کيا اہل کتاب کی توہین کرنا جائز ہے؟

Image by Thomas B. from Pixabay 


ﺳــــــــــــــﻮﺍﻝ


بہت سے لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ اہل کتاب کی توہین کرنا جائز ہے تو برائے مہربانی چند محبت آمیز اور منصفانہ سلوک کی مثالوں کو حضرت محمد مصطفی (ص) کی سیرت طیبہ اور اہلبیت (ع) کی حیات طاہرہ سے جو اہل کتاب کے ساتھ حسن سلوک انجام دیا ہے اسے ذکر کیجئے.

★ ★ ★ ★ ★ ★ ★ ★ ★ ★ ★ ★ 

پاسخ دهنده / مصاحبه شونده

ﺑﺨﺶ ﭘﺎﺳﺦ ﮔﻮﯾﯽ ﭘﺎﯾﮕﺎﻩ ﺣﺪﯾﺚ ﻧﺖ

 

جـــــــــــــــواب


1- پیغمبر ‏(ﺹ) اﻭر ﯾﻬﻮﺩﯼ قرض خواہ


رسولخدا (ص) ایک یہودی کے چند دینار کے مقروض تھے اور وہ آنحضرت (ص) سے طالب کیا، تو آنجناب نے فرمایا: اے مرد یہودی! فی الحال میرے پاس کچھ نہیں ہے جو تمہیں دے سکوں. اس نے کہا: اے محمد! میں آپ کو نہیں چھوڑوں گا جب تک کہ آپ میرے مطالبہ کو پورا نہیں کرتے. رسولخدا (ص) نے فرمایا: پھر تو میں بھی تیرے ساتھ ہی بیٹھتا ہوں. آنجناب (ص) اسی کے پاس اس قدر بیٹھے کہ اسی مقام پر رسالتمآب (ص) نے ظہر و عصر، مغرب و عشا اور فجر کی نمازیں ادا کرتے رہے. رسولخدا (ص) کے اصحاب اس مرد یہودی کو ڈراتے دھمکاتے رہے. پیغمبر اسلام (ص) نے ان اصحاب سے فرمایا: اس کے ساتھ کیا سلوک کرو گے.!؟ صحابہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! ایک یہودی نے آپ کو پکر رکھا ہے.!؟ تب ختمی مرتبت (ص) نے فرمایا: میرے پروردگار نے مجھے مبعوث برسالت نہیں کیا تا کہ میں ذمی اور غیر ذمی پر ظلم و ستم کروں. جب دن کا اجالا نمودار ہوا وہ مرد یہودی اسلام لے آیا اور اسے یہ پتہ چلا کہ تورات میں جس آخری نبی کی علامتیں مذکور ہیں وہ درست ہیں. (ﺑﺤﺎﺭ ﺍﻷﻧﻮﺍﺭ: 16/ 216/ 5‏)


2- منافقین کیلئے مغفرت کی دعا کرنا


منافقین وہ لوگ تھے کہ جو بظاہر تو مسلمان ہوئے تھے لیکن وہ حقیقت میں ایسے نہیں تھے بلکہ بباطن وہ ایمان سے عاری تھے یہ لوگ اسلام کو سخت نقصان پہونچا رہے تھے.

ایک روایت میں ذکر ملتا ہے کہ قرآن مجید کی آیت جس میں ان کے جنازہ پر نماز پڑھنے کی ممانعت کا تذکرہ ہے کے نازل ہونے سے پہلے آنحضرت (ص) منافقین کے جنازوں پر بھی نماز میت پڑھا کرتے تھے.

خداوند عالن سورہ توبہ کی آیت نمبر 80 ميں پیغمبر اسلام (ص) سے مخاطب ہوتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے: اگر 70 مرتبہ بھی منافقین کیلئے استغفار کرو گے تب بھی خداوند متعال ان کے گناہوں کو نہیں بخشے گا.

