علم و علمداری دور جاہلیت سے عاشورا تک


Via Pinterest



 علم اور علمداری دور جاہلیت سے عاشورا تک

★★★★★★★★★★★★★★★★★★★★★★★★★★★★★★★★

{ مترجم: ابو دانیال اعظمی بریر }


فهرست

ملتوں اور قوموں میں علمداری کا پس منظر

عربوں میں علم اور علمدار کی اھمیت

اسلام میں علمداری

مسلمانوں کا سب سے پہلا عَلَم اور علمدار

سریہ حمزہؑ بن عبد المطلب

عَلَم باندھنے کی تقریب اور مراسم

عَلَم کی خصوصیات

صدر اسلام کے عظیم علمداران

١۔ حمزة بن عبد المطلبؑ

۲۔ امیر المؤمنین علیؑ

۳۔ سعد بن عبادہ (فتح مکہ) 

۴. مُصعَب بن عُمَیر

۵- دیگر علمداران

۱۔ زبیر بن عوام، 

۲۔ سعد بن ابی وقاص،

٣۔ أبو نائلة، 

۴۔ قَتادہ بن نعمان، 

۵۔ ابی بُردہ بن نیار،

۶۔ جبر بن عتیک، 

۷۔ ابو لبابه بن عبد المنذر،

٨۔ أبو اُسَیّد ساعدی،

٩۔ عبد أسد بن زید،

١٠۔ قطبة بن عامر بن حدیده،

١١۔ عماره بن حزم، 

۱۲۔ سلیط بن قیس

امیر المؤمنینؑ کے عَلَمداران

١۔ محمد بن حنفیه

٢۔ حُصَین بن مُنذِر

۳۔ خَالِد بن مُعَمَّر سدوسی

۴۔ هَاشِم بن عُتَیبَه و عبد الله بن ہاشم بن عتیبه

۵۔ صِفِّین کے دیگر علمداران

١۔ هاشم بن عتبه بن ابی وقاص (علمدار كل لشكر)، 

۲۔ عمار بن یاسر، 

۳۔ حجر بن عدیّ کندی، 

۴۔ عمر بن حَمِق خزاعی، 

۵۔ نُعَیم بن هُبَیرہ،

۶۔ رفاعة بن شداد،

۷۔ عبد الله بن عباس

۶۔ اَبُو اَیُّوب اَنصَارِی:

معاویہ ہاویہ کے علمداران

۱۔ بُسر بن ارطاۃ، 

۲۔ عبید الله بن عمر بن خطاب، 

۳۔ عبد الرحمن بن خالد بن وسید، 

۴۔ محمد بن ابو سفیان،

۵۔ عتبه بن ابو سفیان

لشکر امام حسینؑ کا عَلَمدار

علمدار ميمنه زہیر بن قین بجلیؑ 

علمدار میسرہ حبیب بن مظاہر اسدیؑ 

علمدار قلب لشکر ابو الفضل العباسؑ



ملتوں اور قوموں میں علمداری کا پس منظر

    قبائل کے درمیان علم کا استعمال کرنا چاہے جنگ کا زمانہ ہو یا پھر صلح کا دور ہو بہر حال زمانہ قدیم کی طرف ہی باز گشت ہوتی ہے جیسا کہ تاریخی کتابوں سے معلوم ظاہر ہوتا ہے، مختلف تہذیب و تمدن میں عموما مصریوں، ایرانیوں، یونانیوں اور عربوں وغیرہم اس سے بہرہ مند ہوئے ہیں۔ بھلے ہی دقیق طور پر یہ مشخص یا معلوم نہیں ہے کہ پہلی بار کن لوگوں کے ذریعہ اور کس زمانہ میں اس کا استعمال ہوا ہے؛ لیکن مشہور یہی ہے کہ علم کو سب سے پہلی بار جناب ابراہیمؑ ؑکے توسط سے حضرت لوطؑ نبی کو اپنے زمانہ کے طاغوت کی قید خانہ سے آزاد کرانے کیلئے استعمال کیا ہے۔ (ماہ در فرات، ابو الفضل ہادی منش، قم، انتشارات مرکز پژوهشهای اسلامی صدا و سیما، چاپ اوّل، 1381ـ شمسی، ص 67.)

    ایرانیوں کے درمیان ایک علم کافی شہرت رکھتا ہے جسے درفش کاویانی (پرچم کاویانی یا کاویانی کا علم) کہا جاتا ہے اسے اس نام سے پکارنے کی  علت یہ تھی کہ سر زمین ایران اس زمانہ کے ضحاک بادشاہ کے خلاف کاوہ آہنگر (لوہار) کے ذریعہ اس علم کو بلند کیا۔ جو اس کا اپنا سرخ رنگ کا چرمی پیش بند (جسے اپنی گردن پہن یا کمر میںباندھ کر اپنے اگلے جسم کو آگ کی تپش سے بچاتا ہے بالکل ویسا ہی جسے انگریزی زبان میں ایپرن کہا جاتا ہے) تھا اسے ہی ایک لکڑی کے اوپری سرے پر قرار دیا اور حکومت وقت کے خلاف علم کو بلند کر کے اپنی بغاوت کا اعلان کیا اور اس کے بعد سے "درفش کاویانی" یعنی کاویانی کا علم کے نام سے اسے شہرت حاصل ہوئی، اسی درفش کاویان کا نام ایران اور اعراب کی جنگ میں بھی تذکرہ ملاہے۔ (ماہ در فرات، ص 67؛ تاریخ التمدن الاسلامی،  1/ 180 {حاشیہ})


عربوں میں علم اور علمدار کی اھمیت

    اعراب کے درمیان ایک اہمترین منصب علمداری یا علم برداری ہوا ہے کہ جس کے ذریعہ جنگوں میں فخر و مباہات کیا کرتے تھےکیونکہ علم عملی میدان میں ایک دوسرے سے تعلقات کی علامت اور اتحاد کے شعار کے طور پر ہوتی تھی اس طریقہ سے کہ جب بھی علمدار سے پرچم سرنگوں ہو جاتا تھا تو ایک طرح کی شکست اور لشکر کیلئے جدائی و تتر بتر یا منتشر ہونا شمار کیا جاتا تھا۔ جنگوں کے مواقع پر اعراب دور جاہلیت میں اسے اپنے لشکر کے کسی ایک سردار کے ہاتھ میں دیتے تھے۔

قبیلہ قریش کا علم جس کا نام "عقاب" رکھا اور اس کی علمداری کا منصب قریش کی ایک شاخ قبیلہ بنی عبد الدار کے سپرد کر رکھی تھی۔ (سابقہ حوالہ، ص 30.)

    مورخین نے تحریر کیا ہے کہ جس وقت پیغمبر اسلامؐ کے آباء و اجداد میں سے چوتھے جد جناب قصی بن کلاب نے سر زمین مکہ پر قدرت و تسلط حاصل کیا تو قریش کے تمام مناصب اور عہدوں کو انہیں ہی تفویض کیا پھر انہوں نے ان مناصب کو اپنی اولاد کے درمیان تقسیم کیا اور علمداری کے منصب کو اپنے بیٹے جن کا نام عبد الدار تھا ان کے سپرد کرتے ہوئے فرمایا: آج کے بعد کوئی بھی کعبہ میں وارد نہیں ہوگا مگر جنہیں تم اجازت دو گے اور آج سے کوئی بھی علم باندھا نہیں جائے گا مگر یہ کہ تم ارادہ کرو تب ہی سے خانہ کعبہ کی پردہ داری اور علمداری بنی عبد الدار کے پاس ہی باقی رہی۔  (السیرۃ النبویۃ لابن کثیر، ابو الفداء، اسماعیل بن کثیر، بیروت، دار الرائد العربی، چاپ سوم، 1407 ھ، 1/ 100.)

    (بعض تاریخ اسلام کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ تاریخ بشریت میں سب سے پہلے جو سفید رنگ کا علم مظلوم کی حمایت میں بلند کرنے والی جو شخصیت تھی وہ ذات گرامی جناب شیثؑ ابن آدمؑ کی تھی۔ مترجم)

    ایک طرح سے جنگ احد میں ابو سفیان نے اپنے چچازاد بھائیوں کے ساتھ ایک لفظی مشاجرہ میں کہا: تم لوگ علمداری کی لیاقت نہیں رکھتے، کیونکہ جنگ بدر کے روز تم نے اس کی کما حقہ پاسداری نہ کر سکے اور ہم اس جنگ میں شکست کھا گئے! اگر اب بھی تم اس کی لیاقت نہیں رکھتے تو پرچم کی علمداری ہمارے حوالہ کر دو۔


اسلام میں علمداری

    جیسا کہ اکثر مورخین نے کہا ہے: چونکہ پرچم و علم اتحاد کی نشانی اور جنگوں میں متمائز ہونا شمار کیا جاتا تھا لہٰذا بہت زیادہ اہمیت کا حامل رہا ہے پس ظہور اسلام کے بعد بھی خود علم کی ماہیت یا حیثیت ختم نہیں ہوئی بلکہ اس کی قدر و قیمت اور منزلت محفوظ رہی۔

    امیر المومنینؑ علم کی اہمیت کو مجاہدین اسلام کے ذریعہ محفوظ رکھنے کے سلسلہ میں فرماتے ہیں:

»وَ رَأیَتَکُمْ فَلاتُمیلُوها وَلاتُخِلُّوها، وَلاتَجْعَلُوها إِلاّ بِأَیْدِی شُجْعانِکُمْ وَالْمانِعینَ الذِّمارَ مِنْکُمْ فَإِنَّ الصّابرینَ عَلی نُزُولِ الْحَقائِقِ هُمُ الَّذینَ یَحُفُّونَ بِرأیاتِهِمْ وَ یَکْتَنِفُونَها حَفافَیْها وَوَراءَها وَأَمامَها لایَتَأَخَّرُونَ عَنْها فَیُسْلِمُوها وَلایَتَقَدَّمُونَ عَلَیْها فَیُفْرِدُوها.« 

    ہرگز اپنے علم و پرچم کو اس کی اپنی جگہ سے اِدھر اُدھرمت ہٹاؤ اور اس کے ادر گرد کی جگہ کو خالی مت چھوڑو اور اسے صرف اپنے شجاع و بہادر ہاتھوں کے سپرد کرو، وہ لوگ تمہاری جانوں کی بد قسمتی مقابل میں حمایت و حفاظت کرتے ہیں کیونکہ وہ لوگ سخت ترین حادثات میں شدید مستحکم ہوتے ہیں، لہٰذا یہی لوگ علم کی بہتر پاسداری کرتے ہیں اور ہر طرف، آگے پیچھے اور اطراف سے علم کے محافظ ہوں گے، نہ ہی عقب میں رہیں گے اسے تسلیم و سرنگوں کرنے والے ہوں گے اور نہ ہی اتنا آگے بڑھ جائیں گے کہ تنہا اور اکیلا چھوڑ دیں۔ (نہج البلاغہ، دشتی، خطبہ:  124.)

