چور کے ہاتھ کب کاٹے جائیں گے؟
★ مطالب
۱. فارسی ترجمہ
۲. انگریزی ترجمہ
۳. کلمات آیت كے معاني
۴. محل نزول
۵. شان نزول
۶. تفسیر آیت
۷. مآخذ و مصادر
۸. ہمیں پہچانئے پھر فیصلہ کیجئے
★چور کے ہاتھ کاٹنے سے متعلق آیت:
«وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُمَا جَزَاءً بِمَا كَسَبَا نَكَالًا مِنَ اللهِ ۗ وَاللهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ»
(سوره مائده (5) آیت 38)
★ اردو ترجمہ:
چوری کرنے والا مرد اور عورت پس دونوں ہی کے ہاتھ کاٹے جائیں گے جو کچھ انہوں نے انجام دیا ہے اس کے بدلہ میں، یہ سزا ہے جو اللہ کی طرف سے مقرر کی گئی ہے اور خدواند عالم مقتدر اور صاحب حکمت ہے.
★ فارسی ترجمه:
دست زن و مرد دزد را به کیفر اعمالشان ببُرید، این عقوبتی است که خدا مقرر کرده و خدا مقتدر و به مصالح خلق داناست. (الهی قمشهای)
★ انگریزی ترجمه
As for the thief, man or woman, cut off their hands as a requital for what they have earned. [That is] an exemplary punishment from Allah, and Allah is all-mighty, all-wise. (Qaran)
Sin which is certainly a Greater one is stealing or thievery. Imam Riďa (a.s.) has included stealing among the Greater sins according to the tradition reported by Fazl Ibn Shazān. Amash says that Imam Ja’far as-Sadiq (a.s.) has related from the Holy Prophet (S) that he said, “A believer cannot commit fornication and a believer cannot steal.” (Wasa’il ul-Shia)
مترجم : ابو دانیال اعظمی بُرَیر
★ کلمات آیت کے معانی
سَارِق: چور (یہ لفظ مرد کیلئے)
سَارِقَة: چور (یہ لفظ مونث کیلئے)
سَرِقت: چوری.
نَكَال: وہ سزا جو دوسروں کی عبرت کی خاطر ہوتی ہے
نَكل (بر وزن جَسر) جس کے معنى زنجير کے ہیں.
عقوبت اور كيفر کو اسی لئے "نَكال" کہا جاتا ہے کیونکہ یہ انسان پر زنجیر کے مثل ہوتا ہے. [محمد باقر محقق، نمونه بينات در شأن نزول آيات از نظر شیخ طوسی و ساير مفسرين خاصه و عامه، ص 283.]
نزول آیت
محل نزول:
یہ آیت مدینه میں پیغمبر اسلام (ص) پر نازک ہوئی ہے. [تفسير كشف الاسرار.]
شأن نزول:
يہ آيت "طعمة بن ابيرق" نامی شخص کے سلسلہ میں نازل ہوئی ہے جس وقت اس نے ایک زرہ چوری کی تھی. [طبرسی، مجمع البيان في تفسير القرآن، 3/ 231. و تفسیر احسن الحدیث، سید علی اکبر قرشی]
تفسیر آیه
★ (تفسیر نور قرائتی 2/ 290 و 291)
وَ السَّارِقُ وَ السَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُما جَزاءً بِما كَسَبا نَكالًا مِنَ اللَّهِ وَ اللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ ★
چور چاہے مرد یو یا عورت مرد انہوں نے جو کام انجان دیا ہے اس کی سزا یہی ہے کہ ان کے ہاتھ کاٹے جائیں یہ کیفر کردار تک پہونچانے کا اللہ کی طرف سے مقرر ہے اور خدا تو مقتدر حكيم ہے. «5: 38»
نکات
كلمه «نَكالَ» جس کے معنی باز رکھنے والا امر ہے.
اسلام کے جزائی قوانین باز رکھنے کیلئے ہی ہوتے ہیں. نہ کہ انتقام لینے کیلئے.
«نَكالَ» اس عقوبت یا سزا کو کہتے ہیں كه جو دوسروں کیلئے باعث عبرت ہوتا ہے. «قاموس قرآن.»
اين آيت میں سب سے پہلا لفظ مرد کیلئے «اَلسَّارِقُ» یعنی "چور مرد" استعمال ہوا ہے اس کے بعد کا لفظ مونث کیلئے ہی «اَلسَّارِقَةُ» یعنی "چور عورت" کو ذکر کیا گیا ہے.
جبکہ آیت زنا میں سب سے پہلے لفظ «اَلزَّانِیَةُ» یعنی زانی عورت اور پھر اس کے بعد لفظ «اَلزَّانِی» یعنی زانی مرد کیلئے استعمال ہوا ہے.
