بیعت کیا ہے.؟


via pinterest





 آپ «بیعت» کے سلسلہ میں کتنا علم رکھتے ہیں.!؟؟

کیا آپ «بیعت» کے بارے میں کچھ معلومات رکھتے ہیں.!؟؟

«بـــــیـــــعـــــت» کـــــیـــــا ہـــــے.!؟؟


ترجمہ : ابو دانيال اعظمی بریر


فهرست مندرجات


۱. لغت ميں لفظ «بیعت» کا معنی

٢. «بیعت» کا اجمالی تعارف

٣. «بیعت» کے اقسام

۴. اسلام کے بعد «بیعتوں» کی اہمیت

۵. بنی امیہ و بنی عباس کے زمانہ میں «بیعت»

۶. «بیعت» کے ذریعہ شرعی حیثیت کا حصول

٧. «بیعت» کے بارے میں اہلسنت کا نظریہ

٨. «بیعت» کے سلسلہ میں شیعہ نقطہ نظر

٩. «بیعت» کے احکام

۱۰. كتب مصادر و منابع اور مآخذ


لغت میں لفظ «بیعت» کا معنی


لغت میں «بیعت» کے معنی فرمانبرداری پر عہد و پیمان باندھنا اور اپنے امور کو سپرد کرنا ہے.

فقہی کتابوں میں «بیعت» کی بحث کے سلسلہ میں قابل ملاحظہ توجہ نہیں کی گئی ہے، بعض نے تو باب جہاد میں ہی «بیعت» کا تذکرہ کیا گیا ہے. 


«بیعت» کا اجمال تعارف


لغت میں لفظ «بیعت» کے معنی بیعت کرنے والا بیعت لینے والے (امامؑ یا حاکم یا امیر) کی اطاعت و فرمان برداری پر یہ عہد و پیمان کرتا ہے کہ  اپنے تمام امور اس کے ہی سپرد و حوالہ کر دیا ہے اور اسی کا پابند بھی رہے گا. [دهخدا، علی‌ اکبر، لغت‌ نامه.]

تمدن اسلامی میں رائج طریقہ کار یہی ہے کہ لوگ حاکموں کے ساتھ عہد و پیمان باندھنے کیلئے وفاداری کی بنیاد پر اپنا سر تسلیم خم کرتے ہیں. 

پیغمبر اسلامؐ اور خلفا کے زمانہ میں اکثر بیعتیں حاکم کے ہاتھ میں ہاتھ دینے کی صورت میں «بیعت» لی جاتی رہی ہے. البتہ حاضر ہو کر ہاتھ دیئے بغیر بھی «بیعت» ہو جایا کرتی تھی. [ابن‌ سعد، محمد، الطبقات الکبری، ۸/ ۵ بب‌، بیروت، دار صادر.]

حاضر ہوئے بغیر بھی حاکم کے نمائندہ کے ساتھ یا خط بھیج کر بھی «بیعت» نافذ ہوتی رہتی تھی. [ابن‌ عبد البر، یوسف، التمهید، ۱۶/ ۳۴۷، به کوشش مصطفیٰ بن‌ احمد علوی و محمد عبد الکبیر بکری، رباط،  ۱۳۸۷ ق.

یہی طریقہ کار تاریخ اسلام میں صدیوں تک مسلسل عام لوگوں کی جانب سے حکمران کی حاکمیت کے اعمال کی مشروعیت بخشنے کی خاطر بہت ضروری سمجھتے تھے. لہذا اس سلسلہ میں شرائط و لوازمات بھی پہلی صدی سے متکلمین کی طرف سے مسلسل اور اس کے بعد فقہ اسلامی میں بھی بحث و مباحثہ ہوا ہے.

اسلام سے قبل عرب میں کسی بھی فرد کی حاکمیت کی قبولیت اور اس کی فرمان برداری کے عہد و پیمان کا وسیلہ و ذریعہ «بیعت» ہی ہوا کرتی تھی. [طبری، محمد بن جریر، تاریخ، ۱/ ۵۰۶، بیروت،  ۱۴۰۷ ق.]

اسلام آنے کے ساتھ ہی اس «بیعت» کا یہی طریقہ کار قبل اسلام کی روش پر رائج و شائع اور برقرار رہا اور جو لوگ مسلمان ہوتے تھے وہ اسلام کے قبول کرنے کے بعد محرمات سے دوری اختیار کرتے تھے. [ابن‌ منده، محمد، الایمان، ۲/ ۵۷۸، به کوشش علی محمد ناصر فقیهی، بیروت، ۱۴۰۶ق.]

(اور کبھی کبھی «بیعت رضوان» کے موقع پر بھی) وفا داری اور جہاد کی سختیوں کے وقت پیغمبر اسلامؐ کی «بیعت» کر کے ساتھ دیتے رہیں گے. 

قرآن کریم میں مسلمانوں کا پیغمبر اسلام کے ساتھ «بیعت» کر کے جنگ واقع ہونے سے پہلے مومنین کیلئے اطمینان اور کامیابی کا سبب قرار دیا ہے. [الفتح سوره ۴۸، آیه ۱۰.]


