أغراض کربلا و عاشورا


 

اقوالِ امام حسینؑ کی روشنی میں

تحریکِ کربلا کی غرض و غایت

 

ترجمہ: ابو دانيال اعظمي بربر


فہرست اغراض و مقاصد کربلا

 

١۔ بنی امیہ کے حقیقی چہرہ کو عیاں کرنا

٢۔ پیغمبر اکرمؐ  کی سنت اور امیر المومنینؑ کی سیرت کو زندہ کرنا

٣۔ بدعتوں کے ساتھ جہاد کرنا

٤۔ آشکارا فساد کے ساتھ جنگ کرنا

٥۔ حدود الہی کو زندہ کرنا

٦۔ فقیروں کے اموال کو برباد کرنے والوں کے ساتھ جہاد کرنا

٧۔ حق پر عملدر آمد کرنا اور باطل سے جہاد کرنا

٨۔ حق کو زندہ کرنا

٩۔ پیغمبر اکرمؐ کی امت میں اصلاح کرنا

١٠۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو قائم کرنا

١١۔ حرام خدا کو حلال شمار کرنے والوں سے جہاد کرنا

١٢۔ عہد و پیمان تورنے والوں کے ساتھ جنگ کرنا

١٣۔ ظلم و ستم کے خلاف جہاد کرنا

١٤۔ پیغمبر اکرمؐ کی سنت کے مخالفین کے ساتھ جہاد کرنا

١٥۔ خدا کے دین کی علامتوں کو ظاہر کرنا

١٦۔ احکام الہی پر عملدر آمد کرنا

١٧۔ غیر اسلامی حکومت کا خاتمہ کرنا

 

 

 

 

مقدمہ

 

اس كے باوجود کہ معاویہ یہ بھی جانتا تھا کہ اگر امام حسینؑ کو اس کے خلاف قیام یا تحریک چلانے کی ایک بھی فرصت مل جائے تو وہ کار روائی کریں گے اور پھر بھی وہ امامؑ کو وقتا فوقتا دھمکیاں بھی دیتا رہتا تھا لیکن آنحضرت بھی عملی اقدامات سے پرہیز کرتے تھے لیکن معاویہ کی موت کے بعد شرائط و حالات متغیر ہوئے؛ کیونکہ ایک طرف تو یزید فسق و فجور اور بے دینی میں شہرت رکھتا تھا اور یہاں تک کہ کسی ایک گناہ کے کھلم کھلا انجام دینے سے پروا بھی نہیں کرتا تھا وہ کچی جوانی اور نا تجربہ کاری کا حامل تھا اور اسلام میں بھی کوئی سابقہ نہیں رکھتا تھا. اسی دلیل کی بنا پر صحابہ اور ان کی اولاد کے درمیان بھی کوئی امتیازی خصلت اور مقبولیت نہیں رکھتا تھا.

تو دوسری طرف کوفی گروہوں میں سے بہت سے لوگ نے امام حسینؑ کا ساتھ دینے کیلئے اعلان بھی کر رکھا تھا. لہذا امامؑ بھی اس سلسلہ میں بنی امیہ کے حقیقی چہرہ کو منکشف کرنے کیلئے اور دین خدا کی مدد و نصرت کی خاطر ماحول کو سازگار دیکھا اور دین خدا کو زندہ کرنے کے واسطے اپنے قیام و تحریک کا آغاز کیا. 

آنحضرتؑ نے پہلے ہی مرحلہ میں امکان کی صورت میں غیر اسلامی حکومت کو ختم کرنا اور اس کے مقام پر ایک عدل و انصاف پر مبنی حکومت کو جانشین قرار دینا تھا اور اس صورت حال کی عدم حصولیابی میں اپنی اور اپنے احباب و انصار کی شہادت کے وظیفہ پر عمل کرنا تھا انہوں نے اپنے گہربار کلمات میں اپنے قیام و تحریک کے محرکات کے سلسلہ میں فرمایا کرتے تھے جنہیں ہم ذیل میں مختصر تحریر کر رہے ہیں. 

 

 

پہلی غرض:

بنی امیہ کے حقیقی چہرہ کو عیاں کرنا

 

امام حسینؑ نے (مروان بن حکم کا یزید کی بیعت کرنے کی تجویز کے سلسلہ میں) مندرجہ ذیل کلمات ارشاد فرمایا ہے:

إِنّا للهِ وَإِنّا اِلَيْهِ راجِعُونَ وَ عَلَیٰ الإِسلَامِ اَلسَّلَامُ إِذْ بُلِیَتِ الأُمَّةُ بِرَاعٍ مِثْلَ یَزِیدَ، وَلَقَدْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ (ص) يَقُولُ: اَلْخِلافَةُ مُحَرَّمَةٌ عَلَىٰ آلِ أَبِى سُفيَانَ. 

