كوفہ کے معاشرہ کے مخلتف طبقات میں تقسیم بندی

 


via pinterest



كوفہ کے معاشرہ کے مخلتف طبقات میں تقسیم بندی


مترجم: ابو دانیال بریر اعظمی


 بحث کے دوران کوفہ کے معاشرتی نظام و سماجی نظام و سسٹم میں مختلف اجتماعی تقسیم بندی کو بھی تحقیق و تجزیہ کی ضرورت رہی ہے۔ لہذا ہماری تقسیم بندی کو  ذیل میں ملاحظہ کیجئے:


۱۔ قبیلہ کے اعتبار سے تقسیم بندی
۲۔ نسل کے اعتبار سے تقسیم بندی
۳۔ دین کے اعتبار سے تقسیم بندی
۴۔ مذہب و سیاست کے اعتبار سے تقسیم بندی
۵۔ سماجی طبقات کے اعتبار سے تقسیم بندی

 

اول: قبیلہ کے اعتبار سے تقسیم بندی

 

          کوفہ کے عرب باشندوں کو کلی طور پر 21 گروہ (ذیلی یا زیر ذیلی قبائل یا شعب یا زیر شعب یا شاخ د ر شاخ) جسے قحطانی اور عدنانی نامی بڑے قبائل میں تشکیل پاتے ہیں۔

 

۱۔ قحطانی قبائل

           ان قبائل کو کہا جاتا ہے جن کا سلسلہ نسب حضرت اسماعیلؑ کے فرزند قحطان تک پہونچتا ہے۔

          ان قبائل کا اصلی وطن یمن تھا اور یہ قبائل کوفہ کی طرف کوچ کر کے آئے اور پھر یہیں پر بود و باش اختیار کر لی۔

           انہیں اصطلاح میں یمنی قبائل بھی کہا جاتا ہے۔


(دیکھئے نقشہ نمبر 20 و 21، صفحہ ۵۷۰ و ۵۷۱)

 

۲۔ عدنانی قبائل

          ان قبائل کو کہا جاتا ہے جن کا سلسلہ نسب حضرت اسماعیلؑ کے دوسرے فرزند عدنان تک پہونچتا ہے، ان قبائل کا اصلی وطن مکہ اور اس کے اطراف کے علاقے ہی ہوتے ہیں۔ لوگ انہیں عموماً عدنانی قبائل کہا جاتا ہے۔


(دیکھئے نقشہ نمبر 19 و 20، ، صفحہ ۵۶۹ و ۵۷۰)


کبھی کبھی انہیں قبائل مُضَری کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ (تاریخ التمدن الاسلامی، 2/338 و 3/ 323؛ الحیاۃ الاجتماعیۃ، ص 42؛ استراتیجیۃ الفتوحات الاسلامیۃ، الطریق إلی المدائن، ص 41.)

 

عَرب نسل

          قبائل اَوْس و خَزْرَج، ہَمْدان، اَزْد، خَثْعَم، بَجیلَہ، مِذْحَج، مُراد، زُبَید، نَخَع، کِنْدہ، کَلب، طَی، جُہَینَہ وغیرہم قحطانی شاخ میں شمار کئے جاتے ہیں.

(دیکھئے جدول نمبر 1، صفحہ ۶۰۴)          

قبائل رَبیعہ، بکر بن وائل، بنی تَمیم، بنی رُباب، ثَقیف، اَسَد، کَنانہ، قُرَیش، ہَوازِن، غَطْفان، بنی ضَبَّ، بنی یرْبُوع، بنی ثَعْلَبَہ، بنی جُشَم، خُزاعَہ، ہُذَیل، تَیم، تَغْلِب، حَنِیفَہ وغیرہم عدنانی شاخ میں شمار ہوتے ہیں۔

 ( دیکھئےجدول نمبر 2، صفحہ ۶۰۵)

بعض کتابوں میں تو اس طرح درج ہے کہ شہر کوفہ کی بنیاد رکھنے کی ابتدا میں ۱۲؍ہزار گھر قحطانیوں (یمنیوں) کے اور ۸؍ہزار گھر عدنانیوں (مضریوں) سے مخصوص رہتے ہیں۔ (معجم البلدان، 4/ 492.)

 

 قبائل تَنُوخیہ

          بعض مورخین نے ایک تیسرے قبائل کا بھی تذکرہ کیا ہے جسے قبائل تَنُوخیہ کے نام سے یاد کیا گیا ہے اورانہیں لوگ عدنانیوں اور قحطانیوں کے اتحادی یا حلیف سمجھتے ہیں۔

          ان قبائل میں سے بعض کے نام درج ذیل ہیں:1. خُزاعہ، اَوْس، خَزْرج و غَساسَنَہ اَزْد کے بڑے قبیلہ سے ہیں؛ 2. قُضاعَہ؛ 3. عَنْزَہ ربیعہ کے قبیلہ سے ہے؛ 4. بَکر بن وائل؛ 5. تَغْلِب؛ 6. رَبیعہ؛ 7. غَطْفان؛ 8. اَیاد؛ 9. کِنْدہ؛ 10. نَجّدَہ؛ 11. بَنُو لِحْیان؛ 12. جُعْفی (مِذْحَج کے ماتحت ایک قبیلہ ہے)؛ 13. طَی؛ 14. کَلْب؛ 15. تَمیم؛ 16. اَسَد؛ 17. کُنانَہ؛ 18. ُرباب؛ 19. ہُذَیل؛ 20. ضَباب. (عشائر العراق،1/95. قبایل تنوخیۃ کے بارے میں مزید معلومات کیلئے دیکھئے: دائرۃ المعارف بزرگ اسلامی، »تَنُوخ«،  16/ 246- 249.)