«بیعت» کے اقسام


اس کے موقع و محل کے اعتبار سے «بیعت» کبھی عام ہوتی ہے اور کبھی خاص بھی ہوتی ہے. 


۱. «بَیعَتِ عَام»:


«بیعت عام» اس بیعت کو کہا جاتا ہے جس میں مطلقا اطاعت پر ہر ایک مرحلہ پر اور تمام ہی اوامر و نواہی میں عہد و پیمان کیا جاتا ہے. لہذا اس قسم کی «بیعت» فقط امام معصومؑ کے ساتھ ہی شرعی حیثیت رکھتی ہے. 


۲. «بَیعَتِ خَاص»:


اس قسم کی «بیعت» جنگ کرنے کے موقع پر سپہ سالار اعظم کے ہاتھ پر اور دشمن کے مقابلہ میں ڈٹے رہنے اور محاذ جنگ سے فرار نہ کرنے کی خاطر ہوا کرتی ہے. 


پیغمبر اسلامؐ کے اعلان نبوت کے بعد اہمترین «بیعتیں»


اسلام کے ظہور کے بعد سب سے پہلی «بیعت» کو «بیعت عشیره» کے نام سے پکارا جاتا ہے کہ جو بعثت کے تیسرے سال میں لی گئی تھی، پیغمبر اسلامؐ نے اپنے رشتہ داروں میں سے تقریباً 40 افراد کو «دعوت ذو العشیره» پر مدعو کیا تھا اور ان سے «بیعت» کا مطالبہ بھی کیا تھا. [طبری، محمد بن جریر، تاریخ، ۱/ ۵۴۲ و ۵۴۳، بیروت،  ۱۴۰۷ ق.]

صدر اسلام کی اہمترین بیعتوں میں سے «بیعت عقبہ اولی» اور مکہ میں مدینہ کے لوگوں سے «بیعت عقبہ ثانیہ» اور «بیعت رضوان یا بیعت شجره یا بیعت حدیبیہ» جیسی بیعتیں لی گئی تھیں. [طبری، محمد بن جریر، تاریخ، ۱/ ۵۶۲، بیروت، ۱۴۰۷ ق.؛ طبری، محمد بن جریر، تاریخ، ۲/ ۱۲۱ - ۱۲۲، بیروت، ۱۴۰۷ ق.]

ابو بکر کی خلافت کا انتخاب بھی اسی قدیم طریقہ عمل کی صورت میں ہی «بیعت» کے ذریعہ ہوا تھا. [ابن قتيبة، عبد الله، الإمامة والسياسة، ۱/ ۲۴ بب‌، منسوب به ابن قتیبه، بکوشش علی شیری، بیروت، ۱۹۹۰ م.

مگر مہاجرین و انصار کے  ایک گروہ نے ان کی «بیعت» کرنے سے صاف انکار کر دیا یہی کہا کہ وہ حضرت علیؑ کے سوا کسی کی بھی «بیعت» پر ہرگز راضی نہیں ہیں.

مزید یہ کہ بہت سے صحابہ اور قبائل بھی زندگی کے آخری دم تک خلیفہ وقت کی ہرگز «بیعت» نہیں کی یہاں تک کہ اس دنیا سے چند صحابہ کوچ کر گئے.

(اس سلسلہ میں ہم ایک الگ مضمون میں نام بنام جن لوگوں نے ابو بکر کی بیعت نہیں کی ہے ان کے احوال مستبقل قریب میں تحریر کریں گے.) ان شاء اللہ المستعان العلی العظیم 

تاریخی کتابوں میں یہ حکایت نقل کی گئی ہے کہ «بیعت» لینے کی خاطر بعض مخالفین کیلئے قوت و طاقت کا استعمال بھی کیا گیا ہے. [إبن قتیبه، عبد الله، الإمامة و السیاسة، ۱/ ۳۰ - ۳۱، منسوب بإبن قتیبه، بکوشش علی شیری، بیروت، ۱۹۹۰ م؛ طبری، محمد بن جریر، تاریخ، ۲/ ۲۳۳، بیروت، ۱۴۰۷ ق.]

بلکہ عہدہ کا بھی لالچ دیا گیا ہے پھر بھی «بیعت» نہیں کی تو پابندی اور نظر بند کیا  گیا ہے یہاں تک کہ قتل بھی کیا گیا ہے جو کتب شیعہ سنی بھی درج بھی ہے. 

ابو بکر کی موت سے پہلے ایک تحریر یا وصیت نامہ موجب ہوا جسے ابو بکر نے عمر کو املا کرایا تھا اسی نامزد تحریر کے ذریعہ ہی عمر خلافت تک پہونچے اور بعد کے زمانوں میں تمام ہی لوگوں نے ان کی خلافت کی قبولیت کو ایک طرح سے خلیفہ اول کی تجویز پر رضامندی سمجھا جانے لگا اور اس انتخاب کے طریقہ کار کو «استخلاف» یعنی "خلیفہ بنانا" یا "طلب خلیفہ" کے نام سے لوگ جاننے لگے. [خالدی، محمود، البیعة فی الفکر السیاسی الإسلامی، ۱/ ۱۵۷، عمان، ۱۴۰۵ ق / ۱۹۸۵ م.]

