کوفہ والوں کی غذاؤں کی نوعیت و کیفیت




فصل ہفتم :  غذاؤں کی نوعیت

١. غذائیں

        الف :  عربوں کے غذا کی مختصر تاریخ

        ب : عربوں کے غذاکھانے کے ا و قات

        ج : غذاؤں کے اقسام  و انواع

 

۱- بغیر مخصوص  نام کی غذائیں


        اول -  پیغمبرؐ اکرم کی غذائیں

۱۔روٹی (خُبز) اور گوشت (لَحَم)

۲۔مرغ اور پر ندوں کاگوشت (لَحَم ُالطَّیرِ)

۳۔روٹی اور سرکہ (خَلّ)

۴۔روٹی اور روغن زیتون (زیتُ الزَّیتون یا زیت ثِمَار الزَّیتون)

۵۔مکھن (زَبَدۃ)

۶۔چاول (رُز)

        دوم -حضرت علیؑ کی  غذائیں

۱۔روٹی اور دودھ

۲۔روٹی اور خرما

۳۔روٹی اور انگور

۴۔روٹی اور خربزہ یا کدو (بطیخ)

۵۔گوشت اور مکئی (ذُرَّۃ)

 

۲-  مخصوص  نام کی غذائیں

        ۱۔ بَکالَہ (بَکیلۃ)

        ۲۔ تلبینَۃ (تَلبین)

        ۳۔ ثَرید

        ۴۔ حریرہ

        ۵۔ حَساء       

         ۶۔ حَیْسہ

        ۷۔ رَبیکَۃ

        ۸۔ رَغیدۃ

        ۹۔ رَہیدۃ

        ۱۰۔ سَخینۃَ

        ۱۱۔ سِکْبْاج

        ۱۲۔ شِواء

        ۱۳۔ شُورباجَۃ

        ۱۴۔ صَحْناء (صحناۃ)

        ۱۵۔ طَفَیْشزل

        ۱۶۔ عَصیدۃ

        ۱۷۔ فَریقَۃ

        ۱۸۔ قَدید

        ۱۹۔ مَرَق

        ۲۰۔ نارباجۃ

        ۲۱۔ وَشیقۃ

        ۲۲۔ ہَریسَۃ

د : غذا سے پہلے کھانے کی اشیاء  (ڈزرڈ)


                     ھ : غذاکے ساتھ سبزیجات 


و : سفرۂ غذا:

۱۔ سُفْرۃ

۲۔ خُوان (خِوان)

۳۔ طَبَق

۴۔ مائدۃ

 ۵۔ نَطْع (نَطَعْ، نِطْع، نِطَع)

 

۲۔ پینے والی اشیاء

 

الف : پینے والی حلال چیزیں

        ۱۔ دودھ  (لَبَن یا حلیب)

        ۲۔ شہد  ( عَسَل)

        ۳۔ شیرہ

۴۔ رس یا جوس (عَصِیرُ الثَّمَریا مَاء ُالثَّمَر) پھلوں سے نچوڑا جانے والے کے انواع و اقسام

 

ب : پینے والی حرام چیزیں

۱۔ نَبِیذ (خرما کی شراب)

۲۔ بِتْع یا بِتَع (شہد کی شراب)    

۳۔ فُقَّاع (جو کی شراب)

۴۔ مِرْز(مکئی کی شراب)

 ۵۔ نَقِیع (کشمش کی شراب)

 

۳۔ ثمر اور پھل 

۱۔ خرما

رُطَب آزاد (تازہ کھجور)

رطب مُشان   

تَمر بَرْنی (خرما یا حبابوک) ،     

تَمر سابِري

تَمر صرفان

تَمر ہیروان

تَمر نرسیان

۲۔ انگور (عِنَب)

۳۔ زیتون،    

۴۔ انار (رُمَّان)

۵۔ سیب (تُفَّاح)

۶۔  بِہ یا بِہِی (سَفَرْجَل)

۷۔ اخر وٹ (جَوز)

۸۔ اسٹار فروٹ (تُرَنج یا اُتْرَجّ، ترنجہ، اُتْرُجَّہ، تُرُنجہ و تُرنج)


۴۔ تنقلات

(جو اشیاء کبھی کبھی اور تھوڑا تھوڑا کر کے کھایا جاتا ہے۔)

الف: جَوْزینَق

ب: حَلواء

ج: خَبیص

د: سَوِیق

ھ: فالُودہ (فالُوذَج یا فالُوذ)

و: لَوْزینَج

فصل  هفتم :نوع تغذیه

 

١. غذائیں

 

الف : عربوں کے غذا کی مختصر تاریخ

        ظہور اسلام سے قبل عربوں کی غذائیں بہت ہی سادگی کے ساتھ مہیا ہوتی تھی، اس زمانہ میں گوشت کے طور پر سب سے زیادہ اونٹ کا گوشت ہی استعمال کیا کرتے تھےاور اونٹنی کے دودھ کا بھی استعمال سب سے زیادہ ہوتا تھا اور اس سے بننے والی چیزیں جیسے مکھن، پنیر اور گھی بھی حاصل ہوتا تھا، خرما اور بعض غلات عربوں کی اصلی غذا کو تشکیل دیتا تھااور سادہ سی ترکیبات کے ساتھ ہی اسے دسترخوان پر رکھا کرتے تھے۔

        معمول کے طور پر متوسط اور دولتمند طبقےان غذائی اشیاء سے استفادہ کیا کرتے تھے۔

         لیکن فقیر طبقہ کہ جن کی اکثریت بیابان گردو صحرا نشین (خانہ بدوش) تھی یہ لوگ ٹڈی، گوہ (جنگلی چھپکلی)، اونٹ کے ناک کی کٹی ہوئی کھال (قُرامۃ)، مینڈک (قُرَّۃ)او ر حیوانات کے سینگھ کا ہی اپنی اصلی غذاؤں میں استعمال کیا کرتے تھے۔ (تاریخ التمدن الاسلامی، 5/ 606.)

        ظہور اسلام کے ساتھ ہی عربوں کے غذاؤں کی سادگی پیغمبرؐ اکرم ، حکومت ابو بکر اور حکومت عمر کے کچھ زمانہ تک یہی سادگی محفوظ رہی ، ہم اس سادگی کے بارے میں آئندہ اس کے مقام پر پیغمبر اکرم کی غذاؤں کے بارے میں وضاحت کریں گے۔

        لیکن عمر کی حکمرانی میں عربوں کی بقول قتوحات اسلامی کا سلسلہ چلنے لگا جس کے نتیجہ میں ایران کی عظیم سلطنت و بادشاہت کو فتح کیا اور عظیم شہنشاہیت روم کے بھی ایک حصہ کو اپنے تصرف میں کر لیا، عربوں نے تجمُّلی اور غیر تجمُّلی کے مختلف اقسام و انواع کے کھانے سے مفتوحہ سرزمین کے لوگوں سے آشنا ہوئے۔

        البتہ مفتوحہ سرزمین کے لوگوں کے مختلف کھانوں سے ابتدا میں روبروہونے کے ساتھ ہی اپنی نصف سادگی کی نمائش کا بھی اظہارکیا۔بطور مثال تاریخ میں اس طرح تذکرہ تحریرہوا ہے کہ عربوں کے کسی ایک فتوحات میں ہی ان لوگوں کو بہت زیادہ مقدار میں »کافور«مال غنیمت کی حیثیت سے حاصل ہوااور یہ عرب کے بدو اسے نمک گمان کرنے لگے، پس انہوں نےکھانا پکایا اور کچھ مقدار »کافور« اس کھانے میں ڈالا لیکن کھانا پھر بھی بے نمک ہی رہااور متعجب بھی ہوئے۔ ایک شخص اس واقعہ کو دیکھ رہا تھا اور وہ »کافور« کی قدر و قیمت سے بخوبی شناخت رکھتا تھا ، ان عربوں کے پاس آیا اور ایک قدیم پیراہن جس کی قیمت ۲؍ درہم (Rs. 477.091) سے بھی زیادہ ہرگز نہ تھی ان کے سارے »کافور« کے ذخیرہ سے تبادلہ کر لیا ۔

        ایک دوسرے مقام پر تحریر ہے کہ کسی علاقہ میں انہیں بہت زیادہ مقدار میں پتلی روٹی حاصل ہوئی اور عربی اسے کاغذ تصور کرنے لگےکہ اس پر بھی نوشتہ تحریر کرنے لگے۔ اسی طرح سے ایک جگہ پر انہیں دھان یا چاول سے روبرو ہوئے تھے توانہوں نے اسے مسموم (زہریلی) غذا گمان کرنے لگے تھے۔ (تاریخ التمدن الاسلامی، 5/  606.)

        جب عرب کے لوگ کوفہ اور بصرہ کے شہروں پر مستقر ہونے کا ساتھ ہی دیگر شہروں کو فتح کیا تو دھیرے دھیرے فتوحات کا سلسلہ کمتر ہونے لگا تو تو عجمیوں کی غذائی تنوعات بھی عربوں کے درمیان سرعت کے ساتھ رائج ہوا اورایرانیوں کی تقلید میں کوفہ کے شہر میں بھی مرسوم ہوااوراپنی غذاؤں میں مختلف اقسام کی چاشنیوں کا استعمال کرنے لگے اور عرب نے اپنے مراسم میں جیسے عیدوں کے مراسم، عروسی یعنی شادی بیاہ کے مراسم، ختنہ کے مراسم وغیرہ کی خاطر ایرانیوں کی طرف رجوع کرتے تھے تا کہ مختلف اقسام کی غذائیں تیار کریں اور آداب و رسوم سے مربوط ان غذاؤں کو تیار کرنا یاد کریں۔ (تاریخ التمدن الاسلامی، 5/  637.)

