یہی پانچ اعمال عَرشِ الٰہی کو بھی لرزا دیتے ہیں!
محرر: محمدی
مترجم: ابو دانیال اعظمی بریر
۱. یتیم بچے کا آہ و زاری کرنا
۲. فاجر و گنہگار کی تعریف کرنا
۳. طلاق دینا
۴. اسمائے الہی کے مقدس نام کا ذکر کرنا
۵. خداوند عالم کیلئے ذمہ داری معین کرنا
★ بہر حال گناہ تو غضب پروردگار عالم کا موجب ہوتا ہے لیکن اس دوران بعض گناہ میں زیادہ شدت پائی جاتی ہے اور ہم کہ سکتے ہیں کہ عموما انسان کی اور خصوصاً مسلمان کی عاقبت اور عقوبت میں بہت ہی زیادہ تاثیر گزار بھی ہوتا ہے. ….
لغت عرب میں لفظِ عَرش
عربی لغت میں لفظ "عَرش" کے اصلی معنی وہ مقام ہے جو مسقف یعنی سقف والی جگہ ہوتی ہے پھر دوسرے معنی میں استعمال ہوا ہے جیسے لفظ «عَرشِ سُلطان» میں سلطان کے مقام و منزلت کو بھی کہا جاتا ہے اور اکثر مقامات پر یہ لفظ سلطنت و حکمرانی کرنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے. [لسان العرب، ابن منظور، لفظ «عَرش»؛ راغب، مفردات، لفظ «عَرش»؛ قرشى، قاموس قرآن، 4/ 316؛ صفی پور، منتهی الأرب، ج 3 و 4، باب العين، ص 1716]
عَرش کے لُغوی معانی
عربی لغت میں لفظ «عَرش» اسے کہا جاتا ہے جس کے اوپر چھت یا سقف ہوتی ہے. [راغب اصفهانی، مفردات الفاظ القرآن، واژه «عرش».]
اسی وجہ سے سائبان، شامیانہ، خیمه، چھپرا، چھپَّر، جھوپڑی کی چھت، محل، قصر اور کوئیں کے اوپر بنی ہوئی عمارت کو بھی "عَرش" کہا جاتا ہے. [المنجد، ترجمه، بندر ریگى، محمد، 2/ 1100.]
کبھی کبھی اونچے پائے کے تخت کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے اور اسی بنا پر بادشاہ اور حکومت کے تخت پر بھی اس کا معنی کا اطلاق ہوتا ہے. [قرشى، سيد على اکبر، قاموس قرآن، 4/ 316، تهران، دار الکتب الإسلامیة، چاپ ششم، 1371ش.] یعنی بطور کنایہ دیکھا جائے تو قدرت اور حکومت مراد ہے.
قرآن میں لفظِ عَرش
یہی لفظ "عرش" قرآن کریم میں 26 مرتبہ استعمال ہوا ہے.
[غافر، 7 و 15؛ حاقّه، 17؛ نحل، 23، 26، 38، 41 و 42؛ اعراف، 54؛ توبه، 129؛ یونس، 3؛ یوسف، 100 ؛ رعد، 2؛ اسراء، 42؛ طه، 5؛ انبیآء، 22؛ مومنون، 86 و 116؛ فرقان، 59؛ سجده، 4؛ زمر، 75؛ زخرف، 82؛ حدید، 4؛ تکویر، 20؛ بروج، 15؛ هود، 7.]
جس میں اس کے معنی اکثر آیات میں «عَرش خدا» مراد ہے.
بعض مقام پر سقف یا چھت کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے:
«اس حالت میں کہ اس کی دیواریں چھتوں کے اوپر منہدم ہو گئی تھی.». [بقره، 259.]
اور کبھی «تخت شاہی یا بادشاہ کا تخت» کے معنی میں بھی مستعمل ہے: «اور اپنے والدین (والد و والدہ) کو تخت پر قرار دیا». [یوسف، 100.]
