جناب ابو طالبؑ _ مظلوم تاریخ




جناب ابو طالبؑ _ مظلوم تاریخ


تحریر : عاليجناب مولانا ناظم علی واعظ خیرآبادی

عمید جامعہ حید ریہ مدینۃ العلوم، خیرآباد، ضلع مئو


          صدر اسلام کی ایک عظیم نقش آفریں اور تبلیغ دینِ توحید الہی، تحفظ ناموس رسالت، علمبردار حق و حقانیت اور نسل در نسل اپنی اولاد کو حفاظت اسلام کیلئے وصیت و تاکید کرنے والی بے مثال شخصیت کا نام ہے جناب ابو طالبؑ۔ جنہوں نے حکیمانہ انداز میں توحید کا پیغام اور لا زوال حمایت و نصرت رسولؐ اکرم اس پر آشوب دور میں کی جب مشرکین مکہ کے زہر آگین تیر اور عداوت و عناد کے ہلاکت خیز طوفان اور مخالفت کے گہرے بادل رسولؐ اکرم کے پیغام الہی کو نشانہ بنائے ہوئے تھے، آپ نے صدق و صفا سے الفت، حق سے محبت اور باطل سے نفرت کی بنا پر رسالتمآب کے الہی مشن کی توسیع اور مسلمانوں کی تقویت میں اہمترین کردار پیش کیاجو دیدۂ بینا اور چشم بصیرت کے ساتھ تاریخ کا مطالعہ کرنے والے پر اظہر من الشمس ہو جاتا ہے اور سراپا تجلی بن کر تمام نقوش کو واضح کر دیتا ہے۔ ؂

اب تلک یاد ہے قوموں کو حکایت ان کی                                                                نقش ہے صفحۂ ہستی پر صداقت ان کی

تیری ہستی پر نہیں باد تغیر کا اثر                                                                 خندہ زن ہے تیری شوکت گردش ایام پر

          عام طور پر انسانی معاشرہ میں پیش آنے والے واقعات اور حوادث اور انسان کے اعمال و افعال کے سلسلہ کو انسانی تاریخ کہا جاتا ہے ، علامہ اقبال نے تاریخ کو ایک طرح کا ایک ضخیم گراموفون قرار دیا ہےجس میں قوموں کی صدائیں محفوظ ہیں۔ (شذرات فکر اقبال ص ۱۴)

          ان کے خیال میں ماضی کے واقعات و حوادث کو محض تاریخ وار دیکھنے یا بیان کر دینے کا نام تاریخ نہیں ہےبلکہ اس میں ان واقعات و حوادث کے اسباب و علل کو سمجھنے ان کے باہمی ربط و تعلق کو جاننے اور ان کی روشنی میں افراد و اقوام کے عروج و زوال کے اصول اخذ کرنے کا بھی مفہوم شامل ہے، تاریخ محض انسانی محرکات کی توجیہ اور تفسیر ہے۔ (شذرات فکر اقبال ص ۱۳۰)

          علامہ اقبال رموز بیخودی میں لکھتے ہیں:        ؂

ضبط کن تاریخ را پائندہ شو                                                                      از نفسہائے رمیدہ زندہ شو

رشتۂ ایام را آور بدست                                                                 ورنہ گردی روز کور و شب پرست

سرزند از ماضی تو حال تو                                                               خیزد از حال تو استقبال تو

مشکن از خواہی حیات لا زوال                                                                رشتہ ماضی ز استقبال و حال

          تاریخ علم انسانی کا ایک سر چشمہ ہے وہ آئینہ ہے جس میں دیکھنے سے اپنے آپ کو جانتا پہچانتا ہے اور اس کے ربط سے اعلیٰ مقاصد اور نصب العین حاصل کرتا ہے، پوری انسانی تاریخ حق و باطل کی آویزش سے معمور ہے مورخین نے اکثر واقعات و حوادث کو یکے بعد دیگرے کسی توجیہ و تفسیر کے نقل کرنے پر ہی ذمہ داری کو انجام دینا سمجھ لیا ہے محرکات عمل پر غور کرنے اور تحقیق کو غیر ضروری قرار دیدیا ہے۔

        تاریخ اسلام کا مطالعہ کرنے والا اگر تسلیم حقیقت کو عصبیت اور عناد کے عنکبوتی جال میں نہ رکھے گا تو اس سے انکار نہیں کر سکتا کہ مسلمان مورخین نے بطل جلیل اسلام جناب ابو طالبؑ کی اسلام کیلئے فداکاری اور قربانی کو دیکھتے ہوئے بھی ان کے خدمات کے تذکرہ کو کما حقہ تاریخ و سیرت کی کتابوں میں تحریر نہیں کیا، نہ صرف یہ کہ ان کی اسلام کی راہ میں ہمہ جہت جد و جہد کو تاریخ کے صفحات پر ثبت کرنے سے گریز کیا بلکہ کفر و شرک تک کی نسبت بھی دیدی۔

        مکہ کے کفار و مشرکین اور ان کے حلیف اطراف اور قرب و جوار کے یہودیوں اور عیسائیوں نے دین خدا اور پیغمبرؐ اسلام کے پیغام اصلاح امن و آشتی اور انقلاب کے خلاف محاذ قائم کر رکھا تھا اور دائرہ اسلام میں داخل ہونے والوں اور رسولؐ کو ظلم و ستم کا نشانہ بنائے تھے مختلف انداز کے حرص، طمع اور نت نئی چیرہ دستی اور سفاکیت کو بروئے کار لاتے تھے ان کے ہم فکروں اور ہمنواؤں کا زہریلا سلسلہ اب بھی باقی ہے، رسولؐ اکرم اور دین خدا کے اولین مددگار و مبلغ جناب ابو طالبؑ کے خدمات، سیرت اور راہ اسلام میں علمی اور عملی کاوشوں کو چھپایا گیا، بغض و عناد اور عصبیت کے سمندر سے بڑی بڑی موجیں پہلے بھی اٹھیں اور ہر دور میں اٹھتی رہتی ہیں طوفان بلا خیز آتے رہتے ہیں سطح بحر شورش افزا رہتی ہے تاہم موجوں کے اس ہمہ گیر اضطراب پیہم کے اندر گوہر کی تخلیق صدف کے اندر سکون کے ساتھ جاری رہتی ہے سمندر کی طوفان خیزیوں کا اس عمل پر کوئی اثر نہیں ہوتا، دعویداران محرم حدیث و کتابت، بزعم خود فقیہ شہر کی آنکھوں اور زبانوں پر مسلکی عصبیت کی تہہ در تہہ دبیز چادر اس طرح پڑی ہوئی ہے کہ احساس و ادراک کی صلاحیتیں ختم ہو گئی ہیں اور ماضی کے کہنہ اور بے بنیاد اقوال و خیالات کی رٹ لگائے جارہے ہیں اور حیات و سیرت جناب ابو طالبؑ کو اپنے مزعومات ، اتہامات و الزامات کی بھول بھلیاں میں گم کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں لیکن ان کے خدمات اور سیرت کی درخشندگی آفتاب جہاں تاب کی طرح اتنی واضح ہے کہ اس سے علمی اور عقلی نابینائی کاشکاری ہی انکار کر سکتا ہے۔

          ان حالات میں ہر صاحب فکر و نظر اور اہل عقل و دانش کا فریضہ ہوتا ہے کہ دولت و ثروت ، بے حیا ،تعلقات اور قدیم مسلکی عصبیت سے دور ہو کر تاریخی حقائق کو پیش کیا جائے تا کہ باطل کی گمراہیوں سے تحفظ ہو سکے ، کیا خوب اقبال لاہوری نے کہا ہے:

من درون شیشہ ہائے عصر حاضر دیدہ ام                                                                 آن چنان زہرے کہ از وے مارہا در پیچ و تاب

          اگر علم کی شمشیر آبدار عشق و محبت کے بجائے عصبیت کے ہاتھ میں ہو تو وہ بے دین سیاست چنگیزی اور زہر ہلاہل ہو جاتی۔


★ نام و نسب جناب ابو طالبؑ

          آپ کے اسم با عظمت کے بارے میں علماء میں تھوڑا اختلاف پایاجاتا ہے ، صاحب عمدۃ الطالب احمد بن علی نے لکھہ کہ آپ کا نام عبد منافؔؑ تھا، ابو بکر طرطوسی نے عمرانؑؔ  لکھا ہے، بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ابو طالبؑؔ  تھا، کچھ علماء نے عبد منافؑؔ کو اسلئے ترجیح دی ہے کہ جناب عبد المطلبؑؔ نے اپنی وصیت میں یہی نام لیا ہے:

وَ وَصَّیتُ مَن کَنَّیتُهُ بِطَالِبٍ                                                                عَبدَ مُنَافؔ وَ هُوَ ذُو تَجَارُبِ

          میں نے ابو طالبؑ جیسے تجربہ کار شخص کو عبد اللہؑ کے بیٹے کا جو مجھے عزیز و محبوب تھا اور اب جس کے واپس آنے کی کوئی امید نہیں ہے۔(منتہی الآمال  ۱/ ۸۲؛ اعیان الشیعہ ۲/ ۱۲۸؛ عمدۃ الطالب ص۶؛ مناقب ۱/ ۲۱؛ بحار ۷/ ۴۷؛ معجم القبور  ۱/ ۱۸۳)

          اس کے علاوہ بھی جناب عبد المطلبؑ کے کچھ اشعار میں جناب ابو طالبؑؔ کیلئے عبد منافؔ بطور نام آیا ہے، عمرانؔ نام ہونے کی روایت کو بعض علماء نے ضعیف قرار دیا ہے لیکن اسی نام کو شہرت حاصل ہے اور صاحب مواہب الواہب نے لکھا ہے کہ عمرانؔ کے اعتبار سے اہلبیتؑ کو آل عمرانؔ بھی کہا جاتا ہے اور قرآن کریم میں ارشاد ہوا ہے:

إن اللہ إصطفی آدم و نوحا و آل إبراہیم وآل عمران .....