    یہاں پر یہ بات بالکل واضح ہے کہ علم ہی لشکر کے رابطہ و اتحاد کی علامت ہونے کی دلیل کی بنا یہی ہے کہ دشمن کےا ہداف میں سے ایک ہدف یہ بھی ہوتا ہے کہ علمدار کو ختم کردیا جائے اور علم کو سر نگوں کر تے ہوئے اسے زمین بوس کر دیں تا کہ مد مقابل کے جنگجوؤں کی نفسیات کو کمزور و ضعیف کر تے ہوئے انہیں شکست دیدیں۔  

اسی لئے امیر المومنین نے اس کی سب سے زیادہ حفاظت کی سفارش فرمائی ہے۔ ہادیان دین کی سیرت عملی سے ہمیں یہی سمجھ میں آتا ہے کہ علم اور علمداری کی بنسبت بہت زیادہ توجہ دلائی گئی ہے۔ 

    پیغمبر اسلامؐ نے غزوہ تبوک میں چند علموں میں سے ایک علم عُمارہ بن حَزم کو دیا، اسی وقت زید بن ثابت راستہ طے کر کے پہونچے تو پیغمبر خداؐ نے ان سے علم واپس لے کر زید کو دیدیا جو عمارہ کے غم و اندوہ کا باعث بنا، تب انہوں نے پیغمبر اکرم کی طرف توجہ کرتے ہوئے عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ! ایسا لگتا ہے کہ آپ مجھ سے ناراض ہیں۔ (کہ علم مجھ سے لے کر زید بن ثابت کو دیدیا) تو رسولخداؐ نے جواب میں ارشاد فرمایا:

«لا وَاللهِ! وَلکِنْ قَدِّمُوا الْقُرْانَ وَ کانَ اَکْثَرُ اَخْذاً لِلْقُرْآنِ مِنْکَ وَالْقُرْآنُ یُقَدِّمُ وَ اِنْ کانَ عَبْداً اَسْوَداً مُجَدَّعاً»

    خدا کی قسم! (میں ناراض نہیں ہوں) لیکن قرآن کو مقدم کو مقدم رکھو اور وہ تم سے زیادہ قرآن سے بہرہ مند ہوئے ہیں اور قرآن ہی مقدم رکھتا ہے یہاں تک کہ اگر ایک نکٹا (ناک کٹا ہوا) حبشی غلام بھی ہوگا تو قرآن کی بنا پر ہی اسے مقدم رکھا جائے گا، لہٰذا اسی وقت مدینہ کے دو قبائل اوس اور خزرج کو آنحضرتؐ نے دستور فرمایا تا کہ وہ اپنے علموں کو انہی افراد کے سپرد کریں جو لوگ قرآن کا زیادہ علم رکھتے ہیں۔  (کتاب المغازی، محمد بن عمر بن واقد، بیروت، مؤسسۃ الاعلمی للمطبوعات، چاپ سوم، 1989 ء.، 3/ 1003.)

    امیر المؤمنینؑ نے بھی اسی موضوع کو مد نظر رکھا اور علم کو انہی افراد کے حوالہ کیا جو آپ کے لشکر میں سب سے زیادہ ایمان رکھتا تھا۔

    مورخین نے یہ بھی تحریر کیا ہے: جنگ جمل میں اپنے لشکر کا علم امام علیؑ نے اپنے فرزند رشید محمد بن حنفیہ کو دیا اور انہیں یہ ہدایت بھی فرمائی:

«تَزُولُ الْجِبالُ وَلا تَزُلْ! عَضَّ عَلَی ناجِذِکَ! اَعِرِاللهَ جُمْجُمَتَکَ! تِدْ فِی الأَرْضِ قَدَمَکَ! اِرْمِ بِبَصَرِکَ اَقْصَی الْقَوْمِ وَ غُضَّ بَصَرَکَ وَاعْلَمْ اَنَّ النَّصْرَ مِنْ عِنْدِاللهِ سُبْحانَهُ» 

    اگر پہاڑ اپنی جگہ سے ہل جائے مگر تم اپنے ہی مقام پر محکم طور پر جمے رہو! اپنے دانتوں کو دانتوں پر جما کر بھینچ لو! اپنے سر کو خداوند عالم کے سپرد کر دو! اپنے پیروں کو زمین پر مضبوطی سے مستحکم کر لو! (دشمن کے) لشکر کے آخری صف پر نظر رکھو اور (دشمن کی کثیر تعداد) کو نظر انداز کرو اور یہ کان لو کہ کامیابی و کامرانی قادر مطلق اللہ ہی کی طرف سے ہی ملتی ہے۔ (نہج البلاغۃ، دشتی، خطبہ:  11.)

    یہ ہدایات امام نے اسی لئے فرمائی ہیں کہ لشکر و فوج میں علمدار کا عہدہ ایک اہمترین اور کلیدی کردار رکھتا ہے، کیونکہ فوجی اعتبار سے علمداری کا عہدہ کامیابی اور شکست کیلئے شاہ رگ کی حیثیت شمار ہوتا ہے اور اعتقاد کے اعتبار سے بھی سپاہ اسلام کا علم اسی کے سپرد کرنا چاہئے جو سب سے زیادہ متقی و پرہیزگار ہو۔ (لہٰذا ایسا ہی علمدار شخص اس علم کی کما حقہ ذمہ داری ادا کر سکتا ہے۔) 

    جیسا کہ رسول اکرم نے بھی ضمنی طور پر علم اور علمداری کی اہمیت و کردار کو اسی معنی کی طرف اشارہ فرماتےہے اور علمدار کا نام، حسب و نسب بھی پوچھتے رہتے ہیں۔

    جس طرح کا رسم و رواج مورخین نے اپنی کتابوں درج کیا ہے: رسولؐ اسلام کی رکاب میں جنگ حنین طفیل بن عمرو دوسی نے شرکت کی تو آنحضرتؐ نے انہیں اس امر پر مامور فرمایا کہ وہ ذی الکفّین نامی بت کو منہدم کر دیں۔

(طائف میں ذو الکفین یا ذی الکفّین نام کا ایک بت تھا کہ جسے عمرو بن حملہ نے بنایا تھا اور یہی معروف بت تھا جس کی وہ لوگ پرستش کیا کرتے تھے۔) 

    جو مسلمانوں کے ایک گروہ کے ساتھ حملہ ور ہوئے کہ جن کی تعداد ۴۰ افراد تک پہونچتی ہے اور ذی الکفّین نامی بت کو منہدم کرنے کے بعد ہی واپس ہوئے تب پیغمبر اسلامؐ نے فتح کی مبارکبادی پیش کرتے ہوئے ان لوگوں سے سوال فرمایا: اس حملہ میں تمہارا علمدار کون تھا؟ طفیل بن عمرو نے جواب میں عرض کیا: وہی شخص (ہمارا) علمدار تھا جو اس سے پہلے بھی تھا، تب پیغمبر خداؐ نے فرمایا: جی ہاں! تم نے سچ کہا، وہ  نعمان بن زرافہ لِہْبی تھے۔ (کتاب المغازی، محمد بن عمربن واقد، 3/ 922.)

    اس مختصر سی گفتگو سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ اللہ کے رسولؐ جنگوں میں علمدار کی بنسبت کتنے حساس اور دقیق نظریہ رکھتے ہیں۔


مسلمانوں کا سب سے پہلا عَلَم اور علمدار

    رسولخداؐ کا مکہ سے یثرب کی طرف ہجرت کے بعد ۷ مہینے گذرے ہی تھے کہ "سریہ حمزہؑ بن عبد المطلب" پیش آیا، (جناب حمزہ پیغمبرؐ اسلام کے چچا تھے۔) 

    مورخین نے رقم کیا ہے: یہی پہلا موقع تھا کہ سب سے پہلی بار خود پیغمبر اکرمؐ نے بنفس نفیس اپنے ہی دست مبارک سے علم باندھ کر تیار کیا اوراسے سید الشہدا حضرت حمزہؑ کے حوالہ فرمایا تا کہ جنگ پر روانہ ہوں، اس جنگ میں لشکر اسلام کی کل تعداد صرف 30 سواروں نے ہی شرکت کی تھی جن میں نصف تعداد مہاجرین اور نصف تعداد انصار کی تھی، اسی بنا پر ہم سید الشہدا جناب حمزہؑ کو ہی اسلام کا سب سے پہلا علمدار شمار کر سکتے ہیں۔ (السیرۃ النبویۃ، ابن ہشام، 1/ 9.)


عَلَم باندھنے کی تقریب اور مراسم

    علم باندھنا یا پرچم بندی کرنا یہ جنگ شروع ہونے کی علامت ہے اور اس مراسم کے وسیلہ سے جنگجوؤں کو جنگ و جہاد میں دشمن سے مقابلہ کرنے کیلئے شرکت کی دعوت دینا یا بلانا ہوتاہے، جاہلیت کے زمانہ میں ایک خاص تقریب منعقد ہوا کرتی تھی؛ یہ تقریب کچھ یوں انجام پذیر ہوا کرتی تھی کہ علم کو قبیلہ کے سردار کے ہاتھوں میں دیتے تھے تا کہ اسے ایک لکڑی یا نیزہ کے سرے پر باندھے جو علمدار یا پرچمدار کے ہاتھوں میں دیا جانا ہے۔

    لشکر اسلام میں بھی علم بندی یا پرچم باندھنے کے وقت پر دعا کرتے یا پڑھتے تھے اور علمدار یا علم بردار کو قلبی و روحانی یا نفسیاتی طور پر قوت و شوق دلاتے تھے اور اسے شجاعت و دلیری کیلئے جذبات کو ابھارا کرتے تھے۔ اسی عمل کو بنی عباس کے خلفا کے زمانے میں کسی دوسرے طریقہ سے انجام دیتے رہتے تھے اور اس حد تک کہ وہ علم باندھتے اس بات پر دقیق نظر رکھتے تھے کہ اس تقریب میں ستارہ شناسوں یعنی منجمین سے دقیق وقت پہلے سے ہی سعد و نحس متعین کرتے تھے یعنی سعد و نیک ساعت میں ہی اس تقریب پرچم بندی کو منعقد کرتے رہتے تھے اور اس مراسم و تقریب کی خاطر وہ لوگ بہت ہی زیادہ رقم مختص اور خرچ بھی کرتے تھے نیز اس کیلئے خاص بجٹ معین کرتے تھے۔

    جیسا کہ مورخین اپنی کتابوں میں رقم کرتے ہیں: مصر کے فاطمی خلفاء نے اسی پرچم بندی کی تقریب کے انعقاد کیلئے ایک مخصوص ادارہ قائم کر رکھا تھا کہ جو 100 سال تک اپنی فعالیت کو بغیر کسی تعطل کے مسلسل انجام دیتا رہا اور اس پر سالانہ اخراجات یا بجٹ 80 ہزار دینار (یعنی 3.5 گرام سونے کا سکے) ہوا کرتے تھے یہی مذکورہ رقم اسی تقریب یا مراسم کیلئے مخصوص ہوا کرتی تھی۔ (تاریخ التمدن الاسلامی، 1/ 183 & 218.)


