عاشورا کی عبرتوں کی جھلکیاں

عاشورا کی عبرتوں کی چند جھلکیاں




واقعہ عاشورا، ايک عبرت انگیز منظر ہے، لہذا ہر انسان کو چاہئے کہ اس منظر کو اچھی طرح سے دیکھے تا کہ عبرت حاصل کر سکے. یعنی اپنے آپ کو اسی حالت میں تصور کرے اور سمجھنے کی کوشش کرے کہ کس حالت و کیفیت میں ہے؛ کونسی چیز سے اسے خطرہ ہے؛ کونسی چیز اس کیلئے لازم ہے. پھر انسان خود کو اسی کیفیت و حالات میں فاتح دیکھتا ہے یا پھر شکست خوردہ اسی ماجرا کا تصور کرے اور اپنی صلاحیت کو پہچانے اسی کو «عبرت» حاصل کرنا کہا جاتا ہے.

ہم اس تحریر میں 7 عوامل کاروان سید الشہدا (ع) سے سعادت و شقاوت یا عروج و زوال یا الحاق و انقطاع کو تاریخی، روائی نیز رجالی کتابوں کے ذریعہ ہم یہاں پر اشارہ کر رہے ہیں.


۱- عزم و اراده

انسانوں کے سقوط میں ایک حساس لغزش کی بنا پر عزم راسخ کا نہ پایا جانا.


دیرینہ دوست

جناده بن حارث

کوفہ میں مسلم بن عقیل کے مدافعین میں سے ایک زبردست حامی تھے پس ان کی شہادت کے بعد سید الشہدا کے ساتھ ملحق ہوئے نیز عاشور کے دن اپنے دوستوں کے ساتھ کوفہ کے لشکر بھر پور وار کے ساتھ دلیرانہ جنگ کیا یہاں تک کے محاصرہ میں پھنس گئے جناب عباس بن علی (ع) نے دشمنوں کی صفوں کو چیرا اور انہیں سخت مجروح کیا تھا انہیں ختم کر دیا لیکن وہ لقگ کہ صحیح و سالم نکل جانے سے پرہیز کیا یہاں تک کہ شہید ہوئے. (قاموس الرجال ۸/ ۹۵)


ضرورت کے وقت ساتھ چھورا

ضحاک بن عبد الله مشرقی

جب سید الشهدا (ع) کو تنہا دیکھا تو کمزور پر گئے اور مصمم ارادہ کہا کہ فرار کریں تو خدمت امام میں حاضر ہو کر کہنے لگے: ہمارے درمیان یہی معاہدہ ہوا تھا کہ جب تک آپ کا دفاع کرنے والے موجود ہیں میں بھی آپ کا دفاع کروں گا اب حالت یہ ہے کہ سب ہی لوگ مارے گئے ہیں لہذا مجھے اجازت فرمائیں میں واپس چلا جاؤں! امام نے انہیں آزاد چھوڑ دیا انہوں نے پہلے ہی سے اپنا گھوڑا ایک خیمہ میں چھپا کر باند رکھا تھا اور پیدل ہی میدان جنگ میں جا کر جہاد کرتے رہے. پس امام (ع) کی اجازت کے بعد اپنے گھوڑے  کی طرف گئے اور میدان کربلا چھوڑ کر چلے گئے. (أنساب الأشراف ۲/ ۳۵۷)

ضحاک کا انجام

ان دل اہلبیت کی مودت میں گروی رکھا ہے لیکن ان کی راہ میں اپنی جان قربان کرنے کا جذبہ نہ رکھتے تھے پھر عاشور کے بعد امام سجاد ع سے ملحق ہوئے، کتب رجال میں انہیں چوتھے امام کا شاگرد شمار کیا گیا ہے. (رجال شیخ طوسی)


۲- موت سے سامنا

راہ خدا کے مردوں کی ایک علامت یہی ہے کہ وہ ہر لمحہ موت کا سامنا کرنے کیلئے تیار رہتے ہیں.