کلمہ استرجاء ادا کیا یعنی بیشک ہم اللہ ہی کیلئے ہیں اور ہمیں اسی کی طرف پلٹنا ہے کہا اور جس وقت اسلامی امت میں یزید جیسے حکمران کی سلطنت میں مسلط ہو جائے تو اسلام کو خدا حافظ کہہ دینا چاہئے اور میں رسولخداؐ سے یہی سنا ہے کہ خلافت ابو سفیان کی آل پر حرام ہے. [بحار الأنوار، 44/ 326؛ فتوح ابن اعثم، 5/ 27؛ موسوعة كلمات الامام الحسینؑ 285، ح 252.]

امام حسینؑ نے اپنے بیان میں تصریح کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ یزید جیسی حکومت کا جو حاکم ہو تو دین خدا کی بقا کی امید ہی نہیں کی جا سکتی ہے. لہذا امامؑ کے کلام سے یہی معنی سمجھ سکتے ہیں کہ اس فاسد خاندان کے مقابل میں کیا تا کہ اس شجرہ خبیثہ کے واقعی چہرہ کو عیاں کر سکیں. 

دوسری غرض:

پیغمبر اکرمؐ کی سنت اور امیر المومنینؑ کی سیرت کو زندہ کرنا

 

امام حسینؑ نے اپنے ایک خط میں بصرہ کے سرداروں کے ایک گروہ کو تحریر فرماتے ہیں کہ ان کی تحریک کا مقصد یزید کی حکومت کی مخالفت کرنا پیغمبر اکرم کی سنت کو زندہ کرنا قرار دیا ہے. جیسا کہ مندرجہ ذیل عبارت سے واضح ہوتا ہے: 

….. وَ قَدْ بَعَثْتُ رَسُولِی إِلَیْکُمْ بِهٰذَا الْکِتَابِ وَ أَنَا أَدْعُوکُمْ إِلىٰ کِتَابِ اللهِ وَ سُنَّةِ نَبِیِّهِ (ص) فَإِنَّ السُّنَّةَ قَدْ أُمِیتَتْ…..

….. اور میں نے اپنے قاصد کو اس مکتوب کے ساتھ آپ لوگوں کی طرف بھیجا ہے. میں تمہیں اللہ کی کتاب اور اس کے رسول اکرمؐ کی سنت کی طرف دعوت دے رہا ہوں کیونکہ یہ حکمران طبقہ پیغمبر اسلام کی سنت کو مٹا رہا ہے….. [تاریخ طبری، 4/ 265 و 266 اور 5/ 357؛ بحار الأنوار، 44/ 340.]

جیسا کہ امام حسینؑ نے مدینہ سے روانگی کے وقت وصیت نامہ تحریر کر کے محمد حنفیہ کے سپرد کیا تھا اسی میں یہ بھی واضح طور پر رقم فرمایا ہے:

….. أسیر بسیرت جدی (ص) و أبی علی بن أبی طالب (ع) …..

…..میں اپنے جد امجد محمدؐ مصطفیٰ کی سیرت اور اپنے پدر بزرگوار علی بن ابیطالبؑ کے نقش قدم پر چلوں گا….. [الفتوح ابن أعثم، 5/ 21؛ بحار الأنوار، 44/ 329؛ مقتل خوارزمی، 1/ 188]

 

تیسری غرض:

بدعتوں سے مقابلہ کرنا

 

امامؑ نے اسی خط میں بصرہ کے سرداروں کے نام تحریر کرتے ہوئے ذکر کیا ہے:

….. وَ إِنَّ الْبِدْعَةَ قَدْ أُحْیِیَتْ، وَ إِنْ تَسْمَعُوا قَوْلِی وَ تُطِیعُوا أَمْرِی أَهْدِکُمْ سَبِیلَ الرَّشَادِ، وَ السَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَ رَحْمَةُ اللهِ.

یہ طبقہ (دین میں) بدعت کو زندہ کر رہا ہے اور اگر تم لوگ میری باتوں کو سنو گے اور میرے دستور کے مطابق عمل کرو گے تو تم لوگ راہ ہدایت پر گامزن رہو گے اور تم پر سلام ہو اور اللہ کی رحمت بھی ہو. [تاریخ طبری، 4/ 265-266 و 5/ 357؛ بحار الأنوار، 44/ 340.]