          اہمترین نکتہ قابل توجہ یہ ہے کہ اعراب عراق و شام کی طرف ہجرت کے وقت ان قبائل کی مختلف شاخوں یا نسلوں بھی مختلف چہروں کی طرف ہجرت کیا اسی لئے جنگوں کے زمانے میں جیسے جنگ جمل، جنگ صفین اور جنگ نہروان میں قبیلوں کی جنگوں کے بجائے شہری جنگ ہوئی ہے اور ان جنگوں میں ممکن ہو کہ ایک ہی قبیلے کی مختلف شاخیں یا ذیلی قبیلے ایک دوسرے کے مقابل میں بھی قرار پائیں۔ (تاریخ التمدن الاسلامی، 4/ 347؛ جمہرۃ خطب العرب، 1/ 436.)

 تاریخ کے اوراق میں چند قبائل جیسےبنی اَزْد (جمہرۃ خطب العرب، 1/ 436.)،

          بنی ہَمْدان (مروج الذہب، 3/ 93.)، بنی شاکر (مقتل ابی مخنف، ص 153.) اوربنی ربیعہ (تاریخ الطبری، 4/ 23.) جبکہ حضرت  علیؑ کے ہم رکاب ہو کر مختلف جنگوں میں بہت زیادہ جان نثاری و فداکاری کا کارنامہ انجام دیا، جس کی مدح و تعریف آنحضرتؑ نے بھی فرمائی اور قبائل مُضَراورخصوصاً بنی تمیم کی آنحضرتؑ نے مذمت بھی فرمائی ہے۔ (جمہرۃ خطب العرب، 1/ 436.)

 

دوم: نسل کے اعتبار سے تقسیم

 
    کوفہ کی آبادی کو کلی طور پربحیثیت نسل و نژاد دو حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں یعنی عرب اور غیر عرب جنہیں عرب انہیں عجم یا عجمی کہتے ہیں، پھر عربوں کو بھی
۲؍ نسلوں میں تقسیم کرتے ہیں کہ جن میں سب سے بڑی اعراب کی نسل تشکیل پاتے ہیں کہ جو لوگ جزیرہ نمائے عرب سے ایرانیوں کے ساتھ جنگ میں شرکت کے ارادہ سے عراق کی طرف کوچ کیا اور بالآخر فتوحات کے اختتام کے ساتھ ہی ان لوگوں نے کوفہ و بصرہ کو اپنا مسکن قرار دیا۔

          عربوں کی نسل کا دوسرے حصہ کو ذیلی قبائل اور شاخوں میں جیسے: بنی تَغْلِب، اَنْمار، قُضاعہ، جُہَینَہ، طَی، بنی نَیہان، بنی سُنْبُس،بنی جُدَیلَ، بنی تَمیم، بنی بَکر بن وائل، رَبیعہ، مِذْحَج، زُبَید، اَوْد وغیرہم تشکیل پاتے ہیں انہوں نے قبل اسلام جزیرۃالعرب سے کوچ کیا اور عراق کی کی مختلف سر زمینوں کو محل سکونت قرارر دیا تھا۔ (عشایر العراق، 1/ 68 .)

          یہ قبائل جو کہ کچھ مختلف پراکندہ و چھٹ پٹ جنگوں یا جھڑپوں میں ایرانیوں کے ساتھ ہوئی تو اعراب اور ایران کے ساتھ جنگ کے شروع ہوتے ہی مسلمانوں کی مدد کی خاطر عرب دوڑپڑے اور کامیابی و کامرانی کے بعد بصرہ اور کوفہ نامی ۲؍شہروں کو بنایا اور انہی شہروں میں رہنے بھی لگے۔ (الحیاۃ الاجتماعیۃ، ص 42.)

 

عَجَمی نسل

          عجمیوںمیں ایرانیوں، رومیوں، ترکوں، نبطیوں اور سریانیوں کی نسلیں بھی شامل ہوتی ہیں، جن کا سب سے بڑا حصہ ایرانیوں پر مشتمل ۴؍ ہزار افراد کا ایک گروہ متشکل ہوتا ہے جنہیں »حمراء الدَیلم« کے نام سے پکارا جاتا ہے۔

          »حمراء« کے معنی سرخ رنگ یا سرخ فام ہوتا ہےیہ ایک عام لفظ ہے کہ جو عرب کے لوگ ایرانیوں کیلئے ہی استعمال کرتے تھےکیونکہ ان لوگوں کی جلد کا رنگ عربوں کی جلد کے رنگت کی بنسبت کچھ زیادہ ہی سرخ رنگ کی رہتی ہے اوراور اپنی آب و تاب کے ساتھ اسے زیادہ ظاہر و محسوس کیا جا سکتا ہے۔

          بعض مورخین کا کہنا ہے کہ ان عجمیوں کے ۴؍ہزار نفری فوج کےسردار کا نام» دیلم« تھا جس نے اپنے لشکر کو فتوحات کے خاتمہ سے پہلے ہی لشکر اسلام کی سعد بن ابی وقاص کی رہبری میں رہتا ہے کے ساتھ ملحق ہوتا ہے تا کہ مسلمانوں کے شانہ بشانہ ایرانیوں کے ساتھ جنگ کرے۔ (فتوح البلدان، ص 279.)

          فتوحات کے اختتام اور ایرانیوں کے مسلمان ہونے کے بعد ایرانیوں کا دوسراگروہ بھی شہر کوفہ میں سکونت اختیار کرتا ہے کہ ان میں سے بعض لوگ رضاکارانہ طور پر اس شہر کی طرف ہجرت کرتے ہیں اور ان میں سے بعض اسیران ہوتے ہیں جنہیں جنگ میں قیدی بنایا جاتا ہے اور پھر انہی کو بردہ یعنی غلام و کنیز کی صورت میں اسی شہر کی طرف لاتے تھے۔ 

 

۱۔ رُومِی نسل

          رومیوں پر مشتمل نسل معمولاً غلام و کنیز ہوا کرتی تھی کہ کو سپاہ شام اور رومیوں کے درمیان جنگوں میں اسیر ہوئے اور انہیں غلام و کنیز کی حیثیت سے اسی شہر میں لا کر خرید و فروخت کیا تھا۔

 

۲۔ تُرک نسل

          ترکوں کی بھی نسل ایرانیوں کی ہی طرح تھی کہ معمولاً عراق اور ایران کے درمیان جنگوں میں قیدی بنائے گئے تھے۔ بعض کتابوں میں رُشَید تُرکی کا نام عبد اللہ بن زیاد کے غلام کی حیثیت خدمت کیا کرتا تھااور ہانی بن عروہ بھی اسی ابن زیادکے گلام کے ہاتھوں ہی قتل ہوئے۔ (تاریخ الطبری 4/ 284.)

