مسائل الشریعۃ ترجمہ وسائل الشيعة
نماز کی کتاب، افعال نماز کے ابواب
نمازکی
کیفیت اور اس کے کچھ احکام و آداب
وسائل
الشيعة، كتاب الصلاة
أبواب
أفعال الصلاة
باب
كيفيتها وجملة من أحكامها وآدابها
(اس باب
میں کل ۱۹ حدیثیں
ہیں، جن میں سے ۵ مکررات کو قلمزد کر کے باقی ۱۴ کا ترجمہ پیش خدمت ہے۔)
01۔شیخ کلینی و شیخ صدوق باسناد حماد بن
عیسی سے روایت سے کرتے ہیں ان کا بیان ہے کہ ایک بار حضرت امام جعفر صادقؑ نے
ان سے فرمایا: اے حماد! کیا تم نماز صحیح طریقہ سے پڑھ سکتے ہو؟ انہوں نے عرض کیا:
میرے مولا! مجھے تو نماز کے متعلق حُرَیز کا رسالہ یاد ہے! (ابو محمد، حریزبن عبد
اللہ سجستانی ازدی کوفی) فرمایا : میرے سامنے کھڑے ہو کر نماز پڑھو! چنانچہ حماد
بیان کرتے ہیں کہ میں نے روبقبلہ کھڑے ہو کر نماز شروع کی اور رکوع و سجود کے ساتھ
نماز پڑھی ۔ امام نے فرمایا: اے حماد! تو نے اچھی طرح نماز ادا نہیں کی ! پھر
فرمایا: کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ تم لوگوں کی ۶۰ یا ۷۰
سال عمر ہو جائے اور پھر بھی ۲
رکعت نماز صحیح ڈھنگ سے نہ پڑھ سکو! اور اس کے حدود و احکام کو اچھی طرح ادا نہ کر
سکو۔ حماد کہتے ہیں کہ امام کے اس کلام سے مجھے بڑی خجالت و شرمندگی محسوس ہوئی
اور میں نے عرض کیا: میں آپ پر قربان ہو جاؤں ! آپ مجھے نماز کی صحیح تعلیم دیں
! پس حضرت امام جعفر صادقؑ قبلہ رو ہو کر کھڑے ہو گئے اور اپنے دونوں ہاتھ کھلے
چھوڑ کر اپنے دونوں رانوں پر لٹکا دے اور ہاتھوں کی انگلیاں باہم ملا لیں اور اپنے
پاؤں کو اتنا ایک دوسرے کے قریب کیا کہ ان کے درمیان قریباً کھلی ۳ ؍انگلیوں کا فاصلہ رہ گیا اور پاؤں کی
انگلیوں کا رخ سیدھا قبلہ کی طرف کیا تب بڑے ہی خشوع و خشیت کے ساتھ کیا: اَللہُ
أَکبَر، پھر ترتیل (ٹھہر ٹھہر کر صحیح تلفّظ) کے ساتھ سورہ فاتحہ اور اس کے
بعد سورہ قل ہو اللہ احدپڑھی اور بقدر سانس لینے کے توقُّف فرمایا اس کے بعد ایسی
حالت میں کہ ہنوز سیدھے کھڑے تھے (رکوع کیلئے) منہ کے برابر ہاتھ اٹھا کر تکبیر
کہی۔ بعد از آن رکوع میں گئے اور اپنی دونوں ہتھیلیوں سے اپنے گھٹنوںکو مظبوطی سے
پکڑا درآن حالیکہ آپ کی انگلیاں کھلی تھیں اور اس طرح گھٹنوں کو پیچھے دبایاکہ
آپ کی پشت اس طرح سیدھی ہو گئی کہ اگر اس پر پانی یا تیل کا کوئی قطرہ گرایا جاتا
تو پشت کے بالکل سیدھے ہونے کی وجہ سے نیچے نہ گرتا (بلکہ وہیں ٹھہر جاتا) اس وقت
آنجناب نے اپنی گردن کو (آگے کی طرف) سیدھا تان لیا اور آنکھوں کو نیچے (پاؤں
کی طرف) جھکا لیا پھر ترتیل کے ساتھ ۳ بار کہا: سبُحَانَ رَبِّیَ العَظِیمِ وَ
بِحَمدِہٖ، اس کے بعد کھڑے ہوگئے ۔ جب اچھی طرح سیدھے کھڑے
ہوگئے تو کہا: سَمِعَ اللہُ لِمَن حَمِدَہٗ،
پھر وہیں کھڑے کھڑے کانوں تک ہاتھ بلند کر کے (سجدہ کیلئے) تکبیر کہی، پھر سجدہ میں
جھک گئے اور دونوں ہاتھوں کو پھیلا کر جبکہ ان کی انگلیاں باہم ملی ہوئی تھیں،
گھٹنوںکے آگے ، منہ کے بالمقابل رکھا اور ۳ ؍بار کہا:سبُحَانَ رَبِّیَ الأعلیٰ وَ
بِحَمدِہٖ اور اس حالت میں اپنے جسم کا کوئی حصہ
دوسرے کسی حصے پر نہ رکھا اور۸؍
اعضاء پر سجدہ کیا، ۲
؍ہتھیلیوں، ۲
؍گھٹنے، پاؤں کے ۲ ؍
انگوٹھوں ، پیشانی اور ناک اور (نماز کے بعد فرمایا)ان میں سے ۷ ؍اعضاء پر سجدہ فرض ہے جن کا خدا نے اس
آیت میں تذکرہ فرمایا ہے: و أنّ المساجد اللہ فلا تدعوا مع اللہ أحداًاور یہ
ہیں؛ پیشانی ، ۲
؍ہتھیلیاں اور پاؤں کے ۲ ؍انگوٹھے
باقی رہی ناک (جسے ارغام کہا جاتا ہے) تو اس کا زمین پر رکھنا سنت ہے۔ بعد از آن
سجدہ سے سر بلند کیا اور اور جب اچھی طرح سیدھے ہو کر بیٹھ گئے تو کہا: اَللہُ
أَکبَر، اور بیٹھے اس طرح کہ جسم کا بوجھ بائیں ران پر ڈالا اور دونوں پاؤں اس
طرح دائیں جانب نکالے کہ دائیںپاؤں کی پشت بائیں پاؤں کے تلوے پر تھی، تب کہا: أستَغفِرُ اللہَ رَبِّی وَ أَتُوبُ إِلَیہٖ،پھر
اسی حالت میں کہ جس طرح بیٹھے تھے ، (دوسرے سجدہ کیلئے) تکبیر کہی اور دوسرا سجدہ
کیا اور اس میں وہی تسبیح پڑھی جو پہلے سجدہ میں پڑھی تھی اور رکوع و سجود میں
اپنے جسم مبارک کا کوئی حصہ دوسرے پر نہیں رکھا اور سجدہ
میں کہنیوں کو زمین پر نہیں رکھا بلکہ ان کو جناح (پرندہ کے پر) کی طرح پھیلائے
رکھا! اسی طرح ۲؍
رکعت نماز پڑھی اور جب بیٹھ کر تشہد پڑھ رہے تھے تو دونوں ہاتھوںکی انگلیاں باہم
ملی ہوئی تھیں (اور ہاتھ رانوں کے اوپر تھے) جب تشہد پڑھ چکے (اور سلام پھیرا) تو
فرمایا: اے حماد! اس طرح نماز پڑھو۔ (الفروع ، الفقیہ ، الامالی)
1-7077 محمد
بن علي بن الحسين بإسناده عن حماد بن عيسى أنه قال: قال لي أبو عبدالله ؈ يوماً: تحسن أن تصلي يا حماد؟ قال: قلت: يا سيدي، أنا أحفظ
كتاب حريز في الصلاة (فيه تقرير لحفظ كتاب حُرَيز وروايته وما ذلك إلا للعمل
به، والتصريحات بذلك وأمثاله أكثر من أن تحصى، ويأتي جملة منها في كتاب القضاء
وغيره. (منه قده في هامش المخطوط).)، قال: فقال ؈: لا
عليك قم صل، قال: فقمت بين يديه متوجها إلى القبلة فاستفتحت الصلاة وركعت وسجدت،
فقال ؈: يا حماد، لا تحسن أن تصلي، ما أقبح بالرجل (في نسخة
الكافي: بالرجل منكم، (هامش المخطوط)) أن يأتي عليه ستون سنة أو سبعون سنة فما
يقيم صلاة واحدة بحدودها تامة؟! قال حماد: فأصابني في نفسي الذل فقلت: جعلت فداك
فعلمني الصلاة، فقام أبو عبدالله ؈
مستقبل القبلة منتصباً فأرسل يديه جميعاً على فخذيه قد ضم اصابعه وقرب بين قدميه
حتى كان بينهما ثلاثة أصابع مفرجات، واستقبل بأصابع رجليه جميعاً (في التهذيب:
جميعاً القبلة، (هامش المخطوط).) لم يحرفهما عن القبلة بخشوع واستكانة فقال:
اَللهُ أَكبَر، ثم قرأ أَلحَمدُ بترتيل، وقُل هُوَ اللهُ أَحَد، ثم صبر هنيئة
بقدر ما تنفس وهو قائم، ثم (في المصدر زيادة: رفع يديه حيال وجهه و.) قال: الله
أكبر وهو قائم، ثم ركع وملأ كفيه من ركبتيه مفرجات، ورد ركبتيه إلى خلفه حتى
استوى ظهره، حتى لو صب عليه قطرة ماء أو دهن لم تزل لاستواء ظهره وتردد (في
المصدر وفي نسخة من هامش المخطوط: ورد.) ركبتيه إلى خلفه، ونصب عنقه (في هامش
الاصل: ومد في عنقه.)، وغمض عينيه، ثم سبح ثلاثاً بترتيل وقال: سَمِعَ اللهُ لِمَن
حَمِدَه، ثم كبر وهو قائم، ورفع يديه حيال وجهه، وسجد، ووضع يديه إلى الأرض قبل
ركبتيه فقال: سَبحَانَ رَبِّيَ الأَعلىٰ وَبِحَمدِه ثلاث مرات، ولم يضع شيئاً من
بدنه على شيء منه، وسجد على ثمانية أعظم: الجبهة، والكفين، وعيني الركبتين،
وأنامل إبهامي الرجلين، والأنف، فهذه السبعة فيض، ووضع الأنف على الأرض سنة،
وهو الإرغام، ثم رفع رأسه من السجود فلما استوى جالساً قال: الله أكبر، ثم قعد
على جانبه الأيسر، ووضع ظاهر قدمه اليمنى على باطن قدمه اليسرى، وقال:
أَستَغفِرُ اللهَ رَبِّي وَأَتُوبُ إِلَيه، ثم كبر وهو جالس وسجد الثانية وقال
كما قال في الاولى ولم يستعن بشيء من بدنه على شيء منه في ركوع ولا سجود، وكان
مجنحاً، ولم يضع ذراعيه على الأرض، فصلى ركعتين على هذا، ثم قال: يا حماد، هٰكذا
صل، ولا تلتفت، ولا تعبث بيديك وأصابعك، ولا تبزق عن يمينك ولا (في نسخة: ولا عن،
(هامش المخطوط).) يسارك ولا بين يديك۔
ورواه في (المجالس) عن
أبيه، عن علي بن إبراهيم، عن أبيه، عن حماد بن عيسى، إلا أنه قال: وسجد ووضع
كفيه مضمومتي الأصابع بين ركبتيه حيال وجهه، وترك قوله: والأنف (أمالي الصدوق۱۳/ ۳۳۷.)۔ المصادر: الفقيه ۱/ ۱۹۶ و ۹۱۶، أورد قطعة منه في الحديث ۱ من الباب ۱۲ من أبواب القواطع.
