كيا شيعہ سے نکاح کرنا اور ان کے ہاتھ کا ذبیحہ جائز ہے.؟


معرکة القلم


یہ شکوری یا کفوری فتوی یاد رکھنے کے قابل ہے

ماہ نامہ سہیل یمن لكهنؤ
ذي الحجة ۱۳۴۵ جون 1927،
ج: 2، ش: 3، ص: 24


رسالۂ النجم ص: ۱۱
"اور آئندہ نقصان سے اس طرح کہ شیعوں کے ساتھ "مناکحت" کا جواز یا ان کے "ذبیحہ" کی حلّت اور اسی قسم کے بہت سے مسائل مختلف فیہ ہونے کے سبب سے مسلمانوں کی بربادی کا سبب بن رہے تھے یہ اختلاف انشاء اللہ قطعاً مٹ جائے گا."
★★★★★★★★★★★★★★
"يَكَادُ الْبَرْقُ يَخْطَفُ أَبْصَارَهُمْ ۖ كُلَّمَا أَضَاءَ لَهُم مَّشَوْا فِيهِ وَإِذَا أَظْلَمَ عَلَيْهِمْ قَامُوا ۚ"
(سوره بقره: 20)
"گھنگھور گھٹا میں جب برق چمکتی ہے تو چل نکلتے ہیں اور جب اندھیرے میں پر جاتے ہیں تو چپ کھڑے ہو جانے کے سوا کچھ نہیں بن پڑتا." (قرآنی مثل)

مجله علمیه سهیل:

یہ واقعاً بہت بڑا فائدہ ہے آئندہ جب کوئی شیعہ مخدرات سنیہ کا خِطبہ کرے تو اس کو کافر کہہ کے رد کر دیا جائے اور اگر دلیل کفر پوچھی جائے تو صاف کہہ دینا چاہئے کہ یہ ان لوگوں سے محبت کرتا ہے جن کی محبت آیۂ قرآنی "قل لا أسئلك عليه أجراً إلا المودة في القربيٰ" خدا نے واجب کی ہے اور ان لوگوں کو اس نے چھوڑ دیا ہے جن کی محبت کے متعلق قرآن میں کوئی حکم نہیں ہے اور سنیوں کا مسلک یہ ہے کہ جو کچھ ارشاد خدا ہوگا اس پر ہرگز عمل نہ کریں گے لہذا سنی مومن ہیں اور شیعہ کافر ہیں کیوں یہی استدلال ہے نہ؟
حیف برین اسلام و ایمان. اور یہ بات ایک حد تک اچھی بھی ہے ہم کسی حمراء الوجه، خضراء الدمن سے خود کوئی ارتباط نہیں چاہتے ہمارے خیال میں یہ فخر ہم سے منتقل ہو کر مشرکین تک پہونچے گا کیونکہ وہ عدداً اور مالاً دونوں طرح ہم سے زیادہ ہیں اور ان کا کھانا اور پینا اس فرقہ کی نظر میں پاک بھی ہے اگرچہ قرآن میں انحصار کے ساتھ "إنما المشركون نجس" موجود ہے لیکن جیسا کہ کسی آیت قرآن پر ملباس فرقہ میں تجویز نہیں کیا گیا ویسی ہی یہ آیت بھی آغوش قرآن میں اس فرقہ کی مذبوح ہے اور قابل عمل نہیں حتی اینکہ بخاری نے واقعہ "ثمامہ بن وال" سے کہ پیغمبر نےطاسے با وصف مشرک ہونے کے ستون مسجد سے لے جا کر باندھ دیا تھا مسجد کے اندر کافروں کے لے جانے کو تجویز کیا ہے مجھے ان نفوس پر تعجب ہوتا ہے کہ ان کے فہم و فقہ کے خرمن پر کونسی برق گری جس سے بصیرت کو سرمہ کی طرح جلا کر سیاہ کر دیا بھلا بخاری سے کون کہے کہ واقعہ "ثمامہ بن وال" سنہ ۵ ہجری میں گزرا ہے اور آیۂ "إنما المشركون نجس" سنہ ۹ ہجری میں نازل ہوا بعد کا حکم سابق کیلئے ناسخ ہو سکتا ہے لیکن سابق کا حکم بعد کے حکم کا ناسخ یو یہ مذہب بخاری کے سوا اور کون ایجاد کر سکتا ہے بہر حال برغم آیات قرآنی مذہب اہلسنت میں مشرکین کے طہارت ک حکم مقرر ہے اور اگر حکم نہیں تو عمل ضرور ہے پھر جب یہ آیت قابل نسخ ٹھہری تو آیۂ "لا تنکحوا المشركین" کا منسوخ کر دینا اس فرقہ کیلئے کونسی مشکل ہے.

