(مبارکپور میں شیعیت)
راقم : مولانا منهال رضا خیرآبادی مدیر جامعه حیدریه مدينة العلوم خيرآباد مئو
جن علما اور مورخین نے مبارکپور کے حالات رقم کئے ہیں یا ضلع اعظم گڑھ کے گورمنٹ گزیٹ میں جو واقعات درج کئے گئے ہیں ان سے اشارہ ملتا ہے کہ مبارکپور
دور قدیم میں شیعہ اور سنی مسلک کے لوگ آباد تھے مبارکپور میں جس کا قدیم نام قاسم آباد تھا جو راجہ سید مبارک کے کڑا مانک پور سے یہاں آنے اور اپنی تبلیغات اور روحانی فیوض و برکات سے متاثر کرنے کی بنس پر اسے ان کے نام کی مناسبت سے مبارکپور کر دیا گیا اور اب اسی نام سے مشہور ہے. دور قدیم میں بھی یہاں صنعت و حرفت اور علم و فن پایا جاتا تھس جس کی وجہ سے اس کا تذکرہ قدیم کتابوں میں ملتا ہے، اعظم گڑھ گزیٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ پانچویں صدی کی آخری دہائی میں اعظم گڑھ کا علاقہ اسلام سے آشنا ہوا، سید سالار مسعود غازی کے مجاہدین نے بھی پہلی بار اس علاوہ میں قدم رکھا. سنہ 592 ھ سے سنہ 689 ھ تک مبارکپور پر دہلی سلطنت کا قبضہ تھا اس زمانہ میں اسلام کا آوازہ اس علاقہ میں زیادہ بلند ہوا تغلق خاندان کے تقریبا سو سوا سو سال بعد راجہ مبارک شاہ نے اپنے ساتھ بعض خاندانوں کو لے کر یہاں آباد کیا غالبا یہ تیموری زمانہ تھا جب مبارکپور مشہور ہوا یہ سنہ 937 ھ سے سنہ 964 ھ کا زمانہ تھا. جب ہمایوں دہلی سلطنت کا حکمراں تھا اور اس کے زمانہ میں قصبہ کا نام مبارکپور ہوا. شاہجہاں کے دور میں مبارکپور کی دیرینہ ترقی اور صنعتی بلندی کو دیکھ کر قریب و دور کے مسلمان بھی یہاں آن کر آباد ہوئے. تیموری خاندان سے لے کر ایسٹ انڈیا کمپنی کے رواج تک شیعہ و سنی کے درمیان کئی فسادات اور جھگڑے اور قتل و خون کا بازار گرم رہا جن کا تذکرہ "واقعات و حادثات قصبہ مبارکپور" نامی کتاب میں ملتا ہے.
(قلمی نسخہ "واقعات و حادثات قصبہ مبارکپور" نامی کتاب پر حقیر اپنے رفقا کے تعاون سے پچھلے چند سالوں سے کام کر رہے ہیں.)
قاضی اطہر صاحب نے "شجرہ مبارکہ" میں تحریر کیا ہے کہ قصبہ اور سواد قصبہ کے عام مسلمان قدیم زمانہ سے سنی مسلک پر عامل تھے لیکن شائد قاضی صاحب سے سہو ہو گیا ہے کیونکہ "واقعات و حادثات قصبہ مبارکپور" اور خود قاضی صاحب کی کتاب "تذکرہ علمائے مبارکپور" کے بیانات سے اشارہ ملتا ہے کہ شیعہ و سنی دونوں مسلک کے لوگ تھے اگرچہ یہ پتہ نہیں چل سکا کہ ان دونوں مسلک کے ماننے والے غیر مسلم سے مسلمان اور شیعہ ہوئے تھے یا کسی اعر مقام سے یہاں کی مرفہ حالی کو دیکھ کر یہاں آکر آباد ہوئے تھے.
قاضی صاحب نزدیک لکھتے ہیں کہ سب سے پہلے یہاں نوابین اودھ کے زمانہ میں تشیع کا رواج ہوا، انہوں نے تقریبا 142 سال حكومت كي جس ميں 86 سال تک مبارکپور اور اعظم گڑھ کے علاقوں پر ان کی حکومت رہی انہوں نے اپنء دور میں لہو و لعب کے ساتھ شیعیت کی تبلیغ و اشاعت کی طرف خاص توجہ کی.