 

معاویہ اپنے اغراض و مقاصد اور اپنی حکومت کی بنیادوں کو مستحکم کرنے کے حصول کی خاطر اپنے ہی مقام و منصب کو مضبوط کرنے میں سخت حرص و ہوس رکھتا تھا لہذا اسلامی احکام اور دین میں بھی بدعتوں کو ظاہر کر دیا کہ جس کا سب سے بڑا اہمترین ثبوت خلافت کو اس کے صحیح و مستقیم راستہ سے منحرف کرنا ہے اور خلافت کو استبدادی و موروثی سلطنت میں تبدیل کرنا بھی ہے خاص طور سے اپنے ناخلف و نالائق اور غیر صالح بیٹے کو اپنی ولیعہد کیلئے انتخاب کرنا شامل ہے. [پیام امیر مؤمنانؑ 3/ 250.]

دوسری بدعت تو یہ ہے کہ بیت المال کو امت کے مفاد میں مصرف سے روکنا تھا کیونکہ معاویہ نے اپنی حکمرانی کے دوران بیت المال کو اپنی ذاتی ثروت میں تبدیل کر دیا یہاں تک کہ یہی بیت المال خاندانی دولت میں بدل گیا اور کسی کے بھی اندر اتنی طاقت و ہمت نہیں ہو سکتی تھی کہ بیت المال کے سلسلہ میں باز پرس و سوال کر سکے. 

پھر ایک اور بدعت یہ بھی اس نے انجام دی کہ دو سگی بہنوں کو ایک ہی وقت میں ایک مرد اپنے نکاح میں قرار دیا اور اسی طرح کی بہت سی سیکڑوں دیگر بدعتیں ایجاد کیں جس کے تذکرہ سے ہماری تحریر کے طویل ہونے کا خوف ہے لہذا ہم اس سلسلہ میں چند مثالوں کے تذکرہ کے سوا مزید رقم کرنے سے احتراز کر رہے ہیں. [الغدیر، 11/ 71 به بعد.]

 

 

چوتھی غرض:

آشکارا فساد کے ساتھ جنگ کرنا


پانچویں غرض:

حدود الہی کو زندہ کرنا


چھٹی غرض:

فقیروں کے اموال کو برباد کرنے والوں کے ساتھ جہاد کرنا

 

امام حسینؑ مکہ سے کربلا کے سفر کے درمیان جب فرزدق شاعر سے ملاقات کرتے ہیں اور شام کے حکمرانوں کی خلاف ورزیوں کا تذکرہ کرتے ہیں اور دین خدا کی مدد و نصرت کے قیام کیلئے ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:

یَا فَرَزْدَقُ! إِنَّ هٰؤُلَاءِ قَومٌ لَزِمُوا طَاعَةَ الشَّیطَانِ، وَ تَرَکُوا طَاعَةَ الرَّحْمٰنِ، وَ أظْهَروُا الفَسَادَ فِی الأَرضِ، وَ أبْطِلُوا الحُدُودَ، وَ شَرِبُوا الخُمُورَ، وَ اسْتَأثَرُوا فِی‌ أَموَالِ الْفُقَرَاءِ وَ المَسَاکِینَ، وَ أَنَا أَولَیٰ مَنْ قَامَ بِنُصرَةِ دِینِ اللهِ، وَ إِعزَازِ شَرعِهِ، وَ الجِهَادِ فِی‌ سَبِیلِهِ لِتَکُونَ کَلِمَةُ اللهِ هِیَ العُلیَا.

اے فرزدق! اس حکمران طبقہ نے شیطان کی پیروی کو اپنے اوپر لازم کر رکھا ہے اور خدائے رحمان کی اطاعت کو چھوڑ دیا ہے اور زمین پر کھلم کھلا فتنہ و فساد پھیلا رکھا ہے اور حدود الہیہ کو معطل کر دیا ہے اور شرابخواری کو انجام دے رہے ہیں اور فقیروں و محتاجوں کے اموال کو اپنی ذات کیلئے خصوص مقرر کر رکھا ہے اور میں ہر ایک شخص سے دین خدا کی مدد اور اس کے احکام کی سر بلندی اور اس کی راہ میں جہاد کرنے کا سب سے زیادہ حقدار ہوں یہاں تک کہ دین الہی کامیاب و کامران ہو جائے اور اللہ کا کلمہ ہمیشہ سر بلند و سر افراز رہے. [تذکرة الخواص، ص 217 و 218؛ موسوعة کلمات الامام الحسین، ص 408.]

