حضرت علیؑ کی نظر میں خلافت ثلاثہ کی شرعی حيثيت


via pinterest



کیا حضرت علیؑ خلافت ثلاثہ کو شرعی حيثيت دیتے تھے.؟


مترجم: ابو دانیال اعظمی بُریر


فہرست مطالب


١۔ خلافت شیخَین کو صحیح تسلیم نہیں کرتے تھے۔

۲۔ پہلی خلافت اتفاقیہ و اچانک رونما ہونے والا امر یا بغیر سوچے سمجھے ناگہانی ہونے والا عمل۔

۳۔ حضرت علیؑ کی نظر میں خلیفہ کا انتخاب و تعین درست نہیں تھا- 

۴۔ ابو بکر کی خلافت کو استبداد کی حکمرانی تسلیم کرتے تھے- 

۵۔ عمر کو خلافت کا اہل تسلیم نہیں کرتے تھے- 

۶۔ عثمان کے منتخب کرنے پر شدید اعتراض تھا- 

۷۔ شیخین کو "کَاذِبَینِ، آثِمَینِ، غَادِرَینِ، خَائِنَینِ" نیز ظَالِمَینِ و فَاجِرَینِ جانتے تھے- 

۸۔ شیخین کو غاصب خلافت شمار کرتے تھے- 

۹۔ کیا جناب فاطمؑہ زہرا نے ابو بکر کے ہاتھ پر بیعت کی تھی؟ 

۱۰۔ چھہ مہینے تک ابو بکر کی بیعت نہیں کی تھی- 

۱۱۔ خلفاء سے تعاون کرنے سے گریز کرتے تھے- 

۱۲۔ رسول اسلامؐ کی رحلت کے بعد عوام اور خلفا کے امور کی شکایت کرتے تھے- 

۱۳۔ خوارج کے واقعہ میں امام علیؑ نے سیرت شیخین کو مسترد کرنا- 

۱۴۔ عمر کی ہمنشینی سے کراہت رکھتے تھے- 

۱۵۔ عثمان سنت نبوی کی مخالفت کیا کرتے تھے- 

۱۶۔ خلفائے ثلاثہ کو اشرار جانتے تھے- 

۱۷۔ خلفائے ثلاثہ کو گمراہی کے امام اور جہنم کی طرف دعوت دینے والے جانتے تھے- 

۱۸۔ صحیح مسلم کی ایک روایت سے خلافت کو باطل قرار دینا- 

۱۹۔ کیا خلافت شیخین (ابو بکر و عمر) کو صحیح جانتے تھے؟

٢٠. صفات خلفا کے ساتھ صفات منافقین کی مطابقت


۱۔ حضرت علیؑ مرتضی خلافت شیخین کو صحیح تسلیم نہیں کرتے تھے.


مجلس شورا کے ایک فرد عبد الرحمن بن عوف نے جب 3 مرتبہ شوریٰ کے روز امیر المومنین امام علیؑ کے سامنے یہ تجویز رکھی کہ سیرت شیخَین یعنی ابو بکر و عمر کے مطابق عمل کرنے کی صورت میں ہم آپ کی بیعت کرتے ہیں تو آنحضرت نے قطعی طور پر اس کو ٹھکرا دیا اور واضح طور پر بیان کیا کہ صرف کتاب خدا و سنت رسول اسلامؐ کی بنیاد پر ہی حکومت کے فرائض انجام دوں گا کیونکہ کتاب اللہ اور سنت رسول اسلامؐ کی موجودگی میں کسی اور سیرت کی ضرورت ہی باقی نہیں رہ جاتی۔

اہلسنت کا مشہور مورخ یعقوبی اس واقعہ کو اس طرح نقل کرتے ہیں: "عبد الرحمن بن عوف، حضرت علیؑ بن ابیطالب کے پاس آئے اور کہا: ہم آپ کی بیعت کرنے پر آمادہ ہیں، مگر یہی 3 شرط ہوگی کہ جب حکومت آپ کے ہاتھ میں پہونچے تو کتاب خدا و سنت رسول اسلامؐ اور سیرت شیخَین کے مطابق عمل کرو گے. تو آنحضرت نے فرمایا: میں تم لوگوں کے درمیان کتاب خدا اور سنت رسول اسلامؐ کی سیرت پر حتی المقدور عمل کرنے کی کوشش کروں گا."

پھر عبد الرحمن بن عوف، عثمان کے پاس آئے اور کہا: ہم آپ کی بیعت اس شرط پر کرتے ہیں کہ آپ کتاب خدا و سنت رسول کے ساتھ ساتھ سیرت شیخَین (ابو بکر و عمر کی سیرت چاہے قرآن و سنت کے خلاف ہی ہو) پر بھی عمل کرنے کو تسلیم کر لیں. عثمان نے جواب میں کہا: میں کتاب خدا و سنت رسول اسلامؐ اور سیرت شیخین پر عمل کروں گا.

عبد الرحمن بن عوف دوبارہ امام علیؑ کے پاس گئے اور پہلی بار کی طرح ہی بیان کیا تو آنحضرت نے بھی پہلے والا ہی جواب کہہ دیا. پھر دوبارہ عثمان کے پاس گئے اور پھر وہی بات دوہرائی جو پہلی بار کہی تھی.

تیسری بار امام علیؑ کے پاس گئے اور وہی پہلی تجویز پھر سے رکھی امام علیؑ نے فرمایا: جب کتاب خدا و سنت رسول اسلامؐ ہمارے درمیان موجود ہے تو "کسی اور سیرت کی ہمیں ضرورت و احتیاج نہیں ہے" تم کوشش کر رہے ہو کہ خلافت کو مجھ سے جدا کر دو. تیسری بار عثمان کے پاس گئے اور پہلی دو بار والی تجویز پیش کی اور عثمان نے بھی وہی پہلے دو بار والا ہی جواب دیا. پس عبد الرحمن بن عوف نے عثمان کے ہاتھ پر بیعت کی  اور خلافت ان ہی کے سپرد کر دی. (تاریخ الیعقوبی 2/ 162)

احمد بن حنبل نے بھی اپنی مسند ميں اسي واقعہ کو بزبان عبد الرحمن بن عوف اس طرح روایت کیا ہے: "ابو وائل کا بیان ہے کہ میں نے عبد الرحمن بن عوف سے کہا: کیسے ممکن ہو گیا کہ عثمان کی بیعت کر لی گئی اور حضرت علیؑ کو در کنار کر دیا گیا. عبد الرحمن بن عوف نے کہا: اس میں میرا کوئی قصور نہیں ہے میں نے علیؑ سے کہا: میں آپ کی بیعت کرتا ہوں بشرطے کہ کتاب خدا و سنت رسول اسلامؐ اور سیرت شیخین پر عمل کرو گے. تو حضرت علیؑ نے فرمایا: جو کچھ میری استطاعت میں ہوگا، میں ان ہی عمل کروں گا. جبكہ عثمان کے سامنے بھی یہی تجویز رکھی، انہوں نے بلا قید و شرط ان 3 شرطوں کو قبول کر لیا. (مسند أحمد بن حنبل 1/ 75 و مجمع الزوائد للهيثمي 5/ 185 و تاريخ مدينة دمشق ابن عساكر 39/ 202 و اسد الغابة ابن اثير 4/ 22 وغيرهم)