دوسری آیت میں بھی یہی معنی مراد ہے: «میرے لئے تم میں سے کون ہے جو اس (بلقیس) کے تخت سلطنت کو یہاں دربار میں لائے گا.». [نحل، 38.]
کبھی رفعت و بلندی کے معنی میں بھی ذکر کیا جاتا ہے. [اعراف، 137.] یہاں پر ہماری بحث سے مربوط جو محل و مقام ہے وہی «عَرشِ خداوند متعال» مقصود ہے.
عَرشِ الٰهی کے قرآنی معانی
1- عَرش بمعنی مکمل نظام هستی. [مطهری، آشنایی با قرآن، تهران، انتشارات صدرا، 1377، 5/ 74،]
2- عَرش بمعنی اوامر الهی کے صادر ہونے کا مقام. [ترجمه المیزان، 17/ 453.]
3- عَرش بمعنی احاطه پروردگار. [طیب، اطیب البیان، انتشارات اسلام، 1378، 7/ 12].
4- عَرش بمعنی علم خداوند متعال.
5- عَرش بمعنی ہر ایک صفات الهیہ. [حر عاملى، الفصول المهمة في أصول الائمة، مؤسسه معارف اسلامی امام رضا (ع)، 1418 ق، 1/ 228].
6- عَرش بمعنی انسانِ مومن كا قلب و دل. [ابن عربی، الفتوحات المکیه، 4 جلدی، بیروت، دار الصادر، 1/ 215]
★ پہلا عمل:
یتیم بچہ کی اہ و زاری کرنا
یتیم = یہاں تک کہ بعض گناہ گھر کی بربادی کا باعث ہوتا ہے اور ان کے ارتکاب سے انسانی زندگی کی بنیاد تک کھوکھلی ہو جاتی ہے لہذا لازم و ضروری ہے کہ ایسے گناہوں کے ارتکاب سے پہلے ہم انہیں اچھی طرح پہچان لیں اور ان سے پرہیز اور اجتناب کرتے رہیں. …
من جملہ بہت سے دردناک امور انسانی زندگی میں اتفاق پڑتے رہتے ہیں کہ جو غیض و غضب الہی کو اپنے پیچھے دعوت دیتا ہے انہی میں سے ایک یتیم بچہ کو تکلیف و رنج دینا ہے.
اسلامی متون میں خاص طور پر خدائے متعال کی تہذیب و تمدن والی کتاب قرآن کریم میں یتیموں کیلئے چند معین حقوق کو واجب قرار دیا ہے کہ ہر مسلمان پر اس واجب حقوق کی طرف سے بے توجہ ہونے پر الہی قہر و عذاب اپنے تعاقب میں لاتا ہے.
جیسا کہ قرآن کریم کی اس آیت میں تذکرہ کیا ہے:
«أَ رَأَیْتَ الَّذی یُكَذِّبُ بِالدِّینِ فَذلِكَ الَّذی یَدُعُّ الْیَتیمَ» [سورہ ماعون 1 و 2]
"کیا تم نے نہیں دیکھا کہ روز جزا کو جھٹلانے والے بس وہی افراد ہیں جو یتیم کی توہین کرتے تھے."
