ج: مشهور و معروف شخصیات کے مکانات
۱ - شہر کے مرکز میں واقع مکانات
۲- شہر کے محلوں میں واقع مکانات
مترجم : ابو دانیال بریر اعظمی
ج:
مشہور و معروف شخصیات کےمکانات
مشہور افراد کے مکانات کے جن کے نام
تاریخ و جغرافیہ کی کتابوں میں درج ہوئے ہیں، ہم انہیں دو حصوں میں تقسیم کر سکتے
ہیں پہلے یہ کہ مرکز شہر میں واقع مکانات اور دوسرے شہر کے محلوں میں واقع مکانات
میں منقسم کررے ہیں۔
۱۔ شهر کے مرکز میں واقع مکانات
شہر کے پلان اور نقشہ کشی کے وقت تقریباً ۲۳؍ مربع ہیکٹر پر محیط شہر کے مرکزی
فضا (بغیر تعمیر کے کھلی فضا و سرزمین) کو مسجد (جامع) دار الامارۃ، شہر کا اصل
میدان (چوراہا) اور بازار کیلئے مخصوص قرار دیا اور اسی کے چاروں طرف ایک خندق بھی
کھدی ہوئی تھی اورعمر کے دستور کے مطابق کوئی بھی شخص یہ حق نہیں رکھتا تھا کہ
مذکورہ بالا حدود میں ایک بھی مکان تعمیر کرے تھے۔ (کوفہ پیدائش شہر اسلامی، ص 258.)
پھر زمانہ کےگذرنے کے ساتھ ہی خود عمر کے
دور حکومت میں ابھی اس مرکز کے بعض حصوں کی تعمیر بھی نہیں ہوئی تھی تو مختلف
افراد کے سپرد کیا؛ جن افراد کے حوالہ یہ منطقہ دیا ان میں عام طور سے نئے مہاجرین
اور اس زمانہ کی بعض عظیم اسلامی شخصیتیں بھی شامل تھیں، بہر حال مذکورہ بالا
میدانی حدود میں تقریباً ۳۰
مکانات تعمیر ہوئے تھے۔ (کتاب البلدان، ص 74.)
ہم یہاں پر ذیل میں بعض کا تذکرہ مختصراً کر رہے ہیں:
۱۔
شهر کے مرکز میں واقع مکانات
شہر کے پلان اور نقشہ کشی کے وقت تقریباً ۲۳؍ مربع ہیکٹر پر محیط شہر کے مرکزی
فضا (بغیر تعمیر کے کھلی فضا و سرزمین) کو مسجد (جامع) دار الامارۃ، شہر کا اصل
میدان (چوراہا) اور بازار کیلئے مخصوص قرار دیا اور اسی کے چاروں طرف ایک خندق بھی
کھدی ہوئی تھی اورعمر کے دستور کے مطابق کوئی بھی شخص یہ حق نہیں رکھتا تھا کہ
مذکورہ بالا حدود میں ایک بھی مکان تعمیر کرے۔ (کوفہ پیدائش شہر اسلامی، ص 258.)
پھر زمانہ کےگذرنے کے ساتھ ہی خود عمر کے
دور حکومت میں ابھی اس مرکز کے بعض حصوں کی تعمیر بھی نہیں ہوئی تھی تو مختلف
افراد کے سپرد کیا؛ جن افراد کے حوالہ یہ منطقہ دیا ان میں عام طور سے نئے مہاجرین
اور اس زمانہ کی بعض عظیم اسلامی شخصیتیں بھی شامل تھیں، بہر حال مذکورہ بالا
میدانی حدود میں تقریباً ۳۰
مکانات تعمیر ہوئے۔ (کتاب البلدان، ص 74.)