اللہ نے جناب آدمؑؔ ونوحؔؑ و آل ابراہیمؑؔ اور آل عمرانؔ کو مصطفی کیا ہے۔

          آپ جناب عبد المطلبؑ (شیبۃ الحمد) سید البطحاء، ساقی الحجیج، ابو السادہ، حافر الزمزم کے فرزند تھے۔ آپ کے شجرۂ نسب پدری کو اس طرح بیان کیا گیا ہے:

          ابو طالبؑ بن عبد المطلبؑ بن ہاشمؑ  بن عبد منافؑ بن قصیؑ بن کلابؑ بن مرہؑ بن کعبؑ بن لویؑ بن غالبؑ بن فہرؑ بن مالکؑ بن نضرؑ بن کنانہؑ بن خزیمہؑ بن مدرکہؑ بن الیاسؑ بن مضرؑ بن نزارؑ بن معدؑ بن عدنانؑؔ بن عود بن ناحور بن بعور بن یعرب بن یشحب بن نابت بن اسماعیلؑ بن ابراہیمؑ بن تارخ بن ساروغ بن ارعود بن فانع بن عامر بن شامخ بن ارفخشد بن سام بن نوحؑ بن لمک بن متوشلخ بن خنوخ بن برد بن مہلائیل بن لعوف بن انوش بن شیث بن آدمؑ

           جناب ابو طالبؑ کی والدۂ گرامی جناب فاطمہ بنت عمرو بن عائذ بن عمران بن مخزوم، جناب عبداللہؑ پدر بزرگوار پیغمبرؐ اسلام اور جناب ابو طالبؑ حقیقی بھائی تھے ، آپ کی کنیت متفقہ طور پر ابو طالبؑ تھی۔

          جناب پیغمبرؐاسلام اور جناب ابو طالبؑ کا نسب پدری ایک ہے اور ایک حدیث میں آیا ہے کہ پیغمبرؐ اسلام نے فرمایا ہے:

         إِذَا بَلَغَ نَسَبِی عَدنَانَ فَامسِکُوا        

میرے شجرۂ نسب کو عدنانؑ تک پہونچا کر خاموش ہوجاؤ ۔

           اس کا مطلب یہ اخذ کیا گیا ہے کہ عدنانؑ سے اسماعیلؑ تک کا جو شجرہ بیان کیا جاتا ہے اس کی حضرتؐ نے تصدیق نہیں فرمائی ہےلیکن خود حضرتؐ نے اسکے مقابل میں جو صحیح شجرہ تھا اسے بیان بھی نہیں کیا تو بہت ممکن ہے کہ اس سے مراد یہ ہوجو سیرت ابن ہشام ج ۱، ص ۵ پر بیان ہوا ہے:

         فَمِن عَدنَانَ تَفَرَّقَتِ القَبَائِلُ مِن وُلدِ إِسمَاعِیل بنِ إِبرَاہِیمِ عَلَیہِمَا السَّلَام

          جس کا مطلب یہ ہے کہ عدنانؑ سے اسماعیلؑ تک تمام اولاد اسماعیلؑ کا شجرہ متحد ہے یعنی جب میرے شجرہ میں عدنانؑ تک پہونچ جاؤ تو آگے بڑھنے کی ضرورت نہیں ہے کہ اس کے بعد میرا شجرہ وہی ہے جو تمام آل اسماعیلؑ کا ہے۔


جناب ابو طالبؑ کی پر افتخار حیات


          ابو طالبؑ تاریخ اسلام کی اس شخصیت کا نام ہے جس کی سیرت طیبہ کے نقوش سنہری حرفوں میں موجود ہیں آپ صف اول کے مجاہد ، ناصر دین و پیغمبرؐ اور انسانی اقدار حسنہ کا کامل نمونہ تھے، انہوں نے اسلام کے شجرہ طیبہ کو مخالفت اور عناد کی تیز و تند ہواؤں سے اس طرح بچایا کہ جب تک یہ مخلص محافظ زندہ رہا دشمن اسلام اور رسولؐ کا کچھ نہیں بگاڑ سکے اور بعد میں ان کے آثار و فضائل راہ ہدایت کیلئے سنگ میل بنے ہوئے ہیں افسوسناک امر یہ ہے کہ ابنائے وقت و خواہشات ان سے نظر موڑ کر ایسے عظیم انسان پر تحریر و تقریر کے ذریعہ ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنے لگے، علامہ جوادی طالب ثراہ نے اس طرح تحریر کیا ہے:

          اب کیا تھا گھٹیا ضمیر کچے دل جو روازانہ ایک نئے رنگ کے عادی تھے جنہیں نہ فضیلت کی قدر و قیمت  معلوم تھی اور نہ رذالت کی حد و تعریف باقاعدہ کرایہ پر چلنے لگے اس تجارت میں ذمہ داریاں بکتی تھیں عہد و پیمان ٹوٹتے تھے ، حق کو باطل اور باطل کو حق بتایا جاتا تھا ، دین خدا کو معمولی رقم یعنی چند ذلیل دینار، کھوٹے درہم اور غصبی مال پر بیچا جاتا تھا تا کہ اپنے پست مقاصد کو حاصل کیا جائے اور ذلیل دل کو راضی کر کے حکومت وقت کو خوش کیا جائے۔ (ترجمہ ابو طالب مومن قریش ص ۴۱)

          جناب ابو طالبؑ نے خانوادۂ خدا پرست اور موحد میں اپنے پدربزرگوار جناب عبد المطلبؑ کے سایہ میں پرورش پائی جو کمالات روحی اور امیتازات معنوی سے آراستہ تھے اور اپنے والد کی مثل دین حنیف ابراہیمؑ کے پابند تھےزائرین خانۂ خدا کی سقایت اور پاسداری جان محمدؐ کے منصب پر باقاعدہ فائز تھے، وہ مکہ کے لوگوں کی بت پرستی اور شرک سے دور اور جاہلیت کے طریقوں کے مقابل میں قیام کئے تھے آلودگی اور فساد سے علاحدہ تھے۔

          مورخین نے صراحت کے ساتھ تحریر کیا ہے: جناب ابو طالبؑ ہجرت پیغمبرؐ سے ۳؍ سال پہلے شعب ابو طالبؑ سے نکلنے کے بعد ماہ شوال یا ذی قعدہ میں۸۴؍ برس کی عمر میں دنیا سے رخصت ہو گئے۔ (کامل ابن اثیر   ۱/ ۵۰۷)

        دنیا سے انتقال کرتے وقت ان کا دل خدا پر ایمان اور عشق محمدؐ سے لبریز تھا ان کو مقبرہ حجون معروف بہ قبرستان ابو طالب میں دفن کیا گیا ، ان کی وفات سے پیغمبرؐ اسلام اور مختصر گروہ مسلمین پر حزن وملال کی کیفیت طاری ہو گئی کیونکہ ان کا بہترین حامی ، فدائی اور راہ اسلام سے دفاع کرنے والا دنیا سے چلا گیا۔

          ابن اثیر نے نقل کیا ہے: کفار قریش جناب ابو طالبؑ کی وفات کے بعد پیغمبرؐ کے سر مبارک پر مٹی اور گوسفند کی اوجھڑی ڈالتے تھے۔ (بدایۃ و نہایۃ ابن کثیر ، ۳/ ۱۲۰ ؛ کامل ابن اثیر ، ۲/ ۵۰۷)

          چند روز کے بعد دوسرے رکن اسلام اور حامی پیغمبرؐ جناب خدیجہؑ کا انتقال ہو گیا ان دونوں مددگاروں کے انتقال سے رسولؐ و مسلمان بیحد غم و اندوہ میں مبتلا ہو گئے جبکہ جناب ابو طالبؑ کی زندگی میں پیغمبرؐ ہر طرح محفوظ تھے۔

           پیغمبرؐ اسلام نے خود فرمایا:

  ما نالت قریش منی شیئا أکرہہ حتی مات ابو طالب۔ (کامل ابن اثیر، ۱/ ۵۰۷)

          جناب عبد المطلبؑ کی وفات کے بعد ابو طالبؑ نے پیغمبرؐ کی سرپرستی اور کفالت کی ذمہ داری اس وقت سے لی جب آنحضرتؐ کی عمر شریف ۸؍ سال تھی سنبھالی اور اپنی وفات کے وقت تک ۴۲؍ سال شمع وجود محمدی اور اسلام کے پروانہ وار محافظ رہے سفر و حضر تمام حالات میں مکمل حفاظت کرتے رہے اور آنحضرتؐ کے مقدس مقصد نشر آئین توحید اور شرک و بت پرستی کے خلاف مصروف جہاد رہے، ۳؍ سال تک تمام بنی ہاشم اور آنحضرتؐ کے ہمراہ شعب ابو طالبؑ میں معاندین کے مظالم کی سختیوں کو برداشت کرتے ہوئے تحفظ رسولؐ و اسلام میں مشغول رہے ، انہوں نے اپنے ایمان کو اسلئے پوشیدہ رکھا تا کہ بہترین طریقہ اور اپنی حکمت عملی سے پیغمبرؐ کا دفاع کرتے رہیں اس کا اظہار انہوں نے اپنے اشعار میں کیا ہے:

لیعلم خیار الناس ان محمد  نبی                                                               کموسی و المسیح بن مریم

اتانا یہدی مثل ما ایتا بہ                                                               فکل یامر اللہ یہدی و یعصم

و انکم تتلونہ فی کتابکم                                                               بصدق حدیث لا حدیث الرجم

          اچھے لوگ جان لیں کہ محمدؐ موسیؑ و عیسیؑ کے جیسے پیغمبر ہیں، جس طرح ان دونوں پیغمبروںؑ نے آسمانی ہدایت کو پیش کیا، تمام پیغمبروںؑ نے فرمان خدا کی جانب لوگوں کی راہنمائی کی اور گناہوں سے باز رہنے کا حکم دیا، تم ان کے اوصاف کو اپنی کتابوں میں پڑھتے ہو اور وہ بات صحیح ہے اور غیب کا تخمینہ نہیں ہے۔ (تفسیر مجمع البیان، ۷/ ۳۴)


اسلام سے قبل ابو طالبؑ کی توحید پرستی

       

   ظہور اسلام سے قبل پیشوایانؑ اسلام کی روایتیں ملتی ہیں جو ابو طالبؑ کی توحید پرستی کی واضح دلیل ہیںشیعہ عقیدہ حق پر مبنی ہے کہ امام معصومؑ کے آبا و اجداد موحد ہیں اور حضرت علیؑ قرآن کریم کے بیان اور نص پیغمبرؐ کی بنا پر آنحضرتؑ کے جانشین اور مسلمانوں کے امامؑ ہیں اسلئے ان کے آبا و اجدا کا موجد ہونا لازم ہے، اس بارے میں علامہ مجلسی نے متعدد احادیث کو نقل کیا ہے۔

          ۱۔ عبد اللہ بن کثیر کہتے ہیں کہ میں نے امام جعفر صادقؑ کو فرماتے ہوئے سنا کہ جبریلؑ پیغمبرؐ پر نازل ہوئے اور فرمایا کہ پروردگار تمہیں سلام کہلواتا ہے :

          میں نے جہنم کو حرام کیا ہے اس صلب پر جس سے تم آئے اور اس بطن پر جس نے تم کو حمل کیا اور اس آغوش پر جس نے تمہاری پرورش کی ، صلب عبد المطلبؑ کی ہے اور بطن آمنہ ؑبنت وہب کا ہے اور آغوش عبد مناف (ابو طالبؑ) اور فاطمہؑ بنت اسد کی ہے۔ (بحار الانوار ، ۳۵/ ۱۰۹)

          ۲۔ امیر المومنین حضرت علیؑ نے فرمایا: 

و اللہ ما عبد أبی و لا جدی عبد المطلب و لا ہاشم و لا عند مناف صنما.