عَلَم کی خصوصیات

    زمانہ جاہلیت میں پرچموں یا علَموں کی صحیح شکل و صورت کیسی رہی یہ امر درست طریقہ سے مشخص نہیں ہوا ہے لیکن چاہے اسلام سے پہلے یا اس کے بعد عربوں میں معمول رہتا تھا کہ خود ان کا علم ایک نیزہ پر قرار دیتے تھے پھر بھی پرچموں کے بناوٹ یا رنگ یا نقش و نگار یا کیفیت کے اعتبار سے ایک دوسرے سے متفاوت ہوتے رہے ہیں، ایام جاہلیت میں قریش کا ایک مخصوص "سیاہ رنگ" کا علم بنام "عقاب" ہوا کرتا تھا کہ صدر اسلام میں کبھی کبھار اسی رنگ کے علم کا استعمال کرتے رہتے ہیں۔ خاص طور پر بنی عباس کی خلافت کے زمانہ میں اہلبیت کے خونخواہی یا انتقام و بنی ہاشم کے شہدا کی عزاداری کی علامت اور بنی امیہ کے ذریعہ ہاشمیوں کے قتل عام انجام دیا گیا ہے اسی کی نشانی کے طور پر سیاہ رنگ کے علم کا استعمال کرتے رہے ہیں جبکہ بنی امیہ کی حکومت کے دور میں سرخ رنگ کے پرچم کا استعمال ہوا کرتا تھا۔

    امام رضاؑ کی ولی عہدی کے زمانہ میں مامون کے دستور کے مطابق پرچم کے رنگ اور درباری لباس کو سیاہ کے بجائے سبز رنگ میں تبدیل کر دیا گیا۔ یہ تبدیلی امام رضاؑ کے ہاتھ پر مامون کی بیعت کی نشانی کے طور پر انجام دی گئی۔ لیکن آنحضرت کی شہادت کے بعد پھر اپنے سابقہ پرچم اور درباری لباس کا رنگ یعنی سیاہ کی طرف ہی پلٹ گئے۔

    اسی زمانہ میں افریقہ کے اسلامی شہروں کے بادشاہوں کے پرچم سونے کے تاروں سے مزین اور ریشم کے کپڑے سے تیار کرتے تھے.

    ترک سلاطین اپنے دور میں پرچم میں بالوں کا گُچھا اور منگولہ یعنی گول گچھا نما کوئی چیز قرار دیتے تھے جسے وہ لوگ چتر یا سنجق کے نام سے پکارا کرتے تھے۔ (تاریخ التمدن الاسلامی، 1/ 181.)


صدر اسلام کے عظیم علمداران

۱۔ حمزة بن عبد المطلبؑ: جن کی اسلام میں سب سے پہلی علمداری کا واقعہ سابق کی تحریر میں بیان ہو چکا ہے۔

۲۔ امیر المؤمنین علیؑ: آپ نے اکثر جنگوں میں شرکت فرمائی ہےاور جن جنگوں میں آنحضرت شرکت فرماتے تھے اس کے علمدار بھی ہوتے تھے، جنگ بدر میں لشکر اسلام کے 3 علم تھے: پہلا "سفید رنگ" کا علم، دوسرا "سیاہ رنگ" کا علم اور تیسرا "مِرط عاشیه" سے علم بنایا ہوا تھا، مرط اون یا ریشم سے بنایا ہوا ایک قسم کا کپڑا ہوتا ہے جو لباس بنانے میں بھی استعمال ہوتا ہے لہٰذا یہی علم پیغمبر اکرم نے علی بن ابیطالبؑ کو مرحمت فرمایا۔

    غزوہ احد میں بھی مہاجرین کی علمداری حضرت علیؑ کے ہاتھوں میں ہی تھی اور یہاں تک تذکرہ ملتا ہے کہ کفار قریش کے تمام ہی علمداروں یا علم برداروں کو امیر المومنینؑ نے اپنے ہی ہاتھوں سے قتل کیا ہے اور ان کا علم سرنگوں ہو کر زمین بوس ہوا۔ اسی دوران کفار قریش کے لشکر میں سے ایک عورت بنام "عمرۃ بن علقمة الحارثية" ان عورتوں میں سے تھی کہ جو کفار قریش کے جنگجوؤں کی شجاعت و نفسیات اور اپنے مقتولین بدر کی انتقامی جذبات کی تقویت دینے اور ابھارنے کی خاطر ہی میدان جنگ میں آئیں تھیں لہٰذا مذکورہ عورت نے اپنے ہاتھوں میں کفار قریش کے جنگی پرچم کو اٹھا کر بلند کیا پھر اس علم کو ایک حبشی غلام بنام "صؤاب" نے جو ابو طلحہ کی اولاد کا غلام تھا کو دیدیا کہ یہ بھی مسلمانوں کے ہاتھوں ہلاک ہوا، جبکہ اس کے ہاتھ قطع ہو گئے تھے مگر پھر بھی اس علمدار نے اپنے بازو اور گردن کی مدد سے اپنے لشکر کے علم کو بلند کر رکھا تھا تب امیر المومنینؑ نے اس کی گردن تلوار سے مار کر اسے ہلاک کر دیا۔

    جس کی کیفیت کو حسان بن ثابت انصاری نے اپنے ایک شعر میں اس طرح تذکرہ کیا ہے:

فَلَوْلا لِواءُ الحارِثِیَّةِ أَصْبَحُوا

یُبَاعَونَ فِی الأَسْوَاقِ بَیْعَ الْجَلائِبِ

(السیرۃ النبویة، ابن هشام، 3/ 83. ) 

    ترجمہ: اگر ایک حارثیہ عورت کفار قریش کے پرچم کو ہاتھوں میں بلند نہ کرتی تو وہ لوگ اپنے ہی علم کو بردہ فروش کے بازاروں میں فروخت کر دیتے۔

     یہ ایک بہت بڑی فضیحت تھی کہ جس نے کفار قریش کے ناقابل شکست شمار ہونے والی فوج کو نقصان ایسا پہونچایا جس کا متبادل ممکن ہی نہیں کہ ایک حبشی غلام اور ایک عورت نے ہی کفار قریش کے علم کو بلند کر رکھا تھا۔ جس کی توصیف شاعر اسلام حسان ن ثابت انصاری خزرجی نے اپنے اشعار میں بیان بھی کیا ہے: 

فَلَوْلا لِواءُ الحارِثِیَّةِ أَصْبَحُوا

یباعون فی الأسواق بالثمن الکسرا

    ترجمہ: اگر ایک حارثیہ عورت کفار قریش کے پرچم کو ہاتھوں میں بلند نہ کرتی تو وہ لوگ اپنے ہی بیرق کو بازاروں میں کوڑیوں میں فروخت کر دیتے۔ (السیرۃ النبویة، ابن هشام، 3/ 84.)

    یثرب یعنی مدینہ کے قبیلہ اوس کے علم کا "رنگ سبز" اور قبیلہ خزرج کے علم کا "رنگ سرخ" ہوا کرتا تھا، لہٰذا پیغمبر اکرمؐ نے ان دو قبائل کی دیرینہ آپسی رنجش کے عدم اظہار کی خاطر اور ان کے درمیان کے اختلاف کو ختم کرنے کیلئے ان دونوں قبیلوں کو اجازت فرمائی کہ وہ لوگ اپنے ہی رنگوں کا استعمال کریں۔  (کتاب المغازی، 3/ 895.)

    جنگ خیبر میں امیر المومنینؑ کی قابل دید اور درخشاں علمداری کو تاریخ اسلام میں زندہ جاوید بنا دیا ہے، پیغمبر اسلام نے اسی جنگ میں سفید علم باندھا اور خیبر والوں سے جنگ کیلئے گئے جبکہ یہودیوں کے درمیان ایک تنومند اور قوی الجثہ يا قوي الہیکل پہلوان مرحب نامی بھی تھا کہ اسی نے تن بتن کی جنگ میں انفرادی طور پر لشکر اسلام کے چند پہلوانوں کو درجہ شہادت پر پہونچایا اور مسلمانوں کا یہودیوں سے جنگ کرنا ایک طرح سے متوقف یا سکون کی حالت میں پہونچ گئی۔ (السیرۃ الحلبیة، علی بن برهان الدین الحلبی، مصر، مطبعة مصطفی البابی، 1349 ق،  2/ 159   &  156.)

    جب پیغمبر اکرمؐ نے خیبر کے قلعہ کی بلند و بالا دیواروں کو ناقابل تسخیر ہونے سے رو برو ہوئے تو آنحضرت نے  اپنے لشکر کا علم ابو بکر کو دیا تو انہوں نے بھی رات تک ہی جنگ کیا لیکن فتح کی کوئی بھی خوش خبری نہ دے سکے، پھر دوسرے روز عمر بن خطاب کو اپنا علم دیا اور لشکر کو بھی ان کے ساتھ روانہ کیا وہ بھی صبح سے رات تک جنگ کرتے رہے مگر پھر بھی کامیابی نہیں ملی۔

    پھر پیغمبر اسلام ؐنے بھی یہی فرمایا ہے:  لَأَدْفَعَنَّ الرّأیَةَ غَداً إِلٰی رَجُلٍ یُحِبُّ اللهَ وَ رَسُولَهُ لَا یَنْصَرِفُ حَتّٰی یَفْتَحَ اللهُ عَلٰی یَدِهِ

    آنے والے کل کے روز میں اس مرد کو علم دوں گا کہ جو اللہ اور اسکے رسولؐ سے محبت کرتا ہوگا اور اس وقت تک نہیں پلٹے گا جب تک اس کے ہاتھوں اللہ فتح و ظفر قرار نہ دے گا۔

سارے کے سارے اصحاب منتظر تھے کہ آئندہ کل پیغمبر اکرمؐ اسلام کا علم کس کے ہاتھ میں دیتے ہیں؟ دوسرے دن صبح میں رسولخداؐ نے امام علی کے تعاقب مىں ایک شخص کو بھیجا کہ جو اپنے خیمہ میں آشوب چشم کے درد کی بنا پر کچھ بھی نہیں دیکھ پا رہے تھے۔ رسول اسلامؐ نے آنحضرت کی آنکھوں میں دم کیا اور امام علیؑ نے اپنی آنکھوں کو وا کیا یعنی کھولا، پھر رسول اکرمؐ نے علمِ اسلام آنحضرت کو عطا کیا۔ آنحضرت علم لے کر قلعہ خیبر کے دروازہ کے مقابل میں پہونچے، قوم یہودی کے لوگوں میں سے ایک کے بعد ایک فردا فردا قلعہ سے باہر آنے لگے اور امام علیؑ سے مقابلہ کرنے لگے اور ہلاک ہونے لگے، اسی دوران ان ہی میں سے ایک پہلوان قلعہ سے باہر آیا، [بعض مورخین کی صراحت کے مطابق اس کا نام مرحب تھا۔] (السیرۃ الحلبیة، علی بن برهان الدین الحلبی، مصر، مطبعة مصطفی البابی، 1349 ق، 2/ 161؛ تاریخ الیعقوبی، احمد بن ابی یعقوب، تہران، بنگاہ ترجمه و نشر کتاب، چاپ سوم، 1356 ش، 1/ 415.)

