عیادت کی اہمیت اور آداب


 





via Pinterest


مریض کی عیادت کی اہمیت اور آداب


تحریر: محمد مہدي فجری


ترجمہ : ابو دانیال اعظمی بریر


★ بیمار کی عیادت کی اہمیت

    اول : مومنوں کی عیادت 
    دوم : پڑوسیوں کی عیادت 

    سوم : سادات کی عیادت 

    چہارم : فقیروں کی عیادت 


★ عیادت کے آداب

    ۱۔ عیادت کیلئے کم از کم ١ میل کا سفر

    ۲۔ کامل عیادت کرنا

    ۳۔ بیمار کو تحفہ و ہدیہ دینا

    ۴۔ بیمار کے سرہانے دعا کرنا

    ۵۔ بیمار کو زندگی کی امید دلانا

    ۶۔ عیادت کے دنوں کے درمیان فاصلہ ہونا

    ۷۔ عیادت کا مختصر ہونا۔

    ۸۔ عیادت میں ۳؍ روز کا وقفہ رکھنا۔

    ۹۔ بیمار کے پاس کچھ نہیں کھانا چاہئے۔

  ١٠۔ جس نے عیادت نہیں کی اسی کی عیادت۔

    ۱۱۔ جن بیماروں کي عیادت منع ہے.


★ عیادت کا اجر و ثواب

    ۱۔ رحمت الہی شامل حال ہوتی ہے.

    ۲۔ عائد کی قبر میں فرشتے کا ساتھ ہونا.

    ۳۔ فرشتے طلب مغفرت کرتے ہیں

    ۴۔ عیادت صدقہ کی ایک نوعیت ہے

  ۵۔ بیمار کی دعا عائد کے حق میں مستجاب ہے

★ بیمار کی تیمارداری

امام ششم کی روایت میں تیمار داری کی اہمیت
صحیفہ سجادیہ کی ایک دعا

منبع : سایت ذی طوی


مقدمہ

    اخلاقی فضائل اور اخلاق حسنہ کی علامات میں سے ایک فضیلت و حسن اخلاق اور لوگوں کے ساتھ حسن سلوک کی علامت ونشانی مریض کی عیادت کرنا ہے کہ اسلام کے شرع مقدس میں اس کے بارے میں بہت زیادہ اصرار ہوا ہے۔

مسلمانوں کا ایک دوسرے مریض کی عیادت کرنا بھی ایک لازمی حقوق میں شامل ہے نیز اس کی ادائیگی کو اپنا وظیفہ اورذمہ داری جانیں۔ 

عیادت کے معنی 

    لغت میں لفظ «عیادت» کے معنی کسی کی ملاقات کی خاطر جانا ہے اورکثرت استعمال کی وجہ سے اب مخصوص معنی میں تبدیل ہوا ہے یعنی مریض کی ملاقات کیلئے جانا ہے۔ [ابن منظور، محمد بن مکرم، لسان العرب،  ۳/ ۳۱۹، دار صادر، بیروت.]

جذباتی تعلقات

اسلامی معاشرہ کے افراد کے درمیان ایک دوسرے کے ساتھ حقیقی و جذباتی تعلقات کو انسانی کمالات تک پہونچنے اور تقویت دینے کی خاطر شریعت نبوی کی راہ پر چلنے اور عظیم مقاصد تک پہونچنے کے واسطہ صراط مستقیم طے کرنےکیلئے ہے۔

    »بیماروں کی عیادت«  کرنے کا عمل مذکورہ بالا ان اہداف کے تحقق کا ایک وسیلہ ہو تا ہے:

ایک طرف تو رنجیدہ مریض کیلئے مرہم و تسکین کا باعث ہوتا ہے۔

دوسری طرف عیادت کرنے والے کے بہت سے اخلاقی اورتربیتی فضائل پہونچنے کا سبب ہوگا۔

تیسری طرف بھی افراد معاشرہ میں (دوستوں کے درمیان) اور گروہوں کے درمیان (خاندانوں میں) روابط کو تقویت دینا اور ان کے درمیان عداوتوں و کینوں اور دشمنیوں کو ختم ہونے کیلئے انجام دیا جاتا ہے.

یہ روابط و تعلقات اسلامی معاشرہ کی وسیع سطح پر ہمدلی و ہمدردی میں اتحاد اور تعاون کی بنیاد تشکیل پاتی ہے۔

    ۳؍ اہمترین نکات کی طرف توجہ فرمائیں:

۱۔ عیادت کی اہمیت و فضیلت اور تیمارداری ان کیلئے بیان ہوا ہے جو غیر رشتہ دار و خاندان کے مریض ہوں۔

۲۔ اگر مریض والدین یا قریب اور بعید کے رشتہ دار یا خاندان کے افراد ہیں تو مذکورہ ثواب میں صلہ رحم کرنے کا ثواب بھی جو کہ واجب امر ہے کا بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔

۳۔ عیادت کے دنوں کے درمیان ۳؍ دنوں کا فاصلہ ہونا چاہئے اور عیادت بھی مختصر ہونی چاہئے۔


بیمار کی عیادت کی اہمیت

    بیماروں کی عیادت و ملاقات کی اہمیت کے بارے میںہادیان اسلام کے اقوال و روایات کی تحقیق و تجزیہ سےیہی معلوم ہوتا ہے کہ بیماروں کی عیادت و ملاقات کرنے سے دوستی و اخلاص میں اضافہ اور کدورتوں و کینوں کو ختم کرنے کا باعث نیز آخرت میں کثیر اجرو ثواب کا سبب قرار دیا ہے۔  

  رہبر معظم کا بیان: اسلام کے انسان ساز مکتب میںبیمار و مریض کی عیادت و ملاقات خاص طور پر قدر و منزل کا حامل ہے؛ کیونکہ اس نیک عمل میں خداوند عالم کی رضا شامل ہوتی ہے اور انسانی و اخلاص نیز اخوت و برادری کے تحکیم روابط میں قابل ذکر کردار ایفا کرتا ہے۔ 

    اسی دلیل کی بنا پر اللہ تعالی نے سورہ جمعہ کی آیت نمبر ۱۰میں ارشاد فرمایا ہے:

»فَإِذا قُضِيَتِ الصَّلٰوةُ فـَإنـْتـَشـِرُوا فـِي الأَرْضِ.....«

پس جس وقت نماز جمعہ تمام ہو جائے تو [تم سب آزاد ہو] زمین پر منتشر ہو جاؤ۔

جس کی تفسیر میں رسولخداؐ نے فرمایا ہے:دیگر اخلاقی اقدار اعلی کے پہلو میں بیمار کی عیادت کا بھی تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا ہے:»مذکورہ آیت میں [زمین پر پھیلنے] سے مراد یہ ہے کہ دنیا کے امور کو طلب کرنا نہیں ہے، بلکہ ا س آیت کا مقصود نظراللہ کی خاطر بیمار کی عیادت، تشییع جنازہ اور برادر دینی سے ملاقات کرنا ہی ہے۔« (مجمع البيان فی تفسير القرآن، فضل بن حسن طبرسی، ناصر خسرو، تہران، 1372 ش، 10/ 435.)

پیغمبر اسلامؐ نے خدا وند متعال کی بارگاہ میں عیادت کے مقام و منزل اور فضیلت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے:

»يُعَيِّرُ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ عَبْداً مِنْ عِبَادِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَيَقُولُ عَبْدِي مَا مَنَعَكَ إِذَا مَرِضْتُ أَنْ تَعُودَنِي، فَيَقُولُ سُبْحَانَكَ سُبْحَانَكَ أَنْتَ رَبُّ الْعِبَادِ لَا تَأْلَمُ وَلَا تَمْرَضُ، فَيَقُولُ مَرِضَ أَخُوكَ الْمُؤْمِنُ فَلَمْ تَعُدْهُ، وَعِزَّتِي وَ جَلَالِي لَوْ عُدْتَهُ لَوَجَدْتَنِي عِنْدَهُ، ثُمَّ لَتَكَفَّلْتُ بِحَوَائِجِكَ فَقَضَيْتُهَا لَكَ، وَذٰلِكَ مِنْ كَرَامَةِ عَبْدِيَ الْمُؤْمِنِ وَأَنَا الرَّحْمٰنُ الرَّحِيمُ« (امالی، شيخ طوسی، دار الثقافہ، قم، 1414 ق، ص 629.)  

خداوند متعال قیامت میں اپنے تمام بندوں میں سے بعض بندوں کی سرزنش و مذمت کرتے ہوئے فرمائے گا: جب خداوند عالم [اپنے بندہ سےخطاب کرتے ہوئے ] فرمائے گا: اے میرے بندوں ! کونسی چیز تمہیں مانع ہوئی ہے کہ جس وقت کوئی بیمار ہوتا ہے تو تم اس کی عیادت کیلئے کیوں نہیں جاتے؟تو (بندہ) جواب میں عرض کرے گا:تو پاک و پاکیزہ اور تمام بندوں کا پروردگار ہے، غم و الم تجھے نہیں پہونچتا اور توبیمار بھی نہیں ہوتا، تو پھر خدا وند متعال فرمائے گا: تمہارا برادر مومن بیمار ہوا تھا اور تم نے اس کی عیادت نہیں کی، پس میری عزت و جلال کی قسم ! اگر تم نے اس کی عیادت کی ہوتی تو تم مجھے اسی جگہ پاتے ؛ پھر میں تمہاری خوائج کی کفالت کرتا اور ان حوائج کو تمہارے لئے برآوردہ بھی کرتا اور یہ میرے مومن بندہ کی کرامت کے سبب ہے اور میں رحمان (دنیا میں تمام مخلوقات پر رحم کرنے والا ) رحیم (محشر میں مومنین پر اپنی رحمت کی نگاہ ڈالنے والا) ہوں۔

امیر المومنینؑ نے بھی بیمار کی عیادت کی اہمیت کو دیگر نیک اعمال کے ساتھ مقائسہ کرتے ہوئے یہ فرمایا ہے:

»مِنْ أَحْسَنِ الْحَسَنَاتِ عِيَادَةُ الْمَرِيضِ« (مستدرک الوسائل، مؤسسۃ آل البيت، قم، چاپ اول، 2/ 77.) اعمال حسنہ میں سے بیمار کی عیادت کرنا ہے۔

ہم سیرت پیغمبراسلامؐ میں دیکھتے ہیں کہ آنحضرتؐ ہمیشہ (چاہے مسلم ہو یا غیر مسلم) بیمارو ں کی عیادت کیا کرتے تھے۔ (مکارم الاخلاق، حسن بن فضل طبرسی، شريف رضی، قم، چاپ چہارم، 1412 ق، ص 15.)