بوابین ادوھ کا نواب حکمراں پر جوش داعی اور مبلغ تھا اورچاس کیلئے بے دریغ دولت خرچ کرتا تھا. نواب آصف الدولہ (از 1187 ھ تا 1212 ھ) کا خاص کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے شیعیت کی اشاعت میں پوری کوشش کی ان کے نائب نواب حسن رضا خان بڑے مذہبی ادمی تھے ان کی کوششوں سے ہزاروں خاندان سنی سے شیعہ ہوگئے اور ان کو جاگیریں ملیں اوت جو اپنی ضد پر قائم رہے ان کی جاگیر جو شاہان مغلیہ سے چلی آتی تھیں ضبط کر لی گئیں. (بحوالہ گلِ رعنا ص 152)
قابل توجہ یہ امر ہے کہ نوابین اودھ کے زمانہ میں تشیُّع کو رواج نہیں ہوا بلکہ متعصب سنی امرا و حکام نء سپنی عصبیت اور کٹرپن کی بنا پر جن شیعوں کو اپنی شیعیت کے اظہار سے روک رکھا تھس انہیں ماحول سازگار جب ملا تو وہ کھل کر سامنے آئے اور خوف و خطر سے بالاتر ہو کر اپنے مذہبِ حق اہلبیت (ع) کی پابندی اعلانیہ کرنے لگے. ہاں یہ ضرور ہے کہ نوابین اودھ نے مذہب حق کی پابندی کی اور اسے سراہتے ہوئے دوسروں کو مواقع فراہم کئے. جہاں تک پیشہ خرچ کرنے کی بات ہے تو تبلیغ میں مال و دولت بھی خرچ ہوتی ہی ہے یہ اس لئے نہیں تھا کہ ان پیسوں کی لالچ میں لوگ شیعہ ہوگئے، شیعیت کا وجود زمانہ پیغمبر اسلام (ص) سے ہے اور حقیقی اسلام بھی شیعیت ہی ہے البتہ مسلک اہلسنت امیر شام کے زمانہ کی ایجاد ہے جسے بعد میں چاروں نام نہاد اماموں ابو حنیفہ، شافعی، مالکی اور حنبلی نے شاہان بنی عباس کی دولت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے فروغ دیا اور شیعیت پر قدغن بھی کی.
قاضی صاحب کے بیان سے ترشّح ہوتا ہے کہ نواب حسن رضا خان کے عطایائے جاگیر کی بنا پر سنی شیعہ ہوگئے یہ بھی حقیقت کے بر خلاف ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ لوگ شیعہ تھے اور نواب حسن رضا خان کی تبلیغ نے ان میں اظہار حقانیت کی جرأت پیدا کر دی مگر نواب کو بخوبی علم تھا کہ مقامی اور قرب و جوار کے متعصب افراد اپنی قدرت و طاقت کو استعمال کرتے ہوئے انہیں معاشی تنگی میں مبتلا کر دیں گے اور ان کیلئے زندگی گذارنا دشوار گزار ہو جائے گا تو ان کو معاشی سہولت جاگیر کی شکل میں دی گئی تا کہ اس کے ذریعہ اپنا آذوقہ فراہم کرتے رہیں، نواب صاحب نے یہ کام حکومتی ذمہ داری کے بنا پر کیا تا کہ رعایا کو آرام و سکون ملے.
مزید قاضی صاحب کا یہ لکھنا کہ ضد پر قائم رہنے والوں یعنی شیعہ نہ ہونے والوں کی جاگیریں ضبط کی گئیں تو اس کا کوئی ثبوت تاریخی بیانات سے اس عنوان سے نہیں ملتا ہے اگر یہ ضبطی ہوئی بھی ہے تو حکمراں سے سرکشی، تمرُّد اورنافرمانی کی بنا پر ہوتی ہے.