    مرحب کے ہاتھ میں ایک گرز آہنی تھا جسے امام کی کی ڈھال پر پوری طاقت سے مارا پس ڈھال ٹوٹ گئی اور حضرت علیؑ قلعہ کے دوازی کی طرف دوڑے پھر درِ خیبر کو اس کی جگہ سے اکھاڑ کر اپنی سپر بنا لی اور در خیبر ایک ایسا وزنی دروازہ تھا جسے ۸؍ افراد بھی جسے حرکت نہیں دے سکتے تھے۔ (سیرۃ رسول الله، رفیع الدین اسحاق بن محمد، تہران، نشر مرکز، 1373 ش، ص 418 & 419.)

٣. سعد بن عبادہ:

    ہجرت کے آٹھویں سال فتح مکہ کے واقعہ میں بھی پیغمبر اسلامؐ نے ایک علم سعد بن عبادہ کے ہاتھ میں دیا تھا اور جب مکہ میں داخل ہوئے لشکر اسلام کے علمدار سعد بن عبادہ نے یہ نعرہ بلند کیا:

اَلیَومَ یَومُ المَلحَمَة،

اَلیَومَ تَستَحَلُّ الحُرمَة،

اَلیَومَ أَذَلَّ اللهُ قُرَیشاً

آج انتقام کا دن ہے، آج حرمت حلال ہونے کا دن ہے، آج اللہ نے قریش کو ذلیل کیا ہے۔

پھر پیغمبر رحمتؐ نے ان کے نا مناسب نعرہ کی بنا پر علم اور اسلام کی علمداری ان سے واپس لے کر امیر المومنینؑ کے سپرد کیا اور پیغمبر رحمتؐ نے فرمایا کہ اب یہی نعرہ لگایا جائے:

اَلیَومَ یَومُ المَرحَمَة،

اَلیَومَ أَعَزَّ اللهُ فِیة قُرَیشاً

آج رحم کرنے کا دن ہے، آج اللہ نے قریش کو عزت بخشی ہے۔

    پیغمبرؐ اسلام نے بھی اپنی ذاتی مجلس میں یہی فرمایا:

وَ لٰکِن یَوم یُعَظِّم اللهُ فِیة الکَعبَة

و یَوم تکسی فِیة الکَعبَة

لیکن اس دن اللہ تعالی نے کعبہ کو عظمت بخشی ہے اور کعبہ پر چادر چڑھانے کا دن قرار دیا ہے۔

    بالآخر نتیجہ یہی نکلا کہ دین اسلام اور پیغمبر اسلامؐ کو اللہ کی مخلوقات کیلئے رحمت بنا کر بھیجا ہے:

یَومُ المَرحَمَة، لَا یَومُ المَلحَمَة

آج رحم کرنے کا دن ہے نہ کہ روز انتقام يا ضرب و قطعت كا دن ہے۔

    اس لئے کہ جس وقت رسول رحمتؐ کے لشکر نے مکہ کے اطراف کی پہاڑیوں کی بلندیوں سے نیچے اترنے لگے تو اس مضمون کی رجز خوانی کر رہے تھے: آج کا دن روز جنگ و کار زار ہے، آج کا دن ناموس و عزت کی کوئی وقعت نہیں رہی اور قریش کے افراد کو ذلیل و خوار کریں گے۔

    عمر بن خطاب نے جب اس طرح کی رجز خوانی کو سنا تو پیغمبر رحمتؐ کی طرف دوڑے ہوئے گئے اور جو کچھ انہوں نے سنا تھا نقل کر دیا، پیغمبر اسلامؐ مغموم ہوئے اور امیر المومنین کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے فرمایا: جاؤ اور سعد سے علم اور علمداری لے لو اور خود ہی علم اور علمداری کو اختیار کرو پھر مکہ کی طرف روانہ ہو جاؤ!، امیر المومنینؑ نے بھی علم اور علمداری کو اپنے ذمہ لیا۔ (سیرۃ رسول الله، رفیع الدین اسحاق بن محمد، تہران، نشر مرکز، 1373 ش، ص 446) 

  مکہ کی طرف روانگی اس حالت میں ہوئی تھی کہ متعدد علموں میں سے ایک علم خود بنفس نفیس رسول رحمتؐ کے بھی ہاتھوں میں موجود تھا۔ (السیرۃ الحلبیة، 2/ 207.)


۴. مُصعَب بن عُمَیر: یہ موصوف بھی اسلام کے عظیم شیدائی و دلیر سپاہی اور نامور علمداروں میں شمار ہوتا تھا، یہ "مصعب الخیر" کے لقب سے مشہور تھے، جنگ احد میں پیغمبر اکرمؐ نے دو عدد زرہیں ایک کے اوپر ایک پہن رکھی تھیں اور اس جنگ میں تین علموں میں سے ایک علم انہی کو پیغمبر اسلامؐ نے دے کر مسلمانوں کے لشکر کا علمدار قرار دیا تھا۔ (السیرۃ الحلبیة، 2/ 15؛ سیرۃ رسول الله، ص 324؛ السیرۃ النبویة، 3/ 70.)

    مصعب کا تعلق عبد الدار کے خاندان سے تھا جیسا کہ ہم عبد الدار کے بارے میں پہلے تحریر کر چکے ہیں، جزیرۃ العرب میں خاندان عبد الدار کی اولاد کو ہی علمداری کا منصب حاصل تھا، پیغمبر رحمتؐ نے بھی اس خاندان کی عزت اور علمداری کے عہدہ کے احترام میں مصعب کو بھی ۳ علموں میں سے ایک مسلمانوں کا علم عطا کر کے علمداری کا عہدہ عنایت فرمایا۔ (السیرۃ الحلبیة، 2/ 15.)

    یہ بھی علمدار تھے اور پیغمبر خدؐا کی ذات گرامی کی حفاظت بھی کیا کرتے تھے، میدان کی چند جھڑپوں یا لڑائیوں کے بعد رسولخدؐا کے حضور کھڑے ہوئے تھے کہ کفار میں سے کسی نے انہیں درجہ شہادت کو پہونچایا، قریش کے سپاہیوں نے سمجھا کہ پیغمبرؐ کو کسی کافر نے قتل کیا ہے لہٰذا کفار قریش چلانے لگے: محمدؐ کو ہم نے قتل کر دیا۔ اس غلط افواہ کا مسلمانوں کی نفسیات اہمترین اثر ڈالا اور ایک طرح سے شکست جیسے حالات پیدا ہوئے، جس وقت مصعب شہادت کو پہونچے تو پیغمبرؐ اکرم نے ان کا علم امیر المومنینؑ کے سپرد فرمایا اور حضرت علیؑ کی عظمت و منزلت اور لشکر اسلام کی علمداری کے کردار کو تاریخ میں رنگوں سے بھر کر زندہ جاوید بنا دیا۔  (سیرۃ رسول الله، ص 331؛ السیرۃ النبویة، 3/ 77.)

    ۵- دیگر علم برداران: جزیرۃ العرب میں عام طور پر تمام جنگیں جنہیں شرعی اصطلاح میں غزوات (اس کی واحد غزوہ ہے) نیز سرایا (جس کی واحد سریه ہے) کے نام سے جانا جاتا ہے؛ (غزوہ: ان جنگوں کو کہا جاتا ہے جن میں پیغمبر اسلامؐ بنفس نفیس حاضر رہے ہیں اور سریہ: ان جنگوں کو کہا جاتا ہے جس میں پیغمبر اکرمؐ حاضر نہیں رہے ہیں۔) 

    ان تمام جنگوں میں لشکر اسلام چند علم اپنے ساتھ حمل کرتے تھے، مذکورہ افراد سے بھی زائد علمدار کی تعداد موجود ہوا کرتی ہے، کیونکہ ہر قبیلہ اپنے خاص علم کا استعمال کرتے رہے ہیں اور گذشتہ قرائن کی موجودگی کے ساتھ ہم کہہ سکتے ہیں کہ شائد پیغمبر اسلامؐ نے بعض وجود خارجی کی دلیلوں کی بنیاد پرچاہے نسل و قومیت کا رجحان مسلمانوں میں گہرائی تک پیوست تھا لہٰذا آنحضرتؐ نے انہیں اجازت دی تھی کہ ہر قبیلہ اپنا اپنا علم پہچان و شناخت اور جنگجوؤں کو جنگوں میں شرکت کی خاطر استعمال کریں۔

ان میں سے چند عظیم ترین علمداروں کا ذکر درج ذیل ہیں: 

۱۔ زبیر بن عوام، 

۲۔ سعد بن ابی وقاص،

٣۔ أبو نائلة، 

۴۔ قَتادہ بن نعمان، 

۵۔ ابی بُردہ بن نیار،

۶۔ جبر بن عتیک، 

۷۔ ابو لبابه بن عبد المنذر،

٨۔ أبو اُسَیّد ساعدی،

٩۔ عبد أسد بن زید،

١٠۔ قطبة بن عامر بن حدیده،

١١۔ عماره بن حزم، 

۱۲۔ سلیط بن قیس وغیرہم کے ناموں کا تذکره کر سکتے ہیں۔ (کتاب المغازی، 2/ 900.)


امیر المؤمنینؑ کے عَلَمداران


١۔ محمد بن حنفیه: جب امیر المومنین اور جناب عائشہ کے درمیان جنگ جمل رونما ہوئی تو امام علیؑ نے اپنے لشکر میں متعدد علم قرار دیا، لیکن انہوں نے ایک سب سے بڑا سفید رنگ کا علم (صدر یا مرکزی علم) بنایا تھا جسے اپنے بیٹے محمد حنفیہ کے سپرد کیا جو علم ایک بڑے نیزہ کے سرے پر باندھ رکھا تھا۔ (الجمل، محمد بن محمد بن النعمان العکبری البغدادی الشیخ المفید، نجف، مطبعة الحیدریۃ، بی تا، بی نا، ص 183.)

