طلقاء کون لوگ ہیں نیز ان کی تعداد اور مشاہیر کون ہے اور ان کی کتنی قسمیں ہیں.؟

via pinterest


 طُلَقَاء یعنی آزاد کردہ لوگ

مترجم:  ابو دانيال اعظمي برير

لفظ «طُلَقَاء» کے معنی آزاد کئے ہوئے لوگ کے ہیں، اس گروہ یا جماعت کی طرف اشارہ ہے جو کہ پیغمبر اکرم (ص) کے مخالفین سے متعلق جنہیں فتح مکہ کے بعد سزا دینے سے چشم پوشی اخیتار کی. ابو سفیان اور اس کا بیٹا معاویہ کا شمار انہی «طُلَقَاء» میں سر فہرست شمار کیا جاتا رہا ہے.

امام علی (ع) نے جنگ صفین میں «طُلَقَاء» کو انہی لوگوں کو بتایا ہے کہ جو ہمیشہ سے اسلام کی دشمنی رکھی اور اکراہ لی بنا پر ایمان لائے ہیں، «طُلَقَاء» کا لفظ تحقیر آمیز تعبیر کے طور پر بنی امیہ کیلئے ہی استعمال کرتے رہتے تھے اسی بنا پر انہیں خلافت کے قابل ہی نہیں سمجھے جاتے ہیں. 


مفهوم‌ شناسی


لغت میں لفظ طلقاء


لفظ «طَلق» عربی لغت میں آزاد اور رہائی کے معنی میں استعمال ہوا ہے. [بندر ریگی، محمد، فرهنگ جدید عربی- فارسی، ذیل ماده.]

لفظ «طُلَقَاء» کے معنی آزاد کئے ہوئے لوگوں کے معنی ہے اور «طُلَقَاء» کا لفظ «طَلِیق» کی جمع ہے اور لغت میں یہ لفظ اسیر و قیدی پر اطلاق ہوتا ہے کہ جس پر سے قیدی بننا اٹھا لیا ہو اور اسے زہا کر دیا جاتا ہے. [ابن‌ منظور، محمد بن مکرم، لسان العرب، ۱۰/ ۲۲۷. و مقریزی، تقی‌ الدین، امتاع الاسماع، ۸/ ۳۸۸.]

   

اصطلاح میں لفظ طلقاء


فقهی اصطلاح میں لفظ «طُلَقَاء» یعنی ان لوگوں کو کہا جاتا ہے کہ جو جبر و اکراہ اور محتاجی کی بنا پر دائرہ اسلام میں داخل ہوئے ہیں. [مرواريد، علي أصغر، ینابیع الفقهیه، کتاب الجهاد، ص ۳۰۵ و المعجم الوسیط، ۲/ ۵۶۳.]

«طُلَقَاء» کا لفظ مشرکین مکہ پر اطلاق کرتا ہے کہ جنہوں نے مجبوری میں فتح مکہ کے واقعہ کے دوران اسلام قبول کیا اور پیغمبر اسلام (ص) نے انہی لوگوں کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا: «إِذهَبوُا وَ أَنتُمُ الطُّلَقَاء» "تم لوگ جاؤ اور تم سب تو آزاد کئے ہوئے ہو. [زحیلی، وهبه، آثار الحرب فی فقه الاسلامیه، ص ۲۱.

اب اسلام و شریعت کی اصطلاح میں «طُلَقَاء» انہی لوگوں کو جیسے ابو سفیان و معاویہ اور اہل مکہ کے عموم لوگوں کو کہا جاتا ہے کہ جو لوگ فتح مکہ کے بعد مسلمان ہوئے پھر رسول اکرم (ص) نے انہیں آزاد کیا یہ لوگ عموما سزا کے مستحق تھے لیکن پیغمبر اکرم (ص) نے ان لوگوں آزاد کیا اور انہیں اسیر و قیدی نہیں بنایا. [مقریزی، تقی‌الدین، امتاع الاسماع، ۸/ ۳۸۸. و ابن‌ ابی‌ الحدید، عبد الحمید، شرح نهج البلاغه، ۱/ ۳۱۰.]

