عاشورا کی نسبتوں کی جھلکیاں


عاشورا کی نسبتوں کی جھلکیاں


مترجم : ابو دانیال اعظمی بُریر


کمپوزنگ: رسالت حسین مبارکپوری



ثقلین: اس معلوماتي مضمون / پوسٹر کے بارے میں جن کی خاص نسبتیں اصحاب سید الشہدا (ع) کی طرف ہی ہے اور اس بات کی سعی و کوشش کی گئی ہے کہ مشہور و معروف افراد کا ذکر کم سے کم کیا جائے.

ان شاء الله کے بعد کے معلوماتی مضمون / پوسٹر میں عبرتوں کا تذکرہ خصوصاً اصحاب حسینی اور شہدائے بنی ہاشم کا ذکر کریں گے.

سلاموں میں "زیارت ناحیه مقدسه اور زیارت رجبیه" کے جملوں کا استعمال کیا ہے.

اس معلومات کے زیادہ تر اجزا مندرجہ ذیل کتب سے ماخوذ و منقول ہیں:

۱- کتاب ابصار العین، 

۲- دانشنامه امام حسین (ع)، 

۳- موسوعة تاریخ امام حسین (ع)، 

۴- مقتل أبو مخنف، 

۵- تاریخ طبری، 

۶- قاموس الرجال، 

۷- تحفة الزائر، 

۸- روضة الواعظین، 

۹- عنصر شجاعت.

اس سلسلہ میں جن تصاویر کو ہم نے اپنے پوسٹر میں استعمال کیا ہے وہ "داستانِ عاشورا" نام کی کتاب سے ماخوذ ہے اس کتاب کو "نشرِ دانش آموز" نامی ادارہ چھاپا ہے.

شَکَر الله مَساعیَهم


باپ اور بیٹے




قیام کا ہنر: 



یزید بن ثُبَیط کے ۱۰ بیٹے تھے، جب انہوں نے کربلا کی طرف جانے کا مصمم ارادہ کر لیا تو تیزی کے ساتھ کربلا گئے، اپنے بیٹوں کو بلایا اور کہا: تم میں سے کون حاضر ہے جو میرے ساتھ امام کی مدد و نصرت کیلئے کربلا چلے؟ ان ۱۰ میں سے فقط ۲ ہی بیٹے ۱- عبد اللہ اور ۲- عُبَید اللہ اپنے والد کے ہمراہ کربلا آئے اور شہادت کی توفیق حاصل کی۔

اَلسَّلَامُ عَلیٰ یَزِید بنِ ثُبَیطِ 

وَالسَّلَامُ عَلیٰ عَبدِ اللہِ وَ عُبَیدِ اللہِ اِبنَی یَزِید بنِ  ثُبَیطِ القَیسِی



خورشید کی پناہ  میں


مُجمَّع بن عبد اللہ اور عائذ بن مُجمَّع؛ باپ اور بیٹے سید الشہداء (ع) کی طرف روانہ ہوئے، اس وقت پہونچے جب حرّ کے لشکر نے امام کا محاصرہ کیا تھا، انہیں امام (ع) سے ملنے میں حرّ مانع ہو رہا تھا، لیکن امام (ع) نے اپنے افراد اور دباؤ کے سبب انہیں اپنی طرف لانے میں کامیاب ہو گئے یہاں تک کہ شہادت کی توفیق ہاتھوں سے جانے ہی نہ دی۔



بیٹے کے ہاتھوں  باپ کی شہادت 


زہیر بن سُلیم ازدی اور ان کا بیٹا دونوں ہی عمر سعد کے لشکر میں شامل ہو کر کربلا آئے تھے۔

بعض مؤرخین کہتے ہیں کہ امام (ع) سے ملحق  ہونے اور محاصرہ کو پار کرنے کیلئے انہوں نے ایسا کیا، شب عاشورا جب زہیر نے دشمن  کے مصمم ارادہ اور یقینی جنگ کو دیکھا تو رات کی تاریکی میں امام (ع) سے ملحق ہوئے لیکن اپنے بیٹے سے جتنی بھی درخواست کی لیکن وہ ان کے ساتھ نہیں آیا۔ یہ جنگ کے ابتدائی حملہ یعنی پہلی تیر اندازی میں شہید ہوئے۔

