فرقہ صوفیہ کی تردید میں ائمہ اہلبیت (ع) کی روایات
روایت نمبر 5 تا 8 ملاحظہ کیجئے.
روايت نمبر: 5
ایک روایت امام رضا (ع) سے «حسین بن سعید» نے نقل کیا ہے کہ آنحضرت نے فرمایا:
«سألت أبا الحسن (ع) عن الصوفية و قال: لا يقول أحد بالتصوف إلي الخدعة أو ضلالة أو حماقة وأما من سمي نفسه صوفيا للتقية فلا إثم عليه وعلامته أن يکتفي بالتسمية فلا يقول بشيء من عقائدهم الباطلة»
★ «میں نے حضرت امام رضا (ع) سے صوفیوں کے بارے سوال پوچھا. اور آنحضرت (ع) نے جواب میں فرمایا: "کوئی بھی تصوُّف کا قائل نہیں ہوگا مگر یہ کہ فریب و مکر یا جہالت و حماقت کی وجہ سے ہوگا؛ لیکن اگر کوئی شخص تقیہ کی بنا پر خود کا نام صوفی رکھتا ہے تا کہ ان کے شر و اذیت سے امن و امان میں رہے تو اس پر کوئی بھی گناہ نہین ہے؛ بشرطے کہ وہ ان کے باطل عقائد کا قائل نہ رہے.»
حوالہ جات: (1) إثني عشرية، ص 30 و 33؛ (2) کشف المعارف مستعلیشاه ص 18؛ (3) کشکول علامه بحرانی، 3/ 331 يا 231؛ (4) سفينة البحار، 2/ 58 چاپ فراهاني تهران و ج 5، ص 200 چاپ أسوہ قُم؛ (5) البدعة والتحرف ص 114؛ (6) طرائق الحقائق، 1/ 212 با تحريف قسمتي از حديث؛ (7) حديقة الشيعة ص 605؛ (8) تنبيه الغافلين ص 19؛ (9) أنوار النعمانية، 2/ 295؛ (10) خيراتية، 1/ 37-
روايت نمبر: 6
امام عسکری (ع) سے معتبر کتب میں یہ روایت منقول ہے: «امام صادق (ع) سے تصوُّف کے بانی «صوفی ابو هاشم کوفی» کے بارے میں سوال کے جواب آنحضرت نے فرمایا:
«إنّه کان فاسدَ العقيدة جدّا و هو الّذي ابتدع مذهبا يقال له التصوف و جعله مفرا لعقيدته الخبيثة»
★ «ابو هاشم کوفی حقیقت میں فاسد العقیدہ ہے یہ وہی شخص ہے جس نے بدعت کے ذریعہ ایک مذہب ایجاد کیا ہے کہ جسے تصوُّف کہا جاتا ہے اور اسے اپنے خبیث عقیدہ کی پناہگاہ بنا رکھا ہے.»