    امام نے اپنے لشکر کی صفوں کو منظم کیا اور جس وقت تمام فوجی اپنے اپنے مقام پر متمکن ہو گئے تو آنحضرت نے محمد حنفیہ کو اپنے پاس بلایا اور علم کو دعا کرتے یا پڑھتے ہوئے نیز علمدار کی روحانیت و نفسیات کی تقویت کیلئے نیک تمناؤں اور خیر کی آرزواؤں کی دعاؤں کے ساتھ سپرد کیا، اس وقت تو جنگ جمل میں محمد حنفیہ کی عمر شریف ۱۹ سال سے زائد نہیں ہوئی تھی۔

    پھر امیر المؤمنینؑ نے اس علمدار سے فرمایا:

وَأَمَّا هٰذِهِ الرَّأیَةُ إِنِّی وَاضِعُهَا الْیَومَ فِی أَهْلِهَا  

    اس علم کے سلسلہ میں یہی کہنا چاہوں گا کہ میں نے آج کے دن اس علم کی علمداری کا اہل اور لائق و فائق سمجھتے ہوئے تمہارے سپرد کر رہا ہوں۔ (الجمل، ص 174)

    اس کے بعد امام حسن کو اپنی فوج کے میمنہ کے حصہ (داہنی سمت کے لشکر) کا علمدار مقرر فرمايا اور پھر امام حسین کو اپنی فوج کے مَیْسرہ کے حصہ (بائیں سمت کے لشکر) کا علمدار معین فرمايا۔ (الجمل، ص 170) 

    پھر محمد بن حنفیہ نے امام نے فرمایا:

تَقَدَّمْ بِالرّأیَةِ وَإعْلَمْ أَنَّ الرَّأیَةَ أَمَامَ أَصْحابِکَ فَکُنْ مُتَقَدِّماً یَلْحَقَکَ مِنْ خَلْفِکَ 

    علم کے ساتھ ہی پیشروی کرتے یعنی آگے بڑھتے ہی رہو اور یہ جان لو کہ علم بھی تمہارے پیشروی کرنے والے فوجی ساتھیوں کے پاس ہی ہونا چاہئے تا کہ تمہارے پیچھے رہ جانے والے سپاہی تم سے ملحق ہو جائیں۔ (الجمل، ص 175.) 


٢۔ حُصَین بن مُنذِر: جنگ صفین میںان موصوف کی عمر شریف صرف ۱۹ سال ہی ہوئی اور امیر المومنینؑ نے اپنے لشکر کی علمداری کے عہدہ پر معین فرمایا اور امام نے سرخ رنگ کا علم ان کے حوالہ کیا اور اپنے دوش پر قرار دیا۔

    امیر المومنینؑ نے ان ہی کی توصیف اور علم کے بارے میں یہ شعر کہا ہے: 

لِمَنْ رأیَةٌ حَمْراءُ یَخْفِقُ ظِلُّهَا

إِذَا قِیلَ قَدِّمْهَا حُصَیْنُ تَقَدَّمَا

(وقعة صفین، نصر بن مزاحم المِنقری، قم، منشورات آیة الله المرعشی النجفی، چاپ دوم، 1404 ق، ص 289.) 

    جب سرخ علم لہراتے ہوئے اس کا سایہ نمودار ہوا، وہ کون ہوگا جو یہ کہے گا اسے لے کر آگے بڑھو لہٰذا (اے) حُصَین اس علم کو لے کر آگے بڑھو۔

    امامؑ نے جس وقت اس علم کو ان کے حوالہ کیا تو فرمایا: مد مقابل کے دشمن کی صف پر (زور دار) حملہ کرو اور انہیں اس کی مہلت مت دو۔ (کہ دشمن تم پر حملہ ور ہوں) انہوں نے علم کو اپنے دوش پر اٹھایا اور یہ نعرہ یا رجز اپنی زبان پر جاری کرتے ہوئے آگے بڑھے: (میدان جنگ میں) موت (کا آنا جنگ کے میدان سے) فرار کرنے سے بہتر ہے۔ (الفتوح، ابن اعثم کوفی، قم، نشر دار الہدی، 1379 ش، ص 145.)

    خود امیر المومنینؑ نے بھی علم سپرد کرتے ہوئے یہ فرمایا:

سِر عَلیٰ إسْمِ الله یَا حُصَیْنُ وَ إعْلَمْ إِنَّهُ لَا یَخْفِقُ عَلیٰ رَأْسِکَ رَأیَةٌ أَبَداً مِثْلُهَا إِنَّهَا رَأیَةُ رَسُولِ الله (ص).

    اے حُصَین! خدا کے نام پر ہی آگے بڑھتے رہو اور یہ جان لو کہ یہ (عظیم) علم تمہارے سر پراسی طرح سے لہراتا رہے کیونکہ یہ وہی علم ہے جو رسولخداؐ کے ہاتھ میں بھی رہا ہے۔  (وقعۃ صفین، ص 300.)

    مورخین نے اپنی کتابوں میں تحریر کیا ہے: اس جنگ میں امیر المومنین کے لشکر میں بہت سے سیاہ رنگ کے علم موجود تھے نیز سیاہ رنگ کے علاوہ سرخ، ہلکا سیاہ، مُعَفر (یعنی سرخ مائل بزرد) و گاڑھا سیاہ رنگوں کے متعدد علم موجود تھے اور امام کے سپاہیوں نے اونی سفید کپڑے کا بھی علم اپنے سروں اور دوش پر ڈال رکھے تھے۔ (وقعة صفین، ص 332.)


۳۔ خَالِد بن مُعَمَّر سدوسی: موصوف بصریوں اور کوفیوں کی فوج کی علمداری کا شرف حاصل تھا، جنگ جمل اور صفین میں بھی شریک تھے، یہ خاندان ربیعہ کے ایک متقی و پرہیزگار جوان تھے کہ جو بہت زیادہ شوق و شغف رکھتے تھے کہ لشکر کی علمداری کا منصب ان کے سپرد کیا جائے۔ (وقعۃ صفین، ص 286.)

    انہوں نے جب لشکر کا علم لے کر علمداری کے عہدہ پر فائز ہونے پر سب سے پہلا کا یہی کیا چونکہ موصوف اپنے قبیلہ کے سرادر بھی تھے لہٰذا اپنے قبیلہ بنی بکر بن وائل کی طرف رخ کر کے یہ کہا: اے کروہ ربیعہ! بیشک خدا اعلی و ارفع مرتبہ والا ہے، جس نے تم سب لوگوں اپنی پیدائش کے مقام سے اس جگہ پر جمع کر دیا ہے اور ہم اب تک اس طرح ایک ساتھ جمع بھی نہیں ہوئے تھے، اگر سچ میں جنگ کرنے کا موقع پڑ جائے اور اس جنگ سے رو گردانی کروگے تو خداوند عالم تم لوگوں سے راضی و خوشنود نہ ہوگا اور عقلمندوں کی زبان کے طعن و تشنیع کے زخم سے بھی محفوظ نہیں رہو گے، کہیں ایسا نہ ہو کہ آج کے دیگر مسلمان تمہیں منحوس سمجھیں!، پس ہمت سے بھی کہیں بڑا قدم اٹھاؤ اور آگے بڑھو اور جان کی بازی لگا دو... کہ خداوند متعال اس شخص کے اجر کو جو اپنا نیک کردار نبھاتے رہیں گے تو ان کے اجر و ثواب کو ضائع و بربادہرگز نہیں کرے گا۔ (وقعۃ صفین، ص 287.)

    انہی کے مذکورہ بالا خطبہ کی بنا پر امامؑ کے لشکریوں کو معاویہ کے خلاف جنگ کیلئے تشویق و تحریص کرنے میں کامیاب بھی ہوئے۔


۴۔ هَاشِم بن عُتَیبَه: موصوف ایک بہادر و دلیر مرد تھے کہ فوج کے علم کو اپنے دوش پر رکھا اور پیشروی کرتے رہے، معاویہ کی فوج کا ایک سپاہی دوران جنگ امیر المومنینؑ پر سبّ و شتم کر رہا تھا، ہاشم نے اس شاتم (گالی بکنے والے) سے کہا: خدا سے ڈرو کہ اس جنگ کے بعد تمہارا حساب و کتاب ہونے والا ہے! اور اسے راہ راست کی طرف راہنمائی فرمائی تو وہ جوان اپنے کئے ہوئے پر پشیمان ہوا پھر توبہ کر لیا؛ لیکن معاویہ کے فوجیوں کی زبانیں طنز میں اس شخص سے یہ کہنے لگے کہ اس مرد عراقی نے تمہیں فریب و دھوکا دیا ہے اور اس سپاہی نے ہاشم کی طرف حملہ کر کے انہیں مجروح کر دیا۔

    جب امیر المومنینؑ نے دیکھا کہ ہاشم کا علم نشیب میں ہے تو آنحضرت نے دستور فرمایا کہ ان کے علم کو بلندتر کرو، لیکن جب امام کی نظر ہاشم کے بدن پر پڑی تو دیکھا کہ ان کا شکم پھاڑ دیا گیا ہے۔

    پھر ہاشم کی جگہ پر بکر بن وائل نامی شخص نے ان کے علم کو بلند کیا اور اسی کے مقام پر قرار دیا لیکن یہ علمدار بھی درجہ شہادت پر فائز ہو گئے۔ اس کے بعد عبد الله بن هاشم بن عتیبه نے اسی علم کو اٹھایا اور اپنے والد کی شہادت کے سوگ میں یہ فریاد یا نعرہ بلند کرنے لگے: اے لوگو! ہاشم خدا کے بندوں میں سے ایک بندہ تھا کہ جس نے اپنے خدا کی نافرمانی نہیں کی اور خالق کی دعوت پر لبیک کہا اور رسولخدا کے چچا کے فرزند (چچا زاد بھائی علیؑ) کی فرمان برداری کی راہ میں اپنی جان کو قربان کر دیا.... (وقعۃ صفین، ص 347.)

    ۵۔ صِفِّین کے دیگر علمداران:

    اگرچہ جنگ صفین میں لشکر امامؑ میں عدم اتحاد و اتفاق سبب قرار پایا کہ حکمیت کا مسئلہ پیدا ہو گیا تھا، لیکن امامؑ کے حقیقی چاہنے والوں کا بھی ایک گروہ موجود تھا، جن میں خاص طور پر یگانگی و ہمدلی واضح نظر آتی تھی، انہوں نے اس جنگ میں ایک مخصوص قسم کی دستار یا عمامہ اپنے سروں پر عقال کے مثل باندھ رکھا تھا جو ان کے اندر امامؑ کی پیروی کرنے کے جذبات میں اتفاق و اتحاد کی علامت و نشانی کا مظہر تھا۔ (تاریخ طبری، محمد بن جریر الطبری، بیروت، مؤسسہ عز الدین، چاپ سوم، 1413 ھ،  4/  596.) 