02۔شیخ کلینی باسناد خود زرارہ سے اور وہ
حضرت امام محمد باقرؑسے روایت کرتے ہیں کہ آپؑ نے فرمایا: جب نماز کیلئے کھڑے ہو
تو پاؤں کو ایک دوسری سے نہ ملاؤ بلکہ ان کے درمیان کم از کم ایک انگلی اور
زیادہ سے زیادہ ایک بالشت کا فاصلہ رکھو اور کاندھوں کو ڈھیلا چھوڑ دو اور ہاتھوں
کو چھوڑ دو ان کے درمیان اور انگلیوں کو ایک دوسری میں نہ ڈالو اور انہیں گھٹنوں
کے بالمقابل رانوں کے اوپر رکھو اور اس حالت میں تمہاری نظر جائے سجدہ پر ہونی
چاہئے اور جب رکوع میں جاؤ تو دونوں پاؤں کے درمیان ایک بالشت کا فاصلہ رکھ کر
سیدھا رکھو اور دونوں ہتھیلیوں کو دونوں گھٹنوں پر دبا کر رکھو اور دائیں ہتھیلی
کو دائیں گھٹنے پر بائیں سے پہلے رکھو اور انگلیوں کو گھٹنے کی آنکھ تک پہونچاؤ
اور انہیں الگ الگ کر کے رکھو ، ویسے تو اتنا جھکنا کافی ہے کہ انگلیاںگھٹنوں تک پہونچ
جائیں، مگر مجھے یہ بات زیادہ پسند ہے کہ ہتھیلیوں کو گھٹنوں کے اوپر دبا کر رکھو
اور انگلیوں کو گھٹنے کی آنکھ پر الگ الگ کر کے رکھو اور پشت کو سیدھا رکھو اور
گردن کو آگے کی جانب بڑھاؤ اور اس حالت میں اپنی نگاہیں دونوں پاؤں کے درمیان
رکھو اور جب سجدہ میں جانا چاہو تو تکبیر کیلئے ہاتھ بلند کرو اور سجدہ میں گرجاؤ
اور گھٹنوں سے پہلے ہاتھ زمین پر رکھو اور اپنی کہنیاں اس طرح زمین پر پھیلا کر نہ
رکھو جس طرح شیر (یا درندہ) رکھتا اور نہ ہی کہنیوں کو اپنے گھٹنوں ، رانوں کے
اوپر رکھو بلکہ پرندہ کے پر کی طرح انہیں پھیلا کر رکھو اور سونوں ہتھیلیوں کو نہ
تو گھٹنوں سے ملاؤ اور نہ ہی ان کو چہرہ کے بالکل قریب لاؤ اور نہ ہی دونوں
گھٹنوں کے درمیان رکھو بلکہ ان سے قدرے الگ رکھو اور (کانوں کے لوؤں کے برابر)
پھیلا کر زمین رکھو اور اگر ان کے نیچے کپڑا ہو تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں! لیکن
اگر زمین کے اوپر رکھو تو افضل ہے اور سجدہ میں انگلیاں پھیلا کے نہ رکھو اور جب
تشہد میں بیٹھو تو دونوں گھٹنوں کو زمین سے ملا کر رکھو اور ان کے درمیان قدرے
فاصلہ رکھو اور چاہئے کہ (بطور تورُّک) اس طرح بیٹھو کہ تمہارے بائیں پاؤں کی پشت
زمین پر لگی ہوئی ہو اور دائیں پاؤں کی پشت بائیں پاؤں کے تلوے پر ہو اور تمہارے
سرین زمین پر ہوں اور تمہارے دائیں پاؤں کے انگوٹھے کا کنارہ زمین پر ہونا چاہئے!
خبردار ! قدموں کے اوپر (بطور اقعاء) نہ بیٹھنا کہ اس سے تمہیں اذیت ہوگی اور زمین
کے اوپر (آلتی پالتی مار کر) بھی نہ بیٹھنا اس طرح تمہارا بعض حصہ دوسرے بعض پر
ہوجائے گا جس کی وجہ سے تم تشہد اور دعا (و تعقیبات) کیلئے زیادہ دیر تک نہیں بیٹھ
سکو گے۔ (الفروع ، التہذیب)
7079
-3 محمد بن يعقوب، عن علي بن إبراهيم، عن أبيه، وعن محمد ابن
إسماعيل، عن الفضل بن شاذان، وعن محمد بن يحيى، عن أحمد بن محمد كلهم، عن حماد بن
عيسى، عن حريز، عن زرارة، عن أبي جعفر ؈ قال:
إذا قمت في الصلاة فلا تلصق قدمك بالاخرى دع بينهما فصلاً إصبعاً أقل ذلك إلى شبر
أكثره، وأسدل منكبيك، وأرسل يديك، ولا تشبك أصابعك، وليكونا على فخذيك قبالة
ركبتيك، وليكن نظرك إلى موضع سجودك، فاذا ركعت فصف في ركوعك بين قدميك تجعل بينهما
قدر شبر، وتمكن راحتيك من ركبتيك، وتضع يدك اليمنى على ركبتك اليمنى قبل اليسرى،
وبلع أطراف أصابعك عين الركبة، وفرج أصابعك إذا وضعتها على ركبتيك فان (في
المصدر: فاذا.) وصلت أطراف أصابعك في ركوعك إلى ركبتيك أجزأك ذلك، وأحب إلي
أن تمكن كفيك من ركبتيك فتجعل أصابعك في عين الركبة وتفرج بينهما، وأقم صلبك
ومد عنقك، وليكن نظرك إلى بين قدميك، فإذا أردت أن تسجد فارفع يديك بالتكبير وخر
ساجداً وابدأ بيديك فضعهما (في التهذيب: تضعهما، (هامش المخطوط).) على الأرض قبل
ركبتيك تضعهما معاً ولا تفترش ذراعيك افتراش السبع (كتب المصنف: (الاسد) ثم شطب
عليه وكتب (السبع) عن التهذيب في الهامش.) ذراعيه، ولا تضعن ذراعيك على ركبتيك
وفخذيك، ولكن تجنح بمرفقيك، ولا تلزق (في المصدر: تلصق.) كفيك بركبتيك، ولكن
تحرفهما عن ذلك شيئاً، وابسطهما على الأرض بسطاً، واقبضهما إليك قبضاً، وإن كان
تحتهما ثوب فلا يضرك، وإن أفضيت بهما إلى الأرض فهو أفضل، ولا تفرجن بين
أصابعك في سجودك، ولكن ضمهن جميعاً قال: وإذا قعدت في تشهدك فألصق ركبتيك
بالأرض وفرج بينهما شيئاً، وليكن ظاهر قدمك اليسرى وأليتاك على الأرض، وأطراف
(في التهذيب: طرف، (هامش المخطوط).) إبهامك اليمنى على الأرض، وإياك والقعود على
قدميك فتتأذى بذلك، ولا تكون (في نسخة: تكن، (هامش المخطوط).) قاعداً على الأرض
فيكون إنما قعد بعضك على بعض فلا تصبر للتشهد والدعاء۔ ورواه الشيخ بإسناده
عن محمد بن يعقوب، مثله (التهذيب۲/
۸۳/ ۳۰۸.)۔ المصادر: الكافي ۳/ ۳۳۴/ ۱، أورد قطعة منه أيضاً
في الحديث ۱ من
الباب ۵ من
أبواب ما يسجد عليه، وصدره في الحديث ۲ من الباب ۱۷ من أبواب القيام، وقطعة منه
في الحديث ۱ من
الباب ۲۸ من
أبواب الركوع.