ہم یہاں پر ذیل میں بعض کا تذکرہ مختصراً
کر رہے ہیں:
اول - حضرت علیؑ کا بیت الشرف
حضرت علیؑ بروز دوشنبہ، ۱۲؍رجب ۳۶ ھ کو جنگ جمل سے فارغ ہو کر کوفہ
میں وارد ہوئے اور کوفیوں کے جوش و خروش کے ساتھ استقبال سے رو برو ہوئے اور لوگوں
نے اس بات کی خواہش ظاہر کی کہ دار الامارہ کے قصر میں سکونت اختیار کریں۔ لیکن
آنحضرتؑ نے لوگوں کو منع فرمایا اور وقتی طور پر اپنی بہن (فاختہ یا ہند بنت
ابیطالب متوفی ۵۰ھ ) کی اولاد کےمکان یعنی ام ہانی
کے فرزند جُعدَہ بن ہُبَیرَہ مخزومی (بھانجا) کے مکان پر قیام پذیر ہوئے اور پھر
جب آنحضرتؑ کا مکان رحبہ کے مقام پر تیار ہو گیا تو آپ خود کے ہی بیت الشرف میں
منتقل ہوئے۔ (وقعۃ صفین، ص 3 و 5.)
رحبہ بھی شہر کےمرکزی کھلی فضا میں شامل
ہوتا ہے اور مغربی سمت میں قصر واقع ہوتا تھا۔ (الحیاۃ الاجتماعیۃ و الاقتصادیۃ، ص
29.)
حضرت علیؑ کا بیت الشرف کوفہ کی جامع مسجد
کی جنوب مغربی سمت میں واقع رہا ہے ۔(ارشاد اہل القبلۃ الی فضل الکوفۃ، ص 216؛
موسوعۃ النجف، 1/ 122؛ کوفہ پیدائش شہر اسلامی، ص122؛ تاریخ الکوفۃ، ص 20.)
اسی وجہ سے ابن جُبیر اور ابن بطوطہ نے
اپنے سفرناموں میں آنحضرتؑ کے بیت الشرف کو مسجد کے حدود کے آخر میں ذکر کیا ہے۔
(رحلۃ ابن جبیر، ص 188؛ رحلۃ ابن بطوطہ، ص 219.)
رحبہ کے محلہ کو پہلے صرف »رحبہ« لفظ کے نام سے یاد کیا جاتا تھا مگر جب حضرت
علی ؑکا محل سکونت منتخب کرنے کے بعد اسی
محلہ رحبہ کو »رحب علیؑ« کے نام سے شہرت حاصل ہوئی۔(الحیاۃ الاجتماعیۃ،
ص 295.)
بعض مورخین کی کتابوں کی تحریروں کے مطابق
آنحضرتؑ نے خود اپنے ہی بیت الشرف میں ایک مقام کو مسجد کی حیثیت دی شائد امامؑ
نے اپنے ہی مکان کے کمروں میں سے کسی ایک کمرہ کو قرار دیا ہےکو تعمیر فرمایا تھا۔
(ترجمۃ الامام علیؑ، 3/ 297.)
اسی طرح آنحضرتؑ کے ذریعہ بیت الشرف میں
ہی ایک کنواں بھی تعمیر ہوا جو »بئر علیؑ« کے نام سے مشہورہوا نیزآج کل بھی یہ کنواں موجود ہے جو اسی مکان
میں واقع ہوا ہے۔ (تاریخ الکوفۃ، ص 25.)
حضرت علیؑ بھی اسی بیت الشرف میں اس دنیا
سے کوچ کیا اور اسی مکان میں آنحضرتؑ کے جسم مبارک کو غسل و کفن کے مراسم انجام
دیا۔ (ارشاد اہل القبلۃ، الی فضل الکوفۃ، ص 216.)
بعض احادیت میں اس طرح وارد ہوا ہے کہ یہ
مکان حضرت علیؑ کی بہن (ام ہانی) کے بیٹے (بھانجے) عبد الله بن ہُبَیرہ مخزومی کا
ہی گھر تھا اور آنحضرت مہمان کی حیثیت سے اس مکان میں مقیم ہوئے تھے۔ (ارشاد اہل
القبلۃ، الی فضل الکوفۃ، ص 216.)