بخدا میرے والد اور میرے جد عبد المطلبؑ اور ہاشمؑ اور عبد منافؑ نے کبھی بت پرستش نہیں کی۔ (بحار الانوار  ۱۵/ ۱۴۴)

          جناب امیرؑ کے اس ارشاد پر ایک شخص نے پوچھا کہ وہ لوگ کس طرح خدا کی عبادت کرتے تھے آپ نے فرمایا:

کانوا یصلون إلی البیت علی دین إبراہیم متمسکین بہ۔      

وہ خدا کے گھر کی جانب رخ کر کے نماز پڑھتے تھے دین ابراہیمؑ سے متمسک تھے۔

        ۳۔ جابر بن عبد اللہ انصاری کا بیان ہے کہ میں نے پیغمبرؐ اکرم سے ولادت جناب امیرؑ کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا:آہ آہ! تم نے اس بہترین مولود کے بارے میں سوال کیا جو میرے بعد سنت مسیحؑ پر دنیا میں آیا ، خدا نے موجودات عالم کی تحقیق سے ۵؍ہزار سال قبل مجھے اور علیؑ کو ایک نور سے پیدا کیا، اس عالم میں ہم خدا کی تسبیح و تقدیس کرتے تھےاور جب خدا نے جناب آدمؑ کو خلق کیا تو میرا اور علیؑ کا نور صلب آدمؑ میں قرار دیا مجھے آدمؑ کے داہنے پہلو میں اور علیؑ کو بائیں پہلو میں رکھا پھر صلب آدمؑ سے اصلاب و ارحام طاہرہ میں منتقل کرتا رہا یہاں تک کہ خدا نے میرے پاکیزہ نور کو مرد مطہر جناب عبد اللہ بن عبد المطلبؑ کی صلب میں منتقل کیا اور وہاں سے بہترین رحم آمنہؑ میں رکھا اور علیؑ بن ابیطالب کو پاکیزہ پشت جناب ابو طالبؑ میں قرار دیا اور وہاں سے بہترین رحم فاطمہؑ بنت اسد میں رکھا۔(بحار الانوار ، ۳۵/ ۱۰)


        مشرکین مکہ اور مومن قریش ابو طالبؑ

  

      رسولؐ اکرم حکم خدا پا کر علانیہ پیغام دین خدا پہونچانے میں تدبیر الہی پر عمل کر رہے تھے جو مشرکین مکہ کیلئے اب نا قابل تحمل ہو رہا تھا تو انہوں نے پیغمبرؐ کے پیغام کو روکنے کیلئے مختلف ذرائع استعمال کرنا شروع کئے سب سے پہلے انہوں نے جناب ابو طالب پر اثر ڈالنا چاہا خیال یہ تھا کہ جناب ابو طالبؑ کے سمجھانے سے یا تو پیغمبرؐ مان جائیں گےاور پیغام ترک کر دیں گے تو ہمارا مقصد حاصل ہو جائے گا اور اگر وہ اپنی روش پر باقی رہیں گے تو ابو طالب کی ان سے ہمدردی ختم ہو جائے گی نتیجہ میں بنی ہاشم بھی کنارہ کش ہو جائیں گے یہ سوچ کر ایک وفد بھیجا پہلی مرتبہ اس نے کہا آپ ہمارے سردار اور ہم میں افضل ہیں آپ دیکھ رہے ہیں کہ ان بیوقوفوں نے آپ کے بھتیجے کو ساتھ لے کر ہمارے خداؤں کو چھوڑ دیا ہے ہم پر اعتراض کرتے ہیں اور ہمیں احمق بنا رہے ہیں۔ (طبقات ابن سعد،  ۱/ ۱۳۴)

          اس ذریعہ میں ناکامی کو دیکھتے ہوئے دوسرا طریقہ سوچا کہ نعم البلد کے طور پر کسی کو ابو طالبؑ کے حوالہ کر دیا جائے تو ممکن ہے وہ محمدؐکو ہمارے حوالہ کر دیں تو وہ عمارہ بن ولید بن مغیرہ کو لے کر ابو طالبؑ کے پاس آئے او ر کہا: 

قد جئناک بفتی قریش جمالاً و نسباً و نہادۃ و شعراً اندفعہ فیکون لک نصرہ و میراثہ و تدفع إلینا إبن أخیک فنقلتہ فان ذلک أجمع للعشیرۃ و أفضل فی عواقب الأمور مغبۃ۔ (طبقات ابن سعد ، ۱/ ۱۳۴)

ہم آپ کے پاس قریش کے حسین و جمیل ، خاندانی شریف ، قد و قامت گیسو اور رخ میں یکتا کو لائے ہین اسے لے کیجئے یہ آپ کا مددگار رہے گا آپ اس کی میراث کے بھی حقدار ہوں گے اور اپنے بھتیجے کو قتل کرنے کیلئے ہم کو دے دیجئے تا کہ قبیلہ کا نظم بھی صحیح ہو اور نتیجہ بھی مناسب ہو، اس کے جواب میں جناب ابو طالبؑ نے فرمایا: تم نے یہ عجیب بات کہی کیسا انصاف ہے میں تمہارے بچہ کو پالوں اور تم میرے بچہ کو قتل کرو۔

          جناب ابو طالبؑ نے مشرکین کے ارادہ کا پتہ لگا لیا اور محمدؐ کی نگرانی زیادہ کرنے لگے چنانچہ جب ایک دن جب رسولؐ اکرم کو گھر پر نہیں دیکھا تو انہیں یقین ہو گیا کہ مشرکوں نے انہیں اذیت پہونچائی ہوگی ، انہوں نےاولاد ہاشم اور مطلّب کے جوانوں کو جمع کر کے ہدایت کی کہ تم میں ہر ایک لوہے کا ہتھیار لے کر آئے اور جب میں مسجد میں داخل ہوں تو تم میں سے ہر ایک ان کے بڑے لیڈروں کے پہلو میں بیٹھ جائے خصوصیت سے ابو جہل کو نہ چھوڑنا جیسے ہی یہ معلوم ہو کہ محمدؐ قتل ہوگئے تم میں سے ہر ایک اپنے اپنے بغل والے کو قتل کر دے، اس وقت زید بن حارثہ نے پیغمبرؐکے بارے میں خبر دی آپ کو ابو طالبؑ نے دیکھ لیا تو اطمینان ہوا اور خیریت معلوم کی اور جب صبح ہوتی تو پیغمبرؐ کا ہاتھ پکڑے ہوئے ہاشمی اور مطلبی جوانوں کے ساتھ مشرکین قریش کے پاس آئے اور فرمایا کہ میں نے رات کو جو منصوبہ بنایا تھا سن لو، خدا کی قسم اگر محمدؐ کا بال بھی بیکا ہواہوتا تو میں تم میں سے کسی کو نہ چھوڑتا ابو طالبؑ کے اس بیان سے مجمع پرسناٹا تھا پوری قوم شکستگی کا شکار تھی سب سے زیادہ اثر ابو جہل پر تھا۔ (طبقات ابن سعد،  ۱/ ۱۳۴)

           اس کے بعد مشرکین نے جانب ابوطالبؑ سے اس مسئلہ میں سخت لہجہ میں بات کی کہ تمہارا بھتیجا ہمارے معبودوں کی توہین کرتا ہمارے باپ دادا کو گمراہ کہتا ہمیں احمق ٹھہراتا ، اب ہم اس ہتک کو برداشت نہیں کرسکتا اسلئے تم یا تو درمیان سے الگ ہوجاؤ یا کھل کر سامنے آجاؤ کہ ہم میں فیصلہ ہو جائے۔ (تاریخ اسلام، ۱/ ۷۴ بحوالہ رسالہ مولوی دہلی ستمبر ۱۹۵۹؁ ء )

          ان کے جوشیلے انداز کا جواب جناب ابو طالبؑ نے نہایت نرم لہجہ میں دیاکہ میں محمدؐ سے بات کروں گا۔ پیغمبرؐ نے جناب ابو طالبؑ سے فرمایا: خدا کی قسم یہ لوگ میرے ایک ہاتھ میں سورج اور دوسرے ہاتھ میں چاند رکھ دیں ، جب بھی اس دعوت حق سے باز نہیں آسکتا یا تو خدا اسے غالب کرے گا یا میں اس سعی میں کام آجاؤں گا۔ (سیرت ابن ہشام ، ۱/ ۸۹)

