قصبہ مبارکپور ضلع اعظم گڑھ ایک مایہ ناز مثالی، علمی، دینی، فنی اور صنعتی مرکز
(مبارکپور کے شیعہ علماء - ایک جائزہ)
راقم : مولانا منهال رضا خیرآبادی
مدیر جامعه حیدریه مدينة العلوم خيرآباد
★ قصبہ مبارکپور علمی اور دینی ماحول قدیم زمانے سے قائم ہے اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اس قصبہ کے اس نام سے موسوم ہونے کی وجہ راجہ مبارک صاحب کا اس قصبہ میں ورود اور ان کی علمی مذہبی خدمات ہو کیونکہ راجہ موصوف ایک عالم، مصلح اور صوفیت کے علمبردار تھے اور انہوں نے کچھ اس حد تک یہاں کے لوگوں کو اپنے علم، اخلاق اور سیرت و کردار سے متاثر کیا تھا کہ قدیم نام متروک ہو گیا اور انہیں کے نام کی مناسبت سے اس قصبہ کو پکارا جانے لگا اس وقت کی حکومت کو بھی یہ نام اس قدر پسند آیا کہ اسی کو اصلی نام قرار دیدیا۔ راجہ صاحب کی تبلیغات اور خدمات کا دائرہ اس قدر وسیع ہوا کہ دوسرے مضافاتی مواضعات کے نام بھی ان کی اولاد کے نام اولاد کے ان مواضعات میں سکونت پذیر ہونے کی بنا پر مشہور ہوا جیسے ابراہیم پور، معین آباد (مشہور ملیم آباد) اور خیرآباد. یہ تینوں بستیاں علی الترتیب شاہ ابراہیم، شاہ معین اور خیر اللہ شاہ کے نام نامی سے موسوم ہیں.
راجہ مبارک دنیا داری سے بے نیاز مذہبی اقدار کی تبلیغ و ترویج میں تا حیات مصروف رہے ان کی تبلیغات کے انداز سے پتہ چلتا ہے کہ محبت حیدر کرار امیر المومنین (ع) اور دوستدار اہلبیت طاہرین (ع) تھے اور انہیں کے پیغامات کی نشر و اشاعت کرتے رہتے تھے، حالات کی نامساعدی اور ماحول کی عدم ہمواری کی بنا پر ظاہر بظاہر اس کا اعلان نہیں کرتے تھے چونکہ اس دور میں صوفیت کی مرنجان روش، نرم روی، ہمہ جہت دوستی، خوش روئی اور بشاشت سے عام طور پر لوگ زیادہ متاثر ہوتے تھے ان خصوصیات کے حامل افراد کی گفتار و رفتار کو آسانی سے قبول کر لیتے تھے اس لئے راجہ صاحب نے نزاکت وقت کا لحاظ کر کے اسی انداز پر اپنی زندگی کو جاری رکھا، لوگوں کے ذہن و قلب پر اس کا اتنا غلبہ ہوا کہ ان کے انتقال کے بعد اسی سر زمین میں دفن کرنا باعث شرف سمجھا چنانچہ آج بھی ان کی قبر نہایت عزت و شان کے ساتھ موجود ہے.
علم دین کا جو سلسلہ اس قصبہ میں ہے اس میں ان کی روحانیت جو بھی کسی حد تک دخل ضرور ہے شیعہ اور سنی دونوں فرقوں کے علما عزت و احترام کی نظر سے آج بھی دیکھتے ہیں یہ اور بات ہے کہ راجہ صاحب کو کچھ عرصہ سے ایک فرقہ نے اپنے سے مخصوص کر لیا ہے تو دوسرے فرقہ کے لوگ ان سے دور ہوتے گئے جس عظیم بستی مانک پورسے کوچ کر کے تبلیغی فرائض انجام دیتے ہوئے مبارکپور میں آکر سکونت پذیر ہوئے تھے وہ اس دور میں محبان اہلبیت اطہار (ع) کی بستی تھی اور ان کا شجرہ بھی انہیں پر منتہی ہوتا یے جو ائمہ طاہرین (ع) کے ماننے والے تھے اس لئے ان کا اثنا عشری ہونا بھی بہت حد تک طے ہے کہ انہوں نے مصلحت و حکمت کے پیش نظر اس کا اظہار نہ کیا ہو کہ اس کی بنا پر ان کی پیغام رسانی میں روکاوٹ پیدس یو سکتی ہے جسے اہل بصیرت نے سمجھ لیا ہو فراست مومن کا اندازہ ہر ایک کیلئے ممکن نہیں ہوتا ہے.