بعض مورخین کا کہنا ہے کہ  یہ اپنے بیٹے ہی کے تیر کا نشانہ بن کر شہید ہوئے۔

اَلسَّلَامُ عَلیٰ زُهَیر بنِ سُلَیمِ الأَزدِی


برادران حسینی



میں شہید ہی ہونا چاہتا ہوں



عبد الله اور عبد الرحمن فرزندان عروہ جو قبیلہ بنی غفار سے تعلق رکھتے تھے

یہ دونوں ہی کوفہ کے سردار اور نامور شخصیت تھے، نیز امیر المؤمنین (ع) کی ولایت کے معتقد  بھی تھے، ان کے جد "حَرَّاق غفاری" آنحضرت کے مجاہدوں میں شمار ہوتے تھے نیز یہ ۳ جنگوں یعنی جنگ جمل، صفین اور نہروان میں شریک تھے، یہی دونوں بھائی ایک روز امام (ع) کی خدمت میں شرفیاب ہوئے اور عرض کیا: اے ابو عبد اللہ! دشمن  نے آپ کے نزدیک ہمیں ڈھکیل دیا ہے!

فأحببناأن تقتل بین یدیک

ہم چاہتے ہیں کہ آپ  کی نظروں کے سامنے ہی قتل ہو جائیں، پھر دشمن کی طرف گئے ان دو بھائیوں میں سے ایک رجز خوانی کر رہا تھا اور تو دوسرا اس کی تکمیل کر رہا تھا.

ان کا مکمل رجز مع ترجمہ ذیل میں ملاحظہ کیجئے:

قَد عَلِمتَ حَقّاً بَنو غِفار

و خِنذِفَ بَعدَ بَنی نِزار

لَنَصربَنَّ مَعشر الفُجّار

بکُل عَضبٍ صارم تبّار

یا قَومُ ذودوا عَن بَنی الاَخیار

بالمَشرفّی وَ القَنا الخَطّار

رجز کا ترجمہ

بتحقیق تم بنی غفار کو تم جانتے ہو

بنی نزار کے بعد بنو خندف سے بھی آگاہ ہو

فاجران کی جان و امان کو کاٹنے والی شمشیروں

کے ساتھ بدکاروں کو بھی کاٹے گی

"اے لوگو! تمہاری شمشیروں اور نیزوں سے خیر الوری کی نسل کا دفاع کرو."

اَلسَّلَامُ عَلیٰ عَبدِ اللہِ

وَ عَبدِ الرَّحمٰنِ اِبنَی عُروَۃِ بنِ حَرَّاقِ  الغَفَّارِیِّین 




شجاعت کے آنسو


شَُبَِیب بن حَرث اور مالک بن عبد اللہ؛ یہ دونوں ہی آپس چچا زاد اور ماموں زاد بھائی تھے، روز عاشورہ جس وقت امام کو بے یار و مددگار دیکھا  تو گریا کناں آنحضرت (ع) کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ امام نے فرمایا: اے میرے بھائی کے بیٹوں! تم گریہ کیوں کر رہے ہو؟ خدا کی قسم تمہاری آنکھیں بہت روشن ہو جائیں گی۔

ان دونوں نے عرض کیا:

جَعَلنَا اللہُ فِدَاكَ لَا وَاللہِ مَا عَلیٰ أَنفُسِنَا نَبْکِی عَلَیْکَ نَرَاکَ قَدْ أُحِیطَ بِکَ وَ لَا نَقْدِرُ عَلَی أَنْ نَنْفَعَکَ

ہم آپ پر فدا ہوجائیں! ہم اپنے آپ پر گریہ و زاری نہیں کرتے؛ بلکہ ہمارا گریہ تو اس وجہ سے ہے کہ آپ کی راہ میں قتل ہو جائیں گے  لیکن اس سے زیادہ آپ کی حمایت نہیں کر سکتے۔

امام نے بھی جواب میں دعائے خیر کرتے ہوئے فرمایا: فَقَالَ جَزَاکُمَا اللهُ یَا ابْنَیْ أَخِی بِوُجْدِکُمَا مِنْ ذٰلِکَ …

زیارت میں ان پر سلام اس طرح بیان ہوا ہے'

السلام علی شبیب بن الحارث  بن سریع

و مالک بن عبد اللہ بن سریع 


شہید شہزادہ


نجاّشی کی یادگار


نصر بن ابو نیزر؛ غیر عرب شہزادہ تھے اور ایک قول کی بنا پر نجاشی کے نواسے یا پوتے تھے، رسولخداؐ نے خود ذاتی طور پر ان کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کیا تھا، رسولخداؐ کے بعد جناب فاطمہؑ زہرا نیز امام حسنؑ  و امام حسینؑ کے ساتھ رہے تھے اور امیر المومنینؑ کے ہمراہ نخلستان میں کام کیا کرتے تھے، بالآخر میدان کربلا میں شہادت کی توفیق حاصل کی۔


