زِرَاعَت و کَاشَت کَارِی مُقَدَّستَرِين مَشغَلَہ



via pinterest


زِرَاعَت مُقَدَّستَرِين مَشغَلَہ


ترجمہ : ابو دانیال بریر اعظمی


خدا ہی زارع ہے.

کاشت کار خدا ہی پر توکل کرتا ہے.

اسلام میں کاشت زراعت کی اہمیت.

 

كشاورزی مقدس ترين شغلها

 تحریر : داؤد الہامی

  کھیتی باڑی کے ذریعہ معاشرہ و سماج کی غذائی ضرورت کو پورا کیا جاتا ہے چونکہ یہ اسی بنا اہمیت بھی رکھتا ہے لہذا پیشوں اور مشغلوں میں سب سے زیادہ پسندیدہ پیشہ و مشغلہ ہےاور پیغمبرانؑ الہی کا مشغلہ بھی رہا ہےاور اسی کے باعث تمام ادیان الہی میں اسے ایک مقدس مشغلہ کے طور پر شناخت کروایا ہے اور زمینوں کو آباد یعنی کھیتی باڑی کرنا خداوند متعال کی منشاء ہے جسے اسلام میں دستور کے مقام پر قرار دیا ہے  جیسا کہ حضرت علیؑ نے مذکورہ آیت: »هُوَ أَنشَأكُم مِنَ الأَرضِ وَاستعمركم فِيهَا« [سورہ هود آيت 61] کی تفسیر میں فرمایا ہے: آنحضرتؑ نے فرمایا کہ خداوند عالم نے لوگوں کو دستور فرمایا ہے کہ زمین کو کھیتی کے ذریعہ آباد یعنی سرسبز و شاداب کریں تاکہ اس کے وسیلہ سے اپنی غذا و خوراک کو غلات و دالوں اور پھلوں و دیگر زمین سے اگنے کے قابل سارے پیڑ پودے وغیرہ کو بوئیں یا اگاتے رہیں اور زندگی میں آسائش حاصل کریں۔ [المحکم و المتشابة سيد مرتضي ص 58؛ وسائل الشیعة 13/ 195.]

امام صادقؑ نے فرمایا ہے: »إِنَّ اللهَ تَبَارَكَ وَ تَعَاليٰ لَمَّا أَهبَطَ آدَمَ أَمَرَهُ  بِالحَرثِ وَ الزَّرعِ« خداوند تبارک و تعالی نے جب حضرت آدمؑ کو زمین پر اتارا تو انہیں حکم دیا کہ زراعت یعنی کھیتی باڑی کریں۔ [مستدرک 13/ 462.]

امام باقرؑ فرماتے ہیں:»خَيرُ الأَعمَالِ زَرعُ الحَرثِ يَزرَعُه فَيَأكُل مِنهٗ البِرُّ وَ الفَاجِرُ.....« بہترين اعمال زراعت و کھیتی کرنا ہےکہ جس کا نفع عام لوگوں کو ہی پہونچتا ہے اور اس کا محصول عموما تمام ہی مخلوقات چاہے وہ نیکوکار ہو یا بدکار ہو سبھی استفادہ کرتے ہیں۔ [وسائل الشیعۃ 13/ 194.]

امام صادقؑ فرماتے ہیں: »مَا فِي الأَعمَالِ شَيءٌ أَحَبَّ إِليٰ اللهِ مِنَ الزِّرَاعَةِ وَ مَا بَعَثَ اللهُ نَبِيّاً إِلَّا زَارِعاً إِلَّا إِدرِيسَ فَإِنَّهٗ كَانَ خَيَّاطاً« خداوند متعال کے نزدیک زراعت کے علاوہ کوئی بھی کام سب سے زیادہ محبوب نہیں ہے، اللہ کے تمام انبیاء زراعت کرنے والے ہی تھے مگر صرف جناب ادریس درزی تھے۔[مستدرک الوسائل 13/ 461.].

پھر امام صادقؑ نے فرمایا: »إِزرَعُوا وِ إغرِسُوا وَ اللهِ مَا عَمَلَ النَّاسُ عَمَلاً أَطيَبَ مِنهٗ...« زراعت کرو اور درخت بویا کرو، خدا کی قسم! لوگوں نے بہترین و پاکیزہ عمل انجام نہیں دیا ہے۔ [وسائل الشیعۃ 13/ 193.].

مزید آنحضرتؑ نے فرمایا ہے: »الزَّارِعُونَ كُنُوزُ الأَنَامِ يَزرَعُونَ طَيِّباً أَخرَجَهُ اللهُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ هُم يَومَ القِيَامَة ِأَحسَنَ النَّاسُ مَقَاماً وَ أَقرَبَهُم مَنزِلَة يَدعُونَ المُبَاركِينَ«  زراعت (کھیتی) کرنے والے لوگوں کے خزانے ہیں، پاکیزہ چیزوں کی زراعت کرتے ہیں، خداوند عالم انہیں روز قیامت محشور کرے گا اس حالت میں کہ مقام کے لحاظ سے بہترین لوگ ہوں گےاور منزلت کے لحاظ سے بھی ان لوگوں کے نزدیکترین ہوں گے جن لوگوں کو اس قیامت کے روز مبارکین (برکت والے) کے نام سے پکارا جائے گا۔ [وسائل الشیعۃ 13/ 194.].