 نیز اہمترین نکتہ یہ بھی ہے پیغمبر اکرمؐ دوسروں کو عیادت کرنے کی تلقین فرمایا کرتے تھے جیسا کہ امام صادقؑ سے منقول روایت میں سب سےپہلا تذکرہ اسی کے بارے میں ہی ملتا ہے:

عن جعفر بن محمد عن أبیہ عن آبائہ  (ع):  إِنَّ رَسُولَ اللهِ أَمَرَهُمْ بِسَبْعٍ، وَ نَهَاهُمْ عَنْ سَبْعٍ، أَمَرَهُمْ: »بِعِيَادَةِ الْمَرْضَى وَاتِّبَاعِ الجَنَائِزِ، وَإِبرَارِ القَسَمِ، وَتَسمِیتِ العَاطِسِ، وَنُصرَۃِ المَظلُومِ، وَإِفشَاءِ السَّلَامِ وإِجَابَۃِ الدَّاعِی«  و نَهَاهُم: »عَنِ التَّخَتُّمِ بِالذَّهبِ وَالشُّربِ فِي آنِيةِ الذَّهَبِ وَالفِضَّةِ وَعَنِ المَيَاثرِ الحُمُر وَعَنِ لِبَاسِ الإِستَبرِقِ وَالحَرِيرِ وَالغزّ وَالأَرجَوَان۔« (وسائل الشيعہ، حر عاملی، مؤسسہ آل البيت، قم، چاپ اول، 1409ق، 12/ 213، [۱۶۱۱۵] ۵ـ۲، ۱۲۲۔ باب وجوب أداء حق المؤمن و جملة من حقوقه الواجبة و المندوبة.بحار الانوار، 76/ 338.) 

امام صادقؑ اپنے پدر بزرگوار امام باقرؑ سے نقل کرتے ہیں کہ بتحقیق رسولخداؐ نے ۷؍ امور کا دستوردیا ہے اور ۷؍ امور سے منع فرمایا ہے؛

جن ۷؍ امور کا حکم فرمایا ہے مذکور ہیں:

۱۔ بیماروں کی عیادت کرنا ہے،

۲۔ جنازہ کی تشییع کرنا ہے،

۳۔جس چیز کی بھی قسم کھایا ہے اس پر اچھی طرح سے عمل کرنا ہے،

۴۔ چھینکنے پر »يَرحَمُكَ الله« کے دعائیہ کلمات ادا کرنا ہے،

۵۔ مظلوم کی مدد کرنا ہے،

۶۔ سلام کا اظہار کرنا ہے،

۷۔ برادر مومن کی دعوت قبول کرنا ہے.

جن امور سے آنحضرت نے منع فرمایا ہے وہ ۷؍چیزیں یہی درج ذیل ہیں:   

۱۔ سونے کی انگوٹھی پہننا ہے،

۲۔ سونے اور چاندی کے برتن میں کچھ کھانا اور پینا،

۳۔ سرخ تشکوں کا استعمال کرنا،

۴۔ حریر

۵۔ دیبا

۶۔ نوغان

نمبر ۴ و ۵ و ۶ میں ریشمی کپڑے کی قسمیں ہیں جن کا لباس پہننا، (یہ تینوں کپڑے ابریشم سے ہی تیار کئے جاتے ہیں.)

۷۔ ارغوانی (بھگوا یا زعفرانی) رنگ کا کے لباس کا استعمال کرنا۔


یکم: مومنین کی عیادت 

    دين اسلام، مومن انسان کیلئے خاص طور سے احترام کا قائل ہوتا رہا ہے، یہ احترام اس مقام تک ہوتا ہے کہ رسول اکرمؐ ایک حدیث میں فرماتے ہیں:

»الْمُؤْمِنُ حَرَامٌ كُلُّهُ عِرْضُهُ وَ مَالُهُ وَ دَمُه« (مستدرک الوسائل، 9/ 136.)

مومن کی ایک چیز [جیسے] اس کی ناموس، اس کا مال اور اس کا خون محترم ہے۔ (کسی کو بھی یہ حق حاصل نہیں ہے کہ مومن کی عزت و ناموس، مال و دولت اور خون پر دست درازی کرے۔)

    دین کی نظر میں تو مومن کو گالی دینا بھی فاسق ہونا اور اس سے جنگ کرنا کفر کا سبب ہے نیز اس کی غیبت کرنا بھی ایک عظیم گناہ اور مال کو محترم شمار کیا جاتا ہے یہ اسی طرح سے محترم ہے جیسے [بلا وجہ یعنی بے جرم و خطا] اس کے خون بہانے کو حرام قرار دیا ہے۔ (من لا يحضرہ الفقيہ، شيخ صدوق، جامعہ مدرسين، قم، 1413 ق، 3/ 69.)

بستر بیماری میں عیادت کرنے کے بارے میں مومن کے اکرام کی تاکید اور ان کے مقام و منزلت کی توقیر کرنا نیز بیماری میں بھی اس کی عیادت کرنے کو اولیائے دین نے اسی دلیل کی بنا پربہت تاکید فرمایا ہے ۔

    امام صادقؑ کی زبانی رسولخداؐ اپنی ایک حدیث میں ایک فرد مومن کا دوسرے مومن پر ۷؍ حقوق کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

الإمام الصادق (ع) قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ : »لِلْمُؤْمِنِ عَلىٰ الْمُؤْمِنِ سَبْعَةُ حُقُوقٍ وَاجِبَةٍ مِنَ اللهِ عَزَّ وَ جَلَّ عَلَیْهِ الْإِجْلَالُ لَهُ فِی عَیْنِهِ وَ الْوُدُّ لَهُ فِی صَدْرِهِ وَ الْمُوَاسَاةُ لَهُ فِی مَالِهِ وَ أَنْ یُحَرِّمَ لَهُ غِیبَتَهُ »وَ أَنْ يَعُودَهُ فِي مَرَضِهِ« وَ أَنْ یُشَیِّعَ جَنَازَتَهُ وَ أَنْ لَا یَقُولَ فِیهِ بَعْدَ مَوْتِهِ إِلَّا خَیْراً« (من لا يحضرہ الفقيہ، 1413 ق، 4/ 398؛ الخصال ۲۷/ ۳۵۱.)

بقول امام صادقؑ کے فرمان رسولخداؐ ہے: خداوند متعال نے ہر ایک مؤمن پر دوسرے مومن کے ۷؍ حقوق واجب قرار دئے ہیں:

 ۱۔ اپنی آنکھوں میں اس کی تجلیل و تکریم شمار کرے۔

۲۔ قلبی طور پر اس سے مودت اختیار کرے۔

۳۔ مالی امور میں اس کے ساتھ مواسات کا سلوک اختیار کرے۔  

۴۔ اس کی غیبت اور بد گوئی کو حرام سمجھا کرے۔

۵۔ جب وہ بیمار پڑے تو اس کی عیادت کرے۔

۶۔ اس کی وفات پر جنازہ کی تشییع میں شرکت کرے۔

۷۔ اس کی موت کے بعد سوائے خیر و نیکی کے یاد نہ کرے۔


دوم: پڑوسیوں کی عیادت

    قرآن کريم کے دستورات میں سے اور اسی طرح ہر مسلمان کے واجب حقوق میں سے یہی ہے کہ اپنے پڑوسیوں کے حقوق کی رعایت کرتا رہے۔ 

    اسی بنا پر رسولخدؐا نے فرمایا ہے: »مَا زَالَ [جَبْرَئِيلُ] يُوصِينِي بِالْجَارِ حَتّٰى ظَنَنْتُ أَنَّهُ سَيُوَرِّثُہُ‏« (من لا يحضرہ الفقيہ، شيخ صدوق، جامعہ مدرسين، قم، 1413 ق، 1/ 52.)

    »[جبرئيل] پڑوسیوں کے سلسلہ میں مجھے اس قدر سفارش کرتے تھے کہ مجھے یہ گمان ہونے لگا کہ ہمسایہ کی میراث میں وراثت دینا پڑ جائے گا۔ «

    قرآن کریم میں پڑوسیوں کے بارے میں اس قدراہمیت دینا ہی کافی ہے کہ یہ زندہ جاوید اور قیامت تک باقی رہنے والی کتاب الہی میں اللہ کی عبادت کے بعد ماں باپ، رشتہ داروں اور اعزہ و اقربا کے ساتھ نیکی و بھلائی کرنے نیز پڑوسیوں کے حقوق کو بہترین انداز میں ہمیشہ ادا کرنے کی تاکید فرمائی ہے۔

    جیسا کہ ارشاد ربانی میں بیان ہوا ہے: »وَ أعبُدُوا اللہَ وَ لَا تُشرِکُوا بِہِ شَیئاً وَ بِالوَالِدَینِ إِحسَاناً وَ بِذِی القُربیٰ وَ الیَتَامیٰ وَ المَسَاکِینِ وَ الجَارِ ذِی القُربیٰ وَ الجَارِ الجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بِالجُنُبِ وَ إبنِ السَّبِلِ وَ مَا مَلَکَت أَیمَانُکُم إِنَّ اللہَ لَا یُحِبُّ مَن کَانَ مُختَالاً فَخُوراً« (سورہ نساء  36.)  