طوفان میں پھول کی پنکھڑی

قاسم بن الحسن (ع)

جب شب عاشورا کو سید الشہدا نے آنے والے دن کے حال سے پردہ اٹھایا تو جناب قاسم نے عرض کیا: کیا میں بھی آپ کے ہمرکاب میں درجہ شہادت پر پہونچوں گا؟ امام نے پوچھا: اے قاسم تمہاری نظر میں موت کیسی ہے؟ تو انہوں نے جواب میں عرض کیا: شہد سے زیادہ شیرین ہے. (موسوعه تاریخ امام حسین (ع) ۱۲/ ۲۱۸)


میدان جنگ میں داد شجاعت

عابس بن ابی شبیب شاکری

جب یہ میدان جنگ میں آئے تو کسی نے کہا: یہ شیروں کا شیر ہے! کوئی بھی اس سے تن بتن کی لڑائی کی خاطر نہ جائے! جب عمر سعد نے اپنی فوجوں کی عقب نشینی کو دیکھا تو اس نے حکم دیا کہ سنگ باری کرو. جناب عابس نے بھی زرہ کو اپنے جسم اتارا اور کوفہ کے لشکر پر حملہ آور ہوئے. دشمن کا راوی کہتا ہے: خدا کی قسم اس شخص سے ۲۰۰ سے زائد یزیدیوں گھیرے ہوئے تھے لیکن بعد شہادت اس کے سر کو اٹھانے کو لے کر آپس میں جھگڑا کر رہے تھے. پھر عمر سعد چیختے ہوئے کہنے لگا: سب پیچھے ہٹ جاو؛ اسے کسی ایک نے تنہا قتل نہیں کیا ہے. (تاریخ طبری ۴/ ۵۴۰)


فرار کرنے والا شاعر

فرزدق

مکہ میں عبد الله بن عمرو عاص  نے اس کہا: تم کیوں حسین ع کے ساتھ ملحق نہیں ہوتے؟ خدا کی قسم یہ حکومت تک پہونچے گے! میں نے مصمم ارادہ کیا کہ سید الشہدا کے لشکر سے ملحق ہو جاؤں. پھر خود ہی نقل کرتے ہیں کہ جب میں نے انبیا کے آخری انجام پر غور و فکر کیا تو میں پشیمان ہوا! جس وقت کوفہ میں سید الشہدا کی شہادت کی خبر سنی تو عبد الله بن عمرو عاص پر لعنت کیا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ قریب تھا کہ وہ مجھے موت کے حوالہ کر رہا تھا. (تاریخ طبری ۴/ ۵۹۰)

فرزدق کی شخصیت

تاریخ اسلام کے عظیم شعرا میں شمار ہوتا ہے کہ جو موت سے ڈرنے کے با وجود امام سجاد (ع) کی امامت کے زمانہ میں امام کی مدح میں ایک مشہور قصیدہ کہا اور اسی قصیدہ کی بنا پر اسے قید خانہ میں دال دیا گیا تھا.


لئیم (کمینہ) کی خاصیت

کوفہ کے اشراف (روسا)

خود سعد بن عبیده کربلا کے میدان میں موجود تھے نیز بیان کرتے ہیں: اہل کوفہ کے سرداروں میں کچھ افراد کو کربلا سے دور ایک ٹیلے پر عاشورا کے روز کھڑے تھے اور گریہ و زاری کرتے ہوئے یہ کہہ رہے تھے: خداوندا! حسین (ع) پر فتح و نصرت نازل فرما! تو میں نے ان لوگوں سے کہا: اے دشمنان خدا! تم لوگ بجائے دعا کرنے کے ان کی مدد و نصرت کیوں نہیں کرتے؟! (أنساب الأشراف ۲/ ۳۷۰)


۳- خاندان سے تعلق

حق پرستی اور خاندانی تعلق کے درمیان تعارض (ٹکراؤ) ہونا یہ بھی انسان کو مخمصہ میں ڈالنے والی ایک سخت ترین حالت ہے.