علمائے مبارکپور کے بارے میں اگر عمیق نگاہ ڈالی جائے تو دو طرح کے خانوادے کم از کم ملیں گے کچھ علما ہیں جو کسی خاص خاندان میں پیدا ہوئے والدین کے حسن تربیت نے انہیں علم دین کی راہ پر لگایا، خود عالم دین نے اپنی جد و جہد، کو و کاوش، محنت و لگن سے خود علم دین سے باقاعدہ آراستہ کیا، وہ خود عالم دین ہوئے بعد میں یا تو ان کی کوئی ایک اولاد بھی عالم بنی لیکن یہ سلسلہ آگے نہیں بڑھ سکا البتہ علمائے شیعہ مبارکپور میں ایک علمی خابوادہ وہ بھی ہے جہاں علما کا سلسلہ چھ پشتوں سے چلا آرہا ہے اور بعد کی اولاد بھی علم دین کی جانب راغب ہے. یہ خاندان علم و عمل "واحدی خاندان" کے نام سے مشہور ہے اس خاندان کے علمائے سابق میں عالم ادیان اور عالم ابدان دونوں رہے ہیں یعنی علم دین کے ساتھ فن طب و حکمت دونوں سے امتیازی طور پر آراستہ تھے جن میں مشہور نام ملا عبد الواحد، ملا یار علی، حکیم علی سجاد، حکیم علی حماد، مولانا علی ارشاد، مولانا حکیم سلمان احمد، مولانا فیروز عباس، مولانا احسان عباس، مولانا عرفان عباس، مولانا محمد عباس ہیں. (مؤخر الذکر چاروں افراد مولانا مرحوم علی ارشاد نجفی کے فرزندان ہیں.)
اس قصبہ کے علما کے تذکرہ کے ذیل میں کچھ ایسے علما کے نام بھی قابل ذکر ہیں جو قصبہ کے باہر سے آئے اور اسی جگہ بود و باس اختیار کر لی جن کا تذکرہ مولانا قاضی اطہر مبارکپوری نے اپنی کتاب "شجرۂ مبارکہ" میں کیا ہے. جیسے مولوی نثار علی جو سرائے میر سے آکر آباد ہوئے، مولوی بشارت علی جو جلاپور سے آئے، میر معظم حسین، مولانا رمضان علی شاہ جو پنجاب سے آکر آباد ہوئے اور مولانا سید رمضان علی غازی پوری وغیرہ قابل ذکر ہیں. مذکورہ علما نے تدریس و تبلیغ کے ذریعہ درسگاہیں اور امامباڑے بھی تعمیر کئے ہیں جو بعد تعمیر جدیدی و اصلاح آج بھی یادگار ہیں.
علمائے مبارکپور کے حالات میں دو مستقل کتابیں نظر سے گزریں ایک "شجرہ مبارکہ" جس کو قاضی اطہر مبارکپوری نے مرتب کیا ہے اور دوسری "شجرہ طیبہ" کے نام سے مولانا کرار حسین اظہری نے تالیف کیا ہے اور کچھ چیدہ چیدہ حالات علما کو "مطلع انوار" مولفہ مرتضی فاضل اور "خورشید خاور" مولفہ سعید اختر رضوی میں ملتے ہیں.
اول الذکر دونوں کتابوں کے مولفین کا تعلق مبارکپور سے ہے لیکن دونوں کتابوں میں حالات کے تحریر کرنے میں جنبہ داری، افراط محبت یا کسی حد تک تعصب پسندی کے سائء منڈلا رہے ہیں: مثلا قاضی اطہر صاحب نے علمائے اہلسنت کا ذکر نہایت اہتمام سے کیا ہے اور شیعہ علما کے تذکرے میں بہت ہی اختصار سے کام لیا ہے جبکہ ان علما کا حال بھی لکھا ہے جنہیں قاضی صاحب نے باقاعدہ دہکھا بھی تھا اور حالات سے واقف تھے مگر مسلکی عصبیت نے تفصیل کے ساتھ لکھنے کی راہ میں رکاوٹ پیدا کر دی اور شائد قلم کی روشنائی خشک ہو گئی، اسی طرح "شجرہ طیبہ" کے مولف نے اگر چہ تالیف کی بنیاد شیعہ علما و طلبہ کے تذکرہ پر رکھی ہے مگر بعض شیعہ علما کے باقاعدہ حالات تحریر کرنے سے شائد دانستہ گریز کیا ہے اور بعض اپنے یا محرک تالیف کے پسندیدہ علما کے ذکر میں غیر مستند واقعات و حالات کو زیادہ دخل دیا ہے اور کچھ لوگوں کی مدح سرائی میں افراط سے کام لیا ہے بہر حال یہ بڑا مشکل کام ہوتا ہے کہ صاحب قلم آزاد فکر اور جنبہ داری سے عاری ہو کر جس کے بارے میں کچھ لکھ رہا ہے اس کو واقعیت کے انداز میں تحریر کرے اور حقائق سے روشناس کرانے کی کوشش کرے بالخصوص اگر لکھنے والا مقامی یوتا ہے تو وہ عزیز داری، تعلقات مالی وغیرہ دباؤ میں گرفتار ہو جاتا ہے جبکہ اسی کو خوبیوں اور خرابیوں کا صحیح پتہ ہوتا ہے مگر انصاف طرازی اور اچھے و خراب دونوں پہلوؤں کو اجاگر کرنا سلیم الطبع اور بے باک انسان کا کام ہوتا ہے.