          تاریخ و سیرت کے لکھنے میں مورخین کی جانب سے واقعات میں مقدّم و مؤخّر ہونے کا خیال کم رہا ہے ، چاند اور سورج کے ہاتھ پر رکھنے کی بات پیغمبرؐ نے اس وقت کہی ہے جب مشرکین نے تخویف کے طریقہ میں ناکامی دیکھ لی تو ترغیب کا انداز اختیار کرتے ہوئے عتبہ بن ربیعہ کو براہ راست رسولؐ سے گفتگو کیلئے بھیجا اور اسی سے چاند و سورج کے واقعہ کی مناسبت بھی معلوم ہوتی ہے ، عتبہ نے آنحضرتؐ سے کہا: اے محمدؐ! قوم میں پھوٹ دالنے سے کیا فائدہ اگر تمہیں سرداری حاصل کرنا ہے تو ہم سب مل کر تمہیں سردار تسلیم کرنے کیلئے آمادہ ہیں اگر کسی بڑے گھرانے کی کسی حسین سے حسین لڑکی سے نکاح کرنا چاہتے ہو تو بتا دو کہ ہم اس کا انتظام کر دیں گے اگر دولت کی فکر ہے تو جتنی کہو دولت تمہارے قدموں پر ڈال دی جائے ؛ اس کے جواب میں رسولؐ نے قرآن کی آیات بھی سنائیں۔ (تاریخ اسلام،  ۱/ ۷۸ علی نقی النقوی)

          مشرکین مکہ نے تخویف و ترغیب کے حربے استعمال کئے مگر جناب ابو طالبؑ کی شخصیت اور وجاہت کی وجہ سے انہیں ناکامی کا چہرہ دیکھنا پڑا اور علامہ سید محسن امین نے یہ الفاظ لکھے کہ اللہ رسولؐ کی ان کے چچا ابو طالب کے ذریعہ حفاظت کرتا رہا۔


★  تحفّظ پیغمبر میں جناب ابو طالبؑ کی فدا کاری

         

 کتب تاریخ میں اگرچہ جناب ابو طالبؑ کی فدا کاری کے واقعات کو جس تفصیل کے ساتھ بیان ہونا چاہئے تھا اسے تعصب کی نظر کھا گئی اور مسلکی عناد کی ہوا میں اڑانے کی کوشش کی گئی لیکن جتنے واقعات درج ہو گئے ہیں ان سے اہل فکر و نظر حالات کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔

          ابن ابی الحدید معتزلی  شافعی امالی محمدبن حبیب سے نقل کرتے ہیں : جناب ابو طالبؑ کو پیغمبرؐ سے بہت محبت تھی وہ ان کی جان کے برابر نگراں رہتے تھے کہ کہیں (مشرکین) ان پر حملہ کر کے قتل نہ کر دیں اسلئے رات میں آنحضرت کی خوابگاہ کو بدل دیتے تھے اور حضرت علیؑ کو ان کے بستر پر سلا دیتے تھے ایک رات علیؑ نے اپنے پدر بزرگوار سے کہا: میں قتل ہوجاؤں گا ! تو ابو طالبؑ نے فرمایا:

إصبرن یا بنی فالصبر احجیٰ                                                                     کلّ حی مصیرہ لشعوب

قدّر اللہ و البلاء شدید                                                                                          لفداء الحبیب و إبن الحبیب

          اے فرزند! صبر کرو کہ صبر عقلمندی ہے ہر زندہ کی بازگشت موت ہے، اللہ نے مقدر کیا ہے اور بلا شدید ہے کہ تم کو دوست اور فرزند دوست کیلئے فدا کیا ہے۔ (شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، ۱۴/ ۶۴)

          جناب ابو طالبؑ نے دشمنان پیغمبرؐ کے ارادوں اور عزائم کو پا در ہوا کرتے ہوئے دو اشعار اس انداز سے کہے :

تمنیتم ان تقتلوہ و إنما                                                                              وأمانیکم ہدی کاحلام نائم

زعمتم بأنّا مسلمون محمدا                                                                             و اما نقاذف دونہ و نزاحم

          تم محمدؐ کے قتل کی تمنا کر رہے ہو لیکن یہ تمہاری آرزو خواب آشفتہ سے کم نہیں ہے ، تمہارا گمان ہے کہ میں محمدؐ کو تمہارے حوالہ کردوں گا اور تمہیں ان کو گرفت میں لینے کیلئے آزاد چھوڑ دوں گا یہ کبھی نہیں ہوگا۔ (شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، ۱۴/ ۷۳)

        جناب ابو طالبؑ کی فداکاری کے تعلق سے جو واقعات ، عملی اقدامات ، مشرکوں کی گستاخیوں اور مظالم کے ضوابات ، شعب ابو طالبؑ میں محاصرہ کی کیفیت ، اشعار وغیرہ ملتے ہیں ان سے تحفظ رسالتمآبؐ اور دین اسلام کے سلسلہ میں زرین خدمات کا اندازہ ہوتا ہے۔

جنہیں ابن کثیر کی بدایہ و نہایہ جلد ۳، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید جلد ۱۴ ، کامل ابن اثیر جلد ۱، طبقات ابن سعد جلد ۱، مناقب ابن شہر آشوب جلد ۱، سیرۃ ابن ہشام ، بحار الانوار جلد ۳۵ وغیرہ میں دیکھا جا سکتا ہے۔

ان سے اس مزعومہ کی قلعی بھی کھل جاتی ہے جو یہ کہتے ہیں کہ ابو طالبؑ کی حمایت و فداکاری محض رسولؐ سے رشتہ کی بنا پر تھی ، در حقیقت ابو طالبؑ کا ہر عمل پرورش سے لے کر حفاظت تک میں حق پسندی ، توحید پرستی ، دین خدا کے سامنے سر تسلیم خم کرنے اور رسولؐ کے اتباع کے طریقہ پر تھا جس سے بڑی دلیل ان کے ایمان کی اور کیا ہو سکتی ہے۔


★  جناب ابو طالبؑ کا جہاد مسلسل

        دین اسلام کی تبلیغ اور تحفظ رسالتمآبؐ کی راہ میں جناب ابو طالبؑ نے تا حیات قولی اور عملی جہاد کیا ، سرداران مکہ کی رسولؐ اکرم کے خلاف ہرزہ سرائیوں اور منحوس تدبیروں کو حکمت عملی سے ہمیشہ پاش پاش کر دیا دعوت ذو العشیرہ کے موقع پر جب پیغمبرؐ نے علانیہ پیغام حق رؤسائے قریش کو سنانا تو سب کے سب سن کر چلے گئے دوسرے روز بھی دعوت دی تو سارے مجمع کی خاموشی کو توڑتے ہوئے جناب ابو طالبؑ کھڑے ہو کر کہا کہ میں سب سے پہلے تمہاری دعوت کو قبول کرتا ہوں تم اپنا کام شروع کرو خدا کی قسم میں تمہیں بچالوں گا، میرا دل یہ نہیں چاہتا کہ عبد المطلبؑ  کے دین کو ترک کر دوں۔ (ابو طالبؑ مومن قریش ص ۱۰۰ بحوالہ کامل ابن اثیر ،ج۲/ ۴۱)

          یہ سن کر ابو لہب کھڑا ہوا اور کہا خدا کی قسم یہ ننگ و عار ہے اس کو اسی وقت روک دو، اس کے جواب میں جناب ابو طالبؑ نے بھتیجے کو خطاب کرتے ہوئے کہا: میرے سردار اٹھئے جو چاہتے ہیں کہئے اپنا پیغام پہونچائے آپ صادق بھی ہیں اور صدیق بھی۔ (بحوالہ کامل ابن اثیر ج ۲؛ السیرۃ الحلبیۃ، ۲/ ۳۲۱؛ شیخ الابطح ص ۲۲؛ الغدیر، ۷/ ۳۵۵)

          ابو لہب نے جناب ابو طالبؑ کا عزم محکم دیکھنے کے بعد مجمع والوں سے کہا اور ابو طالبؑ کو خطاب کیا: انہوں نے (پیغمبرؐ) تم پر تمہارے بیٹے کی بھی اطاعت واجب کر دی ابو طالبؑ نے جواب میں فرمایا: وہ جو کچھ کہے گا اور کرے گا وہ خیر ہی ہوگا۔ (مومن قریش ص ۱۵۲، بحوالہ کامل ابن اثیر ج ۲؛ طبری ج ۲؛ الغدیر ج ۲، اعیان الشیعہ ج ۲؛ رسائل جاحظ ص ۳۱؛ غایۃ المرام ص ۷۰)

          درحقیقت جناب ابو طالبؑ اسلام کی جانب دعوت دینے کے مرحلہ میں قرآن کریم کے اس اعلان کی گویا تفسیر پیش کر رہے تھے:

أدع إلی سبیل ربک بالحکمۃ و الموعظۃ و جادلہم باللتی ہی أحسن۔ (سورہ نحل آیت ۱۲۵)

          اپنے رب کے راستہ کی طرف حکمت اور موعظہ حسنہ کے ذریعہ دعوت دو اور ان سے جدال احسن کرو۔ (جب ضرورت ہو) جناب ابو طالبؑ نے راہ اسلام کو روشن و منور کرنے کیلئے حکمت و موعظہ سے بھی کام لیا آپ نے اپنے بھائی حمزہؑ سے فرمایااور اپنے اشعار میں خطاب کیا :

فصبراً ابا یعلی علی دین احمد                                                                              و کن مظہرا للدین وفقت صابراً

          اے حمزہؑ دین احمدؐ کا اعلان کر دو اور صبر سے کام لواورتمہیں صبر کی توفیق عطا کرے اور صاحب شریعت حقہ کی صدق دل و عزم کے ساتھ تصدیق کرو کافر نہ بنو، مجھے خوشی ہے کہ تم نے ایمان قبول کر لیا اب راہ خدامیں رسولؐ کی نصرت کرو، قریش کے درمیان اپنے ایمان کا اعلان کر کے کہہ دو کہ محمدؐ ساحر اور جادوگر نہیں ہیں۔ (شرح نہج البلاغہ ص ۳۱۵؛ الحجۃ ص ۷۱؛ مناقب ص ۳۶؛ بحار ج ۶، ص ۴۵۴؛ اعیان الشیعہ ، ۳۹/ ۱۴۴؛ مجمع البیان ،۷/ ۳۷)

          علامہ برزنجی کے اس قول کو علامہ امینی نے الغدیر جلد ۷ میں اور صاحب اسنی المطالب نے نقل کیا ہے: وہ کہتے ہیں کہ متواتر خبروں سے ثابت ہے کہ ابو طالبؑ رسولؐ اکرم کو چاہتے تھے ان کی نصرت و حفاظت کرتے تھے اور تبلیغ دین میں ان کا ہاتھ بٹاتے تھے، خود ان کے اقوال کی تصدیق کرتے تھے اور اپنے بیٹے علیؑ و جعفرؑ کو ان کے اتباع کا حکم دیا کرتے تھے۔