 

۳۔ نَبطی نسل

          نبطیوں کے بارے میں بعض مورخین کا قول ہے کہ یہ بھی عربوں کی ہی ایک نسلی قسم شمار ہوتی ہے۔ (لسان العرب، 14/ 22.) مگر بعض مورخین کہتے ہیں کہ فتوحات سے قبل ملک عراق اور اس کے قرب و جوارمیں سر سبز و شاداب زمینوں میں کھیتی باڑی میں مشغول ہوئے اور شہر کوفہ کی بنیاد رکھنے کے بعد اسی شہر کی طرف منتقل ہو کرزراعت کے شغل و پیشہ کو ہی جاری و ساری رکھا۔ (تخطیط مدینۃ الکوفۃ، ص 43؛ فرہنگ فارسی معین، 6/ 2104.)

 

۴۔ سُریَانی نسل

          سریانیوںکی نسل کا تعلق سامی نژاد قوم سے بیان کیا جاتا ہےکہ ان کی نسبت جنوب مغربی ایشیا کی سرزمین میں رہنے والےآرامی اقوام سے متعلق شمار کی جاتی ہے اور بین النہرین (شمالی عراق) اور شام میں سکونت اختیار کر رکھا۔ (فرہنگ فارسی معین 5/ 754.)

          پس اسی قوم کا ایک حصہ حیرہ کے عیسائی دیرو خانقاہوں کے اطراف میں زندگی بسر کرتے تھے اور عیسائی مذہب کو قبول کیا تھا کہ کوفہ شہر کے بننے کے بعد اسی کی طرف ہجرت کیا۔ (تخطیط مدینۃ الکوفۃ، ص 26.)

عجمیوں اور خاص طور سے ایرانیوں میں ممکن ہے کہ ایک گروہ یا ایک شخص یا بعض قبائل کوفہ میں رہنے والے عرب کے قبائل کے ساتھ عہد و پیمان کریں اور انہی کے حلیف کی حیثیت سے انہیں پکارا جائے اور سماجی اعتبار سے بھی اپنی زندگی میں انہی کے جیسے ہی حقوق بھی انہیں حاصل ہوں اور ان حقوق سے فائدہ بھی اٹھائیں ۔ پس اسی حلیف (ہم پیمان و ہم عہد) گروہ کو عوام کی اصطلاح میں »مَوَالی« کہا جاتا ہے۔

          اس سلسلہ میں مزید بحث کوفہ کے معاشرتی طبقات میں تقسیم بندی کے حصہ میں آئے گی۔

(إن شاء اللہ المستعان العلی العظیم)

 

سوم: دین کے اعتبار سے تقسیم

 

          کوفہ میں موجود ادیان (دین و مذہب) کے سلسلہ میں ہم یہ تسلیم کر سکتے ہیں کہ اسلام، عیسائیت، یہودیت اور مجوسیت جانتے تھے کہ مؤخر ذکر۳؍ دینوں کے ماننے والوں کو اصطلاح میں »اہل کتاب« کہا جاتا ہے۔

 

 ۱۔ مسلمان

 مورخین کے متفقہ قوال کی بنا اس شہر کی اکثر آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہوتی ہے، ان میں بھی اعراب اور عجمی افراد ہی پائے جاتے ہیں جن میں نو مسلم عجمی بھی شامل ہوتے ہیں، اور ان عجمیوں میں اکثریت ایرانی افراد پر مشتمل ہوتی ہے۔

 

  ۲۔ عیسائی

          کوفہ کے عیسائیوں کی تعدادمیں سریانیوں، بنی تَغْلب کےاعراب اور نجران کے نصاریٰ (کہ جو عُمَر کی حکمرانی کے زمانہ میں کوفہ کی طرف کوچ کیا اور کوفہ کے ہی ایک محلہ کو اپنا مستقر بنایا اسی مناسبت سے ان کے محلہ کو نجرانیہ کے نام سے پکارا گیا) میں رہنے لگے۔ (تخطیط مدینۃ الکوفۃ، ص 26.)

 

۳۔  نصاریٰ

 کوفہ کے نصاریٰ کو بھی دو فرقوں میں تقسیم کریں گے ایک کو نسطوری مذہب اور دوسرے کو یعقوبی مذہب سےیاد کیا جاتا ہے۔ (حیاۃ الامام الحسینؑ، 2/ 441.)

 

۴۔ یہودی

          کوفہ کے یہودی بھی ایک اہمترین گروہ تھا کہ جنہیں سنہ ۲۰ ہجری میں عُمَر کے دستور کے مطابق جبراً مدینہ سے جلا وطن کر کے کوفہ میں ہی ایک محلہ ان ہی کے نام بنا کر انہیں آباد کیا۔ (حیاۃ الامام الحسینؑ، 2/ 443.)

 

۵۔  مجوسی

          کوفہ کے مجوسیوں کو ایرانیوں کی ہی نسل تشکیل دیتی ہے کہ جنہوں نے اس شہر کی طرف ہجرت کیا اور تب تک یہ لوگ اسلام سے مشرف بھی نہیں ہوئے تھے۔ (تاریخ الطبری، 4/ 326.)