 

ساتویں غرض:

حق پر عملدر آمد کرنا اور باطل سے جہاد کرنا

 

آنحضرتؑ نے کربلا کی طرف جاتے ہوئے منزل شراف پر لشکر حر کے سپاہیوں سے نماز عصر کے بعد ایک خطبہ میں مزید واضح فرمایا ہے:

أ لَا تَرَوْنَ إِلیٰ الحَقِّ لَا یُعْمَلُ بِهِ وَ إِلیٰ البَاطِلِ لَا یُتَنَاهَیٰ عَنهُ لِیَرْغَبَ المُؤمِنُ فِی لِقَاءِ رَبِّهِ حَقَّاً حَقّاً فَإِنِّي لَا أَرَيٰ الْمَوتَ اِلَّا سَعَادَةً، وَ الْحَياةَ مَعَ الظَّالِمِينَ إِلَّا بَرَماً.

كیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ حق پر عمل نہیں ہو رہا ہے اور باطل سے منع بھی نہیں کیا جا رہا ہے تو ایسے حالات میں مومن کیلئے لازمی ہے کہ وہ پروردگار عالم سے ملاقات کی طرف ہی رغبت رکھنا چاہئے پس بیشک میں سوائے سعادت کے موت کو نہیں دیکھتا اور ظالمین کے ساتھ زندگی بسر کرنے کو ذلت و رسوائی شمار کرتا ہوں. [تاریخ طبری، 5/ 404؛ بحار الأنوار، 44/ 381.]

 

امامؑ نے ان کلمات کے ذریعہ اپنی تحریک و قیام کے اغراض و مقاصد کو بیان کر رہے تھے اور باطل سے جہاد کی راہ میں شہادت کی خاطر اپنی آمادگی و تیاری کا بھی اظہار کر رہے تھے اور دین الہی کو زندہ کرنے کا بھی اعلان کر رہے تھے. 

 

 

آٹھویں غرض:

حق کو زندہ کرنا

 

معروف محدث دینوری نے نقل کیا ہے: امامؑ جب "بطن الرّمة" سے روانہ ہوئے تو عراق کی طرف سے آنے والے عبد اللہ بن مطیع سے سامنا ہوا تب انہوں نے امام سے عرض کیا: اے فرزند رسول میرے ماں باپ آپ پر فدا ہو جائیں کیا باعث ہوا ہے کہ آپ خدائے کریم اور اپنے جد کریم کے حرم سے باہر نکل آئے ہیں.؟ تو امامؑ نے جواب میں فرمایا ہے:

إِنَّ أَهْلَ الکُوفَةِ کَتَبُوا إِلَیَّ یَسْأَلُونَنِی أَن أَقْدِمَ عَلَیهِم لِمَا رَجَوْا مِن إِحْیَاءِ مَعَالِمِ الحَقِّ وَ إِمَاتَةِ البِدَعِ.

کوفہ کے لوگوں مجھے خط لکھ کر مجھ سے یہ خواہش کی ہے کہ ان کی طرف میں آؤں اس امید پر کہ (بنی امیہ کے خلاف تحریک چلانا) حق کہ نشانیوں کو زندہ کرنا ہے اور بدعتوں کو بھی نابود کرنا ہے. [اخبار الطوال دینوری، ص 245.]

 

نویں غرض:

پیغمبر اکرمؐ کی امت میں اصلاح کرنا


دسویں غرض:

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو قائم کرنا

 

شائد امامؑ کی اس تعبیر کو فصیح و بلیغ اپنی تحریک کے بیان کرنے کا اصلی محرک آنحضرت کے وصیت نامہ کے جملوں سمجھا جا سکتا ہے کہ جو انہیں نے اپنے بھائی محمد حنفیہ کو رقم کر کے دیا تھا. جس میں مندرجہ ذیل الفاظ بالکل صاف اور صریح بیان ملاحظہ کیجئے:

وَ إِنَّمَا خَرَجْتُ لِطَلَبِ الإِصْلَاحِ فِی أُمَّةِ جَدِّی، أُرِیدُ أَن آمُرَ بِالمَعرُوفِ وَ أَنهَیٰ عَنِ المُنکَر.