رسول اکرمؐ نے فرمایا ہے: »مَا مِن مُسلِمٍ يَغرُسُ غَرساً أَو يَزرَعُ زَرعاً فَيَأكُل مِنهٗ إِنسَانٌ أَو طَيرٌ أَو بَهِيمَةٌ إِلَّا كَانَت لَهٗ بِهِ صَدَقَۃٌ« کوئی بھی مسلمان ایک درخت بوتا ہے یا کسی زراعت کو سر سبز و شاداب کرتا ہےپس اس میں سے انسان و طائر اور حیوانات کھاتے ہیں تو اس کیلئے صدقہ کا اجر و ثواب رکھتا ہے۔ [مستدرک وسائل 13/ 460 ـ درر اللئالی 1/ 30.]

امام صادقؑ نے فرمایا ہے: »اَلكِيمِيَاء الأَكبَرُ الزِّرَاعَةُ« زراعت کيميائے اکبر ہے. [وسائل الشیعة 13/ 194.].

ابو ايّوب انصاری کہتے ہیں کہ پیغمبر خداؐ نے  فرمایا ہے: »مَن غَرَسَ غَرساً فَأَثمَرَ أَعطَاهُ اللهُ مِنَ الأَجرِ قَدر مَا يَخرُجُ مِنَ الثَمَرَۃِ« جس شخص نے بھی پھل دار درخت بویاپھر اس میں پھل لگا تو خداوند عالم اس درخت میں جتنے بھی پھل لگیں گے ان کی تعداد کی مقدار بھر اسے اجر و ثواب عنایت فرمائے گا۔ [مستدرک الوسائل 13/ 460.].


٭     خداہی زارع ہے


        انسانوں میں کاشت کار خدا وند متعال کیلئے پاکترین عقیدہ رکھتا ہے اور اسی پروردگار عالم کے ساتھ ہی تعلق رکھتا ہے وہ کاشت کاری کرتا ہے لیکن اس کی تمامتر امیدیں خداوند منان سے ہی ہوتی ہیں، کاشت کار فقط (بیج) بوتا ہے لیکن اس بیج کو اگانا صرف خدا ہی کا کام ہےلہذا ایک حدیث میںپیغمبر اکرمؐ نے نقل ہوا ہے کہ آنحضرتؐ نے  فرمایا ہے: »لَا يَقُولن أَحدكُم زَرعتُ وَ ليَقُل حَرثتُ (فَانَّ الزَّارِع هُوَ اللهُ)« تم میں سےکوئی بھی یہ نہ کہے کہ میں زراعت کرتا ہوں بلکہ یہ کہے کہ میں کاشت کاری کرتا ہوں، میں بیج چھڑلتا ہوں کیونکہ حقیقی زارع تو خداوند متعال ہی ہے۔ [حدیث کا حصہ اول مجمع البیان میں ذیل آيت 64 سورہ واقعہ 5/ 223 طبع صیدا اورحدیث کا حصہ دوم تفسیر روح البیان میں نقل ہوا ہے.]

دیگر روايت میں بھی اس حقیقت کی طرف اشارہ ہوا ہے کہ امام صادقؑ فرماتے ہیں: »إِذَا بَذرتَ فَقُل: أَللّٰهُمَّ قَد بَذرنَا وَ أَنتَ الزَارِع فَإجعَلهُ حَبّاً مُتَرَاكِماً (مُبَارِكاً)« جب تم بیج کا چھڑکاؤ کرو تو تم یہی کہو: بار الٰہا! ہم نے بیج چھڑک دیا ہے اور زارع یعنی اگانے والا تو ہی ہے، پس خدایا! اس بیج میں برکت عطا فرما۔ [وسائل الشیعہ 13/ 197.]

        مزید دیگر روایت فرمایا ہے:»إِذَا أَردتَ أَن تَزرع زَرعاً فَخُذ قَبضةً مِنَ البذر بِيَدِكَ ثُمَّ إستقبل القِبلةَ وَ قُل: »أَ أَنتُم تَزرَعُونَهُ أَم نَحنُ الزَّارِعُونَ« [سورہ واقعہ آيت 64.] »ثَلَاثَ مَرَّاتٍ ثُمَّ تَقُولُ بَلِ الله الزَارِع ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، ثُمَّ قُل: أَللّٰهُمَّ إجعَلهُ حَبّاً مُبَاركاً وَ أرزُقنَا فِيهِ السَّلَامَة...« [مکارم الاخلاق، ص 353 ؛ وسائل الشیعہ 13/ 197.]

        جس وقت تم کاشت کاری کرنا چاہو تو ایک مٹھی بیج اٹھاؤ اور رو بقبلہ کھڑے ہو جاؤ اور ۳؍ مرتبہ یہ کہو: »کیاتم انہیں اگاتے ہو یا ہم اگاتے ہیں« [سورہ واقعہ آيت 64.] پھر  (مذکورہ آیت کو ۳؍ مرتبہ تکرار ) کرنے کے بعدتم یہ کہو: بلکہ خدا ہی زارع ہے، پھر اس کے بعد کہو: خدایا! اس میں برکت عطا فرمای اور اس زراعت میں  ہمارے لئے سلامتی قرار فرما۔

