اسلام میں حیوانات کے حقوق



via pinterest


اسلام میں حیوانوں کے حقوق

اور

ان کے مقام و منزلت پر ایک نظر



مترجم : أبو دانيال اعظمي بُرَير

مؤلف : ڈاکٹر محمد حسن قدیری ابيانه



}!{ فہرست مطالب }!{


★ حیوانات کیلئے شریعت کے مختصر احکام

۱-حیوانات کے ذریعہ خدا کی عبادت

۲-خداوند عالم سے حیوانات کا مطالبہ 

۳-حيوانات کے ساتھ حسنِ سلوک پر اجر و ثواب

۴-توہین حيوانات نیز لعن و طعن کی ممانعت 

۵-خداوند عالم سے حيوانات کی شکایت

۶-حيوانات کے ساتھ بد سلوکی پر عذاب و سزا

۷-غلات میں کیڑے مکوڑوں کا فائدہ


حق، حقوق اور فریضہ کے مفاہیم


لفظ حق کی جمع حقوق ہے اور "حق" وہ ایک اعتباری امر ہے کہ جو کسی دوسرے پر (عَلَیه) کسی فرد کیلئے (لَهُ) وضع کیا جاتا ہے. یا دوسرے لفظوں میں ایک اعتباری امر کو کسی کے نفع کیلئے اور دوسرے کے ضرر کی خاطر وضع کیا جاتا ہے. ممکن ہے کہ یہ حق واقعی اصول رکھتا ہو یا پھر نہ رکھتا ہو یعنی اس کے اعتباری اور حقوقی امر میں کوئی منزلت کا مفہوم پایا جاتا ہو یا نہ پایا جاتا ہو اس میں واقعی اصول ملحوظ خاطر نہیں رکھا ہے. (مصباح 1377، ص 24 و 25؛ مصباح 1373، ص 161 و 163)

حق میں کچھ لوازم موجود ہوتے ہیں کہ ان میں سے ایک لازمہ جو سب زیادہ واضحترین ہے وہ بہرہ ور ہونا یعنی محظوظ ہونا اور فائدہ اٹھانا ہے. (مصباح 1377، ص 28 و 29)

حق اور فریضہ ایک دوسرے سے تلازم اور دو طرفہ رابطہ رکھتے ہیں پس نتیجہ میں حق اور ذمہ داری متقابل کیلئے قرار دیا گیا ہے یعنی جہاں پر کوئی حق قرار دیا جاتا ہے تو وہیں پر ذمہ داری و عہدہ داری کو بھی وضع کیا گیا ہے اور اس کے بر عکس بھی ایسا ہی ہے؛ لیکن حق اختیاری ہوتا ہے اور ذمہ داری اجباری ہے. (مصباح 1377، ص 30 و 31)

فارسی زبان میں لفظ "حقوق" مختلف معانی میں استعمال ہوتا ہے. (کاتوزیان، 1378، ص 13 و 14)

لفظ «حقوق» كو دوسري اصطلاح ميں حق كي جمع قرار ديا ہے. (مصباح، 1377، ص 23 و 24)

لفظ حقوق فارسي ميں دو معاني ميں استعمال ہوتا ہے؛

اول: لفظ "حق" کی جمع حقوق ہوتی ہے.

دوم: قوانین کے مجموعہ کو بھی حقوق کہا جاتا ہے.

انسان کو چاہئے کہ احکام اور اوامر و نواہی جو کہ حیوانوں کے بارے میں ہیں ان پر عمل کرتا رہے.




★ جانداروں کے سلسلہ میں قرآنی آیات 


اس سلسلہ میں قرآن کی آیات بہت سی ہیں مگر ہم صرف تین ہی آیات کا تذکرہ کر رہے ہیں.