البتہ یہ بعید لگتا ہے کہ آنحضرتؑ نے اس
مکان میں اپنی حکومت کے مکمل دور میں بطور مہمان قیام فرمایا ہو گا، ممکن ہے کہ
عبد اللہ بن ہبیرہ نے یہ مکان حضرت علیؑکو تحفہ میں دیا ہو یا تو امامؑ کے ہاتھوں
فروخت کیا ہو۔
آنحضرت کے داخلی کیفیت کی توصیف کے بارے
میں بعض کتابوں میں درج ہوا ہے کہ وہاں پر ایک چھوٹی چٹائی فرش پہ بچھنے کا تذکرہ
ملتاہے۔ (تاریخ من دفن فی العراق، ص 228.)
بعض روایات سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ
آنحضرتؑ کے بیت الشرف کے پاس ہی ایک چبوترہ بھی بنایا گیا تھا۔ (بحار الانوار،
100/ 416.)
دوم - جُعْدَه بن هُبَیره مَخزُومِی کا مکان
جعدہ مخزومی؛ ام ہانی کے شوہر ہُبَیرہ بن
ابی وہب بن عَمرو بن عائذ بن عمران بن مخزوم کے بیٹے تھےنیزیہ امامؑ کے داماد اور
آنحضرتؑ کی ایک بیٹی ام الحسین کے شوہر تھے۔(قاموس الرجال شوشری، 2/ 594)
کتابوں میں ام ہانی کی اولاد (امامؑ کے
بھانجوں) کے ناموں کا تذکرہ ملتا ہے: جعدہ، عمرہ، یوسف، ہانی، طالب، عقیل اورجمانہ
یعنی بنی ہبیرہ کا سلسلہ انہیں سے ہے۔
بعض نے بیٹوں کے نام یہ بھی تحریر کیا ہے:
عون، عقیل، فضیل اورعبد اللہ، انہوں نے ۶۶ھ کو کوفہ میں اس دنیا سے کوچ کیا
۔(مترجم)
ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ کہ یہ مکان بھی رحبہ
محلہ میں ہی واقع تھا کیونکہ آنحضرتؑ نے کوفہ میں وارد ہوتے ہی فرمایا کہ وہ رحبہ
کے مقام پر قیام پذیر ہوں گے اور پھر اسی مکان میں منتقل ہوئے۔ (وقعۃ صفین، ص 3 و
5.)
آنحضرتؑ نے آپ کو خراسان کا والی قرار
دیا تھا۔ امامؑ کی شہادت کے وقت یہ کوفہ میں حاضر تھےاورجب امام کو ضربت لگی تھی تو آپ ہی نے امامؑ کے قائم
مقام بن کر نماز جماعت قائم کی تھی۔
سوم - عبد اللہ بن مسعود کا مکان
اس کا مکان بھی کوفہ کے محلہ رحبہ میں
مستقر تھا چنانچہ اس شہر میں سب سے پہلے مکمل طور پر اینٹوں سے سے تعمیر کئے گئے
مکانوں میں ابتدائی گھر تھا اس گھر کی زمین کو عمر نے ابن مسعود کو بخشا ہے۔
(البلدان، ص 74.)
بعض مورخین نے اپنی کتابوں میں اس طرح بھی تحریر کیا ہے کہ یہ مکان مسجد کی دیوار کے عقب میں واقع ہوتا ہے یعنی اس کے شمال میں واقع ہوا تھا۔ (تاریخ الکوفۃ، ص 96.)
(نقشہ شمارہ 7)
چهارم - ولید بن عُقْبه کا مکان
ولید بن
عقبہ ۲۶ ھ سے ۳۰
ھ تک عثمان کی حکومت کے زمانہ میں کوفہ کے حکمران ہوا تھے۔ (البلدان، ص 75.)
ان کا بھی مکان اشرافی کے مکانوں کی طرح
ہی تھا جو مسجد اور قصر کے مشرقی سمت میں بازار کے مقام کے قریب واقع ہوا ہے۔
جس وقت حضرت علیؑ کوفہ میں وارد ہوئے تو
آنحضرت سے پوچھا کہ آپ ان دو قصر میں سے کس ایک قصر میں مقیم ہونا چاہیں گے۔؟
(وقعۃ صفین، ص 3 و 5.)