عمر نے اپنے بعد کے خلیفہ کے تعین کی خاطر 6 افراد پر مشتمل ایک شوریٰ یعنی کمیٹی کے سپرد کر دیا تا کہ ممبران میں سے ہی کسی ایک کو خلیفہ کی حیثیت سے منتخب کر سکیں. [طبری، محمد بن جریر، تاریخ، ۲/ ۵۴۸ بب‌، بیروت، ۱۴۰۷ ق.]

ان تمام ہی «بیعتوں» کی خاصیت یہ تھی کہ یہ سماج و معاشرہ کے سربرآوردہ اور سرداروں کی جانب سے ایک فرد کو پیغمبر اکرمؐ کے خلیفہ کی حیثیت سے (اور اسلامی حاکم منتخب ہوتا ہے تو بعد کے مرحلہ میں اہل مدینہ "اسلامی دنیا کا مرکز ہوا ہے.") اس کی «بیعت» کرتے تھے اور اسی وقت دیگر مناطق و خطے کے لوگ بھی اپنا سر تسلیم خم کر دیتے تھے یعنی بغیر کسی اعتراض اور) چون و چرا کے اس خلیفہ کی «بیعت» و حاکمیت کو تسلیم کر لیتے تھے. 

پہلی دو خلافت کی خاص بات یہی ہے کہ اس کی «بیعت» میں صرف مدینہ والے ہی شامل ہوتے تھے اور دیگر علاقے کے لوگ شمولیت سے محروم رہتے تھے مگر بہر حال تسلیم بھی کر لیتے تھے اور کوئی مخالفت بھی نہیں کرتا تھا. مؑ مؐ

سنہ 35 ہجری بمطابق سنہ 655 عیسوی میں عثمان کے قتل کے بعد عام مسلمان حضرت علیؑ کے گھر کی طرف جوق در جوق پہونچنے لگے اور آنحضرتؑ کے ہاتھ پر «بیعت» کرنے کا مطالبہ کیا تو حضرت علیؑ نے ان لوگوں کے اصرار پر یہی مطالبہ اور تاکید فرمائی کہ لوگ علی الاعلان اور لوگوں کی دلی رضامندی سے (بغیر جبر و اکراه کے) سب ہی لوگ مسجد میں حاضر ہو کر آنحضرتؑ کی «بیعت» کریں. [طبری، محمد بن جریر، تاریخ، ۲/ ۶۹۶، بیروت، ۱۴۰۷ ق.]   

حضرت علیؑ کے انتخاب میں یہی تو خاصیت پائی جاتی ہے کہ آنحضرتؑ کی خلافت میں اہل مدینہ کے علاوہ دیگر شہروں کے لوگ  جیسے مصر اور عراق کے لوگ بھی «بیعت عام یا بیعت عمومی» میں بنفس نفیس حاضر ہوئے تھے. [طبری، محمد بن جریر، تاریخ، ۲/ ۷۰۰ - ۷۰۱، بیروت، ۱۴۰۷ ق.]

حضرت علیؑ نے اپنے ہی کلام میں مختلف مقامات پر اس سلسلہ میں فرمایا ہے اور معاویہ کے نام خط میں بھی «بیعت» کو مہاجرین و انصار کے حق کے طور پر ذکر کرتے ہیں اور کرتے ہوئے تحریر فرمایا ہے: "لوگوں کے درمیان ان کی «بیعت» اسی طرح سے قابل قبول ہوئی ہے کہ جس کے انجام پذیر ہونے بعد نہ حاضرین ہی نظر ثانی کا حق رکھتے ہیں اور نہ ہی غائبین اس کی تردید کا حق استعمال کر سکتے ہیں." [طبری، محمد بن جریر، تاریخ، ۳/ ۷۰، بیروت، ۱۴۰۷ ق؛ امام علیؑ، نهج‌ البلاغه، مكتوب نمبر ۶.]

نوٹ: جب شوریٰ میں حضرت علیؑ کے سامنے بیعت کی 3 شرطیں رکھی گئی. 

١. کتاب اللہ

٢. رسول اسلامؐ کی سنت

٣. سیرت شیخَین (یعنی ابو بکر و عمر) پر عمل کرنا ہے

پس آنحضرتؑ نے پہلی دو شرطوں کو قبول کر کیا مگر تیسری کیلئے حضرت علیؑ فرمایا کہ اگر سیرت شیخین "کتاب خدا اور سنت رسول اسلامؐ" کے مطابق ہو گی تو عمل کروں گا. اگر کتاب خدا اور سنت رسول اسلامؐ کے خلاف ہو گی تو ہرگز عمل نہیں کروں. اسی اقرار کو 3 مرتبہ امام علیؑ نے تکرار کیا بالآخر خلافت کو چھوڑ دیا کہ تیسری شرط آنحضرتؑ کیلئے نا قابل برداشت تھی جبکہ عثمان نے 3 بار اقرار کرنے کے باوجود عمل نہیں کیا نتیجہ میں شوریٰ کے سربراہ عبد الرحمن بن عوف عثمان کی خلافت کے دور میں ہی ان کی مخالفت پر کمر بستہ ہو گئے تھے اور آخری سانس تک مخالف رہے.