صبر و تحمل کی لذت

محمد بن بشیر حضرمی

ان تک شب عاشورا یہ خبر پہونچی کہ تمہارا بیٹا شہر رے میں گرفتار کیا ہے! لہذا امان نے انہیں ایک ہزار سکے (درہم یا دینار) اور ۳ قیمتی حلے ان کے بیٹے کی آزادی کیلئے عنایت فرمایا، لیکن انہوں نے جواب میں یہ کہا: اگر میں آپ سے جدا ہو جاؤں! تو جنگل و بیابان کے درندے مجھے زندہ ہی چیر پھاڑ کر کھا جائیں، میرا بیٹا گرفتار ہے تو رہے مگر آپ میرے بیٹے سے بھی زیادہ مجھے عزیز ہیں؟! زیارت ناحیہ میں امام نے ان پر سلام بھیجا ہے اور ان کے صبر و تحمل کی عظمت کو بیان فرمایا ہے. (الملهوف ص ۱۵۴)


قافلہ چھوٹ گیا

طرمّاح بن عدی

منزل عُذَیبُ الهجانات پر سید الشہدا (ع) سے ملاقات کیا اور رخصت ہوتے وقت امام (ع) سے عرض کیا: خداوند عالم جن و انس کے شر سے آپ کو دور رکھے، میں کچھ نان و نفقہ اور آذوقہ اپنی اہل و عیال کیلئے کوفہ سے فراہم کیا ہے کہ میں انہیں یہ سامان محض پہونچاتے ہی اور واپس پلٹ کر آپ سے ملحق ہو جاؤں گا پھر میں آپ کی مدد و نصرت کروں گا! مگر جس وقت پلٹے تو شہدائے کربلا کے سروں کو نیزوں پر بلند ہوتے ہوئے دیکھا. (تاریخ طبری ۴/ ۶۰۷)


صفین سے کربلا تک

هرثمه بن سلیم

صفین سے واپسی پر امیر المومنین (ع) کے ہمراہ جب کربلا پہونچے تو آنحضرت (ع) نے سرزمین کی مٹی اٹھا کر سونگھا اور فرمایا: اسی مقام پر جن لوگوں کی شہادت ہوگی وہ لوگ جنت میں بغیر حساب و کتاب کے داخل ہوں گے. یہی امیر المومنین (ع) کا صحابی عاشورا کے روز لشکر عمر سعد کے ساتھ کربلا آیا تھا اور امام (ع) کی خدمت میں بھی حاضر ہوا. سید الشیدا (ع) نے اسے اپنی مدد و نصرت کیلئے دعوت دی لیکن اس نے جواب یہی کہا: "میری کچھ بیٹیاں ہیں جن کے آخری انجام سلسلہ میں عبید اللہ سے مجھے خوف و خطرہ لگتا ہے." پھر واپس لشکر یزید میں چلا گیا. (امالی شیخ صدوق مجلس ۲۸، ح ۷)


۴- آخری انجام کا انتخاب

سعادت و شقاوت کے اہل افراد نے اپنی بہترین عاقبت کی خاطر ایک لمحہ میں ہی آخری فیصلہ کر لیا ہے.


عاقبت بخیر

حرّ بن یزید ریاحی

جنگ کی آگ بھرک گئی تب ہی انہوں مصمم ارادہ کر لیا کہ سید الشہدا (ع) سے ملحق ہو جائیں گے اس حالت میں امام (ع) کی خدمت میں پہونچے کہ ہاتھوں کو سر پر رکھے ہوئے اور جوتے یا نعلین کو گردن میں ڈالے ہوئے تھے. کہتے تھے: خدایا میں تیری ہی طرف آ رہا ہوں، میری توبہ کو قبول فرما کہ میں نے تیرے ولی کے دل کو تکلیف پہونچائی ہے! امام (ع) نے بازوؤں کو کھول کر اپنی آغوش میں قبول کیا اور یہ آنحضرت (ع) کے ہم رکاب ہو کر درجۂ شہادت پر فائز ہوئے. جس وقت ان کو خون سر اور چہرہ پر پھیل گیا تھا خطرہ کے باوجود امام (ع) ان کے سرہانے پہونچے اور فرمایا: اے حر! تم آزاد مرد ہو جیسا کہ تمہاری ماں تمہارا نام رکھا. (امالی شیخ صدوق مجلس۳۰)