شہدا کا خاندان


حیات و موت میں شریک


ابو وہب بن عبد اللہ بن عُمَیر کلبی، ایک منقولہ روایت کی بنا پر نو مسلم تھے ان کے قریب زوجہ آئی اور سید الشہداء (ع) کی نصرت کیلئے اپنے مصمم ارادہ کا اظہار کیا، اس نے اپنے شوہر سے کہا: خُذنِی مَعَکَ 

مجھے اپنے ہمراہ لے چلو۔

رات ہی میں شہر سے خارج ہوئے اور امام کی خدمت میں پہونچے۔

ایک قول کے مطابق روز عاشورا یہ سب سے پہلے فرد تھے جو میدان جنگ میں جہاد کی خاطر گئے اور شہید ہوئے.

تمشی إلیٰ زوجھا حتّیٰ جلست عند رأسه تمسح عنه التراب و تقول: ھنیئاً لك الجنة

ان کی زوجہ بھی خیمہ کے باہر دوڑیں اور اپنے شوہر کے سرہانے پہونچی، گرد و غبار ان کے چہرہ اور سر سے صاف کرتے ہوئے کہہ رہی تھیں: تمہیں جنت  مبارک ہو!

شمر نے اپنے غلام رستم کو حکم دیا کہ اسے قتل کر دو لہذا اس غلام نے بھی خیمہ کی بھاری لکڑی سے اس غمزدہ عورت کے سر پر مارا، اس طرح سے یہ خاتون اپنے جانثار شوہر کے ساتھ مالک حقیقی سے ملحق ہوئیں۔ یعنی حیات میں بھی ساتھ ساتھ اور موت میں بھی ساتھ ساتھ رہیں. نیز یہی کربلا کی پہلی شہیدہ خاتون بھی ہیں.

السَّلام علیٰ عَبدِ اللہِ ابنِ عُمَیرِ الکَلبِی


ماں کی تمنا؛


عمر و بن جنادہ: یہ ایک نوجوان تھے کربلا میں ان کے والد (جنادہ بن حارث ازدی) شہید ہوئے، اپنی ماں سفارش پر سید الشہدا (ع) کی خدمت میں شرفیاب ہوئے اور آنحضرت سے میدان جنگ کی اجازت چاہی، لیکن امام نے انہیں اذن جہاد  نہ دیا پھر انہوں نے مزید اصرار کیا، امام نے فرمایا: تمھارے پدر بزرگوار شہید ہوئے شاید تمھاری والدہ اس پر راضی نہ کہ تم بھی شہید ہو جاؤ، عمرو نے عرض کیا: اتفاقاً یہی میری مادر گرامی کی بھی تمنا ہے۔

امام کی اجازت سے میدان جنگ میں گئے اور شہید ہوئے دشمن نے ان کے سر مبارک کو شجاع و بہادر خاتون کی طرف پھینکا مگر انہوں نے بھی اسی سر کو واپس دشمن کی طرف پھینکتے ہوئے کہا: جو کچھ ہم راہ حسینؑ میں دیدیتے ہیں اسے واپس نہیں لیتے.

السلام علیٰ جُنادَۃ ابن الحَارِث السُّلَیمَانی الأزدِي 


حسینی رفقاء


امام ہی کے ساتھ رہنا


حبیب و مسلم بن عوسجہ کوفہ میں سید الشہدا (ع) کی بیعت لیتے تھے، یہاں  تک کہ عبید اللہ بن زیاد کوفہ میں وارد ہوا اور لوگوں کو جناب مسلم (ع) کے اطراف سے پراکندہ کیا، یہ دونوں ہی اپنے قبیلہ کے توسط سے ایک خفیہ مقام پر ان کی حفاظت کر رہے تھے اور جب امام کربلا میں وارد ہوئے تو پوشیدہ طور پر کوفہ سے باہر نکلے، رات کی تاریکی میں چلا کرتے تھے اور دن کے اجالے میں چھپ جایا کرتے تھے، یہاں کہ انہوں نے خود کو  آنحضرت تک پہونچایا۔

روز عاشورا جب مسلم بن عوسجہ  زمین پر گرے، تو سید الشہدا (ع) مع حبیب کے ان کے سراہنے تشریف لے گئے، امام نے ان کیلئے دعائے خیر کرتے ہوئے فرمایا:

رَحِمَكَ اللہ یَا مُسلِم

اے مسلم! اللہ تم پر رحمت نازل کرے.