(مضمون: حضرت علیؑ کی نظر میں تین خلافت کی شرعی حیثیت پر ہمارا ایک مضمون اسی ویب سائٹ پر ان شاء اللہ العلی العظیم عنقریب شائع کریں گے.)


سلطنت بنی امیہ اور بنی عباس کے زمانے میں «بیعت»


بني اميہ اور بنی عباس کے دور حکومت و سلطنت میں لوگوں سے «بیعت» لینے پر یہاں تک کہ لوگوں کو ڈرانا و دھمکانا اور طمع و لالچ کا بھی عام رواج ہو گیا تھا. [ابو نعیم اصفهانی، احمد، حلیة الاولیاء، ۲/ ۱۷۰ - ۱۷۱، بیروت، ۱۳۸۷ ق / ۱۹۶۷ م.]

کبھی کبھی تو کسی ایک مسجد کو سپاہی یا فوجی کا ایک دستہ اپنے محاصرہ میں لے لیتے تھے اور لوگوں کو «بیعت» کرنے پر مجبور کیا کرتے تھے. [ابو نعیم اصفهانی، احمد، حلیة الاولیاء، ۷/ ۴۲، بیروت، ۱۳۸۷ق / ۱۹۶۷ م.]

سب سے پہلی بار حجاج‌ بن‌ یوسف ثقفی نے صرف ہاتھ میں ہاتھ دینے کو «بیعت» کیلئے کافی نہیں سمجھا بلکہ «بیعت» کرنے والے کو مخصوص طریقہ سے قسم کھانے کا بھی مطالبہ کیا ہے. [ذهبی، محمد، سیر اعلام النبلاء، ۵/ ۴۵، بکوشش شعیب ارنؤوط و دیگران، بیروت، ۱۴۰۱ ق / ۱۹۸۱ م.؛ بهوتی، منصور، کشف القناع، ۶/ ۲۴۱، بکوشش هلال مصیلحی، بیروت، ۱۴۰۲ ق.] یہ بات طبعی و فطری ہے کہ اس دوران خاص طبقہ کے افراد جو صاحب نفوذ ہوتے تھے حاکم کے ساتھ «بیعت» کیلئے دباؤ کے تحت قرار دیتے تھے.

کبھی کبھار تو بعض قبائل کے سرداروں کو اپنی «بیعت» کی خاطر نئے حاکم کی «بیعتِ عام» کے ساتھ مشروط کیا کرتے تھے. [ذهبی، محمد، سیر اعلام النبلاء، ۴/ ۲۲۹، بکوشش شعیب ارنؤوط و دیگران، بیروت، ۱۴۰۱ ق / ۱۹۸۱ م.]

تو کبھی کبھی اس طرف بھی کوئی شخص قوت و طاقت کی طلب میں ہوتا ریتا تو لوگوں کو وعدوں کے پورے کرنے کے ساتھ ہی «بیعت» کا طالب ہوا کرتا تھا. [بغدادی، عبد القاهر، الفرق بین الفرق، ۱/ ۳۱، بیروت، ۱۹۷۷ م.]

ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ اس زمانہ میں عموم کی نگاہ میں «بیعت» توڑنا اس قدر قبیح عمل شمار ہوتا تھا یہاں تک کہ اگر جبر و اکراہ کے ساتھ بھی «بیعت» کرنے پر سر تسلیم خم کر دیا کرتے تھے تب بھی حکام وقت کیلئے لازمی طور پر ان لوگوں کی اطاعت و فرمان برداری کی قبولیت میں اطمینان خاطر حاصل ہو جایا کرتا تھا. یہ بھی نظر آتا تھا كہ جس وقت بھی ان کی نگاہ میں کوئی حاکم «عمومی بیعت» حاصل کر لیتا تھا تو اس کی حمایت کو شرعی حیثیت حاصل ہو جایا کرتی تھی. 

بنی امیہ اور بنی عباس کی سلطنت و حکومت کے زمانے میں بر سر اقتدار حکام خود ہی اپنی زندگی میں ہی اپنے جانشین کے واسطہ بھی «بیعت» لیتے رہتے تھے. [ابن‌ عماد، عبد الحیی، شذرات‌ الذهب، ۱/ ۲۳۰، بیروت، دار الکتب العلمیه؛ ابن‌ عماد، عبد الحییٰ، شذرات‌ الذهب، ۲/ ۵۲، بیروت، دار الکتب العلمیه.]

مختلف شہروں کے لوگوں یا عوام سے گورنروں یا امراء کے توسط سے «بیعت» لیا کرتے تھے. [ذهبی محمد، سیر اعلام النبلاء، ۴/ ۲۳۰، بکوشش شعیب ارنؤوط و دیگران، بیروت، ۱۴۰۱ ق / ۱۹۸۱ م.]