        دلچسپ بات تو یہی ہے پہلی آیت »أَفَرَأَیتُم مَا تَحرُثُونَ« [سورہ واقعہ آيت 63.] میں لفظ »تَحرُثُونَ« ہے جو مادہ »حَرثٌ« کے لفظ مشتق ہے کہ جس کے معنی کاشت کرنا یا کاشت کاری کرنا ہے۔ (دانوں یا بیجوں کو چھڑکنا اور اس کے نمو کیلئے آمادہ کرنا ہے)

        دوسری آیت »أَ أَنتُم تَزرَعُونَهُ أَم نَحنُ الزَّارِعُونَ« [سورہ واقعہ آيت 64.]  میں لفظ »تَزرَعُونَہُ« ہے جو مادہ »زِرَاعَۃٌ«کے لفظ سے مشتق ہےکہ جس کے معنی اگانا ہے۔

        البتہ کاشت کار جو کام زراعت کے سلسلہ میں انجام دیتا ہے،یہ انسان کے بچہ کی پیدائش کے کام سے مشابہت رکھتا ہے کہ بس بیج ڈال دیتا ہے اور کنارے ہٹ جاتا ہے یہ تو خداوند منان ہی ہے کہ اس بیج میں ایک بہت ہی چھوٹا سا ایک زندہ سیل پیدا کرتا ہےکہ جس وقت بھی ماحول مددگار ملتا ہے، ابتدا میں خود بیج اپنے ہی اندر کے مواد غذائی کا استعمال کرتا ہے نیز بیج سے کونپل باہر نکلتی ہے اور جڑ پکڑ لیتا ہے، پھر تیزی کے ساتھ زمین کی مدد سے مواد غذائی حاصل کرتا ہےنیز پودوں کے اندر موجودعظیم کارخانے اور تجربہ گاہیں کام میں لگ جاتی ہیں،تنہ، شاخیں اور خوشہ کو بنانے لگتی ہیں اور کبھی کبھی ایک ہی بیج سے سیکڑوں بیج پیدا ہو جاتے ہیں۔

دانشمندان کہتے ہیں:ایک پودے کی جسمانی بناوٹ یا نظام میں جو کام آتا ہے ایک عظیم صنعتی شہر میں موجود ڈھانچے سے اس کے متعدد حیرت انگیز کاموں کے ساتھ اور مراتب کے اعتبار سے پیچیدہ تر ہوتا ہے۔ [تفسير نمونہ 23/ 250.]

        پروردگار عالم اس آيت میں »لَو نَشَاءُ لَجَعَلنَاهُ حُطَاماً فَظَلتُم تَفَكَّهُونَ« [سورہ واقعہ آيت 65.] اسی مسئلہ پر تاکید کیلئے کہ انسان کوئی بھی کردار یا نقش پودوں کے رشد و نمو میں سوائے بیج ڈالنے کے اور کوئی بھی حیثیت رکھتا نہیں ہے مزید اضافہ کرتا ہے (اگر ہم چاہیں تو اسی زراعت کو ایک مٹھی بھر چبائے ہوئے بھوسے میں تبدیل کر دیں تو تم کس طرح سے تعجب کرو گے۔)

        جی ہاں! ہم ایک موسمی تیز ہوا بھیج سکتے ہیں کہ جو انہیں دانہ یا بیج بننے سے پہلے ہی خشک کر کے درہم برہم کرکے چکنا چور کر دے یا پھر کوئی آفت ان کیلئے مسلط کردیں کہ محصول کو برباد کردے نیز ہم ٹڈی کے طوفان کو ان پر روانہ کردیں یا ایک بڑی بجلی کی چنگاری کو ان پر مسلط کر دیں اس طریقہ سے کہ کچھ بھی سوائے ایک مٹھی خشک بھوسے کے باقی نہ رہے اور تم اس منظر کے مشاہدہ سے حیرت و ندامت میں ڈوب جاؤ۔ تو کیا اگر تم حقیقی زارع ہوتے تب بھی یہی امور امکان پذیر ہوتے؟

        پس جان لو کہ یہ تمام برکات خداوند متعال کی طرف سے ہی ہے اور یہی وہ ذات گرامی ہے کہ ایک ناچیز و معمولی دانہ و بیج کو سرسبز و شاداب اور تر و تازہ پودوں اور کبھی کبھار سیکڑوں یا ہزاروں دانے پیدا کرتا ہے، وہ پیڑ اور پودے جس کے بیج و دانے انسانوں کی خوراک نیزاس کی شاخیں اور پتے حیوانات کی غذا اور کبھی تو اس کی جڑیں و دیگر بہت سے اجزا مختلف بیماری و درد کے علاج میں کام دیتے ہیں۔

        پس کہہ سکتے ہیں کہ کاشت کاری کے محصولات دو کاموں کی ترکیب کے اثر کا نتیجہ ہے: ۱۔ »اللہ تعالی«  کا کام اور ۲۔ »انسان« کا کام۔یہ ایک دوسرے کے ساتھ وجود میں آتا ہے لہذا کھلیان پر جب خوشوں سے غلہ کو جدا کیا جاتا ہے تو خداوند منان کا بھی حق اس میں مقرر ہے جسے الگ کر دیں اور فقرا و مساکین کو یا پھر فی سبیل اللہ اورخدا کے حکم کے معین کردہ دستور کے مطابق مخصوص قرار دیں۔


٭     کاشت کار خدا پر ہی توکُّل کرتا ہے

   

     تفسير عیاشی مذکورہ آیت شریفہ کے ذیل میں:»..... وَ عَليٰ اللهِ فَليَتَوَكَّلِ المُتَوَكِّلُونَ.....« [سورہ ابراہیم آيت 12.] (اور تمام توکل کرنے والوں کو چاہئے کہ فقط اللہ پر ہی توکل کریں) امام صادقؑ سے مروی ہے کہ آنحضرتؑ نے فرمایا:»اَلزَّارِعُونَ« [تفسير عیاشی 2/ 222، ح  6.]