رسول اکرم (ص) سے ایک روایت میں نقل ہوا ہے کہ آپ (ص) نے فرمایا:
«إِنَ الْیَتِیمَ إِذَا بَكَى اهْتَزَّ لَهُ الْعَرْشُ فَیَقُولُ الرَّبُّ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى مَنْ هَذَا الَّذِی أَبْكَى عَبْدِیَ الَّذِی أَسْلَبْتُهُ أَبَوَیْهِ فِی صِغَرِهِ فَوَ عِزَّتِی وَ جَلَالِی لَا یُسْكِتُهُ أَحَدٌ إِلَّا أَوْجَبْتُ لَهُ الْجَنَّةَ»
"بیشک جب یتیم گریہ و زاری کرتا ہے تو عرش الہی لرز جاتا ہے پس پروردگار عالم فرماتا ہے: کس شخص نے اس یتیم بچہ کو رولایا ہے کہ جس کے والدین میں سے کسی ایک کو میں اس کی زندگی سے لے لیا ہے؟ میری عزت و جلال کی قسم جو کوئی بھی اسے خاموش کرائے گا اس کا بدلہ سوائے جنت کے کچھ اور واجب نہیں ہوگا." [ابن بابويه، ثواب الأعمال، ص 200]
★ دوسرا عمل:
فاجر و گنہگار کی تعریف کرنا
ہر مدح و تعریف بھی فضیلت و منزلت کے مطابق بھی ہونا ضروری ہے کہ جو کسی بھی شخص میں پائی جاتی بھی ہو. جیسا کہ امیر النومنین (ع) کے بیان کے مطابق بھی ہونا چاہئے:
«وقال (ع): الثَّنَاءُ بِأَکْثَرَ مِنَ الاِسْتِحْقَاقِ مَلَقٌ، وَالتَّقْصِیرُ عَنِ الاِسْتِحْقَاقِ عِیٌّ أَوْ حَسَدٌ»
"حد سے زیاد مدح و ثنا کرنا تملّق و چاپلوسی ہے اور استحقاق سے کمتر تعریف و فضیلت بیان کرنا ضعف و حسد ہے." [نهج البلاغه، حکمت 347]
جو شخص بھی غیر مناسب افراد کی تعریف و مدح بیان کرتا ہر تو بقول امام حسن عسکری (ع) کے اپنے اپ کو معرج اتہام میں ڈالنے ہی جیسا ہے یعنی کہ بہت ممکن ہے کہ دنیا اور مقام یا مال یا منصب تک پہونچنے کی خاطر ایسا کیا جا رہا ہے. پس ایسی تعریف سے مدح و ثنا کرنے والا بھی لوگون کی نظر میں بے اعتبار ہو جاتا ہے اور جس کی تعریف کی جا رہی ہے ان موصوف کو بھی نقصان پہونچانے کا وسیلہ بن رہا ہے جیسے کہ اس میں مغرور و خود پسندی کی صفت کا اجاگر ہونا یا پھر اسے تکبر کی کھائی کی طرف لے جاتا ہے.
«منْ مدَحَ غیرَ المُستحقِّ فقَدْ قامَ مقامَ المُتّهمِ»
جس شخص نے بھی کسی غیر مستحق کی تعریف و توصیف بیان کی گویا اس نے اپنے کو اتھام کے مقام پر قرار دیا ہے." [بحار الأنوار، 75/ 378]
«أَقْبِلْ عَلَى شَأْنِكَ فَإِنَّ كَثْرَةَ الْمَلَقِ يَهْجُمُ عَلَى الظِّنَّةِ»
"اس کام سے پرہیز کرو کہ بہت زیادہ چاپلوسی کرنے کا نتیجہ بد گمانی ہی نکلنے والا ہے." [بحار الأنوار، 70/ 295]
یعنی بہت ممکن ہے کہ مال و منال یا منصب و مقام یا شوکت و شان دنیا کو حاصل کرنے کی خاطر ہی ایسی تعریف کی جا رہی ہے تو دوسری طرف تعریف کرنے والے کی بھی حیثیت اور اعتبار کو نظروں سے کمتر گرا دیتا ہے اور پھر جس کی تعریف کی جاتی ہے اس کی شخصیت کو بھی نقصان پہونچتا ہے چونکہ اسے مغرور اوع خود پسند بنا دیتا ہے اور گھمنڈ اسے تکبر کی طرف لے جاتا ہے.
ایک حدیث رسولخدا (ص) سے نقل ہوئی ہے:
«احْثُوا فِي وُجُوهِ الْمَدَّاحِينَ التُّرَاب»
"مدّاحوں (مدح و تعریف کرنے والوں) کے چہروں پہ خاک ڈالو."
(من لا يحضره الفقيه، 4/ 11؛ میزان الحکمه، حدیث: 18573)
اس کے معنی ہی ہے کہ چاپلوسوں اور تملّق کرنے والوں کو موقع ہی فراہم نہ کرو کہ وہ بے تعریفوں کے ساتھ ریا کاری اور فریب کے جال نہ پھیلا سکیں اور حقیقت و سچائی کی دنیا کا بازار میں مندا ہو جائے اور چاپلوسی کا بازار گرم اور رواج ہوتا رہے.