«بیعت» کے ذریعہ شرعی حیثیت کا حصول


قدیم ترین کتابوں میں مسلمانوں کا «بیعت» کے بارے میں بحث و مباحثہ کے نظریہ پر اہتمام کرنا بھی حکایت کرتی ہوئی نظر آتی ہے، یہ اس بات کی نشاندہی کر رہی ہے کہ دوسری صدی ہجری میں «بیعت» ہی حکومتوں کے حصول کی مشروعیت کا ایک راستہ خیال کیا جاتا تھا، پھر کلامی محافل میں ایک موضوع بن گیا اور بالآخر مسلمانوں کے درمیان اختلاف کا منشا و منبع بھی قرار پایا ہے. [شهرستانی، محمد، الملل و النحل، ۱/ ۷۱ - ۷۲، بکوشش محمد سید کیلانی، بیروت، ۱۴۰۴ ق؛ بغدادی، عبد القاهر، الفرق بین الفرق، ۱/ ۲۳، بیروت، ۱۹۷۷ م؛ ابو عمرو دانی، عثمان، السنن ‌الواردة فی الفتن، ۱/ ۱۰۶۲، ریاض، ۱۴۱۶ ق.]

اسی طرح دوسرے بعض کلامی مباحث میں شائد پہلی بار ہی «بیعت» کے طریقۂ کار اور ان کے شرائط کے بارے مسلمان مفکرین نے تذکرہ کیا ہے، یہی وہ زمانہ تھا کہ بنی امیہ کی حکومتوں کے ظلم و ستم کے عروج پر پہونچنے کے ساتھ ہی مسلمانوں کے درمیان اپنے عہد و پیمان جو انہوں نے حکمرانوں سے کر رکھا تھا اس کے لازمی و ضروری ہونے میں شک و تردید کے شکار ہو گئے.

تو دوسری طرف اس شخص

 کے ساتھ «بیعت» کے سلسلہ میں بھی غور و فکر کر رہے تھے جس نے بنی امیہ کے خلاف جنگ کی خاطر پرچم بلند کر رکھا تھا. 

بعض کلامی آثار سے یہی حاصل ہوتا ہے کہ اس بحث کا رد عمل یا عکس العمل بھی رونما ہوا ہے. [غزالی، محمد، قواعد المقائد، ۱/ ۲۳۰، بکوشش موسی بن‌ نصر، بیروت، ۱۹۸۵ م؛ عضد الدین ایجی، عبد الرحمن، المواقف، ۳/ ۵۹۰ بب‌، بکوشش عبد الرحمن عمیره، بیروت، ۱۹۹۷ م.]


«بیعت» کے بارے میں اہلسنت نظریہ 


بعد کی صدیوں میں «بیعت» کی بحث کے اثرات اہلسنت کی فقہی کتابوں میں بھی داخل ہو جاتے ہیں اور خاص طور پر قضاء اور جہاد وغيره كے ابواب میں اسے ذکر کیا جاتا ہے. [نووی، یحیی، روضة الطالبین، ۷/ ۲۶۳، به کوشش عادل احمد عبد الموجود و علی محمد معوض، بیروت، دار الکتب العلمیه.]

کبھی کبھی ایک مستقل باب کی صورت میں بھی تحریر کیا جاتا رہا ہے. [ابن‌ مفلح، ابراهیم، المبدع، ۱۰/ ۱۰ بب‌، بیروت، ۱۴۰۰ ق.]

فقہاء کی توجہ کو «بیعت» کے سلسلہ میں کچھ رقم طرازی پر تحریک دیا لہذا پانچویں صدی ہجری کی کتابوں میں «احکام السلطانیہ» کے عنوان سے تحریر کیا ہے، ہمیشہ سب سے پہلی ہی بحث حاکم کے ساتھ «بیعت» کا مسئلہ نیز اس کے صحیح ہونے کے شرائط اور عہد و پیمان اس کے در پیش ہو کرتے تھے. [ماوردی، علی، احکام السلطانیه، ۱/ ۴۹، بب‌، به کوشش محمد جاسم حدیثی، بغداد، ۱۴۲۲ ق / ۲۰۰۱ م؛ ابو یعلی، محمد، الاحکام‌ السلطانیه، ۱/ ۱۹ بب‌، به کوشش محمد حامد فقی، قاهره، ۱۳۸۶ ق / ۱۹۶۶ م.]

