مِلَّتِ اِبرَاهِيم یا دِینِ حَنِیف یَا اسلام یا شِیعَہ یا خیر البریہ


مِلَّتِ اِبرَاهِيمِي اَور تَشَیُّع


تحریر: مولوی جری حسن جائسی

شائد اسلام نے عہد کرامت مہد جناب ابراہیم علی نبینا و آلہ و علیہ السلام میں جلوہ گری کی یعنی جس طریقت پر آپ مامور ہوئے اس کا نام اسلام رکھا گیا اور خلعت گرانبہائے اسلام بدست قدرت خلیل کے زیب تن ہوا.
"إِذْ قَالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ ۖ قَالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ"
۞ "جب اس كے خدا نے كہا کہ اسلام لا تو اس نے کہا میں اسلام لایا اس خدا کیلئے جو عالمین کا رب ہے." (سورہ بقرہ: 131)
۞ فرزندان وحدت کو آپ ہی نے مسلمین کہہ کر پکارا.
 "مِّلَّةَ أَبِيكُمْ إِبْرَاهِيمَ ۚ هُوَ سَمَّاكُمُ الْمُسْلِمِينَ مِن قَبْلُ"
۞ "تمہارے باپ ابراہیم کی ملت انہیں نے تمہارا نام مسلمین رکھا." (سورہ حج: 78)
۞ معلوم ہوا کہ اسلام کی ابتدا جناب ابراہیم کے زمانۂ تبلیغ سے ہوئی. آپ ملت محبوبہ کے اتباع کا حکم محبوب خدا کو یوں ہوا.
 "مِلَّةَ إِبْرَٰهِيمَ حَنِيفًا ۖ وَمَا كَانَ مِنَ ٱلْمُشْرِكِينَ"
۞ "ابراہیم کی ملت حنیف ہے اور مشرکین میں سے نہیں" (سوره نحل: 123)
"قُلْ صَدَقَ اللهُ فَاتَّبِعُوا مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ" (سوره آل عمران: 95)
اتباع کا حکم محبوب خدا کا یوں ہوا ہے.
"وَمَنْ أَحْسَنُ دِينًا مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ وَاتَّبَعَ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَاتَّخَذَ اللَّهُ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلًا" (سوره نساء: 125)
"قُلْ إِنَّنِي هَدَانِي رَبِّي إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ دِينًا قِيَمًا مِّلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا ۚ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ" (سوره انعام: 161)
اور دوسرے مقام پر یوں ارشاد ہوا ہے:
"وَمَنْ يَرْغَبُ عَنْ مِلَّةِ إِبْرَاهِيمَ إِلَّا مَنْ سَفِهَ نَفْسَهُ"
"اور کون رو گردانی کرے گا ملت ابراہیمی سے مگر وہی کہ جس کا نفد سفیہ ہو." (سوره بقره: 130)
۞ اب دیکھنا چاہئے کہ ملت ابراہیمی کس چیز کا نام ہے اور کن کن صفتوں سے خدا نے اپنے خلیل کو یاد کیا تا کہ انہی اوصاف کے مجموعہ کا نام ملت ابراہیمی رکھا جائے.
۱- ""مَا كَانَ إِبْرَاهِيمُ يَهُودِيًّا وَلَا نَصْرَانِيًّا وَلَٰكِنْ كَانَ حَنِيفًا مُسْلِمًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ"
"نہ ابراہیم یہودی تھے اور نہ نصرانی لیکن حنیف مسلم تھے." (سوره آل عمران: 67)
۲- "وَإِنَّ مِن شِيعَتِهِۦ لَإِبْرَٰهِيمَ"
"اس كے شيعہ میں ابراہیم (بھی) ہیں." (سوره صافّات: 83)
۞ (مسلم کہا، شیعہ کہا) معلوم ہوا کہ ملت ابراہیمی انہی دونوں مفہوموں کے مجموعہ کا نام ہے.
۱- جناب رسالتمآب صلعم بحکم "ثُمَّ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ أَنِ اتَّبِعْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا ۖ "
"اسلام اور تشيع پر مامور ہوئے." (سوره نحل: 123)
۲- تشیع اپنی قدیم الایامی کے لحاظ سے ہمدوش اسلام ہے.
۳- وابستگان ملت ابراہیمی یا تو مسلم یو سکتے ہیں یا شیعہ ہو سکتے ہیں. (دیکھو عہد جناب موسی (ع) میں بھی ابنائے وحدت شیعہ کہے جاتے تھے.
"فَوَجَدَ فِيهَا رَجُلَيْنِ يَقْتَتِلَانِ هَٰذَا مِن شِيعَتِهِ وَهَٰذَا مِنْ عَدُوِّهِ ۖ فَاسْتَغَاثَهُ الَّذِي مِن شِيعَتِهِ عَلَى الَّذِي مِنْ عَدُوِّهِ فَوَكَزَهُ مُوسَىٰ فَقَضَىٰ عَلَيْهِ ۖ "
"قال البیضاوی أحدهما من شایعه علی دینه و هم بنی اسرائیل و الآخر من مخالفيه و هم القبط"
"(موسی ع) نے اس میں دو آدمیوں کو لڑتے ہوئے دیکھا ایک ان کے دوستوں میں تھا اور دوسرا دشمنوں میں. دوست نے فریاد کی اور دشمن کے خلاف مدد مانگی جناب موسی (ع) نے اس کو (ایک گھونسہ) مارا اور وہ مر گیا." (سوره قصص: 15)
۞ معلوم ہوا کہ مخالف شیعہ قابل قتل تھا.
"بیضاوی نے کیا ہے کہ ایک دوست تھا وہ موسی (ع) کے دین پر تھا یعنی بنی اسرائیل اور دوسرا جو مخالف تھا وہ قبطی تھا."
۞ اگر وحدت پرستوں کو کسی نام سے پکارا جائے گا تو یہ بدعت بینہ اور الحاد محض ہوگا.
(معلوم نہیں کہ أهلسنت و الجماعة کس کا رکھا ہوا نام ہے.)
 خدا نے یہ نام رکھا یا رسولخدا (ص) نے یہ نام رکھا جس طرح امام خانہ ساز ہے اسی طرح مذہب بھی خانہ ساز ہے. اس مذہبی فیکٹری کی نمائش قابل دید ہے. (ہم اپنی تحریر بالا میں اس بات کو ثابت کر چکے ہیں کہ وحدت پرستی کا نام اسلام اور تشیع ہے اور یہ خدا ہی کے رکھے ہوئے نام ہیں.)
آؤ دیکھیں اہلسنت و الجماعت کس چیز کا نام ہے. (معاویہ پرستی کا نام ہے.)
"أخذ معاوية البيعة لنفسه وكانت تلك السَّنَة سَنَةُ الجَمَاعَةِ"
۞ "معاویہ نے سنہ ۴۱ ھ میں لوگوں سے اپنی بیعت لی اسی سال کا نام "سَنَةُ الجَمَاعَةِ" یعنی "جماعت کا سال" ركھا گیا."
عمدۃ القاری، تاریخ الخمیس، تاریخ الخلفاء سیوطی، العقد الفرید، تاریخ الکامل ابن اثیر، استیعاب ابن عبد البر
"فأخذ معاوية البيعة لنفسه على أهل العراقين، فكانت تلك السنة سنة الجماعة"
۞ "معاویہ نے (سنہ ۴۱ ھ) میں اہل عراق سے اپنی بیعت لی پس اسی سال کا نام "سَنَةُ الجَمَاعَةِ" یعنی "جماعت کا سال" ركھا گیا."
(شرح صحيح البخارى ابن بطال، 8/ 97 و عمدة القاري 15/ 3067 - 3411 - تتمة الجهاد والسير)