03۔نیز زرارہ ان ہی حضرتؑ سے روایت کرتے
ہیںفرمایا: جب عورت نماز پڑھنے کیلئے کھڑی ہو تو اپنے دونوں قدموں کو باہم ملا کر
رکھے اور ان کے درمیان فاصلہ نہ رکھے اور اپنے دونوں ہاتھوں کو سینہ پر اپنے
پستانوں کے اوپر رکھے اور جب رکوع میں جائے تو اپنے ہاتھوں کو گھٹنوں کے اوپر
رانوں پر رکھے تا کہ زیادہ نہ جھکے جس کی وجہ سے اس کے سرین اوپر اٹھ جائیں اور جب
(تشہد کیلئے) بیٹھے تو مرد کی طرح نہ بیٹھے بلکہ سرینوں کے اوپر بیٹھے اور جب سجدہ
کیلئے جھکے تو (مرد کے برعکس) پہلے گھٹنے زمین پر رکھے، بعد از آن ہاتھ اور جب
سجدہ کرے تو زمین سے چمٹ جائے (اور پھر پھیل نہیں بلکہ سمٹ کر سجدہ کرے) اور جب
(دونوں سجدوں کے درمیان یا تشہد میں) بیٹھے تو دونوں رانوں کو ملا کر اور گھٹنوں
کو اٹھا کر (سرینوں پر) بیٹھے اور جب اٹھنا چاہے تو (مرد کی طرح ہاتھ زمین پر رکھ
کر اور پہلے پیچھا اٹھا کر نہ اٹھے بلکہ) پہلے گھٹنے اٹھا کر اٹھ کھڑی ہو اور پہلے
سرین نہ اٹھائے۔ (الفروع ، التہذیب ، العلل)
7080
-4 وبهده الأسانيد عن حماد بن عيسى، عن حريز، عن زرارة قال: إذا قامت المرأة في
الصلاة جمعت بين قدميها، ولا تفرج بينهما، وتضم يديها إلى صدرها لمكان ثدييها،
فإذا ركعت وضعت يديها فوق ركبتيها على فخذيها لئلا تطأطأ كثيراً فترتفع عجيزتها،
فإذا جلست فعلى أليتيها، ليس (كلمة (ليس) لم ترد في التهذيب (هامش المخطوط).) كما
يجلس (في المصدر: يقعد.) الرجل، وإذا سقطت للسجود بدأت بالقعود وبالركبتين قبل اليدين
ثم تسجد لاطئة (لاطئة بالأرض: أي لازقة بها. (مجمع البحرين ۱/ ۳۷۵).) بالأرض،
فإذا كانت في جلوسها ضمت فخذيها ورفعت ركبتيها من الأرض، وإذا نهضت انسلت
انسلالاً لا ترفع عجيزتها أولاً۔
ورواه الشيخ بإسناده عن
محمد بن يعقوب بالإسناد الأول عن حماد، مثله، إلا أنه أسقط لفظ ليس من قوله:
ليس كما يقعد الرجل (التهذيب۲/ ۹۴/
۳۵۰.)۔ ورواه الصدوق في (العلل) عن أبيه، عن سعد بن عبدالله، عن محمد
ابن إسماعيل، عن عيسى بن محمد، عن محمد بن أبي عمير، عن حماد بن عيسى، عن حريز،
عن زرارة بن أعين، عن أبي جعفر ؈، مثله
(علل الشرائع ۱/ ۳۵۵ ـ الباب ۶۸.)۔ المصادر: التهذيب ۲/
۳۳۵/ ۲
04۔نیز زرارہ حضرت امام محمد باقرؑ سے
روایت کرتے ہیں فرمایا: جب نماز کیلئے کھڑے ہو تو تم پر توجہ لازم ہےکیونکہ نماز
میں سے تمہارے لئے وہی حصہ ہے جو تم توجہ سے ادا کرو گے اور نماز میں ہاتھوں سے،
سر سے اور ڈاڑھی سے بازی (کھیل) نہ کرو اور دل میں خیالات کو جگہ نہ دو، نہ جماہی
لو اور نہ انگڑائی اور نماز میں ہاتھ نہ باندھو کیونکہ یہ مجوسیوں کا طریقہ ہے۔
[اس حدیث سے اس واقعہ کی تصدیق ہوتی ہے کہ اسلام میں پہلی بار دوسرے اسلامی دور
خلافت میں نماز میں ہاتھ باندھنے کا آغاز ہوا یعنی جب بمقام قادسیہ مسلمانوں کی
اہل ایران سے جنگ ہوئی جو کہ مجوسی تھے اور پھر خدا نے مسلمانوں کو فتح عطا فرمائی
تو کچھ مخالفین تو میدان جنگ میں مارے گئے اور کچھ قید کر لئے گئے ، جب یہ قیدی
مدینہ میں دربار خلافت میں پیش کئے گئے تو انہوں نے اپنی رسم کے مطابق گردنیں
جھلائی ہوئی تھیں اور ہاتھ بندھے ہوئے تھے ..... خلیفہ صاحب کو ان کی یہ ادا پسند
آگئی اور حکم دیا کہ مسلمان بھی اسی عقیدت کے ساتھ خدا کی بارگاہ میں حاضر ہوں۔]
(بحوالہ الوائل ابو ہلال عسکری) اورمنہ پر کپڑا نہ لپیٹو اور سکڑ کر نہ بیٹھو اور
نہ اس طرح سجدہ کرو بلکہ اونٹ کی طرح پھیل کر بیٹھو اور قدموں کے اوپر (بطور
اقعاء) نہ بیٹھو اور (سجدہ میں) کہنیوں کو زمین پر نہ پھیلاؤ اور انگلیوں کے
گٹکارے نہ نکالو کیونکہ ان تمام باتوں سے نماز (کی فضیلت) میں کمی واقع ہوتی ہے
(کیونکہ یہ چیزیں مکروہ ہیں) اور سستی ، سہل انگیزی اور اونگھتے ہوءے بوجھل بن کر
نماز کیلئے کھڑے نہ ہو کہ یہ منافقت کی علامت ہے کیونکہ خدا نے اہل ایمان کو نشہ
کی حالت میں نماز پڑھنے کی ممانعت کی ہے اس نشہ سے مراد نیند کا نشہ ہے اور
منافقوں کے متعلق فرمایا کہ وہ جن نماز کیلئے کھڑے ہوتے ہیں تو سہل انگیزی کے ساتھ
محض لوگوں کو دکھانے کیلئے اللہ کا ذکر تو وہ بہت ہی کم کرتے ہیں۔ (الفروع ،
علل)
7081
-5 وبالإسنادين الأولين عن حماد، عن حريز، عن زرارة، عن أبي جعفر ؈ قال: إذا قمت إلى الصلاة فعليك بالاقبال على صلاتك فانما (في نسخة
زيادة: يحسب (هامش المخطوط).) لك منها ما أقبلت عليه، ولا تعبث فيها بيديك ولا
برأسك ولا بلحيتك، ولا تحدث نفسك، ولا تتثاءب، ولا تتمط، ولا تكفر (التكفير في
الصلاة: هو الانحناء الكثير حال القيام قبل الركوع قال في النهاية، والتكفير
أيضاً وضع احدى اليدين على الاخرى. (مجمع البحرين ۳/ ۴۷۷).) فانما
يفعل ذلك المجوس، ولا تلثم (لا تلثم ولا تحتفز: أي لا تتضام في سجودك بل تتخوى
كما يتخوى البعير الضامر وهكذا عكس المرأة فانها تحتفز في سجودها ولا تتخوى،
وقولهم: هو محتفز أي مستعجل متوفز غير متمكن في جلوسه كأنه يريد القيام. (مجمع
البحرين ۴/ ۱۶).)، ولا
تحتفز، و (في المصدر: ولا.) تفرج كما يتفرج البعير، ولا تقع على قدميك، ولا تفترش
ذراعيك، ولا تفرقع أصابعك، فان ذلك كله نقصان من الصلاة، ولا تقم الى الصلاة
متكاسلاً ولا متناعساً ولا متثاقلاً فانها من خلال النفاق، فان الله سبحانه نهى
المؤمنين أن يقوموا إلى الصلاة وهم سكارى، يعني سكر النوم، وقال للمنافقين: وإذا
قاموا إلى الصلاة قاموا كسالى يراؤن الناس ولا يذكرون الله إلا قليلاً (سورۃ
النساء ۴/ ۱۴۲.)۔
المصادر: الكافي ۳/ ۲۹۹/ ۱، وأورد قطعة منه في الحديث ۲ من الباب ۱۱ من أبواب القواطع
05۔نیز شیخ کلینی باسناد خود معاویہ بن
عمار سے اور وہ امام جعفر صادقؑ سے روایت کرتے ہیں فرمایا: حضرت رسولخداؐ کی خدمت
میں دو شخص حاضر ہوئے ، ایک انصاری تھا اور دسرا ثقفی ۔ ثقفی نے کہا: اے اللہ کے
رسولؐ! مجھے آپ سے ایک کام ہے! آنحضرتؐ نے اس سے فرمایا: تمہارا انصاری بھائی تم
