجہ زد و کوب اور تنبیہ نہ کرے۔ ۳۔ اگر شاگرد انعام کا مستحق ہو تو دریغ نہ کرے۔ ۴۔ درس پڑھانے میں کوتاہی نہ کرے۔ ۵۔ شاگردوں کے سوالات سے خستگی محسوس نہ کرے۔ ۶۔ بلند ہمت ہو۔ ۷۔ بے فائدہ علوم کے سیکھنے سے پرہیز کرے۔ ۸۔ استاد جو چیز اپنے لئے پسند کرتا ہے شاگرد کیلئے بھی پسند کرے۔ ۹۔ شاگردوں کے درمیان تفریق نہ کرے۔
پڑوسیوں کے حقوق
۱۔ کسی بھی اعتبار سے اسکو اذیت نہ پہونچائے۔ ۲۔ اسکو حرمت کا خیال ویسے ہی رکھے جیسے والدَین کی حرمت کا خیال رکھتا ہے۔ ۳۔ انکے ساتھ نیکی کرے کہ عمر میں اضافہ کا سبب ہے۔ ۴۔ پڑوسی بھوکا ہو تو خود شکم سیر ہو کر نہ سوئے۔ ۵۔ اپنے اموال میں اسکو شریک جانے۔ ۶۔ بیماری میں اسکی عیادت کرے۔ ۷۔ اسکی مصیبت میں شامل رہے۔ ۸۔ شادی و خوشی میں تہنیت پیش کرے۔ ۹۔ لغزشوں کو معاف کرے۔ ۱۰۔ گھر کا کوئی سامان کسی ضرورت کے تحت مانگے تو دینے سے دریغ نہ کرے۔ ۱۱۔ جو راز وہ ظاہر نہ کرنا چاہے اسکے جاننے کی کوشش نہ کرے۔ ۱۲۔ جب گھر میں نہ رہے تو اسکے گھر کی حفاظت کرے۔ ۱۳۔ اپنے گھر کو ایسا نہ بنوائے کہ اسکے گھر میں اندھیرا ہو جائے۔ ۱۴۔ لذیذ غذا اگر گھر میں بنے تو اسکے گھر بھیجوائے۔ ۱۵۔ اگر قرض کا مطالبہ کرے تو دیدے۔ ۱۶۔ مشکلات میں تنہا نہ چھوڑے۔ ۱۷۔ اسکی عیب جوئی نہ کرے۔ ۱۸۔ اگر اس پر ظلم ہو تو اسکی مدد کرے۔ ۱۹۔ اسکے حدود کی رعایت کرے۔ ۲۰۔ مہربانی سے پیش آئے۔ ۲۱۔ انکو اذیت نہ پہونچائے۔ ۲۲۔ تشییع جنازہ میں حاضر ہو۔
دوستوں کےحقوق
۱۔ جب مالی و جانی مشکلات میں دوست گرفتار ہو تو اسکے حقوق ادا کرے۔ ۲۔ عیوب کی نشاندہی کرے تا کہ اسکو دور کر سکے۔ ۳۔ راز فاش نہ کرے۔ ۴۔ دوستی و محبت کا اظہار کرے۔ ۵۔ دعا، مزاج پرسی اور اسکی مدح و ثنا کرے۔ ۶۔ حرام کام انجام دے تو اسکو نصیحت کرے۔ ۷۔ غلطیوں اور خطاؤں سے در گذر کرے۔ ۸۔ زندہ ہوں تو انکے حق میں دعا کرے اور مرجائے تو مغفرت كي دعا کرے۔ ۹۔ انکا وفادار رہے۔ ۱۰۔ جو کام انجام دینا قدرت سے خارج ہو اسکے حوالہ نہ کرے۔
حیوان کے حقوق
۱۔ اسکے چہرہ پر نہ مارو کیونکہ وہ بھی پروردگار عالم كي تسبیح و تمجید کرتا ہے۔ ۲۔ اگر پانی یا گھاس کے پاس سے گذرو تو اسکو مہلت دو۔ ۳۔ بے سبب اس پر سوار نہ رہو۔ ۴۔ طاقت سے زیادہ اس پر بوجھ بار نہ کرو۔ ۵۔ حد سے زیادہ تیز چلنے پر مجبور نہ کرو۔ ۶۔ بے آب و گیاہ زمین سے جلدی گذرنے کی کوشش کرو۔ ۷۔ آباد و سر سبز علاقہ سے گذرنے میں عجلت نہ کرو۔ ۸۔ اصطبل کو صاف ستھرا رکھو۔ ۹۔ آب و غذا میں کمی و کوتاہی نہ کرو۔ ۱۰۔ اگر جانور بوڑھا ہے یا کمزور ہو جائے تو اسکو خود سے دور نہ کرو۔ ۱۱۔ اگر جانور کو ذبح کرے تو کسی دوسرے جانور کے سامنے ذبح نہ کرے۔ ۱۲۔ اسکی تھکن کا خیال رکھے۔ ۱۳۔ تھکاوٹ کے عالم میں آرام کرنے کا موقع دے۔ ۱۴۔ دودھ دوہنے میں زیادتی نہ کرے۔ ۱۵۔ ذبح کے وقت اسکو ایذاء نہ پہونچائے۔ ۱۶۔ انکے جسم کو علامت و نشانی کی غرض سے نہ جلائے۔ (داغ نہ لگائے۔) ۱۷۔ اسکی ناک سے بہنے والی رطوبت کو پاک و صاف کرے۔ ۱۸۔ انہیں بانجھ (خصی) نہ بنائیں۔ ۱۹۔ مُثلہ نہ کریں۔ یعنی عبرتناک سزا ناک و کان وغیرہ کاٹ کر شکل و صورت بگاڑنا. ۲۰۔ چھوٹے پرندوں کو ذبح کرنے سے پرہیز کریں۔ ۲۱۔ جانوروں کو آپس میں اس قدر نہ لڑاؤ کہ وہ جان کے در پئے ہو جائیں۔ ۲۲۔ یہ خیال رہے کہ تم اپنے جانور کے ذمہ دار ہو۔
اعضائے جسم کےحقوق
۱۔ حق نفس: راہ اطاعت خدا میں استعمال کرے۔ ۲۔ حق زبان: دشنام طرازی سے محفوظ رکھتے ہوئے نیک گفتگو کا عادی بناؤ بیہودہ گوئی سے پرہیز کرے اور خوش کلامی کی عادت بنالے۔ ۳۔ کان کا حق: غیبت و دیگر محرمات کے سننے سے باز رکھے۔ ۴۔ آنکھ کا حق: حرام چیزوں کے دیکھنے سے محفوظ رہے اور عبرت کی نظر سے دیکھے۔ ۵۔ ہاتھ کا حق: حرام چیزوں کو ہاتھ نہ لگاؤ۔ ۶۔ پیر کا حق: حرام راستوں پر جانے سے اجتناب کرے کیونکہ اسی پیر سے پل صراط سے عبور کرنا ہے۔ ۷۔ شکم کا حق: حرام چیزوں کا ظرف قرار نہ دے اور ضرورت سے زیادہ نہ کھائے۔
مال کے حقوق
۱۔ حرام راہوں سے حاصل نہ کرو۔ ۲۔ حرام راہوں میں خرچ نہ کرے۔ ۳۔ واجب حقوق مثلاً خمس، زکات، فطرہ، کفارات، نذرات وغیرہ ادا کرے۔ ۴۔ اپنے مال کو برباد نہ کرے۔ ۵۔ تبذیر و اسراف اور فضول خرچی سے پرہیز کرے۔ ۶۔ اپنے مال کے ذریعہ دوسروں کے ساتھ اچھائی کرو۔ ۷۔ اعزَّا کو اپنے مال سے مستفید ہونے کے مواقع فراہم کرو۔ ۸۔ مستحقین فقراء کی امداد کرو۔ ۹۔ اُسَراء کی امداد کرو۔ ۱۰۔ دوسروں کو قرض دو۔
اہل کتاب کےحقوق
۱۔ حیات و زندگی کا حق۔ ۲۔ سلامتی جان کا حق۔ ۳۔ مالی تحفظ کا حق۔ ۴۔ عقیدہ کی آزادی کا حق۔ ۵۔ عبادت کی آزادی کا حق۔ ۶۔ قانون گزاری کا حق۔ ۷۔ شخصی حقوق۔ ۸۔ سیاسی و مدنی مشارکت کے حقوق۔ ۹۔ تجارت و مالی آزادی کا حق۔ ۱۰۔ رفت و آمد کے حقوق۔ ۱۱۔ مالکیت (ملکیت) کے حقوق۔
چھوٹوں کے حقوق
۱۔ ان سے الفت و محبت کرو۔ ۲۔ تعلیم و تربیت کا انتظام و انصرام کرو۔ ۳۔ انکی لغزشوں سے چشم پوشی اختیار کرو۔ ۴۔ اسکے ساتھ نرم برتاؤ کرو۔ ۵۔ اسکے امور میں اعانت کرو۔ ۶۔ گناہوں کو چھپائے۔ ۷۔ ان سے لڑنے جھگڑنے میں پرہیز کرو۔
بڑوں کے حقوق
۱۔ احترام کرو۔ ۲۔ انکے اسلام کی تجلیل کرو کہ تم سے پہلے وہ مسلمان ہوئے ہیں۔ ۳۔ اگر ان سے کسی قسم کی عداوت ہو تو مقابلہ آرائی سے بچو۔ ۴۔ اسکے آگے آگے راستہ نہ چلو۔ ۵۔ جاہلانہ برتاؤ نہ کرو۔ ۶۔ اگر اسکا رویہ جاہلانہ بھی ہو تو صبر و تحمل سے کام لو۔
ایک تبصرہ شائع کریں