میرے اس بیان کی تصدیق خود قاضی صاحب کی تحریر سے ہوتی ہے کہ "نوابین اودھ کی عملداری کے بعد یہ پہلا مدرسہ تھا جو ان کے اثر سے محفوظ رہ کر جاری و ساری رہا."
اگر نوابین اودھ زبردستی سنی کو شیعی بناتے تو مدرسہ کو ضرور ختم کرتے جو سب سے عظیم مرکز ہوتا ہے تعلیمات جو عام کرنے کا انہوں نے تبلیغ دین حق ضرور کیا مگر جبر سے کام نہیں لیا بلکہ فکر و نظر اور قبولیت کی آزادی جو جاری رکھس تو اگر سنی حضرات شیعہ ہوئے تو اپنی مرضی سے ہوئے تھے یا یہ یو سکتا ہے کہ اہل دول کے رعب میں وہ لوگ ظاہراً سنی رہے ہوں مگر اصل میں شیعہ ہوں اس کا اظہار حالات کو موافق پا کر کیا ہو.
قاضی صاحب کے بیان سے ترشُّح ہوتا ہے کہ شیعیت ہی قصبہ مبارکپور کا قدیمی سرمایہ تھا چنانچہ سب سے قدیمی ندرسی اور علمائے دین اسی مسلک کے تھے جنہوں نے تعلیم و تدریس کا فریضہ انجام دیا چونکہ وہ زمانہ شیعہ سنی باہمی میل جول سے آراستہ تھا تو تشنگان عکوم انہیں شیعہ علما کے پاس آکر پیاس بجھاتے تھے، مگر قاضی صاحب زبردستی اس پر نوابین اودھ کے حکومتی جبری تبلیغ کا عکس ڈالنا چاہتے ہیں، وہ تحریر کرتے ہیں: "بعد میں یہاں نوابین اودھ کے مسلک کو فروغ دینے کیلئے ان کے دعاۃ و مبلغین اور معلمین آئے جنہوں نے شیعیت کی تبلیغ کے سات اس کی تعلیم کا بھی معقول انتظام کیا چنانچہ اس دور میں رمضان علی شاہ، سیف علی شاہ اور چراغ علی شاہ وغیرہم یہاں کے مبلّغ اور معلّم تھے جنہوں نے امام باڑوں کے ساتھ مدرسوں کا اجرا کیا ان میں باہر سے اساتذہ اور معلمین لا کر رکھے. امام بارہ رمضان علی شاہ کی تعمیر کردہ بعہد شجاع الدولہ سنہ 1208 ھ جو کہ "مکان" کے نام سے مشہور تھا اس میں بہت بڑا مدرسی تھا جس میں باہر کے کئی مدرس تھے.
مولوی علی حسن "واقعات و حادثات قصبہ مبارکپور" میں سنہ 1813 ھ کی جنگ کا جو اس مقام پو ہوئی تھی حال بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ہر امام باڑے کے تین طرف بہت خوش قطعہ سائبان بھی تھے اس میں ایک بڑے جید عالم فاضل بے مثل بنام مولوی نچار علی مرحوم ساکن قصبہ سرائے میر برادر زادہ شیخ جان علی صاحب مرحوم خوش نویس علوم عربی و فارسی کا درس دیتے تھے اور اس امام باڑے میں قیام پزیر تھے. (واقعات و حادثات قصبہ مبارکپور، ص 17)
مولوي نثار علی اس جنگ میں داد شجاعت دیتے ہوئے سنہ 1229 ھ میں شہید ہوئے تھے.
نیز اس جنگ میں امام باڑہ کے اندر دو اور عالن شہید ہوئے تھے.
ایک مولوی نشان علی اور دوسرے میر معظم حسین غالبا یہ دونوں حضرات بھی اسی مدرسہ میں مدرس تھے.
مسلمانوں کی طرف سے جو عضداشت گورکھپور عدالت میں پیش کی گئی تھی اور ان میں امام باڑہ کے اندر شہید ہونے والوں کے نام درج تھے ان میں یہ دونوں صاحبان بھی ہیں، عرضداشت میں ہے کہ "مسمیان مولوی نشان علی اور میر معظم حسین کہ دارد بودند." غالباً یہ باہر سے یہاں تعلءم دینے کیلئے بھیجے گئے یا بلائے گئے تھے.