موقع چھوٹنے پر دلسوزی

عبید الله بن حرّ جعفی

کوفہ کا رئیس اور جنگجو شخص تھا، سید الشہدا (ع) نے ایک قاصد ان کے خیمہ کی طرف بھیجا، تو اس نے کہا: میں کوفہ سے نہیں نکلا ہوں مگر اس لئے کہ میں حسین بن علی (ع) کا سامنا نہ کروں! پھر خود امام بنفس نفیس اس کے خیمہ میں تشریف لے گئے اور اسے اپنی مدد و نصرت کی دعوت دی اور فرمایا: تم گناہوں میں غرق ہو! لہذا میرے ساتھ ہو جاؤ تا کہ میں تمہاری شفاعت اپنے جد امجد سے کرنے کی ضمانت لیتا ہوں، لیکن پھر بھی عبید اللہ نے کہا: فی الحال میرا مرنے کا ارادہ نہیں ہے اور یہ گھوڑا (ملجمہ) اور شمشیر پیش خدمت ہے! تب امام (ع) نے فرمایا: مجھے تمہاری ضرورت ہی نہیں ہے! میں گمراہ لوگوں سے مدد طلب نہیں کرتا.! (امالی صدوق، مجلس۳۰)

عبید الله بن حرّ جعفی کی شخصیت

عمر کے آخری لمحہ تک ایسے بہت سے اشعار کہے جس میں پشیمانی کا اظہار تھا نیز دلسوزی کے ساتھ اشعار کہے کہ موقع گنوانے کو ظاہر کرتا تھا. لیکن ایسے حالات میں بھی یہی شخص جناب مختار کے قیام کے شکست کا ایک پر اثر عامل بھی پہچانا جاتا تھا.


۵- قبیله‌ پرستی

حق کی پامالی میں ایک عامل قبیلہ پرستی کو ترجیح دینا بھی ہے یعنی حق پرستی کی جگہ گروہ یا جماعت یا قوم یا قبیلہ یا خاندان یا ذات یا علاقہ یا منطقہ یا عرب پرستیوں کو اپنایا گیا اور حق پرستی کا مسلسل خون کیا جاتا رہا ہے. (نیز اب بھی یہی ہو رہا ہے.)


تشنه لب ساقی

نافع‌ بن‌ هلال مرادی

شب عاشورا جس وقت خیام حسینی پر پیاس کی شدت کا غلبہ ہوا، سید الشہدا نے جناب عباس کو اپنے ہمراہ ۳۰ سوار کو لے کر فرات سے پانی لانے کی خاطر بھیجا. اسی میں نافع بن ہلال بھی شامل تھے عمرو ‌بن حجاج زبیدی، نہر فرات پر ۵۰۰ سپاہیوں کے ساتھ پہرہ پر متعین تھا جو جناب نافع کے قبیلہ سے ہی تعلق رکھتا تھا. اسی نے نافع سے کہا: پیو! تمہاری قسمت قرار دے! لیکن جناب نافع نے جواب میں کہا: میں پانی نہیں پیوں گا! جن تک کہ میرے مولا حسین (ع) اور ان کے اصحاب تشنہ لب ہیں؟! تو میں ان کی خاطر بھی پانی لے جانا چاہوں گا! عمرو اور اس کے سپاہی پانی لے جانے میں مانع ہوئے تو جناب عباس کی مدد سے لشکر یزید کے ساتھ جھڑپ ہوئی اسی جھرپ کے دوران پانی کی سبیل کرنے والے امام کے ساتھیوں نے اپنی مشکوں کو بھرا اور خیام حسینی تک پہونچایا. (انساب الاشراف ۲/ ۳۴۷)