آیت ملاحظہ کیجئے:
«الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوا كُلَّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ ۖ »
لیکن دوسرے مقام پر سورہ نور کی آیت نمبر ۲ میں بھی مذکورہ بالا انداز میں ہی الفاظ کا استعمال ہوا ہے. شائد اسی لئے کہ چوری کرنے یا خلاف ورزی کرنے میں مرد کا کردار سب سے بڑا یا زیادہ رہتا ہے اور زنا میں عورت کا کردار خلاف ورزی کی صورت میں زیادہ رہتا ہو.
چوري پر ہاتھ کاٹنے کی سزا کیوں ہے؟
مرحوم سيد مرتضى علم الهدى (ایک هزار سال قبل کے عالم) سے پوچھا:
جس ہاتھ کی دیت ۵۰۰ مثقال سونا شریعت نے رکھی ہے وہی ہاتھ ¼ مثقال کی قیمت کی کسی بھی چیز کیلئے کیوں کاٹا جاتا ہے.؟؟؟
جواب میں فرمایا: «امانت» نے ہی ہاتھ کی قيمت کو اونچا کر دیا ہے تو دوسری طرف «خيانت» نے ہی اس کی قدر و قیمت کو گھٹا دیا ہے.
★ روایات کے مطابق ہاتھ کاٹنے کی مقدار چار ہی انگلیاں کاٹنا ہے نیز پیر اوع ہاتھ کے انگوٹھے باقی رہنا چاہئے اور ہتھیلی بھی نہیں کاٹیں گے.
جس مقدار کے مال کی چوری پر ہاتھ کاٹا جائے گا وہ کم از کم ¼ دينار يا ¼ مثقال سونا كے مساوي كي رقم يا چيز ہونا چاہئے. (مذکورہ مقدار سے کم پر ہاتھ ہرگز نہیں کاٹا جائے گا.) مال بھی محفوظ مقام پر ہی رکھا ہونا چاہئے، مسافر خانہ، حمام، مساجد اور عمومی مقامات پر نہ رکھا ہو، چوری کرنے والا بھی ہاتھ کاٹنے کے قانون سے با خبر ہونا چاہئے ورنہ اس کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا، اسی طرح اگر قحط کے زمانہ یا سال میں اضطرا یا بھوک پیاس کی شدت کی بنا پر کھانے پینے کی چیزوں کی چوری کرتا ہے تب بھی اس کے ہاتھ نہیں کاٹے جا سکتے، البتہ جن کی بنیاد پر ہاتھ نہیں کاٹے جائیں گے تو اس کے بدلہ میں شریعت کے دوسرے کیفری قوانین کے مطابق سزا دی جائے گی جن کی تفصیلات فقہی کتابوں میں درج ہیں. «تفسير صافى.»
★ رسول (ص) کی نظر میں چوری:
پيغمبر اسلام (ص) نے فرمایا ہے: بدترين نوعیت کی چوری نماز میں چوری کرنا ہے اور رکوع و سجود کو ناقص انجام دینا ہے. «تفسير قرطبى.»
ان احکامات اسلامی کو نافذ کرنے کیلئے حکومت، قدرت، انتظام و انصرام اور تنظیم کی ضرورت یوتی ہے. پس اسلام حکومت اور سیاست کا ہی دین ہے.
اگر اسلام کو حکومت و سیاست سے نکال دیں گے تو صرف چنگیزی ہی باقی رہ جائے گی.
دین اسلام ہاتھ کاٹنے سے پہلے کام کرنے کی اہمیت اور اس کا زندگی لازمی ہونا اور فقرا زندگی بسر کرنے کیلئے بیت المال اور اس کے قریبی رشتہ دار نیز قرض الحسنہ یا تعاون وغیرہ کی تاکید و تائید بھی کرتا ہے. لیکن فقیری و غربت کی حالت میں بھی چوری کیلئے کوئی بہانہ یا جواز قابل قبول ہرگز نہیں ہے. «تفسير فى ظلال القرآن.»
چونکہ دنیا کے جزايى نظام میں صرف قید و بند اور مالی جرمانہ پر ہی انحصار کیا گیا ہے لہذا چوری سے مقابلہ یا ختم کرنے سے عاجز ہیں.
