ملازمت اور ملازم کے حقوق
Image by Tuna Ölger from Pixabay
مؤلف : علی اکبر مظاهری
محرر : علی سعیدی
مترجم : اعظمي بُرَیر أبو دانیال
★★★★★★★★★★★★
3. اسلام میں بیگاری لینے کی ممانعت
کارفرما (یعنی مالک يا سرپرست یا سیٹھ) کا کارگر (یعنی کاریگر يا مزدور یا ملازم) سے بغیر مزدوری یا اجرت یا تنخواہ کے فائدہ اٹھانا (یعنی ملازمت پر رکھنا یا کام کرانا) مکمل طور پر شرعاً صحیح نہیں ہے اور اسی سلسلہ میں پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا ہے:
«لا سخرۃ علی المسلم یعنی الأجیر»
مسلمان سے بیگاری كرانا جائز نہیں ہے یعنی بلا اجرت و مزدری کسی بھی مسلمان سے کام کرانا حرام اور گناہ کبیرہ ہے. (الکافی 5/ 283)
٢- کان امیر المومنین (ع) یکتب إلی عمّاله لا تسخروا المسلمین
اسی طرح امام صادق (ع) نے فرمایا ہے: امیر المؤمنین (ع) نے اپنے کار گزارروں (يعني حکومت کے عہدہ داروں) کو تحریر فرمایا: مسلمانوں سے بیگاری مت لیا کرو.
(الکافي، 5/ 284)
چونکہ اسلام میں ایک مسلمان کا بھی عمل قابل صد احترام ہے تو یہی چاہئے کہ اس کے عمل یا فعل کے مقابلہ
میں مناسب معین اجرت یا مزدوری مکمل طور پر ادا کرے.
۳- «یا أیّھا الناس من انتقص أجیراً أجره فلیتبّواً مقعده من النار»
اسی کے بارے میں پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا ہے:
اے لوگو! جو شخص بھی کسی کاریگر کی مزدوری کم ادا کرے گا پس اس کا ٹھکانا جہنم کی آگ ہے. (حار الانوار، 40/ 60 بیروت، دار احیاء التراث العربی، 1403 ق)
4. مزدور كي طاقت كے مطابق كام دينا
کام کے مالک کو مزدور کی طاقت و قدرت سے بھی زیادہ کام کو اس کے کندھے پر نہیں لادنا چاہئے.
جیسا کہ خداوند متعال نے قرآن مجيد مين ارشاد فرمايا ہے
«لاَ تُكَلَّفُ نَفْسٌ إِلاَّ وُسْعَھَا» (سورہ بقرہ ۲۳۳)
دوسرے مقام پر قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے:
« لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلا وُسْعَھَا » (سورہ بقرہ 286)
اللہ کسی کو بھی اس کی طاقت و قوت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا.
اسی طرح سے کسی دوسرے پر اس کی طاقت کی حد سے بھی زیادہ تکلیف لادنا دوسروں کے حقوق سے تجاوز کرنے کے مصداق ہے.
جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد ہوا ہے:
«وَلاَ تَعْتَدُواْ إِنَّ اللّهَ لاَ یُحِبِّ الْمُعْتَدِینَ» (سورہ بقره 190)
اور حد سے تجاوز نہ کرو کیونکہ اللہ حد سے بڑھ جانے والوں سے محبت نہیں کرتا.
مزید یہ کہ پیغمبر اکرم (ص) نے بھی ایسے شخص کے بارے میں فرمایا ہے
«لا یکلّف من العمل الّا ما یطیق»
کوئی بھی اپنے ماتحت کو اس کی طاقت سے زیادہ کسی کام پر تکلیف نہیں دے گا.
(نهج الفصاحه "مجموعه کلمات قصار حضرت رسول اکرم (ص)" ص 481، تهران، سازمان چاپ و انتشارات جاویدان، چاپ ششم، بغیر تاریخ)
ادھر امام سجّاد (ع) نے "رسالة الحقوق" میں غلام و مملوک کے بارے میں فرمایا ہے: «و لا تکلّفه ما لا یطیق»
غلام کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف مت پہونچاؤ.
(تحف العقول، ص 268)
اسی بنا پر جبکہ «تکلیف ما لا یطاق» اس کی طاقت و قوت سے زیادہ تکلیف دینا ماتحت اور غلام پر جائز نہیں ہے تو بدرجہ اولی اس کی طاقت و استطاعت سے تکلیف دینا بھی آزاد مزدور و ملازم یا کاریگر پر بھی ہرگز جائز نہیں ہے.
5. ملازم كو ديني فرائض انجام دينے سے منع نہ كرنا
سرپرست اپنے کاریگر کے عبادی اعمال (نماز و روزہ وغیرہ) بجا لانے سے منع نہیں کرے گا.
اسی سلسلہ میں امام صادق (ع) نے فرمایا ہے:
«من إستأجر اجیراً ثم حبسه عن الجمعة تبوء بإثمه وإن كان ھو لم یحبسه إشتری فی الأجر»
جو شخص بھی کسی مزدور کو اجرت پر حاصل کرے پھر اسے نماز جمعہ میں شرکت سے باز رکھے تو اس اجیر کا گناہ بھی سرپرست يا مالک کے ذمہ ہی ہوگا اور اگر منع نہ کرے گا تو دونوں ہی افراد ثواب میں شریک ہوں گے.
(الكافي 5/ 289)
اگر اجرت پر لینے والا مالک يا سرپرست اجارہ کی قرار داد میں یہ شرط کرے کہ کاریگر نماز نہیں پڑھے گا اور روزہ بھی نہیں رکھے گا تو یہ شرط رکھنا باطل ہے کیونکہ یہ شرط قرآن مجید کے حكم كے خلاف ہے اور ہر وہ شرط جو قرآن کریم کے حكم كے خلاف ہوگي تو باطل ہے.
چونکہ امام صادق (ع) نے فرمایا ہے:
من إشترط شرطا مخالفاً لكتاب الله فلا يجوز و لا يجوز على الذى إشترط علیه و المسلمون عند شروطھم فیما وافق کتاب الله عزّ و جلّ»
ایک تبصرہ شائع کریں