سردار کی لغزش

عدیّ بن حاتم طائی

جس وقت جناب مختار کے مامورین نے حکیم بن طُفَیل ملعون کو گرفتار کیا تو قبیلہ بنی طَی میں اس کے چند رشتہ دار اپنے قبیلہ کے سردار عدی بن حاتم طائی کے پاس گئے تا کہ اس ملعون کیلئے امان نامہ حاصل کریں، یہ بھی بہت سن رسیدہ نیز اندھے پن میں مبتلا ہو گئے تھے اور فاصلہ کی دوری کی بنا پر اس مجرم کی سفارش کیلئے آمادہ ہو گئے. سفارش کرنے کیلئے انہوں نے جب اپنے کو مختار تک پہونچایا! تب تک خوش قسمتی سے مختار کو پہلے ہی عدی کے پہونچنے سے با خبر ہو گئے تھے لہذا اس ملعون حکیم کو جنہم رسید کر دیا تھا. (قاموس الرجال ۷/ ۱۸۵)

طرماح بن عدیّ بن حاتم طائی کی شخصیت

۱- امیر المؤمنین (ع) کے سخت ترین حامی اور شیدائی.

۲- امیر المومنین (ع) کے ساتھ جمل و نہروان کی جنگوں میں شہید ہونے والے بیٹوں کے پدر بزرگوار.

"طریف بن عدی" جو جنگ جمل میں شہید ہوئے. [انساب الاشراف، ۲/ ۲۶۱]

"طرفة بن عدی" جو جنگ نهروان میں شہید ہوئے. [أنساب الأشراف، ۲/ ۳۶۵]

"زید بن عدی" جو جنگ صفین میں امام علی (ع) میں تھے. لیکن جب جنگ کے دوران اپنے ماموں کے جنازہ کو دیکھا جو کہ سپاہ شام کا حصہ تھے تو امام کے لشکر سے الگ ہو کر معاویہ کی فوج سے مل گئے. [وقعة صفین، ص ۵۲۲.]

۳- جنگ صفین و جمل کے جانباز سردار

۴- قبیلۂ بنی طی کے سردار

۵- صاحب سفید ریش اور شیعوں کے درمیان قابل احترام شخصیت تھے.


★ ملعون حکیم بن طفیل طائی کے جرائم

۱- سید الشهدا (ع) کی طرف تیر اندازی کی.

۲- آنحضرت کے بے سر جسم مبارک کو گھوڑے سے پامال کہا.

۳- عباس‌ بن‌ علی (ع) کا بایاں شانہ قلم کیا.

۴-  عباس‌ بن‌ علی (ع) کے سر مبارک پر گرز آهنی سے مارا

۵- عباس‌ بن‌ علی (ع) کا لباس لوٹا


۶- تاثیر خویشاوندان

سعادت و شقاوت میں ایک مؤثر ترین عامل انسان کا کسی خاندان کی عورت سے شادی کرنا بھی شامل ہے.


پانی میں چاند

عباس‌ بن‌ علی (ع)

اگرچہ معصومین (ع) کی اولاد ان کی ذات کی نعمت سے بہرہ مند تھے پھر بھی اس حال میں سب کے سب برابر ہرگز نہیں تھے بلکہ ان کی ماؤں کا بھی اثر پایا گیا ہے خاص طور پر ان کی شخصیت و تربیت میں اثر رہا ہے.

جیسا کہ امیر المومنین (ع) نے کربلا کے علمدار کی تربیت کیلئے اپنے بھائی عقیل سے فرمایا: ایک شجاع و پارسا قبیلہ سے میرے لئے ایک زوجہ تلاش کرو اور انہوں نے امام البنین فاطمہ بنت حزام کا نام تجویز کیا. جس وقت عاشورا کے بعد ام البنین کو اپنے چاروں بیٹوں کی خبر شہادت پہونچی تو انہوں سے فرمایا: میری تمام اولاد اور تمام اہل زمین امام حسین (ع) پر قربان کیا. اگر ام البنین نہ ہوتیں تو عباس علمدار بھی کربلا میں نہ ہوتے.