ہاتھ کاٹنا مجرم کیلئے ہمیشہ خبردار کرتا یے اور دوبارہ اسی کام کو انجام دینے سے باز رکھتا ہے اور دوسروں کیلئے بھی درس عبرت قرار پاتا ہے. «فَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُما»
آیت کا پیغام:
۱- چور مرد و عورت کی سزا یکسان ہی ہے. «السَّارِقُ وَ السَّارِقَةُ»
۲- معاشرہ اور سماج میں امن و امان یقینی طور پر برقرار رہنا چاہئے. «فَاقْطَعُوا»
۳- بھاری جرمانہ اور کڑی سزا چوری سے لوگوں کو باز رکھتی ہے. «نَكالًا»
۴- اسلام کے کیفری قوانین میں مجرم کی تنبیہ کے علاوہ دوسروں کی عبرت پر بھی توجہ رکھس گیا ہے. «نَكالًا»
۵- قوانین الہی کے اجرا میں مہربانی و نرمی کے ما تحت اپنے کو قرار نہ دیں. «فَاقْطَعُوا»
۶- جبکہ ہاتھ کاٹنا حاکم شرع اور قاضی کی طرف سے ہی عمل ہوتا ہے لیکن خداوند متعال کا خطاب بھی تمام ہی مومنین سے ہے. «فَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُما» یہاں تک کہ قوانین الہی کے اجرا کا زمانہ فراہم ہو جائے.
۷- شخصى ملکیت اور سماج میں امن و سلامتی عامہ بھی کسی قدر اہمترین ہے کہ جس کی خاطر چور کے ہاتھ بھی کاٹنا پڑے تو بھی کاٹنا دینا چاہئے. «فَاقْطَعُوا»
8- اعمال قدرت کا بھی حساب ہونا ہی چاہئے. «عَزِيزٌ حَكِيمٌ»
9- چور کے ہاتھ کاٹنے کا حکم خداوند عالم کی عزت و حکمت کا ایک جلوہ بھی ہے. «فَاقْطَعُوا … عَزِيزٌ حَكِيمٌ»
مصادر
تفسیر نور، محسن قرائتی، تهران: مركز فرهنگى درسهايى از قرآن، 1383 ش، چاپ يازدهم
اطیب البیان فی تفسیر القرآن، سید عبد الحسین طیب، تهران: انتشارات اسلام، 1378 ش، چاپ دوم
تفسیر اثنی عشری، حسین حسینی شاه عبد العظیمی، تهران: انتشارات ميقات، 1363 ش، چاپ اول
تفسیر روان جاوید، محمد ثقفی تهرانی، تهران: انتشارات برهان، 1398 ق، چاپ سوم
برگزیده تفسیر نمونه، ناصر مکارم شیرازی و جمعي از فضلا، تنظیم احمد علی بابایی، تهران: دار الکتب اسلامیه، ۱۳۸۶ش
تفسیر راهنما، علی اکبر هاشمی رفسنجانی، قم: بوستان كتاب (انتشارات دفتر تبليغات اسلامي حوزه علميه قم)، 1386 ش، چاپ پنجم
محمد باقر محقق، نمونه بینات در شأن نزول آیات از نظر شیخ طوسی و سایر مفسرین خاصه و عامه.
منقول از كتاب
ہمیں پہچانئے
پھر فیصلہ کیجئے
(از 301 تا 303)
مترجمين:
١- حامد حسين مرتضوي حسين پوري
٢- معراج علي سكندر پوري
طبع اول 1430 / 2009
ناشر: اداره عقيلۂ بنی ہاشم رجسٹرڈ
۴۱- امامباڑہ لین، بڑا امامباڑہ، رشید مارکیت، دہلی - ۵۱
كتاب
أعرفونا ثمّ احکموا
مولف: آية الله السيد أحمد الواحدي موسوي زيد مجده العالي
فرع چوري:
مذہب امامیہ کا اجماع ہے کہ اگر چور نے اتنی مقدار میں چوری کی ہے جو شرعاً ہاتھ کاٹنے کا سبب بن جائے تو اس کے ہاتھ کی انگلیوں کو جڑوں سے کاٹ دیا جائے گا، ہتھیلی اور انگوٹھے کو باقی رکھا جائے گا.
ہمارے پاس اس مسئلہ میں بہت سی دلیلیں ہیں.
۱- پہلی دلیل یہ ہے کہ ہتھیلی اور انگوٹھا اعضائے سجدہ سے ہیں اور اعضائے سجدہ خدا سے مخصوص ہیں.
۲- دوسری دلیل یہ ہے کہ لفظ "یَد" یعنی ہاتھ اسم جنس ہے جس طرح یہ شانے، کہنی اور گٹے کو شامل ہے اای طرح انگلیوں پر بھی بولا جاتا ہے اس پر قرآن مجید کی آیت شاہد ہے: «فویل للذین یکتبون الکتاب بأیدیهم»
(سورہ بقرہ 79) "ويل ہے ان لوگوں پر جو اپنے ہاتھوں سے کتاب لکھتے ہیں پھر اسے تھوڑے داموں میں فروخت کرتے ہیں.