شرائط میں بطور مثال کے ہم ابو یعلی کے نظریہ کا تذکرہ کر سکتے ہیں، انہوں نے ہی حاکم کے دینی و سیاسی 10 امور کی شکل میں وظایف کو شمار کیا ہے اور کہا جاتا ہے کہ جب انہی وظائف کی بنیاد پر قیام کیا کریں گے تو امت مکلف ہو جائے گی کہ اس کی مدد و نصرت کرنے میں کسی بھی طرح کی فرو گذاری نہ کرے. [ابو یعلی، محمد، الاحکام‌ السلطانیه، ۱/ ۲۷-۲۸، بکوشش محمد حامد فقی، قاهره، ۱۳۸۶ق/۱۹۶۶م؛]

یہ بھی قابل ذکر ہے کہ اہلسنت نے «بیعت» کے بارے میں مفصل بحثوں کو فقہی اور کلامی ابواب وغیرہ میں جگہ جگہ دیر سے ہی صحیح اس موضوع پر مستقل کتابیں نگارش کی ہیں جو اس موضوع میں رائج و شائع رہا ہے. [ابن‌ ندیم، محمد، الفهرست، ۱/ ۱۴۰؛ ذهبی، محمد، سیر اعلام النبلاء، ۹/ ۲۲۵، به کوشش شعیب ارنؤوط و دیگران، بیروت، ۱۴۰۱ ق / ۱۹۸۱ م؛ حاجی خلیفه، مصطفی، کشف الظنون، ۱/ ۸۵۱؛ صدیق‌ حسن‌ خان، محمد صدیق، ابجد العلوم، ۳/ ۷۲۳، بکوشش عبد الجبار زکار، بیروت، ۱۹۷۸ م.]

معاصر دانشوروں کی کتابوں کی مثالیں یہ ہیں. [البیعة و الخلافة فی ‌الاسلام، رباط، ۱۴۱۵ ق / ۱۹۹۴ م؛ عبد المجید، احمد، البیعة عند مفکری اهل السنة، قاهره، ۱۹۹۸ م.]


«بیعت» کے سلسلہ میں شیعه نقطۂ نظر


شیعوں کا یہی نظریہ ہے کہ حاکم کا انتخاب صرف اللہ کی جانب سے ہی سمجھتے ہیں «بیعت» کے طریقہ کار پر سر تسلیم کر دینے کو مشروع شمار نہیں کرتے. [طوسی، محمد، الاقتصاد، ۱/ ۲۰۹ - ۲۱۰، بکوشش حسن سعید، تهران، ۱۴۰۰ق؛    علامه حلی، حسن، تذکرة الفقهاء، ۱/ ۴۵۳، قم، مکتبۀ مرتضویه.]  

اسی درمیان ابن بابویہ کے نظریہ کو مستثنی قرار دینا چاہیے کہ تعلیل کے مقام کہا ہے کہ امام زمانہ اسی وجہ سے پردہ غیبت میں بسر کر رہے ہیں کہ ظالم و جابر حکام کی «بیعت» کو اپنی گردن میں نہ رکھتے ہوں اور اپنے قیام کے ساتھ «بیعت» نہ توڑیں. [ابن‌ بابویه، محمد، کمال‌ الدین، ۱/ ۴۴، به کوشش علی‌ اکبر غفاری، قم، ۱۴۰۵ ق.

گویا کہ ان کی نگاہ میں حکام کے ساتھ «بیعت» پر ہر حال میں وفاداری کو واجب  قرار دیا ہے. [کلینی، محمد، الکافی، ۱/ ۳۴۲، بکوشش علی‌ اکبر غفاری، تهران، ۱۳۷۷ ق.]

گذشته صدیوں کے ادورا میں کبھی بھی شیعوں نے پہلی صدی ہجری میں حکومت ہاتھوں میں حاصل نہیں کر سکے ہیں اسی بنا پر صرف جزوی طور پر مختصر اور سرسری انداز میں اس سلسلہ میں اہلسنت کے ساتھ علم کلام میں مجالہ کے مقام پر اپنی کتابوں مین تذکرہ کیا ہے. [سید مرتضی، علی، رسائل، ۳/ ۲۴۵ - ۲۴۶، بکوشش احمد حسینی، قم، ۱۴۰۵ ق؛ بحرانی، یوسف، الحدائق الناضرة، ۵/ ۱۸۰، قم، ۱۳۶۳ ش.]

یا پھر بعض فقہی بحثوں کے دوران بعض مقامات پر «بیعت» کا تذکرہ ملتا ہے. [علامه حلی، حسن، تذکرة الفقهاء، ۱/ ۴۱۰، قم، مکتبۀ مرتضویه؛ علامه حلی، حسن، تذکرة الفقهاء، ۱/ ۴۵۳، قم، مکتبۀ مرتضویه؛ شهید اول، محمد، الدروس، ۲/ ۱۶۲، قم، ۱۴۱۴ ق.

اسی لئے علماء و فقہاء نے اپنی کتابوں میں «بیعت» اور اس کے احکام کے بارے میں گفتگو نہیں کی ہے لیکن اخیر کی صدی میں بعض اہلسنت مفکرین نے «بیعت» کو حکومت کی شرعی حیثیت کی خاطر صرف از راہ سماجی و معاشرتی معاہدہ کے نظریہ کی صورت میں قرار دیا ہے کہ یہ نظریہ مغربی مفکرین نے بھی تجویز کرتے ہوئے تفسیر کیا ہے. [زحیلی وهبه، الفقه الإسلامی و أدلته، ۶/ ۶۸۴، دمشق، ۱۴۰۳ ق / ۱۹۸۳ م.]

