فرقہ صوفیوں کی تردید میں ائمہ اہلبیت (ع) کی روایات
روایت نمبر: 8 كا بقيہ حصہ ملاحظہ کیجئے
.....تب آنحضرت نے فرمایا:
.....تب آنحضرت نے فرمایا:
«لا تلتفتوا إلى هؤلاء الخّداعين فإنّهم خلفاء الشياطين و مخربوا قواعد الدين يتزهّدون لراحة الأجسام و يتهجدون لتصييد الأنعام يتجوّعون عُمُراً حتي...»
★ «ان حیلہ گروں کا اعتبار نہ کرو کیونکہ یہ شیاطین کے جانشین اور دین کے قوانین کو برباد کرنے والے ہوں گے، ان لوگوں کا زہد ان کے بدنوں کی راحت کیلئے اور تہجد و قائم اللیل ہونا لوگوں کے شکار کرنے کیلئے ہے. ایک عمر تک کو بھوک و پیاس میں بسر کرتے ہیں تا کہ عوام اور جاہلوں کو چوپایوں کے مانند ہانکیں نیز ان ہی لوگوں کی پشت پر کجاوہ باندھیں.»
پھر آنحضرت نے مزید فرمایا:
«لا يهللون إلاّ لغرور الناس و لا يقلّلون الغذاء إلاّ لملأ العساس و اختلاف الدفناس يتکلمون الناس بإملائهم في الحبّ و يطرحونهم بإذلالهم في الجبّ اورادهم الرقص و التصديقة و أذکارهم التّرنّم و التغنية فلا يتبعهم إلاّ السفهاء و لا يعتقدهم إلاّ الحمقاء فمن ذهب إلي زيارة أحد منهم حيّاً أو ميّتاً فکأنّما ذهب إلى زيارة الشيطان و عبدة الأوثان ومن أعان أحدا منهم فکأنما أعان يزيد ومعاوية وأبا سفيان»
★★ «ذکر نہیں کہتے مگر عوام فریبی کیلئے اور اپنی خوراک کو کم نہیں کرتے صرف اسی لئے کہ اپنی اپنی قدح؟ کو بھرنا اور احمقوں کے دلوں کو لوٹنا لوگوں کے ساتھ خدا کہ محبت کا دم بھرتے ہیں تا کہ انہیں کنویں میں پھینک سکیں نیز ان کا ورد و وظیفہ رقص و سرور کرنا و تالی بجانا اور غنا و قوالی کی محفل جمانا یے اور کوئی بھی ان لوگون کی طرف میلان نہیں رکھے گا اور ان کی اتباع بھی نہیں کرے گا سوائے ان افراد کے جو احمقوں اور بی خردوں سے تعلق رکھتے ہوں گے. جو شخص ان لوگوں میں سے کسی کی بھی زیارت کیلئء جاتا ہے چاہے ان کی زندگی میں ہو یا ان کی موت کے بعد تو ایسے زائر کی مثال ایسی ہے کہ اس نے شیطان اور بت پرستوں کی ملاقات کیلئے گیا ہے اور جو شخص ان میں سے کسی ایک کی مدد کرے گا گویا اس نے یزید و معاویہ اور ابو سفیان کی مدد کی ہے.»
اسی وقت آنحضرت کے اصحاب میں سے ایک شخص نے عرض کیا:
«و إن کان معترفا بحقوقکم»
«اور اگرچہ وہ شخص آپ حضرات کے حقوق کا اقرار بھی کرتا ہو.؟»
آنحضرت نے نظروں سے گھورتے ہوئے فرمایا:
«دَع ذا عنک مَن إعترف بحقوقنا لم يذهب في عقوقنا أما تدري انهم أخس طوائف الصوفية والصوفية کلهم من مخالفينا وطريقتهم مغايرة لطريقتنا وإن هم إلاّ نصاري و مجوس هذه الأمّة أولئک الذين يجهدون في إطفاء النور الله و الله يتمّ نوره و لو کره الکافرون»
★★★ «ان باتوں کو چھوڑو! شائد تم نہیں جانتے ہر وہ شخص جو ہمارے حق کو پہچانتا ہے ہمارے امر کی مخالفت نہیں کرے گا؟ کیا تم نہیں جانتے کہ پست ترین طبقہ فرقہ صوفیہ ہی ہے اور تمام ہی صوفی حضرات ہمارے مخالف ہیں اور ان کی طریقت باطل ہے اور ہماری طریقت کے بر خلاف ہے اور یہی گروہ نصارا و مجوس کی امتوں میں سے ہے اور یہی لوگ سعی و کوشش کرنے میں لگے ہوئے ہیں کہ نور خدا یعنی اسلام کو مٹا دیں اور خداوند عالم تو اپنے نور کو مکمل کر کے ہی رہے گا چاہے کافروں کو ناگورا ہی محسوس ہو»