مؤخر الذکر دونوں مولفین قصبہ مبارکپور سے بہت دور کے رہنے والے ہیں انہوں نے زیادہ تر اول الذکر مولفین کے بیانات کو مبارکپور کے علما کے حالات کے ذیل میں نقل کر دیا ہے مولانا مرتجی قاضل صاحب ترک وطن کر کے پاکستان جاچکے تھے ان کے رابطہ میں کم از کم وہ مبارکپوری علما مولانا جواد حسین صاحب اور مولانا اختر حسین صاحب ہو سکتے ہیں، یہ دونوں حضرات بھی پاکستان میں نقیم تھے لیکن شائد انہوں نے ان دونوں علما سے باقاعدہ رابطہ کر کے حالات معلوم نہیں کئے اور اگر معلوم کئے تو مذکورہ حضرات نے واقعی حالات بیان نہیں کئے ورنہ مبارکپوری علما کے حالات و خدمات کا اتنا مختصر تذکرہ نہ ہوتا بلکہ ان کی دینی، ملی، قومی اور علمی خدمتوں جو تفصیل سے بیان کیا جاتا ہے جو ایک عظیم سرمایہ کی صورت میں سامنے آتا.
نولانا سعید اختر صاحب اور مولانا مرتضی فاضل کے مقابلہ میں نسبتاً قریب کے رہنے والے تھے ان کا وطن مالوف گوپالپور ضلع سءوان بہار تھا ان کی تشریف آوری کبھی بھی مبارکپور نہیں ہوئی البتہ ان کے زمانہ تحصیل میں جوادیہ عربی کالج بنارس میں مبارکپور کے طلبہ ضرور تھے ان طلبہ میں مولانا کو زیادہ قربت مولانا علی ارشاد نجفی مبارکپوری اے تھی جس کا تذکرہ انہوں نے اپنی کتاب میں اشارتاً کیا ہے لیکن مولانا نے بھی مبارکپور کے علما کے حالات تحریر کرنے میں یا تو قاضی اطہر صاحب کے مجمل بیان پر اکتفا کیا ہے یا کچھ ایسے لوگوں سے معلوم کیا ہے جو خود بھی دور تھے مولانا نے مبارکپور علما میں سے چند اور حضرات کا تذکرہ نہیں کیا ہے جیسے مولانا سبط حسن قاسمی، مولانا عبد الحمید ناظر، مولانا احمد علی وغیرہ.
بہر حال مولف سے کوئی شکوہ نہیں ہے کیونکہ مولانا وطن سے بہت دور دار السلام افریقہ میں مقیم تھے اور بلال مشن کی تاسیس کے ذریعہ مستضعفین کی علمی دینی ضرورتوں کو پورا کرنے میں مصروف تھے تو ممکن ہے کہ کثرت کار کی بنا پر تالیف کے اس عمل میں سہو ہو گیا ہو، کتاب کے منظر عام پر آنے کے بعد مولف سے ملاقات بھی نہ ہو سکی کہ اس سلسلہ میں کوئی گفتگو کی جاتی اور اب مولانا دنیا میں نہیں رہ گئے مگر ان کے عالم با عمل فرزند اس کام کو انجام دے سکتے ہیں اور بعنوان اضافہ و تزئین کتاب کی قدر و قیمت میں اضافہ کر سکتے ہیں.
ایک کتاب "دیار پورب میں علم و علماء" کے نام سے بھی ملتی ہے یہ کتاب مذکورہ چاروں کتابوں سے پہلے کی تصنیف ہے اسے بیحد شوق سے پڑھا لیکن بڑی مایوسی ہوئی جب یہ دیکھا کہ اس میں صرف اہلسنت علما کا تذکرہ نہایت شدّ و مد سے کیا گیا ہے. دینی اور قومی خدمات کو سراہا گیا مذہبی مراکز کا ذکر ہے، تصنیفات و تالیفات، تدریس و تبلیغ کو کسی حد تک تفصیل سے بیان کیا گیا ہے لیکن شیعہ علما کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا ہے بھولے سے بھی مصنف یا مولف نے کسی شیعہ عالم کا نام تک نہیں لکھا ہے ان کے خدمات کا تذکرہ تو دور کی چیز ہے جبکہ کتاب کا نام اس کا حقدار تھا کہ علمائے شیعہ کا بھی تذکرہ کیا جاتا، ظاہر ہے کہ یہ دیانتداری اور اصول تالیف کے سراسر منافی ہے مگر کسی چیز کی محبت اندھا اور گونگا بنا دیتی ہے اور آئینہ فکر و نظر کو اتنا مخدوش کر دیتی ہے کہ اس میں صرف اپنے والے نظر آتے ہیں اور دوسرے پاکیزہ نورانی چہروں کے سامنے آئینہ میں چکا چوند پیدا ہوتی ہے.