          اب جبکہ ابو طالبؑ رسولؐ سے محبت کرتے تھے تو رسولؐ اکرم بھی ان سے محبت کرتے تھے یا نہیں ؟ اس سلسلہ میں جب روایات معتبرہ پر نگاہ ڈالی جائے تو رسولؐ اکرم کی بھی جناب ابو طالبؑ سے محبت کا پتہ چلتا ہے۔

          ایک روایت میں ہے کہ عباس بن عبد المطلبؑ نے پیغمبرؐسے پوچھا کہ جناب ابو طالبؑ کیلئے آپ کی آرزوکیا ہے ، پیغمبرؐ نے فرمایا:

کل خیر أرجوہ من ربی۔         

میں اپنے رب سے ان کیلئے تمام نیکیوں کی امید کرتا ہوں ۔ (بحار الانوار ، ۳۵/ ۱۵۲)

          ظاہر ہے کہ مومن بر حق کیلئے ہی رسولؐ ایسی آرزو کر سکتے ہیں۔

          دوسری حدیث میں ہے کہ ایک روز پیغمبرؐ نے جناب عقیل سے فرمایا: 

إنی لأحبک یا عقیل حبین حباً لک و حبا لأبی طالب۔      

  اے عقیل! میں تم سے دو طرح کی محبت رکھتا ہوں خود تم سے محبت ہے اور ابو طالبؑ سے محبت کی وجہ سے بھی تم سے محبت کرتا ہے۔ (شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ، ۱۴/ ۷۰؛ استیعاب ، ۳/ ۱۵۷)

          ظاہر سی بات ہے کہ رسولؐ اکرم کسی دشمن خدا اور غیر مسلم سے محبت نہیں کر سکتے کیونکہ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر ارشاد ہوا ہے:

لا تجد قوماًیومنون باللہ و الیوم الآخر یوادون من حاد اللہ و رسولہ و لو کانوا آبائہم أو أبنائہم أو إخوانہم أو عشیرتہم.  (سورہ مجادلہ آیت ۲۲)

        یا أیہا الذین آمنوالا تتخذوا آبائکم و إخوانکم أولیاء إن استحبوا لکفر علی الإیمان و من یتولہم منکم فأولٰئک ہم الظالمون۔ (سورہ توبہ آیت ۲۳)

          اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایمان اور کفر دو متضاد چیزیں ہیں دونوں ایک ساتھ جمع نہیں ہو سکتے اور جب مومن اور کافر میں دوستی اور محبت نہیں ہو سکتی تو رسولؐ اسلام کی غیر مسلم سے محبت کیوں کر ہو سکتی ہے۔

          علامہ زمخشری نے تحریر کیا ہے: قرآن کے بیان کی روشنی میں ایمان کے ساتھ مشرک اور کافر کی دوستی محال ہے اعدائے دین کے ساتھ سختی کے ساتھ عداوت ہونا چاہئے کسی وقت کسی طرح ان سے تعلقات استوار نہیں ہونا چاہئیں چاہے وہ باپ ، بھائی اور قبیلہ کے لوگ ہی کیوں نہ ہوں ، ایماندار اللہ کے گروہ میں اور کفار  شیطان کے گروہ میں ہیں، اخلاص حقیقی یہی ہے کہ اللہ کے دوستوں سے دوستی اور اللہ کے دشمنوں سے دشمنی ہو۔ (تفسیر کشاف، ۴/ ۳۹۶؛ تفسیر ابن کثیر ، ۴/ ۳۳۰)

          اس کے بعد علامہ نے پیغمبرؐ کی ایک دعا بھی نقل کی ہے: خدایا! میرے سرپرکسی فاسق و فاجر کا احسان نہ رکھنا کیونکہ میں آیہ لا تجد قوماً (سورہ مجادلہ آیت ۲۲) کو پیش نظر رکھتا ہوں۔

          جناب ابو طالبؑ کے جہاد قولی کا تذکرہ ان کے اشعار کے تذکرہ میں آئے گا انہوں نے عملی جہاد اور اعدائے دین کا عملی مقابلہ اس ہمت مردانہ اور جرات انسانی کے ساتھ کیا ہے جب جب مشرکین نے پیغمبرؐ کیلئے بہمیت اور بربریت کے ساتھ ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے اس میں ایک موقع کا تذکرہ کیا جا چکا ہے خدمات کے ذیل میں جس میں جناب ابو طالبؑ نےمشرکین سے فرمایا تھا کہ اگر تم نے محمدؐ کو قتل کر دیا ہوتا تو تم میں سے کوئی ایک بھی باقی نہ رہتا اور دوسرا موقع اس وقت کا ہے جب رسولؐ اکرم نماز میں مشغول تھے تو ابن زبعری نے کافی غلاظت جمع کر کے آنحضرتؐ کے سر اقدس پر ڈال دی جب آپ سجدہ میں تھے تو آنحضرتؐ اپنے چچا کے پاس محزون و مغموم آئے اور واقعہ سے باخبر کیا جناب ابو طالبؑ غصہ کے عالم میں تلوار لئے ہوئے گھر سے باہر تشریف لائے قوم نے یہ حالت دیکھ کر فرار کا ارادہ کیا آپ نے دور ہی سے فرمایا کہ اگر آگے قدم بڑھایا تو خیر نہیں ہے ابو طالبؑ پیغمبر کو ساتھ لئے ہوئے پہونچے اور پوچھا کہ یہ بد تمیزی اور بیہودگی کس نے کی ہے ؟ آپؐ نے ابن زبعری کی طرف اشارہ کیا تو آپ نے پہلے اس کی ناک کو زخمی کیا پھر غلاظت منگا کر تمام قوم کے چہروں پر مل دی اوررسولؐ سے کہا بیٹا خوش ہو گئے ؟ اے قریش والو! اگر کچھ کرنا چاہتے ہو تو اٹھو میں بھی موجود ہوں اور تم تو مجھ کو پہچانتے ہی ہو ، پھر آ پ نے پیغمبرؐ کی نبوت ، خاندان کی عظمت و فضیلت اور رسولؐ کی رسالت کی تصدیق سے معمور اشعار پڑھے، جنہیں شرح نہج البلاغہ، شیخ الابطح ، دیوان ابو طالب ، اعیان الشیعہ و الغدیر میں دیکھا جا سکتا ہے۔


  ایمان ابو طالبؑ کے دلائل و شواہد

     

     ایمان کا تعلق دل سے ہے اور دل کی کیفیت کا اندازہ انسان کے قول و عمل سے لگایا جاتا ہے، حیات بشری میں قولی اور عملی آثار و علامات اس کی قلبی کیفیت اور باطنی حالت کو واضح کرتے ہیں اگر چہ تاریخ میں بغض اہلبیتؑ کی بنا پر حقائق کے بیان کرنے میں خیانت سے کام لیا گیا ہے شائد بعض مجبوریوں کی بنا پر کچھ واقعات کو صفحہ قرطاس پر کر دیا گیا ہے لیکن مختصر سے بیان گلستان سے بھی بہار کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ، جناب ابو طالبؑ چونکہ دین اسلام مبلغ، رسولؐ اسلام کے حامی، تحریک دین اسلام میں ایک مستحکم قائد کی حیثیت رکھتے تھے اور مستقبل کے محافظین دین خدا کے پدر برزگوار تھے اسلئے ان کے خدمات اور سیرت کے نقوش کو غیر مسلموں اور مسلموں دونوں نے چھپایا لیکن ان کی خوشبو زمانہ میں پھیلی ہوئی ہے اگر ان کے خدمات کو شپرہ چشم دیکھ نہیں پاتا یا مسلکی زکام کے مرض سے مشام عقل بند ہے اور خوشبو کو محسوس نہیں کر پاتا تو اس سے جناب ابو طالبؑ کی عظمت و رفعت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔

گر نہ بیند بروز شپرہ چشم                چشمۂ آفتاب را چہ گناہ

          جناب ابو طالبؑ  کے ایمان کے تعلق سے قرآن مجید کی آیات ، احادیث معصومینؑ، خدمات اسلامی ، اقوال علماء اشعار جناب ابو طالبؑ میں بیان شدہ حقائق و معارف کو طور دلیل و شاہد پیش کیا جاسکتا ہے۔

        ٭  ہر بینائی رکھنے والا انسان اس مشاہدہ اور حقیقت کو تسلیم کرتا ہے کہ زیادہ نورانیت کا حامل کم نور کو آسانی سے دیکھ لیتا ہے آفتاب عالم تاب جب افق مشرق سے نمودار ہوتا ہے تو سب لوگ اس سے آنکھیں چار کر سکتے ہیں لیکن جب سورج نصف النہار پر پہونچ جاتا ہے تو انسان اس سے اگر نگاہ ملانا چاہے تو خود اس کی نگاہ بند ہو جاتی ہے دیکھ نہیں پاتا اور سورج اپنے مقام پر تابانی عطا کرتا رہتا ہے، ایمان ایک نور ہے ایمان کم درجات پر فائز انسانوں کا نور ایمان لوگوں کو نظر آجاتا ہے جناب ابو طالبؑ کل ایمان کے پدر بزرگوار ، نور الٰہی کے حامل اور نور رسالت و دین کے مکمل علمبردار تھے تو ان کے نور ایمان کے اوصاف و کمالات کو نگاہ عصمت و طہارت نے دیکھا اور بیان کیا لیکن جن کم نظری اور پست ایمانی کا شکار افراد نے دیکھنا چاہا تو وہ خود اندھے ہو گئے انہیں کیوں کر دکھائی دیتا مگرآفتاب نصف النہار ایمان ابو طالبؑ اپنی نورانیت سے دور حیات میں بھی روشنی بکھیرتا رہا اور اب بھی ان کے نورانی اقوال سے اہل فکر و دانش کیلئے روشنی کا دامن وسیع سے وسیع تر ہوتا جارہا ہے۔

          امام صادقؑ نے ایک حدیث میں ارشاد فرمایا:

إن مثل أبی طالب مثل أصحاب الکہف اسروا الإیمان و أظہرو الشرک فأتاہم اللہ أجرہم مرتین۔ (کافی ، ۱/ ۴۴۵؛ امالی صدوق مجلس ۸۹؛ بحار الانوار ، ۳۵/ ۷۲)