یہ بات بھی یاد رہے کہ مورخین نے اپنی
کتابوں میں ایک قصر کے علاوہ جسے قصر دار الامارہ کے نام سے تذکرہ ملتا ہے کسی اور
قصر کا ذکر تک بھی نہیں آیا ہے۔
ہمیں ایسا لگتا ہے کہ دوسرا قصر یہی ولید
کا مکان مراد لیا گیا ہے۔
پنجم - عُمَّارَه بن عُقْبَه کا مکان
عمارہ ولید کا بھائی تھااس کا مکان بھی قصر کے قریب واقع ہوا تھا۔ تاریخی روایات میں وارد ہوا ہے کہ مختار کے حامیوں نے ۶۶ ھ میں عمارہ کے مکان کے قریب قصر کی دیوار سے رسیوں کے ذریعہ اوپر گئے تھے۔ (الاخبار الطوال، ص 291.)
(نقشہ شمارہ
7)
ششم - ابو موسیٰ اشعری کا مکان
بعض کتب جغرافیہ میں اس طرح سے تذکرہ ملتا ہے کہ
عمر بن خطاب نے »نصف آرّی« کا حصہ ابو موسی اشعری کو بخشا تھا۔ (البلدان، ص 74.)
آرّی: مسجد کی جنوب مشرقی اور شہر کے مرکز کے دار الامارہ میں ایک وسیع سر زمین جو آبادی کا نقشہ بننے سے پہلے ہوا کرتی تھی۔
(نقشہ ہای شمارہ 3 - 5)
جس مقام پر سپاہوں کے گھوڑے (تقریباً ۴؍ ہزار گھوڑوں) کو باندھا جاتا
تھا۔ (کوفہ پیدائش شہر اسلامی، ص 132.)
ابو موسیٰ کا مکان »درب الرومیین« کے قریب قصر واقع ہوتا تھا۔ (تجارب الامم، 2/ 137.)
(نقشہ شمارہ 7)
اسی مقام پر »نصف
آرّی« ایک وسیع و عریض مکان موجود تھا، نیز عمر نے اسی جگہ میں کسی دوسرے کو بھی
شامل کر رکھا تھا۔
هفتم - حُذَیفَه بن یَمان کا مکان
عمرنے اسی سر زمین کا حصہ دوسرا حصہ »نصف
آرّی« کو طائفۂ »عَبْس« سے تعلق رکھنے والے ایک عظیم المرتبت صحابی رسولخداؐ
حذیفہ بن یمان کو بخش دیاتھا۔ (البلدان، ص
74.)
هشتم - سلمان بن رَبِیعَه باهِلی
مُسَیّب بن نَجْبَہ بن ربیعہ فَزاریّ بن رباح بن عوف بن ہلال بن شمخ بن فزارہ بن ذبیان:تحریک توابین میں امام حسینؑ کے خون کا انتقام لینے کیلئے کوفہ میں خروج کیا تھا۔
نهم - مُسَیّب بن نَجْبَه
فَزَارِی کے مکانات
سلمان بن ربیعہ بن یزید بن عمرو باہلی: جو
عمر کی طرف سے عراق میں سب سے پہلے قاضی مقرر ہوئے نیز فوج میں منصب دار تھے، عبد
الرحمن بن ربیعہ باہلی ان ہی کا بھائی تھا۔
- یہ دونوں مکانات کی زمین عمر کی طرف سے اقطاعی یعنی بخشش میں دی گئی تھی، یہ لوگ ابن مسعود کے گھر کے ہمسائے میں مستقر تھے۔ (تخطیط مدینۃ الکوفۃ، ص 82.)
دهم - عَمرو بن حُرَیث کا مکان
ان کا گھر مسجد کی مشرقی دیوار کی سمت میں
اور ابن مسعود کے گھر کے پڑوس میں واقع تھا، اس مکان کی سر زمین عمر نے بطور بخشش
دی تھی۔ (البلدان، ص 74؛ تاریخ من دفن فی العراق، ص 401.)