         اسی روايت کے مطابق لفظ »مُتَوَكِّلُونَ« سے کاشت کار کی تفسیر ہوئی ہے یعنی تمام ہی کاشت کاروں کو خدا وند عالم پر ہی توکل کرنے والا ہونا چاہئے ۔

        کاشت کاری کرنے والے اپنے سے مربوط امور کو انجام دیتے ہیں؛ بیج ڈالتے ہیں اور درخت بوتے ہیں اور بقیہ امور تو خداوند عالم کے دست قدرت میں جانتے ہیں اگر خداوند منان کی طرف کوئی بھی عنایت نہیں ہوئی تو ان کی تمام تلاش ضائع اور ان کی تمام سعی و کوشش بے ثمر ہو گی۔

        البتہ خداوند متعال پر توکل کرنا اس کے سوا کوئی مفہوم نہیں رکھتا کہ انسان زندگی کی مشکلات و حادثات میں انہیں اپنی توانائی و صلاحیت سے دور نہیں کر سکتا لہذا خدا وند عالم پر ہی تکیہ کرتا ہےبلکہ کہاں تک بھی ممکن ہوتا ہے طاقت بھر امر کو انجام دیتا ہے پھر بھی خدا کو ہی اصلی موثر تسلیم کرتا ہےکیونکہ ایک موحد انسان سے دریچہ سر چشمہ پھوٹتا ہے جس کی تمام تر قوت و طاقت خداوند متعال کی ذات گرامی ہے۔   

         پیغمبر اکرمؐ سے نقل ہوا ہے کہ آپ نے فرمایا کہ میں نے خدا کی وحی کے امانتدار جبرئیل امین سے پوچھا کہ توکل کیا ہے تو انہوں نے کہا: »اَلعِلمُ بان المَخلُوق لَايَضُرّ وَ لَاينفع وَ لَايعطي وَ لَايَمنع و إستِعمَالُ اليَأسِ مِنَ الخَلقِ فَإِذَا كَانَ العَبد لِذٰلِكَ لَم‌يَعمَل لِأَحدٍ سِويٰ الله وَ لَم‌يطمع فِي أَحدٍ سِويٰ‌الله فَهٰذَا هُوَ التَّوَكُّل« اس حقیقت آگاہ ہونا کہ مخلوق نہ ضرراور نہ نفع پہونچاتی ہے اور نہ ہی عطا اور منع کرتی ہے اورمخلوق سے امید کی نظرسے دست بردار ہونا، جس وقت ایک بندہ ایسا ہوگاتو وہ سوائے خدا وند متعال کیلئےعمل نہیں کرے گا اور اس علاوہ کسی اور سے امید بھی نہیں رکھے گاپس یہی حقیقت توکل ہے۔ [بحار الانوار ج 15/ 14 ب 2 فی الاخلاق چاپ قديم.]

        کاشت کار فقط اللہ کی امید پر ہی کام کرتا ہے اور صرف اللہ پر ہی توکل کرتا ہے۔

        امام صادقؑ نے  فرمایا ہے:»إِذَا غَرَستَ غَرساً أَو نَبَتاً‌ فَإقرَء عَليٰ كُلِّ عَودٍ أَو حَبَّةٍ "سَبحَانَ البَاعِثِ الوَارِثِ" فإنه لايكاد يخطي إن شاء الله تعالي« جب تم درخت یا پودہ زمین میں بونا چاہو پس ہر دفعہ یا ہر بیج کو زمین میں ڈالتے ہوئے کہو: »سَبحَانَ البَاعِثِ الوَارِثِ« خدا وند عالم پاک و منزہ ہے کہ اگانے والا اور وارث ہے، پس امید ہے کہ ان شاء اللہ تعالی اس کا یہ عمل رد نہیں ہوگا۔ [وسائل الشیعہ 13/ 197.]

        آنحضرتؑدیگر روايت میں فرماتے ہیں:»تَقُولُ إِذَا غَرَستَ أَو زَرَعتَ« جس وقت تم درخت لگانے یا زراعت کرنا کا چاہو تو ان کلمات کو زبان پر جاری کرو: »مَثَلُ كَلِمَةٍ طَيِّبَةٍ كَشَجَرَةٍ طَيِّبَةٍ أَصلُهَا ثَابِتٌ وَ فَرعُهَا فِي السَّمَاءِ تُؤتِي أُكُلَهَا كُلَّ حِينٍ بِإِذنِ رَبِّهَا«. کلمہ طیبہ؛ شجرہ طیبہ کے مثل ہے جس کی جڑزمین میں استوار ہے اور اس کی شاخیں آسمان کی طرف ہیں ہمیشہ اپنے پروردگار کے اذن سے پھل دیتا ہے۔کاشت کار کا ان کلمات کے پڑھنے سے توجہ دلاتی ہے کہ کاشت کاری کا جو محصول اٹھانا ہے وہ پروردگار کی اجازت سے ہی ہوتا ہےاور خدا سے غافل نہیں رہنا چاہئے۔