          جناب ابو طالبؑ کی مثال اصحاب کہف کی ہے جنہوں نے اپنے ایمان کو چھپا یا اور شرک کا تظاہر کیا اس وجہ سے خدا نے انہیں دو مرتبہ اجر عطا کیا۔

          حدیث نے اس کی وضاحت کردی ہے کہ تقیہ وقت ضرورت اور تقاضائے حکمت کے تحت خداوند عالم کو پسند ہے اور اس کی بنا پر دہرا اجر خدا عطا کرتا ہے اس طرح جناب ابو طالبؑ محبوب رب قرار پاتے ہیں۔

          جناب او طالبؑ نے ایمان کو پوشیدہ رکھا کہ ظاہر میں مشرکین انہیں اپنا سمجھتے رہے لیکن انہوں نے عمل کی زبان بے زبانی سے حمایت اسلام اور نصرت رسولؐ میں خود کو سر گرم رکھا، حدیث معصومؑ میں ارشاد ہوا ہے : 

کونوادعاۃ الناس إلی الإسلام لا بألسنتکم بل بأعمالکم۔

          لوگوں کو اسلام کی جانب زبان کے بجائے عمل سے دعوت دو، یہ عملی دعوت پائیدار اور مستحکم ہوتی ہے جس کے نتیجہ میں انہوں نے بنی ہاشم کو متحد اور ہمنوا رکھا جو سیسہ پلائی دیوار کی مانند اسلام مخالف سیلاب کو روکنے میں کامیاب ہوئے۔

          نیز امام صادقؑ نے یہ بھی فرمایا: جناب ابو طالبؑ نے اپنے ایمان کو مخفی رکھا اور شرک کو ظاہر کیا لیکن جب وہ دنیا سے جانے لگے تو جبریلؑ امین وحی لے کر پیغمبرؐ کے پاس آئے کہ اب مکہ سے نکل جاؤ اب تمہارے مددگار ابو طالبؑ دنیا سے رخصت ہوگئے اور اس کے بعد آنحضرتؐ نے مدینہ کی جانب ہجرت فرمائی۔(بحار الانوار، ۳۵/ ۸۱؛ اکمال الدین صدوق)

          ٭  ایک شخص نے امام سجادؑ سے پوچھا کہ جناب ابو طالبؑ مومن تھے؟ امامؑ نے فرمایا: ہاں! اس نے عرض کیا کہ بعض لوگ تو انہیں کافر سمجھتے ہیں؟ امامؑ نے تڑپ کر فرمایا: بیحد تعجب ہے ، یہ لوگ ابو طالبؑ پر تہمت رکھتے ہیں یا رسول اکرم پر قرآن کریم نے متعدد آیات میں اس سے منع کیا ہے کہ کوئی مومن عورت کسی کافر کی زوجیت میں نہ رہے حالانکہ فاطمہؑ بنت اسد بلاشبہہ مومنہ بلکہ اسلام میں سابق عورتوں میں سے تھیں اور رسولؐ اکرم نے انہیں تا حیات حضرت ابو طالبؑ کی زوجیت سے جدا نہیں کیا۔ (الحدیدی ج ۳؛ الغدیر، ۷/ ۲۸۱؛ اعیان الشیعہ ، ۳۹/ ۱۲۶؛ شیخ الابطح ص ۷۶)

          ٭  ایک بار امام صادقؑ نے یونس نباتہ سے سوال کیا کہ لوگ ابو طالبؑ کے بارے میں کیا کہتے ہیں ، یونس نے جواب دیا کہ لوگ کہتے ہیں کہ وہ جہنم میں ہیں ..... امامؑ نے غصہ میں فرمایا: یہ دشمن خدا جھوٹے ہیں ابو طالب انبیاء و صدیقین ، صلحاء اور شہداء کے ہیں اور ان سے بہتر کوئی رفیق ممکن نہیں ہے۔ (الحجۃ ص ۱۱۷؛ الغدیر ص ۳۹۴)

          ٭  جناب ابو طالبؑ کے تعلق سے امیر المومنین حضرت علیؑ کے ارشادات ملتے ہیں ان سے ان کی ایمانی رفعت اور بلندی مرتبہ کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے، وہ فرماتے ہیں:

          ۱- خدا کی قسم میرے باپ ابو طالبؑ ، میرے جدعبد المطلبؑ ، ہاشمؑ اور عبد منافؑ نے کبھی کسی بت کے سامنے پیشانی نہیں جھکائی ، لوگوں نے سوال کیا کہ پھر وہ کس کی عبادت کرتے تھے؟ تو اس کا جواب یہ دیا کہ یہ لوگ دین ابراہیمی کے پیرو تھے اور بیت اللہ کی طرف نماز ادا کرتے تھے۔ (الغدیر ؛ مرأۃ العقول؛ معجم القبور)

          ۲- خدا کی قسم ابو طالب بن عبد المطلبؑ ایک مرد مومن تھے یہ اور بات ہے کہ قریش کی اذیتوں کے خوف سے بنی ہاشم کے تحفظ کیلئے اس کا اظہار نہیں کرتے تھے۔(حوالہ سابق)

          ۳- جناب ابوطالبؑ کا اس وقت تک انتقال ہی نہیں ہوا جب تک خدا کا رسولؐ ان سے راضی نہ ہو گیا ۔ (حوالہ سابق) ظاہر ہے کہ جس سے رسولؐ راضی اس سے خدا راضی اور جس سے خدا راضی ہو گا وہ مومن ہی ہوگا۔ 

إن اللہ لا یرضی الکفر

خدا کفر کو پسند نہیں کرتا۔

          ۴- ایک بار حضرت علیؑ منزل رحبہ میں تشریف فرما تھے تو ایک شخص نے کہا : اے امیر المومنینؑ آپ کا مرتبہ یہ ہے اور آپ کے والد جہنم میں ہیں، یہ سن کر غیظ و غضب سے امامؑ کے چہرہ کا رنگ بدلا اور فرمایا: خاموش رہو! خدا تیرا برا کرے، محمدؐ کو نبی بنانے والے خدا کی قسم اگر میرا باپ تمام روئے زمین کے انسانوں کی شفاعت کرے تو خدا قبول کرے گا، کیا یہ ہوسکتا ہے کہ بیٹا جنت و دوزخ کا تقسیم کرنے والا ہو اور باپ جہنم میں ہو، قیامت کے دن ابو طالبؑ کا نور سوائے انوار خمسہ (پنجتن) کے تمام انوار پر غالب رہے گا۔ (تذکرۃ الخواص ص ۱۱؛ شیخ الابطح ؛ الغدیر ج ۷)

          ٭  جناب ابو طالبؑ مرسلینؑ  کی وصیتوں کے امانتدار تھے ، جو ایک مومن کامل ہی ہو سکتا ہے ایک مرتبہ امام موسی کاظمؑ سے سوال ہوا کہ کیاحضرت ابو طالبؑ رسولخداؐ کیلئے بھی حجت خدا تھے؟ آپ نے فرمایا: نہیں وہ مرسلینؑ  کی وصیتوں کے امانتدار تھے جنہیں آنحضرتؐ تک پہونچا دیا تھا، سائل نے پوچھا کہ کیا یہ وصیتیں اسلئے دی گئی تھیں کہ رسولخداؐ پر حجت تھے، امامؑ نے فرمایا: نہیں اگر یہ حجت ہوتے تو وصیتیں آنحضرتؐ کے حوالہ کیوں کرتے ؟ پھر پوچھا کہ ابو طالبؑ کا موقف کیا تھا؟ فرمایا: وہ پیغمبرؐ اکرم کے احکام کے معترف تھے اسی لئے تمام وصایا ان کے حوالہ تھیں۔ (العباس؛ الغدیر ج ۷)

          ٭  ابن اثیرنے اپنی کتاب جامع الاصول میں تحریر کیا ہے: 

ما أسلم من أعمام النبی غیر حمزۃ و العباس و أبی طالب عند أہل البیت۔

اہلبیتؑ پیغمبر کا یہ عقیدہ ہے کہ پیغمبرؐ کے چچاؤں میں حمزہؑ، عباسؑ اور ابو طالبؑ کے علاوہ کوئی ایمان نہیں لایا۔

          علامہ طبرسی مرحوم نے لکھا ہے:

قد ثبت إجماع أہل البیت علی ایمان أبی طالب و إجماعہم حجۃ لأنہم أحد الثقلین الذین أمر النبی بالتمسک بہما۔

اہلبیت کاایمان ابو طالبؑ پر اجماع ہے اور ان کا اجماع حجت ہے کیونکہ وہ ثقلین میں سے ایک ہیں جن سے تمسک رکھنے کا رسولؐ اکرم نے حکم دیا ہے۔ (بحار الانوار، ۳۵/ ۱۳۹)

          ٭  جناب ابو طالبؑ نے اپنے فرزندوں کو پیغمبرؐ کے ساتھ نماز پڑھنے کاحکم دیا جو ان کے مومن ہونے کی ایک اہم دلیل ہے ، ابن ابی الحدید کے استاد ابو جعفرنے نقل کیا ہے کہ ایک روز ابو طالب نے پیغمبرؐ کو نہ دیکھا تو ان کی تلاش میں اپنے فرزند جناب جعفرؑ کے ساتھ نکلے آپ نے دیکھا کہ آنحضرتؐ اطراف مکہ کی ایک وادی میں نماز پڑھ رہے تھےہیں حضرت علیؑ ان کے داہنی جانب کھڑے ہیں ان کی اقتدا میں نماز پڑھ رہے ہیں تو جعفرؑ سے کہا کہ جاؤ تم دوسری جانب کھڑے ہو کر نماز پڑھو تو انہوں نے بائیں طرف کھڑے ہو کر نماز پڑھی یہ منظر دیکھ کر یہ اشعار پڑھے:

إن علیاً و جعفراً ثقتی                                                  عند مسلم الخطوب و النوب ..... ألخ

          بیشک علیؑ و جعفرؑ پریشانیوں اور خطرات میں ہمیشہ میرے معتمد رہے ، تم اپنے چچا زاد بھائی کی مدد میں کوتاہی نہ کرو کہ ان کے والد میرے حقیقی بھائی ہیں ، بخدا میں نبیؐ کو ذلیل نہیں کروں گا اور نہ صاحب حسب اولاد ان کو رسوا کریں گے۔ (شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، ۱۳/ ۲۶۹؛ مناقب ابن شہر آشوب ج ۲)