پیغمبر اکرم (ص) سے ایک حدیث نقل ہوئی ہے:
«إذا مُدِحَ الفَاجِرُ اهتَزَّ العَرشُ وَ غَضِبَ الرَّبُّ »
"جب فاجر و بدكار کی تعریف کی جائے تو عرش الہی لرزنے لگتا ہے اور پروردگا عالم بھی غضبناک ہوتا ہے."
[تحف العقول عن آل الرسول (ص)، ج 2/ 46؛ ابن عربی، الفتوحات المکیه، 4 جلدی، بیروت، دار صادر، ج 1/ 215؛ ميزان الحكمة 4/ 2864]
★ تیسرا عمل:
شوہر کا زوجہ کو طلاق دینا
قرآن كريم ميں مياں بيوي كو لباس سے تعبير كيا گيا ہے جیسا کہ ارشاد ربانی ہوتا ہے:
… هُنَّ لِباسٌ لَکُمْ وَ أَنْتُمْ لِباسٌ لَهُنَّ …
" … وہ عورتیں تم (مردوں) کا لباس ہیں اور تم (سب مرد) ان (عورتوں) کا لباس ہو ..." [سورہ بقره، 187]
«هُنَّ لِباسٌ لَکمْ وَ أَنْتُمْ لِباسٌ لَهُن»
اس آیہ مبارکہ میں میاں بیوی کو ایک دوسرے کے لباس سے تشبیہ دیا ہے جو ایک بہت ہی لطیف اور نکتہ کا اشارہ پوشیدہ ہے.
جن میں سے چند لطیف امور درج ذیل ہیں:
★ انسان کو چاہئے کہ اپنا لباس مناسب رنگ، جنس اور کیفیت و حیثیت کا ہو. اسی طرح سے ایک مسلمان شوہر / زوجہ کو بھی ہم پلہ، مناسب ہم خیال اور شخصیت کے مطابق ہونا چاہئے.
★ انسان کا لباس قابل زینت و سکون ہوتا ہے بالکل اسی طرح شوہر / زوجہ اور اولاد بھی زینت اور سکون کا باعث خاندان ہوتا ہے.
★ انسان کا لباس عیوب کا چھپاتا ہے لہذا مسلمان شوہر / زوجہ کو بھی ایک دوسرے کے عیوب اور نقائص و کمزوری کو بھی پوشیدہ رکھنا چاہئے.
★ انسان کا لباس سردی اور گرمی موسموں کے خطری سے محفوظ رکھتا ہے. لہذا ایک مسلمان شوہر / زوجہ کے وجود سے نظام خاندان ہر خوشی اور غم میں نقصان و مشکلات سے محفوظ رکھتا ہے. نیز خاندان کے تعلقات کو مشکلات کی سرد ہواؤں میں محبت و الفت کی گرمی پہونچاتا ہے اور خاندان کو بکھرنے سے بھی محفوظ رکھتا ہے.
★ انسان کا لباس ہی حریم ہے اور لباس سے دوری رسوائی کا سبب ہے اور اسی طرح شادی بیاہ اور شوہر / زوجہ سے دوری اخلاقی بے راہ روی اور بد نامی کا سبب ہوتا ہے.
★ انسان موسم سرما کی سرد ہواؤں میں ضخیم اور موٹا لباس پہنتا ہے جبکہ موسم گرما کی لو آلود ہواؤں میں ہلکا پلکا سوتی لباس استعمال کرتا ہے پس اسی طرح سے شوہر / زوجہ کو بھی اخلاق و رفتار نیز کردار و گفتار میں ایک دوسرے کی روح کے متناسب یونا چاہئے یعنی روھانی اعتبار سے منظم و مرتب ہونا چاہئے اگر شوہر غضبناک ہے تو زوجہ کو لطافت کے ساتھ نرمی اختیار کرنا چاہئے اور اگر زوجہ خستہ حال ہے تو شوہر کو بھی اس کے ساتھ مہربانی کا سلوک کرنا چاہئے.