        ان مختلف النوع غذا ؤں کو پکانے کا طریقہ کو یاد کرنے کا واقعہ خاص طورپر عثمان کے ہاتھوں میں حکمرانی پہونچنے کے ساتھ ہی سنہ ۲۳ ہجری کے اواخر میں شدت اختیار کی ہے کیونکہ خود عثمان بھی ابو بکر و عمر کے بر خلاف ذاتاً ایک تجمّل گرا شخص تھے اورخود بھی زندگی میں کھانے پینے کے اعتبار سے مرفہ (مالدار) افراد جیسے ہی زندگی بسر کرتے تھے۔ حکمرانی کی مسند پر بیٹھنے کے بعد عثمان کے دسترخوان کے بارے میں اس طرح کتابوں رقم کیا ہے کہ ہر رات سفید آٹے (میدہ) سے روٹی پکتی تھی اورایک بکری کا چھوٹا بچہ پکاکر سفرہ پر رکھا جاتا تھا۔حالانکہ عمر نے کبھی بھی آتے میں سے بھوسی نکال کر روٹی نہیں کھاتے تھے اور بوڑھے بھیڑ کا گوشت استعمال کیا کرتے تھے، اسی طرح عثمان اسلامی حکمرانوں میں سے پہلے ہی عثمان تھے جنہوں نے آٹے کو بغیر بھوسی کے استعمال کیا کرتے تھے۔ (تاریخ الطبری، 3/ 430.)

        حضرت علی بھی عثمان کے بعدخود ہی گرچہ سادہ سی غذاؤں کا استعمال کیا کرتے تھےکہ جس کے بارے میں ہم آئندہ تحریر میں اس کے مقام پر اشارہ کریں گے۔ لیکن تاریخی و روائی متن و نصوص سے ایسا نتیجہ حاصل ہوتا ہے کہ اس زمانہ میں غذاؤں میں تنوع اپنا رشد کر چکی تھی اور لوگ بھی غیر سادہ غذاؤں کی طرف متوجہ ہونے لگے تھے اس طریقہ سے کہ حضرت علی کی رژیم غذائی کو ایک خارق العادہ واقعہ کے عنوان سے حساب کرتے تھے اور لوگ اس پر تعجب ھی کرتے تھے۔ (ترجمۃ الامام علی، 3/  198.)

        پھر بنی امیہ کے برسر اقتدار آئے کہ اس خاندان کے افراد پرخوری اور شکم سیری کرنے والا جیسا معاویہ تھا کہ جو شدت کے ساتھ ایرانیوں کی غذائی تنوع کی تقلید کرتا تھا۔  (الحیاۃ الاجتماعیۃ، ص 64.)

        عوام کے درمیان غذائی تنوع طلبی بھی بہت رشد کر رہی تھی اور اس ماجرا کے آثار خاص طور پر کوفہ میں بہت سے ایرانیوں کو اس شہر میں جگہ دی تھی ظاہر ہوا۔ اس طریقہ سے کہ کوفہ و بصرہ کے حاکم زیاد بن ابیہ سنہ ۴۹ ھ یا سنہ ۵۰ ھ سے سنہ ۵۳ ھ کے دور حکمرانی میں کوفہ کے عوام کو انواع و اقسام کی غذاؤں کے لوگ یا پر خوری کرنے والی عوام کے طور پر تعریف کرتے ہیں۔ (مختصر کتاب البلدان، 156.)

        اس دور کے عوام غذائی تنوع میں یہاں تک کہ ایرانیوں سے بھی سبقت لے گئے تھے۔ (تاریخ التمدن الاسلامی، 5/ 637.)

        قابل ذکر بات تو یہ ہے کہ عبید اللہ بن زیاد بھی تاریخ میں گورنر کی حیثیت سے رنگین دسترخوان کے ساتھ مختلف انواع و اقسام کی غذائیں سفرہ پر موجود گی کی معرفی ہوئی ہے۔ (الحیاۃ الاجتماعیۃ، ص 64.)

 

ب : عربوں کی غذا کے اوقات

        روایات و متون تاریخی یہ پتہ چلتا ہے کہ سنہ ۱۷ ھ سے سنہ ۶۱ ھ کے زمانہ کے عرب دو اوقات سے زیادہ غذا نہیں کھاتے تھے کہ جسے وہ لوگ »غذاء« اور »عشاء«  کے الفاظ سے پکارا کرتے تھے۔ (بحار الانوار، 66/ 340.)

        اسی کو فارسی زبان میں »صبحانہ« اور »شام« بھی کہتے ہیں۔ نیز اردو زبان میں »ناشتہ« اور غالباً »عشائیہ«  کہا جاتا ہے۔

        قرآن کریم کی بعض آیات میں بھی اس کا تذکرہ موجود ہےلہذا ذیل کی آیت میں اہل بہشت کے بارے میں خداوند عالم ارشاد فرما تا ہے:

وَ لَهُمْ رِزْقُهُمْ فِیها بُکْرَهً وَ عَشِیاً

»جنت میں اہل بہشت کو ہر صبح و شام رزق فراہم ہوتا ہے۔« (سورہ مریم: 62.)

بعض تفاسیر کے مطابق بھی مذکورہ دلیل کی تائید ہوتی ہے۔ (بحار الانوار، 66/ 343، بنقل از: مجمع البیان.)

        پیغمبر اکرم کی بعض روایات سے (بحار الانوار، 66/ 343و 346.) اور حضرت علی  کے بعض اقوال سے  (بحار الانوار، 66/ 343.) »عشاء«  یعنی رات کے کھانے کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے اور اس کوترک کرنا جسم کو ضرر پہونچنے کا موجب بھی شمار کیا ہے۔

        اسی طرح حضرت علی سے مروی ایک حدیث میں صبح سویرے ناشتہ کرنے کی سفارش کی گئی ہے اور اسے جسم کی صحت برقرار رہنے کا باعث قرار دیا ہے۔ (بحار الانوار، 66/ 341.)

        ایک دوسری روایت میں بھی انبیاء کے رات کے کھانے کا وقت ایک تہائی رات گذر جانے کے بعد حساب کرتے تھے کہ عرب اسے »عَتَمہ«کہتے تھے۔ لہذا اسی کو رات کے کھانے کا وقت جانتے تھے۔ (بحار الانوار، 66/ 342.) کہ اسی زمانہ کو رات کے کھانے کے وقت کے طور پر استفادہ کرنے کی سفارش کرتے تھے۔

        اسی طرح سے عمر کے بارے میں تاریخی واقعات میں کہا گیا ہے کہ انہوں نے دستور دیا تھا کہ رزق (یا ارتزاق) کی مقدار کے تعیُّن کیلئے ۳۰؍ افراد کو ۲؍ وقت مقررہ صبح اور شام کو غذا دیں تا کہ ہر فرد کی خوراک کی ماہانہ مقدار معین ہو اور حکومت وقت اپنی عوام کو رزق حوالے کرسکے۔ (فتوح البلدان، ص 446.) اسی مطالب کی تائید پر ہم اسے ہی بطور شاہد سمجھ سکتے ہیں۔

 

ج : غذاؤں کے انواع و اقسام

 

        اشاره : جس زمانہ کے بارے میں ہم تذکرہ کر رہے ہیں یعنی سنہ ۱۷ ھ تا ۶۱ ھ میں بلکہ اس سے بھی قبل پیغمبر اکرم کے دور رسالت میں جن غذاؤں کےانواع و اقسام کا استعمال ہوتا تھا وہ ہم ذیل میں درج کر رہے ہیں:

 

ایک - بغیر مخصوص نام کی غذائیں

 

اشاره : ان غذاؤں کا مقصدیہ ہے کہ ان غذاؤں کا مضمون بغیر خاص نام کے عنوان سے کتابوں میں ذکر کیا گیا ہےنیز جس کی طرف کتابوں میں اشارہ کیا گیا ہے ۔

ان غذاؤں کو عموماً پیغمبراکرمؐاورحضرت علی ؑکی سیرتوں سے ہم استخراج کر رہے ہیں جو ذیل میں ذکر کر رہے ہیں:

 

اول- پیغمبرؐ اکرم کی غذائیں

 

اشاره : پیغمبر اکرم ؐ کی مختلف روایات کے مطابق آنحضرتؐ  مختلف اوقات میں غذائیں کھایا کرتے تھے ۔ جو ذیل میں درج کی جارہی ہیں:

 

                        روٹی اور گوشت

ایک روایت کے مطابق پیغمبر اکرمؐفرماتے ہیں:  »جب تمہارے لئے روٹی اور گوشت لائیں تو ابتدا روٹی سے کریں تا کہ تمہاری بھوک کم ہو اور اسی وقت گوشت بھی تناول کرو۔« (بحار الانوار، 66/  272.)

 اسی طرح دیگر روایت میں ذکر آیا ہےکہ پیغمبر اکرمؐ کبھی کبھی پکا اورپانی میں ابلا ہواگوشت تناول فرماتے تھےاور کبھی کبھی گوشت کوکباب کی صورت میں روٹی کے ساتھ تناول فرمایا کرتے تھے، اسی روایت میں گوسفند (بھیڑ) کے جسم کے اگلے حصہ کا گوشت یعنی آگے کی ران کا گوشت کھانا بہت زیادہ محبوب رکھتے تھے۔ (بحار الانوار، 66/  72.)

 

                        مرغ و پرندوں کا گوشت

        مرغ اور شکار کےپرندوں کا گوشت بھی تناول فرمایا کرتے تھےجس کی نسبت پیغمبر اکرمؐ کی طرف دی گئی ہے۔ (بحار الانوار، 66/ 73.)

