تاریخ و سیرت کی کتابوں میں بعض صحابہ کا جنگ احد سے فرار اختیار کرنا.

Image by Enkhtamir Enkhdavaa from Pixabay
 


سوال :

کیا یہ قول صحیح ہیکہ "جنگ احد" کے میدان سے بعض بزرگ صحابہ نے راہ فرار اختیار کیا ہے.؟


جواب :
بعض صحابہ کا میدان جنگ سے فرار ہونا یہ فقط "جنگ احد" پر منحصر نہیں ہے بلکہ یہ لوگ "دیگر جنگوں" میں سے بھی میدان راہ فرار اختیار کیا ہے.
اہلسنت کے سیرت نگاروں، مؤرخین اور محدثین کے بڑے بڑے علما و دانشمندوں نے اس بات کو صراحت کے ساتھ رقم کیا ہیکہ "جنگ احد" کے میدان جنگ میں مشرکین چند شرائط کے ساتھ ابتدائی شکست کے بعد کفار قریش دوبارہ لوٹے اور ان کا مقصد رسولخدا (ص) کو قتل کرنا نیز مسلمانوں کی طاقت کو ختم کرنا تھا،  شیخین بھی دوسروں کے مثل پیغمبر اسلام (ص) کو دشمنوں کے مجمع کے درمیان یکہ و تنہا چھوڑ گئے اور خود اپنی جان کی حفاظت کی خاطر راہ فرار اختیار کیا.
بطور مثال "جنگ خیبر" کے واقعہ میں اہلسنت کی کتابوں ثبوت کے ساتھ تذکرہ رقم کرتے ہیں لہذا مندرجہ ذیل کتابوں کی طرف رجوع کیجئے:
۱- ابو داؤد طیالسی نے اپنی کتاب «سنن» میں.
۲- ابن سعد نے اپنی کتاب «الطّبقات الکبری» میں.
۳- طبرانی نے اپنی کتاب «معجم» میں.
۴- ابوبکر بزّار نے اپنی کتاب «مسند» میں.
۵- ابن حبّان نے اپنی کتاب «صحیح» میں.
۶- دارقطنی نے اپنی کتاب «سنن» میں.
۷- ابو نعیم اصفهانی در «حلیة الاولیاء».
۸- ابن عساکر نے بھی «تاریخ مدینة دمشق» میں.
۹- ضیاء مقدسی نے اپنی کتاب «المختارة» میں.
۱۰- متّقی هندی نے اپنی کتاب «کنز العمّال»
(کنز العمّال متقی هندی، ۱۰/ ۴۲۴).
★★ لیکن دیگر جنگوں میں یہ دونوں میدان سے فرار کرتے ہیں ان میں سے ایک "جنگ حنین" کی طرف اشارہ کریں گے کہ جس کا تذکرہ حاکم نیشاپوری نے صحیح سند کے ساتھ ابن عباس سے یہ روایت نقل کیا ہیکہ اس جنگ میں جو شخص اس جنگ میں رسولخدا (ص) کے ساتھ اکیلے و تنہا رہ گئے تھے وہ علی بن ابیطالب (ع) ہی تھے اور سب میدان جنگ میں رسولخدا (ص) کو چھوڑ کر بھاگ گئے.
(المستدرک حاکم، ۳/ ۱۱۱)
★★★ ایک اور جنگ میں شَیخَین میدان سے فرار کرتے ہیں وہ "جنگ خیبر" ہوتی ہے کہ محققین و علمائے اہلسنت نے اپنی کتابوں میں ان کا جنگ کے میدانوں سے فرار کرنے کا تذکرہ کیا ہے.
مذکورہ افراد کے فرار کے واقعہ کو اپنی کتابوں میں بھی صراحت کے ساتھ نقل کیا ہے.
لہذا مندرجہ ذیل کتابوں کو ملاحظہ کرتے ہوئے مزید تفصیلات حاصل کر سکتے ہیں:
۱- احمد بن حنبل نے اپنی کتاب «المسند» میں.
۲- ابن ابی شیبه نے اپنی کتاب «المصنَّف» میں.
