مولوی شبلی نعمانی کی غلط بیانی
و خلیفۂ ثانی کے مراتب میں لن ترانی
مطابق قرآن مروج
Image by Tayeb MEZAHDIA from Pixabay
ماہ نامہ سہیل یمن لكهنؤ
شوال ۱۳۴۵ اپریل 1927،
ج: 2، ش: 1، ص: 34
مولوی شبلی نعمانی اپنی من گھڑت کتاب الفاروق کے صفحہ نمبر 20 پر عمر صاحب کے اسلام لانے کا حال بڑے شد و مد سے اس طرح لکھتے ہیں جس کا اقتباس ہدیۂ ناظرین کر کے غلط بیانی مولوی صاحب کا ایسا پختہ ثبوت دیتا ہوں کہ جب تک اس دنیا میں کلام مجید و فرقان حمید باقی رہے تب تک مٹائے نہ مٹے.
مولوی صاحب لکھتے ہیں: "حضرت عمر کا ستائیسواں سال تھا کہ عرب میں نبوت کا آفتاب چمکا یعنی جناب رسولخدا (ص) مبعوث برسالت ہوئے. عمر کے گھرانے میں زید کی وجہ سے توحید کی آواز پہونچ گئی تھی. چنانچہ سب سے پیشتر زید کے بیٹے سعید اسلام لائے. سعید کا نکاح عمر کی بہن فاطمہ سے ہوا تھا اسی تعلق سے فاطمہ بھی مسلمان ہو گئیں لیکن عمر صاحب اب تک اسلام سے نا آشنا تھے. عمر صاحب اپنے خاندان میں جس کا اسلام لانا سنتے اس سے سخت برہم ہوتے اور اس کو زد و کوب کرتے. بالآخر مجبور ہو کر یہ ٹھان لی کہ بانی اسلام ہی کا کام تمام کر دو تلوار کمر سے لگا سیدھے رسولخدا (ص) کی طرف چلے. راہ میں اتفاقاً نُعَیم بن عبد اللہ مل گئے. پوچھا: خیر ہے؟ بولے: محمد کا فیصلہ کرنے جاتا ہوں. انہوں نے کہا: پہلے اپنے گھر کی خبر لو خود تمہارے بہن بہنوئی اسلام لا چکے. فوراً پلٹے بہن کے گھر پہونچے وہ قرآن پڑھ رہی تھیں ان کی آہٹ پا کر چپ ہوگئیں اور قرآن کے اجزا چھپا دیئے. (شائد یہ قرآن نظامی پریس دہلی کا چھپا ہوا رہا ہوگا.) لیکن آواز ان کے جانوں میں پڑ چکی تھی بہن سے پوچھا: یہ کیا آواز تھی؟ بہن نے کہا: کچھ نہیں. بولے کہ نہیں، میں سن چکا ہوں کہ تم دونوں مرتد ہو گئے ہو. یہ کہہ کر بہنوئی سے دست و گریباں ہو گئے اور جب بہن شوہر کو بچانے آئی تو اس کی بھی خبر لی یہاں تک کہ بدن اس کا لہو لہان ہو گیا اسی حالت میں اس کی زبان سے نکلا کہ عمر جو بن آئے کرو لیکن اب اسلام دل سے نہیں نکلتا. ان الفاظ نے عمر صاحب کے دل پر ایک خاص اثر کیا بہن کی طرف محبت کی نگاہ سے دیکھا اور کہا: تم لوگ جو پرھ رہے تھے مجھ کو بھی سناؤ. فاطمہ نے قرآن کے اجزا سامنے لا کر رکھ دیئے. اٹھا کر دیکھا تو یی سورت تھی:
"سبح للہ ما فی السموات و الأرض و هو العزیز الحکیم"
ایک ایک لفظ پر ان کا دل مرغوب ہوتا تھا یہاں تک کہ جب اس آیت پر پہونچے:
"آمنوا باللہ و رسوله" تو بے اختیار کلمۂ شہادت پکار اٹھے.
(درمیانی حصہ بخیال طول نظر انداز کرتا ہو.) مولوی صاحب اخیر میں لکھتے ہیں کہ جناب عمر کے اسلام کا واقعہ سنہ نبوی کے چھٹے سال ہوا.
ثبوت
مولوی صاحب کا یہ تمام مضمون ایسے الفاظ سے مرتب کیا گیا ہے جس سے خلیفہ صاحب وظیفہ صاحب کی ہمشیر کا غصہ، تند خوئی، کج خلقی، بد تہذیبی کا فوٹو کھینچ رہا ہے.