 چونکہ پیغمبر اسلام (ص) عالمین کیلئے رحمت قرار دئے گئے ہیں یہاں تک کہ حیوانی سماج و معاشرہ کیلئے بھی مبعوث برسالت ہوئے ہیں پس ہر جاندار کو مرسل اعظم (ص) کی امت قرار دیتے ہوئے قرآن کی آیات میں یوں ذکر ہوتا ہے:


۱- وَ مَا مِنْ دَآبَّةٍ فِى الْاَرْضِ وَلَا طَـآئِـرٍ يَّطِيْـرُ بِجَنَاحَيْهِ اِلَّآ اُمَمٌ اَمْثَالُكُمْ ۚ مَّا فَرَّطْنَا فِى الْكِتَابِ مِنْ شَىْءٍ ۚ ثُـمَّ اِلٰى رَبِّـهِـمْ يُحْشَرُوْنَ. (6: 38)

اور ایسا کوئی زمین پر چلنے والا نہیں اور نہ کوئی دو بازوؤں سے اڑنے والا پرندہ ہے مگر یہ کہ تمہاری ہی طرح کی جماعتیں ہیں، ہم نے ان کی تقدیر کے لکھنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، پھر سب اپنے رب کے سامنے جمع کیے جائیں گے۔

(انعام 38)


۲- وَكَاَيِّنْ مِّنْ دَآبَّةٍ لَّا تَحْمِلُ رِزْقَهَاۖ اَللَّـهُ يَرْزُقُهَا وَاِيَّاكُمْ ۚ وَهُوَ السَّمِيْعُ الْعَلِـيْمُ (29: 60)

اور بہت سے جانور ہیں جو اپنا رزق اٹھائے نہیں پھرتے، اللہ ہی انہیں اور تمہیں رزق دیتا ہے اور وہ سننے والا جاننے والا ہے۔

(عنكبوت 60)


۳- وَ لَاُضِلَّنَّـهُـمْ وَ لَاُمَنِّـيَنَّـهُـمْ وَ لَاٰمُرَنَّـهُـمْ فَلَـيُـبَـتِّكُنَّ اٰذَانَ الْاَنْعَامِ وَ لَاٰمُرَنَّـهُـمْ فَلَيُغَيِّـرُنَّ خَلْقَ اللّـٰهِ ۚ وَ مَنْ يَّتَّخِذِ الشَّيْطَانَ وَلِيًّا مِّنْ دُوْنِ اللّـٰهِ فَقَدْ خَسِـرَ خُسْـرَانًا مُّبِيْنًا.

(4: 119)

اور البتہ انہیں ضرور گمراہ کروں گا اور البتہ ضرور انہیں امیدیں دلاؤں گا اور البتہ ضرور انہیں حکم کروں گا کہ جانوروں کے کان چیریں اور البتہ ضرور انہیں حکم دوں گا کہ اللہ کی بنائی ہوئی صورتیں بدلیں اور جو شخص اللہ کو چھوڑ کر شیطان کو دوست بنائے گا وہ صریح نقصان میں جا پڑا۔ (نساء 119)

مذکورہ بالا تین آیات سے ہمیں تین اہمترین نکات کی طرف اشارہ ملتا ہے:

اول: یہ ہے کہ تمام ہی موجودات اپنے سماجی نظام کے ماتحت اور پابند ہیں. جیسے انسانوں کا معاشرہ، البتہ اس فرق کے ساتھ کہ انسان اور حیوان کی ذات میں ہے نیز ان کے معاشرہ کی بناوٹ بھی ایک دوسرے سے متفاوت ہے لیکن اس کے با وجود یہی فرق پایا جاتا ہے کہ حیوانوں کا معاشرہ حیوانی سماج ہے.

دوم: یہ ہے کہ انسان و حیوان دونوں کا ہی رزق و روزی پروردگار عالم کے ذمہ ہوتا ہے.

سوم: یہ ہے کہ مُثلہ کرنے کو شیطانی عمل شمار کیا ہے اور اسے بڑے نقصان سے تعبیر کیا گيا ہے.

مذكوره بال آيات كي مزيد تفصيل كيلئے علامہ طباطبائی (ر) کی عظم الشان تفسیر المیزان کا مطالعہ کیجئے.