    امامؑ نے اپنی فوج کے علمداروں سے فرمایا: اپنے علموں کو نیچا نہ کرو گے اور معرکہ کار زار سے باہر نہیں جاؤ گے اور علم کو سوائے دلآوروں کے کسی اور کو بھی اس کی نگہبانی کا شرف نہ ہی حاصل ہو نیز غیر شجاع افراد کے سپرد بھی نہیں کرو گے.... (تاریخ طبری، محمد بن جریر الطبری، بیروت، مؤسسہ عز الدین، چاپ سوم، 1413 ھ،  5/  11.)

    امیر المومنینؑ کے لشکر میں علمداری کے عہدہ پر عظیم اصحاب فائز تھے لہٰذا ان نامور علمداروں کے چند نام درج ذیل ہیں:

١۔ هاشم بن عتبه بن ابی وقاص (علمدار كل لشكر)، 

۲۔ عمار بن یاسر، 

۳۔ حجر بن عدیّ کندی، 

۴۔ عمر بن حَمِق خزاعی، 

۵۔ نُعَیم بن هُبَیرہ،

۶۔ رفاعة بن شداد،

۷۔ عبد الله بن عباس و غیرهم۔ (وقعۃ صفین، ص 205.)


۶۔ اَبُو اَیُّوب اَنصَارِی: موصوف کو رسولخداؐ کی میزبانی کا شرف بھی حاصل رہاہے، یہ جنگ نہروان کے موقع پر لشکر امیر المومنینؑ کے علمدار کے عہدہ پر فائز تھے کہ اسی جنگ کے آخری لمحات میں جبکہ حَکَمِیَّت کے واقعہ کے بعد امامؑ اور خوارج کے درمیان معرکہ کارزار گرم تھا جس میں خوارج امیر المومنینؑ کو مقصر خیال کرتے ہوئے امامؑ کو قتل کرنا اپنے خیال خام میں خود پرواجب تصور کر رہے تھے اور امامؑ بھی یہ نہیں چاہتے تھے کہ خوارج کی بدترین تبلیغات کی بنا پر سادہ لوح افراد کو غافل گیر کر سکے تھے جو اس جنگ میں قتل ہو جائیں تو امامؑ نے ابو ایوب انصاری سے ارشاد فرمایا تا کہ وہ علم لے کر آگے بڑھیں اور خوارج کے لشکر کی نگاہوں کے سامنے رکھیں یہاں تک کہ جو شخص بھی اس علم کے نیچے پناہ لینا چاہے تو اس پرچم تلے جمع ہو جائے گا تو اسے معاف کر دیا جائے گا اور امان بھی دی جائے گی۔ لہٰذا ابو ایوب انصاری اپنے علم کو لے کر آگے بڑھے اور کہا: جو کوئی بھی اس علم کے سایہ میں آجائے گا اسے ہی امان نصیب ہوگی۔ بالآخر اس کے نتیجہ میں تقریا ۸؍ ہزار افراد لشکر خوارج سے نکل کر امامؑ کی پناہ میں آگئے یہ وہی علم یا پرچم تھا جسے ابو ایوب انصاری اٹھائے ہوئے تھے۔ (الفتن الکبریٰ، طالب السّنجری، بیروت، مجمع البحوث الاسلامیة، چاپ اوّل، 1417 ھ، ص 255.)

    لشکر خوارج کے سردار "عبد اللہ بن وهب" نے حملہ کا حکم دیتے ہوئے بلند آوز سے یہ نعرہ لگایا: بہشت کی طرف چلو! اور جنگ کے نتیجہ میں تقریباً اکثریت متفقہ طور پر قتل ہو گئی۔  (الکامل فی التاریخ، عز الدین علی بن اثیر، تہران، نشر اساطیر، چاپ دوم، 1376 ھـ. ش، 5/ 1943.)


معاویہ کے علمداران:

امیر شام کی فوج میں بھی بہت سے علمداران موجود تھے جن میں سے ہم چند کا تذکرہ بطور مثال یہاں پر رقم کر رہے ہیں:

۱۔ بُسر بن ارطاۃ، 

۲۔ عبید الله بن عمر بن خطاب، 

۳۔ عبد الرحمن بن خالد بن وسید، 

۴۔ محمد بن ابو سفیان،

۵۔ عتبه بن ابو سفیان وغیرہم کے نام کتابوں میں ملتے ہیں۔

    معاویہ نے بھی اپنی خاندانی وقار و عزت میں اضافہ کی خاطر زیادہ تر اپنے ہی خاندان کے افراد کو علمدار مقرر کرتا رہتا تھا۔ (وقعۃ صفین، ص 424.)

    کیونکہ کفار قریش فتح مکہ کے موقع پر اسلام لائے اور طلقاء کے طبقات میں سے یہی لوگ تیسرے یعنی ادنی طبقہ کے "طلقاء" میں شمار ہوتے تھے اور انہیں "طلقاء" کے لقب سے یاد کر کے ان کی توہین کیا کرتے تھے۔

تفصیلات کیلئے ہمارا مضمون "طلقاء کون لوگ ہیں نیز اب کی تعداد اور مشاہیر کون ہیں اور ان کتنی قسمیں ہیں" کا مطالعہ کیجئے۔

جس کا لنک ہم ذیل میں درج کر رہے ہیں: 

WHO WERE TOLAQA AFTER FATEH MECCA


    جنگ صفین میں عمرو بن عاص نے بھی ایک ۴ کونے والا سیاہ کپڑے کا (چوکور) ٹکڑا نیزہ پر باندھا تھا اور یہ افواہ اڑا کر مشہور کر دیا تھا کہ یہ وہی علم یا پرچم ہے کہ جسے رسولخداؐ نے باندھا تھا۔ جب یہ خبر امیر المومنینؑ تک پہونچی تو امام نے وضاحت کرتے ہوئے تمام احوال اس طرح بیان فرمایا: کیا تم لوگ اس پرچم یا علم کے واقعہ کا علم رکھتے ہو کہ کیا ماجرا ہے؟ پیغمبر خداؐ نے اس علم کے کپڑے کو دشمن خدا، عمر بن عاص اور دوسروں کو دکھاتے ہوئے ارشاد فرمایا: کون ہے جو اس (علم کو) ایک شرط کے ساتھ قبول کرے گا؟ تو عمرو عاص اٹھا اور کہنے لگا: وہ شرط کیا ہے؟ رسولخداؐ نے فرمایا: اس کی شرط یہی ہے کہ کسی بھی مسلمان کے ساتھ جنگ نہیں کرو گے اور کسی ایک کافر کو بھی آسودہ خاطر نہیں رہنے دو گے۔ تب عمرو عاص نے بھی مذکورہ شرط کے ساتھ اس علم کو لیا اور خدا کے نام پر قسم کھائی، یہ وہی شخص ہے جس نے اس وقت مشرکین کو آسودہ خاطر کیا اور آج ہی کے روز مسلمانوں کے ساتھ جنگ کیلئے اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ (وقعۃ صفین، ص 215.)


امام حسینؑ کا عَلَمدار

    عاشورا کے روز صبح میں امامؑ نے اپنے احباب و انصار کو دو حصوں میں منقسم کیا جن میں ۳۰؍ سوار اور ۴۰؍ پیادہ فوجیوں کی ایک مختصر سی تعداد موجود تھی: امام نے اپنے لشکر کے دائیں سمت (ميمنه) کے لشکر کا علمدار زہیر بن قین بجلیؑ کو قرار دیا اور لشکر کے بائیں سمت (ميسره) کے لشکر کا علمدار حبیب بن مظاہر اسدیؑ کو مقرر کیا اور خود کے سب سے زیادہ شجاع و دلیر بھائی ابو الفضل العباسؑ کو اپنے قلب لشکر کي علمداری کا عہدہ عطا فرمایا تھا۔ (تاریخ الطبری، 5/ 213؛ مقتل الحسینؑ، موفق بن احمد الخوارزمی، قم، منشورات مکتبة المفید، بی تا، 2/ 4.)

    (امام حسینؑ کے لشکر کی مجموعی تعداد میں اختلاف پایا جاتا ہے: بعض نے ۸۲؍ سپاہی، کچھ مورخين نے ۱۱۴؍ فوجی، تو چند مورخین نے ۱۴۵؍ اعزه و انصار اور کچھ كتب مقاتل نے ۱۷۱؍ نفوس، پھر بعض مقابل كي كتابوں نے ۱۵۴؍ افراد کی مجموعی تعداد تحریر کیا ہے۔ مترجم)

    (بعض مورخین نے امام حسینؑ کے لشکر کی ترکیب و تنظیم کے سلسلہ میں لکھا ہے: امام نے اپنی مختصر سی فوج کو ۳ حصوں میں تقسیم کیا:

    ۱۔ میمنہ یعنی دائیں لشکر کی کمان میں ۲۰؍ افراد کو زہیر بن قینؑ کی علمداری کے ماتحت متعین فرمایا۔

    ۲۔ میسرہ یعنی بائیں لشکر کی کمان میں ۲۰؍ افراد کو حبیب بن مظاہرؑ کی علمداری میں قرار دیا۔

    ۳۔ بقیہ تمام افراد کو امامؑ نے قلب لشکر (مرکزی فوج کی کمان) میں عباس بن علیؑ کی ما تحتی میں معین فرمایا نیز اپنے لشکر کا مرکزی علم بھی ابو الفضل العباسؑ کو عطا کر کے "صاحب لواء" سے خطاب فرمایا تھا۔ مترجم)

    امام حسینؑ نے جناب عباسؑ کے حساس کردار کی بنا پر جو انہیں دشمنوں کے رو برو ہونے پر جنگ اور جہاد کرنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی؛ کیونکہ ان کی شہادت علمدار ہونے کے کردار کے اعتبار سے خود ان کے ہی سپاہیوں کے نفسیات پر ناقابل تلافی کاری ضرب لگ سکتی تھی لہٰذا جناب عباسؑ علمدار نے دیکھا کہ امامؑ تنہا و اکیلے ہو گئے ہیں اور امامؑ کے سارے احباب و انصار شہید ہو چکے ہیں تو جب علمدار لشکر حسینی نے جنگ کی اجازت طلب کی تبھی امامؑ نے مذکورہ کلمات ارشاد فرمایا ہے:

"یَا أَخِی! أَنْتَ صَاحِبُ لِوَائی وَ إِذَا مَضَیْتَ تَفَرَّقَ عَسْکَرِی" 

    اے میرے بھائی! تم ہی تو میرے لشکر کے علمدار ہو اور جب تم ہی چلے جاؤ گے تو میرا لشکر ہی پراکندہ و متفرق ہو جائے گا۔ (بحار الانوار، مجلسی، بیروت، مؤسسة الرسالة، 1403 ھ. ق، 45/ 41.) 