        البتہ خود آنحضرتؐ پرندوں کا شکار نہیں کرتے تھے بلکہ دوسرے لوگ ہی آنحضرتؐ  کیلئے شکار کیا کرتے تھے۔ (بحار الانوار، 66/ 75.)

        ایک دوسری حدیث میں وارد ہوا ہے کہ غیظ و غضب کو کم کرنے کیلئے مرغ کا گوشت کھانے کی سفارش فرمایا ہے۔ (بحار الانوار، 66/ 75.)

 

                        روٹی  اور  سرکه

ایک روایت میں پیغمبر اکرمؐ نے سرکہ کو سالن کے طور پر کھانے کو بتایا ہے۔ (بحار الانوار، 66/ 301 و 306.)

        اس روایت کا مضمون حضرت علی ؑکی زبانی نقل ہوا ہے۔ (بحار الانوار، 66/  305.)

 

                        روٹی اور  روغن زیتون

        پیغمبر اکرمؐ کی طرف سے روغن زیتون کو بہترین سالن کے طور قرار دیا ہے۔(بحار الانوار، 66/ 304.)

 

                        مکھن (زَبَد)

پیغمبر گرامی اسلامؐ کی طرف مکھن کے ساتھ دودھ اور خرما کھانے کی نسبت دی جا رہی ہے۔ (بحار الانوار، 66/ 355.)

 

                        چاول (رُزّ)

کہا گیا ہے کہ پیغمبرؐ اکرم گوشت کے بعد چاول کو بہترین غذا کے طور پر تعریف کیا ہے۔ (بحار الانوار، 66/ 260.)

 

دوم - حضرت علیؑ کی غذائیں

        اشاره : اس حصہ میں پیغمبر گرامی اسلامؐ کے ذریعہ استعمال ہونے والی گذشتہ غذاؤں کی تکرارسے احتراز کرتے ہوئے اس کے علاوہ امیر المومنینؑ کے توسط سے استعمال ہونے والی غذاؤں کو ہم ذیل میں تحریر کر رہے ہیں:

 

                        ٭روٹی اور دودھ

         ام کلثوم بنت علیؑ سے مروی ہے کہ امیر المومنینؑ شب ضربت اپنے افطار کیلئے جَو کی روٹی اور دودھ اور نرم نمک دسترخوان پر رکھا گیا تھا کہ آنحضرتؑ نے نمک اور دودھ کو دو سالن قرار دیا۔(بحار الانوار، 42/ 276.)

 

                        ٭روٹی اور  خرما

        امیر المومنینؑ کی طرف مکرر اس غذا کے تناول فرمانے کی نسبت دی گئی ہے۔ (بحار الانوار، 66/  139.)

 

                        ٭روٹی اور  انگور

        روٹی اور انگور کا تذکرہ کتاب (بحار الانوار، 66/  148.)

 

                        ٭روٹی اور  خربوزه یا کدو

        روایات میں کدو کیلئے لفظ »بطیخ« کا استعمال ہوا ہے۔ (بحار الانوار، 16/ 244) کہ جس کے لغت میں معنی خربوزہ اور کدو دونوں ہی تحریر کیا گیا ہے۔

 

                        ٭گوشت اور مکئی

        ایک نکتہ یہاں پر قابل توجہ یہ ہے کہ کوفہ فرات سے قریب ہونے کی بنا پر کوفہ کے عوام کی غذاؤں میں اصلی غذا مچھلی پر ہی مشتمل رہتی تھی کہ جس کی طرف ہم نے فصل اول اور فصل دوم میںکوفہ کے مچھلی بازار اور مچھلیوں کے اقسام کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ (بحار الانوار، 30/ 20.)

 

دو - مخصوص نام کی غذائیں

 

        اشاره : مختلف غذائیں بحث کے زمانہ میں خاص نام ہواکرتا تھا اور کتب روائی اور تاریخی میں بھی ہم انہیں حاصل کر سکتے ہیں، لہذا ہم ان کھانوں کو حروف تہجی کے اعتبار سے ذیل میں تحریر کر رہے ہیں:

 

                        اول - بَکَالَه (بَکِیلَه)

ایک غذا کا نام ہے کہ جس کے تیا ر کرنے کی ترکیب ایسے ہے کہ سَوِیق (سَتُّو)، خرما، روغن اورکچھ کم مقدارمیں دودھ ملا کر تیار کیا جاتا ہےنیز بغیر آگ پر پکائے مہیا کیا جاتا ہے۔ (العقد الفرید، 6/ 291؛ لسان العرب، 1/ 474.)

        عربوں کے نزدیک یہی غذا قبل اسلام بھی قابل شناخت تھی۔ (تاریخ التمدن الاسلامی، 5/  606.)

 

                        دوم - تَلبِینَه (تَلبِین)

ایک قسم کی غذاتھی کہ بھوسی کے ساتھ آٹا اور شہد ملا کر تیار کرتے تھے اور اس کی سفید و لطیف شباہت دودھ (لبن) سے ہونے کے سبب ہی عرب اسے »تَلبِین یا تَلبِینَہ« (شیر یا دودھ والا) کہتے تھے۔ (لسان العرب، 12/  230.)

        پیغمبر اکرم بھی اسی غذا کو بہت پسند فرماتے تھے اور آنحضرت نے ارشاد فرمایا ہے: » اگر موت سے بچنے کی کوئی بنیاد ہوتی تو یہی غذا ہی ہوتی۔« (بحار الانوار، 66/ 96.)

 

                        سوم - ثَرِید

        جس وقت بھی سالن میں روٹی توڑ یں گے تو اسے »ثرید« کہتے ہیں۔ (لسان العرب، 2/  90.)

        فارسی زبان میں اسے ہی »ترید«  کہتے ہیں ، ممکن ہے کہ »ثرید«مختلف کھانوں سے تیار کیا جائے جیسے: گوشت، روغن زیتون، خرما اور حبوبات (دالوں) سے تیار کیا جائے اور کبھی کبھی اسی غذا کو »مَرِیس« (اشکنہ) بھی کہتے ہیں۔ (لسان العرب، 13/  78.)

        اسی غذا کو پیغمبر اکرم کی طرف سے عربوں کی غذا کے طور پر پہچنوایا ہے۔ (بحار الانوار، 66/  83.)

        جناب فاطمہؑ اور حضرت علیؑ کی شادی کے موقع پر لوگوں کی اسی کھانے سے پذیرائی کی ہے۔ (بحار الانوار، 43/  106.)

        روٹی، خرما اور روغن زیتون سے تیار شدہ »ثرید«کی نسبت حضرت علیؑ کی طرف دی گئی ہے اور تناول بھی فرمایا ہے۔ (بحار الانوار، 66/  56؛ وسائل الشیعہ، 11/  83.)

 

                        چهارم - حَرِیرَه

        حریرہ بھی عرب کی ایک غذا ہے جسے آٹے، دودھ اور روغن سے تیار کیا جاتا ہے۔ (لسان العرب، 3/ 119.)

        یہ غذا پیغمبر اکرم کے زمانہ میں معمول تھی۔  (بحار الانوار، 17/  330.)

        حدیث کساء کے واقعہ میں جناب فاطمہؑ نے اسی غذا کے ذریعہ پیغمبر اسلام،امیر المومنین حضرت علیؑ ، امام حسنؑ اور امام حسینؑ کی پذیرائی فرمائی ہے۔(بحار الانوار، 17/ 330؛  35/ 220.)

اسی طرح حضرت علیؑنے بھی کوفہ میں اپنے بعض مہمانوں کی پذیرائی میں یہی غذا پیش کی ہے۔ (ترجمۃ الامام علی، 3/  187.)

 

                        پنجم - حَسَاء

        یہ بھی ایک عربی غذا ہے جسے»آٹا، پانی اور روغن«کو  ملا کے آگ پر پکا کرتیار کی جاتی تھی اور رقیق و سیال ہوتی تھی اور اس کی حالت سالن یا شوربہ کی سی رہتی تھی۔ (لسان العرب، 3/  180.)

 

                        ششم - حَیْس

        تین چیزوں کے مرکب سے ایک قسم کی غذاتیار ہوتی ہے جسے » بَرْنی خرما، کشک () اور روغن«  کو مخلوط کریں گے اورپھرشدت کے ساتھ اسے کوٹتے ہیں تا کہ خرما کی گھٹلی ایک ایک کر کے باہر آجائے، پس اسے صاف اور ہموار کرتے تھے اور کھاتے تھے۔

        بعض اوقات » سویق«  (ستّو)کو بھی اسی میں ملاتے ہیں۔ (لسان العرب، 3/  417.)

        پیغمبر اکرم نے اپنی بعض ازواج کی شادی کے وقت اسی غذا سے لوگوں کو ولیمہ کھلایا ۔ (بحار الانوار، 22/  190؛ 32/  347؛ وسائل الشیعہ، 14/  65.)

        اسی طرح سے خود آنحضرت کئی بار اسی غذا کو تناول فرمایا کرتے تھے۔ (بحار الانوار،  16/  244؛ 44/ 18.) جناب زہراؑ کے ولیمہ کیلئے بھی اسی غذا کا تذکرہ ملتا ہے۔

 

                        هفتم - رَبِیکَه

        اس غذا کے بارے میں مختلف اقوال نقل ہوئے ہیں،بعض اس میں » کشک ، خرما اور روغن« ملایا کرتے تھے کہ جو » حَیس« سے بہت رقیق(پتلا) ہوتا تھا۔تو بعض وقت بہت ہی گاڑھا شیرہ بھی اس میں ملاتے تھے۔ (لسان العرب، 5/  124.)