حیوانات کیلئے شریعت کے مختصر احکام


دین اسلام میں ہر جاندار کی جان اس وقت تک محترم شمار کیا جتا ہے جن تک کہ وہ انسانوں کیلئے ضرر و نقصان کا سبب نہ قرار پائے اور یہ احترام حقوقی کے وضع کرنے کی مثال ان حیوانات کے سلسلہ میں قرار دئے گئے ہیں.

«نهى رسول الله (ص) عن قتل كل ذي روح إلا أن يؤذي»

ترجمه: رسول رحمت (ص) نے ہر جاندار کو (بلا وجہ) قتل کرنے سے منع فرمایا ہے مگر یہ کہ وہ مؤذی جانور ہو تو اسے مارنا ممنوع نہیں ہے. (كنز العمال 39981؛ ميزان الحكمة 3/ 1348/ 4539)


ان میں سے ہم بعض کو مختصر طور پر ذیل میں ذکر کر رہے ہیں.

۰۱- ہر جاندار جو کسی کے اختیار یا قبضہ میں ہے تو اسے چاہئے کہ اس جاندار کی زندگی کے وسائل فراہم کرے، اس کی معیشت میں جو ضروری امور ہیں نیز زندگی بسر کرنے کے دیگر ذرائع کو مہیا کرنا ضروری ہے.

۰۲- وسائل زندگی سے مراد عام طور پر مسکن و مکان، خوراک، پوشاک، کھانا، پینا، اور دوا وغیرہ ہے.

۰۳- اگر حیوان کھلی چراہ گاہ اور ایسے جگہوں میں جہاں پر وہ اپنے کھانے پینے اور زندگی بسر کرنے کے امور انجام دے سکتا ہے تو حیوان کے مالک کو چاہے تو اسے چرنے اور دیگر زندگی کے امور انجام دینے کیلئے آزاد کر سکتا ہے اور اگر حیوان یہ سب نہیں کر سکتا ہے تو اس کے مالک پر واجب ہے کہ حیوان کی معیشت کو فراہم کرے. اسی طرح اگر حیوان کو کافی حد تک کھانا پینا نہیں مل سکتا ہے تو مالک پر واجب ہے کہ بقیہ کھانا پینا جو کفایت کی حد تک ہو فراہم کرے گا.

۰۴- اگر حیوان کا مالک مندرجہ بالا وظائف کو انجام دینے سے بچتا ہے تو حاکم (شرع) پہلے اسے حکم دے گا اور مالک کو حیوان کی زندگی بسر کرنے کیلئے امور کو انجام دینے پر مجبور کرے گا.

۰۵- اگر حیوان کا مالک حاکم (شرع) کی اطاعت سے انکار کرتا ہے تو حاکم (شرع) کو چاہئے کہ دوسرے راستوں کا انتخاب کرے تا کہ حیوان اپنی زندگی بسر کرنے میں ہلاکت سے نجات پا سکے.

۰۶- اگر حیوان کے مالک کے منع کرنے کی صورت میں حاکم (شرع) مالک کے تمام جائداد میں سے کچھ (مقدار) کو فروخت کر سکتا ہے اور حیوان کے وسائل زندگی کو فراہم کرے اور اگر حیوان کی ضرورت پوری کرنے کیلئے مذکورہ امکانات کو کرایہ پر دینا بھی پڑے تو حاکم (شرع) یہ طریقہ کو بھی انجام دے گا.

۰۷- اگر حیوان کي ضرورت کا کھانا پینا اس کے مالک کے پاس موجود نہیں ہے اور کسی دوسرے شخص کے پاس یہی ضروریات زندگی موجود ہے تو مالک پر واجب ہے کہ ان ضروریات کو خریدے.