باختلاف اللفظ و اتفاق المعانی

۞ معاویہ صاحب وہ بزرگ ہیں جو شجرۂ ملعونہ بنی امیہ کے نمایاں ممبر، رسول (ص) کے قدیمی دشمن، دیندار ایسے کہ زیاد بن سمیہ کو دن دہاڑے اپنا الحاقی بھائی بنا لیا، مرتے وقت صلیب گلے میں پہنی، نناوے لڑائیاں مولا علی (ع) سے لڑے، نواسۂ رسول (ص) کو زہر دیا، مالک اشتر جن کے فضل و کمال کو ابن ابی الحدید معتزلی شافعی سے پوچھئے چنانچہ شرح نہج البلاغہ میں لکھتے ہیں کہ اگر کوئی شخص قسم کھا کے کہے کہ عرب و عجم میں خدا نے مالک اشتر کا مثل نہیں پیدا کیا سوائے ان کے استاد علی بن ابیطالب (ع) کے تو میں کہہ سکتا ہوں کہ شائد اس کی قسم دروغ نہ ہو گی زہر دلوایا، وفات امام حسن (ع) پر خوشی کی تکبیریں کہیں، امیر المومنین علی بن ابیطالب (ع) پر لعنت کی رسم بد جاری کی جو سنہ ۴۱ ھ "سَنَةُ الجَمَاعَةِ" سے شروع ہو کر سنہ ۹۹ ھ یعنی ۵۹ سال تک برابر باقی رہی، جن کا شمار مولفة القلوب میں ہے، جن کے پدر بزرگوار ابو سفیان ہیں.