★  جناب ابو طالبؑ کے اشعار


          عربی اد ب کی شاعری میں قصیدہ و نعت گوئی کے لحاظ سے جناب ابو طالبؑ کو اولین حیثیت حاصل ہے انہوں نے اسلام کی شان و منزلت میں قصائد اور پیغمبرؐ اکرم کی نعت کہنے میں بے مثل ادبی علمی اور دینی خدمات انجام دی ہے جن سے ان کے عقیدہ ، ایمان اور اسلام کی راہ میں قربانی، جانفشانی اور حمایت رسولؐ کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے، اگر صرف ان کے قصائد و اشعار کو پڑھ لیا جائے تو یہی ان کے ایمان کو ثابت کرنے کی بہترین دلیل ہیں۔

          عالم اہلسنت علی بن یحییٰ کا قول ابن ابی الحدید نے نقل کیا ہے:

لولا خاصۃ النبوۃ و سرہا لما کان مثل أبی طالب ۔ و ہو شیخ قریش و رئیسہا و ذوشرفہا یمدح إبن أخیہ محمداً ..... (شرح نہج ابن ابی الحدید، ۱۴/ ۶۳)

          اگر نبوت کی خصوصیت اور اس کے اسرار (پیغمبرؐ کے پاس نہ ہوتے) تو کوئی شخص ابو طالبؑ کے مثل نہ ہوتا وہ بزرگ قریش، رئیس بنی ہاشم اور صاحب شرف تھے انہوں نے اپنے بھتیجے محمدؐ کی اپنے اشعار میں اس طرح مدح کی ہے جو دلیل ہیں کہ ابو طالبؑ محمد کو خدا کا پیغمبرؐ مانتے تھے۔

          جناب ابو طالبؑ کے کچھ اشعار سابق میں بیان ہوئے ہیں ان کے علاوہ چند شعر یہ ہیں:

الم تعلموا إنا وجدنا محمداً                                                                                       رسولاً کموسی خطّ فی أول الکتب

و إن علیہ فی العباد محبۃ                                                                                   و لا حیف فیمن خصہ اللہ بالحبّ

          کیا تم نہیں جانتے کہ میں نے محمدؐ کو موسیؑ کے جیسا نبی پایا ہے جن کا تذکرہ آسمانی کتابوں میں آیا ہےبندگان خدا ان سے خصوصی محبت رکھتے ہیں اور خدانے جس کی محبت دلوں میں رکھی ہے اس پر ظلم نہیں کرنا چاہئے۔ (شرح نہج، ۱۴/ ۶۳)

          امام صادقؑ نے ابو طالبؑ کو کافر کہنے والوں کی تردید مذکورہ اشعار سے کی ہے اور فرمایا ہے کہ ان اشعار کے ہوتے ہوئے کیسے انہیں کافر کہا جا سکتا ہے؟(کافی، ۱/ ۴۴۸)

          نیز ابو طالبؑ کا یہ اشعار بھی ان کے ایمان کی دلیل ہے:

أنت النبی محمد                                                                                   قرم أعزّ مسدد

و لقد عہدتک صادقاً                                                                                     فی القول لا تتزید

          اے محمدؐ آپ پیغمبر عظیم ، عزیز اور بزرگ آقاہیں ، میں تم سے عہد کرنے میں اتنا صادق ہوں جس میں زیادتی کی گنجائش نہیں ہے۔

یا شاہد اللہ علی فاشہد - إنی علی دین النبی أحمد - من ضلّ فی الدین فأنا المہتدی

          اے خدائی شاہد گواہ رہنا کہ میں دین احمدؐ پر ہوں اگر دنیا گمراہ ہوجائے تو مجھے کیا میں ہدایت یافتہ ہوں۔

أنت النبی محمد  - الا إن احمد قد جاءہم بحق - ولم یاتہم بکذب

          آپ محمدؐ نبی ہیں، احمدؐ کا پیغام حق ہے باطل نہیں۔ (سیرۃ النبویۃ)

        ٭  مشرکین مکہ نے پیغمبرؐ پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے تا کہ آنحضرتؐ کو قتل کردیں یا انہیں اتنا مجبور بنا دیں کہ پیغام الہی پہونچانا چھوڑ دیں ان کے مددگار جناب ابو طالبؑ اور ہمنواؤں کو سخت ترین مصائب و آلام کا شکار رہنا یا اس کیفیت میں بھی اپنی ثابت قدمی اور حمایت رسولؐ کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرمایا:

و اللہ لن یصلوا إلیک بجمعہم                                                                                              حتی أوسد فی التراب دفینا

و دعوتنی و زعمت إنک ناصحی                                                   و لقد صدقت و کنت قبل أمینا

و عرضت دینا قد علمت أنہ                                                         من خیر أدیان البریۃ دینا

          بخدا اے محمدؐ! قریش کے لوگوں کے ہاتھ تم تک نہیں پہونچیں گے، یہاں تک کہ میں زیر لحد دفن کر دیا جاؤں ، تم نے مجھے اپنے دین کی دعوت دی اور میں نے سمجھ لیا کہ تم نصیحت کرنے والے ہو تم صادق و امین ہو، تم نے دین میرے سامنے پیش کیا اور میں نے یقین کر لیا کہ تمہارا دین روئے زمین کے تمام ادیان سے بہتر ہے۔ (شرح نہج ، ۱۴/ ۵۵)

          مقالہ کو طولانی ہونے سے بچانے کیلئے چند اشعار کو نقل کیا گیا ہے ان کا قصیدہ لامیہ، بائیہ، رائیہ وغیرہ دیوان میں دیکھا جا سکتا ہے۔

          ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ میں جناب ابو طالبؑ کے اسلام کے بارے میں توقف کیا ہے اگر چہ یہ بھی لکھا ہے کہ اسلام ابو طالبؑ پر دلالت کرنے والی روایات بہت زیادہ ہیں اور ایسی روایات بھی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنی قوم کے طریقہ پر دنیا سے گئے تو اصول جرح و تعدیل کے قانون کی بنا پر توقف کرنا چاہئے ۔ (روایات میں اگر باقاعدہ تعارض موجود ہو تو قانون تساقط نافذ ہوتا ہے دونوں ساقط ہو جاتی ہیں اور اس کے بعد مستحکم دلیل حاصل کی جاتی ہے اور وہ مستحکم دلیل ان کے اشعار بھی ہو سکتے ہیں۔)

          مفتی مکہ عالم اہلسنت زینی دحلان متوفی ١٣٠٤ ھ  کے جناب ابو طالبؑ کے تعلق سے اسلام کا اعتراف کیا ہے انہوں نے کہا ہے کہ ابو طالبؑ بعثت کے تیسرے سال اسلام لائے اور تا حیات مسلمان رہے اور ایمان و اخلاص سے مالا مال رہتے ہوئے آئین توحید پر دنیا سے رخصت ہوئے، مقاصد اسلام کو آگے بڑھانے میں ذمہ داری کو پورا کیا انہوں نے تقیہ کرتے ہوئے اسلام کو پوشیدہ رکھا۔

          ابن ابی الحدیدمعتزلی شافعی نے ہی یہ بھی لکھا ہے: 

إ ن الإسلام لولا أبو طالب لم یکن شیئاً مذکور۔

          اگر ابو طالبؑ نہ ہوتے تواسلام قابل ذکر چیز نہ ہوتا۔ (شرح نہج ج۱)

          پھر اشعار میں اس کا اظہار اس طرح کیا ہے:

و لولا أبو طالب و إبنه                                                                                                لم مثل الدین شخصا فقاما

فذاك بمکة آوی و حامی                                                                                   و هٰذا بیثرب حبس الحماما

تکفل عبد مناف بأمر                                                                                            واددی فکان علی تماما

        اگر ابو طالبؑ اور ان کے فرزند علیؑ نہ ہوتے تد فین کا ستون قائم نہ ہوتا ابو طالبؑ نے مکہ میں دین خدا کی حمایت کی اور اسے پناہ دیا اور علیؑ نے مدینہ میں دین کے کبوتر کو پرواز عطا کی، ابو طالبؑ نے کام کا آغاز کیا اور جب وہ نہیں رہ گئے تو علیؑ نے اس کو مکمل کیا۔ (شرح نہج، ۱۴/ ۸۴)

          ایمان جناب ابو طالبؑ کے دلائل میں وہ خطبہ بھی ہے جو آپ نے آنحضرتؐ کے عقد کے موقع پر پڑھا جس کا آغاز الحمد لله سے ہوا جس میں خاندانی خصوصیات کے ساتھ رسولؐ اکرم کی منزلت، عظمت و شرف کو بیان کیا ہے، ظاہر ہے رسولؐ اکرم کے نکاح کا خطبہ کوئی مومن کامل ہی پڑھ سکتا ہے۔

          مخالفین ایمان ابو طالبؑ نے قرآن مجید کے سورہ قصص کی آیت نمبر ۵۶ کا بھی سہارا لیا ہے آیت میں ہے: 

إنك لا تهدی من أحببت و لکن الله یهدی من یشاء و هو أعلم بالمهتدین۔       

اے رسولؐ! تم جسے چاہو منزل مقصود تک نہیں پہونچا سکتے مگر خدا جس کی چاہے ہدایت کرتا ہے وہ ہدایت یافتہ افراد کا زیادہ جاننے والا ہے۔

          اس آیت کی تفسیر میں علامہ حافظ فرمان علی طاب ثراہ مترجم قرآن نے حاشیہ پر تحریر کیا ہے، مفسرین کا خیال ہے کہ یہ آیت جناب ابو طالبؑ کے بارے میں نازل ہوئی ہےچونکہ آپ نے رسولؐ کی پرورش کی تھی اور حضرت عبد المطلبؑ کی وفات کے بعد آپ کے ہر طرح نگراں اور محافظ تھے اس وجہ سے آپ کی تمنا تھی کہ حضرت ابو طالبؑ  ایمان لائیں مگر وہ ایمان نہ لائے لیکن یہ خیال بالکل غلط ہے کیونکہ یہ ممکن نہیں کہ حضرت رسولؐ کی تمنا اور خواہش خدا کی مرضی کے خلاف ہو خلاف ہو حالانکہ ابو طالبؑ کا ایمان لانا ثابت اور واضح ہے چنانچہ جامع الاصول میں ہے :