  اور اللہ کی عبادت کیا کرو اور اس کو کسی کا شریک قرار مت دو اور والدین (ماں باپ) اور رشتہ داروں اور یتیموں اور مساکین اور رشتہ دار پڑوسی اور اجنبی پڑوسیوں اور اجنبی مصاحب اور مسافر اور اپنے غلام و کنیز کے ساتھ نیکی اور بھلائی کروبیشک اللہ متکبر اور فخر فروش سے محبت نہیں رکھتا۔

١. اللہ تعالی کی عبادت یعنی حقوق اللہ

مندرجہ ذیل افراد کے ساتھ ہر حال میں نیکی و بھلائی اور حسن سلوک کرتے رہو:

٢. والدین یعنی حقوق العباد

٣. رشتہ دار یعنی حقوق العباد

۴. یتیموں یعنی حقوق العباد

۵. مساکین یعنی حقوق العباد

۶. رشتہ دار پڑوسی یعنی حقوق العباد

٧. اجنبی پڑوسی (غیر رشتہ دار) یعنی حقوق العباد

٨. اجنبی مصاحب و ہمراہی یعنی حقوق العباد

٩. مسافر یعنی حقوق العباد

١٠. اپنے ما تحت افراد جیسے غلام و کنیز اور اور ملازم و نوکرانی وغیرہ یعنی حقوق العباد

    قرآن کریم میں اہمترین نکتہ تو یہی ہے کہ قریبی رشتہ دار پڑوسی کے تذکرہ کے ساتھ ہی غیر رشتہ دار پڑوسی کے بھی حقوق کی رعایت کرنے کا بھی ذکر صراحت کے ساتھ کیا ہے۔ (حوالہ سابق)

    پڑوسی کے حق و حقوق کے بارے میں ائمہ معصومینؑ نے بھی اپنے فرامین میں بہت زیادہ تاکید فرمانے کی خبریں ہم تک پہونچی ہے کہ جس میں سے ایک بیمار پڑوسی کی عیادت کرنا بھی شامل ہے. (چاہے وہ پڑوسی کسی بھی دین و مذہب اور ملت سے تعلق رکھتا ہو.)

    چنانچہ رسولخداؐ فرماتے ہیں: »أَ تَدْرُونَ مَا حَقُّ الْجَارِ؟ قَالُوا لَا، قَالَ: إِنِ اسْتَغَاثَكَ أَغَثْتَهُ وَ إِنِ اسْتَقْرَضَكَ أَقْرَضْتَهُ وَ إِنِ افْتَقَرَ عُدْتَ عَلَيْهِ وَ إِنْ أَصَابَتْهُ مُصِيبَةٌ عَزَّيْتَهُ وَ إِنْ أَصَابَهُ خَيْرٌ هَنَّأْتَهُ وَ إِنْ مَرِضَ عُدْتَهُ وَإِنْ مَاتَ تَبِعْتَ جَنَازَتَهُ« (مسکن الفؤاد، شہيد ثانی، کتابخانہ بصيرتی، قم، ص 114.)

کیا تم جانتے ہو کہ پڑوسی کا حق کیا ہے؟ لوگوں نے عرض کیا: ہمیں نہیں معلوم، آنحضرت نے فرمایا: اگر وہ تم کو مدد کیلئے پکارے تو تم اس کی مدد کرو اور اگر وہ تم سے قرض طلب کرے تو تم اسے قرض دو اور اگر محتاج ہو تو اس کی ضرورت کو پوری کرو اور اگر اسے کوئی مصیبت پہونچے تو تم اسے تعزیت پیش کرو اور اگر اسے کوئی خیر پہونچے تو تم اسے مبارکبادیں دو اور اگر وہ بیمار پڑ جائے تو تم اس کی عیادت کرو اور اگر وہ اس دنیا سے سفر آخرت پر جائے تو تم اس کے جنازہ کی تشییع میں شرکت کرو۔

     یہاں تک کہ سيرت پیغمبر اسلامؐ میں یہودی پڑوسی کی بھی عیادت کرنے کا تذکرہ ملتا ہے: »و بهذا الاسناد عنه (ع) ان النبی عاد یهودیا فی مرضه« (مسدرک الوسائل، محدث نوری، تحقیق مؤسسة آل البیت لاحیاء  التراث، 2/ 77، [۱۴۶۲] ۱۴، ۶۔ باب إستحباب المریض المسلم و کراهة ترک عیادتة۔)


سوم: سادات کی عیادت

     ہمارے ائمہؑ طاہرین کی سيرت میں بنی ہاشم یعنی سادات کیلئے خاص مقام و احترام اور پیغمبر اکرمؐ کی متقی و پرہیزگار اولاد کا ذکر ہوا ہے کہ یہ عزت و احترام پیغمبر اسلامؐ کی ذات با برکت کی ایک طرح سے تعظیم و تکریم ہے۔

انہی سادات کی عیادت کے بارے میں رسولخداؐ  فرماتے ہیں: »عن موسی بن إسماعیل بن موسی بن جعفر (ع) عن أبیه عن آبائه (ع) قال: قال رسول اللہ ﷺ عِيَادَةُ بَنِي هَاشِمٍ فَرِيضَةٌ وَ زِيَارَتُهُمْ سُنَّةٌ« (مسدرک الوسائل، محدث نوری، تحقیق مؤسسة آل البیت لاحیاء التراث، 2/ 79، [۱۴۶۹] ۲۱، ۶۔ باب إستحباب المریض المسلم و کراهة ترک عیادته)

امام موسی کاظمؑ اپنے اجداد سے رسول اکرمؐ کی ایک حدیث نقل کرتے ہیں کہ بنی ہاشم (سادات) کی عیادت کرنا فریضہ ہے اور ان سے ملاقات کرنا سنت ہے۔


چہارم: فقیروں کی عیادت

    اسلام کی خصوصی عنایات میں شامل ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ فقیروں اور مساکین کی خبر گیری کرنا چاہئے، دین اسلام نے عام مسلمانوں کو ان کی مصاحبت و ہم نشینی کی دعوت بھی دی ہے۔ تا کہ اس راہ میں ایک بنیادی اصول فقیری کو ختم کرنے اور غربت کے منفی و برے اثرات کے خاتمہ کیلئے سنجیدگی کے ساتھ محتاج و ضرورتمند خاندان کی مدد کرتے رہیں اور یہ تمام چیزیں اسی وقت ممکن ہو سکتی ہے کہ جب ہم ان لوگوں کی واقعی زندگی کا قریب سے مشاہدہ کریں نیز آگاہ بھی ہوں اور اس فقیر و غریب خاندان کی ناکامی ، بھوک و پیاس اور مختلف ضرورتوں کے آثار کو احساس کرنے ہی کے بارے میں ایک مشہور و معروف ضرب المثل بھی ہم سنتے اور پڑھتے ہیں۔  »شنيدن کی بود مانند ديدن؟«

    اسی رہگذر سے اسلام کے مقامات میں سے ایک مقام یہی ہے کہ فقرا کے ساتھ مصاحبت و ہمنشینی کی تصریح فرماتے ہیں کہ ان لوگوں کی بیماری کے وقت عیادت کرنا ہے؛ کیونکہ عیادت کرنا مومنین کے درمیان رابطہ میں سب سے زیادہ الفت و محبت اور دوستی و خلوص کا باعث ہوتا ہے۔

    رسولخداؐ نے ابوذر سے سفارش کرتے ہوئے فرمایا ہے: »جَالِسِ الْمَسَاكِينَ وَ عُدْهُمْ إِذَا مَرِضُوا وَ صَلِّ عَلَيْهِمْ إِذَا مَاتُوا وَ اجْعَلْ ذٰلِكَ مَخْلَصاً« (دعوات، قطب الدين راوندی، مدرسہ امام مہدی (عج)، قم، چاپ اول، 1407ق، ص 224.)

     اے ابوذر! مساکین کے ہمنشینی اختیار کرواور جب بیمار پڑیں تو ان کی عیادت کیلئے جاؤ اور جس وقت وفات پا جائیں تو ان پر نماز جنازہ پڑھو اورتم ان سب اعمال کو اللہ کیلئے خلوص کے ساتھ انجام دو۔ 


★  آداب عیادت

۱. عیادت کیلئے کم از کم 1 میل کا فاصلہ طے کرنا

    سیرت رسول اسلامؐ میں ایک مقام یہ بھی ہے بیان کیا جاتا ہے کہ بعض بیماروں کی عیادت کی خاطر شہر کے دور دراز کے علاقہ کا سفر بھی کرنا پڑے تب بھی عیادت کرنا ہی چاہئے۔ جیسا کہ سیرت کی کتابوں میں درج ہے۔ (عيون الاثر، أبو الفتح، دار القلم، بيروت، چاپ اول، 1414ق، 2/ 400؛ بحار الانوار، علامہ مجلسی، مؤسسہ الوفاء، بيروت، 1404ق، 16/ 228.)