قول امام کا مطلب و مفہوم یہ تھا کہ کتاب خدا و سنت رسول اسلام میں کوئی نقص و عیب نہیں ہے کہ کسی دوسری سیرت کے اضافہ کی ضرورت پڑے میں سیرت ابو بکر و عمر کو درست نہیں سمجھتا اور یہ ناممکن ہے کہ جو چیز اسلام کا حصہ و جز نہ ہو اور جس کا شریعت اسلامی سے دور کا بھی واسطہ نہ ہو اسے داخل اسلام کر دیا جائے جو کردار و سیرت شرعی حیثیت نہ رکھتی ہو، اس کو اسلام میں کیوں داخل کیا جائے.؟؟؟

عبد الرحمن بن عوف بھی بخوبی واقف تھا کہ امام علیؑ ایسی شرط کو ہرگز قبول نہیں کر سکتے ہیں اور نہ ہی ایسی کسی شرط کی پابندی کریں گے لہذا انہوں نے یہ تجویز آنحضرت کے سامنے پیش کی تا کہ عملی طور پر خلافت کو امام سے دور کیا جائے اگر حضرت علیؑ ان دونوں کی سیرت کو مشروع جانتے (یعنی شرعی تسلیم کرتے) تو ایسے حساس موقع پر بھی عبد الرحمن بن عوف کی پیشکش کو یقینا قبول کر لیتے اور ان کی تجویز کو ہرگز ٹھکراتے نہیں جس کے نتیجہ میں انہیں مزید 12 سال تک گوشہ نشینی میں زندگی بسر کرنا پڑا اور جب ظاہری طور پر زمام حکومت آپ کے ہاتھوں میں آگئی اور ربیعہ بن ابی شداد خثعمی نے آنحضرت کے سامنے پھر وہی تجویز (سیرت شیخین پر عمل کرنا) رکھی تو آنحضرت نے یہ کہتے ہوئے کہ اگر اس تجویز کو قبول کر لیں تو میں آپ کی بیعت کر لوں گا تو اس وقت بھی آپ نے انکار فرما دیا اور ارشاد فرمایا: "وائے ہو تم پر!!! اگر ابو بکر و عمر نے قرآن و سنت نبی اسلام کے خلاف عمل کیا تھا تو اس کی کیا وقعت و حیثیت ہے.؟؟؟" (تاریخ الطبری 4/ 56)


۲۔ کیا ابو بکر کی خلافت "فَلتَةٌ" یعنی ناگہانی امر نہیں تھی؟


فَلْتَةٌ: یعنی ہر ایسا کام جو بغیر سوچے سمجھے اور بغیر غور و فکر کے اتفاقیہ اور اچانک طور پر انجام پایا جائے۔ 

ابو بکر کو منصب خلافت پر براجمان کرنے میں شوریٰ کا وجود ہی نہیں تھا بلکہ خود ابو بکر کے قول کی روشنی میں ایک اتفاقیہ امر تھا، جیسا کہ انہوں نے خود اقرار کیا ہے:

"میری بیعت ایک ناگہانی امر اور اتفاقا رونما ہو گئی اور خداوند عالم نے اس کے شر سے محفوظ رکھا اور فتنہ و فساد کی روک تھام کیلئے میں نے خلافت کو قبول کیا"۔ (انساب الاشراف بلاذری 1/ 590 و شرح نهج البلاغه ابن ابي الحديد معتزلي شافعي 6/ 47 بتحقيق: محمد ابو الفضل)

خود عمر نے بھی اس بات کی وضاحت و صراحت کی ہے: "ابو بکر کی بیعت ایک امر اتفاقیہ و امر ناگہانی تھا لیکن خداوند عالم نے ہم کو اس کے شر سے محفوظ رکھا اور اگر کوئی دوبارہ اس طرز انتخاب کے ذریعہ خلیفہ بنتا ہے تو ان دونوں یعنی بیعت کرنے والے اور بیعت لینے والے کو قتل کر دینا چاہئے." (شرح نهج البلاغه ابن ابي الحديد معتزلي شافعي 2/ 26 و صحيح البخاري 8/ 26 كتاب المحاربين)


۳۔ امام علیؑ کی نظر میں خلافت فقط انتصابی یعنی نامزد ہوتی ہے.؟


خلافت علیؑ کی نظر میں انتصابی ہے یعنی خلیفہ صرف نبی کی جانب سے نصب کیا جاتا ہے چناؤ کے ذریعہ خلیفہ کا تعین درست نہیں ہے۔

امام علیؑ خلیفہ کے منصوب ہونے کو صحیح اور انتخابی خلافت کو غیر شرعی جانتے ہیں۔

جناب امیر المومنیؑن خلافت کو منصوص من اللہ مانتے اور تسلیم کرتے ہیں. انتخابی خلافت خدا و سنت رسول اسلامؐ کے بر خلاف تصور کرتے ہیں. اسی نقطہ نظر کی وضاحت نہج البلاغہ میں جا بجا موجود ہے۔ 

نہج البلاغہ میں مولا علیؑ نے ایک خطبہ میں صفین سے پلٹنے کے بعد فرمایا: "حق ولایت کی خصوصیت انہی کے لئے ہیں اور انہی کے بارے میں (رسول اسلامؐ کی) وصیت اور انہی کیلئے (نبی کی) وراثت ہے." (نہج البلاغہ مترجم مفتی جعفر خ 2، ص 87 و نہج البلاغہ محمد عبده 1/ 30 و نہج البلاغہ صبحي الصالح خ 2 ص 47 و شرح نہج البلاغہ ابن ابي الحديد معتزلي شافعي 1/ 139 و ينابيع المودة قندوزي حنفي 3/ 449)

جب مالک اشتر کو مصر کا گورنر تجویز فرمایا تو ان کے ہاتھوں اہل مصر کے نام ایک بھی خط تحریر فرمایا: "پھر جب رسول اسلامؐ کی وفات ہو گئی تو ان کے بعد مسلمانوں نے خلافت کے بارے میں کھینچا تانی شروع کر دی اس موقع پر بخدا مجھے یہ کبھی تصور بھی نہیں ہوا تھا اور نہ میرے دل میں یہ خیال گزرا تھا کہ پیغمبر اسلامؐ کے بعد عرب خلافت کا رخ ان کے اہلبیت سے موڑ دیں گے اور نہ یہ کہ ان کے بعد اسے مجھ سے ہٹا دیں گے، مگر ایکدم ہی میرے سامنے یہ منظر ابھر آیا کہ لوگ فلان شخص (یعنی ابو بکر) کے ہاتھ پر بیعت کرنے کیلئے دوڑ پڑے ہیں میں نے ان حالات میں اپنا ہاتھ روکے رکھا یہاں تک کہ میں نے دیکھا کہ مرتد ہونے والے اسلام سے مرتد ہو کر محمؐد کے دین کو مٹا ڈالنے کی دعوت دے رہے ہیں اب میں ڈرا کہ اگر کوئی رخنہ یا خرابی دیکھتے ہوئے میں اسلام اور اہل اسلام کی مدد نہ کروں گا تو یہ میرے لئے اس سے بڑھ کر مصیبت ہوگی جتنی یہ مصیبت کہ تمہاری یہ حکومت میرے ہاتھ سے چلی جائے جو تھوڑے دنوں کا اثاثہ ہے اس میں کی ہر چیز زائل ہو جائے گی اس طرح جیسے سراب بے حقیقت ثابت ہوتا ہے یا جس طرح بدلی چھٹ جاتی ہے چنانچہ میں ان بدعتوں کے ہجوم میں اٹھ کھڑا ہوا یہاں تک کہ باطل دب کر فنا ہو گیا اور دین محفوظ ہو کر تباہی سے بچ گیا"۔ (نہج البلاغہ الرقم 62 كتابه ألي أهل مصر مع مالك بن الأشتر لما ولاه إمارتها و نہج البلاغہ مترجم مفتی جعفر مکتوب 62، ص 780 و 781 و شرح نہج البلاغہ ابن ابي الحديد معتزلي شافعي 6/ 95 و 17/ 151 و الإمامة و السياسة 1/ 133 بتحقيق الدكتور طه الزيني طبع مؤسسة الحلبي القاهرة مصر)