یہ زیاد کی حکومت کے دوران سنہ ۵۰
تا ۵۳
ہجری اور عبید اللہ بن زیاد کی حکومت کے دور سنہ ۶۰ تا ۶۷ ہجری میں (جبکہ ابن زیاد ایک ساتھ
بصرہ اور کوفہ پر حکمرانی کر رہا تھا)مذکورہ حاکم کی طرف سے انہیں ہر سال ۶؍ ماہ کی حکمرانی اپنے ہاتھوں میں
رکھتا تھا۔
حضرت علیؑ کے ایک وفادارترین صحابی میثم تمّار کو اسی کے مکان کے قریب ہی سولی پر چڑھایا گیا، امیر المومنینؑ نے اس دار پر چڑھانےسلسلہ میں پہلے ہی پیشنگوئی فرمائی تھی۔ (بحار الانوار، 42/ 124؛ تاریخ الکوفۃ، ص 305.)
(نقشہ شمارہ 7)
یازدهم - طَلْحه بن عبید اللہ کا مکان
اس کا مکان عمرو بن حُرَیث اور ابن مسعود
کے مکانات کے قریب اور مسجد کے پاس تھاکہ اس کے گھر کی زمین کو عمر نے طلحہ کو
بطور تحفہ بخشا تھا۔ (البلدان، ص 74.)
یہ بات یاد رہے کہ جنگ جمل کے وقت طلحہ
وہی فرد ہے جو بصرہ کے لشکر میں اصلی سرداروں میں ایک تھا۔
دوازدهم - خالد بن عرفطه کا مکان
عُمَر نے انہیں بھی ایک قطعہ زمین مرکز شہر میں نیز مسجد اور قصرکے شمال میں خالد کو بخشی اور اس نے اپنا مکان اسی زمین پر تعمیر کیا، یہ سعد بن ابی وقاص کے لشکر میں ایک سردار کے عہدہ پر فائز تھے۔ (البلدان، ص 74.)
(نقشہ شمارہ 7)
سیزدهم - سَعد بن قَیس کا مکان
سَعد کے مکان کی زمین عمر کی طرف سے اقطاعی میں دی گئی تھی، سلمان بن ربیعہ کے مکان کے قرین واقع تھا اور اس کے درمیان ایک چھوٹی گلی کے ذریعہ فاصلہ واقع تھا۔ (البلدان، ص 74.)
(نقشہ شمارہ 8)
چهاردهم - ابن حکیم کا
مکان
ابن حکیم کا مکان عمرو بن حریث کے گھر کے
قریب ہی واقع تھا۔ (بحار الانوار، 42/ 124.)
پانزدهم - مختار بن ابی عُبَیده ثَقَفی کا مکان
ان کا مکان مسجد کے شمال اور شمالی دیوار کے قریب واقع تھا، کیسے ہی جناب مسلم بن عقیلؑ شہر کوفہ میں وارد ہوتےہیں ان کے ہی مکان میں قیام پذیر ہوتے ہیں ، پھر یہی مکان بعد میں مُسَیَّب کے مکان کے نام سے مشہور ہوا۔ (الاخبار الطوال، ص 231.)
(نقشہ شمارہ 7)
۲- شهر کے محلوں میں واقع مکانات
اول
- خَبّاب بن اَرَت کا مکان
ان کو بھی عمر نے اقطاعی زمین دی تھی نیز
ان کا مکان »چہار سوق خُنَیس« (شہار سوج خنیس) کے علاقہ میں ہی واقع تھا۔(البلدان،
ص 74؛ موسوعۃ النجف الاشرف، 1/ 425.)
چنانچہ کہا جاتا ہے کہ ان کا ہی مکان کوفہ
میں سب سے پہلا تھا جس کے ورودی یاتمام مکان اینٹوں سے تعمیر کیا تھا۔ (فضل
الکوفۃ، ص 65.)