ميں فقط اپنے جدؐ امجد کی امت میں اصلاح کیلئے مدینہ سے خارج ہوا ہوں، میں تو بس نیکی کی ہدایت کرنا اور برائی سے روکنے کا ارادہ رکھتا ہوں. [الفتوح ابن أعثم، 5/ 21؛ بحار الأنوار، 44/ 329؛ مقتل خوارزمی، 1/ 188]

حضرت سید ؑالشهداء نے معاویہ کی موت کے بعد جس وقت والی مدینہ نے یزید کی بیعت کی خاطر بلایا تو شدید غیظ و غضب کے عالم میں اس دعوت کو ٹھکرا دیا اور رات کے وقت پیغمبر اکرمؐ کی قبر انور پر حاضر ہوئے اور اللہ سے مناجات کرتے ہوئے درج ذیل کلمات عرض فرمایا:

أَللّٰهُمَّ هٰذَا قَبْرُ نَبیِّكَ مُحَمَّد (ص) وَ أَنَا ابْنُ بِنْتِ نَبیِّكَ و قَدْ حَضَرَنِی مِنَ الأَمرِ مَا قَد عَلِمْتَ، أَللّٰهُمَّ إِنِّی اُحِبُّ المَعرُوفَ وَ اُنکِرُ المُنکَرَ وَ اَسأَلُكَ یَا ذَا الجَلَالِ وَ الاِکرَامِ بِحَقِّ هٰذَا القَبرِ وَ مَن فِیهِ اِلَّا اختَرتَ لِی مَا هُوَ لَكَ رِضیً وَ لِرَسُولِكَ رِضیً»

خداوندا! یہ تیرے نبی حضرت محمد مصطفی کی قبر انور ہے میں تیرے ہی نبی کی دختر کا فرزند ہوں جو امر میرے سامنے درپیش ہوا ہے اس کے بارے میں تو ہی بہتر طریقہ سے آگاہ ہے. خدایا! بیشک میں معروف سے محبت کرتا ہوں اور منکر سے بیزار ہوں. اے جلال و اکرام کے مالک تجھے اس قبر اور اس میں مدفون ذات گرامی کے وسیلہ سے درخواست گزار ہوں کہ اسی راستہ کو میرے لئے اختیار مقرر کرنا جس میں تیری ہی رضامندی اور تیرے رسول کی رضامندی شامل رہتی ہے. [مقتل الحسینؑ خوارزمی، 1/ 186؛ بحار الانوار، 44/ 328.]

بعض علماء کی منقولہ روایت کے مطابق آنحضرت نے منی کے مقام پر دوسرے خطبہ میں ارشاد فرمایا ہے جو امامؑ کے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے نتیجہ کے طور پر بیان ہوا ہے:

إعتَبِرُوا أَيُّهَا النَّاسُ بِمَا وَعَظَ اللهُ بِهِ أَولِيَاءَهُ ….. وَ قَالَ: «المُؤمِنُونَ وَ المُؤمِنَاتُ بَعضُهُم أَولِيَاءُ بَعضٍ يَأمُرُونَ بِالمَعرُوفِ وَ يَنهَونَ عَنِ المُنكَرِ ….. » [سورة التوبة 71.] فبَدَأ اللهُ بِالأَمرِ بِالمَعرُوفِ، وَ النَّهيِ عَنِ المُنكَرِ فَرِيضَةً مِنهُ؛ لِعِلمِهِ بِأَنَّهَا إِذَا اُدِّيَت و اُقِيمَتِ إستَقَامَتِ الفَرَائِضُ كُلُّهَا هَيِّنُهَا وَ صَعبُهَا، وَ ذٰلِكَ أَنَّ الأَمرَ بِالمَعرُوفِ وَ النَّهيَ عَنِ المُنكَرِ دُعَاءٌ إلَىٰ الإِسلَامِ مَعَ رَدِّ المَظَالِمِ وَ مُخَالَفَةِ الظَّالِمِ، وَ قِسمَةِ الفَيءِ وَ الغَنَائِمِ، وَ أَخذِ الصَّدَقَاتِ مِن مَوَاضِعِهَا، وَ وَضعِهَا فِي حَقِّهَا.