ذبیحہ کا تذکرہ
رہ گیا ہمارے ذبیحہ کا حرام کر دینا یہ کوئی بڑی بات نہیں کافروں کا گروہ ہمارے ہاتھ کے مس ہو جانے سے کھانے کی چیزوں کو ناپاک سمجھتا ہے.
بحث اس میں ہے کہ خدا نے بھی ہمارے ذبیحہ کو ناجائز قرار دیا ہے یا نہیں، وہ ثابت نہیں بلکہ چونکہ تم منکر آیات ہو لہذا ہمیں حکم بر عکس نظر آتا ہے. جس فرقہ کے نزدیک وہ ذبح کئے ہوئے جانور حلال ہوں جن کے ذبح کرنے میں خدا کا نام نہ لیا گیا ہو حالانکہ قرآن مجید میں ہے:
"و لا تأکلوا مما لم يذکر إسم الله عليه"
"ان چیزوں سے نہ کھاؤ جن کے ذبح کرنے میں خدا کا نام نہیں لیا گیا"
وہ کیا کسی کے ذبیحہ کے حلت و حرمت میں بحث کر سکتے ہیں اس لئے کہ وہ تحلیل حرام کی وجہ سے جافر ہو چکے ہیں لیکن عادت مخالفت قرآن کہیں عمل بالقرآن کی اجازت دے سکتی ہے. یہ کہہ دیا گیا ہے کہ اگر خدا کا نام نہ بھی لیا جائے جب بھی شوق سے نوش جان کرو چنانچہ سنن ابو داؤد کی جلد نمبر 4 ميں صفحہ نمبر 4 پر تحریر ہے:
"عن عکرمة عن إبن عباس قال فكلوا مما ذكر إسم الله عليه ولا تأكلوا مما لم يذكر إسم الله عليه فتسخ وإستثني من ذلك فقال طعام اهل الكتاب حل لكم وطعامكم خل لهم"
"عكرمہ نے ابن عباس سے روایت کی ہے انہوں نے کہا کہ وہ ذبیحے کھاؤ جن پر خدا کا نام لیا گیا ہے اور وہ نہ کھاؤ جن پر خدا کا نام نہیں لیا گیا پھر اس کے بعد یہ حکم منسوخ ہو گیا اور اس سے اہل کتاب کو مستثی کر لیا اور یہ فرمایا کہ طعام اہل کتاب تمہارے لئے حلال ہے اور تمہارا کھانا ان کیلئے حلال ہے."
دیکھئے استثنی بتاتا ہے ہے کہ ان کا کھانا اگر چہ اس قدر ہو کہ اہل کتاب کا ذبیحہ اور وہ بھی وہ جس پر خدا کا نام نہ لیا گیا ہو ان کیلئے حلال ہو تو وہ کیوں کر شیعوں کے ذبیحہ کو حرام قرار دے سکتے ہیں.

ایک علمی بحث

روایت میں ایک عجیب چیز ہے وہ یہ کہ نسخ و استثنا دونوں کا اجتماع ہے حالانکہ نسخ و استثنا دونوں کا اجتماع باممکن ہے استثنا میں حکم مستثنی کیلئے ثابت نہیں ہوتا اور نسخ میں حکم ثابت، حکم ثابت سے اٹھایا جاتا ہے لیذا اگر استثنا فرض کیا جائے گس تو معنی یہ ہوں گے کہ ذبیحۂ اہل کتاب کیلئے کبھی حرمت ثابت ہی نہ تھی اور اگر نسخ ہوگس تو معلوم ہوگا کہ پہلے حرمت بدلیل شرعی ثابت تھی پھر دوسری دلیل سے وہ اٹھا لی گئی. لہذا ایسے مضطرب الدلالۃ روایت سے ایسے مطب اہم پر احتجاج شکم پرستی کے خواہش پر روشنی ڈالنا ہے.
"أبی اللہ أن یکون کما أردت"
اگر ہمیں کوئی کافر کہے جب بھی ہمارا ذبیحہ تمہارے مسلمات کے بنا پر کبھی حرام نہ ہوگا کیونکہ ہم اہل کتاب ایسے نجس لوگوں کے نطر میں ضرور ہوں گے کیونکہ وہ اگر یہ کہیں کہ پیغمبر ہماری طرف مبعوث نہیں ہوا تو مکذب نبی ہوں گے کیونکی اس نے دعوائے عموم کیا تھا لہذا ان کے کفر میں کوئی شک نہ ہو گس اور اگر یہ ہمیں اہل کتاب کہیں گے تو ہمارا ذبیحہ ان کے مسلمات کے بنا پر حلال ہو گا.
اب ذرا غور تو کیجئے کہ آپ کا قتوی کیوں کر ذبح ہو گیا آپ قصابی کو ہنر سمجھتے ہیں کہ یہ سوا ہمارے اور کسی میں نہیں حالانکہ خوارج کا اثر ذبیحہ تک جاتا ہے اور وہ بیچارہ بھی نجس ہو جاتا ہے.
"فافهم"
راقم:
ايک محقق

Post a Comment

To be published, comments must be reviewed by the administrator *

جدید تر اس سے پرانی