    بعض مورخیں نے تحریر کیا ہے:جب اسیران اہلبیتؑ کا قافلہ شام کے شہر دمشق میں پہونچا تو شہیدان کربلا کے لوٹے ہوئے مال و اسباب کے ساتھ ایک علم بھی موجود تھا جس پر شمشیر و نیزہ کی ضربات کے نشانات واضح طور پر دیکھے جا سکتے تھے جب ان لوٹے ہوئے مال و اسباب کو یزید کے سامنے حاضر کیا گیا تو یزید نے بھی مذکورہ علم کو اٹھایا اور دقت نظر سے اسے دیکھنے لگا اور پوچھا: یہ علم کس کے ہاتھوں میں رہا ہے؟ لوگوں نے جواب میں کہا: عباس بن علیؑ کے ہاتھوں میں تھا۔ تب وہ تعجب  و حیرت سے کھڑا ہو گیا اور دربار میں موجود لوگوں سے کہنے لگا: اس علم کو خوب غور سے دیکھ لو، یہی دیکھو کہ اس علم کی لکڑی پر کوئی ایک جگہ بھی جنگ کے (تير و تبر، شمشير، تلوار و خنجر) حملوں کے نشانات سے محفوظ نہیں رہی ہے لیکن عباسؑ علمدار نے اپنے ہاتھوں سے جہاں پر پکڑ رکھا تھا وہ جگہ اب بھی صحیح و سلامت برقرار ہے۔ (اس مقام پر ایک کھرونچ کا نشان بھی نظر نہیں آئے گا بلکہ ایک بال کے برابر بھی نشان موجود نہیں ہے۔)

    یزید کی یہ باتیں ایک طرح سے کنایہ تھیں کہ عباسؑ علمدار نے اپنے ہی ہاتھ پر تیغ و تبر نيز خنجر و تلوار کے زخموں کو برداشت کر لیا مگر اپنے لشکر کے علم کو ہرگز سرنگوں اورنیچا ہونے نہیں دیا۔ (سوگنامه آل محمدؐ، محمد محمدی اشتہاردی، قم، انتشارات ناصر، چاپ ششم، 1373. ش، ص 299.)

    امام حسینؑ کے احباب و انصار کے درمیان حضرت عباسؑ کے مقام و منزلت کی حیثیت سے ایک خصوصی و منفرد بافضیلت شخصیت ہونا ثابت تھی جس وقت مدینہ میں امامؑ کے اقربا اور خواص میں سے ہر ایک آنحضرتؑ کو تحریک و قیام سے باز رکھ رہے تھے اور امامؑ کو خیر خواہی کے ساتھ ہی نصیحت بھی کر رہے تھے مزید یہ کہ امامؑ کو اس تحریک سے ہوشیار اور خبردار بھی کر رہے تھے لہٰذا حضرت عباسؑ ایسے حساس اور بحرانی حالات میں بغیر کسی مصلحت اندیشی کے امام حسینؑ کی مدد و نصرت کرنے میں سب سے آگے آگے رہے ہیں۔ 

    دوسری طرف تحریک و قیام کے دوران بھی ہمیشہ و مستقل حضرت عباسؑ ہر موڑ پر پیش پیش رہتے ہیں، جب امام حسینؑ شب عاشورا کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ امامؑ نے اپنی بیعت اٹھا لی ہے اور اپنے احباب و انصار کو کس ایک فرد کو اپنے ساتھ لی جانے کا حکم فرما دیا، اشقیا فقط امام حسینؑ کو ہی قتل کرنا چاہتے ہیں اور دیگر لوگوں سے انہیں کوئی دلچسپی نہیں ہے کہ سب لوگ اپنی جان بچائیں اور امامؑ کو تنہا و بے یار و مددگار چھوڑ کر چلے جائیں اور امامؑ نے ہر ایک کو کربلا سے وطن لوٹنے کی اجازت بھی دیدی تھی تو سب سے پہلے عباسؑ علمدار کھڑے ہو کر یہ فریاد کرتے ہیں:

 لَمْ نَفْعَلْ ذٰلِکَ! لِنَبْقِیَ بَعْدَکَ؟ لَا أَرَانَا اللهُ ذٰلِکَ أَبَداً.

    ہم ہرگز ایسا نہیں کریں گے! کیا آپ کے بعد ہم زندگی بسر کر سکیں گے؟ تو خداوند عالم ہمیں ایسی زندگی ہرگز عطا نہ کرے۔ (شیخ عباس قمی، نفس المهموم، تہران، کتابفروشی اسلامیه، 1368، ق، ص 13؛ ابو مخنف الازدی، مقتل الحسینؑ، ص ۱۰۷ و ۱۷۷؛ تاریخ طبری ۴/ ۳۱۸؛ الارشاد شیخ مفید ۲/ ۹۱.)

    جس وقت امامؑ دشمن کے لشکر کے شور و غل کی آواز سنتے ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ فوج اشقیا شب خون مارنے پر آمادہ نظر آتے ہیں تبھی حضرت عباسؑ کو ۲۰ ؍ سواروں کے ساتھ لشکر یزید کی طرف روانہ کرتے ہیں تا کہ وہ دیکھیں کہ وہ اشقيا لوگ کیا چاہتے ہیں؟ اور امامؑ اپنے عباسؑ علمدار سے یہ ارشاد فرماتے ہیں:

یَا عَبّاسُ اِرْکَبْ بِنَفْسی اَنْتَ یا اَخی! حَتَّی تَلْقاهُمْ وَ تَقُولَ: لَهُمْ ما لَکُمْ وَ ما بَدالَکُمْ وَ تَسْأَلْهُمْ عَمّا جاءَ بِهِمْ؟

    اے عباسؑ تم خود بنفسِ نفیس (گھوڑے پر) سوار ہو کر جاؤ. اے میرے بھائی! یہاں تک کہ تم ان لوگوں سے ملاقات کرو اور ان اشقیاء سے تم یہ کہو: تمہیں کیا ہو ا ہے اور تم لوگ کیا چاہتے ہو اور ان سے سوال کرو کہ تم لوگوں کا یہاں پر آنے کا سبب کیا ہے؟  (محمد بن محمد بن النعمان، شیخ مفید، الارشاد، تهران، دفتر نشر فرهنگ اسلامی، 1378. ش، 2/ 132.)

    پھر جناب عباسؑ ان کوفی لشکر کے پاس گئے اور یہی خبر لائے کہ یہ لوگ جنگ کے مقصد کیلئے آئے ہیں۔ پس امام حسینؑ نے فرمایا:

إِرْجِعْ إِلَیْهِمْ فَإِنِ اسْتَطَعْتَ أَنْ تُؤَخِّرَهُمْ إِلٰی الْغُدْوَةِ وَ تَدْفَعَهُمْ عَنَّا الْعَشِیَّةَ لَعَلَّنا نُصَلیّ لِرَبِّنَا اللَّیْلَةَ وَ نَدْعُوهُ وَ نَسْتَغْفِرُهُ فَهُوَ یَعْلَمُ أَنِّی قَدْ کُنْتُ أُحِبُّ الصَّلٰوةَ لَهُ وَ تِلَاوَةَ کِتَابِهِ وَ الدُّعَاءَ وَ الإِسْتِغْفَارَ

    تم ان لوگوں کی طرف پلٹ جاؤ اگر ہو سکے تو صبح تک کی مہلت ان سے لے لو اور آج کی رات ان لوگوں پلٹا دو، شائد ہم آج ہی کی رات اپنے پروردگار عالم کیلئے نماز پڑھیں گے اور اس سے مناجات اور مغفرت طلب کریں گے پس وہی خداوند عالم ہی جانتا ہے کہ مجھے اس کیلئے نماز پڑھنے، کتاب خداکی تلاوت کرنے اور اس کی بارگاہ میں دعا کرنے اور اس سے مغفرت طلب کرنا بہت محبوب ہے۔ (الإرشاد، تهران، دفتر نشر فرهنگ اسلامی، 1378. ش، 2/133.)

    پس عباسؑ علمدار نے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے ویسا ہی کیا جیسا امامؑ نے دستور فرمایا۔

    عاشورا کے روز بھی اسی علمدار حسینی نے خیموں کے دفاع کے علاوہ جب بھی اپنے لشکریوں میں سے کوئی ایک یا چند افراد دشمن سے مقابلہ یا جھڑپ یا محاصرہ میں قرار پاتے تھےاور ان میں دشمن سے مقابلہ نہیں کر سکتے تھے تبھی تو یہ عظیم و زندہ جاوید علمداران کی مدد و نصرت کیلئے جلد از جلد آگے بڑھتے تھے اور دشمن کے حلقہ محاصرہ کو توڑتے تھے، بطور مثال انصار امامؑ کے درج ذیل افراد کا میدان کارزار دشمن سے مقابلہ ہوا جیسے: عمر بن خالد صیداویؑ، جابر بن حارث سلمانیؑ اور سعدؑ (عمر بن خالد صیداوی کے غلام) جب میدان جنگ میں دشمن سے چند گھڑی مقابلہ کرنے کے بعد محاصرہ میں پھنس گئے تو حضرت عباسؑ علمدار نے ہی اپنے انہی ساتھیوں کے دفاع کی خاطر ایک زبردست حملہ کیا اور انہیں دشمن کے محاصرہ و چنگل سے نجات دلائی تھی۔ (تاریخ الطبری، 5/ 216)

    اسی علمدار حسینی کی ایک افتخار آمیز عمل یہ بھی رہا ہےجو عباسؑ علمدار نے کربلا کے میدان میں انجام دیا ہے، اپنے بھائیوں کی فدا کاری و جان نثاري کی طرف سے اطمینان کیلئے عبد اللہؑ، جعفرؑ اور عثمانؑ سے امام کی حیات میں اپنی قربانی دینے کی خاطر آمادہ کیا نیز اپنے ہی بھائیوں سے یہی کہہ رہے تھے: 

 تَقَدَّمُوا بِنَفْسی أَنْتُمْ! فَحامُوا عَنْ سَیِّدِکُمْ حَتّی تَمُوتُوا دُونَهُ

    (اے میرے عزیز بھائیو) آگے بڑھو میں تم پر فدا ہو جاؤں! پس اپنے سردار و امامؑ کی حمایت و نصرت کرو یہاں تک کہ اپنے امامؑ ہی کے سامنے اپنی جانوں کی قربانی پیش کر دو۔ (الارشاد، 2/ ص162.)