بعض اسے وہ غذا مانتے ہیں کہ »خرما اور گندم« ملا نے کے بعد اسے پکایا کرتےتھے۔ (العقد الفرید، 6/ 291.)

        تو بعض کہتے ہیں کہ کبھی کھبی اس طعام پر پانی بھی ملاتے تھے اور شربت کی حیثیت سے اسے پیتے تھے۔ (لسان العرب، 5/ 124.)

        جناب ابو طالب نے پیغمبر اکرم کو خطاب کرتے ہوئے اپنے اشعار جو کہے ہیں ان میں ہی اس غذا کا تذکرہ کیا ہے۔ (بحار الانوار، 35/ 64.)

 

                        هشتم - رَغِیدَه

        اس غذا کو اس طرح تیار کیا جاتا ہے کہ ابتدا میں دودھ کو کھولاتے ہیں پھر اسی میں آٹا بھی ملایا جاتا ہےاس وقت انہیں چلاتے رہتے ہیںاور پھر جب تیار ہو جاتا ہے تو اسے چاٹ کر کھایا جاتا ہے۔ (لسان العرب، 5/  256؛ العقد الفرید، 6/  292.)

        اس طرح کی غذا جاہلیت کے زمانہ میں بھی معمول کے مطابق استعمال ہوتی تھی۔ (تاریخ التمدن الاسلامی، 5/  606.)

 

                        نهم - رَهِیدَه

        اس غذا کو تیار کرنے کا طریقہ » رَغِیدَہ« کے بر عکس ہوتا ہےاس طرح سے کہ گیہوں کے آٹے پر دودھ ڈالا جاتا ہے کہ طبعی طور پر آٹے کی مقدار زیادہ ہی ہوتی ہے۔ (لسان العرب، 5/  340.)

        اس قسم کی غذاکا استعمال جاہلیت کے زمانہ میں ہوتا تھا۔ (تاریخ التمدن الاسلامی، 5/  606.)

 

                        دهم - سَخِینَه

        ایک قسم کا شوربہ ہے جسے آٹےاور روغن یا آٹے اور خرما سے تیار کیا جاتا تھا کہ جو» حساء«سے غلیظ تراور »عصیدہ« سے رقیق تر ہوتا تھا۔ (لسان العرب، 6/ 207؛ بحار الانوار، 32/ 526، حاشیہ.)

        اس غذا کا استعمال جاہلیت کے زمانہ میں بھی ہوتا تھا۔ (العقد الفرید، 6/  292.)

        جنگ صِفِّین میں بھی اسی غذاکا تذکرہ ملتا ہے۔ (بحار الانوار، 32/  516.)

 

                        یازدهم - سِکْبَاج

        یہ لفظ فارسی زبان کے (سِکْبا)سے مل کر بنا ہے، یہ مرکب لفظ »سک« بمعنی سرکہ اور »باد یا اَبا« بمعنی آش سے لیا گیا ہے اور اصطلاح میں اس غذا کا نام »آشِ سرکہ« یعنی سرکہ کی آش کےمعنی ہوتے ہیں،یہ غذا ایک آش ہی تھی کہ جسے سرکہ، گوشت،بلغور گندم اور خشک پھلوں سے تیار کی جاتی ہے۔(فرہنگ فارسی معین، 2/ 1897.)

        روایات میں اسی غذا کو حضرت علیؑ کی محبوب غذاؤں میں بتایا ہےکہ یہ احتمال پایا جاتا ہے کہ اسے بہت ہی سادہ طریقہ سے تیار کیا جاتا ہےاور شائد یہ وہی سرکہ اور آٹے پر ہی منحصر تھی۔ (بحار الانوار، 66/ 309؛ وسائل الشیعہ، 16/ 21.)

        بعض کتب میں یہ تحریر ہے کہ یہ غذا دولتمندوں کی غذا کے طور پر لوگ جانتے ہیں کہ اس میں آب گوشت (سالن) اور تیتر کے گوشت کے پکے ہوئے ٹکڑے ڈالتے تھے اور پھر اسے »سَیدُ المَرَق« ؛ »رئیس و سرور آبگوشتہا« یعنی سالنوں کا سردار کی حیثیت سے پکارتے تھے۔(تاریخ التمدن الاسلامی، 5/  606.)

 

                        دوازدهم - شِوَاء

        »شواء « اس غذا کو کہتے ہیں جس میں گوشت کے ٹکڑوں کو آگ پر بھون کر کھایا جاتا ہےاور اس گوشت کو»مَشْوّی« کہا جاتا ہے ۔

         اس غذا کے کھانے کی نسبت پیغمبر اکرم کی طرف دیا جاتا ہے۔ (بحار الانوار، 18/ 30؛ 66/ 72.)

        اور حضرت علیؑکی طرف بھی اسی غذا کے کھانے کی نسبت دیا جاتا ہے۔(بحار الانوار، 66/ 78.)

 

                        سیزدهم - شُوربَاجَه

        وہی فارسی زبان کا شوربہ ہی ہے کہ معمولاً اسے چاول یا دالوں، دیگر غلات اور مختلف سبزیوں کے ساتھ پکایا جاتا ہے۔ (فرہنگ فارسی معین، 2/  2087.)

         روایات میں اس طرح وارد ہوا ہے کہ پیغمبر اکرم شورباجہ کو اسی کے نام سے پسند فرماتے تھے۔(بحار الانوار، 66/ 85.)

 

                        چهاردهم - صَحْنَاء (صَحنَاۃ)

        یہ دونوں ہی کلمے فارسی زبان کے ہیں، صَحْناء (صحنا) ایک قسم کے سالن کو کہا جاتا ہےکہ جو چھوٹی مچھلیوں سے تیار کیا جاتا ہے۔  (لسان العرب، 7/ 293؛ فرہنگ فارسی معین، 2/ 2134.)

        » صحناہ یا صِیر«  کے الفاظ بھی فارسی سے ہی مشتق ہےجسے نمکین مچھلی سے تیار کیا کرتے تھے۔ (لسان العرب، 7/ 453؛ فرہنگ فارسی معین، 2/  2134.)

        کوفہ میں اس غذا کا تذکرہ سنہ ۶ ہجری کے عشرہ میں پایا جاتا ہے۔ (تجارب الامم، 2/ 131.)

 

                        پانزدهم - طَفَیْشزل

        یہ ایک قسم کا شوربہ ہے جسے صرف یہودی لوگ ہی پکاتے تھے اور کھاتے بھی تھےاور مسلمانوں کیلئے غیر معروف تھا لیکن اسی غذا کا تذکرہ جنگ صفین میں ملتا ہے۔ (بحار الانوار، 32/ 516.)

 

                        شانزدهم - عَصِیدَه

        عَصِیدَہ ایک قسم کی غذا تھی کہ جو آٹے اور روغن کو ملا کر تیار کرتے تھے اور آگ پر پکاتے بھی تھے۔ (لسان العرب، 9/  235.)

        معمول کے مطابق اس غذا کو جَو کے آٹے سے تیار کرتے تھے اور اسے تناول کرنے کی نسبت پیغمبر اکرم کی طرف بھی دی جارہی ہے۔ (بحار الانوار، 16/ 244؛  66/ 87.)

        اسی طرح بعض مواقع پر اسی غذا کا تیار کرنا جناب زہراؑکے توسط سے بھی روایات میں وارد ہوا ہے، اصحاب کساء جب جمع ہوئے اور جس وقت آیت تطہیر نازل ہوئی ۔ (بحار الانوار، 25/ 221.)

        اہلبیت کی شان میں نازل ہونے والی سورہ دہر»ہل أَتیٰ«  کے واقعہ کے وقت بھی اسی غذا کا تذکرہ کتابوں میں ملتا ہے۔ (بحار الانوار، 35/ 244.)

 

                        هفدهم - فَرِیقَه

        یہ بھی ایک قسم کی غذا ہے جسے گندم، خرما اور دودھ کو مخلوط کر کے (نُفَسَاء) عورت یعنی جس عورت کے یہاں بچہ کی پیدائش ہوئی ہے کیلئے تیار کیا جاتا ہے اور احادیث میں بھی اس کا تذکرہ پایا جاتا ہے۔ (لسان العرب، 10/ 247؛ العقد الفرید، 6/ 291.)

 

                        هجدهم - قَدِید

        حقیقت میں یہ کسی مخصوص غذا کا نام ہی نہیں ہے بلکہ گوشت کے ٹکڑوں کو کہا جاتا تھا کہ عرب لوگ گوشت کو فاسد و خراب ہونے سے بچانے کی خاطر انہیں نمک لگا کر آفتاب میں خشک کیا کرتے تھےاور ضرورت کے وقت اسے استعمال کرتے تھے۔ (لسان العرب، 11/ 52.)

        اس قسم کے گوشت کے تناول کرنے کی نسبت پیغمبر اکرم کی طرف دی گئی ہے۔ (بحار الانوار، 66/ 72.)

        یہ بھی نقل ہوا ہے کہ کبھی کبھی صرف اسے ہی یا پھر روٹی کے ساتھ کھایا ہے۔ (بحار الانوار، 16/ 245.)

 

                        نوزدهم - مَرَق

         اس لفظ مَرَق کے معنی »آبگوشت« یعنی شوربہ دار گوشت کے ہیں ۔(لسان العرب، 13/  85.)

        پیغمبر اکرم نے ایک حدیث میں حضرت علی ؑسفارش فرمائی ہے کہ  جس وقت بھی کوئی غذا پکاؤ تو »مَرَق«کو زیادہ کرو ، کیونکہ یہ بھی خود ایک طرح کا گوشت ہے اورہمسایوں کی اس سے پذیرائی کرو کہ اگر گوشت نہیں ملے گا تو اس کا شوربہ ان کے نصیب میں آئے گا۔ (بحار الانوار، 66/ 79.)