        جی ہاں!بہت سے عوامل ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ بھی دیتے ہیں تا کہ ایک درخت پھل دے یا ایک زراعت سرسبز و شاداب ہو ۔

امام صادق ؑانصار کے ایک گروہ کے پاس سے گذرے کہ امامؑ نے دیکھا کہ وہ لوگ زراعت میں مشغول ہیں تو آنحضرتؑ نے فرمایا: »إِحرِثُوا فَإِنَّ رَسُولُ ‌اللهِ ﷺ قَالَ: ينبت الله بِالرِّيحِ كَمَا ينبت بِالمَطرِ. قَالَ: فحَرِثُوا فَجَادَت زروعهُم« زراعت کرو کیونکہ رسولخداؐ نے فرمایا ہے: خداوندعالم ہوا کے ذریعہ اگاتا ہے جس طرح سے بارش کے وسیلہ سے اگاتا ہے ۔ پھر فرمایا: زراعت کرو اور ان کی زراعت بھی بہتر ہوگئی۔ [وسائل الشیعہ 13/ 196.]

        اس ترتيب سے امامؑ نے کاشت کاروں کو الہی لازوال قدرت کی طرف متوجہ کیا ہے۔

رسول اکرمؐ نے  فرمایا ہے: »أَكرِمُوا الخُبزَ فَإِنَّهٗ قَد عمل فِيهِ مَا بَينَ العَرشِ إِليٰ الأَرضِ وَ مَا فِيهَا مِن كَثِيرٍ مِن خَلقِہِ« روٹی کا اکرام کرو کیونکہ کاشت کاری کیا نتیجہ ہے، لہذا اس کا مکرم سمجھو کیونکہ عرش سے لے کرفرش یعنی آسمان و زمین تک کے عوامل اور کثیر مخلوقات الہی اس کی نشو و نما میں اثر ایجاد کرتے ہیں۔ [کافی 6/ 302.]

        امام علیؑ متوکلین اور کاشت کاروں کے سلسلہ کے سید و سردارخود اپنے ہی ہاتھوں سے زمین میں کام کیا کرتے تھے اورچند نخلستان (کھجور کے باغات) وجود میں لائے اور قناتیں کھودیں اور ایک وسیع زمین کو آباد یعنی سر سبز و شاداب کیااور زراعت کے ماتحت لائے اور ان قناتوں میں سے جن میں پانی کی فراوانی رہتی تھی ان میں سے بعض قنات سے زیادہ تر زمینوں کی سینچائی کرتے تھے انہیں فقرا و ضرورتمندوں پر وقف کرتے تھے۔  

        روايت میں وارد ہوا ہے کہ ایک روز آنحضرتؑ کو دیکھا کہ اونٹ کی ایک قطارکے ہمراہ صحرا کی طرف رواں دواں ہیں تو آنحضرتؑ سے عرض کیا گیا: »مَا هٰذَا يَا أَبَا الحَسَنِ؟ فَيَقُول نَخلٌ إِن‌ شَاءَاللهُ فَيَغرُسُهُ فَمَا يُغَادِرُ مِنهُ وَاحِدَۃٌ« [دعائم الاسلام 2/ 302.] اے ابو الحسنؑ ان اونٹوں پر کیا بار کیا ہے؟ تو آنحضرتؑ نے فرمایا: اگر خدا نے چاہا تو ان گھٹلیوں کا بوجھ مستقبل میں نخل یعنی درخت خرما بنے گا۔ پس آنحضرتؑ نے ان سبھی کھجور کے بیج کو بویا اور ان میں سے کوئی ایک بیج بھی ضائع نہیں ہوا بلکہ تمام بیج بار آور ہو کر سر سبز و شاداب خرما کے درخت بنے۔

        آنحضرتؑ نےدیگر روايت کے مطابق فرمایا ہے:»مِأَةَ أَلفٍ عذق إِن شَاءَ اللہُ« اگر خدا نے چاہاتو سو ہزار یعنی ایک لاکھ خوشہ خرماہیں ۔

        امام صادقؑ نے فرمایا: آنحضرتؑ نے انہیں بویا اور ایک بھی بیج برباد نہیں ہوا بلکہ تمام بیجوں سے ہرے بھرے درخت خرما وجود میں آئے۔ [وسائل الشیعہ 12/ 25.]

        جی ہاں! کاشت کاری میں جب اس جذبہ اور احساس کے ساتھ پودے لگائیں گے شائد ان کے بیج کے رد ہونے کا امکان بھی پایا جاتا ہے مگر خداوند عالم طبیعی عوامل کو ہماہنگی میں کارساز بناتا ہے اور اس پروردگار عالم کی اطاعت میں قرار دپاتاہے۔

        اميرالمومنین علیؑ کاشت کاری کے علاوہ بھی دیگر کار و بارزندگی مشغول رہتے تھے لہذا فراغت کے ایام میں نخلستان جاتے تھے اور وہاں پر قنات کھودنے میں مشغول ہو جاتے تھے ۔