۰۸- جانور کا مالک بچہ کو اس کی ماں سے جدا نہیں كر سکتا. (شہیدی 1374، 286)

۰۹- حیوان کا ایک دودھ پیتا ہوا بچہ ہے تو اس کی ماں کے تھن میں بچہ کی کفایت بھر دودھ کا رہنا ضروری ہے لہذا اگر ماں کا دودھ صرف بچہ کی ضرورت بھر ہی ہوتا ہے تو ماں کے تھن سے دودھ دوہنا حرام ہے.

۱۰- تھن سے پوری طرح دودھ دوہنا نہیں چاہئے کیونکہ ایسا کرنے سے حیوان کو تکلیف ہوتی ہے.

۱۱- اگر دودھ دوہنا حیوان کیلئے نقصاندہ ہے جیسے حیوان کو پیٹ بھر کے کھانا نہیں ملتا ہے تو دودھ نکالنا حرام ہے.

۱۲- مناسب ہے کہ جو دودھ دوہنے والے کے ناخن کٹے ہوئے ہوں تا کہ حیوان کو تکلیف نہ پہونچے.

۱۳- شہد کے چھتّہ میں تھوڑا بہت شہد بچس کر رکھے تا کہ شہد کی مکھیاں بھوکی نہ رہیں.

۱۴- حیوان کو کسی بھی طرح کی تکلیف پہونچانا ممنوع ہے جیسے حد سے زیادہ اس کی پیٹھ پر بوجھ لادنا اور جانور کو مجبور کرنا تا کہ جلدی اور تیز چلے تو یہ عمل حیوان کو تکلیف دینا کہلاتا ہے اور ضرورت سے زیادہ ماربا بھی منع ہے.

۱۵- حیوان کو گالی دینا اور لعنت ملامت کرنا نیز چہرے پر مارنا ممنوع ہے.

جیسا کہ امیر المومنین (ع) نے فرمایا ہے کہ جو شخص بھی  حیوان پر لعنت کرتا ہے تو خدا بھی اسی پر لعنت کرتا ہے.

۱۶- حیوانات کا تفریح کی غرض سے شکار کیلئے نیز بلا ضرورت قتل کرنا حرام ہے اور اسی طرح تفریحی  شکار کی خاطر سفر پر جانا بھی معصیت شمار ہوتا ہے نیز وہ اپنی نماز پوری پڑھے گا. (قصر نماز نہیں کر سکتا.)

«ما من دابة طائر و لا غيره يقتل بغير الحق الاستخاصمة يوم القيامة»

ترجمہ: ہر پرندہ یا غیر پرندہ کو کوئی شخص نا حق قتل کرے گا تو قیامت کے روز مقتول خداوند عالم کی بارگاہ میں قاتل کی شکایت کرے گا. (ميزان الحكمة 3/ 1346/ 4536)

۱۷- حیوانات کو آپس میں لڑانا بھی مکروہ ہے اور ضرر کی صورت میں حرام کہا جا سکتا ہے.

۱۸- پرندوں کے گھونسلوں بچے کا شکار کرنا حرام ہے جب تک کہ وہ پرواز کرنے کے قابل نہ ہو جائیں کیونکہ پرندہ کا بچہ اپنے گھونسلہ کے اندر اللہ کی حفظ و امان میں ہوتا ہے.

«عن أبي عبد الله (ع) قال، قال رسول الله (ص) لا تأتوا الفراخ في أحشائها ولا الطير في منامه حتى يصبح، قال له رجل: ما منامها يا رسول الله؟ قال (ص) الليل، منامه فلا تطرقه في منامه حتى يصبح ولا تأتوا الفراخ في عشه حتى يريش ويطير فإذا طار فاوتر له قوسك وانصب له فخك» ايضا انه قال «نهى رسول الله (ص) عن بيات (إتيان) الطير بالليل و قال إن الليل أمان لها»

اس حدیث کا کچھ حصہ ۱۸ نمبر میں ترجمہ کر چکے ہیں. (فروع كافي 6/ 216/ 2 و 3؛ وسائل الشيعه 16/ 239 و 240/ ب 28، ح 1 و 2)

۱۹- حیوانات کو تفریح یا غیر تفریح کیلئے ایک دوسرے سے لڑانا یہاں تک کہ ایک دوسرے کی جان بھی لیں یا خونی لڑائی کرانے كا عمل بھی ممنوع ہے. (تفسير كشاف سوره انعام كي آيت نمبر 3 كے ذيل ميں ملاحظہ کیجئے.)