 

                        بیستم - نَاربَاجَه

        اس لفظ کو فارسی زبان کےلفظ »ناریا یا اَناربا« سے لیا گیا ہے، جسے (انار + با = بمعنی آش کے ہوتاہے) اورجس کے معنی آشِ انار یا انار کا آش ہے ۔ عرب اس غذا کو انار اور کشمش کے دانوں سے تیار کرتے تھے۔ (فرہنگ فارسی معین، 4/  4559.)

        یہی غذا پیغمبر اکرم کی نظر میں بہت محبوب ہونے کا تذکرہ کتابوں میں ملتا ہے۔ (بحار الانوار، 66/ 16.)

 

                        بیست و یکم - وَشِیقَه

        یہ غذا »قَدِید«  کی طرح کوئی خصوصیت نہیں رکھتی بلکہ گوشت کے خراب و فاسد ہونے سے محفوظ رکھنے کیلئے اسے آگ پرآدھا پکا لیتے تھےنیزآدھا کچا رکھتے تھے اور اپنے سفرہ کیلئے محفوظ کرتے تھے ، اس طرح کے گوشت کا تذکرہ پیغمبر اکرم کے زمانہ میں ملتا ہے۔(لسان العرب، 15/ 309؛ العقد الفرید، 6/ 290.)

 

                        بیست و دوم - هَرِیسَه

        عربوں کی ایک غذا ہے جسے گوشت اور ہاون (مَہراس) میں گیہوں کوٹ کر تیار کیا جاتا تھا۔ (لسان العرب، 15/ 75.)

        اسی کو فارسی زبان میں حلیم کہا جاتا ہے۔  (فرہنگ فارسی معین، 4/ 5131 و 5165.)

        پیغمبر اکرم اس غذا کو بہت شوق سے تناول فرماتے تھے۔ (بحار الانوار، 66/ 86.)

        حضرت علیؑ بھی لوگوں کو اسی غذا کے کھانے کی سفارش فرماتے رہتے تھے۔ (وسائل الشیعہ، 17/ 49.)

 

نوٹ: حلیم اور کھچڑا کے درمیان چند فرق پائے جاتے ہیں:(مترجم)


        ۱۔حلیم اور کھچڑا بنیادی طور پر ایک جیسی ہی غذا ہےکیونکہ حلیم میں گوشت کو اتنا گلا دیا جاتا ہے کہ صرف اس کے ریشے ہی نظر آتے ہیں جبکہ کھچڑامیں گوشت کے ٹکڑوں کی شکل میں برقرار رکھا جاتا ہے۔

        ۲۔ حلیم میں گیہوں اور گوشت ہوتا ہے جبکہ کھچڑا میں گیہوں، جَو، مختلف قسم کی دالیں ، چاول اور چنا ،مٹر و لوبیا اوردیگر مسالہ جات کا اضافہ کیا جاتا ہے۔

        ۳۔ حلیم کی طرز پر ہی کھچڑا تیارہوتا ہے مگر ہم کھچڑے کو حلیم نہیں کہیں گےکیونکہ کھچڑا عرب کی کوئی بھی غذا کی قسم ہی نہیں ہےبلکہ یہ عربی غذا ہی نہیں ہےبلکہ حلیم سے متاثر ہو کر ہی کھچڑا تیار کیا گیا ہے۔

        ۴۔نظام حیدرآباد کی فوج کے عرب سپاہیوں نے ہی حلیم کو سب سے پہلےمتعارف کروایااور دہلی میںمقیم مورخ شہیل ہاشمی کے مطابق شمالی ہندوستان کے لکھنؤ شہر میں قحط کا دور آیا تواس وقت کے نواب اودھ نے ایک امامباڑہ کی تعمیر کا آغاز کیا اور اعکام کیا کہ جو شخص بھی اس کی تعمیر میں مدد کرے گا اسے مفت کھانا دیا جائے گاسب سے پہلی بار یہ مفت کھانا چاول پر مشتمل ہی تھاپھر آہستہ آہستہ اس میں گوشت اور مختلف دالوں کے ساتھ پکایا جانے لگااس طرح لحمیات اور نشاشتہ سے غنی ہو گیاپس اماماڑہ کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد تو یہ غذا مقبول عام ہو گئی آج نہ صرف لکھنؤ بلکہ تمام برصغیر ہند و پاک کے متعدد شہروں میں پھیل گیا اور مسافرین نے بھی اسے ملک کے دوسرے حصوں میں پہونچایا جہاں اس نے مزید مقامی ذائقہ حاصل کیا جسے ہم کھچڑا کے نام سے جانتے ہیں۔ 

 

د :  غذا سےقبل (دیزرڈ)

 

        حضرت علیؑ  سے ایک روایت میں نقل ہوا ہے کہ امیر المومنین فرماتے ہیں: »بیشارِجات«  انسان کے شکم کو بڑا کرتا ہے۔ (بحار الانوار، 66/ 81.)

        اس لفظ کے معنی کے بیان میںاس طرح کہا گیا ہے کہ لفظ »بیشارجات «یا »قیشارجات«  میں جو (فارسی زبان میں جمع کی علامت)»جات« مذکورہ الفاظ کے ساتھ لگا ہوا ہے تو یہی فارسی زبان کا لفظ »پیشپارہ«سے ہی مشتق ہے کہ جس کے معنی »خوانچہ اور طبق« کہ جس میں غذا کھانے سے قبل مہمان کی خاطر لاتے ہیں اوراسی میں مختلف اقسام کی شرینی جات اور دیگر اشتہا آور کھانے کی چیزیں چھوٹے چھوٹے پیالوں میں قرار دیاکرتے ہیں۔

        لفظ »شُفارج«کو بھی اس معنی میں استعمال کیا جاتا ہےبعد میں عربوں نے لفظ »الوان«  یعنی مختلف رنگوں کو ان غذاؤں سے پہلے مختلف رنگوں پر مشتمل ہونے کے سبب اسی لفظ کو استعمال کیا ہے۔ (بحار الانوار، 66/ 81.)

 

ھ :  غذا کے ساتھ سبزیجات کا استعمال

 

        کوفہ میں غذا کے ساتھ سبزیجات کھانے کا ایک معمول کا امر تھا چنانچہ ایک روایت میں نقل ہوا ہے کہ  حضرت علیؑ معمولاً اپنے دسترخوان پر سبزیجات تناول فرمایا کرتے تھے۔ (وسائل الشیعہ، 16/ 531.)

 

و :  سُفرَه غذا

        اشاره :  سفرہ کے بارے میں یعنی ظرف یا کپڑے کا ایک ٹکڑاجس کے اوپر غذا کھایا جاتا ہے ، مندرجہ ذیل الفاظ لغات میں استعمال ہوئے ہیں:

 

        یک – سُفْرَه: سفرہ اصل میں ایک غذا کو کہا جاتا ہے کہ مسافرین جسے اپنے ساتھ سفر پر لے کر جاتے ہیں اور اسے ایک دائرہ نما شکل میں کھال کو قرار دیا جاتا ہے، اس وقت دھیرے دھیرے ظرف غذا کی جگہ یعنی اسی دائرہ نما کھال کو ہی سفرہ کہنے لگے ۔ (لسان العرب، 6/ 278.)

        ہماری روایات میں بھی اس لفظ کو غذا کے ظرف کو جو سفر میں استعمال ہوتا ہے۔ (بحار الانوار، 65/ 140؛ وسائل الشیعہ،  16/  307.)

 

        دو- خُوَان (خِوَان): یہ لفظ وہی ہے جسے اردو اور فارسی میںاسی طرح »خَوان« لکھا جاتا ہے  (جس کا تلفظ خَان ہوتا ہے)  جس کا احتمالی معنی ایک لکڑی کا بڑا طبق کے ہوتے ہیں کہ جس پر غذا رکھ ا جاتا ہے اور اسی پر سے تناول کیا جاتا ہے۔ (لسان العرب، 4/ 254؛ فرہنگ فارسی معین، 1/ 1449.)

        روایت میں نقل ہوا ہے کہ حضرت علیؑ کے کلام میں  »فالودج« یا »فالود« کو »خوان«  میں لانے کا تذکرہ ملتا ہے۔ (بحار الانوار، 64/ 323.)

        شائداس سے استفادہ کر سکتے ہیں کہ معمول کے مطابق تنقلات کو اسی »خوان« پر ہی رکھتے تھے ۔

        دیگر روایت میں »طَسْتِ خَوان« کے نام سے تعبیر کیا ہے کہ شائد اس لفظ سے استفادہ کر سکتے ہیں کہ »خوان«  کی شکل »طشت« کے جیسی ہوتی ہوگی۔ (بحار الانوار، 64/ 323.)

 

        سه – طَبَق: ایک مدور (گول) اور بڑا چوبی ظرف ہوتا ہے کہ جس پر غذا کھایا جاتا ہےاور تقریبا »سینی« کی شبیہ کی طرح ہوتی ہے۔ (لسان العرب، 8/ 121؛ فرہنگ فارسی معین، 2/ 2210.)

        یہ لفظ حضرت علیؑ کی خلافت ظاہری کے زمانہ میں بھی اس کا تذکرہ ملتا ہے۔ (بحار الانوار، 66/ 325؛ وسائل الشیعہ، 16/ 531.)

 

        چهار – مَائِدَۃ: سفرۂ غذا یعنی کھانے کے دسترخوان کو کہتے ہیں کہ جس میں غذا کو آمادہ کیا جاتا ہے۔ (لسان العرب، 13/ 229.)