شیعہ علمائے مبارکپور کے حالات و خدمات کے بارے میں حاصل کرنے کا ذریعہ ماضی میں مولانا فیاض حسین صاحب، مولانا عبد الحمید صاحب، مولانا علی ارشاد صاحب، مولانا حکیم سلمان احمد صاحب اور مولانا شاہ نور محمد صاحب وغیرہ تھے اور موجودہ زمانہ میں مولانا مسرور حسن صاحب، مولانا سلمان احمد شاہ صاحب مرحوم اور مولانا فیروز عباس واعظ صاحب وغیرہ تھے. ان میں سے کچھ وہ ہیں جن سے قاضی اطہر صاحب کے روابط تھے اور بعض علما حالات کے بارے میں کچھ استفسار بھی کیا ہے اور پھر یہ کہ وہ مقامی تھے تو اپنے ہم مسلک علما سے بھی معلومات حاصل کر سکتے تھے کیونکہ ایسے معتدل مزاج علمائے اہلسنت بھی تھے جو حق بیانی سے گریز نہیں کرتے مگر انہیں دور رکھا گیا ہے اور بس اپنی اجمالی معلومات ہر مکمل اعتماد کر کے لکھ دیا گیا ہے اور کچھ علما کا تو صرف ذیلی طور پر نام لکھ دیا گیا ہے ان کی خدمتوں سے گریز کیا گیا ہے.
علما کے حالات کو علما سے نیز ان با خبر اور معتبر لوگوں سے بھی معلوم کیا جا سکتا ہے ھو علما سے قریب رہے اور ان بالواسطہ یا بلا واسطہ کسب فیض کیا ہے قصبہ مبارکپور میں ایسے واقف کار حضرات پائے جاتے تھے جنہوں خود کو علما سے وابسطہ رکھا اور ان کی خوبیوں اور کوتاہیوں سے واقف تھے ان سے بھی رابطہ کیا جا سکتا تھا.
یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ قصبہ مبارکپور میں انجمن بازی اور پارٹی کی بنا پر ماضی میں شیعہ دو حصوں میں تقدیم تھے جس کا ہلکا اثر ابھی بھی کبھی کبھی دیکھنے میں آجاتا ہے ہر دھڑا مالدار یا با اقتدار سے مربوط تھا اور اس کے چشم و ابرو کے اشارے پر کام کرتا تھا اس پارٹی بازی نے علما کو بھی اپنی جانب کھینچنے کی ہر ممکن کوشش کی تھی ہر پارٹی اپنے پسندیدہ عالم بلکہ خود سے وابسطہ کئے ہوئے عالم کی زیادہ سے زیادہ تعریف کرتا خوبیان گناتا اور دوسری پارٹی میں سمجھے جانے والے عالم میں خامیاں نکالتا یہ حکومت، مال و اقتدار کے رعب و دبدبہ کے بنا پر ہوتا ہے جیسے ابو الفضل کی نگاہ میں اکبر بادشاد سے عظیم کوئی نہ تھا وہ ایک دین الہی چلانے والا ہو کر بھی خوبیوں کا ہمالیہ تھا اور عبد القادر اور بدایونی کی نظر میں اکبر بیحد خراب کردار و سیرت کا حامل تھا. قصبہ مبارکپور میں بھی ایسا ہوتا رہا ہے جس کی وجہ علما کے حقیقی حالات و خدمات کی معرفت میں بہت سی دشواریاں ہوتی ہیں لیکن حقیقت تلاش کرنے والے کو مل ہی جاتی ہے.
عالم دین حقیقت میں بس وہی ہوتا جو حکم شریعت پر عمل کرتا ہے سیرت محمد و آل محمد کو پیش نظر رکھ کر زندگی گزارتا ہے دین کا پیغام پہونچاتا ہے اس راہ میں ہر زحمت برداشت کر لیتا ہے وہ کسی مالدار اور صاحب اقتدار سے مرعوب نہیں ہوتا اس کی موافقت اور مخالفت دین کے اعتبار سے ہوتی ہے وہ فرد کا خیال کر کے دین کشی، سیرت سوزی اور اخلاق اسلامی کی پامالی نہیں کرتا وہ قانون الہی کی حبل متین کو ہاتھ سے نہیں جانے دیتا کہ سب چھوٹ جائیں.
ایک تبصرہ شائع کریں