    پھر وہی ۳؍ بھائیوں کو میدان جنگ میں بھیجا پس ام البنین کے ۳؍ بیٹوں نے میدان وغا میں پہونچ کر داد شجاعت کے جوہر کا بھر پور مظاہرہ کیا اور جام شہادت نوش فرمایا اور اعزہ و اقربا کے بعد سب سے آخر میں لشکر حسینی کے علمدار کی باری آتی ہے مگر عباسؑ علمدار جسے امیر المومنینؑ نے کربلا کیلئے تعلیم و تربیت فرمایا تھا انہیں بھی امامؑ وقت نے جنگ کی اجازت ہرگز نہیں دی بلکہ اہل حرم کیلئے پانی کی سبیل کا ہی حکم امامؑ نے دیا تھا لہٰذا امامؑ وقت کے دستور کے مطابق سر تسلیم خم کر کے جنگ تو نہیں کی مگر میدان وغا میں اہلبیت کا دفاع کرنے کی بنا پر دونوں شانے قلم ہونے کے باوجود اپنے لشکر کے علم کو سر بلند رکھا بالآخر حسینی لشکر کا علمدار و سقائے سکینہ سر پر ایک گرز آہنی کی ضرب کی بنا پر گھوڑے سے سر زمین کربلا کی طرف چلا اور سر کے بل زمین کربلا پر سقوط کر گیا۔

    اہلسنت کے مشہور مورخ ابو حنیفہ دینوری نے عباسؑ علمدار کی شہادت کے سلسلہ میں تحریر کیا ہے:

وَ بَقِیَ الْعَبَّاسُ بْنُ عَلِیٍّؑ قَائِماً لِإِمَامِ الحُسَینِؑ  یُقَاتِلُ دُونَهُ وَ یَمیلُ مَعَهُ حَیْثُ مَالَ حَتّٰی قُتِلَ رَحْمَةُ الله ِ عَلَیْهِ

    امام حسین بن علیؑ کے احباب و انصار میں سے جس وقت صرف عباس بن علیؑ باقی رہ گئے تو علمدار لشکر امام کی حفاظت ویسے ہی کر رہے تھے جیسے شمع اور پروانہ کہ علمدار حسینی امامؑ وقت کے ارد گرد ایسے ہی حفاظت کر رہے تھے جس طرح پروانہ شمع کے چاروں طرف چکر لگاتا رہتا ہے، عباسؑ علمدار اپنے لئے جنگ نہیں کر رہے تھے بلکہ اپنے امامؑ وقت کی خاطر جنگ کر رہے تھے تا کہ کسی بھی صورت میں امامؑ کی جان بچ جائے، آپ شمع امامت کے وہ پروانہ تھے کہ بہر حال شمع امامت بجھنے نہ پائے لیکن عباسؑ علمدا ر کی شہادت کے بعد امام حسینؑ کو بھی یزیدی ملعونوں نے شہید کر دیا اس شہید علمدار پر اللہ تعالی اپنی رحمت نازل فرمائے۔ (ابو حنیفه احمد بن داؤد الدینوری، اخبار الطِّوال، بیروت، دار الکتب العلمیة، چاپ اول، 1421. ق، ص 380.)

    عباسؑ علمدار کی شہادت کے ساتھ ہی علمداری کا باب امامؑ زمانہ کے ظہور تک بند ہو گیا اور جنگوں میں تاریخ کے صفحات پر آخری عباسؑ علمدار کی حیثیت سے حضور ائمہ طاہرینؑ کے زمانوں میں اسی ذات والا صفات کے نام سے ثبت ہوا ہے۔

    خاتم المحدثین شیخ عباس قمی اپنی کتاب مشہور و معروف کتاب "مفاتیح الجنان" میں جناب عباسؑ علمدار کی فضیلت کے سلسلہ میں رقم کرتے ہیں جیسا کہ تحریر ہے:

    مولف کہتا ہے کہ روایت ہوئی ہے حدیث میں سید سجادؑ سے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ فرمایا: خدایا رحمت کرے عباسؑ پر کہ انہوں نے اپنے بھائی پر ایثار کیا اور اپنی جان ان کیلئے قربان کردی یہاں تک کہ ان کی نصرت میں دونوں شانے قلم ہوگئے اور خدا نے دونوں ہاتھوں کے بدلے میں دو پر عنایت فرمائے ہیں جن سے وہ فرشتوں کے ساتھ جنت میں پرواز کرتے ہیں جیسے جناب جعفر طیار بن ابیطالبؑ اور جناب عباسؑ کیلئے خدا کے نزدیک روز قیامت ایسا درجہ ہے کہ تمام شہیداء ان پر رشک و غبطہ کریں گے اور ان کے مقام کی آرزو کریں گے اور منقول ہے کہ حضرت عباسؑ کی عمر شریف روز شہادت ۳۴ ؍ سال تھی ۔

    ام البنین مادر حضرت عباسؑ علمدار اور ان کے بھائیوں کے غم میں مدینہ کے باہر جنت البقیع میں جاتی تھیں اور ان کے غم میں اس طرح نالہ و فریاد کرتی تھیں کہ جو بھی وہاں سے گزرتا تھا رونے لگتا تھا، دوستوں کا گریہ کرنا کوئی تعجب کی بات نہیں ہے، مروان بن حکم جو خاندان نبوتؑ کا بہت بڑا دشمن تھا جب وہ ام البنین کے پاس سے گذرتا تھا تو ان کے گریہ سے متاثر ہو کر رونے لگتا تھا۔

    ام البنین کے درج ذیل اشعار جناب عباسؑ اور ان کے بھائیوں کے مرثیہ کے طور پر منقول ہیں؛ ملاحظہ کیجئے:

یَا مَن رَأیَ العَبَّاسَ کَرَّ عَلَیٰ جَمَاہِیرِ النَّقَدِ

دیکھا ہے جس نے حملہ عباس نامور

وَ وَرَاہُ مِن أَبنَآءِ حَیدَرَ کُلُّ لَیثٍ ذِی  لَبَدٍ

تھے جس کے ساتھ اور بھی کرار کے پسر 

أُنبِئتُ أَنَّ إبنِی أُصِیبَ بِرَأسِہِ مَقطُوعَ یَدٍ

سنتی ہوں ہاتھ کٹنے پہ زخمی ہوا تھا سر

وَیلِی عَلَیٰ شِبلِی أَمَال بِرَأسِہِ ضَربُ العَمَدِ

یارب گرا تھا لال مرا کیسے خاک پر

لَو کَانَ سَیفُکَ فِی یَدِیکَ لَمَادَنَیٰ مِنہُ أَحَدٌ

   ہوتی جو تیغ پاس نہ آتا کوئی نظر

وَ لَہَا أَیضاً

   ام البنین کا یہ مرثیہ بھی منقول ہے

لَا تَدعُوِنِّی وَیکِ أُمُّ البَنِینَ

   ام البنین کہہ کے پکارے نہ اب کوئی 

تُذَکِّرِینِی بِلِیُوثِ العَرِینِ

   آتے ہیں یاد مجھ کو وہ شیران حیدری 

کَانَت بَنُونَ لِی أُدعَی بِہِم

   جب تک تھے میرے لال میں ام البنین تھی

وَ الیَومَ أَصبَحتُ وَ لَا مِن بَنِینَ

   اجڑی ہے ایسی کوکھ کہ اب کچھ نہیں رہی

أَربَعَۃٌ مِثلُ نُسُورِ الرُّبَی

   وہ میرے چار شیر نیستان مرتضی

قَد وَاصَلُوا المَوتَ بِقَطعِ الوَتِینِ

   سر دے کے سو گئے جو سر خاک کربلا

تَنَازَعَ الِخرصَانُ أَشلَائَہُم 

   میداں میں جو ھی آگیا ان سب کے رو برو

فَکُلُّہُم أَمسَیٰ صَرِیعاً طَعِینَ

   وہ جنگ کی زمیں پہ برسنے لگا لہو

یَا لَیتَ شِعرِی أَ کَمَا أَخبَرُوا

   اے کاش کوئی آ کے مجھے دیتا یہ خبر

بِأَنَّ عَبَّاساً قَطِیعُ الیَمِینِ

   کیا واقعی تھا دست بریدہ مرا پسر

(مزید تفصیل کیلئے مفاتیح الجنان اردو، مترجمہ خیرآبادی) از صفحہ نمبر: ۷۹۸ تا ٨٠٠)


شاعر سید رضا مؤید کے چند اشعار

عباس لوای همت افراشته است

عباسؑ نے ہمت کا لواء (مرکزی علم) کو لہرایا ہے 

وین راز به خون خویش بنگاشته است

اور اس راز کو اپنے ہی خون سے لکھا ہے

او پرچم انقلاب عاشورا را

یہ عاشورا کے انقلاب کا علمدار ہے 

با دست بریده اش به پا داشته است

اپنے ہی بریدہ ہاتھوں اسے سر بلند کیا ہے

٭ ز تاج شهیدان همه عالمی        دست علی ماه بنی هاشمی

ساری دنیا کے شہیدوں کا تاج ہے    قمر بنی ہاشم تو علیؑ کا ہاتھ ہے

چار امامی که تو را دیده اند        دست علم گیر تو بوسیده اند

چار اماموں نے آپ کو دیکھا ہے        انہوں نے علمدار کے ہاتھوں کو بوسہ دیا ہے

 مترجم * ابو دانیال * بریر * اعظمی

$}{@J@r

بر لب آبم و از داغ غمت می میرم    هر دم از غصه جانسوز تو آتش گیرم

مادرم داد به من درس وفاداری را    عشق شیرین تو آمیخته شد با شیرم

گاه سردار علمدارم و گاهی سقا    که به پاس حَرَمت گشت زنان چون شیرم

غیرتم، گاه نهیبم زند از جا برخیز!    لیک فرمان مطاع تو شود پا گیرم

کربلا کعبه عشق است و منم در احرام    شد در این قبله عشاق دو تا تقصیرم

دست من خورد به آبی که نصیب تو نشد چشم من داد از آن آب روان تصویرم

باید این دیده و این دست کنم قربانی    تا که تکمیل شود حج و من آن گه میرم

زین جهت دست به پای تو فشاندم بر خاک    تا کنم دیده فدا، چشم به راه تیرم

ای قد و قامت تو معنی «قد قامت» من    ای که الهام عبادت ز وجودت گیرم

وصل شد حال قیامم ز عمودی به سجود    بی رکوع است نماز من و این تکبیرم

جسدم را به سوی خیمه اصغر مبرید    که خجالت زده زان تشنه لب بی شیرم

(حبیب الله چایچیان)

پرچم و پرچمداری، از جاهلیت تا عاشورا

مجله مبلغان،

بهمن و اسفند: 1383، 

شماره: 63




DEDICATED TO SHAHE KHORASSAN IMAM ALI IBNE MUSA REZA AS



ER SYED ABBAS HUSSAIN KHORASSANI



Post a Comment

To be published, comments must be reviewed by the administrator *

جدید تر اس سے پرانی