        قرآن کریم میں اسی لفظ (سورۃ المائدۃ) کے نام سے ایک سورہ بھی موجود ہے کہ جس میں جناب عیسیؑنبی پر نازل ہونے والا»مائدۂ آسمانی«  کا واقعہ مذکور ہے۔ (رجوع کیجئے  مائدہ،  114.)

 

        پنج - نَطْع (نَطَعْ، نِطْع، نِطَع): حیوانات کی کھال سے تیار کیا جاتا ہے جسے زمین پر پھیلا کر اس پربہت سے امور انجام دیا جاتا ہے جیسے کسی کو قتل کرنا ہو تو اسی کا ہی استعمال کیا جاتا تھا۔ (لسان العرب، 14/ 186.)

        جیسا کہ جناب سعید بن جُبَیراور حجاج بن یوسف ثقفی کے واقعہ میں بھی اسی فرش کا تذکرہ ملتا ہے جو دربار میں بچھایا گیا تھا تا کہ سعید بن جُبَیرکے خون سے دربار کی زمین رنگین نہ ہو سکے۔ (البدایۃو النہایۃ، ابن کثیر،دار إحیاء التراث العربی، طبع ۱۹۸۸، ۹/ ۱۱۵ و ۱۱۶) (مترجم)

        اس لفظ کا استعمال کرنا روایت میں اس معنی پر دلالت کرتا ہے کہ جس موقع پر لوگوں کی بھیڑ زیادہ ہوتی تھی تو اسی سے استفادہ کرتے تھے جیسے جابر بن عبد الله انصاری کا مہمانی میں لوگوں کی پذیرائی کرنا۔(بحار الانوار، 17/ 232.)

        جناب فاطمہ زہراؑ کی عروسی کے ولیمہ میں بھی اسی کا استعمال کیا تھا۔ (بحار الانوار، 43/ 114.)

        صلح حدیبیہ کے موقع پر بھی اصحاب رسولخدا نے اسی پر ہی غذا کھایا تھا۔ (بحار الانوار، 20/ 357.)

        البتہ بعض مواقع پر اس لفظ کی جمع »اَنْطاع و نُطُوع« میں بھی استعمال ہوا ہے کہ متعدد دسترخوان پر موقع و محل کے اعتبار سے دلالت کرتا ہے۔

 

٢. پینے والی اشیاء اور چیزیں

 

        اشاره : یہاں پر فقط پینے کے قابل چیزوں کا تذکرہ کرتے ہیں کہ جو اصل میں مائع یا رقیق یا سیال ہوتی ہے اور انہیں اسی سیال شکل میں ہی پیا جاتا تھا،لیکن مختلف تنقلات کے اقسام کہ جنہیں مخلوط صورت میں پانی کے ساتھ اور پینے کے طور پر استعمال ہوتا تھا جسے ہم تنقلات کے حصہ میں بیان کریں گے۔ پینے کے لائق چیزوں کو دو حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں:

۱۔ پینےکےلائق حلال چیزیں ۔             ۲۔ پینے کے لائق حرام چیزیں۔

 

الف: پینے کے لائق حلال چیزیں

 

اشاره :  ہماری بحث کے زمانہ یعنی سنہ ۱۷ ہجری تا سنہ ۶۱ ہجری کی بعض پینے کے قابل چیزیں مندرجہ ذیل ہیں:

 

        ایک –  لبن یا حلیب (دودھ): اس سلسلہ میں اس طرح آیا ہے کہ پیغمبر اکرم دودھ پینے سے بہت زیادہ لگاؤ رکھتے تھے۔ (بحار الانوار، 66/ 100.)

        نیزدودھ کو تھوڑا تھوڑا خرما کے ساتھ استعمال کرتے تھے تو اسے »أَطیَبَان« یعنی »دو پاکیزہ« نام سے پکارا کرتے تھے۔ (بحار الانوار، 66/  287 و 288.)

 

        دو – عسل (شہد): بعض روایات میں یوں آیا ہے کہ پیغمبر اکرم شہد سے بہت خوش ہوتے تھے۔ (بحار الانوار، 66/ 100.)

         بعض تاریخی کتب میں اس طرح سے آیا ہے کہ اس بحث کے زمانہ یعنی سنہ ۱۷ تا سنہ ۶۱ ہجری کے لوگ بعض مواقع پرشہد کو پانی میں مخلوط(ملا ) کر کے پیا کرتے تھے۔ (تجارب الامم، 2/ 124.)

        تین – شیرہ: (تاریخ التمدن الاسلامی، 5/ 662.)

 

چار - پھلوں کے جوس اور رسوں کے اقسام

 

          کچھ تاریخی روایت میں ایک قسم کے »عصیر« یعنی پھل کو نچوڑکر جوس یا رس نکال کر جسے»طَلَاء« کے نام سے پکارا جاتا ہے قاضی شریح کے توسط سے پینے کا تذکرہ ملتا ہے۔ (اخبار القضاۃ، 2/ 226.) کہ اس »طَلَاء« کو لغت میں عصیر انگوری کے معنی میں بتایا ہے اور ترجمہ ملتا ہے کہ آگ پر پکا کر ۲؍ تہائی حصہ کو کم کیا جاتا ہے۔ (لسان العرب، 8/ 194.) اور »طَلَاء« کو فارسی زبان میں پکاہوا »مِی« کہتے ہیں۔ (فرہنگ فارسی معین، 2/ 2229.)

 

ب: پینےوالی حرام چیزیں

 

        اشاره : فصل اول میں، اس نکتہ کا تذکرہ ہم نے کیا ہے کہ بعض مواقع پر کوفہ کے بعض جوانان حرام پینے والی چیزوں جیسے خمر (انگور کی شراب) کا استعمال کرتے تھے۔ شرب خمر کی حد کا جاری ہونا حضرت علی کی خلافت کے زمانہ میں بعض واقعات سے تائید بھی ہوتی ہے۔ (وسائل الشیعہ، 18/ 474.)

        اسی طرح کوفہ میں یہودیوں اور عیسائیوں کے وجود کو بھی ہم شراب بنانے والے کی حیثیت سے بیان کر سکتے ہیں۔ انگور کی شراب (خمر) کی حرمت پر شیعہ اور سنی فقہ کا اتفاق نظر پایا جاتا ہے، لیکن دیگر اقسام کی بھی شراب موجود تھی کہ شیعہ ان سب کی حرمت (حرام ہونے) کے قائل ہیں لیکن اہلسنت کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔ جن میں سے بعض کا تذکرہ ہم ذیل میں کر رہے ہیں:

 

                        ۱- نَبیذ:  لغت میں ہر قسم کی شراب کو جو انگور، خرما، کشمش، شہد، گیہوں اور جوسے بنائی جاتی ہے کو نبیذ کہا جاتا ہے، اسے بنانے کا طریقہ ایسے ہوتا ہے کہ مذکورہ بالا تمام ہی اشیاء کو ایک ظرف میں پانی کے ساتھ ڈال دیتے ہیں تا کہ خمیر اٹھ جائے اور نشہ آور ہو جائے۔ (لسان العرب، 14/ 17.)

        لیکن نبیذ کے مشہور معنی وہ شراب جو خرما سے بنائی جاتی ہےیعنی کھجور کی شراب کو کہا جاتا ہے۔ (بحار الانوار، 66/ 490.)

        شیعہ روایات میں اس طرح سے نقل ہوا ہے کہ حضرت علیؑ نبیذ پینے پر بھی حد شرعی جاری کرتے تھے۔ (وسائل الشیعہ، 18/ 471.)

 

                        ۲ - بِتْع (بِتَع): وہ شراب ہے جسے شہد سے بنایا جاتا ہے یعنی شہد کی شراب کو کہا جاتا ہے۔پیغمبر اکرم کی ایک حدیث میں اس طرح نقل ہوا ہے کہ آنحضرت نے اسے بھی حرام قرار دیا تھا۔ (بحار الانوار، 66/ 490.)

        کہا جاتا ہے کہ اس قسم کی شراب کو اہل یمن بنایا کرتے تھے۔ (لسان العرب، 1/ 310.)

 

                        ۳ – فُقّاع: وہ شراب جسے »جوَ« سے بنایا جاتا ہے یعنی جو کی شراب کو کہا جاتا ہے۔ (لسان العرب، 10/ 304.)

        بعض روایات میں اس طرح نقل ہوا ہے کہ یزید - لعن الله علیہ- دسترخوان پر بیٹھا ہوا تھا تب ہی سر امام حسینؑ وارد ہوتا ہے تو وہاں پریہی شراب پی جارہی تھی۔ (بحار الانوار، 66/ 492.)

 

                        ۴ – مِرْز: ابو موسی اشعری کے بقول وہ شراب ہے جسے مکئی سے بنایا جاتا ہے یعنی مکئی کی شراب کو کہا جاتا ہے۔  (لسان العرب، 13/ 93.)

        البتہ جو شرابیں جو، گیہوں اور دیگر غلات سے بنائی جاتی ہے تو اسے بھی  »مرز« کہا جاتا ہے۔ (لسان العرب، 13/ 93.؛ بحار الانوار، 66/ 490.)

        پیغمبر اکرم کی زبانی اس کےپینے کو حرام قرار دینا نقل ہوا ہے۔ (بحار الانوار، 66/ 490.)

 

                        ۵ – نقیع: وہ شراب ہے جسے کشمش سے بنایا جاتا ہے یعنی کشمش کی شراب کو کہا جاتا ہے۔اس قسم کی شراب ایسے بنایا جاتا ہے کہ کشمش (زَبِیب) کو پانی میں بھگویا جاتا ہے اور بغیر آگ کے استعمال کئے ہوئے یعنی آگ پر پکائے بغیر ہی اسے تیارکرتے ہیں۔ (لسان العرب، 14/ 296.)