آنحضرت نے خطبہ نمبر 72 (اردو ترجمہ) اور 74 (نسخہ عربی و فارسی ترجمہ) میں ارشاد فرمایا ہے: جب لوگوں نے عثمان کی بیعت کا ارادہ کیا تب آپ نے بھی فرمایا: تم جانتے ہو کہ مجھے اوروں سے زیادہ خلافت کا حق پہونچتا ہے خدا کی قسم! جب مسلمانوں کے امور کا نظم و نسق برقرار رہے گا اور صرف میری ہی ذات ظلم و جور کا نشانہ بنتی رہے گی میں خاموشی اختیار کرتا رہوں گا، تا کہ (اس صبر پر) اللہ سے اجر و ثواب طلب کروں اور اس زیب و زینت اور آرائش کو ٹھکرا دوں، جس پر تم مر مٹے ہوئے ہو." (نہج البلاغہ ص 219 و خطبه 72 مفتي جعفر و خطبہ 74 عربي و فارسي نسخه)


۴۔ حضرت علیؑ خلافت ابو بکر کی حکومت کو ظالمانہ لفظ سے تعبیر کیا کرتے تھے-


حضرت علیؑ ابو بکر کی خلافت کو جابرانہ و ظالمانہ حکومت سمجھتے تھے خلفا کی خلافت جمہوری اصولوں کی بنیاد پر نہیں بلکہ ظلم و جبر کی بنیاد پر قائم تھی جس کی تصریح و وضاحت ان الفاظ میں ملتی ہے جیسا کہ ابو بکر کو مخاطب کرتے ہوئے امیر المومنیؑن نے ارشاد فرمایا: "تم نے میرے ساتھ ظلم و ستم کیا، رسول اسلامؐ کے ساتھ جو قرابت و رشتہ داری تھی اس کی بنیاد پر خلافت میرا مسلم حق تھا."

امام علیؑ کے یہی کلمات سن کر ابو بکر کی آنکھوں سے قطرات اشک رواں ہو گئے-


۵۔ حضرت علیؑ عمر کو خلافت کا اہل نہیں جانتے تھے۔


حضرت علیؑ، عمر کو خلافت کے لائق نہیں سمجھتے تھے جیسے ہی حضرت علیؑ مرتضی کو معلوم ہوا کہ ابو بکر نے عزم مصمم کر لیا ہے اور  تمام کاروائیاں عمر کو خلیفہ بنانے کی پایہ تکمیل کو پہونچ چکی ہیں تو آنحضرت نے شدید مخالفت کی اور اعتراض جتایا جیسا کہ ابن سعد نے اپنی کتاب الطبقات میں نقل کیا ہے: "عائشہ سے منقول ہے کہ ابو بکر کے آخری لمحات میں امام علیؑ و طلحہ جب ان، کے پاس جا کر دریافت کرتے ہیں کہ آپ کس کو اپنے بعد کیلئے خلیفہ معین کر رہے ہیں تب ابو بکر نے جواب دیا کہ عمر کو، ان دونوں نے کہا کہ خداوند عالم کو کیا جواب دو گے؟؟؟ تو ابو بکر نے جواب دیا کہ کیا تم دونوں مجھے اللہ کو پہچنوانا چاہتے ہو؟؟؟ اور اس کی معرفت کرانے کا ارادہ رکھتے ہو؟؟؟ میں خدا و عمر کو تم دونوں سے بہتر جانتا ہوں اگر میں خداوند منان کی بارگاہ میں جاؤں گا تو کہہ دوں گا کہ تیرے بہترین بندہ کو خلافت کیلئے منتخب کیا ہے۔


۶۔ حضرت علیؑ عثمان کے انتخاب پر شدید مخالف تھے۔


حضرت علیؑ، عثمان کو بطور خلیفہ منتخب کرنے پر سخت اعتراض تھا حضرت علیؑ نے عثمان کے خلیفہ منتخب کر دینے پر اپنی مخالفت کا اظہار کیا اور اس مخالفت پر قائم بھی رہے، یہاں تک کہ عبد الرحمن بن عوف نے آنحضرت کو قتل کرنے کی دھمکی بھی دے ڈالی. 

"عبد الرحمن بن عوف نے کہا: اے علیؑ! اپنے آپ کو عثمان کی خلافت کے راستہ میں مت لاؤ ورنہ ہمارے درمیان تلوار کے سوا کوئی نہ ہوگا"۔

چھ افرادی شوریٰ جس کی تشکیل عمر کے ہاتھوں عمل میں آئی تھی اس کے خلاف نالہ و فریاد کرتے رہے۔

"خلافت کو ایک جماعت میں محدود کر دیا گیا اور مجھے بھی اس جماعت کا ایک فرد خیال کیا، اے خداوند عالم! مجھے اس شوریٰ سے کیا لگاؤ؟ ان میں کے سب سے پہلے کے مقابلہ ہی میں میرے استحقاق و فضیلت میں کب تردید و شک تھا جو اب میں ان لوگوں میں بھی شامل کر لیا گیا ہوں، مگر میں نے یہ طریقہ اختیار کیا تھا کہ جب وہ زمین کے نزدیک ہو کر پرواز کرنے لگیں تو میں بھی ایسا ہی کرنے لگوں اور جب وہ اونچے ہو کر اڑنے لگیں تو میں بھی اسی طرح پرواز کروں یعنی حتی الامکان کسی نہ کسی صورت سے نباہ کرتا رہوں ان میں سے ایک شخص تو کینہ و عناد کی وجہ سے مجھ سے منحرف ہو گیا اور دوسرا دامادی اور بعض ناگفتہ بہ باتوں کی وجہ سے ادھر جھک گیا یہاں تک کہ اس قوم کا تیسرا شخص پیٹ پھلائے، سرگین اور چارے کے درمیان کھڑا ہوا اور اس کے ساتھ اس کے بھائی بند اٹھ کھڑے ہوئے جو اللہ کے مال کو اس طرح سے نگلتے تھے جس طرح اونٹ فصل بہار کا چارہ چرتا ہے، یہاں تک کہ وہ وقت آگیا جب اس کی بٹی ہوئی رسی کے کس بل کھل گیا اور اس کی بد اعمالیوں نے اس کا کام تمام کر دیا اور شکم پری نے اسے منھ کے بل زمین پر گرا دیا"۔