۲۰- حیوانات کے چہرے پر طمانچہ مارنا ممنوع ہے.

۲۱- حیوانات کو داغ دے کر نشان لگانا بھی ممنوع ہے.

۲۲- مالک کی گردن پر حیوان کے چھ حقوق ہیں؛

۱- جب اپنی سواری سے اترے تو سب سے پہلے اسے چارا کھانے کو دے. 

۲- جب کسی پانی کے چشمہ و تالاب سے گذر ہو تو اسے پانی پلائے.

۳- بلا وجہ اسے نہ مارے. 

۴- اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہ لادے. 

۵- اس کی قوت سے زیادہ راستہ طے نہ کرے.

۶- اس کی پشت پر زیادہ مدت کیلئے بیٹھا نہ رہے. (منتخب میزان الحکمه ۱۷۰)

«علی بن أبی طالب (ع) قال: قال رسول الله (ص) للدابة على صاحبها خصال ست: يبدأ بعلفها إذا نزل، ويعرض عليها الماء إذا مر به، و لا يضرب وجهها، فإنها تسبح بحمد ربها، ولا يقف على ظهرها إلا في سبيل الله عز و جل و لا يحملها فوق طاقتها  ولا يكلفها من المشي إلا ما تطيق»

حدیث مذکورہ کو ۲۲ نمبر میں ترجمہ کر چکے ہیں. (من لا يحضره الفقيه 2/ 187؛ الخصال 1/ 160؛ بحار 64/ 201/ 1 و 2؛ 210/ 16؛ فصول المهمة 3/ 248/ ب 75، ح 3077 - 1؛ ميزان الحكمة 3/ 1344/ 4524)

۲۳- اسلام کے حکم کے مطابق کتے کو قتل کرنا بھی دیت کا سبب قرار پاتا ہے: جیسے شکاری اور محافظ کتے کی دیت بالترتیب چالیس درہم اور بیس درہم شریعت نے معین کیا ہے. (المقنع شیخ صدوق ص 534)

۲۴- لہذا حیوانات کے محکمہ کے ذمہ داران كيلئے بھی مندرجہ ذیل کے وظائف کا خیال رکھیں؛

١. حیوان کے بچے اور اس کی ماں کے درمیان جدائی نہ ڈالیں.

٢. اس قدر حیوان کی پیٹھ پر بیٹھے نہ رہیں کہ ایسا کرنا حیوان کیلئے تکلیف کا باعث ہے لہذا اسے تمام حیوانات پر سوار ہونے کیلئے عدالت سے کام لینا چاہئے. یہ اصول و قانون بوجھ لادنے کو شامل نہیں ہے.

٣. اس قدر حیوان کی پیٹھ پر اتنا بھاری بوجھ نہ ڈالے کہ حیوان بھی زحمت میں پڑ جائے اور بوجھ کو دوسرے حیوانات ڈال کر بوجھ کو برابر کر دے.

٤. اگر. کوئی حیوان تھکا ہوا ہے تو اسے آرام کرنے کیلئے چھوڑ دے.

٥کام. کے گھنٹوں میں ہر چند گھنٹے میں حیوان کو مناسب وقت کیلئے چھوڑ دینا چاہئے. (مذکورہ مطالب حقوق حیوانات کے بارے میں "کتاب رسائل فقہی" علامہ محمد تقی جعفری از 113 تا 121 صفحات سے نقل کیا گیا ہے.)


۱- حیوانات کے ذریعہ خدا کی عبادت


اسلام کے نظریہ کے مطابق حیوانات بھی خدا کی عبادت کرتے ہیں.