کون ابو سفیان؟
جو سب سے بڑے مخالف کلمۂ "لا إله إلا الله کے تھے، جو احد میں ہبل ساتھ لے کر رسول اللہ (ص) سے لڑنے آئے تھے، جو رسولخدا (ص) سے بدر و احد اور خندق کی مشہور لڑائیاں لڑے اور آخر میں خدا نے منہہ کالا ہی کر دیا اور رسول اکرم (ص) نے کلمۂ توحید کہلوا ہی چھوڑا. انہی نےطمنات کو فتح مکہ کے وقت براہ حبشہ ہندوستان بھیج دیا تھس اور محمود سبکتگین نے اس کو ہندوستان سے اصفہان لے جا کر شارع عام پر دفن کیا تھا. یہ اوصاف تو معاویہ صاحب کے پدر بزرگوار کے تھے.
۞ اب ان کی مادر گرامی کا ذکر سنئے: جن کا نسم ہندہ ہے جو احد میں کفار قریش کے ہمراہ گانے گاتی ہوئی اور جوش دلاتی ہوئی تشریف لائی تھیں. یاتھوں میں سرمہ کی سلائی لئے ہو ئے کھڑی تھیں اور کفار میں سے جو فرار کرتا تھا اس سے کہتی تھیں کہ لو سرمہ لگائے جاؤ.
۞ یہ غزل گا رہی تھیں:
نَحْنُ بَنَاتُ طَارِقْ      نَـمْشِي عَلَى النَّمَارِقْ

الدُرُّ فِي المَخَانِقْ       وَالمِسْكُ فِي المَفَارِقْ

إنْ تُقْبِلُوا نُعَانِـقْ        أوْ تُــدْبِـرُوا نـُفَـارِقْ

فِرَاقَ غَيْرَ وَامِقْ
ہم ستارۂ صبح کی بیٹیاں ہیں جو پر زر فرشوں پر قدم زن ہیں، مشک ہمارے سروں میں ہی اور موتی کے ہار ہمارے گردن میں یعنی شاہزادیاں، لشکر والو! اگر تم رسول سے بڑھ کے لڑو گے تو ہمارا وصل ہوگا اور اگر جنگ سے بھاگو گئے تو ہمارا فراق ہوگا."  (واہ رے غیرت)
اسی نے جناب حمزہ اسد الله کو قتل کروایا اور ان کے اعضائے بریدہ کا گہنا بنا کر پینا. جناب حمزہ سید الشہدا کا کلیجہ چبایا، اسی ملعونہ کا خون فتح مکہ رسول (ص) نے مباھح کر دیا تھا، اسلامی دنیا میں ہندہ کی یادگار عائشہ جنگ جمل میں بنی.)
بہر حال معاویہ ایسے وقیع ماں باپ کا بیٹا ہے اور ایسے دشمن رسول بیٹے کا باپ ہے جس نے باغ رسول (ص) میدان کربلا میں تاراج کر دیا.
ایسے ہی آبائی مشرک پر ایمان لانے سے سنہ ۴۱ ھ میں مذہب اہلسنت کی بسم الله ہوئی.
"فَاعْتَبِرُوا يَاأُولِي الأبْصَارِ" (سورہ حشر: 2)