امامؑ نے فرمایا ہے: اے لوگو! جو خداوند متعال نے عبرت و نصیحت اپنے اولیا کو دی ہے اس سے کچھ درس و سبق حاصل کرو کہ ارشاد ربانی ہے: «مومن مرد حضرات مومنات خواتین کے ولی ہیں یعنی بعض بعض پر ولایت رکھتے ہیں جو نیکیوں کا حکم دیتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں.» خداوند منان نے نیک کا حکم دینے اور برائی ہے روکنے کو ایک فریضہ کی حیثیت سے اپنی جانب سے ابتدا و ذکر کیا ہے کیونکہ وہ جانتا تھا کہ اگر اس فریضہ کو انجام دیں گے اور منعقد کریں گے  تو دیگر تمام فرائض بھی آسان ہو یا سخت پر کاربند رہیں گے؛ چونکہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اسلام کی طرف دعوت دینا ہے رد مظالم کے ساتھ (یعنی جو ناحق حقوق لوگوں سے چھن لیا ہے اسے لوٹانا ہے.) اور ستمگر و جابر کی مخالفت کرنا اور بیت المال اور غنائم کو منصفانہ و عادلانہ طریقہ سے تقسیم کرنا اور زکات کے مقامات سے رقم شرعی وصول کرنا اور اس کے مصارف میں ہی خرچ کرنا ہے. [تحف العقول 237؛ فرهنگ جامع سخنان امام حسینؑ، ص 309؛ وسائل الشیعه 11/ 403 مروی از امام حسنؑ]

 

 

گیارہویں غرض:

حرام خدا کو حلال شمار کرنے والوں سے جہاد کرنا


بارہویں غرض:

عہد و پیمان توڑنے والوں کے ساتھ جنگ کرنا


تیریویں غرض:

ظلم و ستم کے خلاف جہاد کرنا


چودہویں غرض:

پیغمبر اکرمؐ کی سنت کے مخالفین کے ساتھ جہاد کرنا

 

مورخین کی منقولہ تحریر کی بنیاد پر جس وقت کوفہ کی طرف امامؑ کی روانگی میں حر مانع ہوئے تب امامؑ نے ایک خط کوفہ کے سرداروں کو تحریر کیا اور اس میں ان تمام ہی 4 موقعوں کو اس طرح رقم فرمایا ہے:

فَقَدْ عَلِمْتُمْ أَنَّ رَسُولَ اللهِ (ص) قَد قَالَ فِی حَیَاتِهِ، مَن رَأیَ سُلْطَاناً جَائِراً، مُسْتَحِلَّا لِحُرُمِ اللهِ، ناکِثاً لِعَهْدِ اللهِ، مُخالِفاً لِسُنَّةِ رَسُولِ اللهِ (ص)، یَعْمَلُ فِی‌ عِبَادِ اللهِ بِالإِثْمِ وَ العُدْوَانِ، ثُمَّ لَم یُغَیِّرْ بِفِعْلٍ وَ لَا قَولٍ، کَانَ حَقِیقاً عَلیٰ اللهِ أَنْ یُدْخِلَهُ مَدْخَلَهُ۔

بتحقیق تم تو جانتے ہو کہ پیغمبر اسلامؐ نے اپنی حیات طیبہ میں فرمایا ہے: جو شخص بھی کسی ظالم سلطان کو دیکھے کہ جو حلال کو حرام شمار کرتا ہے اور اللہ کے عہد کو توڑتا ہے اور پیغمبر اسلامؐ کی سنت کی مخالفت کرتا ہے اور بندگان خدا کے درمیان ظلم و ستم کا سلوک روا رکھتا ہے لیکن کوئی بھی شخص اس کے مقابلہ میں عملی اور زبانی صورت نہ اٹھے گا تو مناسب یہی ہے کہ خداوند عالم اسے اسی ظالم سلطان کے مقام پرا اسے کے ساتھ ہی جہنم میں ڈالے گا. [بحار الأنوار، 44/ 381؛ مقتل الحسین، خوارزمی، 1/ 234.]

حضرت سید الشهداءؑ نے ان کلمات کے ساتھ ضمنی طور پر یہ یاد دہانی کرائی ہے کہ معاشرہ اور سماج کے تمام ہی افراد بلکہ ہر ایک طبقہ کی یہ ذمہ داری ہے خصوصا کوفہ کے سرداروں کو اپنے عزم جزم کے امور کی اصلاح کیلئے اور مکمل طور پر بنی امیہ کے بے لگام اور ستمگر حکومت کے ساتھ جہاد یا جنگ کا اعلان کرے اور اس جنگ یا جہاد کو اس لوگوں کی حمایت کے ساتھ مشروط بھی نہیں کرتے. 

