کربلا میں خیام حسینی کی نظم و ترتیب - 2


خیام حسيني کی موقعیت اور جنگ کے مراحل میں اس کا کردار

[via [Hajj


مترجم: ابو دانیال اعظمی بُرَیر

اسی طرح امام نے یہ بھی حکم فرمایا کہ خیام کی پشت میں کچھ ایسی جگہیں پانی کی نہر یا گڑہے جیسی تھیں لہذا سرکنڈے اور ایندھن لائے اور رات کی تاریکی میں چند ساعت انہیں کھودا اور انہیں خندق کی شکل قرار دیا پھر اس میں سرکنڈے اور ایندھن کو ڈالے اور یہ کہا: جب بھی دشمن ہم پر حملہ آور ہوں اور جنگ کا ارادہ کریں گے تو ہم یہاں پر آگ لگا دیں گے تا کہ اس طرف سے ہم پر حملہ نہ کر سکیں اور صرف ایک ہی طرف ہمارے رو برو رہیں، یہی امر ان کیلئے سودمند ثابت ہوگا.
[دانشنامه امام حسین (ع)، ۵/ ۶۱، ح: ۱۶۰۵.]
دشمن کی حملوں کو پشت سے روکنے کیلئے دیگر اقدامات بھی امام کے دستور کے مطابق شب عاشور انجام دیا وہ یہی تھا کہ اصحاب امام نے اپنے خیموں ایک دوسرے خیمہ کے بہت ہی قریب قریب قرار دیئے اور رسی مے ذریعہ انہیں تین جانب سے متصل کیا اور فقط ایک راستہ رکھا جو دشمن سے رو برو ہونے کیلئے باقی چھوڑ دیا. یعنی کہ ہر حال میں دشمن کو مجبور کر دیا کہ عقب سے حملہ نہ کرے اور آمنے سامنے ہی لڑائی کر سکے.
اس روایت کو بھی ملاحظہ کیجئے:
امام ع نے اپنے جانثاروں کی طرف آئے اور دستور دیا: ان کے خیام کو ایک دوسرے کے قریب نصب کریں اور خیموں کی رسیوں کو ایک دوسرے سے متصل قرار دیں اور صرف ایک ہی راستہ دشمن کے مقابلہ کیلئے کھلی رکھیں.
[دانشنامه امام حسین (ع)، ۵/ ۶۱، ح: ۱۶۰۵.]
اگر مجموعی اعتبار سے امام کی جنگی حکیمانه تدابیر نہ ہوتی تو نہ صرف کہ ابن سعد کی فوج پشت سے حملہ کر سکتی ہے اور امام لے اصحب پر حملہ کر دیتی بلکہ شروع ہی لمحات سے سے بہت ہی سادگی کے ساتھ انہیں اپنے محاصرہ میں کر کے حلقہ بند کر لیتے ہیں اور کم از کم چھڑپ کے ساتھ امام اور ان کے اعزہ و انصار کو شہید یا اسیر کرتے ہیں.
لیکن صبح عاشورا کو جس وقت دشمن نے چاہا کہ حملہ کرنے کی ابتدا کرے تو اچانک خود کو آگ اور دھویں کے پردہ کے مقابل اپنے آپ کو پاتا ہے اس نے مشاہدہ کیا کہ امام اور آنحضرت کے خیام اقربی و انصار کے اطراف میں دھواں اور آگ کی لپٹیں بلند ہو رہی ہیں.
اس سلسلہ میں ضحاک مِشرقی کہتے ہیں: جب دشمن ہمارے سامنے آئے تو اچانک ان کی نظریں آگ پر پڑیں کہ لکڑیوں اور سرکندوں سے شعلے بلند ہو رہے تھے جنہیں ہم نے اپنے خیام کی پشت پر جلایا تھا تا کہ دشمن عقب سے ہم پر حملہ آور نہ ہو سکیں.
[دانشنامه امام حسین (ع)، ۵/ ۶۳، ح: ۱۶۰۵.]
وہ اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے مزید بیان کرتے ہیں: اصحاب امام کے خیام اس طریقہ سے آگ اور دھویں کے محاصرہ میں تھے کہ جس وقت شمر خیام حسینی کے قریب سے گزرا تو اسے سوائے آگ اور دھویں کے جو شعلہ ور تھے اور کچھ بھی دکھائی نہیں دیا. لہذا اسی تدبیر کی بنیاد اور فوج امام کی جنگی آرائش کی بنا پر کہ جن کی تعداد مشہور قول پر صرف بہتر افراد پر مشتمل تھی کی وجہسے دشمن کے مقابل میں جن کی تعداد تقریبا ۳۵ ہزار سپاہیوں پر مشتمل تھی کا گھنٹوں مقابلہ کیا اور بہت زیادہ دشمنوں کو قتل بھی کیا.
★ بقول قرآن کریم ایک قلیل تعداد نے اللہ کی راہ پر چلتے ہوئے ایک کثیر تعداد کی فوج کو مغلوب کیا اور اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے غالب آگئے تھے.
[دانشنامه امام حسین (ع)، ۵/ ۸۴، فصل دوّم: سخني در باره شمار دو سپاه.]

Post a Comment

To be published, comments must be reviewed by the administrator *

جدید تر اس سے پرانی