حوالہ جات: (1) سفينه البحار، ج 2، ص 58 چاپ انتشارات تهران و ج 5، ص 199 چاپ اسوه قم؛ (2) طرائق الحقائق ج1 ص211؛ (3) حديقة الشيعة ص 602؛ (4) منهاج البراعة ج 6، ص 304 چاپ قديم و ج 14، ص 16 چاپ اسلاميه تهران؛ (5) إثني عشرية ص 28؛ (6) البدعة والتحرف ص 115؛ (7) کشکول علامه بحرانى ج 3، ص 228؛ (8) تنبيه الغافلين ص 17؛ (9) أنوار النعمانية ج 2، ص 294؛ (10) مصابيح الدجى ص242؛ (11) خيراتية ج 1، ص 32؛ (12) تصوّف و تشيّع ص 548-
روایت نمبر: 9
کتب معتبر ميں روایت نقل کی ہے کہ صوفیوں میں سے ایک جماعت امام رضا (ع) کی خدمت میں حاضر ہوئی اور آنحضرت پر بطور اعتراض کہا: مامون نے غور و فکر کیا اور اس کی رائے یہی ہوئی کہ امامت و ولایت کو آپ کے سپرد کرے لیکن امامت تو اسی شخص کا ہی حق ہے کہ جو روکھی سوکھی غذا کھاتا ہو اور موٹا جھوٹا لباس پہنتا ہو اور گدھے پر سواری کرتا ہو اور مریض کی عیادت کیلئے جاتا ہو اور آپ یہی سارے اموت انجام ہی نہیں دیتے.
کتب معتبر ميں روایت نقل کی ہے کہ صوفیوں میں سے ایک جماعت امام رضا (ع) کی خدمت میں حاضر ہوئی اور آنحضرت پر بطور اعتراض کہا: مامون نے غور و فکر کیا اور اس کی رائے یہی ہوئی کہ امامت و ولایت کو آپ کے سپرد کرے لیکن امامت تو اسی شخص کا ہی حق ہے کہ جو روکھی سوکھی غذا کھاتا ہو اور موٹا جھوٹا لباس پہنتا ہو اور گدھے پر سواری کرتا ہو اور مریض کی عیادت کیلئے جاتا ہو اور آپ یہی سارے اموت انجام ہی نہیں دیتے.
آنجناب نے ان لوگوں کے جواب میں فرمایا:
«إنّ يوسف کان نبيّا يلبس أقبية الديباج المزورة بالذهب ويجلس علي متکآت آل فرعون و يحکم، إنما يراد من الإمام قسطه وعدله إذا قال صدق وإذا حکم عدل و إذا وعد أنجز ثم قرء: "قل مَن حرّم زينة الله التي أخرج لعباده و الطيبات من الرزق"»
★ «جناب یوسف (ع) پیغمبر تھے اور ریشم کی سنہری قبائیں پہنتے تھے اور آل فرعون کی مسند پر تکیہ لگاتے تھے اور حکمرانی کرتے تھے. تم سب پر وائے ہو! بیشک امام ہی سے عدالت و انصاف متوقع ہے جب کلام کرے تو سچ بات کہتے اور جب حکمرانی کرے تو عدل و انصاف کرے اور جب وعدہ کرے تو اپنے وعدہ کو وفا بھی کرے (وعدہ خلافی نہ کرے)»
پھر آنحضرت نے قرآن حکیم کی مندرجہ ذیل آیت کی تلاوت فرمائی:
"قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِينَةَ اللَّهِ الَّتِي أَخْرَجَ لِعِبَادِهِ وَالطَّيِّبَاتِ مِنَ الرِّزْقِ ۚ ...
(سورہ أعراف کی آیت نمبر 32)
(سورہ أعراف کی آیت نمبر 32)
«(اے رسول) آپ ان سے کہہ دیجئے کس نے اللہ کی زینتوں کو اس کے بندوں پر حرام کیا ہے اور حلال و پاکیزہ رزق و روزی سے منع کیا ہے...»
حوالہ جات: (1) إثني عشرية، ص 34؛ (2) بحار الأنوار ج 67، ص 120 چاپ مؤسسة الوفاء بيروت لبنان 1404؛ (3) شرح نهج البلاغة إبن أبي الحديد معتزلي شافعي ج 11، ص 34 چاپ كتابخانه آيت الله مرعشي قم 1404-
-----------------------------------------
★ منابع و مصادر ★
١- مستدرک الوسائل، 2/ 92
۲- صول کافي، 5/ 65
۳- تحف العقول، ص 348
۴- بحار الأنوار، 10/ 351
۵- بحار الأنوار، 49/ 275
۶- سفينة البحار، 5/ 200
ایک تبصرہ شائع کریں