 

چہارم: مسلمانوں کی مذہبی سیاسی اعتبار سے تقسیم


مسلمانوں میں بھی مختلف سیاسی و مذہبی نظریات رکھنے والے گروہ موجود تھےجس دور کی گفتگو و بحث ہم کرنا چاہتے ہیں اسی زمانہ میں اصل میں تین ہی گروہوں پر مشتمل افراد پائے جاتے تھے: جن میں سے ایک شیعہ علوی، دوسرا گروہ بنی امیہ کی طرف رجحان رکھنے والے اورتیسرا گروہ خوارج کا نظریہ رکھنے والاہوتا ہے ۔

          پھر شیعوں میں بھی دو گروہ پائے جاتے ہیں: ایک گروہ کو رؤسائے شیعہ اور دوسرے گروہ کو عام شیعہ میں تقسیم کر سکتے ہیں۔


۱۔ علیؑ کےشیعہ

 

الف: رؤسائے  شیعہ

          کوفہ کےشیعہ سرداروں میں مندرجہ ذیل افراد کو ہم شمار کر سکتے ہیں:

جیسے میثم تمّار، کمیل بن زیاد، رُشید ہجری، سلیمان بن صُرَد خُزاعی، مُسَیب بن نَجْبہ فَزاری، مسلم بن عَوْسَجَہ اسدی، حبیب بن مظاہر اسدی، ابو ثَمامہ صائدی وغیرہم مشہور و معروف شخصیات ہیں یہی حضرت علیؑ کے اصحا ب میں شمار ہوتے ہیں جو امیر المومنینؑ کے ساتھ جنگ جمل، صفین اور نہروان میں شریک رہے تھے نیز یہی افراد اپنی دل کی گہرائیوں سے اہلبیتؑ عصمت و نبوت سے عشق رکھتے ہیں اور مذکورہ بالا افراد میں ہی سے بعض شخصیات نے معاویہ کی موت کے بعد امام حسینؑ کو خطوط لکھنے کی ابتدا بھی کی تھی۔ (تاریخ الطبری، 4/ 261.)

 

ب: عام شیعہ

          کوفہ کےعام شیعوں بھی اس شہر کی آبادی میں فیصد کے اعتبار سے قابل توجہ تعداد پر مشتمل ہوتی ہےگرچہ خاندان اہلبیتؑ عصمت و طہارت سے شدت کے ساتھ لگاؤ بھی رکھتے ہیں لیکن کوفہ کے حکمرانوں کا برتاؤ اور سلوک جیسے زیاد بن سمیہ اور اس کا بیٹا عبید اللہ عام شیعہ کے ساتھ کچھ اچھا نہیں رہا بلکہ محبان اہلبیتؑ کے سلسلہ میں اموی سیاستیں کلی طور پرکوفہ کے معاشرہ سے شیعیت کے خاتمہ کیلئے کاربند ہوتی ہے، ان پر آنکھ میں کانٹے کے مثل سختی کی جاتی رہی ہے یہاں تک کہ کسی بھی تحریک کی کامیابی کے احتمال کی امید تک نہیں دی جاتی لہذا کسی کے ساتھ تعاون بھی نہیں کرتے۔

          اسی بنا پرفرزدق نے انہی کیلئے امام حسینؑ کی خدمت میں اس طرح سے توصیف کیا ہے: »ان لوگوں کےدل تو آپ کے ساتھ ہیں مگر ان کی تلواریں آپ کے خلاف ہیں۔« (تجارب الامم 2/ 57.)

 

۲۔ ابو سفیان کے شیعہ

 

اموی شیعہ

 یہ اموی گروہ درج ذیل افراد پر مشتمل ہوتا ہے: عمرو بن حجاج زُبَیدی، یزید بن حَرَث، عمرو بن حُرَیث، عبد الله بن مسلم، عُمارہ بن عُقبہ، عُمَر بن سعد بن ابی وقاص اور مسلم بن عمرو باہلی۔ (مقتل الحسینؑ، مقرّم، ص 149؛ حیاۃ الامام الحسینؑ 3/ 441.)

یہی بنی امیہ کی حمایت و طرفداری کرنے والا گروہ امام حسینؑ کی تحریک کے زمانہ میںجو کوفہ کی آبادی میں فیصد کے اعتبار سے قابل توجہ تعداد میں مختص ہوتا ہے کیونکہ اس زمانہ تک کوفہ میں اموی حکومت کے 20 سال گذر جاتے ہیں اس کے علاوہ اکثر قبائل کے سردار اور صاحبان نفوذکا تعلق بھی اسی گروہ سے ہوتا ہے اسی بنا پر لوگوں کی اکثریت اسی گروہ کی طرف میلان پیدا کرتے ہیں۔

 

۳۔ خوارج

 

 کوفہ کے خوارج

          کوفہ کے خوارج ایک متعصب مذہبی جماعت ہوتی ہے کہ جنگ صفین کے ختم ہونے اور حَکَمَین کے ماجریٰ کے بعد وجود میں آتی ہے اور پھرصدر اسلام کی تاریخ میں بہت زیادہ خونریزی اورقتل و غارتگری کے حوادث کے ظاہر ہونے کا باعث قرار پاتی ہے ۔

          حضرت علیؑ کے ہاتھوں جنگ نہروان میں سرکوبی کے بعدیہ جماعت تقریباً نیست و نابود ہو جاتی ہے، لیکن معاویہ کے دور حکومت میں بہت سے لوگوں کیلئے ناراضگی کی فراہمی کا سبب ہوتی ہے لہذا کو مغیرہ بن شعبہ کی کوفہ کی گورنری و حکمرانی کے زمانہ  ۴۳؁ ھ میں پھر سے طاقتور ہو کر ابھرتی ہے مُسْتَوْرد بن عُلْفَہ کی رہبری میں دوبارہ تحریک اٹھتی ہے مگر انہیں ناکامی کے ساتھ شکست کھاتے ہیں۔ (تاریخ الطبری، 4/ 138.)

          جب زیاد بن ابیہ نے ۵۰؁ ھ میں کوفہ کی فرمانروائی کے عہدہ کو اپنے ہاتھوں میں لیا تو اس نے خوارج کی سرکوبی میں ایک عظیم کردار ایفا کیا۔ (الحیاۃ الاجتماعیۃ، ص 270 و 272.)