طبری اسی سلسلہ میں تحریر کرتے ہیں: «خداوند عالم نے اپنے پیغمبر کو ان لوگوں کی جانوں پر تسلط دیدیا تھا کیونکہ رسولخدا (ص) کے ہاتھوں میں جنگ کا غنیمت اور جنگی قیدی تھے لیکن آنحضرت نے ان سب لوگوں کو آزاد کیا اسی سبب سے مکہ کے لوگوں کو «طُلَقَاء» یعنی (آزاد کئے ہوئے) كو کہتے رہتے تھے.» [طبری، محمد بن جریر، تاریخ الامم و الملوک، ۳/ ۶۱.]

«طُلَقَاء» قیدی و اسیر کو آزاد کیا ہونے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے. [ابن منظور، لسان العرب، ۱۴۱۴ ق، ۱۰/ ۲۲۷.]

پیغمبر اسلام (ص) اس لفظ «طُلَقَاء» کی اصطلاح کو فتح مکہ کے وقت اہل مکہ کے ایک گروہ کے سلسلہ میں استعمال کیا ہے. [ابن هشام، السیرة النبویة، دار المعرفه، ۲/ ۴۱۲ و طبری،‌ تاریخ الأمم و الملوک، ‌۱۳۸۷ ش، ۳/ ۶۱.]

یہ گروه پیغمبر خدا (ص) کے مخالفین کا ہی تھا کہ جو فتح مکہ کے بعد بالجبر و اکراہ مسلمان ہوئے اور پیغمبر اسلام (ص) نے انہیں اپنی غلامی میں نہیں لیا اور «طلقاء» یعنی (آزاد شدگان) آزاد کئے ہوئے کا خطاب و لقب ان کے مقدر میں آیا. [مقریزی، إمتاع الأسماع، ۱۴۲۰ق، ۱/ ۳۹۱.]

چودہویں صدی کے شیعہ عالم دین سید محمد حسین تهرانی کے قول کے مطابق لفظ «طُلَقَاء» فتح مکہ سے پہلے لوگ کہتے تھے کہ محمد کو ان کی قوم کے ساتھ چھوڑ دو اگر ان لوگوں پر یہ غالب آئے تو ہم بھی اسلال لائیں گے اور اگر وہ لوگ محمد پر کامیابی پا گئے ان کی ہی قوم ہمیں ان سے نجات دلائے گی. [حسینی طهرانی، امام‌ شناسی، ۱۴۲۶ق، ۱۸/ ۲۸۰.]

لفظ «طُلَقَاء» کبھی کبھی «فتح مکہ کے مسلمانوں» (مُسلِمَةُ الفَتح) کو بھی پکارا کرتے رہتے ہیں. [مالکی، الصحبة و الصحابة، ۱۴۲۲ق، ص ۱۹۲.]


طلقاء کی تعداد اور مشاهیر


اسی بنا پر تاریخی کتابوں میں «طُلَقَاء» کی تعداد تقریبا 2000 سے بھی زائد افراد کا تذکرہ ملتا ہے. [مقدسی، البدء و التاریخ، مکتبة الثقافة الدینیه، ۴/ ۲۳۶.]

چنانچہ تاریخی مصادر میں بعض افراد کا بطور «طُلَقَاء» کے نام بھی درج ملتے ہیں جیسے: ابو سفیان، معاویه بن ابی‌ سفیان، یزید  بن ابو سفیان، سهیل بن عمرو، حُوَیطب بن عبد العُزَّی، [حسینی طهرانی، امام‌ شناسی، ۱۴۲۶ق، ۱۸/ ۲۸۰.]

دیگر کتابوں میں بھی «طُلَقَاء» کے مزید نام درج کئے گئے ہیں جیسے:

جبیر بن مطعم، عکرمة بن ابی‌ جهل، عتاب بن سعید، صفوان بن امیه، مطیع بن اسود، حکیم بن حزام، حارث بن هشام و حکم بن ابی‌ العاص [مالکی، الصحبة والصحابة، ۱۴۲۲ق، ص ۱۹۲ - ۱۹۳.]

مذکورہ بالا تمام افراد کو «طُلَقَاء» کے نام سے ہی یاد کیا جاتا رہا ہے.