 

پندرہویں غرض:

خدا کے دین کی علامتوں کو ظاہر کرنا


سولہویں غرض:

احکام الہی پر عملدر آمد کرنا

 

امام حسینؑ نے ایک خطبہ میں صراحت کے ساتھ اپنی سعی و کوشش اور جد و جہد کو ان الفاظ میں بیان فرماتے ہیں:

أَللّٰهُمَّ إِنَّکَ تَعْلَمُ إِنَّهُ لَمْ یَکُنْ مِنَّا تَنَافُساً فِی سُلطَانٍ، ولَا إلتِمَاساً مِنْ فُضُولِ الحُطَامِ، وَ لٰکِنْ لِنَرَیَ المَعَالِمَ مِنْ دِینِكَ، ونُظْهِرَ الإصْلَاحَ فی بِلَادِكَ ویَأمَنَ الْمَظْلُومُونَ مِنْ عِبادِكَ، وَ یَعْمَلَ بِفَرائِضِكَ و سُنَّتِكَ وَ أَحْکامِكَ.

خداوندا! تو بہتر جانتا ہے کہ جو کچھ میں عمل انجام دے رہا ہوں یعنی کہ لوگوں کو رضا کارانہ طور پر اپنے سے ملحق کر رہا ہوں تو یہ سلطنت کے حصولیابی کی خاطر نہیں ہے اور نہ ہی مال و ثروت کا حصول میرا مقصد ہے بلکہ ہمارا ارادہ بس دین کی علامتوں کو ظاہر کرنا ہے اور تیرے تمام شہروں میں اصلاح کرنے کو ظاہر کروں تا کہ تیرے مظلوم بندہ محفوظ رہیں اور تیرے فرائض و سنتوں اور احکامات پر عمل کیا جا سکے. [تحف العقول، ص 239؛ بحار الانوار، 97/ 79.]

مذکورہ بالا عبارت سے ہی ملتا جلتا مگر آخری سطر کے فرق کے ساتھ امیر المومنینؑ کا فرمان بھی مروی ہے:

أَللّٰهُمَّ إِنَّكَ تَعْلَمُ أَنَّهُ لَمْ يَكُنِ الَّذِي كَانَ مِنَّا مُنَافَسَةً فِي سُلْطَانٍ وَ لَا إلْتِمَاسَ شَيْءٍ مِنْ فُضُولِ الْحُطَامِ، وَ لَكِنْ لِنَرِدَ الْمَعَالِمَ مِنْ دِينِكَ وَ نُظْهِرَ الْإِصْلَاحَ فِي بِلَادِكَ، فَيَأْمَنَ الْمَظْلُومُونَ مِنْ عِبَادِكَ وَ تُقَامَ الْمُعَطَّلَةُ مِنْ حُدُودِكَ، أَللّٰهُمَّ إِنِّي أَوّل مَن أَنَاب وَسمع وأجَابَ….. 

خدایا تو بہتر جانتا ہے کہ جو کچھ میں انجام دے رہا ہوں اس کیلئے سلطنت و حکومت حاصل کرنا نہیں ہے اور نہ ہی دولت و ثروت کا حصول میرا مقصد ہے بلکہ میرا ارادہ تو بس تیرے دن کی نشانیوں کو اس کے حقیقی مقام پر پلٹانا ہے اور تیرے شہروں میں اصلاح کے امور کو ظاہر کرنا ہے تا کہ تیرےبندوں میں سے مظلومیں محفوظ رہیں اور معطل شدہ حدود الہی کو قائم کروں، بار الہا میں سب سے پہلی فرد ہوں کہ جس نے تجھے دل دیا اور میں نے تیرا دستور سنا اور میں جواب بھی دیا. 

 

 

سترہویں غرض:

غیر اسلامی حکومت کا خاتمہ کرنا

 

آنحضرتؑ نے اپنے ایک خطبہ میں جو منزل شراف پر نماز عصر کے بعد حر کے لشکر سامنے ارشاد فرمایا ہے:

 أَیُّهَا النَّاسُ أَنَا إبْنُ بِنْتِ رَسُولِ اللهِ (ص) و نَحْنُ أَولَیٰ بِوِلَایَةِ هٰذِهِ الأُمُورِ عَلَیْکُمْ مِنْ هٰؤٓلآءِ المُدَّعِینَ ما لیْسَ لَهُمْ.

اے لوگو! میں اللہ کے رسولؐ کی بیٹی کا فرزند ہوں، ہم ان امور میں تم پر زیادہ حقدار ہیں جس کے وہ لوگ جھوٹے دعوے کر رہے ہیں. [الفتوح ابن اعثم، 5/ 78.]