معاويه پرست دشمنان رسول ہیں

"ان عبد الشمس و هاشما توأمان و ان احدهما ولد قبل الآخر واصبع ملتصقة بجهة صاحبه فنحيت سال الدم فقيل يكون بينهما دم و ولي هاشم بعد ابيه عبد مناف ما كان إليه من المقاومة و الرفادة فحسده أمية بن عبد الشمس على رياست على رياسته فكانت هذه أول عداوة وقعت بين هاشم و أمية"  (تاريخ الكامل ابن اثير جزري)
عبد الشمس اور عبد مناف کے دو بیٹے ساتھ پیدا ہوئے ایک کی انگلی دوسرے کی پیشانی سے چسپیدہ تھی جب کاٹی گئی تو خون جاری ہوا لوگوں نے کہا: ان دونوں میں خوریزی ہوگی اور عبد مناف کی وفات بعد ریاست کے مالک ہاشم ہوئے، امیہ کے دل یں حسد پیدا ہوا اور یہ عداوت کی پہلی بنیاد پڑی. بنی امیہ رسول کے دشمن اور رسول کے دشمن کے دوست رکھنے والے بھی رسول کے دشمن لہذا امیہ پرست رسول یہی لوگ دشمنان خدا ہیں بنی امیہ ہی کی بت پرستیاں اعلائے کلمۃ الله کے سنگ راہ بنیں لہذا ان کو دوست رکھنے والے اگر دشمنان خدا میں شمار کئے جائیں تو بجا ہے.
 اسی سے ملتی جلتی روایت تاریخ طبری کی بھی ملاحظہ کیجئے:
"ان عبد الشمس و هاشما توأمان و ان احدهما ولد قبل الآخر واصبع ملتصقة بجهة صاحبه فنحيت سال الدم فقيل يكون بينهما دم و ولي هاشم بعد ابيه عبد مناف ما كان إليه من المقاومة و الرفادة فحسده أمية بن عبد الشمس على رياست على رياسته فكانت هذه أول عداوة وقعت بين هاشم و أمية."  (تاريخ طبري)
اسی مذہب کے ماننے والوں سے کربلس میں یزیدی لشکر چھلک رہا تھا یزید جس کے سنی ہونے میں تو کوئی شک ہی نہیں اس لئے کہ اسی باپ کے عہد میں اس مذہب کی بنیاف پڑی. عبید الله ابن زیاد ابن سمیہ کا فرضی بھیتیجا ہی تھا اور یزید کا فرضی ابن عم تھا.
اس کا واقعہ کچھ یوں ہے:
"معاوية زياد بن سمية و كانت سمية جارية للحارث بن كلدة الثقفي فزوجها لعبد له رومي يقال له عبيد فولدت سمية زياد علي فراشة و كان أبو سفيان قد سار في الجاهلية إلى الطائف فنزل على إنسان يبيع الخمر يقال له أبو مريم فقال له أبو سفيان قد إشتهيت النساء فقال أبو مريم هل لك في سمية فقال هاتها علي طول ثدييها و وفر بطنها فوقع عليها فيقال إنها علقت منه بزياد فاستلحق معاوية زيادا فأحضر الناس وحضر من يشهد لزياد بالنسبة وكان ممن حضر لذلك أبو مريم الخمار الذي أحضر سمية إلي أبي سفيان بالطائف و يشهد بنسب زياد من أبو سفيان"
"معاويہ نے زیاد بن سمیہ کو اپنا الحاقی بھائی بنایا اور سمیہ لونڈی تھی حارث بن کلدہ ثقفی کی پس اپنء غلام عُبَید رومی کے ساتھ اس کی تزویج کر دی ایک مرتبہ اتفاقیہ جب ابو سفیان طائف گئے تو ابو مریم نامی شراب فروش کے یہاں ٹھہرے. خوب شراب پی اور ابو مریم سے کہا مجھے ایک عورت بلا دو. ابو مریم نے اسی سمیہ کو بلا دیا چنانچہ ابو سفین سے حاملہ ہوئی جب معاویہ نے اس کو اپنا بھائی بنایا تو لوگوں کو جمع کیا اور ابو مریم نے بھی اس واقعہ کی گواہی دی. (تاريخ ابو الفداء)
مزید تفصیلی روایت ذیل میں درج کی جا رہی ہے. ملاحطہ کیجئے:
"وكانت أمه سمية جارية الحارث بن كلدة الثقفي فزوجها الحارث غلاما له روميا اسمه عبيد وجاء أبو سفيان إلى الطائف في الجاهلية فوقع على سمية فولدت زيادا على فراش عبيد وأقر أبو سفيان أنه من (* أما والله لولا خوف شخص * يرانا يا علي من الأعادي * * لأطهر أمره صخر بن حرب * ولم تكن المقالة عن زياد * * وقد طالت مجاملتي ثقيفا * وتركي فيهم ثمر الفؤاد * قال فذاك الذي يحمل معاوية على ما صنع بزياد ولما ادعى معاوية زيادا دخل عليه بنو أمية وفيهم عبد الرحمن بن الحكم فقال يا معاوية لو لم تجد إلا الزنج لاستكثرت بهم علينا قلة وذلة فأقبل معاوية على مروان وقال أخرج عنا هذا الخليع فقال مروان والله إنه لخليع ما يطاق فقال معاوية والله لولا حلمي وتجاوزي لعلمت أنه يطاق ألم يبلغني شعره في وفي زياد ثم قال لمروان أسمعنيه فقال من الوافر * ألا أبلغ معاوية بن صخر * لقد ضاقت بما تأتي اليدان * * أتغضب أن يقال أبوك عف * وترضى أن يقال أبوك زان * * فأشهد أن رحمك من زياد * كرحم الفيل من ولد الأتان * * وأشهد أنها حملت زيادا * وصخر من سمية غير دان * وتروى هذه الأبيات ليزيد بن مفرغ الأتي ذكره إن شاء الله تعالى في حرف الميم وابن مفرغ يقول أيضا من الوافر * شهدت بأن أمك لم تباشر * أبا سفيان واضعة القناع * * ولكن كان أمرا فيه لبس * على وجل شديد وارتياع * ويقول أيضا من المنسرح * إن زيادا ونافعا وأبا * بكرة عندي من أعجب العجب * * هم رجال ثلاثة خلقوا * من رحم أنثى مخالفو النسب * * ذا قرشي كما يقول وذام مو * لي وهذا بزعمه عربي *) ويقال له زياد بن أبيه لما وقع في أبيه في الشك ويقال له أيضا زياد بن سمية ويكنى أبا المغيرة ولد هو والمختار سنة إحدى من الهجرة فأدرك النبي صلى الله عليه وسلم ولم يره وأسلم في عهد أبي بكر وسمع عمر بن الخطاب واستكتبه أبو موسى الأشعري في إمرته على البصرة" (الوافي بالوفيات الصفدي 15/ 6 و 7)
حامیان بنی امیه
۞ عمر ابن سعد:
یہ وہ شقی ہے جو صحیح بخاری کا راوی ہے جس کا باپ عشرۂ مبشرہ میں داخل ہے.
۞ سعد بن وقاص:
اسے تو اتنا امیر المومنین (ع) سے بغض تھا کہ خلافت رابعہ میں بھی آنحضرت (ع) کی بیعت نہیں کی حالانکہ آگے چل کر عام الجماعۃ میں معاویہ کی بیعت کی.
۞ شمر بن ذی الجوشن:
یہ بھی وہ قاتل امام حسین (ع) اور مبروص و شقی القلب ہے کہ جو راویان صحیح بخاری میں سے ہے نیز بخاری نے فقط ایک ہی روایت اس سے نقل کی ہے.
۞ مزاحم بن حُرَیث:
یہ بد بخت، ملعون و شقی القلب شخص کربلا کے میدان میں موجود تھا اور رجز خوانی میں اپنے مذہب کا اعلان کچھ اس طرح سے کرتا ہے:
"ان نافع بن هلال کان يقاتل و یقول أَنَا عَليٰ دِينِ عَلِيٍّ فخرج إليه مزاحم بن حريث فقال أَنَا عَليٰ دِينِ عُثمَان" 
نافع بن ہلال جنگ کر رہے تھے اور رجز پڑھ رہے تھے: میں "علی کے دین" پر ہوں. تو مزاحم بن حریث ان کے مقابلہ کو نکلا، تو اس نے کہا: میں "عثمان کے دین" پر ہوں. (تاريخ طبري)
مزيد مفصل روايت ملاحظہ کیجئے:
وكان نافع قد أعدّ سهاماً مسمومة كتب عليها اسمه فلمّا جاء دوره في القتال بدأ أولا يرميهم بالسهام وهو يرتجز ويقول: …..
ولما رمى السهام التي عنده برز إلى الجيش وهو يرتجز:
إن تنكروني فأنا ابن الجمل
ديني على دين الحسين بن علي
"وناداه رجل من جيش عمر بن سعد اسمه مزاحم بن حريث: نحن على دين عثمان. فأجابه نافع بل أنت على دين الشيطان, وشدٌ عليه نافع فأرداه قتيلاً ولم يعطه مهلة" (الإرشاد الشيخ المفيد 2/ 103)
۞ یزید بن معقل:
یہ شقي و لعين بھی کربلا کے میدان میں تھا سید القرّاء بُرَیر بن خُضَیر همدانی سے مباہلہ ہوا عربی عبارت ملاحظہ کیجئے:
"وخرج يزيد بن معقل من بني عميرة بن ربيعة وهو حليف لبني سليمة من عبد القيس فقال ة: يا برير بن خضير كيف ترى الله صنع بك ؟ قال : صنع الله والله بي خيرا وصنع الله بك شرا، قال: كذبت وقبل اليوم ما كنت كذابا، هل تذكروا انا اما شيك في بني لوذان وانت تقول: ان عثمان بن عفان كان على نفسه مسرفا، وان معاوية بن أبي سفيان ضال مضل، وان إمام الهدى والحق علي بن ابي طالب، فقال له برير: اشهد ان هذا رايي وقولي، فقال له يزيد بن معقل: فاني اشهد انك من الضالين، فقال له برير بن حضير: هل لك فلا بأهلك ولندع الله ان يلعن الكاذب وأن يقتل المبطل، ثم أخرج فلا بارزك. قال: فخرجا فرفعا أيديهما إلى الله يدعوانه أن يلعن الكاذب وان يقتل المحق المبطل، ثم برز كل واحد منهما لصاحبه فاختلفا ضربتين فضرب يزيد بن معقل برير بن حضير ضربة خفيفة لم تضره شيئا، وضربه برير بن حضير ضربة قدت المغفر وبلغت الدماغ فخر كأنما هوى من حالق، وان سيف ابن حضير لثابت في رأسه، فكأني أنظر إليه ينضنضه من رأسه." (تاريخ طبري و مقتل أبي مخنف الازدي 128)
"یزید بن معقل فوج شام سے نکلا اور بُرَیر بن خُضَیر همدانی سے مقابل ہو کر کہنے لگا: اے بریر! تم نے دیکھا کہ خدا نے تمہارے ساتھ کیا سلوک کیا؟ بریر نے کہا: خدا کی قسم! اللہ نے میدے اوپر احسان کیا اور تجھے حرمان نصیب کیا. معقل نے کہا: جھوٹ کہتے ہو. تم کو یاد ہوگس کہ ہم تم بنی لوذا کی طرف جا رہے تھے. تم نے عثمان کو مسرف، معاویہ کو گمراہ اور علی کو امام بر حق کہا تھا. بریر نے کہا: ہاں یہی میری رائے ہے. یزید بن معقل نے کہا: تم بیشک گمراہ ہو. بریر نے کہا: آؤ ہمارے تمہارے درمیان مباہلہ ہو جائے. گمراہ کو خدا قتل کرے اور حق پرست کو نصرت عطا کرے. پھر دونوں میں حملوں کی رد و بدل ہونے لگی. یزید بن معقل نے حملہ کیا لیکن بریر کو کوئی نقصان نہ پہونچا. بریر نے آگے بڑھ کر ایک ایسی تلوار لگائی کہ مِغفَر یعنی آہنی خود کو کاٹتی ہوئی یزید بن معقل کے سر پر پہونچی اور تلوار بھی دماغ کو دو نیم کر رہی تھی کہ یزید بن معقل اپنے گھوڑے سے گر کر مر گیا.
(اسی مذہب کے لوگوں نے نواسۂ رسول پر ظلم کیا اور کلمۂ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللہ کے مٹانے کی کوششیں کیں.)
الغرض یہ کہ مسئلہ امامت میں سب سے پہلے مسلمان دو فرقوں میں تقسیم ہو گئے شیعه بحکم خدا و رسول (ص) حضرت علی (ع) کے دامن سے منسلک رہے اور سقیفہ کی خانہ ساز خلافت سے بیزار رہے ایسے لوگوں کی تعداد مدینہ میں کم لیکن مدینہ سے باہر
زیادہ تھی نیز مہاجرین اور انصار نے ایک خفیہ سازش کے تحت مدینہ سے کچھ دور ایک پوشیدہ مقام پر بحث و نزاع کے بعد جناب ابو بکر کو خلیفہ بنا لیا جو کہ ایک فلتہ امر تھا اور ان کے حکم پر عمل کرنے لگے یہیں سے شریعت میں اختلاف شروع ہوا.
یہاں تک کہ "سیرت شَیخَین" ایک مستقل مذہب بن گئ لیکن حضرت علی (ع) اور ان کے شیعہ ہمیشہ کتاب خدا و سیرت رسولخدا (ص) پر عامل رہے حضرت علی (ع) کے پیرو زمانۂ رسول اکرم میں بھی شیعہ کہے جاتے تھے اور آنحضرت (ص) کے بعد بھی شیعہ کہے گئے، اسی طرح جناب ابو بکر کو کے پیرو جناب عثمان کے زمانہ میں عثمانی اور معاویہ کے زمانہ میں الجماعت پکارے گئے.