سنی عالم حسن بن فرحان مالکی (تولد ۱۳۹۰ ق)، نے «طُلَقَاء» کو مقام و منزلت کے اعتبار سے 3 گروہ میں تقسیم کیا ہے:


۱- ایک گروہ وہ ہے جو سچے دل سے ایمان لایا اور پیغمبر اسلام (ص) کو بھی ان پر اطمینان حاصل ہوا اور انہیں مؤلفة القلوب کی حیثیت سے آنحضرت نے مال میں سے کچھ بھی نہیں دیا جیسے: عکرمة بن ابی‌ جهل، عتاب بن سعید و جبیر بن مطعم. 


۲- ایک وہ گروہ ہے کہ جسے پیغمبر اسلام (ص) نے تالیف قلوب کی خاطر انہیں مال میں سے کچھ نہ کچھ دیا گیا ان میں سے چند افراد مندرجہ ذیل ہیں: ابو سفیان، معاویه، صفوان بن امیه و مطیع بن اسود.

یہی گروہ «طلقاء» کے مراتب میں سے سب سے ادنی رتبہ والے سمجھے جاتے ہیں.


۳- ایک گروہ یہ بھی ہے کہ جو پہلے اور دوسرے درجہ کے درمیان واقع ہوا ہے جس میں حارث بن هشام، سهیل بن عمرو و حکیم بن حزام.

لوگ ان ناموں کو جانتے پہچانتے بھی ہیں. [مالکی، الصحبة و الصحابة، ۱۴۲۲ق، ص۱۹۲-۱۹۳.]


بنی‌ امیه کی تحقیر کیلئے طلقاء کے لفظ کا استعمال


بعض معاصر محققین کے قول کے مطابق لفظ «طُلَقَاء» ایک طرح سے بدنامی پر دلالت کرتا تھا. [جوادی، «طلقاء و نقش آنان در تاریخ اسلام»، ص ۷.]

اسی بنیاد پر بنی امیہ کو «حِزبُ الطُلَقَاء» تسلیم کرتے ہیں. [جوادی، «طلقاء و نقش آنان در تاریخ اسلام»، ص۲.]

حضرت علی (ع) نے معاویہ کے نام ایک خط تحریر کیا ہے جس میں اسے لفظ «طُلَقَاء» سے خطاب کیا ہے اور اسی لئے یہ لوگ خلافت، امامت اور مشاورت کرنے کی بھی لیاقت نہیں رکھتے ہیں. [منقری، وقعة صفین، ۱۴۰۴ق، ص۲۹.]

اسی طرح امام علی (ع) نے جنگ صفین میں بھی جن لوگوں نے جبر و اکراہ سے اسلام لائے اور ہمیشہ اسلام کے ساتھ حالت جنگ میں رہے انہی لوگوں کو «طُلَقَاء» شمار کیا ہے. [ابن قتیبة الدینوری، الإمامة والسياسة، ۱۴۱۰ق، ص۱۷۸.]

علی بن ابیطالب (ع) ان «طُلَقَاء» کو قرآن، سنت رسولخدا (ص) کا دشمن نیز اہل بدعت اور رشوت خوار کے طور پر تعارف کروایا ہے. [ابن قتیبة الدینوری، الإمامة والسياسة، ۱۴۱۰ق، ص۱۷۸.]

عالم اسیری میں بھی حضرت زینب (س) یزید بن معاویہ کے بھرے دربار میں ایک خطبہ کے ذریعہ «یَإبنَ الطُلَقَاء» کہہ کر یعنی "اے طلقاء کے بیٹے" کی حیثیت سے پہچنوایا ہے. [طبرسی، الإحتجاج، ۱۴۰۳ق، ۲/  ۳۰۸.]

اسی بنا پر جو کچھ احمد بن یحیی بلاذری، تیسری صدی ہجری کے مورخ نے اپنی کتاب «انساب الاشراف» تذکرہ کیا ہے:

«أنَّ عمر بن الخطاب قال: إنَّ أمر الخلافة لا يصلح للطلقاء ولا لأَبناء الطُّلَقَاءِ.»

مر بن خطاب طلقاء اور ان کی اولاد کو خلافت کے لائق و مناسب ہرگز نہیں جانتے تھے. [بلاذری، جمل من انساب الاشراف، ۱۴۱۷ ق، ۱۰/ ۴۳۴-۴۳۵؛ و ابن حجر عسقلانى، الإصابة، ۱۴۱۵ ق، ۴/ ۷۰.]

