مُقمرہ (چاندنی) راتوں میں نماز صبح کا وقت


Image by Rudolf Langer from Pixabay 

سوال کا خلاصہ: کیا فجر صادق کہ جو نماز صبح کے قائم کرنے کا وقت ہوتا ہے تو اذان فجر کے بعد کتنے منٹ کے بعد واقع ہوتا ہے.؟
مترجم:  ابو دانیال اعظمی بُرَیر

سوال: رسالہ عملیہ میں تحریر ہے کہ اذان فجر کے بعد جب فجر صادق کا وقت ہو جائے تو نماز صبح پڑھے کہ احتیاط کے طور پر یہ وقت کم از کم اذان کے بعد پانچ یا چھ منٹ کے بعد قرار پاتا ہے. لہذا مذکورہ عبارت کا مطلب کیا ہے اس کہ وضاحت کیجئے.؟

مختصر جواب: شیعہ فقہ کے مطابق اذان صبح کا فجر صادق کے طلوع کے ساتھ ہی ہوتا ہے. اسی بنا پر اگر انسان کو یہ یقین ہو جائے کہ اذان صبح دقیق طور پر اس کے صحیح وقت میں ہی دی گئی ہے تو اذان کے شروع ہونے کے ساتھ ہی نماز پڑھنا صحیح ہے اور احتیاط کی ضرورت نہیں ہے اور جو کچھ توضیح المسائل میں احتیاط کے سلسلہ میں نماز صبح کے وقت کی تاخیر بیان ہوئی ہے وہ احتیاط واجب نہیں ہے بلکہ احتیاط مستحب ہی ہے اور یہ عمل صرف نماز فجر سے مخصوص بھی نہیں ہے اور یہ احتیاط اسلئے ہے کہ نماز گزار کو یقین حاصل ہو جائے کہ نماز کا وقت داخل ہو گیا ہے.
جی ہاں! ہماری یہ بحث "مُقمرہ" شبوں میں نماز فجر کے وقت کے سلسلہ میں ہی ہے.
[مُقمره اس چاندنی راتوں کو کہا جاتا ہے کہ جس میں چاند کی روشنی طلوع فجر پر غالب ہو جاتی ہے؛ امام خمینی روح الله، استفتائات، 1/ 131، چاپ جامعه مدرسین، قم، 1422ق.]
بعض فقہا جیسے آیت اللہ سید احمد خونساری اور امام خمینی (رہ) کا قول ہیکہ طلوع فجر اور چاندنی راتوں و غیر چاندنی کے درمیان فرق قرار دیتے ہیں نیز ان کا یہ نظریہ ہیکہ چاندنی راتوں میں فجر صادق دیرتر محقق ہوتا ہے اور اپنے نظریہ کی دلیل میں کچھ روایات کا بھی تذکرہ کرتے ہیں.
[سوال: کچھ شبوں میں چاندنی صبح تک رہتی ہے اگر کوئی اس یقین کے ساتھ کہ فجر صادق طلوع ہو چکا ہے تو کیا وہ نماز صبح پڑھ سکتا ہے یا اتنا صبر کرنا پڑے گا کہ یہاں تک سپیدہ صبح بالحس ظاہر ہو جائے اور ماہ رمضان میں امساک روزہ کے سلسلہ میں وظیفہ شرعی کیسے ادا ہوگا اور اس صورت میں کہ نماز کا وقت سپیدہ سحر کے آشکار ہونے سے پہلے ہوتا ہے تو بدلی کی راتوں میں یا جن شہروں میں بجلی کی روشنی اس حد تک زیادہ ہوتی ہے کہ ہمیں صبر کرنا چاہئے تا کہ سپیدہ فجر ظاہر ہو جائے، اگر اول فجر سے تقریبا دس منٹ یقین کے حصول کیلئے کرتا ہے پھر دس منٹ کے بعد ہی نماز صبح ادا کرے گا یا نہیں.؟
جواب: چاندنی راتوں میں احتیاط لازم یہ ہے کہ اس حد تک صبر کرے کہ سپیدی صبح افق پر ظاہر ہو جائے اور چاندنی پر غالب ہو جائے بلکہ یہ کسی وجہ سے خالی نہیں ہے نیز یہ حکم بجلی کی روشنی اور بادلی کی راتوں کی نہیں ہے؛ امام خمینى، توضیح المسائل، محقق، مصحح: مسلم قلى‌ پور گیلانى‌، ص 621‌، چاپ اول، 1426ق.]
لیکن دیگر فقہا طلوع فجر اور چاندنی راتوں اور غیر چاندنی راتوں کے درمیان فرق کے قائل نہیں ہیں.
[مزید تفصیلات کیلئے مندرجہ ذیل حوالے کی طرف رجوع کیجئے: جمعى از مؤلفان‌، مجله فقه اهلبیت ع (فارسى)  ‌18-17/ 244، قم، مؤسسه دائرة المعارف فقه اسلامى بر مذهب اهلبیت (ع)، چاپ اول‌؛ صافى‌ گلپایگانی، لطف الله، جامع الاحکام،‌ ‌1/ 64، قم، حضرت معصومه (س)،‌ چاپ چهارم‌، 1417ق؛ محمودى، محمد رضا، مناسک حج (محشّٰى)، ص 605، س 1322، نشر مشعر، تهران، ویرایش‌جدید، 1429 ه‍ ق.]

Post a Comment

To be published, comments must be reviewed by the administrator *

جدید تر اس سے پرانی