سے پہلے آیا ہے!(یعنی پہلے اسے بات کرنے کا حق ہے) ثقفی نے کہا: اے اللہ کے رسولؐ
! میں سفر کی حالت میں ہوں اور بہت جلدی میں ہوں!اس پر انصاری نے کہا کہ میں اسے
اجازت دیتا ہوں! تب آنحضرتؐ نےاس سے کہا: چاہو تو تم سوال کرو اور چاہوتو میں
تمہیں بتادوں؟ اس نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ! آپ خود ہی بتا دیں۔ فرمایا: تو
نماز ، وضو اور سجدہ کے متعلق سوال کرنے آیا ہے،اس شخص نے کہا: ہاں اس خدا کی قسم
جس نے آپ کو مبعوث بحق کیا! فرمایا: کامل وضو کرو ..... اور اپنے ہاتھوں سے
گھٹنوں کو مضبوطی سے پکڑواور اپنی پیشانی کو خاک پر رگڑو..... اور اس طرح نماز
پڑھو جس طرح کوئی شخص اپنی زندگی کی آخری نماز پڑھتا ہے۔ (الفروع ، اربعین
الشہید)
7083
-7وعن علي بن إبراهيم، عن أبيه، وعن محمد بن إسماعيل، عن الفضل بن شاذان جميعاً،
عن ابن أبي عمير، عن معاوية بن عمار، عن أبي عبدالله ؈ قال: أتى النبي ﷺ رجلان رجل من الأنصار ورجل من ثقيف، فقال
الثقفي: يا رسول الله حاجتي، فقال: سبقك أخوك الأنصاري، فقال: يا رسول الله، إني
على سفر وإني عجلان، وقال الأنصاري: إني قد أذنت له، فقال: إن شئت سألتني وإن
شئت أنبأتك، قال: أنبئني يا رسول الله، فقال: جئت تسألني عن الصلاة، وعن
الوضوء، وعن السجود، فقال الرجل: إي والذي بعثك بالحق، فقال: أسبغ الوضوء، واملأ
يديك من ركبتيك، وعفر جبينيك في التراب، وصل صلاة مودع، الحديث۔ المصادر: الكافي ۴/ ۲۶۱/ ۳۷،
وأورد ذيله في الحديث ۱۶ من الباب ۲ من أبواب أقسام الحج.
06۔شیخ طوسی باسناد خود ابو بصیر سے اور
وہ حضرت امام جعفر صادقؑ سے روایت کرتے ہیں فرمایا:جب نماز کی طرف متوکہ ہو تو یہ
یقین سمجھو کہ تم پروردگار کی بارگاہ میں حاضر ہو اور اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے تو
یہ یقین رکھو کہ وہ ہر حال تمہیں دیکھ رہا ہے! نماز کی طرف پوری توجہ کرو کہ اس سے
تمہاری نماز قبول ہوجائے گی، نہ ناک صاف کرو، نہ تھوکو اور نہ ہی انگلیوں کے
گٹکارے نکالو اور سرینوں کے بل نہ بیٹھو کیونکہ ایک گروہ کو محض نماز میں گٹکارے
نکالنے اور سرین پر بیٹھنے کی وجہ سے عذاب کیا گیا تھا اور جب رکوع سے سر اٹھاؤ
تو کمر سیدھی کرو۔ یہاں تک کہ تمہارے جوڑ اپنے مقام پر لوٹ آئیں اور جب سجدہ کرو
(اور اس سر اٹھاؤ تو) تو اسی طرح سیدھے ہو کر بیٹھو (کہ جوڑ اپنے مقام پر
آجائیں) اور جب پہلی اور دوسری رکعت کے سجدہ سے سر اٹھاؤتو اس طرح مکمل طریقہ پر
بیٹھو کہ تمہارے جوڑ اپنے مقام پر لوٹ آئیں اور جب اٹھو تو کہو: بِحَولِ اللهِ
وَقُوَّتِهٖ أَقُومُ وَأَقعُد،کیونکہ حضرت علیؑ ایسا ہی کیا کرتے تھے۔ (التہذیب)
7085
-9محمد بن الحسن بإسناده عن أحمد بن محمد، عن علي بن الحكم، عن داود الخندقي، عن
أبي بصير قال: قال أبو عبدالله ؈: إذا
قمت في الصلاة فاعلم أنك بين يدي الله، فان كنت لا تراه فاعلم أنه يراك، فأقبل
قبل صلاتك، ولا تمتخط ولا تبزق، ولا تنقض أصبعك، ولا تورك، فان قوماً قد عذبوا
بنقض الأصابع والتورك في الصلاة، وإذا رفعت رأسك من الركوع فأقم صلبك حتى ترجع
مفاصلك، وإذا سجدت فاقعد (في المصدر: فافعل.) مثل ذلك وإذا كان (في المصدر: كنت.)
في الركعة الاولى والثانية فرفعت رأسك من السجود فاستتم جالساً حتى ترجع مفاصلك،
فاذا نهضت فقل: بحول الله وقوته أقوم وأقعد، فان علياً ؈ هٰكذا كان يفعل۔ المصادر: التهذيب ۲/ ۳۲۵/ ۱۱۳۲.
07۔شیخ صدوق اور شیخ کلینی باسناد خود
محمد بن نعمان احول اور عمر بن اذنیہ سے اور وہ حضرت امام جعفر صادقؑ سے روایت
کرتے ہیں کہ آپ نے ایک طویل حدیث کے ضمن میں فرمایا کہ جب خداوند عالم حضرت
رسولخداؐ کو معراج پر لے گیا تو وہاں پر جبرئیلؑ نے اذان دی اور کہا:
اَللهُ
أَكبَر، اَللهُ أَكبَر، أَشهَدُ أَن لَّا إِلٰهَ إِلَّا الله، أَشهَدُ أَن
لَّا إِلٰهَ إِلَّا الله، أَشهَدُ أَنَّ مُحَمَّداً رَّسُولُ اللهِ ﷺ، أَشهَدُ
أَنَّ مُحَمَّداً رَّسُولُ اللهِ ﷺ، حَيَّ عَلىٰ الصَّلَاةِ، حَيَّ عَلىٰ الصَّلَاةِ،
حَيَّ عَلىٰ الفَلَاحِ، حَيَّ عَلىٰ الفَلَاحِ، حَيَّ عَلىٰ خَيرِ العَمَلِ، حَيَّ
عَلىٰ خَيرِ العَمَلِ، قَد قَامَتِ الصَّلَاةُ، قَد قَامَتِ الصَّلَاةُ
بعد از آن خدا نے آپؐ سے فرمایا: اے
محمدؐ! حجر اسود کی طرف منہ کرو اور میرے حجابوں کی تعداد کے مطابق میری تکبیر
(بڑائی بیان) کرو اس لئے (نماز کی ابتداء میں سات تکبیریں مقرر ہوئیں کیونکہ حجاب ۷ ہیں اور جب حجاب ختم ہوں تو قرائت کی
ابتداء کرو اس لئے تکبیر سے افتتاح کرنا سنت قرار پایا اور حجاب اس نور کے مطابق
ہیںجو آنحضرتؐ پر ۳؍
بار نازل کیا گیا۔ اس لئے افتتاح بھی ۳ ؍ بار مقرر ہوا۔ چنانچہ ان وجوہ کی بنا پر تکبیریں ۷ اور افتتاح ۳ مقرر ہوئے۔ جب آنحضرتؐ تکبیر اور
افتتاح سے فارغ ہوئے تو خدانے فرمایا: اب آپ مجھ تک پہونچ گئے ہیں لہذا میرا نام
لیں (بسم اللہ پڑھیں) چنانچہ آپؐ نے پڑھا: بِسمِ اللهِ الرَّحمٰنِ الرَّحِيمِ، اس
لئے بسم اللہ کو سورہ کی ابتداء میں رکھا گیا۔ پھر فرمایا: اب میری حمد کرو تو
آنحضرتؐ نے کہا: اَلحَمدُ لِلهِ رَبِّ العَالَمِينَ ، یہ کہہ کر حضرت رسولخداؐ نے
دل میں خدا کا شکر ادا کیا۔ خدا نے فرمایا: اے محمدؐ! آپ نے میری حمد قطع کر دی
لہذا اب میرا نام لیں ۔ اس لئے سورہ حمد میں الرَّحمٰنِ الرَّحِیمِ مقرر کیا گیا۔
جب آپ وَ لَا الضَّالِّینَ ،تک پہونچے تو آپؐ نے بطور شکر کہا: اَلحَمدُ لِلهِ
رَبِّ العَالَمِينَ ، پھر عزیز و جبار نے کہا: آپؐ نے میری حمد قطع کر دی اس لئے
پھر میرا نام لیں، اس لئے حمد لے بعد اور دوسری سورہ سے پہلے : بِسمِ اللهِ
الرَّحمٰنِ الرَّحِيمِ، مقر رہوئی ۔ ارشاد ہوا پڑھو: قُل هُوَ اللهُ أَحَدٌ ، جس
طرح میں نے نازل کی ہے کیونکہ یہ میری نسبت بھی ہے اور نعمت بھی۔ اس کے بعد اپنے
ہاتھوں کو نیچے جھکاؤ اور گھٹنوں پر رکھو اور میرے عرش کی طرف نگاہ کرو۔حضرت
