ایک سوال
جمیع اہل اسلام سے عموماً
اور شیعہ صاحبان سے خصوصاً
ماہ نامہ سہیل یمن لكهنؤ
ذی القعدہ ۱۳۴۵ مئی 1927،
ج: 2، ش: 2، ص: 23
زمانۂ جاہلیت عرب کا ایک واقعہ
کہتے ہیں کہ جب "قیس بن عاصم" جناب رسولخدا (ص) کی خدمت میں حاضر ہوا تو بعض اخیار نے اس سے اس امر کے بابت پوچھا جو زندہ در گور لڑکیوں کے متعلق بیان کیا جاتا ہے تو اس نے کہا کہ میرے یہاں کوئی پیدا نہیں ہوئی جسے میں نے زندہ در گور نہ کیا ہو. پھر اس نے بیان کیا کہ میرے یہاں ایک لڑکی اس وقت پیدا ہوئی جبکہ میں سفر میں تھا اس کی ماں نے اس لڑکی کو اپنی بہنوں کو دیدیا تھا جب میں سفر سے واپس آیا تو اس سے حمل کے بابت دریافت کیا تو مجھے یہ خبر دی گئی کہ اس نے ایک مردہ بچہ جنا تھا اور اس لڑکی کا حال پوشیدہ رکھا حتی کہ کئی سال گذر گئے وہ لڑکی ایک دن اپنی ماں سے ملنے آئی اتفاقاً میں بھی آگیا دیکھا کہ لڑکی نے اس کے بالوں کو گوندھ رکھا ہے اور اس کے گیسوؤں میں موباف ڈال رکھے ہیں اور اس میں کوڑیاں پرو رکھی ہیں اور یمنی مُہروں کا اس کو یار پنہایا ہے میں نے اس سے پوچھا کہ یہ لڑکی کس کی ہے؟ اس پر اس کی ماں رونے لگی اور کہنے لگی یہ تیری بیٹی ہے سو میں اس سے باز رہا حتی کہ اس کی ماں اس سے غافل ہو گئی تب ایک روز میں اسے باہر لے گیا اور اس کیلئے گڑہا کھودا اور لڑکی کو اس میں ڈال دیا وہ کہہ رہی ہے کہ اے باپ تو کیا کر رہا ہے؟ تجھے اپنے حق کی قسم ہے مجھے چھوڑ دے اور میں اس پر مٹی ڈالتا رہا اور یہ کہتی ہی رہی یہاں تک کہ اس کی آواز منطقع ہو گئی پس یہ حیرت آج تک میرے دل میں ہے اس پر جناب رسولخدا (ص) کے دونوں آنکھوں سے انسو بہے اور فرمایا کہ "یہ سنگدلی ہے جو شخص رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا."
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ (ص):
"مَنْ لاَ يَرْحَمُ النَّاسَ لاَ يَرْحَمُهُ اللَّهُ"
عرب میں قبل بعثت جناب رسولخدا کفر کی حالت میں یہ رسم جاری تھی کہ اگر کسی کے لڑکی پیدا ہوئی تو اس کو زندہ دفن کر دیتے تھے تا کہ کسی کا خسر نہ بننا پڑے قوم عرب ایسی با حیا تھی.
اب سوال یہ ہے کہ شیعوں کے بڑے بوڑھے سوتیلے نانا ابو بکر بن قحافہ اور منجھلے منچلے عمر بن خطاب اور چھوٹے یعنی عثمان غنی یہ ہر سہ خلیفہ جی صاحبان کی عمریں نصف سے زائد زمانہ جاہلیت اور کفر کی حالت میں گزری ہیں آیا ان میً سے کسی کے بھی کوئی لڑکی کفر کی حالت میں پیدا ہوئی ہے یا نہیں اگر ہوئی ہے تو زندہ دفن بھی کی گئی ہے یا نہیں؟
قرآن مجید میں ترتیب مصحف کے لحاظ سے 81ویں سورہ اور ترتیب نزول کے لحاظ سے 7ویں سورت ہے جو کہ پارہ نمبر ۳۰ کی چوتھی سورہ تکویر کی آیت نمبر ۸ و ۹ جس کا ترجمہ یہ ہے:
وَإِذَا الْمَوْءُودَةُ سُئِلَتْ
بِأَيِّ ذَنبٍ قُتِلَتْ
"اور جبکہ زندہ دفن کی ہوئی لڑکی سے سوال کیا جاوے گا کہ وہ کس گناہ پر ماری گئی تھی." سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایسی بے گناہ لڑکیاں بروز حشر
سامنے عدالت عالیہ خداوندی طلب کی جائے گی جو زندہ دفن کی گئیں ہوں گی اور اپنی بے گناہی ظاہر کر کے اپنے اپنے کو جنہوں نے زندہ بے گناہ دفن کیا ہو گا بنا بر شہادت طلب کرائیں گی تو کیا اس زمرہ اور صف میں شیعوں کے سوتیلے نانا صحبان مندرجہ بالا بھی ہوں گے یا نہیں؟
کیا کوئی محقق علم اس کا جواب از روئے تاریخ ذریعہ سُہَیل یَمَن دے گا؟ جناب رسولخدا (ص) نے اس رسم قبیح کو مٹا دیا تھا اگر یہ کہا جائے کہ حالت کفر کے گناہ قابل باز پرس نہ ہوں گے تو خداوند عالم پھر ایسی بے گناہ لڑکیاں جو زندہ دفن کی گئیں کون طلب فرمائے گا اس لئے کہ وہ لڑکیا زمانہ جاہلیت اور کفر کی حالت میں دفن کی گئیں اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلام لانے کے پیشتر کے ایسے گناہ بھی قابل سزا ہوں گے.
پس جن جن اصحاب کی عمریں نصف سے زائد کفر کی حالت میں گزریں ان سے کیوں کر نہ گناہ سر زد ہوئے ہوں گے.
راقم:
سید موالی حسین نقوی النصیرآبادی
ریاست چھترپور
ایک تبصرہ شائع کریں