★ انسان اپنے کو نجاست و غیر مناسب آلودگی سے بچانا چاہئے بالکل ادی طرح سے شوہر / زوجہ کو بھی ایک دوسرے کو گناہ کی الودگی سے بچانا چاہئے اور ایسے حالات بھی پیدا نہ کرے کہ کسی ایک کا دامن گناہ سے آلودہ ہو جائے. [قرائتی، 400 نکته از تفسیر نور، ص 344]
★ مذکورہ بالا آیت کے ضمن میں چند لطیف اشاروں کو علامہ جوادی اپنے مترجمہ قرآن کریم میں یوں رقم کرتے ہیں:
"... وہ تمہارے لئے پردہ پوش ہیں اور تم ان کیلئے …"
لباس کی تعبیر قرآنی بلاغت کا شاہکار ہے کہ ۱- لباس پردہ پوش بھی ہوتا ہے اور زینت بھی، ۲- لباس عزیز بھی ہوتا ہے اور قیمتی بھی، ۳- لباس کہنہ (پرانہ) ہو جاتا ہے تو اصلاح کی جاتی ہے اور بیکار ہو جاتا ہے تو جدا (علاحدہ) کر دیا جاتا ہے.
★ اسلام میں مرد و عورت کے رشتہ میں یہ ساری خصوصیات پائی جاتی ہیں.
(پارہ: 2، سوره بقره، آيه 187، مترجم علامه جوادي طاب ثراه)
★ امام جعفر صادق (ع) نے فرمایا ہے:
[٢٧٨٧٨] ٥ ـ ... قال: ما من شيء مما أحله الله أبغض إليه من الطلاق ...
خداوند عالم نے بندوں كيلئے حلال چيزوں كے درميان صرف ایک ہی حلال امر طلاق کے سوا کسی اور حلال امور پر غیط و غضب کرتا نہیں ہے. [وسائل الشیعه چاپ آل البیت، 22/ 8]
رسولخدا (ص) سے دوسری روایت میں نقل ہوا ہے:
«تَزَوَّجُوا وَ لَا تُطَلِّقُوا فَإِنَّ الطَّلَاقَ یَهْتَزُّ مِنْهُ الْعَرْش»
"ازدواج یعنی شادی بیاہ کرو اور طلاق مت دو کیونکہ طلاق دینے سے عَرشِ الٰہی لرزنے لگتا ہے." [مكارم الأخلاق، ص 197]
★ چوتھا عمل:
اسمائے الہی میں سے مقدس نام کا تذکر کرنا
تعلیمات اسلامی میں دعا اور مناجات کی تہذیب و تمدن میں خاص توجہ اور سفارش بھی کیا گیا ہے کہ اسمائے الٰہی کے مقدس تذکرہ اور اسی کے ذکر سے اپنی حاجتوں اور مناجات کے وقت کیا کرو کہ تب ہی بارگاہ الہی میں قبولیت کا شرف حاصل ہوتا ہے اسی لئے مختلف دعاوں میں استغاثہ کے وقت بارگاہ الٰہی میں خداوند متعال کے اسمائے مبارکہ اور مقدس ناموں سے پکارا جاتا ہے لہذا بحار الانوار میں رسولخدا (ص) سے ایک مفصل اور طولانی دعا نقل ہوئی ہے جس میں یوں اسمائے حسنیٰ کا تذکرہ آیا ہے جس کے چند کلمات ہم نقل کر رہے ہیں:
«أَللّٰهُمَّ إِنِّي أَدعُوكَ بِإسمِكَ الوَاحِدُ الأَعَزُّ، وَأَدعُوكَ أَللّٰهُمَّ بِإسمِكَ الصَمَدُ، وَأَدعُوكَ أَللّٰهُمَّ بِإسمِكَ العَظِيمُ الوَترُ، وَأَدعُوكَ أَللّٰهُمَّ بِإسمِكَ الكَبِيرُ المُتَعَالُ ...»