          پھر زیاد کی موت کے 5 سالوں کے بعد ۵۸؁ ھ میں ایک مرتبہ اور ان لوگوں نے حَیَّان بن ظَبْیَان کی راہنمائی میں خوارج کی تحریک نے سر اٹھایا لیکن عبید اللہ بن زیاد کے ذریعہ اسے بھی کچل دیا۔ (تاریخ الطبری، 4/ 229 و 231.)


۴۔ بے  وفائی کرنے والے اور موجوں  پر سواری کرنے والے

یعنی دنیا پرست اور خود غرض:


          اس مقام پر ہم ایک چوتھے گروہ یا جماعت کا بھی نام لے سکتے ہیں جو کہ کوفہ کی آبادی کا سب سے بڑی جماعت کو تشکیل دیتی ہے۔

          یہ وہی گروہ ہے جو دنیا پرستی و مفاد پرست اور خود غرضی وخود پرست ہوتا ہے کہ جن کی ساری غرض و غایت شکم پری اور خواہشات کی تکمیل تک پہونچنے کے علاوہ نہیں ہےاور مادیات تک پہونچنے کی خاطر معاشرہ پر حاکم کسی بھی واقعات و حادثات کے میدان میں کود پڑتے ہیں چنانچہ جب جناب مسلمؑ کے لشکر کی کامیابی کے امکانات کو قوی دیکھا تو ان سے ملحق ہو گئے اور جس وقت شکست و ناکامی کے آثار ظاہر ہونے لگے تو منظر سے بہت ہی تیزی کے ساتھ غائب ہو گئے۔

          پس ایسا ہی تھا کہ ابن زیاد کے وعدے اور وعیدوں کے چکر میں پڑ کر کوفہ کا لشکر کربلا جا پہونچا اور یہی لشکر میں شامل افراد نے پہلے ہی ماحول سے مغلوب ہو کر امام حسینؑ کو خطوط لکھے اور آنحضرتؑ کو کوفہ آنے کی دعوت دی تھی اور پھر آنحضرتؑ سے جنگ بھی کیا۔

 

پنجم: طبقات کے اعتبار سے تقسیم

 

          بعض تاریخی روایات سے ہم استفادہ کرتے ہوئے کہ کوفہ کے عوام امام حسینؑ کی تحریک کے زمانہ میں دو طرح سے سماجی طور پر تقسیم ہوتے ہیں۔

پہلا گروہ اشراف کے لوگوں کو تشکیل دیتا ہے ۔

 دوسرا گروہ عام افراد کے لوگوں پر مشتمل ہوتاہے۔

          امام حسینؑ کے ایک صحابی کی زبانی یہ تاریخی عبارت کتابوں میں نقل ہوئی ہے جس وقت وہ صحابی کربلا میں امام سے ملحق ہوتے ہیں تو امام نے کوفیوں کی احوال پرسی فرمائی تو اس کوفی صحابی نے جواب میں عرض کیا: »کوفہ کے اشراف کو بڑی بڑی رشوتوں کے ذریعہ ان کی محبت کوحکومت کی خاطر خرید لیا ہےلیکن عام لوگوں کےسارے دل تو آپ کے ساتھ ہی ہیں مگر آئندہ ان کی تلواریں آپ ہی کے خلاف اٹھیں گی۔ « (حیاۃ الامام الحسینؑ 2/ 370.)

 

کوفہ کے اشراف کا طبقہ

          کوفہ کےدولتمندوں و ثروتمندوں اور قبائل کے سرداروں پر ہی یہ اشراف کا گروہ تشکیل پاتا ہے کہ چند افراد کو بحیثیت مثال ہم یہاں پر ان کے نام بھی ذیل میں درج کر رہے ہیں: عَمرو بن حُرَیث مخزومی، اَشعث بن قیس کِندی و شَبَث بن ربعی تمیمی جیسے افراد اشراف سے تعلق رکھتے تھے اور لشکر یزید میں بھی شامل ہو کر امام حسینؑ کو قتل بھی کیا۔ (حیاۃ الامام الحسینؑ 2/ 261.)

          بعض تاریخی کتابوں میں کوفہ کے شہر میں ۳؍ خاندان ہی شریف کی حیثیت سے مختلف قبائل کے درمیان موجود تھے جنہیں »بیوتات شرف«  (شرف کے خاندان) کے نام سے لوگ پکاراکرتے ہیں ۔ ان مشہور و معروف اشراف کے گھرانے کے نام مع قبیلہ کےمندرجہ ذیل ہیں نیز حوالہ کیلئے۔ (مقتل الحسینؑ مقرّم، ص 151، حاشیہ.) دیکھئے۔

          ۱۔ قبیلہ بنی حارث میں بیتِ عَبْد المَدان (یعنی عبد المدان کا خاندان)

۲۔ قبیلہ بنی تمیم میں  بیتِ زُرارہ بن عَدَس (یعنی زرارہ بن عدس کا خاندان)

          ۳۔ قبیلہ بنی خَرارہ میں بیتِ حُذَیفہ بن بَدْر (یعنی حذیفہ بن بدر کا خاندان)

 

کوفہ کے موالی کا طبقہ

          کوفہ کے معاشرتی طبقات میں موجود سب سے اہمترین جو طبقہ پایا جاتا ہے وہ موالی کا ہی طبقہ تھاکہ یہی طبقہ کوفہ کے سماج میں سب سے زیادہ ضعیف شمار کیا جاتا تھا اور ان طبقہ موالی کے بعد عبید یعنی غلاموں کا طبقہ قرار پاتا ہے۔

          لفظ »مولا«کی جمع »موالی« لفظ بنتا ہے اور کوفہ میں اس لفظ کو اصطلاحی طور پر عجمیوں کیلئے ہی استعمال کیا جاتا تھا جو عجمی افرادقبائل عرب میں سے کسی بھی قبیلہ کے ساتھ عہد و پیمان کیا کرتے تھےپس وہ عرب کے ہی اسی قبیلہ کا ایک جزو یا حصہ یا فرد شمار ہوتا تھا۔

یہ عجمی انہی ایرانیوں کے حمراء ُالدیلم کے ۴؍ہزارنفری لشکر کے مثل ہوتے تھے کہ جو اسلامی لشکر کے ساتھ ملحق ہوا اور پھر قبیلہ بنی تمیم کے ساتھ قرار داد کر کے اس کے ولاء کے ماتحت آ گیا اور انہیں موالی کے نام سے پکارنے لگےیعنی عرب کے قبیلہ کا حلیف ہو گیا۔ (فتوح البلدان، ص 279؛ الحیاۃ الاجتماعیۃ، ص 75.)