۷۔ حضرت علیؑ شیخین کو "کاذب، آثم، غادر و خائن" اور "فاجر و ظالم" بھی جانتے تھے۔


حضرت علیؑ شیخین کو کاذب، آثم، غادر و خائن اور فاجر و ظالم بھی جانتے تھے، جیسا کہ اہلسنت کے خیال میں قران مجید کے بعد  سب سے زیادہ معتبر ہے، جس میں عمر کا بیان نقل ہے:

فَلَمَّا تُوُفِّیَ رَسُولُ اللهِ قَالَ أَبُو بَکْرٍ أَنَا وَلِیُّ رَسُولِ اللهِ فَجِئْتُمَا تَطْلُبُ مِیرَاثَكَ مِنَ إبْنِ أَخِیكَ وَیَطْلُبُ هٰذَا مِیرَاثَ إمْرَأَتِهِ مِنْ أَبِیهَا فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ قَالَ رَسُولُ اللهِ «مَا نُورَثُ مَا تَرَکْنَا صَدَقَةٌ». فَرَأَیْتُمَاهُ "کَاذِبًا، آثِمًا غَادِرًا، خَائِنًا" ..... ثُمَّ تُوُفِّیَ أَبُو بَکْرٍ وَ أَنَا وَلِیُّ رَسُولِ اللهِ وَ وَلِیُّ أَبِی بَکْرٍ فَرَأَیْتُمَانِی "کَاذِبًا، آثِمًا، غَادِرًا، خَائِنًا".

رسالتمآب کی رحلت کے بعد ابو بکر آنحضرت کی خلافت کے مدعی ہونے اور تم دونوں (یعنی علی و عباس)  نے ابو بکر کو "جھوٹا، گنہگار، حیلہ گر اور خائن" خیال کیا اور پھر ابو بکر کے انتقال کے بعد میں نے رسول و ابو بکر کے خلیفہ ہونے کا دعوا کیا تب تم دونوں نے مجھے بھی "جھوٹا، گنہگار، حیلہ گر اور خائن" خیال کیا. (صحیح مسلم 2/ 152، اور 2/ 728، حدیث نمبر 1757، کتاب جہاد باب نمبر 15، حکم الفیء، حدیث نمبر 49۔؛ فتح الباری، 6/ 144)  

پھر عمر بن خطاب کی زبانی روایت کے آخری الفاظ بھی ملاحظہ کیجئے:

"قَالَ أَ کَذٰلِكَ.؟ قَالَا: نَعَمْ."

راوی حضرت علیؑ اور جناب عباس (پیغمبر اسلام کے چچا) سے یہی اقرار لیتے ہیں کہ جو کچھ بھی مطالب کو میں نے بیان کیا ہے کیا تم دونوں ان کی تصدیق و تائید کرتے ہو.؟ تو دونوں ہی افراد نے کہا: جی، ہاں. (ہم دونوں ہی اس کی تصدیق و تائید کرتے ہیں.) [صحیح مسلم، 3/ 1377، کتاب الجهاد والسیر، باب حکم الفیء، ح 1757.]

دوسری روایت میں ظالم و فاجر کے الفاظ بھی مذکور ہے۔ 

سند روایت کی تصحیح


یہی روایت اہلسنت کی دیگر کتابوں میں بھی «ظالم و فاجر» کے الفاظ کے ساتھ نقل ہوئی ہے یہاں تک کہ وہابی محدث البانی نے بھی اسے صحیح شمار کیا ہے:

قَالَ وَ أَنْتُمَا تَزْعُمَانِ أَنَّهُ کَانَ فِیهَا "ظَالِمًا فَاجِرًا" ..... ثُمَّ وُلِّیتُهَا بَعْدَ أَبِی بَکْرٍ سَنَتَیْنِ مِنْ إِمَارَتِی فَعَمِلْتُ فِیهَا بِمِثْلِ مَا عَمِلَ فِیهَا رَسُولُ اللهِ وَ أَبُو بَکْرٍ وَ أَنْتُمَا تَزْعُمَانِ أَنِّی فِیهَا "ظَالِمٌ فَاجِرٌ".

عمر نے کہا: تم دونوں (یعنی حضرت علیؑ اور جناب عباس پیغمبر اسلام کے چچا) یہی خیال رکھے ہوئے تھے کہ ابو بکر بھی اسی معاملہ میں "ظالم و فاجر" ہیں ….. ابو بکر کی دو سالہ حکومت کے بعد میرے بھی اختیار میں فدک وغیرہ کے انتظام و نصرام کو  رکھا تھا میں بھی وہی کیا جو رسولخدا اور ابو بکر نے انجام دیا لیکن پھر تم دونوں نے مجھے بھی "ظالم و فاجر" گمان کیا ہے. 

البانی نے روایت کے آخر میں یہ تصریح بھی کی ہے کہ اس روایت کی سند صحیح ہے. [البانی، محمد ناصر الدین (متوفی 1420 ھ) التعلیقات الحسّان علی صحیح ابن حبّان، 9/ 318 - 320.]

اسی روایت کو صحیح ابن‌ حبان نامی کتاب اور اس پر تحقیق کرنے والے وہابی عالم شعیب الارنؤوط جو کہ متعصب وہابی بھی ہیں نے اس کی سند کی تصحیح کی ہے. 

ان ہی دو روایات کے مطابق حضرت علیؑ کا یہی خیال تھا کہ ابو بکر و عمر «جھوٹے، بدکار، حیلهہ باز، خائن، نیز ظالم و فاجر» افراد ہیں.


۸۔ حضرت علیؑ شیخین کو غاصب خلافت شمار کرتے تھے.


حضرت علیؑ گذشتہ خلفاء کی خلافت کیلئے کسی بھی شرعی حیثیت کے قائل نہیں تھے اور  ان کو اپنی خلافت کا غاصب گردانتے تھے، جیسا کہ آنحضرت نے جناب عقیل کو خط میں تحریر فرماتے ہیں: "خدا کرے ان کی کرنی ان کے سامنے آئے ان لوگوں مجھ سے قطع رحم کیا (رشتہ داری کا حق ادا نہ کیا) اور میری والدہ کے فرزند (رسول اکرم) کی  حکومت کو مجھ سے چھین لیا"۔ (نہج البلاغہ، مترجم مفتی جعفر حسین،  مکتوب  26، ص 715)

  ابن ابی الحدید معتزلی شافعی نے اپنی کتاب شرح نہج البلاغہ میں اس طرح نقل کیا ہے: اور قریش نے میرا حق غصب کیا اور میں  امر خلافت میں دب سے زیادہ حقدار اور مناسب تھا مجھہ سے جھگڑا کرنے کیلئے سب کھڑے ہوگئے۔ (شرح نهج البلاغه ابن ابی الحدید معتزلی شافعی، 4/ 104 و 9/ 306)