رسول رحمت (ص) نے فرمایا: اگر مجھے معلوم یوتا کہ منافقین کیلئے 70 مرتبہ سے بھی زائد استغفار کرنے سے ان کے گناہوں کو خداوند عالم بخشتا ہے تو میں یہ کام بھی کرتا رہتا. ‏(ﺻﺤﯿﺢ ﺍﻟﺒﺨﺎﺭﯼ ف/ 206)

جبکہ رسولخدا (ص) منافقین کیلئے دعا کرنے کے خواہاں تھے تو بدرجہ اولی اہل کتاب کیلئے دعا گو رہتے ہیں.


3- نصرانی کے ساتھ منصفانہ سلوک


امام علی (ع) کی خلافت کے زمانہ میں ہی آنجناب (ع) نے بازار میں ایک عیسائی کو دیکھا جو ایک زرہ بیچ رہا تھا. امام (ع) نے اس سے فرمایا: یہ میری زرہ ہے نیز تمہارے اور میرے درمیان مسلمانوں کا قاضی فیصلہ کرے گا. دونوں ہی قاضی شریح کے پاس گئے جسے خود آنحضرت (ع) نے ہی قاضی کے عہدہ پر نصب کیا تھا. حضرت علی (ع) نے فرمایا: یہ میری زرہ ہے کہ جو ایک مدت سے گم ہو گئی تھی. قاضی شریح نے پوچھا: اے مسیحی! تو اس سلسلہ میں کیا کہتا ہے.؟ نصرانی نے کہا: میں امیر المومنین کی تکذیب نہیں کرتا لیکن یہ زرہ میری ہی ہے. قاضی شریح نے (امام) کی طرف مخاطب ہو کر کہا: میری رائے کے مطابق یہ زرہ اس کے ہاتھ سے نہیں نکلے گی. کیا کوئی بینہ (دلیل) آنجناب کے پاس ہے.؟ امام علی (ع) نے فرمایا: قاضی شریح صحیح کہہ رہا ہے. پھر نصرانی نے کہا: لیکن میں گواہی دیتا ہوں کہ یہ پیغمبران کے احکام میں سے ہے کہ امیر المومنین اپنے ہی منتخب قاضی کے پاس آئے اور انہی کا قاضی بھی آنحضرت کے خلاف فیصلہ صادر کر رہا ہے. نصرانی نے امام سے خطاب کرتے ہوئے مزید کہا: اے امیر المومنین! خدا کی قسم یہ زرہ آپ ہی کی ہے، میں سپاہیوں کے پیچھے سے آپ ہی کا تعاقب کر رہا تھا کہ اونٹ کے سامان میں سے زمین پر یہ زرہ گر پڑی اور میں نے ہی اسے اٹھایا. میں گواہی دیتا ہوں کہ سوائے ‏«ﺍﻟﻠّﻪ» کے کوئی معبود نہیں ہے اور‏ «ﻣﺤﻤّﺪ‏» اللہ کے رسول ہیں. حضرت علی (ع) نے فرمایا: جبکہ تم اسلام لے ہی آئے ہو تو یہ زرہ میں تمہیں بخشتا ہوں پھر امام (ع) نے بھی ایک قیمتی گھوڑا اسے تحفہ میں عنایت کیا. (ﺍﻟﺴﻨﻦ ﺍﻟﮑﺒﺮﻯ: 10/ 230/ 20465؛ ﺍﻟﺒﺪﺍﯾﻪ ﻭﺍﻟﻨﻬﺎﯾﻪ: 4/ 8؛ ﮐﻨﺰ ﺍﻟﻌﻤّﺎﻝ: 7/ 24/ 17789؛ ﺍﻟﻐﺎﺭﺍﺕ: 1/ 124؛ ﺑﺤﺎﺭ ﺍﻷﻧﻮﺍﺭ: 41/ 56/ 6 و 104/ 290)