اسی طرح امامؑ نے جس وقت جناب مسلم کو کوفہ کی طرف اپنا سفیر نامزد کرتے ہوئے انہیں خطاب کر کے مرقوم فرمایا ہے تو دوسری بار رضا کاروں کو بھرتی کرنے اور لوگوں کو آمادہ کرنے کی تاکید فرماتے ہوئے اس خط میں تحریر فرمایا ہے:

وَ أدْعُ النَّاسَ إِلیٰ طأعَتی، و اُخذُلْهُم عَنْ آلِ أبِی‌ سُفیانَ، فَإنْ رَأَیْتَ الناسَ مُجْتَمِعینَ عَلَیَّ بَیْعَتی فَعَجِّلْ لِی بالخَبْرِ، حَتّیٰ أعْمَلَ عَلیٰ حَسَبِ ذٰلِكَ إِن شَاءَ اللهُ تَعَالیٰ.

(جیسے ہی تم کوفه پہونچو) تو لوگوں کو میری پیروی کی طرف دعوت دو اور ان لوگوں کو آل ابو سفیان کی حمایت سے باز رکھو اگر لوگوں نے متفق ہو کر بیعت کر لی پس تم مجھے فورا با خبر کرو تا کہ میں ان کے مقابل میں عمل کروں. ان شاء اللہ تعالی [مقتل الحسینؑ خوارزمی، 1/ 196؛ فتوح ابن اعثم، 5/ 31.]

لوگوں کو ابو سفیان کے خاندان کی حمایت سے باز رکھنا اور کوفہ کے لوگوں کو امامؑ کی اطاعت کی طرف دعوت دینا اور پھر کوفیوں کو ان کی بیعت اور طرفداری کیلئے متفق و متحد کر کے یکجا کرنا یہ تمام علامتیں اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ آپ کا مقصد ظالم و جابر غیر اسلامی حکومت کا خاتمہ کرنا ہی تھا اور اسی مقام پر ایک عادل و منصف حکومت کو مقائم مقام قرار دینا تھا. 

بہر حال تاریخی شواہد کی روشنی میں کہ جس کا احوال سابقہ بالا تحریر میں ہو چکا ہے ان میں سے سید الشہدؑا کی تحریک کے اہداف و مقاصد میں سے ایک غرض و غایت غیر اسلامی حکومت کا خاتمہ اور ایک اسلامی حکومت کو قائم مقام قرار دینا ہی تھا یعنی حقیقت میں خلافت کو اس کے اصلی مقام پر پلتانا تھا تا کہ اس خلافت اسلامی کے زیر سایہ وہی عدل و انصاف پروان چڑھے اور پھلے پھولے جو اسلام کی اصل روح ہے اور حق کو زندہ کرنا اور باطل و رجس کو نابود کرنے کے مترادف ہی ہو گا. 

ہم نے جو کچھ تحریر کیا ہے شائد ہم ابھی تک امام حسینؑ کے تمام ہی اغراض و مقاصد کو بیان نہیں کرسکتے ہیں لہذا دیگر محققین کیلئے یہی مناسب ہے کہ اس موضوع کےمیں مزید تحقیق و تلاش اور جستجو میں مشغول و مصروف ہو کر انہیں اجاگر کریں اور دنیا والوں کے سامنے حسینی مشن کو پیش کریں تا کہ سماج و معاشرہ ویسا ہی بن جائے جیسا ایمہ طاہرین علیہم السلام چاہتے تھے اور جس کے بنانے میں اپنی جانوں کا نذرانہ اللہ کی بارگاہ میں پیش کیا ہے. 

نیز یزید صفت سماج میں عناصر کی پسپائی اور ناکامی ہو اور معصومین طیبین (ع) کی کامیابی و کامرانی سارے عالم میں ہر چہار سو اپنا ڈنکا بجاتی رہے اور قیامت تک شیطان رجيم نامراد و رسوا ہوتا رہے. 

هدف قیام امام حسینؑ از زبان امامؑ

تحریر :  ناصر بہرامی

 

منبع: فرهنگ کوثر 1387 شماره 73





VIA PINTEREST


DEDICATED TO SHAHE KHORASSAN IMAM ALI IBNE MUSA REZA AS

 

Post a Comment

To be published, comments must be reviewed by the administrator *

جدید تر اس سے پرانی