رسولخداؐ بیان کرتے ہیں کہ جب میں نے اس کی عظمت پر نگاہ کی تو میرے ہوش جاتے رہے
اور مجھ پر غشی کی کیفیت طاری ہو گئی۔ اس حالت میں مجھے الہام ہوا اور میں نے کہا:
سُبحَانَ رَبِّیَ العَظِیمِ وَ بِحَمدِہٖ، پس جب میں نے یہ کہا تو میری غشی کی کیفیت
دور ہوگئی۔ یہاں تک کہ میں نے یہ ذکر ۷؍ بار کہا۔ اس سے میرے ہوش و حواس بحال ہو گئے ، اس لئے رکوع میں
سُبحَانَ رَبِّیَ العَظِیمِ وَ بِحَمدِہٖکی تسبیح مورر کی گئی۔ ارشاد ہوا: سر بلند
کرو چنانچہ میں نے سر بلند کیا اور میں نے کوئی ایسی عظیم چیز دیکھی جس سے میری
عقل جاتی رہی۔ اس وقت میں نے زمین کی طرف منہ کیا اور ہاتھ بھی نیچے کئے اس وقت
مجھے یہ کہنے کا الہام ہوا: سُبحَانَ رَبِّیَ الأَعلیٰ وَ بِحَمدِہٖ، چنانچہ میں
نے ۷؍ بار یہ تسبیح
پڑھی اس سے میری عقل واپس لوٹ آئی اور جب بھی ایک بار یہ تسبیح پڑھی تو میری غشی
کی کیفیت زائل ہوگئی اور میں اٹھ کر بیٹھ گیا اس لئے سجدہ میں یہ تسبیح مقرر ہوئی
اور ۲سجدوں کے
درمیان بیٹھنا راحت و آرام کا باعث قرار پایا۔ اس وقت خدا نے مجھ سے تقاضاکیا کہ
سر بلند کروچنانچہ جب میں نے ایسا کیا تو پھر میں نے اس کی عظمت و بلندی کا مشاہدہ
کیا کہ جس سے مجھ پر غشی کی کیفیت طاری ہو گئی اور سجدہ میں گر گیا اور منہ اور
ہاتھوں سے زمین کا استقبال کیا اور سجدہ میں ۷ بار کہا: سُبحَانَ رَبِّیَ الأَعلیٰ وَ بِحَمدِہٖ،پھر سر اٹھایا
اور کھڑا ہونے سے پہلے قدرے بیٹھا تا کہ دوبارہ اس بلندی کا مشاہدہ کروں، اس لئے
ایک ر کعت میں ۲؍
سجدے مقرر ہوئے اور اس لئے قیام سے پہلے مختصر قعدہ مقرر ہوا ، بعد از آن میں (
دوسری رکعت کیلئے) کھڑا ہوا۔ ارشاد ہوا: اے محمدؐ! سورہ حمد کی تلاوت کرو،چنانچہ
میں نے حسب سابق اس کی تلاوت کی، پھر فرمایا: اب اس کے بعد سورہ إِنَّا أَنزَلنَاہُ
پڑھو، کیونکہ یہ سورہ قیامت تک تمہاری اور تمہارے اہلبیت کی نسبت ہے، پھر رکوع میں
گیا اور رکوع و سجود میں وہی تسبیح پڑھی جو پہلی رکعت میں پڑھی تھی اور چاہا کہ
کھڑا ہوں کہ خدا نے فرمایا: اے محمدؐ! اپنے اوپر میری نعمتوں کا تذکرہ کرو اور
میرا نام لو، چنانچہ مجھے الہام ہوا اور میں نے اس وقت (تشہد میں) یہ کہا: بِسمِ
اللهِ وَ بِاللہِ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ وَ الأَسمَاءُ الحُسنیٰ کُلُّہَا لِلہ،
پھر فرمایا : اے محمدؐ! اپنے اوپر اور اپنے اہلبیتؑ پر درود و سلام پڑھو۔ چنانچہ
میں نے کہا: صَلّیٰ اللہُ عَلَیَّ وَ عَلیٰ أَہلَبَیتِی، چنانچہ خدا نے ایسا کیا
(یعنی اپنی رحمت نازل فرمائی) پس اس وقت جب میں نے دائیں طرف توجہ کی تو دیکھا کہ
ملائکہؑ اور انبیاءؑ و مرسلینؑ کی کئی صفیں موجود ہیں۔ خدا نے فرمایا: اے
محمدؐ!سلام کرو، تب میں نے کہا: اَلسَّلَامُ عَلَیکُم وَ رَحمَۃُ اللہِ وَ
بَرَکَاتُہٗ، خدا نے فرمایا: اے محمدؐ! سلام میں ہوں اور تحیت ، رحمت اور برکت آپ
اور آپ کی ذریت ہے! بعداز آن خدا نے مجھے حکم دیا کہ میں بائیں طرف ملتفت نہ
ہوں۔ فرمایا: وہ پہلی سورہ قُل هُوَ اللهُ أَحَدٌ ،کے بعد میں نے سنی
وہ إِنَّا أَنزَلنَاہُ فِی لَیلَۃِ القَدرِ ، تھی اس لئے قبلہ کی جانب ایک
سلام مقرر ہوا اور اس لئے رکوع و سجود میں بطور شکر تسبیح مقرر ہوئی اور
سَمِعَ اللہُ لِمَن حَمِدَہٗ کی وجہ یہ ہوئی کہ جب آنحضرتؐ نے ملائکہ کا
شور و غل سنا تو کہا: سَمِعَ اللہُ لِمَن حَمِدَہٗ، اس لئے نماز کی پہلی دو رکعتیں
اس قدر اہم ٹھہریں کہ اگر ان میں کوئی حدث صادر ہو جائے تو ان کا اعادہ واجب
ہوجاتا ہے یہی پہلا فریضہ ہے جو زوال آفتاب کے وقت فرض ہوا یعنی نماز ظہر
.....
مولف علام فرماتے ہیں کہ شیخ کلینی نے بھی
یہ روایت اسی طرح نقل کی ہے ۔ ہاں البتہ اس میں اس قدر فرق ہے کہ خدا نے وحی
فرمائی کہ اے محمدؐ! اپنے پروردگار کیلئے رکوع کرو، جب آپ نے رکوع کیا تو وحی
ہوئی ، پڑھو: سُبحَانَ رَبِّيَ العَظِيمِ وَبِحَمدِهٖ، چنانچہ آپ نے ۳؍ بار یہ تسبیح پڑھی ، پھر وحی ہوئی اے
محمدؐ! سر اٹھاؤ ..... پس آپ سیدھے کھڑے ہو گئے۔ حکم ہوا اب اپنے پروردگار کیلئے
سجدہ کرو،چنانچہ آپ سجدہ میں گر گئے ،خدا نے وحی فرمائی کہ کہو: سُبحَانَ رَبِّيَ
الأَعلیٰ وَبِحَمدِهٖ، چنانچہ آپ نے ۳؍ بار یہ تسبیـح پڑھی۔(علل الشرائع ، الفروع)
-7086 -10محمد بن علي بن الحسين في
(العلل) عن أبيه، ومحمد بن الحسن بن أحمد بن الوليد، عن سعد بن عبدالله، عن محمد
بن عيسى، عن محمد بن أبي عمير ومحمد بن سنان جميعاً، عن الصباح المزني (في
المصدر: السدي.)، وسدير الصيرفي، ومحمد بن النعمان مؤمن الطاق، وعمر بن اذينة
كلهم، عن أبي عبد الله ؈۔
وعن محمد بن الحسن، عن الصفار،
وسعد جميعاً، عن محمد بن الحسين بن أبي الخطاب، ويعقوب بن يزيد، ومحمد بن عيسى
جميعاً، عن عبدالله بن جبلة، عن الصباح المزني، وسدير الصيرفي، ومحمد بن نعمان
الأحوال، وعمر بن اذينة، عن أبي عبدالله ؈ـ في
حديث طويل ـ قال: إن الله عرج بنبيه ﷺ فأذن جبرئيل فقال: الله أكبر، الله أكبر،
أشهد أن لا إله إلا الله، أشهد أن لا إله إلا الله، أشهد أن محمداً رسول
الله ﷺ، أشهد أن محمداً رسول الله ﷺ، حي على الصلاة، حي على الصلاة، حي على
الفلاح، حي على الفلاح، حي على خير العمل، حي على خير العمل، قد قامت الصلاة، قد
قامت الصلاة، ثم إن الله عز وجل قال: يا محمد، استقبل الحجر الأسود (وهو بحيالي)
(ليس في الكافي (هامش المخطوط).) وكبرني بعدد حجبي، فمن أجل ذلك صار التكبير
سبعاً، لأن الحجب سبعة، وافتتح (القراءة) (ليس في الكافي (هامش المخطوط).) عند
انقطاع الحجب فمن أجل ذلك صار الإفتتاح سنة، والحجب مطابقة ثلاثاً بعدد النور
الذي نزل على محمد ﷺ ثلاث مرات، فلذلك كان الافتتاح ثلاث مرات، فلأجل ذلك كان
التكبير سبعاً والافتتاح ثلاثاً (في نسخة: ثلاث مرات (هامش المخطوط).)، فلما فرغ
من التكبير والافتتاح قال الله عز وجل: الآن وصلت إلي فسم باسمي، فقال: بسم الله