ابن قتیبہ کے بیان کے مطابق جب ابو بکر نے قنفذ کو حضرت علیؑ کے پاس بھیجا، قنفذ نے کہا  رسولخدا کا خلیفہ آپ کو بلا رہا رہا ہے، تو حضرت علیؑ نے اس کے جواب میں فرمایا: بہت جلدی تم نے رسولخدا کی طرف جھوٹی نسبت دیدیا اور اپنے آپ کو رسولخدا کا خلیفہ بتا دیا پھر دوبارہ ابو بکر نے قنفذ کو  علیؑ کے پاس بھیجا اور کہلایا کہ ان سے کہنا کہ  امیر المؤمنین نے آپ کو بلایا ہے یہ سنتے ہی حضرت علیؑ کی فریاد بلند ہو گئی اور فرمایا سبحان اللہ کیا بیجا دعوی ہے. (الامامة السیاسة بتحقیق  الزینی ص 19، و بتحقیق الشیری، ص 30)

مطالب گذشتہ کے بیان کے  بعد بھی کیا اس تصور و خیال کی  گنجائش  باقی رہ جاتی ہے کہ حضرت علیؑ نے شورا کو تسلیم کرلیا تھا؟


۹۔ کیا جناب فاطمہؑ زہرا نے ابو بکر کے ہاتھ پر بیعت کی تھی؟


روایات صحیحہ کی بنیاد پر  صدیقہ طاہرہ کی رضا و خوشنودی، رسولخدا کی رضا و خوشنودی اور خاتون جنت کی ناراضگی و غضبناکی رسولخدا کی ناراضگی و غضبناکی شمار ہوتی ہے، جیسا کہ حاکم نیشاپوری کی منقولہ روایت بیان کرتی ہے۔

جناب فاطمہؑ کے غضبناک ہونے پر خدا غضبناک ہوتا ہے، اور ان کی رضامندی پر خدا راضی ہوتا ہے، اس روایت کو نقل کرنے بعد حاکم نیشابوری کہتا ہے کہ یہ حدیث صحیح السند ہے، لیکن مسلم میں نقل نہیں کی گئی ہے۔ (مستدرک، 3/ 153، مجمع الزوائد، 9/ 203، الآحاد و المثانی للضحاک، 5/ 363، تھذیب التھذیب، 21/ 392، سبل الھدیٰ الرشاد الصالحی الشامی، 11/ 44)

بخاری  نے آنحضرت سے نقل کیا ہے: فاطمہؑ میرے جگر کا ٹکڑا ہے اور جو اس کو ناراض کرے گا وہ مجھے ناراض کرے گا. (صحیح بخاری، 4/ 210 و 710، ح 3714، کتاب فضائل الصحابہ، ب 12، باب ،مناقبة القرابة  رسول الله 4/ 209، ص 717، ح 3768، کتاب فضائل الصحابة ب 29، باب مناقب فاطمہؑ)

مسلم نیشاپوری نے رسول اکرمؐ سے نقل کیا ہے کہ فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے، جس نے مجھے اذیت دی  اس نے اسے اذیت دی۔ (صحیح مسلم 7/ 141، ح 6202، کتاب فضائل صحابہ، ب 15، باب فضائل فاطمہ بنت النبیؐ)

 کسی طرح کے شک و تردید کی گنجائش نہیں ہے کہ حضرت فاطمہؑ نے ابو بکر کی بیعت ہی نہیں کہ بلکہ  ابو بکر سے ناراضگی اور غضبناکی کی حالت میں بھی اس  دار فانی  کو الوداع کہا ہے. 

بخاری کے بیان کے مطابق  یہ ہے کہ حضرت فاطمہؑ ابو بکر پر غضبناک تھیں اور ان سے نارض بھی تھیں یہاں تک کہ اس دنیا کو الوداع کہا۔ (صحیح بخاری، 4/ 42، ح 3093، کتاب فرض الخمس ب 1، باب فرض الخمس)


خاتون جنت کی وصیت  کی بنا پر  تاریکی شب میں  تدفین کرنا۔


حضرت علیؑ نے انہیں رات کی تاریکی اور محدود لوگوں کی مشایعت میں ہی دفن کیا اور ابو بکر جو خود کو خلیفہ رسول کی حیثیت سے متعارف کراتے ہیں انہیں بھی خبر نہ دی  گئی تا کہ خاتون جنت کہ نعش مبارک پر نماز ادا کر سکیں۔ (صحیح بخاری 5/ 82، ح 4240، کتاب المغازی، ب 38، باب غزوۃ الخبر؛ صحیح مسلم، 5/ 154، ح 4470، کتاب الجهاد و السیر۔ المغازی، ب 16، باب قول النبیؐ "لا نورث ما ترکناه فھو صدقة") 


۱۰۔ حضرت علیؑ نے چھ ماہ تک ابو بکر کی بیعت نہیں کی.


بخاری و مسلم میں مذکور روایت کی بنیاد پر یہ ثابت ہوتا ہے کہ امیر المؤمنین نے چھہ ماہ تک ابو بکر کی بیعت کرنے سے بچے رہے: خاتون جنت فاطمہؑ  رسولخدا کے انتقال کے بعد 6 ماہ تک زندہ رہیں اور اس مدت کے درمیان حضرت علیؑ نے ابو بکر کی بیعت نہیں کی۔ (صحیح مسلم 5/ 154؛ صحیح بخاری ، 5/ 82)

کیا حضرت  علیؑ کا ابو بکر سے بیعت نہ کرنا ان کی خلافت کے غیر شرعی ہونے کی دلیل نہیں ہے؟؟

کیا بنی ہاشم نے حضرت علیؑ کی اتباع و پیروی میں ابو بکر کی بیعت سے انکار نہیں کیا.؟؟؟

عبد الرزاق (جو بخاری کے استاد ہیں) اپنی کتاب المنصف میں نقل کرتے ہیں کہ ایک شخص نے زھری سے کہا: یہ بات درست ہے کہ حضرت علیؑ نے 6 ماہ تک بیعت نہیں کی؟ تو جواب دیا اور بنی ہاشم میں سے بھی کسی ایک فرد نے مذکورہ مدت میں بیعت نہیں کی۔ (المصنف عبد الرزاق صنعانى، 5/ 472 و 473)

اسی جیسی عبارت کو بیہقی نے بھی اپنی سنن میں، طبری نے اپنی تاریخ میں اور  ابن ثیر نے اپنی دو کتابوں رجال و تاریخ میں نقل کیا۔ (اسد الغایة، 3/ 222؛ الکامل فی التاریخ، 2/ 325، السنن الکبریٰ، 6/ 300؛ تاریخ الطبری، 2/ 448)

لیکن ابن حزم  جو اہلسنت کے بزرگ علماء میں سے ہی ہیں.؟؟ کہ جن کا یہ قول ہے۔

اس اجماع پر اللہ کی لعنت ہے، جس اجماع سے حضرت علیؑ اور ان کے اصحاب خارج ہو جائیں۔ (المحلی 9/ 345، بتحقیق احمد محمد شاکر، طبع بیروت، دار الفکر)