حوالہ جات: (1) حديقة الشيعة، ص 563-564؛ (2) إثني عشرية ص 33؛ (3) طرائق الحقائق، 1/ 209؛ (4) بين التصوّف و التشيّع ص 585 چاپ بيروت؛ (5) منهاج البراعة علامة خوئی، 14/ 8؛ (6) عرفان و تصوّف ص 86؛ (7) فضائح الصوفية ص 41؛ (7) البدعة والتحرف ص 126؛ (9) سفينة البحار، 2/ 57 چاپ فراهاني تهران و 5/ 198-
روايت نمبر: 7
علامہ کُلِيني نے اپنی معتبر سند کے ساتھ «سُدَير صَيرَفي» سے ایک روایت نقل کی ہے:
"میں ایک روز مسجد سے باہر آیا اور امام باقر (ع) مسجد میں داخل ہو رہے تھے نیز آنحضرت نے میرا ہاتھ پکڑا اور قبلہ کی طرف متوجہ ہوئے" اور فرمایا: «اي سدير! لوگ خداوند عالم کی طرف سے مامور ہہیں کہ وہ لوگ آئیں نیز اس خانہ کعبہ کا طواف کریں اور ہمارے پاس بھی آئیں نیز اپنی ولایت کو ان کے سامنے پیش کریں» پھر آنحضرت نے یہ فرمایا:
«يا سدير فاُريک الصادين عن دين الله. ثمّ نظر إلي أبي حنيفة و سفيان الثوري في ذلک الزمان و هم حلق في المسجد فقال: هؤلاء الصادّون عن دين الله بلا هدى من الله و لا کتاب مبين. إنّ هؤلاء الأخابث لو جلسوا في بيوتهم فجال الناس فلم يجدوا أحدا يخبرهم عن دين الله تبارک و تعالى وعن رسوله (ص) حتّي يأتونا فنخبرهم عن الله تبارک وتعالى عن رسوله»
★ «اي سدير! تم چاہتے ہو کہ جو افراد لوگوں کو دین خدا سے باز رکھتا ہے میں تمہیں ان کا پتہ بتاؤں.؟ اسی وقت ابو حنیفہ اور سفیان ثوری مسجد میں حلقہ بنا کر بیٹھے ہوئے تھے ان کی طرف دیکھا اور فرمایا: یہ وہی لوگ ہیں کہ جو بغیر اللہ کی جانب نیز واضح سند کے علاوہ لوگوں کو دین خدا سے باز رکھتے ہیں. اگر یہ پلید افراد اپنے ہی گھروں میں بیٹھے رہیں تو لوگوں گمراہ نہیں کریں گے پھر یہ لوگ ہماری ہی طرف آئیں گے تب ہم انہیں خدا و عسول کی جانب سے انہیں خبر دیں گے.»
حوالہ جات: (1) أصول كافي، 1/ 392 چاپ بيروت؛ (2) تحفة الأخيار ص 106؛ (3) فضائح الصوفية ص 42؛ (4) إثني عشرية ص 176؛ (5) البدعة والتحرف ص 126-
روايت نمبر: 8
امام نقی (ع) سے صحیح سند کے ساتھ شيخ مفيد ایک روایت نقل کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں: محمد بن حسين بن أبي الخطاب کہتے ہیں: میں مسجد النبی (ص) میں امام نقی (ع) کی خدمت میں حاضر تھا کہ اسی وقت آنحضرت کے اصحاب کا ایک گروہ بارگاہ امام میں شرفیاب ہوا اور ان کے درمیان ابو ہاشم جعفری سلسلہ میں گفتگو آئی تھی کہ یہ بہت ہی فصیح و بلیغ شخص تھا اور امام کی بارگاہ میں ایک عظیم مقام و منزلت کا حامل فرد تھا اور جب اس کے ساتھی پاس بیٹھے تھے کہ اچانک صوفیوں کا ایک گروہ مسجد میں داخل ہوا اسے حلقہ میں لے کر بیٹھ گئے اور ذکر میں مشغول ہوگئے. تب آنحضرت نے فرمایا:......
امام نقی (ع) سے صحیح سند کے ساتھ شيخ مفيد ایک روایت نقل کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں: محمد بن حسين بن أبي الخطاب کہتے ہیں: میں مسجد النبی (ص) میں امام نقی (ع) کی خدمت میں حاضر تھا کہ اسی وقت آنحضرت کے اصحاب کا ایک گروہ بارگاہ امام میں شرفیاب ہوا اور ان کے درمیان ابو ہاشم جعفری سلسلہ میں گفتگو آئی تھی کہ یہ بہت ہی فصیح و بلیغ شخص تھا اور امام کی بارگاہ میں ایک عظیم مقام و منزلت کا حامل فرد تھا اور جب اس کے ساتھی پاس بیٹھے تھے کہ اچانک صوفیوں کا ایک گروہ مسجد میں داخل ہوا اسے حلقہ میں لے کر بیٹھ گئے اور ذکر میں مشغول ہوگئے. تب آنحضرت نے فرمایا:......
ایک تبصرہ شائع کریں