الرحمن الرحيم، فمن أجل ذلك جعل بسم الله الرحمن الرحيم في أول السورة، ثم قال
له: احمدني، فقال: الحمد لله رب العالمين، وقال النبي ﷺ في نفسه: شكراً، فقال الله
عز وجل: يا محمد، قطعت حمدي فسم باسمي، فمن أجل ذلك جعل في الحمد الرحمان الرحيم
مرتين، فلما بلغ ولا الضالين، قال النبي ﷺ: الحمد لله رب العالمين شكراً، فقال
الله العزيز الجبار: قطعت ذكري فسم باسمي، فمن أجل ذلك جعل بسم الله الرحمن
الرحيم بعد الحمد في استقبال السورة الاخرى، فقال له: اقرأ قل هو الله أحد كما
انزلت فإنها نسبتي ونعتي، ثم طأطىء يديك واجعلهما على ركبتيك فانظر الى عرشي، قال
رسول الله ﷺ: فنظرت إلى عظمة ذهبت لها نفسي وغشي علي فالهمت أن قلت: سبحان ربي
العظيم وبحمده لعظم ما رأيت، فلما قلت ذلك تجلى الغشي عني حتى قلتها سبعاً الهم
ذلك فرجعت إلي نفسي كما كانت، فمن أجل ذلك صار في الركوع سبحان ربي العظيم
وبحمده، فقال: ارفع رأسك فرفعت رأسي فنظرت إلى شيء ذهب منه عقلي فاستقبلت الأرض
بوجهي ويدي فالهمت أن قلت: سبحان ربي الأعلى وبحمده لعلو ما رأيت فقلتها سبعاً،
فرجعت إلي نفسي وكلما قلت واحدة منها تجلى عني الغشي فقعدت فصار السجود فيه سبحان
ربي الأعلى وبحمده، وصارت القعدة بين السجدتين استراحة من الغشي وعلو ما رأيت،
فألهمني ربي عز وجل وطالبتني نفسي أن أرفع رأسي فرفعت فنظرت إلى ذلك العلو
فغشي علي فخررت لوجهي واستقبلت الأرض بوجهي ويدي وقلت: سبحان ربي الأعلى وبحمده فقلتها
سبعاً، ثم رفعت رأسي فقعدت قبل القيام لاثني النظر في العلو، فمن أجل ذلك صارت
سجدتين وركعة، ومن أجل ذلك صار القعود قبل القيام قعدةً خفيفةً، ثم قمت فقال: يا
محمد، اقرأ الحمد، فقرأتها مثل ما قرأتها أولاً، ثم قال لي: اقرأ إنا
أنزلناه فإنها نسبتك ونسبة أهل بيتك إلى يوم القيامة، ثم ركعت فقلت في الركوع
والسجود مثل ما قلت أولاً، وذهبت أن أقول فقال: يا محمد، اذكر ما أنعمت عليك
وسم باسمي، فألهمني الله أن قلت: بسم الله وبالله لا إله إلا الله والأسماء
الحسنى كلها لله، فقال لي: يا محمد، صل عليك وعلى أهل بيتك، فقلت: صلى الله علي
وعلى أهل بيتي وقد فعل، ثم التفت فإذا أنا بصفوف من الملائكة والنبيين والمرسلين
فقال لي: يا محمد، سلم، فقلت: السلام عليكم ورحمة الله وبركاته، فقال: يا محمد،
إني أنا السلام والتحية والرحمة، والبركات أنت ذريتك، ثم أمرني ربي العزيز
الجبار أن لا ألتفت يساراً، وأول سورة سمعتها بعد قل هو الله أحد، إنا
أنزلناه في ليلة القدر، فمن أجل ذلك كان السلام مرة واحدة تجاه القبلة، ومن أجل
ذلك صار التسبيح في الركوع والسجود شكراً، وقوله سمع الله لمن حمده لأن النبي ﷺ
قال: سمعت ضجة الملائكة فقلت: سمع الله لمن حمده بالتسبيح والتهليل، فمن أجل ذلك
جعلت الركعتان الأولتان كلما حدث فيهما حدث كان على صاحبهما إعادتهما وهي الفرض
الأول وهي أول ما فرضت عند الزوال، يعني صلاة الظهر۔
ورواه الكليني، عن علي بن
إبراهيم، عن أبيه، عن ابن أبي عمير، عن عمر بن اذينة، عن أبي عبدالله ؈، نحوه، إلا أنه قال: فأوحى الله إليه: اركع لربك يا محمد، فركع،
فأوحى الله إليه، قل: سبحان ربي العظيم، ففعل ذلك ثلاثاً، ثم أوحى الله إليه أن
ارفع رأسك يا محمد، ففعل فقام منتصباً، فأوحى الله إليه أن اسجد لربك يا محمد، فخر
رسول الله ﷺ ساجداً فأوحى الله إليه، قل: سبحان ربي الأعلى وبحمده، ففعل ذلك
ثلاثاً (الكافي ۳/ ۴۸۲ و ۴۸۵/ ۱.)۔ المصادر: علل الشرائع ۱/ ۳۱۲ـ الباب ۱، وأورد قطعة منه في الحديث ۵ من الباب ۱۵ من أبواب الوضوء.
08۔اسحاق بن عمار بیان کرتے ہیں کہ میں نے
حضرت امام موسی کاظمؑ سے سوال کیا کہ نماز کی ایک رکعت میں ۲ سجدے کس طرح مقرر کئے گئے اور کس طرح ۲ سجدے دو رکعتوں میں مقرر نہ کئے گئے ؟
امامؑ نے فرمایا: جب تم نے کسی چیز بارے میں سوال کیا ہے تو اپنے دل کو خالی کرو
تا کہ جواب کو سمجھ سکو! سب سے پہلی نماز جو حضرت رسولخداؐ نے پڑھی وہ وہی تھی جو
آپ نے خدا کے حضور میں عرش الہی کے سامنے پڑھی اور وہ اس طرح ہے کہ جب آپ معراج
پر بلایا گیا، تو خدا نے آپ سے فرمایا: اے محمدؐ! صاد (نامی چشمہ) کے قریب جائیں
اور اعضائے سجدہ کو دھوئیںاور اپنے پروردگارکیلئے نماز پڑھیں۔ چنانچہ آپ نے کامل
وضو کیا اور عرش الہی کے سامنے کھڑے ہوگئے۔ پس خدا نے ان کو نماز کے افتتاح کرنے
کا حکم دیا اور فرمایا: اے محمدؐ!پڑھو:
بِسمِ
اللهِ الرَّحمٰنِ الرَّحِيمِ ۱ اَلحَمدُ لِلهِ رَبِّ العَالَمِينَ ۲ الرَّحمٰنِ الرَّحِیمِ ۳ مَالِک یَومِ الدِّینِ ۴ إِیَّاکَ نَعبُدُ وَ إِیَّاکَ
نَستَعِینُ ۵ إِہدِنَا الصِّرَاطَ المُستَقِیمَ ۶ صِرَاطَ الَّذِینَ أَنعَمتَ
عَلَیہِم غَیرِ المَغضُوبِ عَلَیہِم وَ لَا الضَّالِّینَ ۷
(جب آپ سورہ حمد پڑھ چکے تو) پھر حکم
دیاکہ اپنے پروردگاکا نسب نامہ پڑھیں: یعنی
بِسمِ
اللهِ الرَّحمٰنِ الرَّحِيمِ قُل هُوَ اللهُ ۱ أَحَدٌ اَللهُ الصَّمَدُ ۲ لم یلد و لم یولد ۳ و لم یکن لہ کفوا أحد ۴
اس کے بعد۳ ؍ باركَذٰلِكَ اللهُ رَبِّی، پڑھو۔ جب آپ یہ پڑھ چکے تو حکم ہوا:
اے محمدؐ! رکوع کرو۔ جب حالت رکوع میں تھےتو فرمایاکہ پڑھو: سُبحَانَ رَبِّيَ العَظِيمِ وَبِحَمدِه۔
چنانچہ آپ نے ۳؍ بار یہ تسبیح پڑھی ۔ پھر حکم دیا اب
سر اٹھاؤ چنانچہ آپ نے سر اٹھایا اور خدا کی بارگاہ میں سیدھے ہو کر کھڑے ہوگئے
۔ پھر حکم دیا: اے محمد ! اب سجدہ کرو، چنانچہ آپ سجدہ میں جھک گئے ۔ حکم دیا کہ
پڑھو: سُبحَانَ رَبِّيَ الأَعلیٰ وَبِحَمدِه،آپ
نے ۳؍ بار یہ ذکر
کیا۔حکم دیا: اٹھ کر سیدھے بیٹھ جاؤ ، پس جب آپ سیدھے بیٹھ گئے اور خدا کی جلالت
قدر کو یاد کیا تو از خود دوبارہ سجدہ میں گر گئے جبکہ خدا نے حکم نہیں دیا تھا۔
پھر ۳؍ بار خدا کی
تسبیح کی۔ حکم ہوا: اب سیدھے کھڑے ہوجاؤ ..... چنانچہ آپ سیدھے کھڑے ہوگئے اور
اب اپنے پروردگا کی وہ عظمت نہ دیکھی تھی ، ارشاد ہوا کہ اس طرح قرائت کرو جس طرح