جیسے (عمر جو بن آئے کرو!) مولوی صاحب کو ان لفظوں کے بجائے اور الفاظ میسر نہ آئے. اس مضمون کا ایک ایک فقرہ ریویو کے قابل تھا مگر اس اصول کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ جس کا جز اعظم اس کا کل غلط - نظر انداز کر کے صرف جزو اعظم کے غلط ہونے کا ثبوت دیتا ہوں.
تمام کلام مجید میں صرف تین ہی سورتیں ایسی ہیں جو اس آیت: "سبح للہ" شروع ہوتی ہیں:
۱- سورہ حدید جو ستائیسویں پارہ میں ہے. جس میں 29 آيات ہیں.
۲- سورہ حشر جو اٹھائیسویں پارہ میں ہے. جس میں 24 آيات ہیں.
٣- سور الصف جو اٹھائیسویں پارہ میں ہے. جس میں 14 آیات ہیں.
ان کے علاوہ اور کوئی سورہ نہیں ہے جو اس آیت "سبح للہ" سے شروع ہوتی ہو.
اب مزہ کی بات سنئے اور خدا کی عنایات شیعوں پر دیکھئے کہ یہ تینوں سورتیں مدنی ہیں، نہ کہ مکی - مدینہ میں ان کا نزول ہوا ہے نہ کہ مکہ میں نازل ہوئی ہیں.
خلیفہ جی کے اسلام لانے کا واقعہ مولوی صاحب چھٹے سال سنہ نبوی کا لکھتے ہیں. سنہ نبوی کا چھٹا سال مکہ میں ہوا اس لئے کہ دس سال تک جناب رسولخدا (ص) نے مکہ ہی سے تبلیگ رسالت فرمائی ہے تو پھر کیوں کر مکہ میں خلیفہ جی کی ہمشیر مدنی سورہ کی تلاوت کر رہی تھیں جبکہ یہ سورہ مکہ میں نازل ہی نہیں ہوئی تھی.
کیا کہیں ایسا ےو نہیں ہوا کہ جبرئیل امین عمداً یا سہواً پورا قرآن خلیفہ جی کی بہن بہنوئی پر پیشتر ہی نازل کر گئے ہوں اور جناب رسولخدا (ص) پر بدفعات مکہ و مدینہ میں لائے ہوں! یا ایسا تو نہیں ہوا کہ خلیفہ جی کی بہن صاحبہ علم غیب جانتی رہی ہوں جس کے ذریعہ سے وہ سورہ نازل ہونے کے پہلے جان گئی تھیں کہ یہ سورہ "سبح للہ" نازل ہوتا ہے لاؤ پیشتر ہی سے یاد کرلوں؟ نہیں یہ بات نہیں معلوم ہوتی کیونکہ مولوی صاحب فرماتے ہیں: قرآن کے اجزا اٹھا لائیں اور خلیفہ جی اس کو پڑھنے لگے اور جب "آمنوا باللہ" آیت پر پہونچے.
یہ آیت سورہ حدید کی ساتویں آیت ہے. اس آیت "آمنوا باللہ"
نے مولوی صاحب کی غلط بیانی میں اور چار چسند لگا دیئے اس لئے کہ کوئی صاحب اس تلاش میں نہ الجھیں کہ یہ آیت "سبح للہ" کی کسی سورہ کی درمیانی آیت نہ ہو. اب تو پورا پورا ثبوت ہو گیا کہ وہ سورہ حدید ہی ہے اور مدنی ہے.
کیوں بھائی شیعو! کہیں ایسا تو نہیں ہوا کہ جبریل امین پورا پورا قرآن شریف کتابت کی شکل میں اوراق کی صورت میں خلیفہ جی کے بہن بہنوئی کے یہاں بار بار آتے جاتے کی زحمت سے بچانے کی غرض سے رکھ گئے ہوں اور وہیں کے وہیں لا لا کے رسولخدا (ص) پر نازل کرتے رہے ہوں.
یہ معاملہ کچھ سمجھ میں نہیں آتس کہ سواد اعظم کا اتنا بڑا جید مولوی جو ایک بڑی سی بڑی اسلامی درسگاہ کا پروفیسر رہا ہو ایسا سفید جھونٹ لکھے.
اجی صاحب خلیفۂ ثانی صاحب کے اسلام لانے کا یہ واقعہ بعینہ بڑی بڑی کتابوں میں بڑی چشم بصیرت رکھنے والوں نے بھی لکھا ہے.
اس گروہ کے جب آنکھ والوں کا یہ حال ہے تو ان کے حافظوں کا خدا حافظ ہے کسی نے سچ کہا ہے:
آنکھ کے اندھے نام نین سکھ
راقم عاصم:
سید موالی حسین نقوی النصیرآبادی
چھترپور اسٹیٹ
ایک تبصرہ شائع کریں