        کہا جاتا ہے کہ امیر المومنینؑ ایک روز باغ میں وارد ہوئے تو دیکھا کہ اس کا باغبان »ابو نيزر«غذا کھانے میں مشغول ہے۔ تو آنحضرتؑ نے فرمایا:کیا تمہارے پاس کچھ غذا ہے کہ میں بھی کھاؤں؟ اس نے عرض کیا: اےاميرالمومنینؑ آپ کی شایان شان کوئی غذا نہیں ہے، میں نے بھی مزرعہ سے ایک کدو توڑا ہے اور اسے چربی سے پکا کر سرخ کیا ہے اسی کو میں کھا رہا ہوں۔ امامؑ نے فرمایا: اسی میں سے تم کچھ مجھے بھی دیدو، تو وہ غلام ایک کدو بھنا ہوا آنحضرتؑ کی خدمت لایا اور امامؑنے بھی اسے کمال رغبت کے ساتھ تناول فرمایا اور شکر خدا بجا لائے اور آنجنابؑ  اٹھے پھر اپنے ہاتھوں کو پانی اور نرم ریت یا بالو سے دھویا اور اپنے شکم مبارک پرہاتھ کو رکھا کر فرمایا: جو شکم ایک کدو سے سیر ہو جاتا ہے تو خدا کی رحمت اس سے دور رہے اس شخص سے کہ جو اسے حرام (غذا) سے سیر کرے۔پھر اس کے بعد امامؑ نے کلنگ (کدال یا بیلچہ) اٹھایا اور کنواں کھودنے میں مشغول ہو ئے کہ غلام کہتا ہے کہ ایک دفعہ میں نے دیکھا کہ  امامؑ  تکبیر کہتے ہوئے کنویں سے باہر نکلے اور قنات کا پانی جاری ہوا پھر فرمایا:»أشهد الله أنَّهَا صَدَقَۃٌ« خدا وند منان کو شاہد قرار دیتا ہوں کہ اس چشمہ کو اللہ کی راہ میں صدقہ یعنی وقف قرار دیا ہے،  امامؑ نے غلام سے فرمایا: دوات و کاغذ لاؤ۔

        غلام کہتا ہے  کہ میں دوات و کاغذ لایا اور وہیں پر  امامؑ  نے مندرجہ ذیل عبارت میں ایک وقف نامہ تحریر فرمایا: »بِسمِ ‌اللهِ الرَّحمٰنِ الرَّحِيمِ، هٰذَا مَا تصدّق بِهٖ عَبد اللهِ علي أَمِير المُؤمِنِينَ، تصدّق بالضيعتين بعَينِ أَبِي نَيزَر و البغيبِغة عَليٰ فُقَرَاء أَهل المَدِينَةِ وَ إبنِ السَّبِيلِ ليفي بِهِمَا وَجه حَرّ النَّار يَومَ القِيَامَةِ لَا تبَاعاً وَ لَاتوهباً حَتّٰي يرثهُمَا اللهُ وَ هُوَ خَيرُ الوَارِثِينَ إِلَّا أَن يَحتَاج إِلَيهِمَا الحَسَنُ وَ الحُسَينُ فہما طلق لَہُمَا وَ لَیسَ لِأَحَدٍ غَیرہُمَا« [معجم البلدان ياقوت حموي 4/ 176؛ لفظ »عَین«ـ میں ملاحظہ کیجئے: اعيان الشيعہ 1/ 434؛ مستدرک الوسائل 16/ 330.]

اس قنات اور دوسری ایک قنات نیز ۲؍ مزرعہ کے ساتھ مدینہ کے فقرا و ابن سبیل کی خاطر وقت کیا اور وقف نامہ کو خود اپنے دست مبارک سے تحریر فرمایا۔

        شائد امام ؑکے اغراض و مقاصد میں سے ایک ہدف یہی تھا کہ اس اراضی میں فقرا کی آمد و رفت ہو اور اس کی پیداوار حاصل کریں جو خود انہی سے متعلق ہو ، اس زمین کے آباد کرنے کا مشاہدہ کر یں کہ جو فقط آپ کی جد و جہد اور فعالیت سے وجود میں آنے پر درس عبرت حاصل کریں تو وہ لوگ بھی اسی طرح کے اقدامات بنجر زمینوں میں بھی کریں چنانچہ آنحضرت کے اس عمل کے بعد بہت مسلمانوں نے بھی قناتوں کے بنانے کیلئے اقدام کیا اور ایک وسیع و عریض زمینوں کو سر سبز و شاداب کیا اور بہت سے مزارع، باغات اور نخلستانوںکو ایجاد بھی کیا۔


٭     اسلام میں کاشت کاری و زراعت  کی اہمیت

 

اسلامی اقتصاد میں زیادہ توجہ زراعت و کاشت کاری پر دی ہے اور کاشت کاری کی قراردادوں کی بنیاد پراس میں بھی اسی کو اصول بنا رکھا ہے کہ کاشت کاری اور زراعت کے موضوع کو مزید توسیع پیدا ہوتی رہے ، اسی وجہ سے معاشرہ کو طبیعی منابع و معادن اور بنجر اور بے کار زمینوں کو کھیتی اور باغبانی کے لائق بنانے اور ان سے بہرہ برداری کی طرف دعوت دی گئی ہےاوردینی راہنما بھی اپنے عمل کے ساتھ لوگوں کو اس کی طرف ہدایت و تشویق فرماتے رہتے ہیں۔

