خیام حسيني کی موقعیت اور جنگ کے مراحل میں اس کا کردار
via [Hajj]
مترجم: ابو دانیال اعظمی بُرَیر
اب درج بالا اقوال و گزارشات کو مد نظر رکھتے ہوئے ہمیں مندرجہ ذیل نتائج حاصل ہوتے ہیں:
۱. امام کے اصحاب کے خیموں کی ترتیب اور کیفیت ہلالی یا نیم دائرہ یا مثل نعلین کی صورت میں ہی رہتی ہے مرکز میں امام کے خیمہ کو قرار دیا اور پھر امام کے خیمہ کے ارد گرد اہلبیت کے خیام کو نصب کیا اور ان خیموں دو حصہ یعنی مشرق و مغرب میں تقسیم کرتے ہوئے مشرقی سمت کی طرف لمبائی کی صورت انصار حسینی کے خیام لگائے جاتے ہیں اور مغربی سمت کی طرف لمبائی میں بنی ہاشم کے خیام نصب کئے جاتے ہیں نیز اس کا رخ مہدان جنگ کی ہی طرف ہوتا ہے چونکہ چاشت کے وقت پہلی تیروں کہ بارش میں نصف سے زیادہ اصحاب امام شہید ہو جاتے ہیں اور ظہر کے وقت دوسری تیروں کی بارش میں بھی مزید اصحاب امام شہید ہو جاتے کی وجہ سے اکثر خیام خالی ہو جاتے ہیں لہذا انہیں جنگی محاذ یا مورچہ یا دفاعی دیوار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے بالآخر انہیں خالی پڑے ہوئے خیام کو عمر سعد کے حکم دینے کی بنا پر ان میں آگ لگا دی جاتی ہے.
۲- اصحاب و انصار امام کے خیموں کا فاصلہ میدان جنگ سے بہت زیادہ دور رہتا نہیں ہے لہذا ان مطالب کو ہم بعض دیگر گزارشات میں جو میدان جنگ کے منظر کے سلسلہ میں تحریر کیا گیا ہے معلومات حاصل ہوتی ہے جیسا کہ جناب علی اکبر ع کی شہادت کے ضمن میں ہمیں احوال سے معلوم ہوتا ہے:
"ان کے جسم مبارک کو مقتل سے لایا گیا اور جن خیموں کے مقابل میں جنگ کر رہے تھے اسی کے بالکل سامنے انہیں رکھا گیا."
[دانشنامه امام حسین (ع)، ۷/ ۱۷، ح: ۱۷۶۴.]
۳- امام کے اہلبیت ع بھی قریب ہی سے اپنے اعزہ و اقربی کی جانبازی کا مشاہدہ کر رہے تھے اور دشمنوں کی قساوت قلبی وبے رحمی کے گواہ بھی رہے اسی بنا پر ہم انداشہ لگا سکتے ہیں کہ خواتین اور بچوں نے بھی میدان جنگ کے مناظر میں اپنے عزیزان کو اپنی ہی آنکھوں کے سامنے ٹکڑے ٹکڑے ہوتے ہوئے جب دیکھا ہوگا تو ان کے دلوں پر کیا گذری ہوگی.
[دانشنامه امام حسین (ع) ۶/ ۶۷ - ۷۱ و ۷/ ۱۷، ح: ۱۷۶۴]
ایک تبصرہ شائع کریں