۱۱۔ حضرت علیؑ کا خلفاء سے تعاون کرنے سے گریز کرتے تھے۔


حضرت علیؑ ابو بکر و عمر کے ساتھ کسی طرح کا بھی موافقت آمیز رویہ نہیں رکھتے تھے عمر بن خطاب عبد اللہ ابن عباس کے پاس جاتے ہیں اور حضرت علیؑ کی شکایت کرتے ہیں؛ مجھے تمھارے چچا کے فرزند سے شکایت ہے آنحضرت سے جنگ میں چلنے کی درخواست کیا، مگر انکار کر دیا اور میں مسلسل انہیں ناراض محسوس کرتا ہوں تمھاری نظر میں اس ناراضگی کی وجہ کیا ہو سکتی ہے؟ تو ابن عباس نے کہا کہ تمہیں خود ہی پتہ ہے عمر نے کہا کہ میرے خیال سے خلافت کے مسئلہ کو لے کر مجھ سے ناراض ہیں تبھی ابن عباس نے کہا کہ ایسا ہی ہے۔ (شرح  نهج البلاغه، ابن ابی الحدید معتزلی شافعی، 12/ 78، باب نکث من کلامه عمر  و سیرته و اخلاقه)


۱۲۔ رحلت رسولخدا کے بعد امت اور خلفا کے ذریعہ انجام دینے والے امور کی شکایت کرتے تھے.


جو کچھ وفات مرسل اعظم کے بعد خلفاء و امت نے انجام دیا تھا، اس کا گلہ و شکوی حضرت علیؑ نے کیا ہے حضرت علیؑ ایک دوسرے خطبہ میں ارشاد فرماتے ہیں: یہاں تک کہ جب اللہ  نے رسول اللہؐ کو دنیا سے اٹھا لیا تو ایک گروہ الٹے پاؤں پلٹ گیا اور گمراہی کی راہوں نے اسے برباد کر دیا اور وہ اپنے غلط سلط عقیدوں پر بھروسہ کر بیٹھا  قریبیوں کو چھوڑ کر بیگانوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے لگا اور (جن ہدایت کے) وسیلوں سے اسے مودت کا حکم دیا گیا تھا انہیں چھوڑ بیٹھا اور (خلافت کو) اس کی مضبوط بنیادوں سے ہٹا کر وہاں نصب کر دیا جو اس کی جگہ ہی نہ تھی، یہی تو گناہوں کے مخزن اور گمراہی میں بھٹکنے والوں کا دروازہ ہیں و حیرت و پریشانی میں سر گردان اور آل فرعون کی طرح گمراہی کے نشہ میں مدہوش پڑے تھے، کچھ تو آخرت سے کٹ کر دنیا کی طرف ہی متوجہ تھے اور کچھ حق سے منہ موڑ کر دین چھوڑ چکے تھے۔ (نہج البلاغہ، مترجم مفتی جعفر حسین، ص 393، خطبه 148؛ نهج البلاغه ترجمه فارسی خطبه 150)


۱۳۔ خوارج کے واقعہ میں حضرت علیؑ مرتضی نے سیرت شیخین کو مسترد کر دیا تھا۔


حضرت علیؑ نے واقعہ خوارج میں سیرت ابو بکر و عمر کی تردید فرما دیا  ہے،   جب خلافت ظاہری مولا علیؑ کو حاصل ہو گئی تو یہ روایت نقل کیا  گیا ہے۔

جب خوارج نے امام علیؑ کے مد مقابل قیام کیا اور انتشار و اختلاف پیدا کیا تو   آنحضرت اپنے ہمراہیوں اور شیعوں کے پاس تشریف لائے، ان لوگوں نے دوبارہ بیعت کی یہ  کہتے ہوئے کہ ہم ہر اس شخص کے دوست ہیں جس کے آپ دوست ہیں اور ہم ہر اس شخص کے دشمن ہیں جس کے آپ دشمن ہیں اس کے بعد سنت رسول اللہ پر عمل کرنے کا معاہدہ عمل میں آیا انہیں  حالات میں ربیعہ ابن ابی شداد خثعمی  جو جنگ جمل و صفین میں لشکر امام علیؑ میں قبیلہ خثعم کا پرچم بردار تھا آنحضرت کے پاس آیا، آنحضرت نے اس سے ارشاد فرمایا کہ کتاب خدا و سنت رسولخدا پر عمل پیرا رہنے کی شرط کے ساتھ بیعت کرو تو اس نے سوالیہ انداز میں سیرت شیخین (ابو بکر و عمر) کو پیش کیا! آنحضرت نے فرمایا: وائے  ہو تم پر! اگر ابو بکر و عمر کی سیرت کتاب خدا و سنت رسولؐ کے بر خلاف تھی تو حق سے کنارہ کش تھے، یہ سن کر اس نے  آنحضرت  کے ہاتھوں پر بیعت کیا پس آنحضرت نے اس کو دیکھ کر ارشاد فرمایا: میں دیکھ رہا ہوں کہ تم خوارج کے ہمراہ قتل ہو گے اور گھوڑوں کی سموں سے پامال بھی ہو گے۔ (تاریخ الطبری، 4/ 56)

چنانچہ جنگ نہروان کے روز بصرہ کے خوارج کی معیت میں موت سے ہم آغوش ہوا اور جیسا کہ امام نے پیشن گوئی فرمائی تھی ویسا ہی واقعہ رونما بھی ہوا۔


۱۴۔ حضرت علیؑ عمر کی ہمنشینی سے کراہت رکھتے تھے.


حضرت علیؑ، عمر کے ساتھ نشست و برخاست نا پسند فرماتے تھے، جیسا کہ صحیح بخاری  بعد کتاب باری میں مذکور ہے کہ حضرت علیؑ نے چھہ مہینے تک ابو بکر کے ہاتھ پر بیعت نہیں کی تھی اور غصب حکومت کے کارندوں کی مکرر درخواست پر جناب امیر المومنینؑ نے پیغام بھیجا: ان سے کہو کہ تنہا ہی آئیں اور اپنے ہمراہ کسی اور بھی کو نہ لائیں چونکہ آنحضرت عمر کی ہمنشینی کو ناگوار سمجھتے تھے۔ (صحیح البخاری کتاب المغازی، باب غزوۃ الخیبر 5/ 83، ح 3913، طبع دار الفکر بیروت)


۱۵۔حضرت علیؑ سنت کی اتباع کیا کرتے تھے اور عثمان سنت نبوی کی مخالفت کیا کرتے تھے۔


صحیح بخاری میں مولا علیؑ کا عثمان سے اختلاف اور عثمان کا سنت نبی کے خلاف عمل کرنا۔

مروان بن حکم  کہتا ہے کہ میں نے علیؑ اور عثمان کو دیکھا اس حالت میں کہ عثمان حج تمتع اور عمرہ تمتع کرنے سے منع کرتے تھے۔

(صحیح البخاری، 2/ 153، کتاب الحج، باب تمتع، القِران  والإفراد بالحج  وفسخ الحج لمن لم  یکن معه هدی)