شيعہ کون ہے؟ شیعہ کسے کہتے ہیں؟

سید جرجانی نے اپنی کتاب شرح مواقف میں اسی سلسلہ میں تحریر کیا ہے:
"الذین شایعوا علیاً بعد رسول الله أما جلیاً وإما خفیاً واعتقدوا أن الإمامة لا تخرج عنه و عن أولاده"
"شيعہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے بعد رسولخدا (ص) علی کو مفترض الطاعۃ اور امامت کو ان میں اور ان کہ اولاد میں منحصر سمجھا.
حالانکہ ابن حجر مکی نے اپنی کتاب "الصواعق المحرقة في الرد علي أهل البدع و الزندقة" میں باوجود تثلیث پرستی کے ادعائے تشیع فرمایا ہے.
ببین تفاوت رہ از کجاست تا به کجا

شيعوں کا انجام بخیر ہے؟

آیہ "خیر البریه" کس سورہ میں ہے؟
سورہ بینہ کی آیت نمبر ۷ کو کہا جاتا ہے۔
سنی اور شیعہ روایات کی روشنی میں اسی آیت کو حضرت علی بن ابیطالب (ع) اور ان کے ماننے والے شیعوں کے معنوی مقام کی طرف بطور دلیل پیش کرتے ہیں۔
"إِنَّ الَّذِینَ آمَنُواْ وَ عَمِلُواْ الصَّالِحَاتِ أُوْلَئِكَ هُمْ خَیرُْ الْبرَِیة"
"بيشک ایمان لانے والے اور جن لوگوں نے نیک اعمال انجام دیئے وہ ہی لوگ بہترین مخلوق ہیں۔ (سورہ البینہ: 7)
اہلسنت اور شیعہ حضرات کی اہمترین حدیث کی کتابوں میں "خیر البریه" کی تفاسیر فریقین نے حضرت علی (ع) اور ان کے شیعوں کے ساتھ بیان کی ہیں۔
۱- حاكم حسكانی نیشاپوری اہلسنت کے مشہور عالم نے اپنی کتاب "شواہد التنزیل" میں 20 روایات کو مختلف اسناد کے ساتھ نقل کیا ہے۔
ان میں سے تو بعض روایات کی سند عبد الله بن عباس، [شواهد التنزیل حسکانی، 2/ 358؛ الدر المنثور فی تفسیر المأثور سیوطی، 6/ 379]
ابو برزه اسلمی، [شواهد التنزیل حسکانی، 2/ 359؛ مجمع البیان فی تفسیر القرآن طبرسي، 10/ 795]
جابر بن عبد الله انصاری [شواہد التنزیل حسکانی، 2/ 362؛ الدر المنثور فی تفسیر المأثور سيوطي، 6/ 379؛ المیزان فی تفسیر القرآن، 20/ 341] تک منتہی ہوتی ہے۔ 
مثال کے طور پر عبد الله بن عباس سے منقول ہے: جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسولخدا (ص) نے حضرت علی (ع) کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
"هو أنت و شیعتک، تأتی أنت و شیعتک یوم القیامة راضین مرضیین"
اے علی! یہ تم اور تمہارے شیعہ ہو، جو قیامت کے روز، تم اور تمہارے شیعہ اس حال میں حاضر ہوں گے کہ خدا تم سے راضی ہوگا اور تم خدا سے راضی ہو گے. [شواهد التنزیل، 2/ 358]

شیعه كي اصطلاح

اسي آیت کے شأن نزول كو ہم دلیل قرار دیتے ہیں کہ لفظ شیعہ خود رسولخدا (ص) کے زمانہ میں مرسوم و رائج تھا اور رسولخدا (ص) نے اپنی زبان مبارک سے حضرت علی (ع) کے مخصوص پماننے والوں نيز اپنے اصحاب با وقار و مخلصين کی طرف اشارہ کیا ہے. جن کے اسمائے گرامی فریقین کی کتابوں میں واضح طور پر مذكور ہیں.