اسی سلسلہ میں بطور اشارہ دو روایتوں کا حوالہ دیا جا رہا ہے.

قارئین کرام خود فیصلہ کریں کہ صحیح کیا ہے اور غلط کیا ہے؟

امام بخاری (جو اہلسنت حضرات کی بعد کتاب باری صحیح بخاری کا اہمترین رتبہ تسلیم کرتے ہیں) اور امام احمد بن حنبل (اہلسنت کے چار مسالک میں سے ایک مذہب حنبلی ان ہی کی طرف منسوب ہے) اپنی کتاب مسند میں ایک روایت کو پیغمبر اسلام (ص) سے نقل کرتے ہوئے تحریر کیا ہے:

«لا يجوز الحكم لا لطلقاء و لا ابن الطلقاء» "حکومت کرنا «طُلَقَاء» کیلئے اور «اولاد طُلَقَاء» کیلئے جائز نہیں ہے."

(قول قرآن کریم ہے: اکثریت حق کو ناپسند کرتی ہے)


منابع و مصادر


۱- ابن حجر العسقلاني، الإصابة في تمييز الصحابة، تحقيق:‌ عادل أحمد عبد الموجود وعلى محمد معوض، بیروت، دار الکتب العلمیه، ۱۴۱۵ق / ۱۹۹۵م.

۲- ابن قتيبة الدینوری، عبد الله بن مسلم، الإمامة و السياسة، تحقيق: علی شیری، بیروت، دار الأضواء، الطبعة الأولی، ۱۴۱۰ق.

۳- ابن منظور، محمد بن مکرم، لسان العرب، تصحیح: احمد فارس، بیروت، دار الفکر، ۱۴۱۴ق.

۴- ابن هشام، السیرة النبویة، عبدالملک بن هشام، تحقیق: مصطفی السقا و ابراهیم الابیاری و عبد الحفیظ شلبی، بیروت، دار المعرفه، بی‌تا.

۵- بلاذری، احمد بن یحیی، کتاب جمل من انساب الاشراف، تحقیق: سهیل زکار و ریاض زرکلی، بیروت، دارالفکر، ۱۴۱۷ق/۱۹۹۶م.

۶- جوادی، سید مهدی، «طلقاء و نقش آنان در تاریخ اسلام»، در مجله پژوهش‌ نامه تاریخ، شماره ۱۲، پاییز ۱۳۸۷ش.

۷- حسینی طهرانی، سیدمحمدحسین، امام‌ شناسی، مشهد، نشر علامه طباطبایی، ۱۴۲۶ق.

۸- طبرسی، احمد بن على، الإحتجاج على أهل اللجاج، مشهد، نشر مرتضی، ۱۴۰۳ق.

۹- طبری، محمد بن جریر، تاریخ الامم و الملوک،‌ بیروت، دار التراث، ۱۳۷۸ش.

۱۰- مالکی، حسن بن فرحان، الصحبة والصحابة بين الإطلاق اللغوی و التخصیص الشرعی، عمان، مرکز الدراسات التاریخیه، ۱۴۲۲ق/۲۰۰۲م.

۱۱- مقدسی، مطهر بن طاهر، البدء و التاریخ، پورسعید، مکتبة الثقافة الدینیة، بی‌تا.

۱۲- مقریزی، احمد بن على، إمتاع الأسماع بما للنبى من الأحوال والأموال والحفدة والمتاع، تحقیق: محمد عبدالحمید الخمیسی، بیروت، دار ­­­الکتب العلمیة، ۱۴۲۰ق/۱۹۹۹م.

۱۳- منقری، نصر بن مزاحم، وقعة صفین، تحقیق: عبد السلام محمد هارون، المؤسسة العربیة الحدیثة، ۱۳۸۲ق/ افست: قم، منشورات مکتبة المرعشی النجفی، ۱۴۰۴ق.

پیوند به بیرون : طلقاء چه کسانی بودند؟

Post a Comment

To be published, comments must be reviewed by the administrator *

جدید تر اس سے پرانی