یقین کا طلوع آفتاب

زهیر بن قین

منزل زرود پر سید الشہدا (ع) کا کاروان اور زہیر قین کا قافلہ ایک ساتھ پہونچا، لہذا زہیز قین امام سے ملاقات کرنے سے کتراتے رہے لیکن جب زوجہ کا اصرار بڑھا تب امام سے ملاقات کیلئے گئے ابھی زیادہ وقت بھی نہیں گزرا تھا کہ چمکتے چہرہ کے ساتھ امام کے خیمہ سے باہر نکلے اور حکم دیا کہ ان کے خیام بھی امام کے خیام کے ساتھ لگایا جائے اور اپنی زوجہ اور اپنے خاندان والوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا: اب میں اپنے آپ کو امام حسین (ع) کی راہ میں قربان کرنے کیلئے آمادہ ہو گیا ہوں. (الأخبار الطوال ص ۲۲۷)


عجیب و غریب رشتہ داری

زید بن حسن بن علی

امام حسن مجتبی کے بیٹے زید اپنے بڑے بھائیوں عبد اللہ اکبر، قاسم، عبد اللی اصغر کے بر خلاف سید الشہدا کے ساتھ کربلا میں حاضر نہیں تھے یہاں تک کہ امام حسین (ع) کی شہادت کے بعد عبد اللہ بن زبیر جو ان کی بہن کے شوہر یعنی بہنوئی تھے کی بیعت کی!

علامه تُستَری (شوشتری) تحریر کرتے ہیں کہ ان کی مخالفت بہن اور بہنوئی عبد اللہ بن زبیر کے اثرات کی بنا پر اہلبیت سے منحرف گئے تھے. (قاموس الرجال ۴/ ۵۴۵)


بروں کی همنشینی

یحیی بن هانی بن عروه مرادی

کوفہ کے با وفا شخص جناب ہانی بن عروہ کا بیٹا یحیی نام کا تھا جو اپنے ماموں (عمرو بن حجاج زبیدی یہی جناب ہانی کی شہادت کا بھی سبب بنا نیز جو نہر فرات پر ۵۰۰ سپاہیوں کے ساتھ پہرہ پر بیٹھا ہوا تھا) روز عاشورا امام کے مد مقابل کھڑا ہوا تھا اور اپنے ماموں کے ساتھ مل کر مختار سے بھی لڑا اور بعد میں اہلسنت کے قابل اعتماد محدثین میں شمار ہونے لگا. (تاریخ طبری و الجرح و التعدیل الرازی)


۷- حرام لقمه اور مال

انسانی زندگی کو سب سے زیادہ فتنہ انگیزی میں مبتلا کرنے والی چیز مال حرام ہے.


شہر رے کا گندم

عمر بن سعد

امام حسین (ع) کے کربلا میں وارد ہوتے ہی اس کی بازگشت کوفہ میں گونجنے لگی اور ایک نئی تجویز سامنے قرار پاتی ہے عبید اللہ نے اسے سید الشہدا سے مقابلہ کرنے کیلئے طلب کیا تھا. تو پسر سعد نے کہا: اگر ممکممن ہو تو مجھے معاف رکھیں! تب ابن زیاد نے کہا: مجھے قبول ہے مگر اس شرط کے ساتھ کہ شہر رے کی گورنری کا فرمان واپس کر دو. پھر ابن سعد نے مہلت مانگی اور اپنے بہی خواہ افراد سے مشورہ بھی کیا لیکن سب ہی اس عمل سے منع کرتے رہے تھے لیکن عبید اللہ کے بہت اصرار اور ملک رے کے وعدہ پر 4000 کے لشکر کے ساتھ کربلا کی طرف روانہ ہوا. (أنساب الأشراف ۲/ ۳۴۴)