        اس شراب کیلئے بھی پیغمبر اکرم نے حرام قرار دیا ہے۔ (بحار الانوار، 66/ 490.)

 

٣. پھل

 

        شہر کوفہ میں انواع و اقسام کے پھلوں کا استعمال و مصرف (سنہ ۱۷تا سنہ ۶۱ہجری) زمانہ بحث کو ہم نے فصل اول میں ذکر کیا ہے، اسی بنا پر ہم انہیں یہاں پر تذکرہ کو تکرار کی ضرورت نہیں ہے۔ 

 

کوفہ کے شہر بننے کے بعد کے پھلوں کے درخت

        اشاره : گرچہ مختلف قرائن کے مطابق کوفہ میں اس زمانہ بحث یعنی سنہ ۱۷ ھ تا سنہ ۶۱ ھ کے وقت میں بہت سے درخت اور پودے موجود ہو سکتے ہیںلیکن ہماری بنا یہی ہے اس تحریر میں ہم صرف انہی درختوں اور پودوں کا تذکرہ کریں گے کہ جنہیں احادیث یا تاریخی کتب میں ذکر کیا ہے ۔ اس حصہ کو ہم دو حصوں درختوں اور پودوں میں تقسیم کررہے ہیں:

 

اول - درختوں کے پھل

        اشاره : ہم اس حصہ میں ان درختوں کے ناموں کا تذکرہ کریں گے جن درختوںکے پھل کوفہ میں پائے جاتے ہیں، حال میں یا اصل درخت کوفہ میں تھے یا دیگر شہر سے پھل لائے جاتے تھے۔

 

        ۱۔خرما : خرما کا درخت کوفہ کی آب و ہوا کی نوعیت کے سبب اور عربوں کا اسے کثرت سے استعمال کی بنا پر سب سے زیادہ حجم کو اپنے سے مخصوص رکھتا تھا، اس طریقہ سے کہ کوفہ کا مشرقی منطقہ جو دریائے فرات کے کنارے قرار رکھتا تھاکوفہ کے لوگوں کے نخلستانوں کا اصلی محل وقوع شمار ہوتا تھا۔ (الحیاۃ الاجتماعیۃ، ص 141.)

        کوفہ کا خرما بصرہ کے خرما سے زیادہ خوش ذائقہ تھا، اس طرح سے کہ بصریوں کے مقابل میں بعض کوفیوں کا اپنے افتخارات کو بیان کرنے کے وقت اسی بات کا تذکرہ کیا کرتے تھے۔ (مختصر کتاب البلدان، ص 164.)

        قابل ذکر بات یہ ہے کہ کوفہ کے تمام نخلستان مغرب کی سمت سے قادسیہ تک اور شمال کی سمت سے شہر انبار و ہیت تک پھیلے ہوئے تھے۔ (الحیاۃ الاجتماعیۃ، ص 141.) (نقشہ شمارہ: 5)

        خرما کے انواع میں سے بعض کی موجودگی قطعی طور پرزمانہ بحث میں قرار رکھتے تھے جن کو ہم ذیل میں ذکر کر رہے ہیں:

 

        رُطَب آزاد؛

                        رُطبِ مُشان: (مختصر کتاب البلدان، ص 157 و 164.) : ایک قسم کا زرد رنگ کا خرما ہوتا ہے کہ لفظ »موشان« فارسی لغت سے لیا گیا ہے،کیونکہ اس قسم کے خرما کو موش (چوہا) کی جمع موشہا (چوہے) بہت کھاتے تھےلہذا ایرانیوں اسے »موشان« کا نام دیدیا۔ (لسان العرب، 13/ 118.)

        مدینہ کے عرب لوگ اسی خرما کو »اُمّ جُرْذان« کے نام سے پکارتے ہیں۔ (وسائل الشیعہ، 17/ 106.)

 

        تمر بَرْنی: (لسان العرب، 1/ 391.): ایک قسم کا خرما جس کا رنگ سرخ مائل بزرد ہوتا ہے بہت ہی خوش ذائقہ ہوتا ہے، اس خرما کی اصل ایرانی ہے اور لغت کے اصول کے مطابق لفظ»برنی« فارسی کے لفظ »بارنیک«سے ہی لیا گیا ہے اور لفظ »بار«کے معنی تمر اور پھل کے ہوتا ہے۔ (لسان العرب، 1/ 391.)

 

        تمر سابِری :اس لفظ کو بھی فارسی زبان میں شاپورکی لغت سے لیا گیا ہوگا، مدینہ میں اس قسم کے خرما کو» بیض«کہا جاتا ہے۔ (وسائل الشیعہ، 17/ 106.)

 

        تمر صرفان: (لسان العرب، 7/ 111.): ایک قسم کا خرما ہےجو بَرْنی کجھور کی جیسی ہے لیکن اس سے سخت تر ہے کہ معمولا اسے چبا کے کھا یا جاتا ہے اور اصطلاح میں چیونگم کی جیسی ہی کیفیت رکھتی ہے۔ (لسان العرب، 7/ 331.)

        مدینہ میں لوگ اسی خرما کو »عَجْوَہ «کہتے ہیں۔ (وسائل الشیعہ، 17/ 106.)

        تمر ہیروان: خرما کہ جسے »ہیرور اور ہیرون« کے بھی نام سے پکارا جاتا ہے۔  (وسائل الشیعہ، 17/ 109؛ لسان العرب، 9/ 75.)

        یہ مدینہ کی بہترین کجھوروں میں سے ایک ہے اور ذکر کیا جاتا ہے کہ پیغمبر اکرم نے اسے بویا ہے۔ (فتوح البلدان، ص 164؛ مختصر کتاب البلدان، ص 163.)

        تمر نرسیان: (مختصر کتاب البلدان، ص 163.): یہ عراق کے بہترین خرموں میں سے ایک قسم کا خرما ہے یہ اس قدر شدت سے مرغوب ہوتی ہے کہ اسے بہترین مکھن کے طور پر مثال میں بیان کیا جاتا ہے۔ (لسان العرب، 14/ 103.)

 

                        رُطَب اور تَمر کا فرق:

        رُطَب اور تَمر کے درمیان یہ فرق ہوتا ہے کہ» رُطَب« پکی ہوئی تازہ کھجور کو کہا جاتا ہے یعنی کہ نصف کچی اور نصف پکی ہوئی کو کہا کاتا ہے،اور»تَمر« مکمل طور پر پکی ہوئی کجھور کو کہا جاتا ہے یعنی کہ پوری طریقہ سے پکی ہوئی کجھور کو کہا جاتا ہے۔ (لسان العرب، 5/ 237.)

 

        ۲۔انگور (عِنَب): کوفہ میں جس درخت انگور کا درخت بویا جاتا تھا وہ خاص طور سے »رازقی« قسم کا ہی انگور کا پودا تھا۔ (وسائل الشیعہ، 17/ 114.) جس انگور کے دانہ سفید اور دراز ہوتا ہے لہذا اس کی بہت زیادہ اہمیت رہتی تھی، اس قسم کے انگور کی اصل شہر طائف کی طرف نسبت دی ہے۔ (لسان العرب، 5/ 205.)

 

        ۳۔ زیتون: اس کا درخت عام طور سے کوفہ کے اطراف میں عیسائیوں کے دیروں یا خانقاہوں میں ہوتے تھےاور انہی مقامات میں ہی بویا جاتا تھا ، لوگوں کے روغن نباتی یعنی بناسپتی تیل کی ضرورت کا ایک بڑا حصہ اسی کے پھل سے حاصل کیا کرتے تھے۔ (الحیاۃ الاجتماعیۃ، ص 142.)

        ۴۔ انار (رُمَّان): روایتوں میں کوفہ کے اناروں کی ایک قسم »انار سورانی« (رُمَّان سورانی) کے نام کا بھی تذکرہ ملتا ہے۔ (وسائل الشیعہ، 17/ 124.)

        ممکن ہے کہ عراق میں مقیم سریانیوں کی طرف نسبت کی بنا پر اسے یہ نام ملا ہے کیونکہ بابل کے علاقہ میں ایک مقام کا نام »سوری« موجود ہے۔ (لسان العرب، 6/ 429.)

        ۵۔سیب (تُفَّاح): حضرت علی ؑنے اسے کھانے کی سفارش فرمائی ہےجو اس بات پر دلیل ہے کہ اس کا وجود کوفہ میں پایا جاتا تھا۔  (وسائل الشیعہ، 17/  125.)

        ۶۔ بِه یا بِہِی(سَفَرْجَل): (وسائل الشیعہ، 17/ 129.)

        ۷۔ اخروٹ (جَوز): (بحار الانوار، 64/ 198.)

        ۸۔ تُرَنج:  (بحار الانوار، 64/ 190؛ مختصر کتاب البلدان، ص 155.): عرب اس پھل کو»اُتْرَجّ، ترنجہ، اُتْرُجَّہ، تُرُنجہ و تُرنج« کے ناموں سے پکارا کرتے تھے اور اس کا ایک درخت ہوتا ہےجس کا پھل لیموکے مثل ہی کٹھا ہوتا ہےاور پھل کو دیکھیں گے تو ستارے کے جیسا لگتا ہے جسے انگریزی زبان میں اسٹار فروٹ کہا جاتا ہے۔(لسان العرب، 2/ 25.)

        بعض لغات کی کتابوں میں اسے گیاہ بالنگ یا سیب آبی کے نام سے پہچنوایا ہے۔ (فرہنگ فارسی معین، 1/  1072.)