4- کاﻓﺮ ﺍﻫﻞ ﮐﺘﺎﺏ کا احترام کرنا


ایک روز امیر المومنین (ع) سے ایک ذمی مرد (اچانک اور نامعلوم طریقہ سے) ہمسفر تھا. اس ذمی مرد نے پوچھا: اے اللہ کے بندہ! کہاں جا رہے ہو.؟ امام (ع) نے فرمایا: میری منزل کوفہ ہے. جس وقت کہ (دو راستے پر پہونچے اور) وہ مرد ذمی دوسرے راستہ پر چلنے لگا تو امیر المومنین (ع) بھی اسی کے راستہ پر چلنے لگے. مرد ذمی نے کہا: مگر آپ ہی نے نہیں کہا کہ کوفہ جا رہے ہو.؟ امیر المومنین (ع) نے اس خطاب کرتے ہوئے فرمایا: مصاحب کا کمال یہ ہے کہ جب کوئی شخص ساتھ رہے پھر جدا ہونے لگے تو چند قدم اسے رخصت کرے. یہی ہمارے پیغمبر (ص) نے حکم دیا ہے. کافر ذمی نے کہا: لازمی ہے کہ جو کوئی بھی ان کی اتباع و پیروی کرے گا پس وہ اسی اعمال کی خاطر عظیم و بلند رہتا ہے. میں آپ کو گواہ قرار دیتے ہوئے آپ کے دین پر ہوں. وہ شخص امیر المومنین (ع) کے ساتھ کوفہ واپس آیا اور جب امام کو پہچانا تو اس نے دین اسلام قبول کیا. (ﺍﻟﮑﺎﻓﯽ: 2/ 670/ 5؛ ﻗﺮﺏ ﺍﻹﺳﻨﺎﺩ: 10/ 33؛ ﺑﺤﺎﺭ ﺍﻷﻧﻮﺍﺭ: 74/ 157/ 4‏)


5- یهوﺩﯼ کی توہین کو برداشت کرنا


امام علی (ع) نے حاضرین کے درمیان خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: جو چاہو پوچھو اور آنجناب نے دعوی فرمایا کہ ہر سوال کا جواب جو عرش کے نیچے ہے وہ جانتے ہیں. اسی دوران ایک یہودی شخص جو اپنی گردن میں ایک کتاب آویزاں کئے ہوئے تھا ظاہر ہوا اور بآواش بلند کہنے لگا: اے وہ شخص کہ جو مدعی ہے کہ ایسی چیز رکھتا ہے کہ جو وہ نہیں جانتا اور جس چیز کو نہیں وہ نہیں سمجھتا ہے اسے گردن میں ڈالتا ہے.! میرے سوالوں کے جواب دو. امام (ع) کے اصحاب چاروں طرف سے اس پر حملہ ور ہوئے اور اسے مار ڈالنے کا ارادہ کر رہے تھے. لیکن آنحضرت (ع) نے اپنے اصحاب کو اس کی قتل کرنے سے باز رکھا اور فرمایا: اسے چھوڑ دو اور اس کے بارے میں جلد بازی مت کرو، خودرائی اور بے عقلی کے ساتھ نيز خداوند عالم کی حجتیں قائم نہیں ہوتی، اور اللہ کی دلیلیں آشکار نہیں ہوتی. اسی وقت امام (ع) نے اس مرد یہودی نے فرمایا: جس طرح بھی تو چاہتا ہے اور جو کچھ بھی تیرے دل میں ہے پوچھو. تب اس مرد یہودی نے امیر المومنین (ع) سے سوالات پوچھے اور آنحضرت (ع) نے بھی ایک ایک کا جواب عطا فرمایا اور اس کے بعد وہ دائرہ اسلام میں داخل ہو گیا. (ﺍﻟﻤﺤﺘﻀﺮ: 88؛ ﺇﺭﺷﺎﺩ ﺍﻟﻘﻠﻮﺏ: 377؛ ﺑﺤﺎﺭ ﺍﻷﻧﻮﺍﺭ: 57/ 231/ 183‏)

ﺻﺎﺣﺐ ﻣﺤﺘﻮﯼ:

ﭘﺎﯾﮕﺎﻩ ﺍﻃﻼﻉ ﺭﺳﺎﻧﯽ ﺣﺪﯾﺚ ﻧﺖ

"$}{@J@r"

تمت بالخير

Post a Comment

To be published, comments must be reviewed by the administrator *

جدید تر اس سے پرانی