انسان کی فضیلت فرشتوں پر

سورة البینة کی ساتویں آيۂ مبارکہ: "أُولئِكَ هُمْ خَیرُ الْبَرِیةِ" (وہی لوگ بہترین مخلوق ہیں.)
اس بات کو بیان کرتی ہے کہ با ایمان اور نیک اعمال انجام دینے والے انسانوں کا مقام فرشتوں سے بھی افضل ہے.
نیز آیت کا اطلاق تمام مخلوقات سے ان کی افضليت کو بیان کرتا ہے۔ [تفسیر نمونه، 27/ 209]
الغرض ابن عباس سے آخری روایت نقل کرتے ہوئے اس مضمون کو اختتام کی منزل تک پہونچا رہے ہیں.
اسعاف الراغبين میں یہ روایت مذکور ہے:
"عن إبن عباس قال، قال رسول الله (ص) يدخل من أمتي سبعون ألفا إنت إمامهم"
"ابن عباس ناقل ہیں کہ رسول اکرم (ص) نے فرمایا کہ میری امت کے لوگوں میں سے 70 ہزار مومنین بغیر حساب کے جنت میں داخل ہوں گے، امیر المومنین نے عرض کیا: یا رسول اللہ (ص)! وہ کون لوگ ہیں؟ جناب رسالتمآب نے فرمایا: وہ تمہارے ہی شیعہ اور تم ہی ان کے امام ہو.
مزید ایک مفصل روایت مذکورہ بالا روایت سے ملتی جلتی ملاحظہ فرمائے:
غاية المرام وحجة الخصام في تعيين الإمام (لهاشم البحراني الموسوي التوبلي) 1/ 119 و 120   
الباب الحادي عشر
في أن رسول الله (ص) والأئمة الاثنا عشر حجج الله على خلقه
من طريق الخاصة وفيه تسعة عشر حديثا
"الرابع: الفقيه ابن المغازلي قال: أخبرنا القاضي أبو جعفر محمد بن إسماعيل العلوي قال:
حدثنا أبو محمد عبد الله بن محمد بن عثمان المزني الحافظ الملقب بابن السقاء قال: حدثنا عبد الله بن أحمد (في المصدر: أبو عبد الله أحمد بن علي.) بن علي الرازي قال: حدثنا علي بن الحسن بن عبيد الرازي قال: حدثنا إسماعيل بن أبان الأزدي، عن عمرو بن حريث، عن داود بن السليك، عن أنس بن مالك قال: قال رسول الله (ص): "يدخل من أمتي الجنة سبعون ألفا لا حساب عليهم، ثم إلتفت إلى علي (ع) فقال: هم شيعتك وأنت إمامهم" (المناقب لابن المغازلي: 293.)

رنگِ زمانہ

مہر را خفاش دشمن شمع را پروانہ خصم
جہل را در دست تیغ و عقل را در پائے خار
شیر را از مور صد زخم انیت انصاف جہاں
پیل را از پشه صد رنج انیت عدل روزگار
رویہا گشته است بو لعباس و دلہا بولہب
ز آنکہ سرہا ذو الحمار و ز بانہا ذو الفقار

کہا جاتا ہے کہ مذہب کوئی شئے نہیں، اگر ایسا ہے تو رسول (ص) کی محنتیں، انبیاء (ع) کے کارنامے، اوصیاء (ع) کی دل توڑ کوششیں اور اہلبیت (ع) کے تحمل شدائد اور سعی بلیغ بیکار نظر آتی ہے.
کہا جاتا ہے کہ مذہبی تعصب بری چیز ہے. تعصب ان معنوں اے ضرور برا ہے جو ہٹ دھرمی کی حدود میں گھرا ہوا نظر آئے ورنہ اگر مذہب کوئی چیز ہے تو تعصب صحیح و جائز اس کا "جزو لاینفک" ہے ورنہ مذہب نہیں. یہی ایک وہ سد محکم ہے جو اپنے افراد کو غیروں میں جانے نہیں دیتا اور دوسروں کے افراد کو جب تک وہ اای رنگ میں نہ آجائیں اپنے میں آنے نہیں دیتا.
بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ قرآن بغیر تعصب پھیل نہیں سکا اور اسلام چمک نہیں سکا، کافرین سے جتنا تعصب برتا گیا وہ بھی قرآن کے آغوش میں ملے گا اور منافقین سے جو تعصب کا برتاؤ کیا گیا وہ بھی اس کے ذہن میں آج تک ہے اور تا حشر رہے گا.
یہ اور بات ہے کہ قرآن کو بالائے طاق رکھ دینے سے اور اس پر نطر نہ کرنے سے اس کے مطالب ہمارے لئے سبق آموز نہ رہیں گے اور ہمارے خیالات کیونکہ بغیر قرآن ہم نہتھے ہوگئے دوسروں کے خیالات سے مغلوب نظر آنے لگے.
مدیر خاص:
ابو البراعۃ مولوی سید ظفر مہدی
گہر نصیرآبادی الجائسی
نوٹ: معذرت کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ اس مضمون کی زبان قدیم ہے لہذا قاریان گرامی کی خدمت میں عرض ہے کہ کچھ الفاظ کی تبدیلی نیز اضافہ بھی کرنا پڑا ہے یہ امر صرف تشریح و وضاحت کی غرض سے انجام دیا گیا ہے.

والسلام علی من اتبع الهدی

$}{@J@r

Post a Comment

To be published, comments must be reviewed by the administrator *

جدید تر اس سے پرانی