أہل البیت یقولون إن أبا طالب کان مسلماً و مات مسلماً۔

          محدث دہلوی عبد الحق نے لکھا ہے کہ ابو طالبؑ کا نقش نگین یہ تھا: 

رضیت بالله رباً و بإبن أخی نبیاً و بإبنی علی وصیاً۔

          میں اللہ کے پروردگار اپنے بھتیجے کے نبیؐ ہونے اور اپنے بیٹے علیؑ کے وصی ہونے کو پسند کرتا ہوں۔ (حاشیہ قرآن مجید ترجمہ مولانا فرمان علی ص ۵۴۲ مطبوعہ ناشر تبلیغات ایمانی بمبئی)

          ٭  جناب ابو طالبؑ نے کلمہ شہادتین بھی زبان پر جاری کیا جو ایک واضح اسلام و ایمان کا ثبوت ہے، ابن ابی الحدید نے نقل کیا ہے ابن عباس نے ان کی جانب نگاہ کی تو دیکھا کہ لبوں کو جنبش ہو رہی ہے کان کو قریب کر کے سنا اور پیغمبرؐ سے کہا کہ اے چچا زارد بھائی بخدا میرے بھائی ابو طالبؑ نے کلمہ شہادتین کو زبان پر جاری کر لیا۔ (سیرۃ ابن ہشام ،۲/ ۵۹؛ سیرۂ حلبی، ۲/ ۴۶)


جناب ابو طالبؑ کی وصیت، وفات، تجہیز و تکفین

          اثبات ایمان جناب ابو طالبؑ کے دلائل اور شواہد کے طور پر گذشتہ صفحہ میں اب کی اپنے فرزندوں سے وصیت نماز و اتباع و حمایت پیغمبرؐ کے تعلق سے بیان کیا گیا ہے ، درحقیقت ان کی وقت وفات کی وصیت اور وفات و تجہیز و تکفین کی روایتوں سے بھی ان کا مومن کامل ہونا ثابت ہوتا ہے، تعجب ہے کہ جن لوگوں نے زبان پر کلمہ شہادتین کو جاری کیا اور دل میں بغض و حسد اسلام کی آندھیاں چلتی رہیں ان کو تو مسلمان ماننے میں متعصب مورخین نے کوئی چوں و چرا نہیں کی اور ألم یجدك یتیماً فآویٰ (سورہ ضحی آیت ۶) کا مصداق ، مکہ میں رسولؐ اور اسلام کا زبان و عمل سے واحد مددگار ، دین خدا اور کلمہ توحید کا حامی و ناصر تھا جس کے رہتے ہوئے خون کے پیاسے مشرکین مرسلؐ اعظم کا بال بیکا نہ کر سکے اس کے اسلام و ایمان کے بارے میں شک و شبہہ میں گرفتار ہیں یا کسی حتمی فیصلہ کے بجائے توقف سے کام لے رہے ہیں۔

        جناب ابو طالبؑ نے وقت وفات اپنے فرزندوں سے فرمایا : میں محمدؐ کے سلسلہ میں تمہیں وصیت کرتا ہوں وہ امین قریش ، صادق العرب اور تمام کمالات کے جامع ہیں، وہ ایسا آئین اور مکتب لائے ہیں جن پردلوں نے ایمان قبول کیا لیکن زبانیں دشمنوں کی شماتت کے خوف سے انکار کر رہی ہیں، میں دیکھ رہا ہوں کہ عرب کے ضعیف و کمزور ہو کر اس کی حمایت میں اٹھ کھڑے ہوئے ہیں ان کے ایمان لانے سے محمدؐ قریش کی صفوں کو شکست دینے کیلئے قیام کر چکے ہیں ، محمدؐ (پیغام سے) قریش کے سردار ذلیل ہو گئے ہیں ان کے گھر ویران ہیں اور کمزوروں کو طاقتور بنا دیا دیا ہے، تو تم لوگ اس کے گروہ کے حامیوں اور دوستوں میں ہوجاؤ بخدا جوان کی راہ و روش پر چلے گاوہ نجات پائے گا جو ان کی پیروی کرے گا سعادتمند ہوگا۔ (سیرۃ حلبی ج ۲، ص ۴۹)

          سابق میں عرض کیا گیا کہ ابو طالبؑ نے کلمہ شہادتین کو زبان جاری فرمایا تھا اور دل سے نصرت رسولؐ کر رہے تھے ابن عباس سے منقول روایت سے کہ ابو بکر جناب ابو طالبؑ کے اسلام سے بیحد خوش تھے اور اپنے باپ کے اسلام سے زیادہ ابو طالبؑ کے اسلام کو پسند کرتے تھے اور اس بات سے رسولؐ کی آنکھ کوٹھنڈک پہونچانا  چاہتے تھے ان کے جملے جو رسولؐ سے کہے تھے یہ ہیں:

أما والذی بعثك بالحق لأنا کنت أشد فرحاً بإسلام عمك أبی طالب منی بإسلام أبی ألتمس بذٰلک قرۃ عینیك۔

          اس کے جواب میں پیغمبر ؐنے فرمایا کہ تم سچ کہہ رہے ہو۔ (ایمان ابو طالب ص ۱۳۷)

          جناب ابو طالبؑ کی سلسلے میں ماہ و سنہ کا اختلاف تاریخ میں ہے بعض نے رجب، بعض نے رمضان المبارک، بعض نے شوال ، بعض نے ذی قعدہ بتایا۔ اسی طرح بعض نے بعثت کے بعد سنہ ۱۰ یا سنہ ۱۱ لکھا ہے، یہ بھی اختلافی ہے کہ جناب ابو طالبؑ اور خدیجہؑ میں کس کا انتقال پہلے ہوا اور فاصلہ کتنا تھا عام طور پر یہ تحریر ہے کہ جناب ابو طالبؑ کی وفات ماہ شوال یا ذی قعدہ میں ۸۴؍ سال کی عمر میں ہوئی اور چند روز کے بعد جناب خدیجہؑ شریک مقصد رسالت کی وفات ہوئی ان دونوں مددگاروں کے دنیا سے رخصت ہو جانے سے رسولؐ پر اتنا غم و اندوہ طاری ہوا کہ آپ نے پورے سال کو عام الحزن قرار دیدیا، جب تک ابو طالبؑ زندہ رہے قریش کے لوگ پیغمبر کو کوئی اذیت اور تکلیف نہ دے سکے، امیر المومنین حضرت علیؑ نے والد بزرگوار کی وفات کی خبر جب رسولؐ اکرم کو دی تو آنحضرتؐ نے محزون و مغموم حالت میں فرمایا : اے علیؑ جاؤ تم انہیں غسل دو، حنوط و کفن دو اور جب انہیں تابوت میں رکھ لینا تو مجھے خبر دینا ، حضرت علیؑ نے تجہیز و تکفین کے تمام امور کو انجام دیا اور جب تابوت میں رکھ چکے تو پیغمبرؐ  تشریف لائے اور انتہائی رنج و اندوہ کی حالت میں ابو طالبؑ  کے جنازہ سے اس طرح خطاب کیا: 

وصلتک رحم یا عم و جزیت خیراً فلقد ربیت و کفلت صغیراً و نصرت و آزرت کبیراً

          اے چچا آپ نے بخوبی صلۂ رحم کیا ، خدا آپ کو جزائے خیر عطا کرے بچپن میں آپ نے پرورش اور کفالت کی اور جب میں بڑا ہوا تو آپ نے نصرت کی اور اس راہ میں تکلیف کو برداشت کیا۔

           آنحضرت جنازہ کے ساتھ چلے اور بالائے قبر کھڑے ہو کر فرمایا: 

و الله لأستغفرن لك و لأشفعن فیك شفاعة یعجب لها الثقلان۔

          بخدا میں تمہارے لئے طلب مغفرت کروں گا اور قیامت میں تمہاری شفاعت کو اس قدر قبول کروں گا کہ جن اور انسان کو تعجب ہوگا۔ (شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ۱۴؛ بحار الانوار ج ۳۵)

          قابل توجہ ہے کہ کیا کافر کی موت سے رسولؐ کا محزون ہونا جائز ہے؟ کیا یہ صحیح ہے کہ حضرت علیؑ جیسا شخص کافر کے غسل و کفن کا ذمہ دار ہو؟ کیا رسولؐ کیلئے درست ہے کہ کافر کے جنازہ کی تشییع کرے ، قبر کے کنارے طلب مغفرت کرے اور ان کیلئے حق شفاعت کو قبول کرے؟ ان میں سے کوئی ایک امر بھی کفر کیلئے مناسب نہیں ہے، یہ ایک عام مومن کیلئے درست نہیں ہے تو بلندترین حامی دین رسولؐ کیلئے کیوں کر ممکن ہو سکتا ہے۔

          روایت میں نماز میت کا تذکرہ نہیں ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اس وقت تک نماز میت کا شرعی حکم نہیں آیا تھا اسی طرح جب جناب خدیجہؑ کا انتقال ہوا تو ان کے جنازہ پر نماز نہیں پڑھی گئی کیونکہ اس کا حکم نازل نہیں ہوا تھا۔ (حوالہ سابق)

           جناب ابو طالبؑ کی وفات کے بعد جبریلؑ امین حکم خدا لے کر پیغمبرؐ پر نازل ہوئے :

یا محمد أخرج من مکة فلیس لک فیها ناصر

          اور دوسری روایت میں ہے کہ جبریلؑ نے کہا؛ وفات ابو طالبؑ کی رات میں اے محمدؐ! مکہ سے ہجرت کر جائے آپ کا ناصر دنیا سے چلا گیا۔ (کافی ج ۱ ؛ شرح نہج ج ۱۴)

          ٭ صفحات تاریخ پر ایسے مستحکم دلائل و شواہد اور راہ دین میں جناب ابو طالبؑ کے خدمات کے ثبت ہونے کے بعد بھی کوئی بصارت و بصیرت سے عاری ہی ان کے ایمان کا انکار کرسکتا ہے:

و من کان فی هٰذہ أعمی فهو فی الآخرۃ أعمی وأضلّ سبیلاً۔

(سورہ اسراء، آیت ۷۲)

Post a Comment

To be published, comments must be reviewed by the administrator *

جدید تر اس سے پرانی