★ پیامبر اسلام نے فرمایا ہے:

«قال رسول الله (ص): لا تضربوا وجوه الدواب و كل شئ فيه الروح، فإنه يسبح بحمد الله.»

ترجمہ: حیوانات کے چہرہ پر مت مارو اور ہر شئے میں اس کی روح ہوتی ہے کیونکہ وہ خدا کی تسبیح و حمد کرتے ہیں. (المحاسن البرقي 2/ 633/ 116؛ بحار الأنوار 61/ 204/ 6)


پیغمبر اکرم نے فرمایا:

«أن النبي (ص) مر على قوم وهم وقوف على دواب لهم و رواحل فقال لهم: "اركبوا هذه الدواب سالمة ودعوها (تدعوها) سالمة ولا تتخذوها كراسي لأحاديثهم في الطرق والأسواق فرب مركوبة خير من راكبها وأكثر ذكر الله تعالى منه.»

ترجمہ: صحیح و سلامت چوپایوں پر سوار ہوں اور انہیں صحت و سلامت رکھیں اور انہیں اپنی تقریر و بات چیت کیلئے بازاروں اور کوچوں میں کرسی قرار نہ دو کیونکہ بہت سی سواری اپنے سوار سے بہتر ہوتی ہے اور سوار سے زیادہ یہ حیوانات اللہ تبارک و تعالی کو یاد کرتے ہیں. (کنز العمال 24957؛ منتخب ميزان الحكمة 170؛ در المنثور للسيوطي 5/ 111؛ مجمع الزوائد 8/ 107، 33 - 144 باب النهي عن اتخاذ الدواب كراسي، 13225)


۲- خداوند عالم سے حیوانات کا مطالبہ


★ پيغمبر رحمت سے مروي ہے: «عربی متن حدیث باقی ہے»

ترجمہ: کوئی بھی حیوان ایسا نہیں ہے کہ وہ ہر صبح کو خداوند عالم سے یہ چاہتا ہے کہ پروردگار عالم اسے ایسا مالک عطا کرے جو ان کا پیٹ بھر کے کھانا اور پانی دے نیز ان کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہ دے. (فریدونی، 150، نقل حديث بزبان ابوذر)



۳- حيوانات کے ساتھ حسنِ سلوک پر اجر و ثواب


★ رسول الثقلین (ص) نے فرمایا ہے:

«عَنْ رَسُولِ اللَّهِ (ص) قَالَ: "‏غُفِرَ لاِمْرَأَةٍ مُومِسَةٍ مَرَّتْ بِكَلْبٍ عَلَى رَأْسِ رَكِيٍّ يَلْهَثُ، قَالَ كَادَ يَقْتُلُهُ الْعَطَشُ، فَنَزَعَتْ خُفَّهَا، فَأَوْثَقَتْهُ بِخِمَارِهَا، فَنَزَعَتْ لَهُ مِنَ الْمَاءِ، فَغُفِرَ لَهَا بِذَلِكَ‏"‏‏.‏» 

ترجمہ: ایک بری عورت تھی جس نے ایک کتے کو دیکھا جو کوئیں پر پیاسا بیٹھا ہوا تھا اور پیاس کی شدت سے اس کی حالت بہت خراب تھی تو اس عورت نے اپنی جوتی اتاری اور اوڑھنی سے باندھ کر اس کتے کیلئے کوئیں سے پانی نکالا پھر خداوند متعال نے اس کے گناہوں کو بخش دیا اسی ایک نیک عمل کی وجہ سے اس کی مغفرت ہوگئی. (کنز العمال 43116؛ منتخب ميزان الحكمة 170؛ صحيح البخاري, حدیث نمبر 3321)


۴- حيوانات کی توہین و لعنت کی ممانعت

 

★ امير المومنين (ع) نے فرمایا :«عربی متن حدیث باقی ہے»

ترجمہ: جو شخص بھی حیوانات کی لعنت و ملامت کرتا ہے تو خدا بھی اس پر لعنت و ملامت کرتا ہے.