    یہ ایک خصوصی عنایت و فضل و کرم سبب ہوا ہے یہاں تک کہ ائمہ معصومینؑ ایک میل کی مسافت طے کر کے بیماروں کی عیادت کی خاطر تاکید فرمایا کرتے تھے۔ 

    رسولخداؐ نے امام علیؑ سے فرمایا ہے: »يَا عَلِيُّ (ع) سِرْ سَنَتَيْنِ بَرَّ وَالِدَيْكَ، سِرْ سَنَةً صِلْ رَحِمَكَ، سِرْ مِيلاً عُدْ مَرِيضاً، سِرْ مِيلَيْنِ شَيِّعْ جَنَازَةً، سِرْ ثَلَاثَةَ أَمْيَالٍ أَجِبْ دَعْوَةً، سِرْ أَرْبَعَةَ أَمْيَالٍ زُرْ أَخاً فِي اللهِ، سِرْ خَمْسَةَ أَمْيَالٍ أَجِبِ الْمَلْهُوفَ، سِرْ سِتَّةَ أَمْيَالٍ انْصُرِ الْمَظْلُوم« (من لا يحضرہ الفقيه، 4/ 361.)

اے علیؑ! اپنے والدین کے ساتھ نیکی کرنے کی خاطر ۲؍ سال کی مسافت کا سفر کرو، اپنے رشتہ دار کے ساتھ صلہ رحم کے واسطہ ۱؍ سال کا سفر طے کر و، بیمار کی عیادت کیلئے ۱؍ میل (1.60 km) تک جاؤ، تشییع جنازہ میں شریک ہونے کیلئے ۲؍ میل (3.21 km) کی دوری طے کرو، مومن کی پکار کے جواب دینے کی خاطر ۳؍ میل (4.82 km) کا سفر طے کرو،مومن سے ملاقات کے واسطہ ۴؍ میل (6.43 km) کی راہ کا سفر کرو، مصیبت زدہ مومن کی دستگیری کیلئے ۵؍ میل (8.04 km) کی مسافری کو جاؤ اور مظلوم کی مدد و نصرت کے واسطہ ۶؍ میل (9.65 km) کا راستہ طے کرو۔ 

نوٹ: دلچسپ بات تو یہی ہے یہ تمام معین مسافتوں کا تذکرہ اس زمانہ میں کیا ہے جب انسان کے پاس کمترین حمل و نقل کے وسائل پائے جاتے تھے اور عوام کی اکثریت پیدل یا بعض لوگ اونٹ یا گھوڑوں کے ذریعہ طولانی مسافتیں طے کرتے رہتے تھے۔ 


۲. کامل عیادت

    رسولخدا ؐعیادت کی کیفیت کے سلسلہ میں فرماتے ہیں: »أَنَّ مِنْ تَمَامِ عِيَادَةِ الْمَرِيضِ أَنْ يَدَعَ أَحَدُكُمْ يَدَهُ عَلىٰ جَبْهَتِهِ أَوْ يَدِهِ فَيَسْأَلَهُ كَيْفَ هُوَ؟ وَ تَحِيَّاتُكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْمُصَافَحَةِ« (مستدرک الوسائل، 2/ 92.)

بتحقیق تمام و کامل عيادت یہ ہے کہ اپنے ہاتھ کو بیمار کی پیشانی پر رکھے یا پھر اس کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں قرار دے اور اس کی احوال پرسی کرے اور تمہارے درمیان بہترین تحیات و سلام یہی ہے کہ مصافحہ کرے۔  


۳. بیمار کو تحائف و ہدایا دینا

    لوگوں کے درمیان بہت سی مناسب و شائستہ رسومات میں سے ایک بہترین رسم بیمار کی عیادت کی خاطر اپنے ساتھ ہدیہ و تحفہ ساتھ لے کر جانا ہے۔ ان تحائف میں سے اگر بچوں کیلئے ہے تو معمولا کھیلنا ہوتا ہے اور اگر بڑے ہیں تو میٹھائی یا پھر کوئی اور چیزیں جو ان کی جسمانی یا نفسیاتی و روحانی تقویت کا باعث ہوتی ہے، یہ عمل وہی ہے جس کا حکم دین مبین اسلام بھی بیمار کی خاطر ہدیہ و تحفہ لے کر جانے کی تاکید میں فرماتا ہے اور اسے بیمار کے آرام و سکون کا سبب قرار دیتا ہے۔ 

    جیسا کہ روایت میں امام صادقؑ سے منقول ہے: حَدَّثَنِي أَبُو زَيْدٍ قَالَ أَخْبَرَنِي مَوْلًى لِجَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ (ع) قَالَ: »مَرِضَ بَعْضُ مَوَالِيهِ فَخَرَجْنَا إِلَيْهِ نَعُودُهُ وَ نَحْنُ عِدَّةٌ مِنْ مَوَالِي جَعْفَرٍ فَإسْتَقْبَلَنَا جَعْفَرٌ ؈ فِي بَعْضِ الطَّرِيقِ، فَقَالَ لَنَا أَيْنَ تُرِيدُونَ؟ فَقُلْنَا: نُرِيدُ فُلَاناً نَعُودُهُ، فَقَالَ لَنَا قِفُوا، فَوَقَفْنَا، فَقَالَ مَعَ أَحَدِكُمْ تُفَّاحَةٌ أَوْ سَفَرْجَلَةٌ أَوْ أُتْرُجَّةٌ أَوْ لَعْقَةٌ مِنْ طِيبٍ أَوْ قِطْعَةٌ مِنْ عُودِ بَخُورٍ فَقُلْنَا مَا مَعَنَا شَيْ‌ءٌ مِنْ هٰذَا، فَقَالَ أَ مَا تَعْلَمُونَ أَنَّ الْمَرِيضَ يَسْتَرِيحُ إِلىٰ كُلِّ مَا أُدْخِلَ بِهِ عَلَيْهِ۔ (الکافی، 3/ 118، طبع الاسلامیه، ح 3.)   

روايت میں وارد ہوا ہے کہ آنحضرتؑ کے بعض شیعہ حضرات کسی بیمار کی عیادت کیلئے جا رہے تھے تو ان لوگوں نے اس طرح نقل کیا ہے کہ درمیان راہ امام باقرؑ سے ملاقات ہوئی، پس امامؑ نے فرمایا: تم لوگ کہاں جا رہے ہو؟ پھر ہم لوگوں نے عرض کیا کہ فلاں شخص کی عیادت کیلئے جا رہے ہیں، تب امامؑ نے فرمایا: ٹھہرو، پھر ہم ٹھہر گئے۔ پھر ہم میں سے ایک سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: کیا تم لوگوں نے «تُفَّاحَةٌ اَوْ سَفَرْجَلَةٌ اَوْ اُتْرُجَّةٌ أَوْ لَعْقَةٌ مِنْ طِيبٍ أَوْ قِطْعَةٌ مِنْ عُودِ بَخُورٍ.» یعنی »ایک سیب یا سفرجل (بہی) یا اترنج  (اسٹار فروٹ) یا عطر و خوشبو کی کوئی چیز یا خوشبو دار عود کا ایک ٹکڑا بطور تحفہ اپنے ہمراہ لے لیا ہے؟ «ہم نے عرض کیا: نہیں! ان میں سے کوئی ایک بھی چیز ہم اپنے ساتھ نہیں لائے ہیں، پھر آنحضرتؑ نے فرمایا: شائد تم جانتے نہیں ہو کہ ہدیہ اور تحفہ دینا بیمار کی روح و جان کو آرام و راحت کا باعث ہوتی ہے۔


۴. بیمار کے سرہانے دعا کرنا

    عیادت کے آداب میں سے دیگر امر یہ ہے کہ بیمار کی سلامتی و عافیت کیلئے دعا کرنا ہے،جناب سلمان کہتے ہیں کہ نبی مکرم ایک بار میری عیادت کی خاطر آئے؛ میں اس حالت میں تھا کہ بستر بیماری پر پڑا ہوا تھا کہ آنحضرتؑ نے [میرے حق میں دعا ئے خیر کرتے ہوئے ] یہ بھی فرمایا: [اے سلمان] خداوند عالم تمہارے رنج و الم کو دور فرمائے اور رتمہارے اجر و ثواب میں اضافہ فرمائے اور رتمہارے بدن و دین کو آخر عمر تک محفوظ رکھے۔ (امالی، شيخ طوسی، دار الثقافہ، قم، 1414 ق، ص 632.)

    رسولخداؐ سفارش کیا کرتے تھےکہ بیمار کے سرہانے ۷؍ مرتبہ دعا کے ان کلمات کو دہرائے تا کہ اجل و موت کے نہ آنے کی صورت میں شفا یاب ہو جائے۔

»أَسْأَلُ اللهَ الْعَظِيمَ رَبَّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ أَنْ يَشْفِيَكَ« (الدعوات، ص223.)

»خدائے عظیم ، عرش عظیم کے پالنے والےمیں تجھ سے سوال کرتا ہوں اسے شفا و صحت عطا فرما۔« 

۵. بیمار کو زندگی کی امید دلانا

    بیماری کے مسائل میں سے ایک مسئلہ یہ بھی ہے خاص طور پر صعب العلاج (مشکل علاج والی) بیماری کا طولانی اور دشوار معالجہ ہوتا ہے ، جس میں بیمارکی صحت و سلامتی سے مایوس ہونا اورنفسیات کمزور ہونا ہے، اسلام ایسے حالات میں عیادت کرنے والے کا وظیفہ قرار دیتا ہے تا کہ امید کی روح کو بیمار میں زندہ کرنے والا ہو اور اسے سلامتی و صحت کا امیدوار بنائے۔

    رسولخداؐ فرماتے ہیں: »إِذَا دَخَلْتُمْ عَلىٰ الْمَرِيضِ فَنَفِّسُوا لَهُ فِي الْأَجَلِ فَإِنَّ ذٰلِكَ لَا يَرُدُّ شَيْئاً وَ هُوَ يُطَيِّبُ النَّفْسَ« (مستدرک الوسائل، 2/ 154.)