4. تنقلات


        اشاره : یہاں پر مختلف قسم کی شیرینی جات یعنی مٹھائیاں اور دیگر کھانے کے لائق چیزوں کا جو اصلی غذا کی حیثیت سے استعمال نہیں کی جاتی ہیں ، ہم انہیں تنقّلات کے عنوان کے ماتحت تذکرہ کر رہے ہیں ۔گرچہ ممکن ہے کہ اصل میں لغت نے انہیں تنقلات کے معنی میں شامل نہ کیا ہو۔پس وہ کھانے والی اشیاء مندرجہ ذیل ہیں:

 

        الف : جَوْزِینَق: لفظ »جَوز«  کے معنی اخروٹ کے ہیں اور ظاہری طور پر »جوزینق« ایک قسم کی مٹھائی ہے کہ جس کا اہمترین عنصر اخروٹ کا مغز ہوتا ہے ، اس کے کھانے کا تذکرہ حضرت علیؑ  کی ظاہری خلافت کے زمانہ میں ملتا ہے۔ (بحار الانوار، 42/  239.)

        ب : حَلوَاء:  لغت میں ہر کھانے والی میٹھی چیز کو کہا گیا ہے۔ (لسان العرب، 3/  309.)

روایات میں اس طرح وارد ہوا ہے کہ پیغمبر اکرم حلوا سے بہت خوش ہوتے تھے۔ (بحار الانوار،  66/  288.)

        البتہ ایسا احتمال بھی پایا جاتا ہے کہ ایک مخصوص قسم مٹھائی ہوتی تھی، کیونکہ شہد کے مقابل میں استعمال ہوا ہے کہ خود بھی شیرین ہوتا ہے۔

        ج : خَبِیص: ایک قسم کا حلوا ہوتا ہے۔ (لسان العرب، 4/  15.)

        بعض نے اس کو تیار کرنے طریقہ اس طرح بیان کیا ہے: ایک معین مقدار بھر شیرہ کو کھولایاجاتا ہے اور اسی کھولتے ہوئے میں اسی مقدار بھر آٹا بھی اس میں اضافہ کیا جاتا ہے اور اسے اس قدر پکایا جاتا ہے یہاں تک کہ اس کی خوشبو مشام تک پہونچ جائے۔اسی طرح کبھی کبھی اسی میں کچھ مقدار کوئی میٹھی چیز بھی شامل کی جاتی ہے جیسےشہد یا شکر کا اضافہ کیا جاتا ہےاور آگ کے شعلہ کو ہلکی کر دیا جاتا ہے اور پھر اسے ملاتے رہتے ہیں یہاں تک کہ وہ روغن چھوڑ دے، پس حلوا تیار ہوگیا ہے۔ (بحار الانوار،  66/  286.)

        یہ ایک قسم کی شیرینی ہے جس کا تذکرہ حضرت زہراؑکے ولیمہ میں ملتا ہے۔ (بحار الانوار،  43/  106.)

        د : سَوَیق: یہ لفظ لغت میں ایک چیز کے معنی میں آیا ہے کہ جو گندم اور جَو سے تیار کیا جاتا ہے کہ اس سے مرادان دونوں کا آٹا ہے ۔ (لسان العرب، 6/ 438.) اسی بنا پر لفظ»سویق« کے مترادف معنی فارسی زبان میں»قاووت یاقُویت« پایا جاتا ہے، لیکن جب ہم روایات کی طرف رجوع کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ لفظ»سویق« عمومی معنی رکھتا ہےاور اسے ہر اگنے والی اجناس جیسے بادام (بحار الانوار، 66/ 287.) جَو (بحار الانوار، 66/ 287.) عدس  یعنی مسور (بحار الانوار، 66/ 282.) اور یہاں تک کہ سیب (بحار الانوار، 66/ 281.) سے تیار کیا جاتا ہے۔

        ایک حدیث میں تو »سویق بادام« میں بہترین قسم کی شکر شامل کرنے کا بھی تذکرہ آیا ہے۔ (بحار الانوار، 66/ 281.)  جس سے اس کی ترکیبات میں سے ایک ترکیب کی تشخیص ہوتی ہے۔

        بعض مورخین نے کہا ہے کہ »سویق« سات چیزوں سے تیار کیا جاتا ہے: گندم (گیہوں)، جَو، نَبق (آٹے کے مثل ہوتا ہے کہ جو خرما کے درخت کے تنہ سے حاصل کیا جاتا ہے۔)سیب،کدو، انار کا دانہ،ارزن۔ البتہ عدس یعنی مسور کا لفظ روایات میں استعمال ہوا ہے مگر تحریر میں چھوٹ گیا ہے۔

یہ بھی کہا گیا ہے کہ گندم اور جَو کا ہی »سویق« سب سے زیادہ استعمال میں رہتا تھا۔ (بحار الانوار، 66/  283.)

 »سویق« میں سےبعض جیسےسویق سیب کا استعمال بطور دوا ہوتا تھا نہ کہ روز مرہ کھانے کے استعمال کیلئے۔ (بحار الانوار، 66/ 284.)

روایات میں اس طرح آیا ہے کہ »سویق« کو ۲؍ صورتوں میں استعمال کیا کرتے تھے:استعمال کی  پہلی صورت خشک یعنی آتے کی طرح ،اسی لئے اسے »سویق جاف« کہتے تھے اور استعمال کی دوسری صورت خمیر اور پانی کے ساتھ مخلوط کر کے اسی لئے اسے »سویق مَلْتوت«کہتے تھے اور اسے شربت کے مثل پیتے بھی تھے۔ (بحار الانوار، 66/  278.)

        قابل ذکر بات تو یہ ہے کہ لفظ»سویق«امام رضا کی روایات میں اس طرح سے بیان ہوا ہے جس اس کی تعریف بھی کی گئی ہے:»سویق ایک بہترین خوب خوراک و غذا ہے؛ کیونکہ اگر میں بھوکا ہوں گا تو میری بھوک کو دور کرے گااور اگر سیر ہوں گا تو میری غذا کو ہضم کرے گا۔«. (بحار الانوار، 66/  280.)

یہ روایت»سویق«کیلئے دو طرح کے استعمال کو روشن کررہی ہے۔

        اب جو کچھ سابق میں تحریر کیا گیا ہے اس سےیہی نتیجہ حاصل ہو رہا ہے کہ»سویق«کا ترجمہ فارسی زبان میں »قاووت« کرنا صحیح نہیں ہے؛ کیونکہ »سویق«  کی کسی بھی ایک قسم کو »قاووت «  نہیں کہتے، اسی بنا پر فارسی زبان میں اس کےمتبادل لفظ کیلئے تلاش و جستجو کرنا چاہئے۔

        نوٹ: لفظ »سَوِیق«  کا اردو زبان میں متبادل لفظ »سَتُّو« موجود اور رائج بھی ہے۔(مترجم)

        ھ : فَالُوذَج (فَالُوذ): کتب لغات میں اس کی ایک لغت »فالوذج« بھی ہے جو فارسی زبان کے لفظ »پالودہ« سے مشتق ہے اور اس کے معنی ایک قسم کی شیرینی کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ (لسان العرب،  10/  318.)

        اسے ہی فارسی زبان میں »پالودہ« اور عربی زبان میں »سَرَطْراف« و »مُزَعْفَر« وغیرہ بھی بیان کیا گیا ہے۔ (فرہنگ فارسی معین، 1/  678.)

        پیغمبر اکرم کے زمانہ میں کسی ایک صحابی نے اس کے تیار کرنے کا طریقہ اس طرح سے آنحضرت کیلئے تشریح کیا تھا : کچھ مقدار روغن اور شہد ایک ظرف میں ملا کر اسے آگ کر پکنے کی خاطر رکھ دیں گے یہاں تک کہ ابلنے لگےپھر اسی میں مغز گندم بھی اسی میں شامل کر دیں گےاور اسے ملاتے رہیں گے یہاں تک کہ وہ پک جائے ۔ آنحضرت اس مٹھائی کے کھانے کے بعد بہت ہی خوش ہوئے۔ (بحار الانوار، 66/ 278؛ 16/  243.)

        اسی مٹھائی کا بھی تذکرہ حضرت علیؑ کی ظاہری خلافت میں ملتا ہے۔ (بحار الانوار، 66/  323.)

        و : لَوْزِینَج: یہ بھی ایک قسم کی مٹھائی ہے اور لغت کی کتابوں میں اسے بھی ایک قسم کی شیرینی کے طور پر تعریف کی گئی ہے۔ (لسان العرب، 12/  356.)

        لفظ »لَوز« کےمعنی لغت میں بادام کے ہوتے ہیں اور اس مٹھائی میں بادام یا روغن بادام کا اہمترین عنصر کار فرما ہوتا ہے اور شکر کا بھی اس میں اضافہ کیا جاتا ہےجسے فارسی زبان میں»لوزینہ« کہا جاتا ہے۔ (فرہنگ فارسی معین، 3/  3649.)

        اس مٹھائی کا بھی تذکرہ حضرت علیؑ کی ظاہری خلافت میں ملتا ہے۔ (بحار الانوار، 42/  239.)

اقتباس از کتاب : کوفہ از پیدائش تا عاشورا،

فصل هفتم : نوع تغذیہ (از صفحہ 480 تا  503)

(کوفہ از زمان تأسیس سنہ ۱۷ ھ تا زمان شہادت سبط رسولخداؐ  سنہ ۶۱ ھ)

راقم:  نعمت اللہ صفری فروشانی

مترجم: ابو دانیال بریر اعظمی





DEDICATED TO SHAHE KHORASSAN IMAM ALI IBNE MUSA REZA AS


Post a Comment

To be published, comments must be reviewed by the administrator *

جدید تر اس سے پرانی