امام مهدیؑ کی غیبت کے زمانہ میں شیعوں کے وظائف




 امام کی غیبت کے زمانہ میں  شیعوں کی ذمہ داریاں

 ترجمہ : ابو دانیال اعظمی بریر

زمانہ غیبت میں شیعوں کے وظائف

سوال: امام زمانہ (عج) کی غیبت کے زمانہ میں امام کے شیعہ منتطریں کی کونسے وظائف و فرائض اور ذمہ داریاں  ہیں.؟

اجمالی جواب :

غیبت امام عصر کے زمانہ میں ہمارے وظائف وہی ہیں جو امام معصوم کے حضور کے وقت میں ہماری ذمہ داریاں ہوتی ہیں.

ان وظائف کے  مجموعہ کو ہم ایک جملہ میں خلاصہ بھی کر سکتے ہیں اور یہی کہیں گے کہ زمانہ غیبت میں شیعوں کا سب سے عظیم وظیفہ یہی ہے کہ حضرت مہدی (عج)  کی فرج اور عالمی حکومت کا انتظار کرنا ہے. انتظار فرج کا عملی ہونا اس طرح سے ہے کہ ہم سب قرآن کریم، پیغمبر اسلام اور اہلبیت کے تمام ہی دستورات کو عملی جامہ پہنائیں. 

تفصیلی جواب:

زمانہ غیبت میں بھی ہمارا وظیفہ ویسا ہی ہے جیسا امام معصوم کے حضور کے زمانہ میں ہماری ذمہ داری ہوتی ہے، اگر چہ آنحضرت ہماری نظروں سے غائب ہیں لیکن ہم پر فوقیت و آگاہی رکھتے ہیں اور ہمارے اعمال و رفتار پر نظارت بھی رکھتے ہیں.  اسی بنا پر تمام ہی وظائف کہ جنہیں قرآن کریم، پیغمبر اکرم اور ائمہ معصومین نے ایک مسلمان فرد کیلئے بیان کرتے ہوئے متعین فرمایا ہے وہی سارے وظائف زمانہ غیبت میں ہمیں توجہ دینا چاہئے کہ وہ تمام ہی ذمہ داریاں کو ہم ایک جملہ میں بھی خلاصہ کر سکتے ہیں اور یہی غیبت امام کے زمانہ میں شیعوں کہ عظیم ترین ذمہ داری ہے کہ انتظار فرج میں رہیں جیسا امیر المومنین نے پیغمبر اسلام سے روایت نقل کی ہے:

"عَن أَمِیرِ المُؤمِنِینَ (ع) قَالَ، قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ (ص) أَفضَلُ العِبَادَةِ إِنتِظَارُ الفَرَجِ" [کمال ‏الدین، 1/ 287، حدیث 6.]

حضرت مهدی (عج) کی عالمی حکومت کے ظہور کا انتظار کرے، لیکن اس عنایت کے ساتھ کہ انتطار فرج صرف ایک نعرہ ہی نہیں ہے بلکہ ایک تہذیب و تمدن ہے اور وظائف و ذمہ داریوں کا ایک مجموعہ ہے کہ جسے ایک فرد بھی عملی طور پر اقدام کرتا رہے اور اپنے امام کا حقیقی منتطر رہے لہذا ہم یہاں پر بطور خلاصہ بعض امور کی طرف اشارہ کر رہے ہیں:

١.  دین کی مکمل معرفت اور شناخت رکھنا یعنی عقائد، اخلاق، احکام، وظائف کے بعض  حصوں میں  منتظر کو چاہئے کہ اپنی فکر و خیال کو اسلامی رکھے انہیں آمادہ کرے اور اپنے باطن کی روحانی و ایمانی کیفیت کو تقویت دے.

٢. امام زمانہ سے متعلق جتنا بھی ممکن ہو معرفت و شناخت کی خاطر اکثر مطالعہ کرتا رہے.

٣. قرآن کریم کی مکمل پیروی کرے اور اہلبیت کو پیغمبر اسلام کے قریب ترین افراد اور اعلم و مرجع خلائق کی حیثیت سے حقائق دین کی تہذیب کی پیروی و اتباع کریں.

۴. امام زمانہ کے بر حق نائبین (مراجع تقلید) خاص طور پر ولی فقیہ   مسلمین کی  پیروی کریں اور ان کے ہمراہ ظہور امام کی تیاری کرتے رہیں نیز امام کیلئے ماحول سازی کریں. 

۵. دیگر مسلمانوں  کے ساتھ اتحاد  اتفاق کی راہ ہموار کرنا خصوصا آنحضرت کے حقیقی کے منتظرین و محبین کے ساتھ ہمنوائی کریں. 

۶. فکری آمادگی اور  لوگوں کے ساتھ دین کی تہذیب سے آشنائی کا  حصول اور خرافات، شبہات اور انحرافات سے مقابلہ کی تیاری کریں.