        پیغمبر اکرمؐ جب بھی قوت اسلامی کوصحرا میں متمرکز کرتے تھےتو سب سے پہلے کنویں کھودنے کا دستور فرماتے تھےاور ہجرت کے پہلے سال ہی میں انہیں اس بات پر آمادہ کیا کہ کاشت کاری، باغبانی اور قنات و نہر کھودنے پر زور دیااورانہوں نے بھی جدوجہد کے ساتھ ان امورکو بطور پیشہ اختیاراوراسی کے اثرات ہی تھے کہ بہت سی بنجر ارضی کو آباد یعنی سر سبز و شاداب کیا۔

        پیغمبر اکرمؐ نے کاشت کاری اور درخت کاری کی اس قدر اہمیت دی تھی کہ اپنے پیروان کو دستور فرماتے تھے؛ یہاں تک کہ زمین نابود ہو رہی ہو اور عالم بھی منقرض ہو رہا ہو تب بھی کاشت کاری کی فعالیت ہوتی رہے کیسا کہ آنحضرت نے ایک حدیث میں فرمایا ہے: »إِنَّ قَامَتِ السَّاعَة وَ فِي يَدٍ أَحدكُم الفسيلة فَإن إِستِطَاع أَن لَاتَقُوم حَتّيٰ يَغرسهَا فَليَغرسهَا« اگرعالم ہستی منقرض ہو اور نظام شمسی درہم برہم ہو رہا ہو تم میں سے کسی کے بھی ہاتھ میں ایک درخت کا پوداموجود ہو چنانچہ تمہیں اتنی ہی فرصت ملے کہ اسے زمین میں لگا سکو یعنی عالم ہستی کا خاتمہ اور دنیا کا اختتام تمہیں اس شرافتمندانہ عمل سے باز نہ رکھے۔ [مستدرک 13/ 460 ـ درر اللئالي 1/ 30.].

امام علیؑ سبز تحریک یعنی کاشت کاری کی ترویج و توسیع میں بہت زیادہ جد و جہد اور فعالیت کرتے تھے اس کے علاوہ یہ کہ خود ہی آنحضرت ایک نمونہ عمل کاشت کار بھی تھے، اپنی خلافت و حکومت کے پروگرام میں کاشت کاری اولویت میں قرار رکھتی تھی اور اپنے ہی گورنروں اور والیوں کو دستور دیا تھا کہ کاشت کاروں اور خراج گزاروں سے ہمیشہ باخبر رہیں۔

         آنحضرتؑ نے اپنے ایک مکتوب میں مالک اشتر کو خطاب کرتے ہوئے تحریر فرمایا ہے :»و ليكن نظرك في عمارة الأرض ابلغ من نظرك في إستجلاب الخراج  لأن ذلك لايدرك إلا بالعمارة و من طلب الخراج بغير عمارة أخرب البلاد و أهلك العباد و لم‌يستقيم أمره إلا قليلاً فإن شكوا ثقلاً أو علة أو إنقطاع شرب أو بالة أو إحالة أرض إعتمرها غرق أو أجحف بها عطش خففت عنهم بما ترجوان يصلح به أمرهم«تمہاری خراج (لگان) کے جمع کرنے سے بھی بہت زیادہ سعی و کوشش زمین کے آباد یعنی سبز تحریک کی ترقی میں ہونا چاہئے ، کیونکہ خراج (لگان) سوائے آباد کرنے کے ساتھ حاصل نہیں ہوتا اور جو شخص بھی خراج (لگان) بغیر آبادی و عُمران کے طلب کرنا چاہتا ہے وہ شہروں کو اجاڑنے اوربندگان خدا کو نیست و نابود کرتا ہے اور اس کی حکومت کم مدت سے زیادہ دوام حاصل نہیں کر سکتی ہےاگر کاشت کاروں سے بھاری لگان  یا آفات کے آنے یا نہر کے خشک ہونے یا بارش کی کمی یا پانی کے اثر میں زمین تبدیل ہو جانے اوربیج کے خراب ہونے یا زراعت کیلئے سینچائی کی شدید قلت ہونے اور زراعت کی فصل کے برباد ہونے کی تمہارے پاس شکایت لائیں تو ان کے خراج یعنی لگان کو اس مقدار میں معین کرو جس سے ان کے حالات بہبود پا سکیں تب تخفیف قرار دو اور یہ تخفیف تم پر گران نہیں گذرنا چاہئے کیونکہ یہی تخفیف ایک ذخیرہ اور خزانہ ہے کہ بالآخر وہ لوگ تمہارے ملک کی بستی کو آباد کرنے میں کارآمد ہوتی ہے اور تمہاری ہی سر زمینوں کو سر سبز و شاداب کتنے کا موجب اور تمہاری حکومت و ریاست کی زینت ہو گی۔  [نہج البلاغہ، نامہ نمبر: 53.]

        جی ہاں!اسلام ایک پروگرام کو زمین اوراسے پانی سے سینچائی کیلئے تمام ہی زمنیوں کو سر سبز و شاداب ہونے کا موجب قرار دیا ہے اور تمام ہی لوگ خداوند عالم کے گستردہ دستر خوان جو روی زمین پر پھیلا ہوا ہے اس سے بہرہ مند ہوتے رہیں اور معاشرہ میں کوئی ایک بھی فرد فقیر اور بھوکا باقی نہ رہے، کیونکہ پانی اور خاک کے ہونے کے باوجود کوئی کوئی مطلب نہیں رکھتا کہ کوئی انسان بھوکا رہے۔  

        امير المؤمنین علیؑ ہمیشہ فرمایا کرتے تھے: مَن وَجَدَ مَاءً وَ تُرَاباً ثُمَّ إفتَقَرَ فَأَبعَدَهُ اللہُ جو شخص بھی پانی اور مٹی اختیار میں رکھے اور اپنی طاقت و قوت کو ان سے فائدہ اٹھانے کیلئے کام میں نہ کائے اور اپنی زندگانی کو فقیری اور گدائی میں گذارتا ہے پس اس پر اللہ کی لعنت و نفرین ہے۔ [قرب الاسناد، ص  55 و (ط ۔ الحدیثۃ) متن، ص 115؛  ـ وسائل الشیعہ 12/ 24؛ بحار الانوار 103/ 65، ح 10.]