حبیب نے  کہا: عزّ علیّ مَصرعک یا مسلم

تمھاری شہادت دیکھنا میرے لئے بہت شاق ہے، بہشت تمھیں مبارک ہو:

مسلم نے بھی نرم آواز میں حبیب سے کہا: خداوند عالم! تمہیں بھی خیر کی بشارت دے.

حبیب نے بھی جواب میں کہا: اگر میں نہیں جانتا کہ چند ساعت میں تم ملحق ہو جاؤں گا تو مجھے یہ محبوب تھا کہ تمھاری تمام وصیتوں کو  تمھاری شان کے مطابق عمل کرتا، مسلم نے حبیب سے کہا: فانی أوصیک بھذا، أشارہ بیدہ إلی الحسینؑ  

حسینؑ کی مدد و نصرت سے اپنے  ہاتھ مت اٹھاؤ!

السلام علی مسلم بن عوسجة الأسدي القائل الحسین علیه السلام و قد أذن له في الإنصراف، أنحن نخلي عنک؟ و بم  نعتذر عند اللہ من أداء حقک؟ لا والله حتی أکسر فی صدورهم رمحی هذا و اضربهم بسیفی ما ثبت قائمة فی یدی و لا أفارقک ولو لم یکن معي سلاح أقاتلھم به، لقذفتھم بالحجارۃ لم أفارقک حتى أموت معک۔ 


میری تمام ہی ہستی


ہر کوئی میدان میں جاتا تھا  اور رجز میں اپنے حسب و نسب کی منظر کشی اور توصيف بيان کرتا تھا "اسلم بن عمرو" سید الشہدا (ع) کے غلام کے جب میدان میں گئے تو  آپ کا کوئی حسب و نسب نہیں تھا، تو با آواز بلند کہا:

أَمیرِی حُسَیْنٌ وَ نِعْمَ الاَْمیرُ

سُرُورُ فُؤادِ الْبَشیرِ النَّذیرِ

عَلِیٌّ وَ فاطِمَةُ والِداهُ

فَهَلْ تَعْلَمُونَ لَهُ مِنْ نَظیر

لَهُ طَلْعَةٌ مِثْلُ شَمْسِ الضُّحی

لَهُ غُرَّةٌ مِثْلُ بَدْر مُنیر

ترجمہ

میرے امیر حسین (ع) ہیں کتنے اچھے امیر ہیں کہ بشیر و نذیر رسولخدا (ص) کے دل کا سرور ہیں.

اس امیر کے والدین علی (ع) و فاطمہ (س) ہیں.

کیا تم لوگ اس کے مثل کسی بھی شخصیت کو پہچانتے ہو؟

جس کی طلعت روز روشن کے مثل آفتاب کی سی ہے

اور ان کا چہرہ رات کی تاریکی میں بدر منیر کے چاند کے مثل ہے.

خون میں غرق زمین پر گرے تھے کہ سید الشہدا (ع) ان کے سراہنے حاضر ہوئے آنحضرت انہیں اپنی آغوش میں لیا اور اپنے چہرہ مبارک کو  فرزند عمرو کے چہرہ پر رکھ دیا، تو اسلم مسکرائے اور دھیمی آواز میں کہا: مَن مِثلِی؟!

مجھ جیسا کون ہے!؟


أمیری حسین و نعم الأمیر


دوست کی یادگار


عمرو بن حَمِق خزاعی رسولخداؐ کے صحابی اور اسلام کے مشہور اور اہمترین سردار تھے کہ جو راہ امیر المؤمنین (ع) میں معاویہ ہاویہ کے ہاتھوں شہید ہوئے اور انہی صحابی کا سب سے پہلا سر تھا جو نوک نیزہ پر بلند کیا گیا، زاهر انہیں کے غلام تھے کہ جنہوں نے ان کا جنازہ رات کی تاریکی میں دفن کیا اور ؁۶۰ میں حج انجام دینے کیلئے مکہ آئے پھر امام کے ساتھ ملحق ہوئے اور کربلا میں درجہ شہادت کو پہونچے۔

محمد بن سنان زاهری جو کہ بہت ہی اہم راوی اور نامور شیعہ گزرے تھے اور امام خمینیؒ کے قول کے مطابق اگر ایسے افراد حذف کر دیئے جائیں گے تو مذہب شیعہ کی فقہی روایت میں کچھ بھی نہیں بچے گا جو زاهری کی پر برکت نسل سے ہمیں ملا ہے۔