★ اسي طرح حيوانات كو گالي دينا نیز لعنت کرنا اور چہرے پر مارنا ممنوع ہے.

جیسا کہ امير المومنين (ع) نے فرمایا ہے:

«قال أمير المؤمنين (ع) لا تضربوا الدواب على وجوهها، فإنها تسبح بحمد ربها.»

ترجمہ: حیوانات کے چہروں پر مت مارو کیونکہ وہ اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کرتے ہیں. (اصول كافي 6/ 538/ 4؛ الخصال 618/ 10؛ منتخب ميزان الحكمة 170؛ جعفری 1377/ 118؛ وسائل الشيعة 11/ 482، ب 10/ 15316 - 2؛ بحار الأنوار 61/ 204؛ المحاسن 2/ 633/ 117)


۵- خداوند عالم سے حيوانات کی شکایت


★ رسولخدا (ص) نے فرمایا ہے:

«أن النبي (ص) قال: من قتل عصفورا عبثا، جاء یوم القیامة يعج إلى الله يقول: يا رب إن هذا (عبدك) قتلني عبثا ولم ينتفع بي و لم يدعني قآكل من حشارة الأرض.»

ترجمہ: جس شخص نے بھی گوریا کو بغیر ضرورت کے مارا تو وہ چڑیا قیامت کے روز خداوند منان کی بارگاہ میں شکایت کرتے ہوئے کہے گی. اے میرے پالنے والے مجھے فلاں نے بلا وجہ قتل کیا  اور مجھ سے فائدہ نہیں اٹھایا لہذا اب تو ہی میرے اور اس قاتل کے درمیان عدل و انصاف کر. یہی اس کی فریاد ہوگئی. (کنز العمال 39971؛ منتخب ميزان الحكمة 170؛ بحار الأنوار 61/ 306 و 270؛ 64/ 4؛ حياة الحيوان دميري 2/ 1348/ 4537)


★ ايک حدیث میں ہے کہ مالک کی زیادتی کیلئے محشر کے دن اللہ کی بارگاہ میں انصاف کی خاطر خود حیوان فریادی ہوگا: 

«أن النبي (ص) أبصر ناقة معقولة وعليها جهازها، فقال: أين صاحبها.؟ مروه فليستعد غدا للخصومة.»

پیغمبر خدا (ص) نے ایک ناقہ یعنی مادہ اونٹ دیکھا جس کا زانو بندھا ہوا تھا اور سامان بھی اس کی پیٹھ پر ویسے ہی رکھا ہوا تھا، پیغمبر اسلام (ص) نے پوچھا: اس کا مالک کہاں ہے.؟ اسے اونٹ کے انصاف کیلئے خداوند متعال کی بارگاہ میں قیامت کے روز اپنے کو آمادہ و تیار کرنا چاہئے. (بحار الانوار 7/ 276/ 50؛ منتخب ميزان الحكمة 170؛ وسائل الشيعة 11/ 540/ ب 49، 15483 - 1)


۶- حيوانات کے ساتھ بد سلوکی پر عذاب


★ پیغمبر اسلام (ص) نے فرمان امیر المومنین (ع)، نقل شده ہے:

«سمعت رسول الله (ص) يقول: إیاکم والمثلة ولو بالکلب العقور»

پیامبر (ص) نے فرمایا ہے: کہیں ایسا نہ ہو کہ تم کسی حیوان کا مثلہ کرو چاہے پاگل کتا ہی کیوں نہ ہو. (نهج البلاغه، باب رسائل 422)

جو شخص بھی حیوان کا مُثلہ کرے (اس سے مراد ہاتھ، پیر، آنکھ، ناک، کان و دُم کو جسم سے کاٹنا اور جدا کرنا) گا تو خداوند عالم ایسے شخص پر لعنت کرتا ہے.