"میرے پروردگار! بیشک میں تجھے پکارتا ہوں تیرے واحد اعز نام کے وسیلہ سے اور میرے پروردگار! بیشک میں تجھے بلاتا ہوں تیرے صمد نام کے ذریعہ سے اور میرے پروردگار! بیشک میں تجھے آواز دیتا ہوں تیرے عظیم وتر نام کے توسط سے اور میرے پروردگار! بیشک میں تجھے صدا دیتا ہوں تیرے کبیر متعال نام کے توسل سے …."
اور رسولخدا (ص) نے عبد المطلب کی اولاد سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
«یَا بَنِی عَبدِ المُطَّلِبِ سَلُوا رَبَّكُم بِهٰؤُلَاءِ الكَلِمَات، فَوَالَّذِي نَفسِي بِيَدِهِ مَا دَعَا بِهِنَّ عَبد بِإِخلَاصِ دِینِهِ إِلَّا اهتَزَّ لَهُ العَرش»
"اے عبد المطلب کے فرزندو! تم اپنے پروردگار متعال کو مذکورہ بالا کلمات کے ذریعہ سے پکارو. پس جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان و نفس ہے اس ذات کی قسم ہے کہ کوئی بھی بندہ خالص اپنی دینی خلوص کے ذریعہ ان کلمات کو وسیلہ قرار دیتا ہے تو عرش الہی کے لرزنے لگتا ہے اور اس امر عظیم سے بڑھ کر کوئی بھی اچر رونما نہیں ہوتا. [مجلسی، بحار الأنوار، 14/ 338].
★ پانچواں عمل:
خداوند عالم کیلئے ذمہ داری معین کرنا
ہم میں سے بعض افراد کی یہ عادت رکھتے ہیں کہ خداوند متعال کے امور اور اس کی حکمتوں میں لیکن، کیوں، کیسے، اگر، مگر کہہ کر لوگوں کے دل و دماغ میں شک و شبہہ ڈالتے اور پیدا کرتے رہتے ہیں کہ نعوذ بالله من ذلك کہ خالق كائنات کیلئے تکلیف و ذمہ داری کے کاموں کو معین کرتے ہیں: جیسے کہ اگر خداوند عالم نے یہ کام کیا ہوتا یا اس کے بر عکس کیا ہوتا یا تو یہ کہتا ہے کہ اے خدا تو نے یہ دنیا کیا بنائی ہے؟ اگر اس طرح ہوتی تو میرے نطریہ کے مطابق ایسا ہوتا تو بہتر تھا یا خداوند عالم کا یہ کام ناقص یا عبث ہے اور اس میں یہ ضعف یا کمی پائی جاتی ہے. (معاذ الله) تو یہ سارے اگر مگر لیکن ویکن ہمارے کفر کا ہی نتیجہ ہے اور عدم معرفت اور ذات باری تعالی کی پہچان نہ ہونے کی بنا پر ہے اس طرح کی ہماری باتیں غیر سنجیدہ ہیں جس ات عرز الہی لرزنے لگتا ہے اور مشیّت ربانی کو غضبناک کرتا ہے.
اسی بنا پر ہمیں روایت میں یہ حدیث پڑھنے کو ملتی ہے:
«مَنْ أَعْلَمَ اللهَ مَا لَمْ یَعْلَمْ اهْتَزَّ لَهُ عَرْشُه»
"جو شخص یہ جتانا چاہتا ہے کہ خدا نہیں جانتا اور وہ اسے تعلیم دینا چاہتا ہے کہ تو ایسی صورت حال میں عرش الہی لرزنے لگتا ہے." (بحار الأنوار، 75/ 266، باب 23؛ مواعظ الصادق جعفر بن محمد (ع) و وصاياه ص : 190)
المختصر مذکورہ بالا ۵ امور کے انجام دینے سے ہی "عرش الہی" لرزنے لگتا ہے.
تمت بالخير به نستعين و هو خير المعين
ایک تبصرہ شائع کریں