پہلی رکعت میں کی تھی چنانچہ آپ نے ایسا ہی کیا۔ بعد ازآن (رکوع کر کے) ایک سجدہ
کیا اور پھر اس میں تسبیح خدا کی۔ حکم ہوا کہ سر اٹھاؤ ۔ خدا آپ کو ثابت قسم
رکھے اور شہادت دو :
أَشهَدُ
أَن لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ، وَأَنَّ مُحَمَّداً رَسُولُ اللهِ ﷺ، وَأَنَّ
السَّاعَةَ آتِيَة لَا رَيبَ فِيهَا وَأَنَّ اللهَ يَبعَثُ مَن فِي القُبُورِ،
أَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلىٰ مُحَمَّدٍ وَّآلِ مُحَمَّدٍ وَإرحَم مُحَمَّداً وَآلَ
مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّيتَ وَبَارَكتَ وَتَرَحَّمتَ وَمَنَنتَ عَلىٰ إِبرَاهِيمَ
وَآلِ إِبرَاهِيم إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ، أَللّٰهُمَّ تَقَبَّل شِفَاعَتُهٗ
وَإرفَع دَرَجَتَہ۔
چنانچہ آپ نے ایسا ہی کیا ، حکم ہوا سر
جھکاکر خدا کا استقبال کرو، آپ نے کہا: اَلسَّلَامُ
عَلَيكَ، خدا نے جواب دیا:وَعَلَيكَ السَّلَامُ
يَا مُحَمَّد!، حضرت امام موسی کاظمؑ نے فرمایا: دراصل
وہ نماز جس کا خدا نے حکم دیا تھا وہ ۲؍ رکعت تھی اور ۲ہی
سجدے تھے (یعنی ایک رکعت میں ۱؍
سجدہ) تو آنحضرتؐ نے خدا کی عظمت و جلالت کو یاد کر کے ہر ایک رکعت میں ۲ سجدےکئےاور پھر خدا نے بھی ۲ سجدے ہی فرض کر دیئے۔ (علل الشرائع)
7087
-11 وعن محمد بن علي ماجيلويه، عن عمه محمد بن أبي القاسم، عن محمد بن علي
الكوفي، عن صباح الحذاء، عن إسحاق بن عمار قال: سألت أبا الحسن موسى بن جعفر ؈، كيف صارت الصلاة ركعة وسجدتين، وكيف إذا صارت سجدتين لم تكن
ركعتين؟ فقال: اذا سألت عن شيء ففرّغ قبلك لتفهم، إن أول صلاة صلاها رسول الله ﷺ
إنما صلاها في السماء (كلمة (السماء) لم ترد في الاصل بل في العلل والمحاسن.) بين
يدي الله تبارك وتعالى قدام عرشه جل جلاه، وذلك أنه لما أسري به فقال يا محمد،
ادن من صاد فاغسل مساجدك وطهرها، وصل لربك، فتوضأ وأسبغ وضوءه ثم استقبل عرش
(وضع المصنف على كلمة: (عرش) علامة نسخة.) الجبار تبارك وتعالى قائماً فأمره
بافتتاح الصلاة ففعل فقال: يا محمد، اقرأ: بسم الله الرحمن الرحيم الحمد لله رب
العالمين إلى آخرها ففعل ذلك ثم أمره أن يقرأ نسبة ربه عز وجل، بسم الله
الرحمن الرحيم قل هو الله أحد الله الصمد (في نسخة بعد الصمد: ففعل (هامش
المخطوط).) ثم أمسك عنه القول فقال: كذلك الله، كذلك الله، كذلك الله، فلما قال
ذلك قال: اركع يا محمد لربك، فركع، فقال له وهو راكع: قل: سبحان ربي العظيم
وبحمده، ففعل ذلك ثلاثاً ثم قال له: ارفع رأسك يا محمد، ففعل فقام منتصباً بين
يدي الله، فقال له: اسجد يا محمد لربك، فخر رسول الله ﷺ ساجداً، فقال: قل: سبحان
ربي الأعلى وبحمده، ففعل ذلك ثلاثاً، فقال له استو جالساً يا محمد، ففعل، فلما
استوى جالساً ذكر جلال ربه فخر لله ساجداً من تلقاء نفسه، لا لأمر أمره ربه عز
وجل، فسبح الله ثلاثاً، فقال: انتصب قائماً، ففعل فلم ير ما كان رأى من عظمة ربه
جل جلاله، فقال له: اقرأ يا محمد، وافعل كما فعلت في الركعة الاولى، ففعل ذلك، ثم
سجد سجدةً واحدةً فلما رفع رأسه ذكر جلالة ربه تبارك وتعالى الثانية فخر رسول
الله ﷺ ساجداً من تلقاء نفسه، لا لأمر أمره ربه عز وجل، فسبح ايضاً، ثم قال له:
ارفع رأسك ثبتك الله، وأشهد أن لا إله إلا الله، وأن محمداً رسول الله ﷺ، وأن
الساعة آتية لا ريب فيها وأن الله يبعث من في القبور، اللهم صلى على محمد وآل
محمد وارحم محمداً وآل محمد، كما صليت وباركت وترحمت ومننت على إبراهيم وآل
إبراهيم إنك حميد مجيد، اللهم تقبل شفاعته (في نسخة: شفاعته في الله. (هامش
المخطوط)، وفي المصدر: شفاعته في أمته.) وارفع درجته، ففعل، فقال له: [سلم] (أثبتناه
من المصدر.) يا محمد، واستقبل ربه تبارك وتعالى مطرقاً فقال: السلام عليك فأجابه
الجبار جل جلاله فقال: وعليك السلام يا محمد۔
قال أبو الحسن ؈: وإنما كانت الصلاة التي أمر بها ركعتين وسجدتين وهو ﷺ إنما سجد
سجدتين في كل ركعة كما أخبرتك من تذكره لعظمة ربه تبارك وتعالى فجعله الله عز وجل
فرضاً، الحديث۔ المصادر: علل الشرائع ۳۳۴ـ الباب ۳۲/ ۱، وأورد قطعة منه في
الحديث ۵ من
الباب ۵۴ من
أبواب الوضوء.
09۔زرارہ حضرت امام محمد باقرؑ سے روایت
کرتے ہیں فرمایا: سوائے ۵؍
چیزوں کے اور کسی چیز کی وجہ سے نماز کا اعادہ نہ کیا جائے اور وہ یہ ہیں: ۱۔ طہارت ۲۔ وقت ۳۔
قبلہ ۴۔ رکوع ۵۔ سجود۔ پھر فرمایا: قرائت سنت ہے، تشہد
سنت ہے اور کبھی سنت کو نہیں توڑ سکتی۔ (الخصال)
مولف علام فرماتے ہیں کہ اس قسم کے مقامات
پر تم سنت کے معنی معلوم کرچکے ہو۔ (یعنی وہ واجب کہ جس کا وجوب بطریق سنت ثابت
ہے۔)
7090
-14 وفي (الخصال) عن أبيه، عن سعد، عن أحمد بن محمد، عن الحسين بن سعيد، عن حماد
بن عيسى، عن حريز، عن زرارة، عن أبي جعفر؈ قال:
لا تعاد الصلاة إلا من خمسة: الطهور، والوقت، والقبلة، والركوع، والسجود، ثم قال؈: القرائة سنة، والتشهد سنة، والتكبير سنة، ولا ينقض السنة
الفريضة۔ المصادر: الخصال،۲۸۴۔ ۳۵، وأورده في الحديث ۸ من الباب ۳ من أبواب الوضوء، وأورده
أيضاً عن التهذيب في الحديث ۱ من الباب ۹ من أبواب القبلة، وفي الحديث ۵ من الباب ۲۹ من أبواب القراءة، وفي الحديث
۵ من
الباب ۱۰ من
أبواب الركوع، وفي الحديث ۱ من الباب ۲۸ من أبواب السجود، وفي الحديث ۱ من الباب ۷ من أبواب التشهد وفي الحديث ۴ من الباب ۱ من أبواب القواطع.
10۔اعمش حضرت امام صادقؑ سے روایت کرتے
ہیں کہ آپ نے حدیث الشرائع میں فرمایا : نماز کے فرائض ۷ ہیں: ۱۔ وقت ۲۔
طہارت ۳۔ توجہ ۴۔ قبلہ ۵۔ رکوع ۶۔سجود
۷۔ دعا۔
(ایضاً)
7091
-15 و باسناده عن الأعمش، عن جعفر بن محمد ؈ في
حديث شرائع الدين ـ قال: وفرائض الصلاة سبع: الوقت، والطهور، والتوجه، والقبلة،
والركوع، والسجود، والدعاء۔ المصادر: الخصال: ۶۰۴، و أورد مثله عن الشيخ
والكليني في الحديث ۱ من الباب ۱ من أبواب القبلة.