صحیح البخاری میں دوسری روایت  اس طرح  مذکور ہے:

سعد ابن مسیّب کہتا ہے کہ علیؑ اور عثمان کے درمیان منطقہ عسفان میں متعة الحج یا حج تمتع  کے سلسلہ میں اختلاف پیش آیا پس علیؑ نے عثمان سے فرمایا: کس حق کے تحت اس پر عمل کرنے سے تم منع کر رہے ہو جس عمل کا حکم رسول اللہ نے خود دیا ہے؟  جب علیؑ نے عثمان کو رسول اللہ کی سنت کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دیکھا تو متعة الحج یا عمرہ تمتع  اور حج تمتع کیلئے لبیک کی صدا بلند کی. (صحیح البخاری، ۲/۱۵۳، کتاب الحج، باب تمتع، القران  والإفراد بالحج  وفسخ الحج لمن لم  یکن معه هدی)

امیر المؤمنین نے عثمان اور اس کے گروہ کو بہترین اشرار قرار دیا ہے، جیسا کہ مذکور ہے۔

مولا علیؑ نے فرمایا: میں نے عثمان اور اس کے گروہ سے بدتر شریر کسی کو نہیں پایا۔ پھر آنحضرت نے فرمایا؛ کیا تم جانتے ہو کہ عمر نے ان کے بارے میں کیا کہا ہے ؟ 

قسم بہ خدا (اگر یہ خلیفہ بن گیا) تو ابو معیط کی اولاد کو لوگوں کی گردن پر سوار کر دے گا۔ (شرح نهج البلاغه، ابن ابی الحدید معتزلی شافعی، 3/ 31، باب ذکر مطاعن التی طعن بھا علی عثمان الرد علیہا، 6/ 336، باب نبذ من کلام عمرو بن العاص)

تاریخ  نے بھی ایسا ہی ہوتے ہوئے دیکھا ہے، جو بہر حال محتاج ثبوت نہیں ہے۔.


۱۶۔ حضرت علیؑ خلفائے ثلاثہ کو اشرار میں سے جانتے تھے۔


امیر المؤمنینؑ نے مالک اشتر کو لکھے خط میں فرمایا ہے:

کیونکہ (اس سے پہلے) یہ دین بد کرداروں کے پنجے میں اسیر رہ چکا ہے جس میں نفسانی خواہشوں کی کار فرمانی تھی  اور اس سے دنیا طلبی کا ایک  ذریعہ بنا لیا گیا تھا۔ (نہج البلاغہ، مکتوب ۵۳، ص ۷۵۵، مترجم، مفتی جعفر حسین، نہج البلاغہ شیخ محمد عبده، 3/ 95، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید معتزلی شافعی، 17/ 59) 


۱۷۔ حضرت علیؑ خلفائے ثلاثہ کو گمراہی کے امام و جہنم کی طرف دعوت دینے والے جانتے تھے.


امیر المؤمنینؑ نے اپنے کلام میں منافقین کے متعلق اس طرح سے ارشاد فرمایا ہے:

منافقین: ایک تو  وہ جس کا ظاہر کچھ ہے اور باطن کچھ ہے، وہ ایمان کی نمائش کرتا ہے اور مسلمانوں کی سی وضع و قطع بنا لیتا ہے نہ گناہ کرنے سے گھبراتا ہے اور نہ کسی افتاد میں پڑنے سے جہجکتا ہے، وہ جان بوجھ کر رسولخداؐ پر جھوٹ باندھتا ہے اور لوگوں کو پتہ چل جاتا ہے کہ یہ منافق اور جھوٹا ہے تو اس سے نہ کوئی حدیث قبول کرتے ہین اور نہ ہی اس کی بات کی تصدیق کرتے ہیں لیکن وہ تو یہ کہتے ہیں کہ یہ رسولخداؐ کا صحابی ہے اس نے آنحضرت کو دیکھا بھی ہے اور ان سے حدیثیں بھی سنی ہین اور آپ سے تحصیل علم بھی کیا ہے چنانچہ وہ (بے سوچے سمجھے) اس کی بات کو قبول کر لیتے ہیں، حالانکہ اللہ نے منافقین کے متعلق خبر دے رکھی ہے  اور ان کے رنگ ڈھنگ سے بھی  تمہیں آگاہ کر دیا ہے، پھر وہ رسول کے بعد بھی باقی و برقرار رہے اور کذب بیانی و بہتان کے ذریعہ گمراہی کے پیشواؤں  اور جہنم  کا بلاوا دینے والوں یہاں تک اثر و رسوخ پیدا کیا چنانچہ انہوں نے ان کو (اچھے اچھے) عہدوں پر لگایا اور حاکم بنا کر لوگوں کی گردنوں پر مسلط کر دیا اور ان کے ذریعہ سے اچھی طرح سے دنیا کو حلق میں اتارا اور لوگوث کا تو یہ قاعدہ ہے کہ وہ بادشاہوں اور دنیا (والوں) کا ساتھ دیا کرتے ہیں مگر  سوائے ان (معدودے ان چند افراد)  کے جنہیں اللہ اپنے حفظ و امان میں رکھے۔

(نہج البلاغہ، محمد عبدہ ۲/ ۱۸۹، خطبہ ۲۱۰/ ۲۰۲، نہج البلاغہ، مترجم مفتی جعفر حسین، خطبہ ۲۰۸، ص ۵۷۸، شرح ابن ابی الحدید معتزلی شافعی، ۱۱/ ۳۸، المعیار و الموازنہ، ابو جعفر اسکافی، ص ۳۰۲)


۱۸۔ صحیح مسلم کی فقط ایک ہی روایت سے خلافت کو باطل قرار دیتے تھے.


خلفائے ثلاثہ کی خلافت کے باطل ہونے پر صحیح مسلم  کی روایت سے استدلال یہی ہے:

مسلم نیشاپوری نے اپنی کتاب صحیح میں جو اہلسنت کے نزدیک صحیح بخاری کے مانند قران کریم کے بعد سب سے صحیح ترین کتاب تسلیم کی جاتی ہے ایک ایسی روایت نقل کرتے ہیں، جو مذہب اہلسنت کی بنیادوں کو متزلزل کر دیتی ہے اس روایت کو مسلم نے مندرجہ ذیل الفاظ میں نقل کیا ہے ملاحظہ فرمائیں:

حذیفہ ابن یمانی کا بیان ہے: میں نے رسولخدا سے عرض کیا، ہم بد ترین زمانے میں تھے پروردگار نے خیر نازل فرمایا جس کے باعث ہم اس وقت زمانۂ خیر میں زندگی بسر کر رہے ہیں، کیا اس خیر کے بعد بھی شر ہے؟ آنحضرت نے فرمایا: ہاں ہے.  میں نے عرض کیا: اس شر  کے بعد خیر پایا جاتا ہے؟ آنحضرت فرمایا: ہاں پایا جاتاہے۔ میں نے عرض کیا  پس اس خیر کے بعد بھی شر کا امکان پایا جاتا ہے؟ آنحضرت نے فرمایا: ہاں پایا جاتا ہے، میں نے دریافت کیا کہ وہ کیسے؟ آنحضرت نے فرمایا: میرے بعد تم پر ایسے رہنما حکومت کریں گے  جو میری ہدایت سے ہدایت یافتہ نہ ہوں گے اور سیرت و سنت پر عمل پیرا نہ ہوں گے اور عنقرب ان کے درمیان ایسے افراد حکومت کریں گے کہ جن کے دل شیاطین کے دل ہوں گے لیکن انسانی بھیس میں ہوں گے تو میں نے دریافت کیا: اگر میں ایسا زمانہ پاؤں تو کیا کروں؟ آنحضرت فرمایا: اپنے امیر کی باتیں غور سے سنو اور اس کی اطاعت و فرمان برداری کرو چاہے وہ تمہاری پشت پر تازیانہ مارے جائیں اور تمہارا مال لوٹ لیا جائے پس تم اپنے امیر کی باتوں کو غور سے سنو اور اس کی  اطاعت کرو۔ (نیشاپوری قشیری، ابو الحسن مسلم بن حجاج متوفی۲۶۱ھ صحیح مسلم ۳/ ۱۴۷۶، تحقیق: محمد فؤاد عبد الباقي، ناشر: دار احیاء التراث العربی، بیروت)

ہمیں اس روایت  سے مندرجہ ذیل نکات حاصل ہوتے ہیں۔

۱۔ کیا اس خیر کے بعد شر ہے؟ آنحضرت نے فرمایا: ہاں ہے. ان الفاظ سے رحلت رسول کے بعد فتنہ و فساد کے واقع ہو نے کی خبر ہے۔

۲۔ میرے بعد تم پر ایسے حکام حکومت کریں گے  جو نہ میری ہدایت سے ہدایت یافتہ ہوں گے اور نہ ہی میری سیرت سے و سنت پر عمل کرتے ہوں گے وفات مرسل اعظم کے بعد رہبری ایسے افراد کو ملی جنہوں نے  لوگوں کو  راہ پیغمبرؐ سے منحرف کر دیا اور سنت رسولؐخدا کی اتباع سے کنارہ کشی اختیار کر لی اور خود ساختہ سنت کا اجراء عمل میں آیا ہے۔

۳۔ جو لوگ امام و خلیفہ کی حیثیت سے برسر اقتدار آئیں گے "انسان کی صورت تو رکھتے ہوں گے لیکن ان کے دل شیطانی ہوں گے۔

۴۔ لفظ "سیقوم" پر غور کریں تو اس میں "سین" استعمال ہوا ہے، جس کا واضح سا مطلب یہ ہے کہ ان خصوصیات کے مالک عنقریب رحلت پیغمبر اسلامؐ کے بعد برسر اقتدار ہوں گے  علمائے نحو کے مطابق "سین" حروف  تنفیس میں سے ہے جو فعل مضارع پر داخل ہوتا ہے اور اسے مستقبل قریب کے معنی میں تبدیل کر دیتا ہے، اگر مستقبل بعید کو مراد لیا گیا ہوتا تو "سین" کے بجائے "سوف" استعمال کیا گیا ہوتا۔

۵۔ حذیفه یمانی  قتل عثمان کے چند روز بعد وفات پا گئے تھے اور رسولخداؐ نے بھی حذیفہ کی ذمہ داری کو معین فرما دیا تھا، آن کے مصداق بھی فقط اور فقط خلفائے ثلاثہ ہی ہوں گے نہ کہ جناب امیر المؤمنینؑ۔

ابن عبد البر اپنی کتاب الاستیعاب میں وفات حذیفہ یمان کا ذکر یوں کرتے ہیں: حذیفہ سنہ ۳۶ ھ میں قتل عثمان کے بعد اور خلافت امیر المؤمنینؑ کے ابتدائی زمانہ میں انتقال کر گئے تھے اور بعض نے کہا ہے کہ سن ۳۵ھ میں وفات پائی  لیکن صحیح قول وہی  سن  ۳۶ ھ والا ہے۔ (الإستیعاب فی معرفة الأصحاب، یوسف بن عبد الله  بن محمد بن عبد البر، الوفاۃ ۴۶۳، دار النشر: دار الجیل، بیروت ۱۴۱۲، الطبعة  الاولی، تحقیق، علی محمد البحاوی ۱/ ص؟)


خلفاء کی صفات کے ساتھ ہی منافقین کی صفات کی مطابقت


دلچسپ بات تو یہی ہے کہ کتاب صحیح بخاری میں انہی صفات کو جو منافقین سے مخصوص ہے کو تحریر کیا ہے. 

محمد بن اسماعیل نے اپنی ہی کتاب صحیح میں رقم کرتے ہیں:

۳۳- حدثنا عن أَبی هُرَیْرَةَ عن النبی قال آیَةُ الْمُنَافِقِ ثَلَاثٌ إِذا حَدَّثَ کَذَبَ و إِذا وَعَدَ أَخْلَفَ و إِذا أُؤتمن خَانَ.

ابو ہریرہ سے روایت نقل کیا ہے کہ رسولخدا نے فرمایا: منافق کی 3 نشانیاں ہیں؛

١. جب بات کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے. 

٢. جب وعدہ کرتا ہے تو مخالفت کرتا ہے.

٣. جب کوئی امانت اس کے سپرد کی جاتی ہے تو اس میں خیانت کرتا ہے. 

۳۴- حدثنا ….. عن عبد اللهِ بن عَمْرٍو اَنَّ النبی قال اَرْبَعٌ من کُنَّ فیه کان مُنَافِقًا خَالِصًا وَ مَنْ کانت فیه خَصْلَةٌ مِنْهُنَّ کانت فیه خَصْلَةٌ من النِّفَاقِ حتی یَدَعَهَا إذا أؤتمن خَانَ واذا حَدَّثَ کَذَبَ و إذا عَاهَدَ غَدَرَ و إذا خَاصَمَ فَجَرَ.

عبد الله بن عمر سے بھی روایت نقل ہوئی ہے کہ رسولخدا نے فرمایا: جس شخص میں بھی یہی 4 خصلتیں ہوں گی تو وہ خالص منافق ہی ہوگا اور اگر ان خصلتوں میں سے کوئی ایک خصلت بھی ہو گی تو وہ ایک چوتھائی منافق ہو گا جب تک کہ ان خصلت کو نہ چھوڑ دے؛

١. جس وقت اس کے پاس امانت رکھی جاتی ہے تو خیانت کرتا ہے. 

 ٢. جس وقت بات کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے. 

٣. جس وقت اس سے عہد و پیمان لیا جاتا ہے تو غدرای کرتا ہے.

٤. جس وقت کسی سے دشمنی کرتا ہے تو ناشائستہ امور انجام دیتا ہے. [صحیح البخاری، ۱/ ۱۶، کتاب الایمان، بَاب عَلَامَةِ الْمُنَافِقِ، ح ۳۳ و ۳۴.]

کمپوزنگ:

رسالت حسین مبارکپوری



DEDICATED TO SHAHE KHORASSAN IMAM ALI IBNE MUSA REZA AS


Post a Comment

To be published, comments must be reviewed by the administrator *

جدید تر اس سے پرانی