آج تک یہ مدرسہ "باب العلم" کے نام سے جاری ہے اور یہاں دور دور کے طلبہ آتے ہیں اور شیعہ جماعت کے زیر تصرف چل رہا ہے. قصبہ کا سب سے قدیم مدرسہ ہے اس زمانہ میں ایک اور مدرسہ "لالن مہتر" کے امامباڑہ میں تھا جس میں بشارت علی نامی مدرس لڑکوں کو درس دیتے تھے وہ نگپور جلالپور ضلع فیض آباد کے تھے اس صدی کی انتدا میں بازار کی مسجد میں ایک مدرسہ تھا جس میں مولوی سلامت اللہ صاحب اردو، عربی و فارسی کا درس دیتے تھے.
سنہ 1313 ھ میں مولانا عبد الرحمن صاحب محدث نے "دار التعلیم" کے نام سے ایک مدرسہ جاری کیا جس کے پہلے مدرس وہی تھے. یہ مدرسہ آج بھی اچھی حسلت میں چل رہا ہے اور اہل حدیث مکتب خیال کا ترجمان ہے سنہ 1317 ھ میں احناف نے ایک مدرسہ مصباح العلوم کے نام سے جاری کیا جس کے مدرس اول محمد محمود معروفی متوفی سنہ 1370 ھ اور مدرس دوم مولانا محمد صدیق گھوسوی تھے مگر کچھ دنوں کے بعد دیوبندی اور غیر دیوبندی کا اختلاف پیدا ہوا اور مولانا محمد صدیق صاحب مدرسہ کو پرانی بستی میں لے گئے اور اپنے مدرسہ کا نام مصباح العلوم رکھا جو بریلوی نقطی نظر کا حامل رہا اور پرانا مدرسی جو محلہ پورہ صوفی میں قاءم یوا تھا احیاء العلوم کے نام سے اپنی جگی چلتا رہا جو دیوبندی نطریہ پر جاری رہا. (شجرۂ مبارک، ص 34 تا 36)
مذكورهصدر بیانات سے اندازہ ہوتا ہے کہ قصبی مبارکپور میں علمی درسی سلسلہ شیعہ حضرات سے شروع ہوا ہے مدرسہ اور مدرسین بھی شیعہ فرقہ کے تھے جن کے پاس پر فرقہ کے لوگ تعلیم لینے آتے تھے اور بے جھجھک کسب فیض کرتے تھے اور یہ علما علوم رسانی میں کسی عصبیت اور جنبہ داری سے کام نہیں لیتے تھے.
سب سے قدیم مدرسہ بھی شیعہ حضرات ہی کا ہے.
بعد میں دوسرے مسالک کے لوگوں نے مدرسہ قائم کیا اس بنیاد پر ماننا پڑتا ہے کہ قصبہ مبارکپور میں شیعہ آبادی قدیمی ہے اور علوم کی جو روشنی آج پائی جا رہی ہے اس کو پھیلانے میں اولیت اسی فرقہ شیعہ اثنا عشری کو ہی حاصل ہے.
قصبہ مبارکپور میں علم کا منبع اول اور قدیمترین سر چشمہ فرقہ شیعہ کے لوگ تھے، ایسی صورت میں یہ کیوں نہ مانا جائے کی لوگ عموماً شیعہ تھے اس کا مزید ثبوت اس سے بھی ملتا ہے کہ مجلس، ماتم، جلوس و عزاداری شعار شیعیت میں ہے جس میں دونوں فرقے کے لوگ شریک رہتے تھے اور سنی بھی شیعوں کے دعش بدوش عزاداری کرتے تھے اور آپس میں ازدواجی تعلقات بھی قائم کرتے تھے. گویا حقیقت میں وی لوگ پیرو اہلبیت طاہرین (ع) تھے جو بعد میں بیرونی خارجی سنیت کے دباؤ میں اس سے جدا ہوتے چلے گئے.
بقیہ ان شاء الله المستعان آئندہ
ایک تبصرہ شائع کریں