جب تم کسی بیمار کے پاس جاؤ تو اسے [زندگی اور] موت کی تاخیر کی امید دلائے کہ [گرچہ یہ اميد] کسی بھی چیز کی واپسی کا سبب نہیں ہوتی لیکن زندگی کی امید بیمار کی دلی خوشی کا باعث تو ہوتی ہے۔

    اس حدیث شریف میں بیمار کی دل کو خوش کرنے اور اسے زندگی کی امید بخشنا ایک طرح سے علاج کی حیثیت سے بیان کیا ہے، اس کی دلیل یہی ہے کہ ایک بیمار پر درد، افسردہ حالی اور غموں کا حملہ ہے، تو روحی و نفسیاتی طور پر ضعف و کمزوری کا شکار ہوتا ہے اور یہی نفسیاتی و روحانی کمزوری و ضعیفی کو بیمار میں قوت و طاقت بخشتی ہے اور اسی روحانی و نفسیات کو تقویت دی جائے تو خود مریض اپنی بیماری کو دور کرتا ہے۔ (گنجينه معارف شيعه، محمد باقر کمرہ اي، چاپخانہ فردوسی، تہران، چاپ اول، 1/ 450.)


۶. عیادت کے دنوں کے درمیان فاصلہ ہونا

    بیماروں کے مسائل میں سے ایک مسئلہ یہ بھی ہے جو بیماروں کو بہت پریشان و تکلیف پہونچتا ہے اور ان مریضوں کے آزار و صدمہ کا سبب ہوتا ہے وہ عیادت کرنے والوں کی مکرر ملاقات و احوال پرسی ہے۔ 

    جی ہاں! دین اسلام عیادت کرنے والے پر بہت تاکید فرماتا ہے اور انہیں مسلمانوں کے حقوق میں سے ایک جزو شمار کرتا ہے؛ لیکن اس اہمترین امر پر سفارش بھی کرتا ہے کہ لازمی و ضروری نہیں ہے کہ ہر روز ہی ان کی عیادت کریں؛ بلکہ عیادت کے دنوں کے درمیان فاصلہ بهی رکھیں اور اس کی مثال یہی ہے کہ ہر ۴؍ روز میں ایک بار مریض کی ملاقات کیلئے جایا کرو۔

پیغمبرؐ آخر الزمان فرماتے ہیں: »أَغِبُّوا فِي الْعِيَادَةِ وَ أَرْبِعُوا إِلَّا أَنْ يَكُونَ مَغْلُوباً« (امالی شیخ طوسی، ص 639.)

عیادت کو فاصلہ کے ساتھ اور ۴؍ روز کے درمیان انجام دیں؛ مگر یہ کہ بیماری اس قدر غلبہ کرے جبکہ (مریض کی صحت و سلامتی اور شفا یابی سے مایوس ہو جائے۔) 

اسی طرح سے بعض روایات میں ہر ۳؍ روز کے بعد ایک بار عیادت کیلئے جانا مناسب ہونا بهی بیان کیا ہے۔

جیسا کہ ذیل کی روایت سے ہمیں پتہ چلتا ہے: »عُودُوا المَرِیضَ وَ أَجِیبُوا الدَّاعِی وَ أَغِبُّوا فِي الْعِيَادَةِ إِلَّا أَنْ يَكُونَ مَغْلُوباً فَلَا یعَاد وَ العِیَادَۃُ بَعدَ ثَلَاث و خَیرُ العِیَادَۃ٘ أخَفّہَا قِیَاماً وَ التَّعزِیَّۃُ مَرَّۃً« (کنز العمال، هندی، صفوۃ السقا، الرساله، بیروت، 1405ق، 9/ 103، رقم الحدیث 25187.)

مریض کی عیادت کرو اور فریادکرنے والے کی فریاد رسی کرو اور عیادت کے ایام میں فاصلہ رکھو مگر یہ کہ مرض اس قدر غالب ہو جائے کہ صحتمند ہونے سے مایوس ہوجائے پس ایسی صورت میں ۳؍ روز کے فاصلہ سے بیمار کی عیادت نہ کرو اور بہترین عیادت یہی ہے جو مختصر سی ہو اور تعزیت بھی ایک مرتبہ انجام دی جائے۔


۷. عیادت کا مختصر ہونا

    بعض دیگر مسائل میں سے ایک مسئلہ جو بیماروں کو رنج و الم پہونچاتا ہے، وہ یہی ہے کہ ملاقات کرنے والوں کا دیر تک بیٹھنا اور طولانی گفتگو کرنا ہے؛ کیونکہ یہی وہ چیز ہے جسے مریض کی اہمترین حاجت محسوس ہوتی ہے وہی آرام و سکون اور بغیر شور و غل والا ماحول مہیا ہونا ہے اور ان طولانی نشستوں کے وجود میں آنے کے ساتھ ہی بیمار کے آرام و سکون کا درہم برہم ہونا ہے، اگر رنج و درد کے تحمل سے سخت تر نہیں ہوتا ہے مگر پھر بھی اس سے کمرین بھی نہیں ہو گا، اسی بنا پر شارع مقدس نے طولانی عیادتوں کی شدت کے ساتھ منع فرمایا ہے۔

    چنانکہ ایک روایت میں رسولخداؐ فرماتے ہیں: »أَفضَلُ العِيَادَةِ اَجْراً سُرعَةُ القِيَامِ مِن عِندِ المَرِيضِ« (کنز العمال، هندی، صفوۃ السقا، الرساله، بیروت، 1405ق، 9/ 97، رقم الحدیث 25153.)

اجر و ثواب کے اعتبار سے بہتر ين عيادت یہی ہے کہ [عیادت مختصر سی ہو اور عيادت کرنے والا] جلد از جلد بیمار کے پاس سے رخصت ہو جائے۔ (مگر یہ کہ خود مریض ہی اس بات کا مطالبہ کرے کہ عائد مزید اس کا ہمنشین رہے.)


۸. عیادت ۳ روز کے وقفہ سے ہونا چاہئے

    رسولخداؐ مریضوں کی عیادت کے آداب کے سلسلہ میں اس نکتہ کی تصریح فرماتے ہیں کہ بیمار کی عیادت ۳؍ روز سے قبل مت کرواور اس صورت حال میں کہ جب مرض طویل ہو جائے یعنی کہ بیماری نے طول پکڑا تب ہی تم ان ۳؍ روز کی پابندی مت کرو اور جب بھی موقع ملے بیمار کی احوال پرسی کرتے رہو۔ 

    عیادت کی خاطر جانے کیلئے کتنے دنوں کا فاصلہ ہونا چاہئے، کیا روازنہ عیادت کرنا چاہئے یا پھر وقفہ وقفہ سے عیادت کرنا چاہئے؟ تو اسی امر کو پیغمبر اسلامؐ نے اپنی ایک حدیث میں واضح کیا ہے: »عَن أَنَس قَالَ: إِنَّ النَّبِیَّ کَانَ لَا یَعُودُ مَرِیضاً إِلَّا بَعدَ ثَلَاث« (کنز العمال، هندی، صفوۃ السقا، الرساله، بیروت، 1405ق، 9/ 210، رقم الحدیث 25700.)

بیشک نبی کریم مریض کی عیادت نہیں کرتے تھے مگر تین دنوں کے بعد.


۹. بیمار کے پاس کچھ بهی کھانا پینا نہیں

اسلامی دستورات دیگر عیادت کے آداب میں مریضوں کے ساتھ ملاقات کرتے وقت ان کے پاس کسی بھی طرح کی چیز کا نہ کھانا بھی ہے ۔ 

حضرت علیؑ اپنی زبانی رسول اکرمؐ کی ایک حدیث میں نقل فرماتے ہیں: »نَهَىٰ رَسُولُ اللهِ ﷺ أَنْ يَأْكُلَ الْعَائِدُ عِنْدَ الْعَلِيلِ فَيَحْبِطُ اللهُ أَجْرَ عِيَادَتِهِ« (دعائم الاسلام، تميمی مغربی، دار المعارف، مصر، چاپ دوم، 1385 ق، 1/ 218.)