لہذا دیگر علاقوں و منطقوں کی ملتوں وقوموں کےلوگوں نے اورخصوصاً ایرانی افراد نے بھی رضاکارانہ طور پر کوفہ کی طرف ہجرت کی اور اسی شہر کو اپنی زندگی بسر کرنے کیلئے منتخب کیا نیز اس کے بعد سماجی حقوق سے مستفید ہونے کی خاطر قبائل عرب میں کسی ایک قبیلہ کی »ولاء کی قرارداد« کو قبول کر لیتے تھے۔

          اسی طرح بردگان (غلاموں اور کنیزوں) کے ساتھ ہوتا تھا تو ایک مدت کے بعد اپنے آقا و مولا کے ذریعہ کچھ بردگان (غلاموں اور کنیزوں) کو آزاد کر دیتے تھے پھر آزادی کے بعدانہیں اپنے ہی قبیلہ میں »قراردادِ وِلَاء« کے قانون کے ما تحت قبول کر لیتے تھے کہ اس طرح کے موالی کو »مَوَالِی العِتقِ« کہا جاتا تھا۔ (الحیاۃ الاجتماعیۃ، ص 74.)

          شہر کوفہ کی بنیاد رکھنے کے ساتھ ہی حمرائے دَیلم کے علاوہ عجمیوں کی ایک بڑی تعداد جن میں خاص طور پر ایرانی شامل تھے کوفہ کے شہر کی طرف ہجرت کیا اور عرب قبائل کے ساتھ قانونِ ولاء کی قرارداد کو قبول کر لیا یہاں تک کہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ حضرت علیؑ کی ظاہری خلافت کے دور میں ان لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد کوفہ کی آبادی کو تشکیل دیتی تھی۔ (تاریخ التمدن الاسلامی، 4/ 371.)

معاویہ کی حکومت کے زمانہ میں کوفہ کی آبادی میں ان موالی لوگوں کی تعداد تقریبا 20 ہزار نفر پر مشتمل تھی، اسی امر نے ہی تو معاویہ کو وحشت میں ڈالا اسی وجہ سے ان کے قتل عام کا قصد کیا، لیکن پھر اپنے ہی قتل و غارتگری کے ارادہ سے باز آگیا اور کوفہ کے حاکم زیاد بن ابیہ کو دستور دیا کہ یہی لوگ اموی حکومت کے خلاف انقلاب کے مرکزی کردار تھے لہذا انہیں کوفہ سے باہر نکال دیا جائے اور بصرہ و شام کے علاقوں کی طرف منتقل کیا۔ (فتوح البلدان، ص 279.)

          ان موالی افراد کو قانون ولاء کا اہمترین فائدہ اسی وقت پہونچتا تھا کہ جن عربوں کے قبائل کے ساتھ عہد و پیمان باندتھے جبکہ موالی میں سے کوئی ایک جرم کا مرتکب ہوتا تھا یا اسے دیت دینے کاحکم صادر ہوتا تھا تب ہی ان کے حلیف وہم پیمان عربی قبیلہ ان کی مدد و نصرت کیلئے آگے آتا تھا۔ (تاریخ الادب العربی، 2/ 213.)

          اسی طرح جنگوں میں بھی اپنے ہم پیمان و حلیف قبیلہ کے ساتھ جو بھی جنگ کرتا تھایہ موالی لوگ بھی قانونِ وِلاء کے ماتحت اپنے اسی قبیلہ کا ساتھ دیتے اور جنگ بھی کرتے جن سے قراردادِ وِلاء ہوتی تھی۔ (الحیاۃ الاجتماعیۃ، ص 74.)

 

سماجی حقوق میں عدم مساوات

 

          اسی سلسلہ میں پیغمبرؐ اکرم فرمایا تھا:  »مَولَی القَومِ مِنهُم «ہر قوم کے موالی اسی قوم کے افراد کے مثل ہی ہوتے ہیں۔

          پیغمبرؐ اسلام کےاس واضح فرمان کے باوجود عربوں نے ان موالی کو بہت سے سماجی حقوق سےبھی محروم کر رکھا تھا۔ (تاریخ التمدن الاسلامی، 3/ 326.)

          ان سماجی حقوق میں سے ایک اہمترین حق ان موالی کو محروم کر رکھا تھا وہ بیت المال میں برابری و مساوات رکھنے کا بھی حق دیا تھا۔

          اسی وجہ سے جس وقت حضرت علیؑ نے سب سے پہلی باردیگر کوفیوں کے ساتھ موالی کو »عطاء« میں یکساں قرار دیدیا تو عرب کوفیوں کے شدید اعتراض کے ساتھ رو برو ہوئےتو آنحضرتؑ نے معترض عرب کوفیوں کے جواب میں فرمایا: »کیا تم مجھےاس بات کا حکم دیتے ہو کہ میں اپنی کامیابی و کامرانی ظلم و جور کے ذریعہ حاصل کروں۔« (نہج البلاغۃ، ترجمہ فیض الاسلام، خطبہ 126.)