۳- ابن ماجه قزوینی نے «سنن المصطفی (ص)» میں.
۴- ابوبکر بزّار نے اپنی کتاب «المسند» میں.
۵- طبری نے اپنی کتاب «تفسیر و تاریخ» میں.
۶- طبرانی نے اپنی کتاب «المعجم الکبیر» میں.
۷- حاکم نیشابوری نے اپنی «المستدرک» میں.
۸- بیهقی نے اپنی کتاب «السّنن الکبری» میں.
۹- ضیاء مقدسی نے اپنی کتاب «المختارة» میں.
۱۰- هیثمی نے اپنی کتاب «مجمع الزّوائد» میں.
۱۱- متّقی هندی نے اپنی کتاب «کنز العمّال» میں.
(کنز العمّال متقی هندی، ۱/ ۳۷۱)
★★★★ لیکن "جنگ خندق" کے میدان میں حقیقت یہی ہے کہ مذکورہ افراد میدان جنگ میں خوف و ڈر کی بنا پر قدم تک نہیں رکھا سکے تھے بلکہ عمرو بن عبد ود کی بہادری کا قصیدہ پڑھتے ہوئے مقابلہ کیلئے بھی نہیں گئے لہذا فقط حضرت علی (ع) ہی تھے که جن کی خاطر رسولخدا (ص) نے یہ مشہور جملے ارشاد فرمایا:
«لَضَرْبَةُ عَلِیٍّ فِی یَوْمِ الخَنْدَقِ أَفْضَل مِنْ عِبادَةِ الثَّقَلَینِ»
"جنگ خندق" میں علی بن ابیطالب (ع) کی ایک ضربت ثقلین (یعنی جنات و انسان) کی عبادت سے زیادہ اللہ کے نزدیک افضل و برتر ہے.
بعض روایت میں اس طرح بھی نقل ہوا ہے:
«أَفْضَلُ مِنْ عِبادَةِ الأُمَّةِ إِلیٰ یَوْمِ القِیَامَةِ»
"جنگ خندق" میں علی بن ابیطالب (ع) کی ایک ضربت قیامت تک امت کی تمام عبادت سے افضل و برتر ہے. (المستدرک حاکم نیشابوری، ۳/ ۳۲)
ان دو افراد کا جنگ کے میدانوں سے بھاگنا اس امر کا باعث ہوا کہ اہلسنت مولفین ان کے اس عمل کی توجیہ و تاویل بعض دشواریوں کے ساتھ کریں اور یہی عمل انہیں مشکل میں ڈال رہا ہے چونکہ ایک طرف شجاعت کی شرط ہے تو دوسری طرف رسولخدا (ص) کی زندگی ان حساس مقامات پر مشکلات میں پڑ رہی ہے اور پھر ایسے حالات میں شَیخَین کا راہ فرار اختیار کرنا بھی قابل غور و فکر ہے.
«ابن تیمیه» نے ان لوگوں کے سلوک کے اسباب اور بہادری کیلئے مضحکہ خیز موقف کا اظہار کرتے ہوئے اس طرح تحریر کیا ہے: اس میں کوئی شک نہیں ہیکہ ہم خلیفہ اور اسلامی حکمران میں شجاعت کی صفت کی موجودگی کے قائل ہیں لیکن شجاعت کی بھی دو قسمیں ہوا کرتی ہیں:
۱- شجاعتِ قلبی.
٢- شجاعتِ بدنی.
یہ بات بھی صحیح ہے کہ ابوبکر شجاعت بدنی سے بہرہ مند نہیں تھے بلکہ وہ تو شجاعت قلبی کے حامل تھے اور اتنی ہی مقدار بھر شجاعت قلبی ہونا ہی اسلام کے حکمران کیلئے کافی ہے!!
مزید اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہتے ہیں: اگر آپ کہیں گے کہ علی (ع) جہاد و قتال کی اہلیت رکھتے تھے تو ہم بھی یہی کہیں گے: خلیفہ بھی اللہ کی راہ میں قتال و جنگ کی لیاقت رکھتے تھے لیکن یہ جاننا چاہئے کہ قتال کی بھی دو قسمیں ہیں:
۱- شمشیر کے ذریعہ سے قتال کرنا.
٢- دعا کے ذریعہ قتال کرنا.
خلیفہ دوم نے بھی راہ خداوند متعال میں دعا کے ذریعہ قتال کیا ہے.
پھر ابن تیمیہ خلیفہ اول کی شجاعت بدنی کے ثبوت کیلئے نیز امیر المومنین (ع) کے محیر العقول شجاعت و مشرکین کے ساتھ جنگوں کے مقابلہ میں مندرجہ ذیل واقعہ سے تمسک اختیار کرتے ہوئے اس طرح سے رقم طراز ہیں:
بخاری و مسلم نے اپنی اپنی صحیح کتابوں میں اسے درج کیا ہے:
"عروہ بن زبیر بیان کرتے ہیں: میں نے عمرو عاص کے بیٹے عبد اللہ سے پوچھا: رسولخدا (ص) کی سخت ترین سلوک مشرکین کے ساتھ کیا تھا.؟ تو انہوں نے جواب میں کہا: ایک روز رسولخدا (ص) نماز میں مشغول تھے کہ عُقبَہ بن ابی معیط آیا اور آنحضرت (ص) کی ردا کو ان کی گردن مبارک کے ارد گرد لپیٹا اور طاقت کے ساتھ اسے کھینچا اسی اثنا میں ابوبکر آئے اور عُقبَہ کے کندھے کو پکڑا اور اسے ایک طرف ہٹاتے ہوئے کہا: کیا تم ایسے شخص کو قتل کر رہے ہو جو یہ کہتا ہیکہ میرا رب اللہ ہے.؟
(منهاج السنّة ابن تیمیه، ۸/ ۸۵)
ابن تیمیہ کے اس قول کا فیصلہ صاحبان عدل و انصاف اور عاقل و فہیم افراد کے ہی سپرد کرتے ہیں. یہی خیلفہ اول کی صفت شجاعت سے تعلق ہے جو ان کی قدر و منزلت کی بنا پر اہلسنت کے اجماع سے پیغمبر اسلام (ص) کے جانشین اور مسلمانوں کے خلیفہ قرار دینے میں معتبر ہے.
اسلام پریس کے مدیر کی درخواست و التماس متلاشیان حق سے یہی ہے: کیا بنی اسرائیل کی قوم کی مصداق شَیخَین نہیں قرار پاتے کہ جنہوں نے جناب موسی (ع) سے خطاب کرتے ہوئے کہا: اے موسی! تم اور تمہارا خدا جائے اور جنگ کرے، ہم لوگ تو یہیں پر بیٹھے ہیں اور راحت و آرام کے زمانہ میں اپنے پیغمبر کے اطراف میں جمع ہوجاتے تھے اور سختیوں کے وقت یکہ و تنہا چھوڑ کر میدان سے فرار کر جاتے تھے.!!؟؟
کیا شَیخَین اس آیت مبارکہ شریفہ کے مصداق قرار پاتے ہیں یا پھر اب تک اس آیت کی تلاوت ہی نہیں کی ہے.؟؟؟
«فَضَّلَ اللهُ المُجَاهِدِینَ عَلیٰ القَاعِدِینَ أَجراً عَظِیماً»
"خداوند متعال نے مجایدین کو گوشہ نشینوں پر برتری و فضیلت عنایت فرمائی ہے نیز اجر عظیم عطا کرے گا."
حق پرست افراد خود ہی فیصلہ کیجئے کہ مجاہد افضل ہے یا غیر مجاہد.!
اس مضمون کے اکثر مطالب آیت الله سید علی حسینی میلانی کی کتاب "امامت بلافصل" سے ماخوذ ہیں.
والسَّلام عَلیٰ مَنِ اتَّبعِ الهُدیٰ

Post a Comment

To be published, comments must be reviewed by the administrator *

جدید تر اس سے پرانی