رسولخداؐ نے منع فرمایا ہے کہ کوئی بھی چیز عیادت کرنے والے بیمار کے پاس نہ کھائےکیونکہ پروردگار عالم اس کی عیادت کے ثواب و اجر کو حبط کر دیتا ہے۔ (حبط یعنی عمل کے ثواب کا باطل ہونا۔)

شاد اس دستور و حکم کی ۲ علتیں ہوں گی جو ذیل میں درج کی جا رہی ہیں۔ 

    اول: یہ کہ مریض کے سامنے کچھ کھانا ہے جو کسی چیز کے کھانے پر قدرت نہ رکھنا ہے جسے ادب کے بر خلاف قرار دیا ہے؛ چنانچہ اسلامی احکامات میں یہ بھی تذکرہ ملتا ہے کہ شارع مقدس نے روزہ دار کے سامنے کسی بھی چیز کے کھانے سے منع فرمایا ہے۔

    دوم: عیادت کرنے والوں کی مہمان نوازی یا پذیرائی کے علاوہ یہ بھی ہے کہ مریض کے خاندان کیلئے زحمات و تکالیف وجود میں لاتے ہیں، جبکہ مریض اور اس کے خاندان پر مہمان نوازی کا اضافی اخراجات تحمل کرتا ہے چنانچہ دین اسلام حکم و دستور دیتا ہے حتی کہ چند روز تک مصبت زدہ خاندان کی خاطر غذا مہیا کریں اور ان گھر پر بھیجیں۔

    اس طرح پیغمبر اسلامؐ نے اس کی ابتدا فرما کر ایک سماجی و معاشرتی رابطہ میں مومنین کو مجتمع رکھے۔جیسا کہ ذیل کی روایت سے پتہ چلتا ہے۔  

امام صادقؑ سیرت رسول اکرمؐ کے بارے میں فرماتے ہیں: عَن أَبِي عَبدِ اللهِ (ع) قَالَ: »لَمَّا قُتِلَ جَعفَرُ بنُ أَبِي طَالِبٍ (ع) أَمَرَ رَسُولُ اللهِ فَاطِمَةَ (س) أَن تَتَّخِذ طَعَاماً لِأَسمَاء بِنتِ عُمَيسِ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ وَتَأتِيَهَا وَنِسَائَهَا فَتُقِيمَ عِندَهَا ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ فَجَرَت بِذٰلِكَ السُّنَّةُ أَن يُصنَعَ لِأَهلِ المُصِيبَةِ طَعَامٌ ثَلَاثًا. (الکافی، ط۔ الاسلامیہ  3/  217.ح ۱، باب ما یجب علی الجیران لأجل المصیبة و إتِّخاذ الماتم )

جس وقت جعفرؑ بن ابیطالب کی شہادت واقع ہوئی تو رسولخداؐ نے جناب فاطمہؑ زہرا سے فرمایا: اسماء بنت عُمَیس کیلئے ۳؍ روز تک کھانے پینے کا بند و بست کرو پس سب خواتین کے ساتھ مل کر ان کے پاس ہی قیام کرو، پھر اسی وقت سے ہی اہل مصیبت کی خاطر ۳؍ دن تک کھانا پکا کر انہیں کھلانا (اہل مصیبت کو کھلانا) پیغمبر اسلامؐ کی سنت مقرر ہوئی ہے۔


۱٠. اس کی عیادت کرو جس نے تمہاری عیادت نہیں کی ہے

    اسلام کے معاشرتی دستورات کی جب ہم تحقیق و تجزیہ کرتے ہیں تو ہمیں اس طرح کی اہمترین راہنمائی ملتی ہے کہ جس پر عمل پیرا ہونے سے مسلمانوں کے سماج و معاشرہ میں اتحاد و اخوت کی بنیاد قائم کرنے کا حکم پایا جاتا ہے، لہذا مریضوں کی عیادت کا ایک دستور یہ بھی ہے خاص طور سے جب مریض کے سرہانے اور بیمار پڑوسی اور مومن فقرا وغیرہ کی عیادت کی خاطر جائے گا تو اہل اسلام کے درمیان محبت و رابطہ مزید مستحکم ہوتا ہے؛ اسی لئے اس آسمانی دین سے بیماروں کی ملاقات و عیادت کے آداب میں سے ایک یہ بھی ہے کہ جب کوئی بیمار یہ دیکھتا ہے کہ اس کے مرض کے زمانہ میں کوئی بھی اس کی عیادت یا ملاقات کرنے والا نہیں آیا ہے یہاں تک کہ یہی عیادت رابطہ کے منقطع کرنے میں تعلقات کی بہتری میں کار آمد ثابت ہوتی ہے ۔

اسی دلیل کا ذکر ہمیں رسولخداؐ کے فرمان میں اس طرح ملتا ہے: »عُدْ مَنْ لَا يَعُودُک، و أهدمن لا یهدی لك« (کنز العمال، 9/ 97، رقم الحدیث 25150 و من لايحضرہ الفقيه، 3/ 300.)    

اس کی عیادت کرو جو تمہاری عیادت کو نہیں آیا ہے اور اسے ہدیہ و تحفہ دو جو تمہیں تحفہ و ہدیہ نہیں دیتا ہے۔  


۱۱. جن بیماروں کی عیادت کرنا منع ہے

الف : ۳؍ بیماروں کی عیادت کرنا منع ہے

ان ۳؍ مریضوں جیسے وہ شخص جسے پھوڑا ہوا ہے، درد چشم میں مبتلا ہے اور دانتوں میں درد ہوتا ہو تو عیادت کرنا منع ہے: جیسا کہ ذیل میں رسولخداؐ کی ایک حدیث میں تذکرہ ملتا ہے: »ثَلَاثَةٌ لَا يُعَادُّونَ صَاحِبُ الرَّمَدِ وَصَاحِبَ الضِّرْسِ وَصَاحِبُ الدُّمَلِ« (کنز العمال، 9/ 103، رقم الحدیث 25189.)

۳؍ بیماروں کی عیادت کرنا منع ہے:

١. جسے آنکھ میں درد ہے اور

۲. جس کے دانت میں درد ہے اور

۳. جس شخص کو پھوڑا نکلا ہے۔

ب : شارب خمر (شرابی) کی عیادت مت کرو

شارب الخمر یعنی شرابی شخص کی بھی عیادت کرنا منع ہے.

جیسا کہ امام صادقؑ سے منقول ہے کہ رسول اکرمؐ کا فرمان ہے: عَن أَبِی عَبدِ الله (ع) قَالَ، قَالَ رَسُولُ الله «شَارِبُ الْخَمْرِ لَا یُعَادُ إِذَا مَرِضَ  وَ لَا یُشهَدُ لَہُ جَنَازَۃٌ» وَ لَا تُزَکُّوہُ إِذَا شَهِدَ وَ لَا تُزَوِّجُوہُ إِذَا خَطَبَ وَ لَا تَأتَمِنُوہُ عَلیٰ أَمَانَةٍ۔(الکافی، 6/ 397، ح ۴، باب أَنَّ الخَمرَ لَم تَزَل مُحَرَّمَة.)

 »جب شرابی بیمار پڑ جائے تو اس کی عیادت مت کیا کرو اور نہ ہی اس کے جنازہ کی تشییع میں شرکت کیاکرو۔ «

اسی طرح دوسری حدیث میں بھی امام صادقؑ رسول اکرمؐ کے قول کو نقل کرتے ہوئے بیان فرماتے ہیں: عَن أَبِی عَبدِ اللہِ (ع) قَالَ، قَالَ رَسُولُ اللہِ «شَارِبُ الْخَمْرِ إِنْ مَرِضَ فَلَا تَعُودُوهُ وَ إِنْ مَاتَ فَلَا تَحْضُرُوہُ» وَ إِن شَہِدَ فَلَا تُزَکُّوہُ وَ إِن خَطَبَ فَلَا تُزَوِّجُوہُ وَ إِن سَأَلَکُم أَمَانَۃً فَلَا تَأتَمِنُوہُ۔ (الکافی، 6/ 397، ح ۵، باب أَنَّ الخَمرَ لَم تَزَل مُحَرَّمَة.)

»اگر شرابی بیمار ہو جائے تو اس کی عیادت مت کرو اور اگر وہ فوت ہو جائے تواس کے جنازہ کی تشییع میں شرکت مت کرو۔ «


★   عیادت کا ثواب و اجر

۱. رحمت الہی کا نزو ل ہوتا ہے  

    رسولخداؐ نے فرمایا ہے: »مَنْ عَادَ مَرِيضاً فَإِنَّهُ يَخُوضُ فِي الرَّحْمَةِ وَ أَوْمَأَ رَسُولُ اللهِ إِلىٰ حَقْوَيْهِ فَإِذَا جَلَسَ عِنْدَ الْمَرِيضِ غَمَرَتْهُ الرَّحْمَة« (امالی، شیخ طوسی، ص 182.)

    ہر وہ شخص بیمار کی عیادت کرے گا تو اس پر اللہ تعالی کی رحمت نازل ہو گی [اسی بیان کرنے کی حالت میں ہی] آنحضرتؐ نے اپنے اطراف میں اشارہ فرمایا (یہ کنایہ کے طور پر اس طرح سے سمجھانا چاہتے ہیں کہ جیسے فضا نے مجھے گھیر رکھا ہے بالکل ویسے ہی خداوند عالم کی رحمت عیادت کرنے والے کو گھیر لیتی ہے) پس جب عبادت کرنے والا مریض کے پاس بیٹھے گا تو رحمت الہی اسے گھیر لیتی ہے۔ یعنی شامل رحمت الہی قرار پاتے ہیں.

    آنحضرت نے مزید ایک روایت میں فرمایا ہے کہ اس رحمت الہی کو ہمیشہ عیادت کرنے والے کے ہمراہ شمار کیا ہے یہاں تک کہ وہ اپنے مقام پر واپس پلٹ جائے: عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ أَبِي بَكْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ الأَنْصَارِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللهِ وَهُوَ يَقُولُ: «مَنْ عَادَ مَرِيضًا فَلَا يَزَالُ فِي الرَّحْمَةِ حَتّىٰ إِذَا قَعَدَ عِنْدَهُ اسْتَنْقَعَ فِيهَا، ثُمَّ إِذَا قَامَ مِنْ عِنْدِهِ فَلَا يَزَالُ يَخُوضُ فِيهَا، حَتّىٰ يَرْجِعَ مِنْ حَيْثِ خَرَجَ، وَمَنْ عَزَّى أَخَاهُ الْمُؤْمِنَ مِنْ مُصِيبَةٍ، كَسَاهُ اللهُ - عَزَّ وَ جَلَّ - حُلَلَ الْكَرَامَةِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ» (بحار الانوار، 79/ 94؛ مسکن الفواد شہید ثانی، ص ۱۰۶.)