 

عرب خاتون سے عجمی کا عدم ازدواج

 

          موالی کے ساتھ عربوں کا دوسرا امتیازی سلوک یہ انجام دیتے تھے کہ نکاح و شادی کے امر میں تبعیض کیا کرتے تھے اس طریقہ سے کہ موالی کی خواتین سےشادی تو کر لیتے تھے لیکن عرب اپنی خواتین کی شادی ان موالی سے ہرگز نہیں کرتے تھے۔

          مذکورہ بالا ان ہی دو امتیازی سلوک (حق کُشی) کے بارے میں شیعہ روایات کی کتب میں ایک روایت نقل ہوئی ہے جس میں صراحت و وضاحت کے ساتھ بیان ہوا ہے کہ امام صادقؑ سے منقول ہے کہ آپ فرماتے ہیں:

حضرت علیؑ کی خلافت کے زمانہ میں موالی آنحضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: ہم عربوں کی یہ شکایت آپ سے کر رہے ہیں؛ کیونکہ پیغمبرؐ خدا ہمیں عرب کے مساوی عطاء دیا کرتے تھے اور آنحضرتؐ نے  سلمان (فارسی)، بلال (حبشی) و صہیب (رومی) (مذکورہ افراد غیر عرب) کو عرب کی خواتین سے تزویج فرمایا، لیکن (کوفہ کے عرب) ہمارے ساتھ اسی طرح کا سلوک انجام نہیں دیتے۔

           تب حضرت علیؑ عربوں کے پاس گئے اور موالی کی ان ہی مشکل کو اعراب کے درمیان رکھا، لیکن عربوں نے بات سننے کے بعد شور و غل مچایا اور چیخ و پکار کرتے ہوئے کہنے لگے کہ ہم اس طرح کے کاموں کو انجام دینے کیلئے دباؤ تسلیم نہیں کریں گے۔

          پس آنحضرت اس حالت میں کہ غضبناک تھے موالی کے پاس پلٹے اور ان لوگوں سے فرمایا: اے گروہ موالی! ان عربوں نے تمہیں یہود و نصاریٰ کے مثل قرار دیدیا ہے، تمہاری خواتین سے شادی تو کریں گے لیکن عرب تمہاری شادی اپنی خواتین سے ہرگز نہیں کریں گے اوربیت المال سے عطاء لینے میں تم لوگوں کو مساوی اور برابر قرار نہیں دیں گے۔

          پس تم لوگ تجارت کرو کہ خداوند متعال تمہیں برکت عطا کرے گا؛ کیونکہ میں نے خود رسولخداؐ سے سنا ہے کہ آنحضرتؐ نے فرمایا: رزق کے 10 حصے ہوتے ہیں اللہ نے 9 حصے تجارت میں قرار دیا ہے نیز رزق کا 1 حصہ بقیہ دوسرے کاموں میں قرار دیا ہے۔ ( لہذا تم لوگ تجارت ہی کرو۔) (وسائل الشیعۃ، 14/ 46.)

          یہی امتیازی سلوک و رفتار یعنی حق کشی حکومت اسلامی پر بنی امیہ کے دور حکومت میں بھی شدت پکڑاہے پس ان کی مثالیں بطور نمونہ ہم مختصراً ذیل میں درج کررہے ہیں:

۱۔ عرب موالی کو اجازت نہیں دیتے تھے کہ ان کے ساتھ ایک ہی صف میں چل سکیں۔

۲۔ عرب موالی کی توہین کیلئے کہا کرتے تھے:فقط ۳؍ چیزوں (کے دیکھنے) سے نماز ٹوٹتی ہے کہ جویہ ہیں؛گدھا، کتا اور مولا!۔ (تاریخ التمدن الاسلامی، 4/ 341.)

          ۲۔ عرب احترام کی غرض سے کسی بھی فرد کواس کی کنیت سے پکارتے یا بلاتے تھے۔ دسترخوان پر کھانا کھاتے وقت موالی کو ایک طرف قرار دیتے تھےتا کہ حاضرین کیلئے اس کے مولا ہونے کی تشخیص ہو جائے ۔

          ۵۔ تشییع جنازے میں ایک بھی عرب فرد کے موجود ہونے کی صورت میں نماز جنازہ پڑھنے کی موالی کو اجازت بھی نہیں تھی۔

          ۶۔ قضائی محکمہ میں بعض مواقع پر موالی کو گواہی اور شہادت دینا بھی معتبر نہیں جانتے تھے۔ (الحیاۃ الاجتماعیۃ، ص 77 و 78.)

چنانچہ قاضی شُرَیح کے بارے میں بھی اسی طرح کی بات کو نقل کیا ہے۔  (الحیاۃ الاجتماعیۃ، ص 78.) جیسا کہ یہ کہا جارہا ہے کہ وہ خود بھی موالی میں ہی رہتے ہیں۔  (الحیاۃ الاجتماعیۃ، ص 91.)

۷۔ موالی کو جنگوں میں گھوڑے یا اونٹ پرسوار ہونے کی اجازت نہیں دی جاتی تھی اور انہیں صرف پیدل فوج کی حیثیت سے ہی بھرتی کیا کرتے تھے۔ اسی بنا پر جس وقت مختار ثقفی نے موالی افراد کو اونٹ یا گھوڑے پر سوار ہونے کی اجازت دی گئی تو بہت زیادہ موالی ان کی طرف راغب ہوئے۔ (الحیاۃ الاجتماعیۃ، ص 77 و 78.)

          ۸۔ موالی کو بعض امور کے عہدے پر فائز ہونے کی اجازت نہیں دیتے تھے جیسے لشکر کی سرداری عرب کو ہی دی جاتی تھی۔

          ۹۔ عرب قوم موالی کو »عَلُوج« جیسے لفظ سے یاد کیا کرتے تھے جس کے معنی موٹا تازہ جنگلی گدھا ہوتا ہے۔ (تاریخ التمدن الاسلامی، 2/ 272.)