۷. آنحضرت کے قیام اور انقلاب پر امیدواری رکھنا نیز دوسروں کو  امید دلانا  اور تمام  امور کے گشائش کی امید کو جگائے رکھنا. 

۸. تقوی کی رعایت کرنا، خود کو خداوند عالم  کے سامنے حاضر و ناظر جاننا، گناہ  ترک کرنا اور معاشرہ میں گناہ کے ماحول کو  ختم کرنا. 

۹. دن و رات میں قلبی طور پر امام عصر کی طرف متوجہ رہنا اور آنحضرت کو  اپنے اعمال سے مطلع جاننا نیز امام کو اپنا نمونہ عمل قرار دینا. 

۱۰. امام کے ساتھ رابطہ دعا کے ذریعہ رکھنا خصوصا ماثورہ و مروی دعائیں پڑھنا جیسے دعائے ندبہ، زیارت آل یاسین،  دعائے عہد اور دعائے فرج وغیرہ کی علمائے اعلام کی طرف سے بہت سفارش کی ہے. 

۱۱. منزل امتحان میں تمام آزار و تکذیب کے مقابل میں صبر کرنا اور حق و صبر کی سفارش کرنا پھر دشمن کے مقابلہ میں ہر طرح  جنگ کرنا. 

۱۲. لوگوں کے درمیان احادیث کے ذکر کے ساتھ امام عصر کی محبت کو دوسروں کے دل میں اجاگر کرنا، معتبر و حقیقی کرامات، مناقب و فضائل  کا تذکرہ کرنا اور لوگوں کیلئے امام کی عنایات کے ذریعہ آنحضرت کو مہربان اور دلسوز  کی حیثیت سے پہچنوانا. 

۱۳. شعائر اسلامی کو تقویت پہنچانا اور اسے عظمت کا حامل سمجھنا؛ جیسے حج و عمرہ، معارف اسلامی کی آشنائی کیلئے مذہبی مجالس  کا انعقاد کرنا. 

۱۴. امام سے قلبی وابستگی و محبت کا اظہار اشتیاق کے ساتھ کرنا اور امام سے قربت کیلئے مستقل و مسلسل امور خیر و ثواب کو انجام دیتے رہنا، خاص طور سے آنحضرت کی نیابت میں عام المنفعہ عمارات تعمیر کرنا، اطعام مساکین کا اہتمام کرنا نیز آنحضرت کی سلامتی کی خاطر صدقات ادا کرنا یا امام کے واسطے ثوابات  ایصال کرنا. 

۱۵. عالمی عدل و انصاف پرمبنی حکومت  کی تشکیل کی خاطر ماحول سازی کرنا  اور عدل و انصاف کو جاری و ساری کرنا اور ظلم و ستم پر مبنی درخت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا اور جائر و ظالم حکومتوں کو سر نگوں کرنا. 

۱۶. دین و مذہب، تہذیب و تمدن، ملت و قوم اور خاک و پانی میں داخلی اور جارجی شیاطین کے نفوذ میں مانع ہونا  اور امام کے دشمنوں سے بیزاری رکھنا نیز محبت و بغض کو صرف اللہ کی خاطر  خالص رکھنا. 

۱۷. برادران دینی کے حقوق کی ادائیگی میں اہتمام کرنا حقیقی شیعوں کی مدد و نصرت اور حقوق کے دفاع پر اہتمام بخشنا.

مذکورہ بالا چند وظائف امام عصر کے زمانہ غیبت میں ہم پرواجب و فرض ہے کہ انہیں انجام دیتے رہیں. 

مزید معلومات کیلئے آپ حضرات  مندرجہ ذیل کتاب کی طرف رجوع کر کے مطالعہ کر سکتے ہیں: "مکیال المکارم فی فوائد الدعاء للقائم«مکیال المکارم (معیار سنجش خوبیہا) در فوائد دعا برای حضرت قائم» یعنی خوبیوں کے معیار کا پیمانہ؛ [حضرت قائم کیلئے دعا کرنے کے فوائد میں]  کی جلد دوم کے بخش (فصل) ہشتم  مولفہ آیۃ اللہ سید محمد تقی موسوی اصفہانی (ولادت ١٣٠١ / وفات ۱۳۴۸ ہجری) نے اپنی کتاب میں "عصر عیبت کے فرائض"کے نام سے ایک باب قائم کیا ہے کہ جس کے اندر آپ نے ٨٠ فرائض و تکالیف کا تذکرہ کیا ہے. اسی کتاب کے بعض جزو یا حصے یا فصلیں آئندہ اسی ویب سائٹ پر ہم پوسٹ کریں گے.

ان شاء الله تعالي المستعان العلي العظيم



DEDICATED TO SHAHE KHORASSAN IMAM ALI IBNE MUSA REZA AS


Post a Comment

To be published, comments must be reviewed by the administrator *

جدید تر اس سے پرانی