عبد اللہ بن ابی بکر بن محمد بن عمرو بن حزم انصاري سے مروی ہے کہ انہوں نے اپنے والد سے اور ان کے والد نے اپنے جد سے اور ان کے جد نے پیغمبر خداؐ سے یہ حدیث سنی ہے کہ آنحضرت نے فرمایا تھا: وہ شخص جو مریض کی عیادت اور احوال پرسی کرے گا تو ہمیشہ رحمت الہی میں رہے گا اور یہاں تک کہ جب مریض کے پاس بیٹھے گا تو رحمت الہی سے سیراب ہوگا اور جب مریض کے پاس قیام کرے گا تو رحمت الہی میں غوطہ زن رہے گا یہاں تک کہ وہ واپس پلٹ جائے اور مریض کے پاس سے خارج ہو جائے اور وہ شخص جو اپنے برادر مومن کی تعزیت پیش کرے گا تو خداوند متعال اسے کرامت کا لباس پہنائے گا۔


۲. قبر میں فرشتوں کا ساتھ

    اس سلسلہ میں امام باقرؑ نے فرمایا ہے: كَانَ فِيمَا نَاجَى اللهُ بِهِ مُوسَىٰ (ع) رَبَّهُ أَنْ قَالَ: «يَا رَبِّ أَعْلِمْنِي مِمَّا بَلَغَ مِنْ عِيَادَةِ الْمَرِيضِ مِنَ الْأَجْرِ قَالَ عَزَّ وَ جَلَّ أُوَكِّلُ بِهِ مَلَكاً يَعُودُهُ فِي قَبْرِهِ إِلىٰ مَحْشَرِهِ» (ثواب الاعمال، شيخ صدوق، انتشارات شريف رضی، قم، چاپ دوم، 1364ش، ص 194.)

مذکورہ بالا کلمات حضرت موسیؑ کی مناجات کے الفاظ ہیں اللہ کے نبی نے پروردگار عالم کی بارگاہ میں مناجات کرتے ہوئے فرمایا ہے: «اے میرے پالنے والے! جو کچھ اجر و ثواب مریض کی عیادت کرنے ولاے کو پہونچتا ہےتو مجھے اس سے با خبر فرما! تو عزت و جلال والے رب نے فرمایا: ایک فرشتہ اس (عیادت کرنے والے) کی قبر میں متعین کروں گا کہ وہ ملک محشر کے روز تک اس کی عیادت کرتا رہے گا.»


۳. فرشتے طالب مغفرت

    رسولخداؐ فرماتے ہیں: »مَنْ عَادَ مَرِيضاً نَادَاهُ مُنَادٍ مِنَ السَّمَاءِ بِإسْمِهِ يَا فُلَان طِبْتَ وَ طَابَ لَكَ مَمْشَاكَ بِثَوَابٍ مِنَ الْجَنَّةِ« (الکافی،3/ 121.)

کسی بیمار کی جو شخص عیادت کرے گا تو ایک آسمان سے ندا دینے والا اس کا نام پکارا کرے گا کہ اے فلاں شخص ! خوش ہو جاؤ! اور تمہارا قدم اٹھانے کی جزا بہشت ہے پس تمہیں مبارک ہو!


۴. صدقہ کی ایک نوعیت

    اسلام میں متعدد مقامات پر صدقہ کی حیثیت سے تعارف کرایا ہے جن میں سے ایک مریض کی عیادت کرنا بھی ہے جیسا کہ پیغمبر اسلامؐ ایک حدیث میں فرماتے ہیں: إِمَاطَتُکَ عَنِ الطَّرِیقِ صَدَقَةٌ، وَإِرشَادُکَ الرَّجُلِ صَدَقَةٌ، «عِيَادَتُكَ الْمَرِيض صَدَقَةٌ» وَإتِّبَاعُکَ الجَنَازَۃ صَدَقَةٌ، وَأَمَرُکَ بِالمَعرُوفِ وَنَهیُکَ عَنِ المُنکَرِ صَدَقَةٌ، وَرَدُّکَ السَّلَام صَدَقَةٌ۔ (مستدرک الوسائل، محدث نوری، 7/ 243،  [۸۱۴۶] ۳، ۴۰۔ باب إستحباب إنفاق شیء کلّ یوم و لو یسیراً و أحکام النفقات.)

تمہارا راستہ کی رکاوٹ سے محفوظ کرنا صدقہ ہے، تمہارا (مسلمان) کو ہدایت کی طرف رہنمائی کرنا صدقہ ہے، «تمہارا بیمار کی عیادت کرنا ایک طرح کا صدقہ ہے»، تمہارا جنازہ کی تشییع کرنا صدقہ ہے، تمہارا نیکی کا حکم دینا اور برائی سے باز رکھنا صدقہ ہے، تمہارا سلام کا جواب دینا صدقہ ہے۔


۵. عائد کے حق میں بیمار کی دعا مستجاب ہونا   

رسولخداؐ مزید تاکید فرماتے ہیں کہ مریض سے یہ مطالبہ کرو کہ وہ تمہارے لئے دعا کرے چنانچہ روایت میں اس کا تذکرہ اس طرح سے ہوا ہے: »وَ مَنْ عَادَ مَرِيضاً فِي اللهِ لَمْ يَسْأَلِ الْمَرِيضُ لِلْعَائِدِ شَيْئاً إِلَّا إسْتَجَابَ لَه« (عدۃ الداعی، ابن فہد حلی، دار الکتاب الاسلامی، چاپ اول، 1407ق، ص 126.)

جس نے کسی مریض کی اللہ کی خاطر ہی عیادت کی تو مریض عیادت کرنے والے سے کچھ بھی طلب نہیں کرے گا؛ مگر یہ کہ خداوند متعال اس (عائد) کے حق میں دعا کو مستجاب کرتا ہے۔

    اسی بنا پر ائمہؑ معصومین کے اقوال میں سفارش و تاکید پائی جاتی ہے کہ عیادت کرنے والے مریض سے درخواست کریں کہ ان کیلئے دعائے خیر کریں۔ 

جیسا کہ پیغمبر اسلامؐ ایک حدیث میں فرماتے ہیں: »اِذَا دَخَلْتَ عَليٰ مَرِيضٍ فَمُرْهُ أَنْ يَدْعُو لَكَ فَإِنَّ دُعَاءَهُ كَدُعَاءِ الْمَلَائِكَةِ« (سنن ابن ماجہ، تحقيق محمد فواد عبد الباقی، دار الفکر، 1/ 463.)

جب بھی تم بیمار کے پاس وارد ہوتے ہو تو اس سے مطالبہ کرو کہ ان کی خاطر دعا کرے کہ مریض کا دعا کرنے کا عمل ملائکہ کے دعا کرنے کے مثل ہوتا ہے۔ 


تیمار داری کی فضیلت

    ایک مریض بیماری کے بعد رنج و مشقت کو برداشت کرتا ہے، لہذا بیمار کی تیمار داری اور اس کی ضرورتوں کو پوری کرنا بھی دشوارترین کاموں میں سے ایک امر ہے، اسی بنا پر ہمارے دین اسلام نے تیمار داری (ہر وہ شخص جو کسی بھی بیمار کی چند ضرورتوں کو پوری کرنے کی سعی و کوشش کرے تو) اس کی بہت زیادہ منزلت و فضیلت کی عظمت و بلندی کا تذکرہ کیا ہے۔ (تیمار دار یعنی مریض کی خدمت کرنے والا شخص اور تیمار داری یعنی بیمار کی دیکھ بھال کرنے کا عمل ہے.) 

    اسلام میں تیمار داری کی تاريخ حضرت فاطمہؑ زہرا کے زمانہ کی طرف بازگشت کرتی ہے، آنحضرتؑ نے جنگ احد میں اپنے پدر بزرگوار کی تیمار داری فرمائی، اس عظیم خاتون نے ۱۲؍ مسلمان خواتین کے ہمراہ زخمی مسلمانوں کی تیمار داری فرمانے کی سنگ بنیاد رکھی ہے۔ 

اسلام میں تیمار داری کی اہمیت اس حد تک ہے کہ پیغمبر اکرمؐ اپنی ایک حدیث میں ارشاد فرماتے ہیں: »مَنْ سَعَى لِمَرِيضٍ فِي حَاجَةٍ قَضَاهَا أَوْ لَمْ يَقْضِهَا خَرَجَ مِنْ ذُنُوبِهِ كَيَوْمٍ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ«‏ (من لا يحضرہ الفقيه، 4/ 16.)

 ہر وہ شخص جو کسی مریض کی حاجت کو پوری کرنے کی کوشش کرے گا، چاہے وہ برآوردہ ہو یا نہ ہو، تو اسے گناہوں سے ایسے خارج کرے گا، جیسے اسی روز اپنی ماں کے شکم سے پیدا ہوا ہے۔

ایک دن و رات بیمار کی تیمار داری کے بارے میں آنحضرتؐ مزید فرماتے ہیں: »مَنْ قَامَ عَلَى مَرِيضٍ يَوْماً وَ لَيْلَةً بَعَثَهُ اللهُ مَعَ إِبْرَاهِيمَ الْخَلِيلِ ؈ فَجَازَ عَلَى الصِّرَاطِ كَالْبَرْقِ الْخَاطِفِ اللَّامِع«‏ (ثواب الاعمال، ص 288.)