دوم
- زید بن اَرْقَم انصاری کا مکان
اس صحابی رسولخداؐ کا مکان محلۂ کِندَہ
میں کوفہ کے جنوب میں واقع تھا، جناب زید کا مکان ۲؍ منزلہ تھا اور اس کی بالکنی یا
چھجہ اشراف کے روڈ کی طرف واقع تھا۔ (تاریخ من دفن فی العراق، ص 185؛ موسوعۃ النجف
الاشراف، 1/ 426.)
سوم
- جَریر بن عبد اللہ بجلی کا مکان
جَرِیر کا مکان محلۂ »بجلیہ« میں کوفہ کے
مغرب میں واقع تھا۔ (موسوعۃ النجف الاشراف، 1/ 425.)
چهارم
- عدی بن حاتم طائی کا مکان
عدی بن حاتم طائی کا مکان محلۂ بنی طَی
میں کوفہ کے شمال میں واقع تھا۔ (موسوعۃ النجف الاشراف، 1/ 427.)
پنجم
- خُنَیْس بن سَعد کا مکان
ان کا مکان چہار سوق خُنَیْس کے قریب واقع
ہواتھا اور چہار سوق (۴ بازار) کا نام
خُنَیْس کے نام پر رکھنے کا سبب اسی کا مکان ہی رہا ہے۔ (موسوعۃ النجف الاشراف، 1/
426.)
ششم
- هانیؑ بن عُرْوه
کا مکان
یہ قبیلۂ مِذْحَج (بر وزن بِہتَر) کے
بزرگان اور شیوخ میں شمار ہوتے تھے، ان کا مکان بنی اَسْلَم قبیلہ کی ایک شاخ کی
سرزمینوں کے درمیان جو کہ کوفہ کے جنوب مغربی سمت میں تعمیر کیا تھا۔ (تاریخ من
دفن فی العراق، ص 466.)
ان کے گھروں کی ظاہری شکل و صورت سے یہی
پتہ چلتا ہے کہ جناب ہانیؑ کا ایک گھر بھی ان کی زوجہ کیلئے بھی مخصوص تھا اوراس
گھر کے بعض خصوصیات کا تذکرہ کیا ہے ، غالبا جناب مسلم بن عقیلؑ کو جناب ہانیؑ نے
اسی گھر میں قیام و طعام کا بندو بست کیا تھا۔
هفتم
- اَشْعَث بن قَیس کا مکان
یہ قبیلۂ کِنْدَہ (بر وزن زِندَہ) کے
سردارہے اور کوفہ کے دولتمندترین افراد میں شمار ہوتا تھااس کا اشرافیانہ مکان
یعنی محل یا کوٹھی محلۂ کِندَہ میں واقع ہوتا ہے جو کہ کوفہ کے جنوبی سمت میں
تعمیر کیا تھا۔ اس نے ۴۲ ھ میں دنیا سے کوچ کیا اور خود
اپنے ہی مکان میں دفن ہوا۔ (تاریخ من دفن فی العراق، ص 32 و 35.)
هشتم
- قُرظَه بن کَعْب انصاری کا مکان
آپ کا مکان کوفہ کے محلۂ انصار میں واقع
ہوتاہے۔ (تاریخ من دفن فی العراق، ص 419.)
قُرظَہ پیغمبرؐ اکرم کے جلیل القدر صحابی
تھے کہ جنہوں نے جنگ احد اور دیگر جنگوں میں شرکت فرمائی ۔ آپ بھی ان دس افراد
میں سے تھےجنہیں عمر نے جناب عمار یاسر کے ساتھ کوفہ بھیجا تھا، یہی صحابی
رسولخدؐا ۲۳ ھ میں رے کے فاتح بھی تھے ۔
جب حضرت علیؑ جنگ جمل کیلئے بصرہ کی طرف
روانہ ہوئے تو انہیں ہی شہر کوفہ میں اپنا جانشین قراردیا۔
اقتباس
از کتاب کوفہ
از پیدائش تا عاشورا
راقم: نعمت اللہ صفری فروشانی
مترجم:ابو دانیال بریر اعظمی
ایک تبصرہ شائع کریں