11۔باسناد خود حضرت علیؑ سے روایت ہیں کہ
آپ نے حدیث اربعمائۃ میں فرمایا : آدمی کو چاہئے کہ نماز میں خشوع و خضوع کرے
کیونکہ جس شخص کے دل میں خدا کیلئے خشوع ہوگا اس کے اعضاء میں بھی خشوع و سکون
ہوگا اور وہ کسی عضوکے ساتھ نہیں کھیلے گا۔ ۲؍ رکعت کے بعد (تشہد کیلئے) بیٹھ جاؤ تا کہ تمہارے اعضاء و جوارح
میں آرام و سکون پیدا ہو جائے پھر (تیسری رکعت کیلئے) کھڑے ہوجاؤ کہ ایسا کرنا
ہمارا فعل ہے ۔(مزید فرمایا) جب نماز کیلئے کھڑے ہو تو ہاتھ کو سینہ کے بالمقابل
لوٹاؤ۔ (یعنی تکبیر کیلئے سینہ تک بلند کرو) اور اپنی پیٹھ کو سیدھا رکھو اور اسے
نہ جھکاؤ اور جب نماز سے فارغ ہو جاؤ تو دعا کیلئے ہاتھوں کو آسمان کی طرف
اٹھاؤ اور جب نماز پڑھ چکو تو جب تک خدا سے جنت کے حصول کاسوال نہ کرلو جہنم سے
پناہ نہ مانگ لو اور حور العین کا مطالبہ نہ کر لو اس وقت تک اپنی جگہ سے نہ ہٹو۔
جب نماز پڑھو تو اس طرح پڑھو کہ گویا یہ تمہاری زندگی کی آخری نماز ہے۔ (پھر
اضافہ فرمایا) تبسم نماز کو نہیں توڑتا البتہ قہقہہ اسے توڑتا ہے۔ آدمی کو چاہئے
کہ جب سجدہ کرلے تو اپنے ہاتھوں کو نماز فریضہ میں بلند کرے اور جب قرائت کرو تو
کم از کم اپنے آپ کو قرائت ، تکبیر اور تسبیح سناؤ اور جب نماز پڑھ چکو تو اپنی
دائیں جانب سے اٹھو۔ (ایضاً)
7092
-16 وباسناده عن علي ؈ ـ في حديث الأربعمائة ـ قال:
ليخشع الرجل في صلاته فإن من خشع قبله لله عز وجل خشعت جوارحه فلا يعبث بشيء،
اجلسوا في الركعتين حتى تسكن جوارحكم ثم قوموا فان ذلك من فعلنا، إذا قام أحدكم
(من الصلاة فليرجع يده حذاء صدره) (في المصدر: بين يدي الله جل جلاله فليرفع يده
حذاء صدره.)، فإذا كان أحدكم بين يدي الله جل جلاله فليتحرى بصدره، وليقم صلبه
ولا ينحني ن إذا فرغ أحدكم من الصلاة فليرفع يده (في المصدر: يديه.) إلى السماء
ولينصب في الدعاء، لا ينفتل العبد من صلاته حتى يسأل الله الجنة ويستجير به من
النار ويسأله أن يرزقه (في المصدر: يزوجه.) من الحور العين، إذا قام أحدكم إلى
صلاة فليصل صلاة مودع، لا يقطع الصلاة التبسم وتقطعها القهقهة، ليرفع الرجل الساجد
مؤخره في الفريضة إذا سجد، إذا صليت فأسمع نفسك القراءة والتكبير والتسبيح، إذا
انفتلت من الصلاة فانفتل عن يمينك۔)المصادر: الخصال ۶۲۸.(
12 ۔جناب سید مرتضی اپنے رسالہ محکم و
متشابہہ میں نحوالہ تفسیر نعمانی باسناد خود حضرت علیؑ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ
بے ایک حدیث کے ضمن میں فرمایا: نماز کے حدود ۴ ہیں؛ ۱۔
معرفت ۲۔ قبلہ کی طرف
توجہ ۳۔ رکوع ۴۔ سجود پھر فرمایا : یہ تمام لوگوں
کیلئے ہیں خواہ کوئی عالم ہویا جاہل سب کیلئے عام ہیں ۔ ان کے ساتھ کچھ اور افعال
نماز اور اذان و اقامت وغیرہ بھی مقرر کئے گئے ہیں اور چونکہ خدا
جانتا تھا کہ بندے ان حدود کو کماحقہ ادا نہیں کر سکیں گے! تو اس لئے کچھ واجبات
مقرر کئے اور یہی ۴ہیں
اور کچھ سنت واجبہ قرار دیئے جیسے قرائت ، دعا ، تسبیح ، تکبیر ، اذان اور اقامت
وغیرہ جو پسندکرے ان کو بھی بجا لائے پس یہ ہیں نماز کے حدود۔ (رسالۃ المحکم و
المتشابہ)
17
-7093علي بن الحسين المرتضى رسالة (المحكم والمتشابه) نقلاً من (تفسير النعماني)
باسناده الآتي (يأتي في الفائدة الثانية من الخاتمة برقم: ۵۲.) عن علي ؈ في حديث قال: حدود الصلاة أربعة: معرفة الوقت، والتوجه إلى
القبلة، والركوع، والسجود، وهذه عوام في جميع الناس العالم والعامل وما يتصل بها
من جميع أفعال الصلاة والأذان والإقامة وغير ذلك، ولما علم الله سبحانه أن
العباد لا يستطيعون أن يؤدوا هذه الحدود كلها على حقائقها جعل فيها (في المصدر:
منها.) فرائض وهي الأربعة المذكورة، (وجعل فيها من غير هذه الأربعة المذكور)
(ليس في المصدر.) من القرائة الدعاء والتسبيح والتكبير والأذان والإقامة وما شاكل
ذلك سنة واجبة، (من أحبها يعمل بها) (في المصدر: من أجلها عمل بها.) فهذا ذكر
حدود الصلاة۔ المصادر: رسالة المحكم والمتشابه ۷۷ تقدم صدره في الحديث ۳۵ من الباب ۱ من أبواب مقدمة العبادات،
ويأتي ذيله في الحديث ۱۵ من الباب ۸ من أبواب ما تجب فيه الزكاة.
13 ۔ حضرت شہید اول اپنی کتاب اربعین میں
باسناد خود محمد موسی ہمدانی سے اور وہ امام زین العابدینؑ سے روایت کرتے ہیں
فرمایا: بنی ثقیف کا ایک شخص حضرت رسولخداؐ کی خدمت میں حاضرہوا اور نماز کے سوال
کیا آنحضرتؐ نے فرمایا : جن تم نماز پڑھو تو اپنے چہرہ (اور دل) کے ساتھ خدا کی
طرف توجہ کرو چنانچہ وہ بھی تمہاری طرف توجہ کرے گا اور جب رکوع کرو تو اپنی
انگلیوں کو پھیلا کر رکھو اور اپنی پشت کو بلند رکھو اور جب سجدہ کرو تو اپنی
پیشانی کو خوب جما کر زمین پر رکھو اور مرغے کی طرح ٹھونگے نہ مارو۔ (اربعین
الشہید)
7094
-18 محمد بن مكي الشهيد في كتاب (الأربعين) باسناده عن ابن بابويه، عن أبيه، عن
سعد، عن أحمد بن محمد، عن الحسين بن سعيد، عن فضالة بن أيوب، عن حماد بن عثمان،
عن محمد بن موسى الهذلي، عن علي بن الحسين ؈ قال:
أتى الثقفي رسول الله ﷺ يسأل عن الصلاة فقال: إذا قمت الى الصلاة فأقبل على
الله بوجهك يقبل عليك، فإذا ركعت فانشر أصابعك على ركبتيك وارفع صلبك، فاذا سجدت
فمكن جبهك من الأرض، ولا تنقره كنقرة الديك۔ المصادر: أربعين الشهيد: ۱۰.
14 ۔ جناب عبد اللہ بن جعفر حمیری باسناد
خود علی بن جعفرؑ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے اپنے بھائی حضرت امام موسی کاظمؑ سے
سوال کیا کی آیا عورتوں پر بھی نماز کا افتتاح ، تشہد، قنوت ، نماز شب اور نماز
زوال میں وہی کچھ کہنا ضروری ہے جو مردوں کیلئے ہے؟ آنحضرتؑ نے فرمایا: ہاں۔ (قرب
الاسناد)
مولف علام فرماتے ہیں کہ ان احکام کی
تفصیل دلالت کرنے والی حدیثیں اس کے بعد (قیام کے باب ۲ اور اس کے بعد والے ابواب میں) ذکر کی
جائیں گی۔ ان شاء اللہ تعالی۔
7095
-19عبدالله بن جعفر في (قرب الاسناد): عن عبدالله بن الحسن، عن جده علي بن جعفر،
عن أخيه موسى بن جعفر ؈ قال: سألته عن النساء هل
عليهن افتتاح الصلاة والتشهد والقنوت والقول في صلاة الليل وصلاة الزوال ما على
الرجال؟ قال: نعم۔ المصادر: قرب الإسناد: ۱۰۰.
$}{@J@r
ایک تبصرہ شائع کریں