          یہی امتیازی سلوک یا حق کُشی ہی باعث ہوتی ہے تا کہ موالی اموی حکومت کے خلاف تحریکوں یا بغاوتوں کے ساتھ ہو جاتے تھے، اب چاہے وہ خوارج کی بغاوت ہو یا علویوں کے قیام و تحریک ہو۔ (موالی ہمیشہ سے ہی اموی حکومت کی مخالف تحریکوں یا بغاوتوں میں شریک رہتے تھے۔) (الحیاۃ الاجتماعیۃ، ص 83.)

یہاں تک کہ بعض موالی بنی امیہ سے کینہ بھی رکھتے ہوئے اسلام سے منحرف ہو جاتے تھے اور مرتد تک ہو جایا کرتے تھے۔ (تاریخ التمدن الاسلامی، 4/ 372.)

          اب اقتصادی لحاظ سے جب موالی کو یہ پتہ چلا کہ مناسب عطاء پانے سے وہ محروم رہے اور کبھی بھی ملنے والا ہی نہیں ہے توانہوں نے مصمم ارادہ کر لیا کہ حضرت علیؑ کی فرمائش کے مطابق عمل کریں تو شروع شروع میں راستوں کی صفائی، کفش دوزی (موچی)، لباس دوزی (درزی)، حجامت گری وغیرہم جیسے پیشوں میں مشغول رہے۔ (تاریخ التمدن الاسلامی، 4/ 341.)

          کچھ زیادہ مدت نہیں گذری تھی کہ یہی لوگ صنعت و تجارت کے امور میں ان موالی کی مہارت کی وجہ سےاور عرب کا صنعت و حرفت سے سر تابی کرنے کی بنا پر کوفہ کے زیادہ تر صنعتی اور تجارتی کارو بارکو موالی نے اپنے ہاتھوں میں پڑ گئی۔ (الحیاۃ الاجتماعیۃ، ص 81.)

          غلاموں اور کنیزوں کو مختلف راستوں کے ذریعہ کوفہ کی طرف منتقل کرتے رہتے تھے، جنہیں ہم ذیل میں درج کر رہے ہیں:

ٍ          ۱۔ یہ لوگ جنگوں میں اسیر ہوتے تھے۔

۲۔ انہیں خراج دینے والوں کی طرف سے بطور خراج کوفہ کی طرف منتقل کرتے رہتے تھے کیونکہ دنیائے اسلام کے مراکز میں سے ایک مرکز کوفہ شہر بھی تھا۔

          ۳۔ انہیں کافر ذمی بطور جزیہ بھی حکومت اسلامی کو ادا کرتے تھے۔

          ۴۔ حکومت کے مال غنیمت سے خمس کا حصہ کوفہ کی طرف لایا جاتا تھا۔

          ۵۔ بالآخر یہ کہ بردہ فروشوں کو جب غلام فروشی کا بازار بہت گرم دیکھتے ہیں تو دور دراز کے علاقوں سے انہیں فروخت کرنے کیلئے کوفہ لایا کرتے تھے۔

          ان زر خرید غلاموں کو حکومتی کاموں میں جیسے شہر کی حفاظت و پاسداری اور حکومتی اداروں جیسے قیدخانہ اور بیت المال، قناتوں و نہروں ،پانی کی ندی ونالوں کی کھدائی میں انہیں معین کرتے تھے۔

اس طریقہ سے کہ انہیں کسی بھی قسم کی مزدوری ادا کئے بغیرمذکورہ بالا امور کو انجام دیتے تھے یہاں تکہ کہ کمترین مزدوری بھی انہیں ہرگز نہیں دی جاتی تھی۔

          ان غلاموں کو ان کی مہارت کے سبب مختلف حرفت جیسے پارچہ بافی (بنائی)، نجاری (بڑہئی)، زیور سازی (سنار)، آہنگری (لوہار)، دباغی (چرم سازی)، سفال گری (کمہار)، کفشداری (موچی)  اور خیاطی (درزی) کے مشغلوں  اور پیشوں میں لگا دیتے تھے۔

          البتہ ان کی آمدنی کا بیشتر حصہ ان کے آقاؤں کی جیبوں میں ہی جاتا تھا۔

          اسی طرح بعض سماجی مشاغل جیسے حجامت گری (حجامت)، سڑکوں کی صاف صفائی انہی غلاموں کے سپرد ہوا کرتی تھی۔

          مذکورہ بالا پیشے اور مشاغل کے علاوہ بھی ان غلاموں میں سے بہت سے خود اپنے مالکوں کے گھروں میں کام کاج کیا کرتے تھے، جیسے آشپزی (باورچی)، نانوائی (نانبائی) کے کاموں میں مشغول رہتے تھے۔

          کنیزوں کی خاطر بھی کام اور پیشے ہوا کرتے تھے جیسے امور خانہ داری نیز آوازہ خوانی (گانے  باجنا)اور اسی طرح سے جنسی خواہشات کی تکمیل کیلئے بھی انہیں اپنے پاس رکھا کرتے تھے۔ (الحیاۃ الاجتماعیۃ، ص  96 و 101.)

          بہر حال اس دور کے لحاظ سے شہر کوفہ میں غلاموں اور کنیزوں کو کسی شخص کا اپنے پاس رکھنا ایک رائج و مرسوم امر تھا اس طریقہ سے کہ اس زمانہ کے کوفہ کے معاشرہ کے بارے میں کہا گیا ہے کہ بعض مواقع پر جس وقت ایک کوفی مرد اپنے گھر سے باہر نکلتا تھاپس اس کی ہمراہی کرنے والے ۱۰ / ۲۰؍ غلام اورمولا ہوتے ہی تھے۔ (الحیاۃ الاجتماعیۃ، ص 75.)

ماخوذ: کتاب کوفہ از پیدائش تا عاشورا

٣. دستہ بندی طبقات مختلف اجتماعی

راقم: نعمت اللہ صفری فروشانی


DEDICATED TO SHAHE KHORASSAN IMAM ALI IBNE MUSA REZA AS

Post a Comment

To be published, comments must be reviewed by the administrator *

جدید تر اس سے پرانی