جس شخص نے کسی مریض کی ایک رات او ردن تیمار داری کری ہے، تو خداوند عالم اس کو ابراہیؑم خلیل کے ساتھ مبعوث کرے گا اور پل صراط سے چمکدار بجلی کے مثل پار ہو جائے گا۔


امام کی نظر میں تیمار داری کی فضیلت

حکایت میں یہ ہے کہ دو افراد طویل مسافت طے کر کے مناسک حج انجام دینے کیلئے مکہ کی طرف روانہ ہوئے، اسی اثنائے سفر میں جب رسولخداؐ کے مزار کی زیارت کی خاطر مدینہ میں آئے، ان دونوں افراد میں سے ایک شخص منزل پر بیمار ہوا اور دوسرا شخص اپنے ہم سفر کی تیمار داری میں مشغول ہوا،قیام کے دنوں میں سے ایک روز ہم سفر نے مریض سے کہا: میں رسولخداؐ کے مرقد شریف کی زیادت کا بہت مشتاق ہوں لہذا تم مجھے اجازت دو تا کہ میں زیارت کیلئے جاؤں اور واپس پلٹ آؤں۔

مریض نے کہا: تم میرے مونس و یاور ہو لہذا تم مجھے تنہا مت چھوڑو، میری طبیعت و مزاج کی حالت ناساز گار ہے، پس تم مجھ سے جدا مت ہو جاؤ۔ تو ہم سفر نے کہا: اے بھائی! ہم بہت دور کا سفر طے کر کے آئے ہیں، پس میرا دل زیارت کی خاطر تڑپ رہا ہے لہذا تم مجھے اجازت دو کہ میں جلدی سے جاؤں اور فوراً پلٹ آؤں؛ لیکن مریض تیمار داری کا شدید ضرورتمند تھا وہ نہیں چاہتا تھا کہ اس کا ہم سفر روضہ اقدس کی زیارت کیلئے جائے، لیکن پھر بھی ہم سفر رسولخدؐا کے مزار شریف کی زیارت کے واسطہ گیا اور زیارت سے مشرف ہونے کے بعد امام جعفر صادقؑ کے بیت الشرف کی طرف روانہ ہوا اور آنحضرتؑ  کی خدمت میں ملاقات کا شرف حاصل ہوا ۔

 تب امامؐ کی خدمت میں اپنا اور اپنے حج کے ہم سفر کے واقعہ و احوال کو عرض کیا۔ امام صادقؑ نے فرمایا: »اگر تم اپنے ہم سفر دوست کے بستر کے پہلو میں ہی مقیم رہتے اور اسی کی تیمار داری کرتے رہتے اور اس کے مونس بنتے تو خداوند عالم کی بارگاہ میں رسولخداؐ کے مزار مقدس کی زیارت سے بہتر و افضل عمل شمار ہوتا۔ « (السبیل الی انهاض المسلمین، ص 271؛ داستان دوستان، محمد محمدي اشتہاردي، ناشر مرکز انتشارات دفتر تبليغات، محل چاپ قم، نوبت چاپ هفتم، 1376ش، 2/ 159و 160، شمارہ داستان: ۱۰۹.)

   آخر کلام میں ۲؍ نکتوں کا تذکرہ کرنا مناسب نظر آتا ہے:

پہلا نکتہ: یہ تمام باتیں جو مریضوں کی عیادت کی اہمیت و فضیلت اور تیمار داری کے بارے میں کہا گیا ہے ان مریضوں کی تیمار داری کیلئے ہے جو غیر رشتہ دار کی خاطر مخصوص ہے؛ لیکن ماں باپ کی تیمار داری کرنا اوررشتہ داروں کی عیادت کرنا جو کچھ تذکرہ ہم نے کیا ہے اس کے علاوہ صلہ ارحام کا ثواب [جو کہ ایک واجب امر ہے] بھی مزید ملتا ہے، اسی طرح مریضوں کی تیمار داری جو خداوند عالم کی طرف سے سن دراز رکھتے ہیں اور اللہ تعالی کی اطاعت میں ضعیف و بوڑھے ہوگئے ہیں تو اس پر ثواب میں دوگنا اضافہ رکھتا ہے۔

چنانچہ رسولخدؐا نے فرمایا ہے: »عن أبی عبد الله (ع) قال قال رسول الله (ص) مِنْ إِجْلَالِ اللهِ إِجْلَالُ ذِي الشَّيْبَةِ الْمُسْلِمِ« (الکافی، 2/ 165؛ وسائل الشيعه، 12/ 99، [۱۵۷۴۷] ۸، ۶۷۔ باب إستحباب إجلال ذی الشیبة المومن و توقیرہ و إکرامه.)

اقدس الہی کی ذات کی تکریم و تقدیس کی ایک صورت حال یہی ہے کہ عمر رسیدہ و دراز سن مسلمان کی تجلیل و احترام کریں۔

    مزید آنحضرتؑ نے یہ بھی فرمایا ہے: »قَالَ مَنْ وَقَّرَ ذَا شَيْبَةٍ فِي الْإِسْلَامِ آمَنَهُ اللهُ مِنْ فَزَعِ يَوْمِ الْقِيَامَةِ« (وسائل الشيعه، 12/ 99، [۱۵۷۴۹] ۱۰، ۴۰۔ باب إستحباب إجلال ذی الشیبۃ المومن و توقیرہ و إکرامه.)

جو بھی شخص ضعیف و بزرگ مسلمان کی توقیر و تکریم کرے گا تو خداوند عالم بھی اسے قیامت کے روز کے خوف سے محفوظ رہے گا۔

دوسرا نکتہ: بیماری اور رنج آور درد اس طریقہ سے ہوتا ہے کہ ان کے اعصاب میں اثر انداز ہوتے ہیں جو باعث ہوتا ہے کہ مریض ناخواستہ طور پر شور و غل یا بھیڑ بھاڑ کے مقابل میں بہت زیادہ رد عمل کا اظہار کرے؛ چنانچہ کہا جاتا ہے کہ دین اسلام نے ان مشکلات کی روک تھام کیلئے چند تجاویز پیش کی ہیں، من جملہ عیادت مختصر ہو اور عیادت کے دنوں کے درمیان فاصلہ بھی ہے؛ لیکن تیمار دار اور عیادت کرنے والے نیز مریض کے متعلقین کے مقابل میں دین اسلام یہ آداب گوشزد کرتا ہے کہ مریض کی بد اخلاقی کو نظر انداز کریں اور اس بد اخلاقی کو ایک معمول اور طبعی امر شمار کرنا چاہئے۔

    جبکہ رسولخداؐ ۳؍ افراد کے لوگوں کی بد اخلاقی پر ملامت کرنے سے منع فرماتے ہیں: »..... و ثَلَاثَةٌ لَا يَلَامُونَ عَنْ سُوءِ الْخُلْقِ: اَلْمَرِيضُ، وَالصَّائِمُ حَتّىٰ يَفْطُرَ، وَالإِمَامُ الْعَادِلُ« (کنز العمال، 8/ 456، رقم الحدیث 23637.)

 تین افراد کو بد اخلاقی کے سبب ملامت نہیں کیا جائے گا: 

    ۱۔ مریض و بیمار۔

    ۲۔ روزہ دار یہاں تک افطار کا وقت آن پہونچے۔

    ۳۔ عادل امام یا سلطان عادل۔

ماہنامہ اطلاع رسانی پژوهشی، آموزشی مبلغان، شمارہ: ۱۲۷ 


صحیفہ سجادیہ کی ایک دعا

    عیادت و تیمارداری اہمیت رکھنے کی خاطر اس عظیم ذمہ داری و سنگین وظیفہ اور واجب حق ہے کہ حضرت سجادؑ جو وقت اپنے پڑوسیوں اور احباب کو یاد کرتے ہیں تو خداوند متعال کی بارگاہ استغاثہ فرماتے ہیں کہ انہیں توفیق دے تا کہ اپنے مریضوں کی عیادت کریں۔ 

جیسا کہ صحیفہ سجادیہ میں نقل ہوا ہے: »أَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ وَ تَوَلَّنِی فِی جِیرَانِی وَ مَوَالِیَّ العَارِفِینَ بِحَقِّنَا وَ المُنَابِذِینَ لِأَعدَائِنَا بِأَفضَلِ وَلَایَتِکَ وَ وَفِّقهُم لِإِقَامَةِ سُنَّتِکَ وَ الأَخذِ بِمَحَاسِنِ أَدَبِکَ فِی إِرفَاقِ ضَعِیفِهِم وَ سَدَّ خَلَّتِهِم وَ عِیَادَةِ مَرِیضِهِم ..... أَلَخ« [.امام سجادؑ، صحیفہ سجادیہ، دعا نمبر: ۲۶، ص ۱۲۴.]

 »پروردگارا! محمدؐ و آل محمدؐ پر رحمت نازل فرما اور مجھے اپنے پڑوسیوں اور دوستوں کے حقوق کی ادائیگی میں ہمارے حق کے ساتھ معرفت عطا فرما اور ہمارے دشمنوں کے ساتھ جو مقابلہ کر رہے ہیں بہترین انداز میں نصرت عطا فرما اور ان کی توفیقات میں اضافہ فرماتا کہ تیری مقدس سنتوں کو قائم کریں اور پسندیدہ آداب کے مطابق تربیت ہو اور ان کی توفیقات میں اضافہ فرما تاکہ یہ اپنے ہاتھوں کو حاجتمندوں کی طرف تعاون کیلئے بڑھائیں اور ان کی قوت و طاقت کو ضعفا کی مدد میں صرف کریں اور بد بخت لوگوں کی دوستی سے باز فرما اور اپنے بیماروں کی عیادت کرنے والا مقرر فرما۔ «

تمت بالخیر به نستعین و هو خیر الناصر المعین




DEDICATED TO SHAHE KHORASSAN IMAM ALI IBNE MUSA REZA AS


ER SYED ABBAS HUSSAIN KHORASSANI



Post a Comment

To be published, comments must be reviewed by the administrator *

جدید تر اس سے پرانی