مذہب شیعہ کے دور حاضر کے علماء و فقہاء نے بھی اسی طرح حکام کی حکومت کو شرعی حیثیت بخشنے کے واسطہ امام معصوم کی غیبت کے زمانہ میں «بیعت» کو ایک راہ حل سمجھا ہے. (کتاب "دائرة المعارف بزرگ اسلامی" زیر نظر: کاظم موسوی بجنوردی سے ماخوذ ہے.)

[ابن بابویه، محمد، کمال‌ الدین، بکوشش علی اکبر غفاری، قم، ۱۴۰۵ ق؛ ابن سعد، محمد، الطبقات الکبری، بیروت، دار صادر.؛ ابن عبد البر، یوسف، التمهید، بکوشش مصطفی بن احمد علوی و محمد عبد الکبیر بکری، رباط، ۱۳۸۷ ق؛ ابن عماد، عبد الحی، شذرات الذهب، بیروت، دار الکتب العلمیه؛ بجنوردی، سید حسن، القواعد الفقهیه، ۵/ ۲۳۰، قم، ۱۴۱۰ ق؛ منتظری، حسینعلی، دراسات فی ولایة الفقیه، ۱/ ۷۸، قم، ۱۴۰۹ ق؛ منتظری، حسین علی، دراسات فی ولایة الفقیه، ۱/ ۴۰۵، قم، ۱۴۰۹ ق.]    


«بیعت» کے احکام


١. «بیعت» کے تحقق کے بعد شرعی لحاظ سے قرآن کی صریح آیات کے ذریعہ شریعت کی نظر میں وفاداری کرنا واجب ہے. [اسراء (سورة نمبر ١٧) آیہ ٣۴.]

«بیعت» کو نقض کرنا یعنی توڑنا شرع کی نظر میں حرام ہے. [امام خمینی، روح الله، کتاب البیع، ۴/ ۱۵.]

۲. مستحب ہے کہ امامؑ وقت فوجیوں کو محاذ جنگ پر بھیجنے سے قبل انہیں پابند کرے کہ دشمن کے مقابلہ میں جہاد کرنے اور ثابت قدم رہنے پر بھی «بیعت» لے گا. [علامه حلی، حسن، تذکرة الفقهاء، ۹/ ۴۹.]

۳. اسی طرح یہ بھی مستحب ہے کہ حاکم یا امیر جب بھی دشمن سے مقابلہ کی خاطر لشکر کو اعزام یا بھیجا کرے تو چند سرداروں کو متعین بھی کرے کہ ترتیب کے ساتھ فوج کی سرداری کے عہدہ کی ذمہ داری لیں تا کہ سپاہیوں کو کوئی بھی مشکل در پیش نہ آئے اور ان میں سے ہر ایک سے اسی امر پر «بیعت» لے گا. [مالکی، جعفر بن خضر، کشف الغطاء، ۴/  ۳۸۳ - ۳۸۴.]

۴. اگر کوئی ایک باغی اسلام کے لشکر کے ساتھ جنگ کرنے کی حالت میں قید ہو جائے تو اس پر امامؑ وقت کے ساتھ «بیعت» کرنا عرض کیا جائے گا لہذا قبول ہونے کی صورت میں اس قیدی کو آزاد کر دیا جائے گا ورنہ اسے قید خانہ میں ڈال دیا جائے گا تا کہ جنگی قیدیوں کا فیصلہ معلوم ہو سکے پھر جنگ کے خاتمہ کے بعد اگر باغی قیدیوں نے توبہ کر لیتے ہیں یا باغی اپنے ہتھیار زمیں پر ڈال دیتے ہیں یا باغی محاذ جنگ سے فرار کرتے ہیں تو ایسی صورت میں اگر ان کا مرکز (جس سے وہ ملحق ہو سکیں) نہیں رکھتے تو باغی کو اسیر کر لینے کے بعد اسے آزاد چھوڑ دیں گے، لیکن باغیوں کے فرار ہونے اور اپنے مرکز سے ملحق ہونے کی صورت میں انہیں قید خانہ میں ڈال دیں گے بلکہ ان کو قتل کرنا بھی جائز ہے. [سرخسی، محمد بن احمد، المبسوط، ۷/ ۲۷۱؛ علامه حلی، حسن، تذکرة الفقهاء، ۹/ ۴۲۳.]


کتب مصادر و منابع


(۱) ابن‌ بابویه، محمد، کمال‌ الدین، بکوشش علی‌ اکبر غفاری، قم، ۱۴۰۵ق.

(۲) ابن‌ سعد، محمد، الطبقات الکبری، بیروت، دار صادر.

(۳) ابن‌ عبد البر، یوسف، التمهید، بکوشش مصطفیٰ بن‌ احمد علوی و محمد عبد الکبیر بکری، رباط، ۱۳۸۷ق.

(۴) ابن‌ عماد، عبد الحیی، شذرات‌ الذهب، بیروت، دار الکتب العلمیه.

