ملازمت اور ملازم کے حقوق
Image by Jürgen Sieber from Pixabay
مؤلف : علی اکبر مظاهری
محرر : علی سعیدی
مترجم : اعظمي بُرَیر أبو دانیال
★★★★★★★★★★★★
★ اجیر ہونے کی شرعی حیثیت ★
آمدنی کے حصول کا ایک طریقہ دوسروں کیلئے اجیر ہونا یعنی اجرت پر کام کرنا ہے. بالفاظ دیگر کسی کام کے انجام کے دینے کی خاطر مستخدم ہونا یعنی خدمت کرنا ہے اور فقہا نے اسے «الإجارة أحد معایش العباد» قاعدہ یا قانون کا نام دیا ہے.
(بجنوردی، القواعد الفقهیه، تحقیق مهدی مهریزی و محمد حسن درایتی، قم، نشر دلیل ما، 1424 ق، ف 7/ 56)
یہ ایک کلی قاعده و قانون ہے جو مختلف مصادیق پر منطبق ہوتا ہے، اجارہ کی ماہیت، منفعت معلوم کی تملیک (ملکیت میں قرار دینا) عوض (متبادل) معلوم کے مقابل میں ہوتی ہے.
اجارہ کی شرعی دلیل مندرجہ ذیل ہے:
١- قرآن :
«نَحْنُ قَسَمْنَا بَیْنَھُم مَّعِیشَتَھُمْ فِی الْحَیَاةِ الدُّنْیَا وَرَفَعْنَا بَعْضَھُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِیَتَّخِذَ بَعْضُھُم بَعْضًا سُخْرِیًّا وَرَحْمَتُ رَبِّكَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُونَ»
(سوره زخرف 32)
ہم لوگوں کے درمیان دنیا کی زندگی میں معیشت کو تقسیم کیا ہے اور ایک گروہ کو دوسرے گروہ پر ہم نے برتری و فوقیت بخشی ہے تا کہ ایک دوسرے سے کام لیں اور تیرے پروردگار کی رحمت بہتر ہے جو کچھ تم ذخیرہ اندوزی کرو گے.
امیر المومنین (ع) نے مذکورہ بالا آیت کی تفسیر میں ذیل کی باتیں بیان فرمائی ہیں:
خداوند نے اس آیت کے مطابق ہمیں خبر دی ہے کہ اجارہ (مزدوری یا کرایہ پر معین) کرنا مخلوق کی معائش میں سے ایک امر ہے کیونکہ اسی نے اپنی حکمت کے ذریعہ ہمتوں اور ارادوں نیز لوگوں کے دیگر حالات کو پیدا فرمایا ہے اور اس تفریق و اختلاف کو لوگوں کی زندگی بسر کرنے کی بنیاد قرار دیا ہے. اسی بنا پر ہر ایک انسان دوسرے فرد کی خاطر کسی کام کو انجام دینے کو ملازم یا مستخدم بنا سکتا ہے.
(حر عاملی، وسائل الشیعه، تحقیق عبد الرحیم ربانی شیرازی، ص 1/ 244، تهران، مکتبه الاسلامیه، 1403 ھ)
٢- سنّت :
امیر المؤمنین (ع) بھی خود ہی ایک یہودی شخص کے اجارہ میں رہ کر اس کے باغ کی سیچائی کیا کرتے تھے اور پانی کی ہر ایک ڈول یا بالٹی کے مقابل میں ایک عدد کجھور بطور مزدوری لیتے تھے پس اس کے بعد انہی کجھوروں کو لے کر پیغمبر اکرم (ص) کی خدمت میں حاضر ہوئے.
(ابن فهد، احمد، المهذَّب البارع، 3/ 18، تحقیق مجتبی عراقی، قم، مؤسسه نشر اسلامی، بیتا)
اسی طرح اجارہ کے جائز ہونے کے بارے میں بھی بہت سی روایات حضرات ائمہ طاہرین (ع) سے نقل ہوئی ہیں کہ ہم آئندہ کی بحث میں بعض حصوں کی طرف اشارہ کریں گے.
٣- اجماع:
تمام ہی مسلمان اجارہ کی مشروعیت پر اتفاق نظر رکھتے ہیں.
اسلامی عقود (عہد و پیمان اور قرار داد مراد ہیں) میں سے ایک عقد اجارہ بھی ہے جو مذکورہ آیت کے مطابق ہے:
«یَا أَیُّھَا الَّذِینَ آمَنُواْ أَوْفُواْ بِالْعُقُودِ» (سوره مائده 1)
اے ایمان لانے والو! عقود (عہد و پیمان) كو وفا کرو.
ہر ایک صاحب ایمان پر اس کا وفا کرنا واجب ہے. ہماری مراد اس اجارہ سے یہاں پر ایک انسان کو اجارہ (مزدوری کا حصول) اور اس کے کام کی قوت و طاقت کو لینا ہے نہ کہ منقول اور غیر منقول اموال کو اجارہ پر لینا مقصد ہے.
ایک تبصرہ شائع کریں