یہ بات واضح ہے کہ وہ اپنی انگلیوں سے لکھتے ہیں لیکن لفظ "ید" خداوند عالم نے استعمال کیا ہے جس سے مراد یہاں پر انگلیاں ہی ہیں چونکہ کسی شئے کا قطع کرنا یا تلف کرنا محظورات عقلیہ سے ہے لہذا یہاں پر سب سے کم شئے پر اکتفا کیا جائے گا اور وہ ہے انگلیاں تا کہبمحظور عقلی سے محفوظ رہیں.
۳- تیسری دلیل یہ ہے کہ مولائے کائنات (ع) نے بھی چور کی انگلیاں کاٹنے پر اکتفا کیا اور کسنی نے ان کی مخالفت نہ کی.
البتہ فقہائے اہلسنت کے یہاں اس مسئلہ میں مختلف اقوال ہیں:
۱- بعض قائل ہیں کہ چور کے ہاتھ اس کے بازو سے قلم کئے جائیں گے.
۲- بعض نے کہا کہ کہنی سے کاٹے جائیں گے.
۳- بعض کہتے ہیں کہ چور کے ہاتھ گٹے سے کاٹے جائیں گے.
۴- جو قول ہمارا ہے محظورات عقلی سے بعید عقل و عدل کے مطابق ہے. شیعہ فرقہ کا اس پر اجماع ہے نیز بہت سی روایات اس باب میں وارد ہوئی ہیں جو اس پر دلالت کرتی ہیں.
وہ شرطیں جن کے ذریعہ چوری ثابت ہوتی ہے:
چوری ثابت ہونے کیلئے چند شرائط ہیں اگر وہ شرطیں متوفر نہ ہوں تو چوری ثابت نہیں ہوگی اور ہم یہ بات واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ اسلام کس حد تک انسان کی کرامت و شرافت کا پاسبان ہے. اسلام صرف خیالات و گمان پر حکم نہیں لگاتا. اسلام یہ نہیں چاہتا کہ کسی انسان کی شخصیت معاشرہ میں ذلیل و خوار ہو کر رہ جائے.
کوئی بھی جرم اللہ و رسول (ص) کے نزدیک بغیر شروط و قیود کے ثابت نہیں ہوتا اور ان تمام شروط کا یکجا ہونا بہت مشکل ہوتا ہے. اسی طرح سے چوری کی سزا میں ہاتھ کاٹنے کی بھی شرائط ہیں جن کا لحاظ رکھنا ضروری ہے.
چور کا ہاتھ کاٹا جائے گا جب مندرجہ ذیل شروط پائی جائیں. لہذا ہم یہاں پر تقریباً 20 شرطیں بیان کر رہے ہیں تا کہ قارئین کرام کو ان کا علم ہو جائے:
۱- چوری بیّنہ کے ذریعہ ثابت ہوتی ہے اور بیّنہ کا مطلب ہے دو عادلوں کی گواہی.
۲- دونوں کی گواہی وقت کے اعتبار سے متحد ہو.
۳- مکان کے اعتبار سے متحد ہو.
۴- جنس معین کے اعتبار سے متحد ہو.
۵- گواہی دیں کہ مال اتنی مقدار میں تھا.
۶- محفوظ مقام میں تھا.
۷- كسی محفوظ مقام سے چور نے چوری کی ہو.
۸- دونوں شاہد (گواہ) مرد ہوں.
۹- مسلمان ہوں.
۱۰- عادل ہوں.
۱۱- دونوں آزاد ہوں. (غلام نہ ہوں)
۱۲- چور صاحب مال کا باپ نہ ہو.
۱۳- چور صاحب مال کا غلام نہ ہو.
۱۴- چوری شدہ چیز عالم قحط میں نہ کھائی جاتی ہو.
۱۵- چوری شدہ شئے ایک چوتھائی دینار شرعی سے کم نہ ہو.
۱۶- چور عاقل ہو. (دیوانہ نہ ہو)
۱۷-بالغ ہو. (نا بالغ نہ ہو.)
۱۸- مختار ہو.
۱۹- مالک کو چوری کا احساس نہ ہو.
۲۰- ان تمام شرطوں کے باوجود بھی ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا مگر یہ کہ صاحب مال حد کا مطالبہ کرے.
★ پس اگر مذکورہ شرائط میں سے کوئی ایک شرط بھی فوت ہو جائے تو ہاتھ کاٹنے کا حکم نافذ نہ ہو گا.
★ اسی طرح چوری ثابت ہونے کے بعد اگر صاحب مال معاف کر دے تو چور پر حد جاری نہیں کی جائے گی.
تمت بالخیر
ایک تبصرہ شائع کریں