جیسے نوح کا بیٹا

عمرو بن علی (ع) بن ابیطالب

امیر المومنین (ع) کا آخری بیٹا ہے جو کربلا میں حاضر نہیں ہوئے! کربلا کے بعد امام سجاد (ع) کے ساتھ پیغمبر اکرم (ص) اور امیر المومنین (ع) کے صدقات و موقوفات کے سلسلہ میں اختلاف کیا اور انہوں نے بھی عبد الملک بن مروان کے دربار میں شکایت کریدی! نیز عبید اللہ بن عباس کے ساتھ بھی میراث سے متعلق اختلاف کیا اور یہی پہلے فرد تھے جنہوں نے عبد اللہ بن زبیر کی بیعت کی تا کہ ان کی خلافت کو شرعی حیثیت دے سکیں اور ابن زبیر کے قتل ہونے کے بعد حجاج ثقفی کی بیعت کیا. یہ کربلا میں حاضر نہ ہونے نیز قتل نہ ہونے پر ہمیشہ خوشی کا اظہار کیا کرتے تھے، مختار کے ساتھ جنگ میں مصعب بن زبیر کےمی فوج سے ملحق ہوئے اور یہاں تک کہ نقل روایت کی بنا پر قتل ہوئے. (قاموس الرجال ۸/ ۲۱۵)


کیچڑ میں پیر

بنی‌ امیہ کی فوج

سید الشهدا (ع) نے لشکر کوفہ سے مخاطب ہو کر فرمایا: تم لوگ جانتے ہو کہ میرے کلام کو کیوں نہیں سمجھ پا رہے ہو اور مجھ سے دشمنی کر رہے ہو؟ کیونکہ تم لوگوں کو دیا جانے والے مال حرام کے "عطا" نے تمہیں زمین بوس کر دیا ہے.

("عطا" وہ سالانہ حصہ تھا جو بنی امیہ کی طرف سے کوفہ کے عربوں کو دیا جاتا تھا تا کہ وہ لو ہر وقت جنگ کی خاطر تیار رہیں لیکن امیر المومنین (ع) کے علاوہ کوئی بھی حکمران اس عطا کے حصہ کو عادلانہ طور پر تقسیم کرنے کی کوشش نہیں کرتے تھے اور ہمیشہ سے اسی کو اپنء مقاصد کے حصول کی خاطر کبھی منقطع کر دیتے تھے یا پھر ادا کرتے رہتے تھے نیز اسی کو اپنا ہتھیار بنا کر اپنا الو سیدھا کیا کرتے تھے.) (موسوعه کلمات امام حسین (ع) ۵۱۱، ترجمه الامام الحسین (ع) من طبقات ابن سعد ص ۶۹)


رزق حلال کا اثر

سید الشهدا (ع) کے اصحاب

صبح عاشورا کو دار الحرب خیمہ میں سب سے پہلا پیغام جو سید الشهدا (ع) کی طرف پہونچایا گیا ہے وہ یہی پیغام تھا کہ آنحضرت نے فرمایا: «ہر وہ شخص جو کسی کا مقروض ہے یا اس کے ذمہ کسی کا قرض باقی ہے وہ چلا جائے، میں نہیں چاہتا کہ وہ ہمارے لشکر میں رہے اور اس کے یہی معنی ہوتے ہیں کہ جو لوگ دشمن کے لشکر سے نکل کر امام سے ملحق ہو رہے ہیں اور امام کے ساتھ دشمنی کے فتنہ سے اور امام کے مقام و منزلت کو نہیں پہچانے گا یہاں تک کہ عاشورا سے پہلے تک لقمہ حرام کے مرتکب نہیں ہوئے تھے. (موسوعه کلمات امام حسین (ع) ص ۵۰۵)


خیانت کا سب سے پہلا بہانہ

جس وقت سید الشہدا (ع) نے کوفہ کے لشکر سے فرمایا: تم ہی لوگوں نے مجھے خط لکھا ہے! پھر کیوں اب میرے مقابل میں کھڑے ہوئے ہو؟ تو لوگوں نے کہا: ہمیں خوف ہے کہ کہیں عطا میں سے ہمارا حصہ منقطع کر دیں گے. (ترجمة الامام الحسین (ع) من طبقات ابن سعد ص ۶۹)

Post a Comment

To be published, comments must be reviewed by the administrator *

جدید تر اس سے پرانی