(۵) ابن‌ مفلح، ابراهیم، المبدع، بیروت، ۱۴۰۰ق.

(۶) ابن‌ منده، محمد، الایمان، بکوشش علی محمد ناصر فقیهی، بیروت، ۱۴۰۶ق.

(۷) ابن‌ ندیم، محمد، الفهرست.

(۸) ابو عمرو دانی، عثمان، السنن ‌الواردة فی الفتن، ریاض، ۱۴۱۶ ق.

(۹) ابو نعیم اصفهانی، احمد، حلیة الاولیاء، بیروت، ۱۳۸۷ ق / ۱۹۶۷ م.

(۱۰) ابو یعلی، محمد، الاحکام‌ السلطانیه، بکوشش محمد حامد فقی، قاهره، ۱۳۸۶ ق / ۱۹۶۶ م.

(۱۱) ابن قتيبه، عبد الله، الإمامة والسياسة، منسوب به ابن قتیبه، به کوشش علی شیری، بیروت، ۱۹۹۰ م.

(۱۲) بجنوردی، حسن، القواعد الفقهیه، قم، ۱۴۱۰ ق.

(۱۳) بحرانی، یوسف، الحدائق الناضرة، قم، ۱۳۶۳ ش.

(۱۴) بغدادی، عبد القاهر، الفرق بین الفرق، بیروت، ۱۹۷۷ م.

(۱۵) بهوتی، منصور، کشف القناع، بکوشش هلال مصیلحی، بیروت، ۱۴۰۲ ق.

(۱۶) البیعة و الخلافة فی ‌الاسلام، رباط، ۱۴۱۵ ق / ۱۹۹۴ م.

(۱۷) حاجی خلیفه، مصطفی، کشف الظنون.

(۱۸) خالدی، محمود، البیعة فی الفکر السیاسی الاسلامی، عمان، ۱۴۰۵ ق / ۱۹۸۵ م.

(۱۹) ذهبی، محمد، سیر اعلام النبلاء، بکوشش شعیب ارنؤوط و دیگران، بیروت، ۱۴۰۱ ق / ۱۹۸۱ م.

(۲۰) زحیلی، وهبه، الفقه الاسلامی و ادلته، دمشق، ۱۴۰۳ ق / ۱۹۸۳ م.

(۲۱) سید مرتضی، علی، رسائل، بکوشش احمد حسینی، قم، ۱۴۰۵ ق.

(۲۲) شهرستانی، محمد، الملل و النحل، بکوشش محمد سید کیلانی، بیروت، ۱۴۰۴ ق.

(۲۳) شهید اول، محمد، الدروس، قم، ۱۴۱۴ ق.

(۲۴) صدیق‌ حسن‌ خان، محمد صدیق، ابجد العلوم، به کوشش عبد الجبار زکار، بیروت، ۱۹۷۸ م.

(۲۵) طبری، محمد بن جریر، تاریخ، بیروت، ۱۴۰۷ ق.

(۲۶) طوسی، محمد، الاقتصاد، بکوشش حسن سعید، تهران، ۱۴۰۰ ق.

(۲۷) عبد المجید، احمد، البیعة عند مفکری اهل السنة، قاهره، ۱۹۹۸ م.

(۲۸) عضد الدین ایجی، عبد الرحمن، المواقف، به کوشش عبد الرحمن عمیره، بیروت، ۱۹۹۷ م.

(۲۹) علامه حلی، حسن، تذکرة الفقهاء، قم، مکتبۀ مرتضویه.

(۳۰) غزالی، محمد، قواعد العقائد، بکوشش موسی بن‌ نصر، بیروت، ۱۹۸۵ م.

(۳۱) قرآن کریم.

(۳۲) کلینی، محمد، الکافی، بکوشش علی‌ اکبر غفاری، تهران، ۱۳۷۷ ق.

(۳۳) ماوردی، علی، احکام السلطانیه، بکوشش محمد جاسم حدیثی، بغداد، ۱۴۲۲ ق / ۲۰۰۱ م.

(۳۴) منتظری، حسینعلی، دراسات فی ولایة الفقیه، قم، ۱۴۰۹ ق.

(۳۵) نووی، یحیی، روضة الطالبین، به کوشش عادل احمد عبد الموجود و علی محمد معوض، بیروت، دار الکتب العلمیه.

(۳۶) نهج‌البلاغه


منبع :

1- دانشنامه بزرگ اسلامی، مرکز دائرة المعارف بزرگ اسلامی، برگرفته از مقاله «بیعت»، شماره ۵۳۹۰.    

2- فرهنگ فقه مطابق مذهب اهلبیت، ‌۲/ ۱۷۴ - ۱۷۵.    

3- سایت پژوهه، برگرفته از مقاله «بیعت» تاریخ بازیابی  ۱۳۹۵/۱۰/۲۰.    




DEDICATED TO SHAHE KHORASSAN IMAM ALI IBNE MUSA REZA AS

Post a Comment

To be published, comments must be reviewed by the administrator *

جدید تر اس سے پرانی