«لَعنَ اللّه ُ مَن مَثَّلَ بالحَیوانِ»

جس نے بھی حیوان کا مثلہ کیا اس پر اللہ کی لعنت ہے. (کنز العمّال 24971)


★ رسولخدا (ص) سے معراج کا ایک منظر منقول ہے:

«جزاء تعذيب الحيوان - رسول الله (ص): عذبت امرأة في هر ربطته حتى مات ولم ترسله فيأكل من خشاش الأرض، فوجبت لها النار بذلك.»

(كنز العمال: 43695؛ ميزان الحكمة 1/ 713/ 984)

ترجمہ: جب میں شب معراج گیا اور آتش جہنم کی طرف سے میں نے عبور کیا تو میں نے ایک عورت کو عذاب کی حالت میں دیکھا، میں نے اس پر عذاب ہونے کی علت پوچھا، تب کہا گیا کہ اس نے ایک بلی کو قید و بند کر رکھا تھا اور اسے کھانا پینا نہیں دیتی تھی اور اسے زمین سے کیڑے مکوڑوں کو بھی استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیتی تھی، یہاں تک کہ وہ بلی مر گئی، پس خداوند متعال اس نامناسب عمل کی وجہ سے اس پر عذاب نازل کر رہا ہے. (مکارم الأخلاق 1/ 280/ 864؛ منتخب ميزان الحكمة 170)


★ نیز یہ بھی فرمان پایا جاتا ہے:

«أبي عبد الله (ع) قال: إنّ إمـرأة عُـذِّبَتْ فی هِرّةٍ رَبَطتْها حتّى ماتَتْ عَطَشا» 

ایک عورت نے بلی کو باندھ رکھا تھا یہاں تک کہ وہ پیاس کی شدت سے مر گئی اسی کے سبب وہ عذاب میں مبتلا ہو گئی ہے. (جامع أحاديث الشيعة 16/ 922، * 40 - باب حكم قتل الهرة والبهيمة ومثلتها وايذائها * 3294 (1) الثواب 327؛ وسائل الشيعة (آل البیت) 29/ 14/ أبواب القصاص في النفس، ١ ـ باب تحريم القتل ظلما، 35033 - 13)


خصي كرنے كي ممانعت:


پیغمبر اسلام (ص) نے اپنی زبان مبارک ہے حیوانات کو خصی کرنے کی ممنوع قرار دیا ہے:

«نهى (ص) عن خصاء الخيل والبهائم»

ترجمہ: پيغمبر اكرم (ص) نے گھوڑوں اور جانوروں کو خصی کرنے سے منع فرمایا ہے. (كنز العمال هندي 9/ 66/ 24977)


۷- غلات میں کیڑے مکوڑوں کا فائدہ


صادق آل محمد (ع) کی ایک حدیث کے ذریعہ غلہ میں  کیڑے مکوڑے پڑنے کی وجہ کا تذکرہ ہے:

«قال أبو عبد الله (ع) إن الله عز و جل تطول على عباده بالحبة فسلط عليها القملة و لو لا ذلك لخزنتها الملوك كما يخزنون الذهب و الفضة.»

امام (ع) نے فرمایا: خداوند منان نے (جو، گیہوں، چاول وغیرہ) جیسی نعمت دے کر بندوں پر احسان کیا ہے اور اس کی آفت کیڑے پرنے کو قرار دیا ہے اور اگر ایسا نہ ہوتا تو طاقتور لوگ اسے بھی سونے چاندی کے مثل ذخیرہ اندوزی کرتے رہتے. (بحار الأنوار 103/ 87/ 3؛ ميزان الحكمة 1/ 666/ 912؛ علل الشرائع 1/ 298)


تمت بالخیر به نستعین و هو خیر المعین

$}{@J@r



DEDICATED TO SHAHE KHORASSAN IMAM ALI IBNE MUSA REZA AS

Post a Comment

To be published, comments must be reviewed by the administrator *

جدید تر اس سے پرانی