        جی ہاں!اسلام کاشت کاری کومقدس ترین مشغلوں میں شمار کرتا ہے اور کاشت کار کو انسانوں میں شریف ترین اور اس کی آمدنی کوبہترین مال سمجھتا ہے مگر اس شرط کے ساتھ کے فصل کا محصول ہاتھ میں آنے کے وقت ایک حق جسے اللہ نے قرار دیا ہے اسے بھی ادا کرے۔

        از امام علیؑ سےنقل شدہ ایک روایت میں فرمایا ہے:»قِیلَ يَا رَسُولَ‌اللهِ! أَيُّ المَالِ خَيرٌ؟ قَالَ: زَرَعٌ زَرَعَهُ صَاحِبُهُ وَ أَصلَحَهُ أَدَّيٰ حَقَّهُ يَومَ حِصَادِہِ .....« رسولخداؐسے  سوال ہوا : بہترین مال کونسا ہے؟ آنحضرت نے فرمایا:وہ زراعت کہ جسے اس کا ملک کاشت کرے اور فعالیت و خدمت کے اثر سے پھل کی منزل میں پہونچے اور محصول کو اٹھاتے وقت جو اللہ نے حق اس میں قرار دیا ہے اسے ادا بھی کرے اور اپنے امور میں حلال و حرام کی رعایت بھی کرتا ہواور اس کی مخالفت اور حرام میں ہاتھ ملوث نہ رہے۔ [مدرک قبل.]

        افسوسناک پہلو بھی یہ ہے کہ شیطان کاشت کاروں کے پیچھے بھی لگ جاتا ہے اوران لوگوں کو بھی ان کے حال پر چھوڑتا نہیں ہے، لہذا بہت سے کاشت کاروں کو ہم دیکھتے ہیں اس مشغلہ کے تقدس کو پامال و بے حرمتی کرتے ہیں اور احکام خداوندی کے خلاف کاموں کو انجام دیتے ہیں کہ بازارکے لوگوں کے ہاتھوں کو پس پشت باندھ دیتے ہیںاور جس وقت اپنی فصل کے محصولات کو بازار میں پیش کرتے ہیں تو تقلب و دھوکہ دھڑی اور جعلسازی سے کام لیتے ہیںاپنے غلہ میں مٹی و خاک کی ملاوٹ کرتے ہیں، پھلوں کو اوپر سے لے کر نیچے تک چن لیتے ہیں اور خراب و غیر مرغوب مال کو بہتر و مرغوب مال کے ساتھ ملا دیتے ہیںاورجب قیمت وصول کرنا ہوتا ہے تو بہتر مال کی قیمت پر بیچتے ہیں اور دیگر دسیوں ملاوٹیں اور چالبازیاں کرتے رہتے ہیں۔

        قدیم و سابق زمانہ میں کاشت کاروں اور دہقانوں پر اطمینان کریا جاتا تھا لیکن فی الحال موجودہ دور میں بازار کے افرادیہی کہتے ہیں کہ اکثر ہماری عزت و حرمت کو انہیں زراعت پیشہ افراد نے ہی پامال کیا ہے ، البتہ اس طرح کے شریعت کے خلاف کاموں نے زراعت سے برکت کو ختم کر دیا ہےجس کی بنا پر زراعت میں سوائے زحمت و مشقت کے کچھ بھی باقی نہیں رہا ہے۔

        اگرکاشت کار کی روحانیت و نفسیات ایسی ہی رہے گی تو پھر وہ انسانوں میں بہترین فرد نہیں ہے اور اس کی آمدنی بھی بہترین درآمد نہیں ہے بلکہ وہ تو اس روایت کے مصداق قرار پائے گا جو پیغمبر اسلام نے منقول ہے: »شِرَارُ النَّاسِ اَلزَّارِعُونَ وَ التُّجَّارُ إِلَّا مَن شَحَّ مِنهُم عَلي دِينِہِ« لوگوں میں بدترین افرادکاشت کاری کرنے والے اور تاجران ہیں سوائے اس شخص کے جو اپنے دین کی بنسبت بخیل نہ ہو اور اپنے دین کو بھی نہ فروخت کرے۔ [مستدرک الوسائل 13/ 473.]

        پس اسلام میں اسی طرح کا اقتصادی نظام ہے کہ جو تمام میدان میں روحانی اصول، اخلاقی ہماہنگی، معاشرتی منافع، انسانیت کے عالی مراتب کے اہداف کے شانہ بشانہ پایا جاتا ہے۔

         اسی لئے اسلام کو دین فطرت بھی کہا جاتا ہے۔



DEDICATED TO SHAHE KHORASSAN IMAM ALI IBNE MUSA REZA AS

Post a Comment

To be published, comments must be reviewed by the administrator *

جدید تر اس سے پرانی