السلام علی زاهر مولیٰ عمرو بن حَمِق الخزاعي

 

آزاد غلام


روشن چہرہ والا سیاہ فام


جس وقت جنگ کی آگ بھڑک گئی، جون جناب ابوذر غفاری کے غلام سید الشہدا (ع) کے پاس آئے اور آنحضرت سے میدان کی اجازت چاہی. امام نے اذن وغا نہیں دیا، جون نے اپنے آپ کو امام (ع) کے قدموں میں گرا دیا اور کہا: خوشیوں میں آپ کا ہم پیالہ اور ہم نوالہ تھا، فی الحال سختیوں میں آپ کو چھوڑ دوں؟ خدا کی قسم جب تک کہ میں اپنے سیاہ خون کو آپ کے پاک و پاکیزہ خون میں شامل نہ کرلوں، میں آپ کو تنہا نہیں چھوڑوں گا؟ یہ بات صحیح ہے کہ میرا بدن بدبو دار نیز میرا خاندان غیر معروف اور میرا رنگ سیاہ ہے، لیکن آپ مجھ پر احسان فرمائیں اور مجھے بہشت سے محروم نہ فرمائیں! امام کی اجازت سے میدان جنگ میں گئے، جس وقت  فرشتۂ شہادت نے انہیں اپنی آغوش میں لیا امام (ع) اس کے سراہنے تشریف لائے اور ان کی خاطر دعائے خیر فرمائی:

أللّهم بیض وجهه و طیب ریحه  و احشر مع الأبرار و عرف بینه و بین محمد و آل محمد

پروردگارا! اس کے چہرے کو نورانی کردے، اسے خوشبو سے معطر  کر دے، نیک لوگوں کے ساتھ اسے محشور فرما، اس کے اور محمد و آل محمد کے درمیان معرفت قرار دے۔

جب غاضریہ کے قبیلہ بنی اسد چند روز کے بعد شہدا کے اجساد کو دفن کرنے کیلئے میدان کربلا میں حاضر ہوئے تو جون کے بدن مبارک سے مُشک و عنبر کی خوشبو سونگھنے کو ملی۔

السلام علی جون مولی ابی ذر  الغفاری


آخری تبسم


آنحضرت کے ایک ترک یا آذری غلام جن کا نام واضح تھا: جو عالم نیز قرائت قرآن اور ادبیات عرب میں ماہر تھے، جب میدان جنگ میں گئے تو عربی اور ترکی زبان بلند آواز سے رجز خوانی کر رہے تھے:

البحر  من ضربی  وطعنی یصطلی،

و الجور من سھمی و نبلی  یمثلی 

إذا حسامی فی یمینی ینجلی

ینشقّ قلب الحاسد المبجّل

ترجمہ

میری شمشیر و نیزہ کی ضربت سے دریا جوش مارنے لگتا ہے

اور فضا میرے تیروں سے بھر جاتی ہے

جب بھی میری تیغ میرے قبضہ بازو میں آشکار ہو

تو حاسد و کینہ رکھنے والے کے دلوں کو چیر دیتا ہے. 

جب خون میں غرق ہو کر زمین پر گرے تھے، تو خود امامؑ ذاتی طور پر ان کے سراہنے حاضر ہوئے اور گریہ کرتے ہوئے اپنا چہرہ مبارک ان کے چہرہ پر رکھا، پھر واضح نے بہت مشکل سے آنکھوں کو کھولا نیز مسکرائے اور شہادت کو  گلے لگا لیا۔


السَّلامُ عَلَیْکَ یا اَبا عَبْدِ اللهِ وَ عَلَی الاَْرْواحِ الَّتی حَلَّتْ بِفِناَّئِکَ عَلَیْکَ مِنّی سَلامُ اللهِ اَبَداً ما بَقیتُ وَ بَقِیَ اللَّیْلُ وَ النَّهارُ وَ لا جَعَلَهُ اللهُ آخِرَ الْعَهْدِ مِنّی لِزِیارَتِکُمْ اَلسَّلامُ عَلَی الْحُسَیْنِ وَ عَلی عَلِیِّ بْنِ الْحُسَیْنِ وَ عَلی اَوْلادِ الْحُسَیْنِ وَ عَلی اَصْحابِ الْحُسَیْنِ


Post a Comment

To be published, comments must be reviewed by the administrator *

جدید تر اس سے پرانی